https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 17 July 2024

زکوٰۃ کی رقم سے راشن تقسیم کرنا

 جس طرح مستحق زکوۃ شخص کو زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اسی طرح زکوۃ کی رقم سے راشن خرید کر اس کو مالک بنایا جا سکتا ہے، ایسا کرنے سے زکوۃ ادا کرنے والے کی زکوۃ ادا ہو جائے گی۔ البتہ جتنی رقم کا راشن خریدا گیا اور مستحق کو مالک بناکر دیا گیا، اتنی رقم کی زکاۃ ادا ہوگی، راشن خرید کر لانے اور منتقل کرنے کا کرایہ، راشن پیکج بنانے کے لیے مزدوروں کی اجرت وغیرہ زکاۃ کی رقم سے ادا کرنا درست نہیں ہوگا، اگر ایسا کیا گیا تو جتنی رقم کرایہ وغیرہ میں صرف ہوگی اتنی زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك)  خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم 

(قوله: إلا إذا دفع إليه المطعوم) لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمه معه، ولا يخفى أنه يشترط كونه فقيرا، ولا حاجة إلى اشتراط فقر أبيه أيضا لأن الكلام في اليتيم ولا أبا له فافهم (قوله كما لو كساه) أي كما يجزئه لو كساه ."

(کتاب الزکات،ج:2،ص:257،سعید)

وکیل خود مستحق زکوٰۃ ہوتو خود زکوٰۃ استعمال کرسکتا ہے ؟

 اگر موکل نے وکیل کو زکات  کی رقم دیتے ہوئے یہ کہا ہو کہ جہاں چاہیں خرچ کر دیں تو ایسی صورت میں اگر وکیل زکات کا مستحق ہو تو خود بھی زکات  کی رقم استعمال کر سکتا ہے،بصورتِ دیگر خود استعمال نہیں کرسکتا، اور اگر موکل نے زکات کی رقم کسی خاص فقیر کو دینے کا کہا ہو تو اُسی فقیر کو دینا لازم ہو گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌وللوكيل ‌أن ‌يدفع ‌لولده ‌الفقير ‌وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت، ولو تصدق بدراهم نفسه أجزأ إن كان على نية الرجوع وكانت دراهم الموكل قائمة."

(‌‌كتاب الزكاة، ج:2، ص:269، ط: سعيد)

تبيين الحقائق میں ہے:

"لو قال لرجل ‌ادفع ‌زكاتي ‌إلى ‌من ‌شئت أو أعطها من شئت فدفعها لنفسه لم يجز وفي جوامع الفقه جعله قول أبي حنيفة وقال وعند أبي يوسف يجوز ولو قال ضعها حيث شئت جاز وضعها في نفسه." 

(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج:1، ص:305، ط: دار الكتاب 

متعدد نفلی حج وعمرہ کے بجائے مذکورہ رقم اہل ضرورت کو دینا

 نفلی حج یا عمرہ کرنا   بھی بہت عظیم سعادت اور نیکی کا کام ہے،لیکن اسی طرح مساجد ومدارس  میں خرچ کرنا اور غرباء  ومساکین کی امدادوتعاون  بھی بہت بڑی خیر کا حامل ہے، سارے ہی نیکی کے کام ہیں، اب ان میں سے کس کو ترجیح دینی چاہیے؟ اس میں کچھ تفصیل ہے، وہ یہ کہ ان کاموں میں سے جس کی ضرورت زیادہ ہو اُس میں زیادہ ثواب ہو گا، یعنی اگر محلہ کی مسجد کی تعمیر کے لیے پیسوں کی کمی کی وجہ سے ضرورت زیادہ ہو، تو اس مسجد کی تعمیر میں پیسے خرچ کرنا زیادہ افضل ہوگا،اسی طرح اگر کہیں اِحیاءِ دین  کے لیے مدارس کی ضرورت ہے،  یا مدارس کے طلباء زیادہ محتاج ہیں تو  ان کو صدقہ کرنا زیادہ افضل ہوگا اور اگر کسی جگہ فقراء زیادہ ضرورت مند یااقرباء ہوں یا نیک صالح یا سادات میں سے ہوں تو ان پر خرچ کرنا اور ان کا اکرام کرنا دیگر کاموں سے زیادہ افضل ہوگا۔

الغرض مذکورہ مصارف میں خرچ کرنا نفلی عمرہ کرنے سے بہتر ہوگا جبکہ سائل چار مرتبہ نفلی عمرہ کرچکا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال الرحمتي: والحق التفصيل، فما كانت الحاجة فيه أكثر والمنفعة فيه أشمل فهو الأفضل، كما ورد: «حجة أفضل من عشر غزوات». وورد عكسه، فيحمل على ما كان أنفع، فإذا كان أشجع وأنفع في الحرب فجهاده أفضل من حجه، أو بالعكس فحجه أفضل، وكذا بناء الرباط إن كان محتاجاً إليه كان أفضل من الصدقة وحج النفل وإذا كان الفقير مضطراً أو من أهل الصلاح أو من آل بيت النبي صلى الله عليه وسلم فقد يكون إكرامه أفضل من حجات وعمر وبناء ربط. كما حكى في المسامرات عن رجل أراد الحج فحمل ألف دينار يتأهب بها فجاءته امرأة في الطريق وقالت له: إني من آل بيت النبي صلى الله عليه وسلم وبي ضرورة فأفرغ لها ما معه، فلما رجع حجاج بلده صار كلما لقي رجلاً منهم يقول له: تقبل الله منك، فتعجب من قولهم، فرأى النبي صلى الله عليه وسلم في نومه وقال له: تعجبت من قولهم تقبل الله منك؟ قال: نعم، يا رسول الله؛ قال: إن الله خلق ملكاً على صورتك حج عنك؛ وهو يحج عنك إلى يوم القيامة بإكرامك لامرأة مضطرة من آل بيتي؛ فانظر إلى هذا الإكرام الذي ناله لم ينله بحجات ولا ببناء ربط".

(كتاب الحج، فروع في الحج،مطلب في تفضيل الحج على الصدقة،ج:2،ص:621، ط: سعيد)

زکوٰۃ وصدقات کی رقم قبرستان میں استعمال کرنا

 زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے ؛ اس لیے رفاہی کاموں،شفاخانوں اور مدارس ومساجد یا قبرستان  وغیرہ کی مد میں زکاۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔ لہذا زکاۃ کی رقم قبرستان کے لیے زمین خریدنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."

(کتاب الزکاۃ،الباب السابع في المصارف جلد 1 ص: 188 ط: دارالفکر)

کلینک میں استعمال ہونے والے اوزاریامشینری پر زکوۃ

 وہ اوزار اور مشینری  جس کے ذریعے دانتوں کا علاج کیا جاتا ہے،وہ مال تجارت نہیں بلکہ اپنے پیشے کے آلات ہیں، ان اوزار و مشینری پر زکوۃ واجب نہیں ہے، بلکہ ان کے ذریعے جو منافع آئے گا ،  ا س پر سالانہ ڈھائی فیصد زکوۃ واجب ہوگی، بشرط یہ کہ  اخراجات کے بعد جمع ہونے والی بچت نصاب کے بقدر ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر سال بھی گزرا ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کےکلینک میں جو اوزار و مشینری ہے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔ باقی دانتوں کی بھرائی کا جو سامان مریض کے علاج میں صرف ہوتا ہے اور اس کی قیمت مریض سے وصول کی جاتی ہے، وہ مالِ تجارت کے حکم میں ہے،  زکوٰۃ کا سال پورا ہونے کے وقت اس کی موجودہ  قیمت پر  زکوٰۃ ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما فيما سوى الأثمان من العروض فإنما يكون الإعداد فيها للتجارة بالنية ؛ لأنها كما تصلح للتجارة تصلح للانتفاع بأعيانها بل المقصود الأصلي منها ذلك فلا بد من التعيين للتجارة وذلك بالنية."

(كتاب الزكاة، ‌‌فصل الشرائط التي ترجع إلى المال، ج: 2، ص: 11، ط: دار الکتب الإسلامى)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لاتجب فيها الزكاة كما لاتجب في بيوت الغلة، ولو دخل من أرضه حنطة تبلغ قيمتها قيمة نصاب ونوى أن يمسكها أو يبيعها فأمسكها حولاً لاتجب فيه الزكاة، كذا في فتاوى قاضي خان. ولو أن نخاسًا يشتري دواب أو يبيعها فاشترى جلاجل أو مقاود أو براقع فإن كان بيع هذه الأشياء مع الدواب ففيها الزكاة، وإن كانت هذه لحفظ الدواب بها فلا زكاة فيها كذا في الذخيرة. وكذلك العطار لو اشترى القوارير، ولو اشترى جوالق ليؤاجرها من الناس فلا زكاة فيها؛ لأنه اشتراها للغلة لا للمبايعة، كذا في محيط السرخسي. والخباز إذا اشترى حطبًا أو ملحًا لأجل الخبز فلا زكاة فيه".

(كتاب الزكاة، ‌‌مسائل شتى في الزكاة، ج: 1، ص: 180، ط: دار الفكر بيروت)

چچا کوزکات دینا

 اگر سائل کے چچا کی ملکیت میں  ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے  باون تولہ چاندی کے بقدر مالِ تجارت ،سونا، چاندی،نقدی یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہیں  ہے  یا  اس قدر مالیت کا سامان تو ہے لیکن ذمے  میں واجب قرضوں  کی مقدار منہا کرنے کے بعد  ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت سے کم بچتا ہو اور  نہ  ہی  وہ سید ، ہاشمی ہو تو سائل اپنے چچا کو زکات اور فدیہ دے سکتا ہے ، اسی طرح مالدار بھائی غریب بھائی کو بھی زکوۃ اور فطرہ دے سکتا ہے، البتہ  زکات  یا فدیے کی رقم  مشترکہ چیزوں میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"‌‌(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير."

(كتاب الزكاة،الباب السابع في المصارف،ج1،ص187،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

وفيه أيضا:

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى ‌الأعمام والعمات."

(كتاب الزكاة،الباب السابع في المصارف،ج1،ص190،ط:المطبعة الكبرى الأميرية

ساس کو زکوٰۃ یاصدقہ فطردینا

 اگر   ساس  مستحقِ زکاۃ ہو تو اسے   صدقہ فطر دے سکتے ہیں۔ مستحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کےپاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا   اس مالیت کا ضروریاتِ اصلیہ سے زائد کسی قسم کا ما ل  /سامان موجود نہ ہو  اور  وہ سید بھی نہ ہو۔

بدائع الصنائع  میں ہے :

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

(كتاب الزكاۃ، ج: 2 ص: 50، ط : رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال.......(قوله: في المصارف) أي المذكورة في آية الصدقات إلا العامل الغني فيما يظهر و لاتصح إلى من بينهما أولاد أو زوجية ولا إلى غني أو هاشمي ونحوهم ممن مر في باب المصرف، وقدمنا بيان الأفضل في المتصدق عليه."

(‌‌كتاب الزكاة، ‌‌باب صدقة الفطر،  ج: 2، ص: 368، ط: سعيد)

سسرکابہوکو زکوٰۃ دینا

 اگر بہو صاحب نصاب نہیں ہے،یعنی (اس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا،یا ساڑھے باون تولہ چاندی ،یااس  کے برابرضرورت  و ا ستعمال سے زیادہ رقم یاکسی قسم کا سامان   )موجود نہ ہو،تو سسر اپنی بہو کو صدقہ فطر  دے سکتا ہے،اور اگر بہو صاحب نصاب  ہے تو نہیں دے سکتا، باقی مستحقِ زکوۃ ہونے کی صورت میں اس رقم کو  لے کر گھر کے کسی مشترکہ کام میں استعمال نہ کرے بلکہ بہو اپنے ذاتی کام میں استعمال کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية."

(کتاب الزکوۃ ،الباب السابع  فی المصارف ،189/1،ط،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال (إلا في) جواز (الدفع إلى الذمي) وعدم سقوطها بهلاك المال وقد مر.

(قوله في المصارف) أي المذكورة في آية الصدقات إلا العامل الغني فيما يظهر ولا تصح إلى من بينهما أولاد أو زوجية ولا إلى غني أو هاشمي ونحوهم."

(باب صدقۃ الفطرۃ ،368/2،ط،دار الفکر)

Tuesday 16 July 2024

بلی کے پیشاب کاحکم

  بلی سمیت ہر جانور کا پیشاب ناپاک ہے۔ جس پانی میں پیشاب مل جائے  اگر  دہ در دہ  یعنی 225 مربع فٹ یا اس  سے زیادہ ہو تو پانی ناپاک نہیں ہوگا اور اگر اس سے کم ہو (اور غالب یہی ہے ) تو تمام پانی ناپاک ہوجائے گا۔

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"(وإن أصابته نجاسة مخففة كبول ما يؤكل لحمه) ومنه الفرس، ... (جازت الصلاة معه ما لم يبلغ ربع) جميع (الثوب) ... وقيل: ربع الموضع الذي أصابه كالذيل والكم والدخريص، إن كان المصاب ثوبا. وربع العضو المصاب كاليد والرجل، إن كان بدناً وصححه في التحفة والمحيط والمجتبى والسراج، وفي الحقائق: وعليه الفتوى".

 (ص؛68، فصل فی النجاسة، ط: قدیمی) 

البحر الرائق میں ہے:

"قوله: (أو بماء دائم فيه نجس إن لم يكن عشرا في عشر) أي: لا يتوضأ بماء ساكن وقعت فيه نجاسة مطلقا سواء تغير أحد أوصافه أو لا ولم يبلغ الماء عشرة أذرع في عشرة .........(قوله: وإلا فهو كالجاري) أي: وإن يكن ‌عشرا ‌في ‌عشر فهو كالجاري، فلا يتنجس إلا إذا تغير أحد أوصافه."

(البحر الرائق: كتاب الطهارة، أحكام المياه (1/ 78و87)، ط. دار المعرفة، بيروت)

خشک پیشاب کا حکم

 اگر پیشاب کسی زمین پر گرا ہو اور وہ زمین خشک ہو جائے تو وہ  زمین خشک ہونے اور نجاست کا اثر باقی نہ رہنے کی صورت میں بغیر دھوئے پاک ہوجائے گی،  اس پر نماز پڑھنا تو جائز ہوگا لیکن پانی سے دھوئے بغیر اس پر  تیمم نہیں کیا جاسکتا۔ 

احتیاط یہ ہے کہ اس زمین یا فرش کو پاک کر لیا جائے، اسے پاک کرنے کے دو طریقے ہیں:

1۔ ا س پر پانی ڈال کر صاف کیا جائے، پھر  کپڑے سے خشک کرلیا جائے، اس طرح تین مرتبہ کرنے سے وہ پاک ہوجائے گا۔

2۔ مذکورہ فرش پر اتنی وافر مقدار میں پانی ڈال کر بہا دیا جائے کہ اس پر نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے اور پھر وہ خشک ہوجائے تو اس طرح بھی وہ پاک ہوجائے گا۔

وفي الهندیة(۴۳/۱) :

" الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلها، فإن کانت رخوةً یصب الماء علیها ثلاثاً فتطهر، وإن کانت صلبةً قالوا: یصب الماء علیها وتدلك ثم تنشف بصوف أوخرقة، یفعل کذلك ثلاث مرات فتطهر، وإن صب علیها ماء کثیر حتی تفرقت النجاسة ولم یبق ریحها ولا لونها وترکت حتی جفت تطهر، کذا في فتاویٰ قاضی خان".

" البول إذا أصاب الأرض واحتیج إلی الغسل یصب الماء علیه ثم یدلك وینشف ذلك بصوف أو خرقة فإذا فعل ذلك ثلاثاً طهر، وإن لم یفعل ذلك ولكن صب علیه ماء کثیر حتی عرف أنه زالت النجاسة ولایوجد في ذلك لون ولا ریح، ثم ترک حتی نشفته الأرض کان طاهراً". (المحیط البرهاني۱؍۳۸۲)

البحرالرائق میں ہے:

’’وإن كان اللبن مفروشاً فجف قبل أن يقلع طهر بمنزلة الحيطان، وفي النهاية: إن كانت الآجرة مفروشةً في الأرض فحكمها حكم الأرض، وإن كانت موضوعةً تنقل وتحول، فإن كانت النجاسة على الجانب الذي يلي الأرض جازت الصلاة عليها، وإن كانت النجاسة على الجانب الذي قام عليه المصلي لاتجوز صلاته‘‘. (1/235)

حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح  میں ہے:

’’ والمراد بالأرض مايشمله اسم الأرض، كالحجر والحصى والآجر واللبن ونحوها، إذا كانت متداخلةً في الأرض غير منفصلة عنها‘‘. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها، (1/231) ط: غوثيه) 

Monday 15 July 2024

روپے کے بدلے ڈالرکی ادھار خریدوفروخت

 کرنسی کے بدلے کرنسی کی جو بیع  ہوتی ہے اس کی حیثیت بیع صرف کی ہے، اس لیے اس طرح کی بیع میں ادھار جائز نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ سودا نقد کیا جائے اور مجلس عقد میں ہی ہاتھ کے ہاتھ  جانبین سے عوضین پر قبضہ بھی ہوجائے ،ورنہ بیع باطل  ہوجائے گی،اسی طرح  ڈالر کی اد ھار خرید و فروخت کرنا جائز نہیں،یعنی جب ڈالر خریدا جائے تو اسی مجلس میں ڈالر پر قبضہ کرلیا جائے اور ساتھ ہی اس کی رقم بھی بیچنے والے کے حوالے کردی جائےاور جب اس کو بیچا جائے تو اسی وقت اس کی قیمت پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ڈالر بھی خریدار کو حوالہ کردیا جائے،بصورتِ دیگر یہ معاملہ سودی ہوجانے کی وجہ سے جائز نہ ہوگا


"الفتاوى الهندية"میں ہے:

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية."

(کتاب الصرف،الباب الأول، ،ج:٣، ص:٢١٧، ط:دار الفكر،بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)".

(باب الصرف، ج: 5، ص: 257 - 259،  ط: سعيد)

چار رکعت والی نماز میں پانچویں کے لیے کھڑا ہونے کی صورت میں نماز کا حکم

 صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ شخص  اگر  فرض نماز پڑھ رہا تھا اور چوتھی رکعت کے قعدہ میں بیٹھا تھا اور اس کے بعد  پانچویں رکعت کے لیے غلطی سے کھڑا ہوگیا تو  جب تک  وہ پانچویں رکعت کا سجدہ  نہ کرلے  قعدہ  کی طرف  واپس لوٹ آئے  اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے، اور اگر  پانچویں رکعت کا سجدہ کرلیا ہو تو اب اس کے ساتھ چھٹی رکعت بھی ملادے اور آخر میں سجدہ سہو کرلینے سے نماز ہوجائے گی، چار رکعت فرض اور دو نفل ہوجائے گی۔

اور اگر مذکورہ شخص نے  چوتھی رکعت پر قعدہ  نہیں کیا تھا اور اس کے بعد پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا تو پانچویں رکعت کے سجدہ سے پہلے پہلے واپس قعدہ میں آجائے، اور سجدہ سہو کرکے نماز  مکمل کرلے، اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ بھی کرلیا ہو تو اب اس کی فرض نماز باطل ہوگئی،  اب اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے۔ 

الفتاوى الهندية (1/ 129):
’’رجل صلى الظهر خمساً وقعد في الرابعة قدر التشهد إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة عاد إلى القعدة وسلم، كذا في المحيط. ويسجد للسهو، كذا في السراج الوهاج. وإن تذكر بعدما قيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة لا يعود إلى القعدة ولا يسلم، بل يضيف إليها ركعةً أخرى حتى يصير شفعاً ويتشهد ويسلم، هكذا في المحيط. ويسجد للسهو استحساناً، كذا في الهداية. وهو المختار، كذا في الكفاية. ثم يتشهد ويسلم، كذا في المحيط. والركعتان نافلة ولا تنوبان عن سنة الظهر على الصحيح، كذا في الجوهرة النيرة ... وإن لم يقعد على رأس الرابعة حتى قام إلى الخامسة إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة عاد إلى القعدة، هكذا في المحيط. وفي الخلاصة: ويتشهد ويسلم ويسجد للسهو، كذا في التتارخانية. وإن قيد الخامسة بالسجدة فسد ظهره عندنا، كذا في المحيط‘‘

Sunday 14 July 2024

تقسیم ترکہ تین بیٹی اور پانچ بیٹوں کے مابین

 صورتِ مسئولہ میں اگر مرحوم کے ورثاء میں صرف تین بیٹی او ر پانچ بیٹے ہیں، اور اس کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے ، تو اس صورت میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ  علی الارث یعنی تجہیز وتکفین کاخرچہ ادا کرنے کے بعد، مرحوم کےذمہ اگر کوئی قرض ہوتواسے ادا کرنے کے بعد، مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کےبعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو (13)حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کے تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو دو-دو  حصے اور مرحوم کی تین بیٹیوں میں سے ہرایک بیٹی کو ایک- ایک حصہ ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:13

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
22
22111

بیٹا(2)

فإن الأصل في تقسيم الميراث بين الأبناء والبنات أن يعطى الذكر ضعف الأنثى، كما يدل له قوله تعالى: يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين {النساء:11}

جس بیٹے کا انتقال والدکی زندگی میں ہوگیا اسے وراثت میں کویی حصہ نہیں ملے گا ۔

الموسوعۃ الفقھیۃالکویتیۃ میں ہے:

"(وللإرث ‌شروط ‌ثلاثة) :۔۔۔۔۔۔۔ ثانيها: تحقق حياة الوارث بعد موت المورث."

(شروط المیراث، ج:3،ص:22،ط:دار السلاسل)