https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 16 December 2023

ایڈز کیا ہے

 ایڈز ایک مہلک اور جان لیوا مرض ہے جس کا انکشاف 1981ء میں ہوا۔ قدرت نے انسانی جسم کو مختلف بیماریوں سے بچانے کے لیے ایک نہایت ہی مؤثر دفاعی نظام سے نوازا ہے جس کو مدافعتی نظام بھی کہتے ہیں۔ اسی کے طفیل جسم میں انسانی قوت مدافعت کار گزار ہوتی ہے۔ اس مدافعتی نظام میں خرابی کے باعث انسان مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

ایڈز کا مرض ایک وائرس virus کے ذریعے پھیلتا ہے جو انسانی مدافعتی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس کے حملے کے بعد جو بھی بیماری انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے نہایت سنگین اور مہلک صورت حال اختیار کر لیتی ہے۔ اس جراثیم کو ایچ آئی وی (HIV) کہتے ہیں۔ اس کو انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو ناکارہ بنانے والا وائرس بھی کہتے ہیں۔ ایڈز کا یہ وائرس زیادہ تر خون اور جنسی رطوبتوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ جسم کی دوسری رطوبتوں یعنی تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینہ میں بھی پایا جاسکتا ہے۔ مگر تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینہ بیماری پھیلانے کا باعث نہیں بنتے بلکہ یہ بیماری صرف خون اور جنسی رطوبتوں کے ذریعے ہی پھیلتی ہے۔

یہ وائرس کسی بھی متاثرہ شخص سے اس کے جنسی ساتھی میں داخل ہو سکتا ہے یعنی مرد سے عورت، عورت سے مرد، ہم جنس پرستوں میں ایک دوسرے سے اور متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے میں جا سکتا ہے۔ جنسی پھیلاؤ ترقی یافتہ اور افریقی ممالک میں بیماری کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہے۔

خون سے ایڈز کا پھیلاؤترمیم

خون کے اجزاء کے ذریعے ایڈز کی بیماری درج ذیل صورتوں میں پھیلتی ہے۔

  • جب ایڈز کے وائرس سے متاثرہ خون یا خون کے اجزاء کو کسی دوسرے مریض میں منتقل کیا جائے۔
  • جب ایڈز کے وائرس سے متاثرہ سرنج اور سوئیاں دوبارہ استعمال کی جائیں۔
  • وائرس سے متاثرہ اوزار جلد میں چبھنے یا پیوست ہونے سے مثلا کان، ناک چھیدنے والے اوزار، دانتوں کے علاج میں استعمال ہونے والے آلات، حجام کے آلات اور جراحی کے دوران استعمال ہونے والے آلات۔
  • ایڈز کا وائرس متاثرہ مان کے بچے میں حمل کے دوران، پیدائش کے وقت یا پیدائش کے بعد منتقل ہو سکتا ہے۔
  • اگر کوئی بھی شخص اوپر بیان کیے گئے بیماری کے پھیلاؤ کے کسی ایک بھی طریقے سے گذرا ہو تو اس کو ایڈز کے جراثیم متاثر کر سکتے ہیں خواہ وہ کسی بھی عمر اور جنس کا ہو۔

ایچ آئی وی ایک وائرس ہے جو کہ انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو توڑ پھوڑ کر برباد کر دیتا ہے ۔ایچ آئی وی سے مراد ہیومن امیونو ڈیفیشنسی وائرس سے ہے جیسا کہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ یہ انسانوں پر حملہ آور ہو کر ان کے مدافعتی نظام کو تہس نہس کر دیتا ہے۔

جس کے نتیجے میں انسان کے جسم میں اس بات کی طاقت نہیں رہتی ہے کہ وہ بیماریوں کا مقابلہ کر سکے اگرچہ انسانی جسم کو قدرتی طور پر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ جسم پر حملہ آور وائرس کو ختم کرسکے مگر اس وائرس کا مقابلہ کرنا انسانی جسم  کے بس میں بھی نہیں ہے اس وجہ سے ادویات کے ذریعے جسم کو اس کے مقابلے کی طاقت فراہم کی جاتی ہے۔

ایڈز کی بیماری کیسے ہوتی ہے؟

جسم میں ایڈز (ایچ آئی وی) کے داخل ہونے کے سبب جو انفیکشن ہوتا ہے اس کو ایڈز کہتے ہیں جو کہ مخفف ہے، اکوائیریڈ امیونو ڈیفیشنسی سنڈروم کا ۔ یہ بیماری اس وقت ہوتی ہے جب کہ ایچ آئی وی پازیٹو انسان کے جسم کا مدافعتی نظام بری طرح متاثر ہو جاتا ہے۔

یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہوتی ہے, جس کی علامات ہر فرد میں مختلف ہو سکتی ہیں. اس کی علامات کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب کہ قوت مدافعت کے ختم ہونے کے سبب کسی بھی بیماری سے متاثر ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جن میں ٹی بی، نمونیا وغیرہ شامل ہیں اس کے علاوہ ایسے مریض کچھ اقسام کے کینسر کا بھی شکار ہوسکتے ہیں۔

کیا ہر ایچ آئی وی پازیٹو ایڈز میں مبتلا نہیں ہوتا؟

یہ ایک اہم نقطہ ہے اکثر لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ایچ آئی وی پازیٹو والا فرد ایڈز میں بھی مبتلا ہوگا جب کہ بہت سارے افراد ایسے بھی ہیں جن میں ایک طویل عرصے سے ایچ آئی وی وائرس تو موجود ہے مگر وہ ایڈز میں مبتلا نہیں ہیں۔ یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ ہر ایچ آئی وی پازيٹو ایڈز کا مریض نہیں ہوتا مگر ہر ایڈز کا مریض ایچ آئی وی پازیٹو ضرور ہوتا ہے۔

 دوسرے میں منتقل ہو سکتا ہے؟

۔ 1 چونکہ یہ ایک وائرس ہے تو یہ ایک فرد سے دوسرے فرد میں عام وائرس کی طرح پھیل سکتا ہے

۔ 2 یہ وائرس جسم کے مختلف مادوں کے تبادلے سے ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتا ہے

۔ 3 یہ ایک فرد کے دوسرے فرد کے ساتھ جنسی تعلقات کی صورت میں منتقل ہوسکتا ہے

 ۔ 4 متاثرہ مریض کی استعمال شدہ سرنج کے استعمال سے منتقل ہوسکتا ہے

۔ 5 حمل کی حالت میں ماں سے نومولود بچے میں منتقل ہو سکتا ہے

 ایچ آئی وی کی علامات

ایچ آئی وی جسم میں داخل ہو تو اس صورت میں دو سے تین ہفتوں کے بعد فلو کی اور عام نزلہ زکام کی شکایت ہو سکتی ہے اس کے بعد کچھ انسانوں کا مدافعتی نظام اس وائرس کو کچھ عرصے کے لیۓ خوابیدہ حالت میں لے آتا ہے یہ عرصہ ہر فرد میں مختلف ہو سکتا ہے بعض افراد میں اس کا دورانیہ دس سے پندرہ سال بھی ہو سکتا ہے۔ اس دوران جسم میں وائرس خاموشی سے موجود تو رہے گا مگر اس کی علامات ظاہر نہ ہوں گی۔



Friday 15 December 2023

ہشام بن عبدالملک اور سالم بن عبداللہ

 بادشاہ سلیمان بن عبد الملک کا بھائی ہشام بن عبد الملک بن مروان بیت اللّٰہ شریف کے حج کو آیا ۔ طواف کے دوران اُس کی نگاہ زاہد و متقی اور عالمِ ربانی جناب سالم بن عبداللّٰہ پر پڑی جو اپنے جوتے ہاتھ میں اُٹھائے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے ۔ اُن کے اوپر ایک کپڑا اور ایک عمامہ تھا جس کی قیمت 13 درہم سے زیادہ نہیں تھی۔

ہشام نے کہا: کوئی حاجت ہو تو فرمائیے۔
سالم بن عبداللّٰہ نے کہا: "مجھے اللّٰہ سے شرم آرہی ہے کہ میں اُس کے گھر کے سامنے ہوتے ہوئے کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلاؤں ۔"
یہ سننا تھا کہ ہشام کے چہرے کا رنگ سُرخ ہوگیا اور اُس نے اپنی توہین سمجھی ۔ جب سالم بن عبداللّٰہ حرم سے باہر نکلے تو وہ (ہشام) بھی آپ کے پیچھے ہی حرم سے نکل پڑا اور راستے میں اُن کے سامنے آکر کہنا لگا، اب تو آپ بیت اللّٰہ سے باہر نکل چکے ہیں ، کوئی حاجت ہو تو فرمائیں۔
سالم بن عبداللّٰہ نے کہا: "تمہاری مراد دنیاوی حاجت سے ہے یا اُخروی حاجت سے ۔۔۔؟"
ہشام نے جواب دیا: اُخروی حاجت کو پورا کرنا میرے بس کی بات نہیں ، البتہ دنیاوی ضرورت ضرور پوری کرسکتا ہوں... فرمائیں۔
سالم بن عبداللّٰہ کہنے لگے: "میں نے دنیا تو اُس سے بھی نہیں مانگی جس کی یہ ملکیت ہے (یعنی اللّٰہ)۔ پھر بھلا میں اُس شخص سے دنیا کیسے طلب کرسکتا ہوں جس کا وہ خود مالک ہی نہیں۔۔! بحوالہ: (البدایة و النھایة)

Thursday 14 December 2023

فسخ النكاح بسبب الايدز

صورة المسألة

الإيدز مرض خطير يصيب جهاز المناعة في جسم الإنسان، وهو مرض معد ينتقل بالمعاشرة والاتصال الجنسي، فإذا تم عقد النكاح تم علم أحد الزوجين بأن الآخر مصاب بمرض الإيدز، فهل يكون له حق الفسخ بهذا العيب؟ وهل إصابة أحدهما بهذا المرض بعد النكاح تبيح الفسخ؟

حكم المسألة

إذا علم أحد الزوجين بإصابة الآخر بالإيدز قبل العقد، أو بعده ورضي به، سقط خياره في الفسخ باتفاق الفقهاء، فقد ذكروا أن الرضى مسقط للفسخ([1]).

وأما إذا لم يعلم إلا بعد العقد ولم يرض فهل له الفسخ؟

اختلف الفقهاء – رحمهم الله – في عيوب النكاح المبيحة للفسخ على أقوال أبرزها:

القول الأول: يباح فسخ النكاح لعيوب محددة فقط، ولا يتعدى الحكم لغيرها، وهذا مذهب جمهور الفقهاء – على خلاف بينهم في عددها –، والإباحة في حق الزوجين عند الجمهور، وخاصة بالمرأة عند الحنفية([2]).

القول الثاني: يصح فسخ النكاح لكل ما يفوت مقصود النكاح وهو الاستمتاع والتناسل والمودة والرحمة، وهذا قول محمد بن الحسن من الحنفية([3])، وهو قول عند الشافعية([4])، واختيار شيخ الإسلام وابن القيم – رحمهم الله –([5]).

 

والذي عليه الفقهاء المعاصرون أن الإيدز مرض يبيح فسخ النكاح، صدر بذلك قرار مجمع الفقه الإسلامي وهو المفتى به في عدد من المواقع الإسلامية وهو اختيار كثير من الباحثين. الأدلة على ذلك:

1- أن مرض الإيدز شارك العيوب المبيحة للفسخ في العلة فهو:

1) يحول دون الاستمتاع ويمنعه، إذ المرض ينتقل بالمعاشرة.

2) يسبب النفرة ويتأذى به الآخر.

3) يتضرر به المعاشر فقد ينتقل للزوجة والذرية.

والحكم يدور مع علته وجوداً وعدماً.

 

2- أن القول بلزوم عقد النكاح مع إصابة أحد الزوجين بهذا المرض فيه ظلم للطرف السليم وإضرار به، والضرر والظلم محرمان في الشرع، فيجب تمكين الطرف السليم من إزالتهما.

 

3- أن الله تعالى أمر بالإمساك بالمعروف أو التسريح بإحسان، وإمساك الزوجة مع تضررها ليس من الإمساك بالمعروف، فلزم التسريح بإحسان.

وشرط رد أحد الزوجين الآخر بعيب فيه: حصول ذلك العيب حال العقد أو قبله.

وأما العيب الحادث بعد العقد فإنه مصيبة نزلت بالزوج الآخر، إلا أن من الفقهاء من استثنى الزوجة خاصة؛ إذ للزوج أن يطلق ببعض الأمراض الحاصلة بعد العقد كالجذام البين والبرص الحادثين بعده.

وإباحة الفسخ بالإيدز أولى لأنه أضر منهما.

 

Monday 11 December 2023

پہلے قعدہ میں سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کے ساتھ نماز مکمل کرنے کا حکم

 تین یا چار رکعت والی کسی بھی نماز میں اگر بھول کر پہلے قعدہ میں غلطی سے سلام پھیردیا جائے اور فورًا یاد آنے پر نماز کے منافی کوئی کام (مثلًا بات چیت کرنا ، قبلہ سے سینہ پھیرلینا یا عملِ کثیر  وغیرہ)  کیےبغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے اور باقی نماز سجدہ سہو کے  ساتھ پوری کرلے تو نماز ادا ہوجائے گی،  لیکن اگر آخر میں سجدہ سہو نہ کیا تو نماز ناقص ادا ہوگی اور   وقت کے اندر اس  نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا، اور وقت گزرنے کے بعد لوٹانا واجب نہیں ہوگا، تاہم بہتر ہوگا۔

اور اگر پہلے قعدہ  میں جان بوجھ کر سلام پھیرا ہو  یا سلام کے بعد نماز کے منافی کوئی کام (بات چیت کرنا یا قبلہ سے سینہ پھیرلینا وغیرہ) کرلیا تو نماز ٹوٹ جائے گی اور دوبارہ  پڑھنی پڑے گی، خواہ وقت نکل گیا تب بھی اعادہ واجب ہوگا۔ 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 164):

"ولو سلم مصلي الظهر على رأس الركعتين على ظن أنه قد أتمها، ثم علم أنه صلى ركعتين، وهو على مكانه ، يتمها ويسجد للسهو،  أما الإتمام ؛ فلأنه سلام سهو فلا يخرجه عن الصلاة.وأما وجوب السجدة فلتأخير الفرض وهو القيام إلى الشفع الثاني

Friday 8 December 2023

میاں بیوی میں جدائی کے بعد بچوں کا نفقہ بہر حال والد پر لازم ہے

 جب کہ بچے کی عمر آٹھ سال ہوچکی ہے تو اس کاحقِ پرورش والد کو ہے اوراگرعدالت میں مقدمہ جائے تو عدالت ازروئے شرع پابند ہوگی کہ وہ بچے کووالد کےسپرد کرے، اوروالد پر لازم ہوگا کہ بچے کو اپنی تحویل میں لے۔والد کو کئی سال اپنے بیٹے سے ملنے نہ دینا ناجائز تھا۔

۲۔بچے کے نان نفقہ کی ذمہ داری بہر صورت والد پر ہی ہے، چاہے وہ اس کے پاس رہے یا اپنی والدہ کے پاس رہے۔

"نفقة الأولاد الصغار علي الأب، لا يشاركه أحدٌ، كذا في الجوهرة النيرة". (الفتاوى الهندية، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١/ ٥٦٠، ط: رشيدية)

Thursday 7 December 2023

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امہات المومنین کے ساتھ حسن سلوک

 میاں بیوی کا رشتہ تو بڑا ضروری اور بڑا ہی عجیب ہوتاہے کہ اکثر لوگ اس بابت افراط و تفریط میں مبتلا ہو جاتے ہیں، بعض بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں تو بعض غلام بنے نظر آتے ہیں، رحمۃ للعالمینؐنے اس سے متعلق بھی حکیمانہ اعتدال کی تعلیم دی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شوہر کے ذمے عورت کے یہ حقوق ہیںکہ جو خود کھائے وہی اپنی بیوی کو کھلائے ،اپنے لیے کپڑے بنائے تو اس کے لیے بھی بنائے ،اس کے چہرے پر نہ مارے ، اسے بُرا بھلا نہ کہے اور اسے بلا وجہ کہیں اکیلا نہ چھوڑے ؛ مگر یہ کہ گھر میں ۔(مسند احمد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی سہولت کی خاطر اپنے بہت سے کام از خود انجام دے لیا کرتے تھے ، جیسا کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ اپنے سر سے جوئیں نکال لیتے ، بکری کا دودھ دوہ لیتے ، اپنے کپڑے سی لیتے ،اپنے جوتے سی لیتے اور وہ اپنے بہت سے کام خود کر لیا کرتے تھے ۔آپ اپنے گھر میں کاموں میں لگے ہوتے ، جب نماز کا وقت ہوتا تو سب چھوڑ کر چلے جاتے ۔(ترمذی)آپ فرماتے تھے کہ عورتیں،شریف شوہروں پر غالب آجاتی ہیں اور کمینے شوہربیویوں پر غالب آجاتے ہیں،میں پسند کرتا ہوں کے شریف وکریم رہوں(چاہے)مغلوب رہوںاور میں اسے پسند نہیں کرتا کہ کمینہ اور بد اخلاق ہوکر ان پر غالب آجاؤں۔(روح المعانی) نیز آپ نے فرمایا:تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے ،جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہواور میں تم سب سے زیادہ اپنی بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہوں۔ (ترمذی)بلکہ آپ نے اسے ایمان کے کامل ہونے کی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے ،جو اخلاق میں بہتر ہواور تم میں بہتر لوگ وہ ہیں،جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہوں۔(ترمذی)

حسن العشرة مع النساء في الإسلام






Wednesday 6 December 2023

احتیاطاً تجدید نکاح کرنا

 نکاح کے درست ہونے کے لیے گواہ اور مہر کا ہونا شرط ہے، تاہم اگر احتیاطاً تجدیدِ نکاح کیا جائے  یعنی جب  تفریق کے اسباب میں سے کسی سبب کےبغیر تجدیدِ نکاح کیا جائے ،تو اس  میں  نیا مہر مقرر کرنا لازم نہیں ہے، البتہ گواہان کی موجودگی شرط ہے، اس کے بغیر تجدیدِ نکاح درست نہیں ہوگا، آپ کی بالغ اولاد، گھر کے افراد و دیگر رشتہ دار بھی نکاح کے گواہ بن سکتے ہیں ، اس لیے گواہان کی شرط میں  حرج نہیں ہے ، ہاں  مہر کی شرط میں حرج پایا جا رہا تھا اس لیے احتیاطا  تجدیدِ نکاح میں مہر کی شرط کو ساقط کر دیا گیا ہے جب کہ  گواہان کی شرط کو باقی رکھا گیا ہے۔

"الدر المختار مع رد المحتار" میں ہے:

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين)أنه نكاح على المذهب بحر (مسلمين لنكاح مسلمة ولو فاسقين أو محدودين في قذف أَوْ أو أعميين أو ابني الزوجين أو ابني أحدهما، وإن لم يثبت النكاح بهما) بالابنين (إن ادعى القريب.

(قوله: وإن لم يثبت النكاح بهما) أي بالابنين أي بشهادتها، فقوله: بالابنين بدل من الضمير المجرور، وفي نسخة لهما أي للزوجين، وقد أشار إلى ما قدمناه من الفرق بين حكم الانعقاد، وحكم الإظهار أي ينعقد النكاح بشهادتهما، وإن لم يثبت بها عند التجاحد وليس هذا خاصا بالابنين كما قدمناه.

(قوله: إن ادعى القريب) أي لو كانا ابنيه وحده أو ابنيها وحدها فادعى أحدهما النكاح وجحده الآخر لا تقبل شهادة ابني المدعي له بل تقبل عليه، ولو كانا ابنيهما لا تقبل شهادتهما للمدعي، ولا عليه لأنها لا تخلو عن شهادتهما لأصلهما، وكذا لو كان أحدهما ابنها والآخر ابنه لا تقبل أصلا كما في البحر."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:21-24، ط:سعید)

"رد المحتار "میں ہے:

"والاحتياط أن ‌يجدد ‌الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد ‌نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير."

(مقدمة، ج:1، ص:42، ط:سعيد)