https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 13 July 2024

سونا چاندی

 سونا اور چاندی کی بیع پیسوں کے بدلہ بیع صرف کہلاتی ہے، اور بیع صرف کے درست ہونے کے لئے شرط ہے کہ مجلس عقد میں دونوں چیزوں پر جانبین سے قبضہ پایا جائے، لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کا ۱۵ دن پہلے پیسوں کی ادائیگی کر کے چاندی کا سودا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس سودے میں چاندی ۱۵ دن بعد دی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہ سودا بیع فاسد ہے اور واجب الفسخ ہے۔

طلاق دیدوں گا سے طلاق ہوئی کہ نہیں

 اگر شوہر نے اپنی بیوی سے واقعی صرف اتنا ہی کہا تھا کہ اگر تم باہر جاؤگی تو میں تمہیں طلاق دیدوں گا تو اس جملے سے طلاق واقع نہیں ہوگی ، کیونکہ یہ جملہ صرف اور صرف طلاق کی دھمکی ہے طلاق نہیں ہے۔اور طلاق کی دھمکی دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قالت لزوجها: من باتو نمي باشم، فقال الزوج: مباش، فقالت: طلاق بدست تو است مرا طلاق كن، فقال الزوج: طلاق ميكنم، طلاق ميكنم، وكرر ثلاثًا، طلقت ثلاثًا بخلاف قوله: كنم؛ لأنه استقبال فلم يكن تحقيقًا بالتشكيك."

( الفتاوی الهندیة: كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية(1/ 384)، ط. رشيديه)

قسطوں پر کاروبار میں سوفیصد یااس سے زیادہ نفع لینا

 خرید و فروخت کی صورت میں باہمی رضامندی سے جتنا نفع طے کرلیا جائے وہ لینا جائز ہوگا، البتہ بازار کے متعارف منافع سے زائد منافع رکھنا مناسب نہیں ،شریعتِ مطہرہ نے خرید و فروخت کی صحت کا مدار عاقدین کی باہمی رضامندی پر رکھا ہے اور منافع کے حوالہ سے کسی قسم کی پابندی یا حد مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے، تاہم تاجر کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائے اور یہ اسلامی معاشیات کی اہم خوبی ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عَنْ أَنَسٍ قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اﷲِ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: إِنَّ اﷲَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَی اﷲَ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْکُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ".

(٣ / ٢٧٢، رقم الحديث: ٣٤٥١)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے شکایت کی کہ اے اللہ کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں، لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کسی کا مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا۔

درر الحکام میں ہے:

البيع ‌مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح."

(کتاب البیوع، المادہ: 245، ج:1،  ص:227، ط:دار الجیل)

 المبسوط للسرخسی میں ہے: 

"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ جاز."

(ج:8، ص:13، ط:دار المعرفة)

Friday 12 July 2024

اسکول میں جمعہ کی نماز

 جمعہ کی نماز  درست ہونے کے لیے  مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے، شہر ، فنائے شہر   یا بڑی بستی میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کی عام اجازت ہو وہاں جمعہ کی نماز پڑھنا صحیح ہے،  اسلامک مشن اسکول علی گڑھ شہر کی حدودفنا میں واقع ہونے کی بنا پر پنجی پور گاؤں کا حصہ نہیں بلکہ پنجی پور گاؤں علی گڑھ میں ضم ہوچکا ہے لہٰذا اسکول مذکور میں جمعہ کی دیگر شرائط  کی رعایت رکھتے ہوئے نماز جمعہ کی ادائیگی کے وقت گیٹ کھول کراذن عام کردیا جائے کہ نماز جمعہ میں شرکت کے لیے کویی روک ٹوک نہ ہو تو جمعہ  ادا ہوجائے گا، ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) السابع: (الإذن العام)...فلو دخل أمير حصنا) أو قصره (وأغلق بابه) وصلى بأصحابه (لم تنعقد) ولو فتحه وأذن للناس بالدخول جاز وكره.

(قوله الإذن العام) أي أن يأذن للناس إذنا عاما بأن لا يمنع أحدا ممن تصح منه الجمعة عن دخول الموضع الذي تصلى فيه.

(قوله وكره) لأنه لم يقض حق المسجد الجامع."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:152، ط:سعيد)

"الفتاوی الھندیة" میں ہے: 

"(ومنها: الإذن العام) و هو أن تفتح أبواب الجامع فيؤذن للناس كافةً حتى أن جماعة لو اجتمعوا في الجامع و أغلقوا أبواب المسجد على أنفسهم و جمعوا لم يجز، و كذلك السلطان إذا أراد أن يجمع بحشمه في داره فإن فتح باب الدار و أذن إذنًا عامًّا جازت صلاته شهدها العامة أو لم يشهدوها، كذا في المحيط."

(كتاب الصلاة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، ج:1، ص:148، ط:رشيدية)


قسطوں پر موبائل خریدنا

   قسط پر موبائل خریدنا شرعاً جائز ہے ،البتہ یہ ضروری ہے کہ   ہر ماہ کی قسط متعین کرلی جائے اور کسی قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں   اس پر کوئی اضافی رقم جرمانہ کے نام سے نہ لی جائے اور جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو۔  اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔ 

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے :

"‌البيع ‌مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح  يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط".

(الفصل الثانی فی بیان المسائل المتعلقۃ فی البیع  بالتاجیل والنسیئۃ،ص:50،نور محمد کارخانہ)

البحر الرائق میں ہے :

"‌ويزاد ‌في ‌الثمن ‌لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا".

(باب المرابحۃوالتولیۃ،ج:6،ص:125،دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي شرح الآثار: ‌التعزير ‌بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(کتاب الحدود ،باب التعزیر،ج:4،ص:62،سعید)

Thursday 11 July 2024

عاشورا کی فضیلت

 ) عاشورہ (دسویں محرم) کا روزہ ابتدائے اسلام میں فرض تھا، لیکن رمضان کے روزوں کے فرض ہونے کے بعد اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی، البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد بھی اس روزے کا اہتمام فرمایا ہے، اس  لیے اس کا رکھنا مسنون ومستحب ہے، اور یہ روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے، وفات سے پہلے والے سال جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ یہود بھی شکرانہ کے طور پر عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں  تو آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ:"اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نویں کا روزہ بھی رکھوں گا"، جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ :"عاشورہ کے دن روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو، اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھو"، لہٰذا  فقہاءِ کرام نے عاشورہ کے ساتھ نو محرم کے روزہ کو مستحب قرار دیا ہے، اور  مشابہتِ یہود کی بنا پر صرف عاشورہ کا روزہ رکھنے کو مکروہِ تنزیہی قرار دیا ہے، اس  لیےدسویں کے ساتھ نویں یا گیارہوں کا روزہ رکھنا بھی بہتر ہے،  تاکہ اس عبادت کی ادائیگی میں یہود کے ساتھ مشابہت نہ رہے،  تاہم اگر کسی بنا پر تین یا دو روزے رکھنا دشوار ہو تو صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لینا چاہیے؛ تاکہ اس کی فضیلت سے محرومی نہ ہو۔  حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں: (۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے،  (۲) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے، (۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور  تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ ﷺ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔


)عاشوراء  (دس محرم) کے روز اپنے اہل و عیال پر رزق کی وسعت اور فراوانی کی ترغیب وارد ہوئی ہے،  حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:  "جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے تو اللہ تعالی سارے سال اس کے مال و زر میں وسعت عطا فرمائے گا۔  حضرت سفیان  رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا"۔ (رزین )

"عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته. قال سفيان : إنا قد جربناه فوجدناه كذلك. رواه رزين".

اس طرح کی روایات دیگر صحابہ سے بھی مروی ہیں جو  اگرچہ سنداً ضعیف ہیں، لیکن مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے فضائل میں قابلِ استدلال ہیں، اسی وجہ سے اکابرین نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے۔

صحيح مسلم (2/ 797)

"وحدثنا الحسن بن علي الحلواني، حدثنا ابن أبي مريم، حدثنا يحيى بن أيوب، حدثني إسماعيل بن أمية، أنه سمع أبا غطفان بن طريف المري، يقول: سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع» قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم".

صحيح مسلم (2/ 798)

" عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لئن بقيت إلى قابل لأصومن التاسع» وفي رواية أبي بكر: قال: يعني يوم عاشوراء".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 418)


"وحديث التوسعة على العيال يوم عاشوراء صحيح وحديث الاكتحال فيه ضعيفة لا موضوعة كما زعمه ابن عبد العزيز".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 418)

"مطلب في حديث التوسعة على العيال والاكتحال يوم عاشوراء (قوله: وحديث التوسعة إلخ) وهو «من وسع على عياله يوم عاشوراء وسع الله عليه السنة كلها» قال جابر: جربته أربعين عاما فلم يتخلف ط وحديث الاكتحال هو ما رواه البيهقي وضعفه «من اكتحل بالإثمد يوم عاشوراء لم ير رمدا أبدا» ورواه ابن الجوزي في الموضوعات «من اكتحل يوم عاشوراء لم ترمد عينه تلك السنة» فتح. قلت: ومناسبة ذكر هذا هنا أن صاحب الهداية استدل على عدم كراهة الاكتحال للصائم بأنه - عليه الصلاة والسلام - قد ندب إليه يوم عاشوراء وإلى الصوم فيه. قال في النهر: وتعقبه ابن العز بأنه لم يصح عنه - صلى الله عليه وسلم - في يوم عاشوراء غير صومه وإنما الروافض لما ابتدعوا إقامة المأتم وإظهار الحزن يوم عاشوراء لكون الحسين قتل فيه ابتدع جهلة أهل السنة إظهار السرور واتخاذ الحبوب والأطعمة والاكتحال، ورووا أحاديث موضوعة في الاكتحال وفي التوسعة فيه على العيال. اهـ.

وهو مردود بأن أحاديث الاكتحال فيه ضعيفة لا موضوعة كيف وقد خرجها في الفتح ثم قال: فهذه عدة طرق إن لم يحتج بواحد منها، فالمجموع يحتج به لتعدد الطرق وأما حديث التوسعة فرواه الثقات وقد أفرده ابن القرافي في جزء خرجه فيه اهـ ما في النهر، وهو مأخوذ من الحواشي السعدية لكنه زاد عليها ما ذكره في أحاديث الاكتحال وما ذكره عن الفتح وفيه نظر فإنه في الفتح ذكر أحاديث الاكتحال للصائم من طرق متعددة بعضها مقيد بعاشوراء، وهو ما قدمناه عنه، وبعضها مطلق فمراده الاحتجاج بمجموع أحاديث الاكتحال للصائم، ولا يلزم منه الاحتجاج بحديث الاكتحال يوم عاشوراء، كيف وقد جزم بوضعه الحافظ السخاوي في المقاصد الحسنة، وتبعه غيره منهم مثلا علي القاري في كتاب الموضوعات، ونقل السيوطي في الدرر المنتثرة عن الحاكم أنه منكر، وقال الجراحي في كشف الخفاء ومزيل الإلباس قال الحاكم أيضا الاكتحال يوم عاشوراء لم يرد عن النبي - صلى الله عليه وسلم - فيه أثر، وهو بدعة، نعم حديث التوسعة ثابت صحيح كما قال الحافظ السيوطي في الدرر (قوله: كما زعمه ابن عبد العزيز) الذي في النهر والحواشي السعدية ابن العز. قلت: وهو صاحب النكت على مشكلات الهداية كما ذكره في السعدية في غير هذا المحل".

محرم کے روزوں کی فضیلت

 محرم الحرام کا مہینہ قابلِ احترام  اور عظمت والا مہینہ ہے، اس میں دس محرم الحرام کے روزے  کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ،رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، اور یومِ عاشورہ کے علاوہ  اس پورے مہینے میں بھی روزے رکھنے کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور آپ ﷺ نے ماہِ محرم میں روزہ رکھنے کی ترغیب دی ہے۔

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :افضل ترین روزے رمضان کے  بعد ماہ محرم کے ہیں، اور فرض کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز ہے۔

 ’’[عن أبي هريرة:] سُئلَ: أيُّ الصلاةِ أفضلُ بعد المكتوبةِ؟ وأيُّ الصيامِ أفضلُ بعد شهرِ رمضانَ؟ فقال " أفضلُ الصلاةِ، بعد الصلاةِ المكتوبةِ، الصلاةُ في جوفِ الليل ِ. وأفضلُ الصيامِ، بعد شهرِ رمضانَ، صيامُ شهرِ اللهِ المُحرَّمِ ". مسلم (٢٦١ هـ)، صحيح مسلم ١١٦٣ • صحيح •‘‘.

اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو  شخص یومِ عرفہ کا روزہ رکھے گا  تو اس کے دو سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اور جو  شخص محرم کے مہینہ میں ایک روزہ رکھے گا، اس کو ہر روزہ کے بدلہ میں تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔

 ’’[عن عبدالله بن عباس:] من صام يومَ عرفةَ كان له كفَّارةَ سَنتيْن، ومن صام يومًا من المُحرَّمِ فله بكلِّ يومٍثلاثون يومًا‘‘.

(المنذري (٦٥٦ هـ)، الترغيب والترهيب ٢/١٢٩ • إسناده لا بأس به • أخرجه الطبراني (١١/٧٢) (١١٠٨١)، وفي «المعجم الصغير» (٩٦٣

شوھر کے سنگین جرم میں جیل جانے کی بناپر فسخ نکاح

  اگر   شوھرعرصہ دراز سے قتل وغیرہ کے سنگین الزامات کے تحت جیل میں بند ہے ، اور  اس کی جلد رہائی کی کوئی امید نہیں ہے تو  ایسی صورت میں اگر عورت کے لیے  نان ونفقہ اور گزارہ کا کچھ انتظام ہو،  اور وہ اتنی مدت تک صبروتحمل اور عفت کے ساتھ زندگی گزارسکے تو  وہ عورت صبر کرے، اور اگراس کے نان و نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو یا شوہر کے بغیر رہنے میں عفت وعصمت پر داغ لگنے اور گناہ اور فتنہ میں پڑنے کا قوی اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں شوہر سے طلاق لے لے یا باہمی رضامندی سے خلع حاصل کرلے، البتہ اگر اس  کی صورت نہ  ہو تو  مجبوری میں مسلمان جج کی عدالت میں  فسخ نکاح کا دعوی دائر کرے،   اور قاضی مکمل تحقیق کے بعد  دونوں کے نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔

جاء في الموسوعة الكويتية : إذا حبس الزوج مدة عن زوجته , فهل لزوجته طلب التفريق كالغائب ؟ الجمهور على عدم جواز التفريق على المحبوس مطلقا , مهما طالت مدة حبسه , وسواء أكان سبب حبسه أو مكانه معروفين أم لا , أما عند الحنفية والشافعية فلأنه غائب معلوم الحياة , وهم لا يقولون بالتفريق عليه كما تقدم , وأما عند الحنابلة فلأن غيابه لعذر. وذهب المالكية إلى جواز التفريق على المحبوس إذا طلبت زوجته ذلك وادعت الضرر , وذلك بعد سنة من حبسه , لأن  الحبس غياب , وهم يقولون بالتفريق للغيبة مع عدم العذر , كما يقولون بها مع العذر على سواء كما تقدم. انتهى من الموسوعة.


خیار بلوغ سے ہونے والی فرقت فسخ ہے یا طلاق

 امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک میاں بیوی کی ایسی فرقت، جو دونوں کی طرف سے ہونا ممکن ہو، ایسی فرقت طلاق  نہیں ہوتی، بلکہ فسخِ نکاح ہوتی ہے، جب کہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک میاں بیوی کی فرقت میں چوں کہ اصل طلاق ہے؛ لہذا جس فرقت کو طلاق پر محمول کیا جاسکتا ہو، اسے فسخِ نکاح نہیں کہا جائے گا۔

خیارِ بلوغ شرعی طور پر نابالغ لڑکے اور نابالغ لڑکی، دونوں کے لیے ثابت ہوتا ہے۔ اگر خیارِ بلوغ کے ذریعہ لڑکی کی طرف سے فرقت واقع ہوئی ہو تو وہ بالاتفاق فسخِ نکاح  کے حکم میں ہے؛ اس لیے کہ لڑکی طلاق کی مالک نہیں ہوتی۔ البتہ اگر خیارِ بلوغ لڑکے کی طرف سے ہو تو یہ اختلافی صورت ہے، طرفین رحمہما اللہ  کے نزدیک  یہ فرقت طلاق  کے حکم میں ہے، جب کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک یہ فرقت فسخِ نکاح کے حکم میں ہے۔

علامہ شامی رحمہ اللہ  نے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ جو فرقت لڑکی کی جانب سے ممکن ہو، وہ فرقت  فسخِ نکاح کے حکم میں ہے، نہ کہ طلاق کے حکم میں۔

فسخِ نکاح کا اثر یہ ہے کہ اگر مذکورہ لڑکا دوبارہ مذکورہ لڑکی سے شادی کرلے تو اسے تین طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ نیز اگر لڑکے کی طرف سے دخول سے پہلے خیارِ بلوغ کی وجہ سے فرقت حاصل کی گئی ہو تو لڑکے پر مہر واجب نہیں ہوگا، جب کہ دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں نصف مہر واجب ہوتا ہے۔

 لہذا  خیارِ بلوغ سے واقع ہونے والی فرقت  ہر حال میں فسخ ہے، نہ کہ طلاق۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2 / 174):

(وإباؤه طلاق لا إباؤها)، وقال أبو يوسف إباؤه أيضا لايكون طلاقا؛ لأنه يتصور وجوده من المرأة وبمثله لا يقع الطلاق كالفرقة بسبب الملك والمحرمية وخيار البلوغ، وهذا لأن الطلاق ليس إليها فكل سبب تشاركه المرأة فيه على معنى أنه يتحقق وجوده منها لا يكون طلاقا إذا وجد منه كما لا يكون طلاقا فيما إذا وجد منها ولهما أنه فات الإمساك بالمعروف من جانبه فتعين التسريح بالإحسان فإن طلق وإلا ناب القاضي منابه ولهذا المعنى صارت الفرقة بسبب  الجب والعنة طلاقا بخلاف إبائها؛ لأن الطلاق لا يكون منها حتى ينوب القاضي منابها وبخلاف ما استشهد به من الأحكام فإن الفرقة فيه لا لهذا المعنى وبخلاف ردته أيضا عند أبي حنيفة؛ لأن الفرقة فيها للتنافي، وهذا لأن الردة تنافي النكاح ابتداء فكذا تنافيه بقاء ولهذا لا يحتاج فيه إلى حكم الحاكم وفي الإباء يحتاج إليه، ولو كان الزوج صغيرا أو مجنونا يكون طلاقا عندهما لما ذكرنا من المعنى وهي من أغرب المسائل حيث يقع الطلاق منهما ونظيره إذا كانا مجنونين أو كان المجنون عنينا فإن القاضي يفرق بينهما ويكون طلاقا اتفاقا، ثم إذا وقعت الفرقة بالإباء فإن كان بعد الدخول بها فلها المهر كله؛ لأنه تأكد به وإن كان قبل الدخول فإن كان بإبائه فلها نصف المهر؛ لأنه قبل الدخول وإن كان بإبائها فلا مهر لها؛ لأنها فوتت المبدل قبل تأكد البدل فأشبه الردة والمطاوعة.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 71):

فالصواب أن يقال وإن كانت الفرقة من قبله ولا يمكن أن تكون من قبلها فطلاق كما أفاده شيخنا طيب الله تعالى ثراه، وإليه أشار في البحر حيث قال: وإنما عبر بالفسخ ليفيد أن هذه الفرقة فسخ لا طلاق، فلا تنقص عدده لأنه يصح من الأنثى ولا طلاق إليها اهـ ومثله في الفتاوى الهندية وعبارته: ثم الفرقة بخيار البلوغ ليست بطلاق لأنها فرقة يشترك في سببها المرأة والرجل، وحينئذ يقال في الأول ثم إن كانت الفرقة من قبلها لا بسبب منه أو من قبله ويمكن أن تكون منها ففسخ فاشدد يديك عليه فإنه أجدى من تفاريق العصا. اهـ.


والدہ کے مطالبہ پر بیوی کو طلاق دینا

 والدہ کا بہو کو طلاق دینے کا مطالبہ کسی شرعی عذر کے  بغیر ہے، تو  سائل کا اپنی بیوی کوطلاق دینا اور اسے چھوڑنا اس کی حق تلفی ہے، لہٰذا سائل کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے اور والدین کے حقوق کی بھی رعایت رکھتے ہوئے زندگی گزارے، بہتر یہ ہے کہ اپنی والدہ، بھائی بہنوں اور بیوی کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرے اور ایک ساتھ زندگی گزارے، لیکن اگر ایسا ممکن نہیں تو سائل کے لیے گنجائش ہے کہ وہ  اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے علیحدہ ہوجائے، بہتر ہے کہ والدہ کو اعتماد میں لے کر ایسا کرے۔ لہذا 

اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اور اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا

سنن ابن ماجہ میں ہے:

" حدثنا كثير بن عبيد الحمصي قال: حدثنا محمد بن خالد، عن عبيد الله بن الوليد الوصافي، عن محارب بن دثار، عن عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌أبغض ‌الحلال إلى الله الطلاق»."

(كتاب الطلاق، ج:1، ص:650، ط:دار إحياء الكتب العربية)

حديث شریف میں ہے:

"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بعشر كلمات، قال: " لا تشرك بالله شيئا، وإن قتلت وحرقت، ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك، ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمدا؛ فإن من ترك صلاة مكتوبة متعمدا فقد برئت منه ذمة الله، ولا تشربن خمرا فإنه رأس كل فاحشة، وإياك والمعصية؛ فإن بالمعصية حل سخط الله، وإياك والفرار من الزحف، وإن هلك الناس، وإذا أصاب الناس موت وأنت فيهم فاثبت، (أنفق على عيالك من طولك، ولا ترفع عنهم عصاك أدبا وأخفهم في الله» ". رواه أحمد."

حالت حیض میں مباشرت پرمطالبہ طلاق وفسخ

 اگر  خاوند اپنی بیوی کے ساتھ ماہواری کے ایام میں ہم بستری کرتا ہے، تو وہ سخت گناہ کا مرتکب ہے، اس پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے، بیوی کو چاہیے کہ اپنے شوہر کو منع کرے اور سمجھائے، اگر بیوی کے سمجھانے سے نہ سمجھے تو خاندان کے معزز افراد اور بزرگوں کے ذریعے سے شوہر کو سمجھایا جائے اور اگر شوہر منع کرنے کے باوجود اپنی اس قبیح حرکت سے باز نہیں آتا تو پھر بیوی کو اس بات کا اختیار حاصل ہوگا کہ طلاق یا خلع کے مطالبہ کے  ذریعے اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرلے، لیکن اگر شوہر اسے طلاق یا خلع نہ دے تو بیوی عدالت سے تنسیخِ نکاح کراسکتی ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

’’وَيَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًۭى فَٱعْتَزِلُوا۟ ٱلنِّسَآءَ فِى ٱلْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ ٱللَّهُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّٰبِينَ وَيُحِبُّ ٱلْمُتَطَهِّرِينَ.‘‘ (سورة البقرة:۲۲۲)

ترجمہ: ’’اور لوگ آپ سے حیض کا حکم پوچھتے ہیں، آپ فرمادیجیے کہ وہ گندی چیز ہے، تو حیض میں تم عورتوں سے علیحدہ رہا کرو، اور ان سے قربت مت کیا کرو جب تک کہ وہ پاک نہ ہوجائیں۔ پھر جب وہ اچھی طرح پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جاؤ جس جگہ سے تم کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے (یعنی آگے سے) یقیناً اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔‘‘ (بیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن النواس بن سمعان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌لا ‌طاعة لمخلوق في معصية الخالق». رواه في شرح السنة."

(كتاب الإمارة والقضاء، الفصل الثاني، ج: 2، ص: 1092، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

شرح الکبیر للدردیر میں ہے:

"(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر وكوطئها في دبرهالا بمنعها من حمام وفرجة وتأديبها على ترك صلاة أو تسر أو تزوج عليها ومتى شهدت بينة بأصل الضرر فلها اختيار الفراق."

(باب في النكاح ومايتعلق به، الكلام على أحكام النشوز، ج: 2، ص: 345، ط: دار الفكر بيروت) 

بارات کی شرعی حیثیت

 نکاح ہونے کے بعد رخصتی کے موقع پر لڑکے والوں کا لڑکی کو لانے کے لیے بارات لے کر جانا اور لڑکی والوں کا کھانے کا انتظام کرنا ولیمہ کی طرح سنت نہیں ہے، اور اگر لڑکی والے نام و نمود کے لیے یا لڑکے والوں کے مطالبے یا خاندانی دباؤ  کی وجہ سے  یا شرمندگی سے بچنے کے لیے مجبوراً  یہ دعوت کریں تو   اس طرح لڑکے والوں کا پچاس یا کم و بیش افراد لے کر جانا اور لڑکی والوں کی دلی رضامندی کے بغیر ان کی طرف سے دعوت کھانا جائز نہیں ہے، اسی طرح ایسی دعوت میں شرکت کرنا بھی جائز نہیں، چاہے اس دعوت میں دیگر مفاسد ( موسیقی، مرد عورت کا اختلاط وغیرہ) نہ بھی ہو۔

  لیکن اگر لڑکی والے  نام و نمود سے بچتے ہوئے، کسی قسم کی زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی و رضامندی سے اپنے اعزاء  اور مہمانوں کے ساتھ لڑکے والوں کے متعلقین کو بھی کھانے پر بلائیں تو  ایسی دعوت کرنا جائز ہے، کیوں کہ یہ مہمانوں کا اکرام ہے اور اس میں شرکت کرنا بھی جائز ہے، بشرطیکہ اس دعوت میں دیگر مفاسد  ( موسیقی، مرد عورت کا اختلاط وغیرہ) نہ ہوں، لیکن لڑکے والوں کو  چاہیے کہ بارات کی دعوت میں اتنے افراد کو لے کر جائیں جتنے افراد کو لڑکی والوں نے اپنی وسعت کے مطابق دعوت دی ہو، اس لیے لڑکی والوں سے تعداد پوچھ کر اسی تعداد کے حساب سے اپنے ساتھ متعلقین کو لے جانا چاہیے،  اس تعداد سے زیادہ افراد لے جانے کی صورت میں لڑکی والوں پر بوجھ پڑنے کا اندیشہ رہے گا۔

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :

’’لڑکی والوں کی طرف سے براتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر  بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں‘‘ ۔ (کفایت المفتی، 7/471، باب العرس والولیمہ، ط: فاروقیہ)

فتاوی  محمودیہ میں ہے: 

’’جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر  کھائیں گے! اور اپنے مہمان کو کھلانا  تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے‘‘۔ (12/142، باب العروس والولیمہ، ط:فاروقیہ

حرمت قمار

  ''جو ا'' جسے عربی زبان میں’’قمار‘‘کہا جاتا ہے در حقیقت ہر وہ معاملہ ہے جس میں’’مخاطرہ ہو‘‘، یعنی قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ایسا معاملہ کیا جائے جو نفع ونقصان کے خطرے کی بنیاد  پرہو، جوا کھیلنا حرام ہے،  قرآن کریم میں جوے کی واضح ممانعت موجود ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [المائدة :۹٠]

ترجمہ :اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔

      مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".(4/483، کتاب البیوع  والاقضیہ، ط؛ مکتبہ رشد، ریاض)

أحکام القرآن  میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه".      (احکام القرآن للجصاص، 1/ 398،  باب تحریم المیسر، سورۃ البقرۃ، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".  (6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط ؛ سعید