https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 1 August 2024

ولید اللہ نام رکھنا

 "ولید"نومولودبچےکوکہاجاتاہے، اور"ولید اللہ" کامعنی اللہ کاجناہوابنتاہے، اوریہ معنی شرعاًبالکل بھی درست نہیں ، لہذاجس بچے کانام لاعلمی میں "ولیداللہ"، رکھا گیاہے اسےتبدیل کرلیاجائے، آپﷺ بھی جب کسی کےنام کامعنیٰ نامناسب ہوتاتواسےتبدیل فرماتےتھے ، بہتریہ ہےکہ انبیاءکرام علیہم الصلاۃ والسلام یاصحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین  کےناموں میں سےکسی نام کاانتخاب کیاجائے، یہ باعث برکت ہے، ورنہ کوئی بھی اچھابامعنی نام منتخب کرسکتےہیں۔

قرآن کریم میں ہے:

{لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ}

(سورة الإخلاص, الآیه:3)

ترجمہ:"نہ کسی کوجنا، نہ کسی سےجنا۔"

سنن ابی داؤدمیں ہے:

"عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم غير اسم عاصية وقال: "أنت جميلة۔"

(کتاب الأدب، باب في تغيير الاسم القبيح، ج:4، ص:443، ط:المطبعة الأنصارية)

ترجمہ:حضرت ابن عمررضی اللہ عنہماسےروایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نےعاصیہ نامی عورت کانام تبدیل کرلیا، اورفرمایاکہ:آپ کانام جملیہ ہے۔"

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لا يفعل كذا في المحيط."

(كتاب الكراهية،الباب الثاني والعشرون في تسمية الأولاد وكناهم والعقيقة،ج:5،ص:362،ط:دار الفكر)

جاثیہ نام رکھنا

  "جاثیہ" کا معنی ٰہے، گھٹنوں کے بل بیٹھنے والی خاتون     اس معنی کے لحاظ سے یہ نام مناسب نہیں ہے، لہذا  لڑکے یا لڑکی کا نام انبیاءِ  کرام علیہم الصلاۃ و السلام یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا نیک لوگوں کے ناموں پر نام رکھا جائے،یا کم از کم ایسا نام رکھا جائے جس کا معنیٰ شرعاً مناسب اور اچھا ہو۔  ناموں کے حوالہ سے جامعہ کی ویب سائٹ پر جنس منتخب کرکے ،  حروف تہجی کے اعتبار سے  اچھے اور بامعنی نام  تلاش کرسکتے ہیں، اس کا لنک درج ذیل ہے:

اسلامی نام

لسان العرب میں ہے:

"والجاثي: القاعد. وفي التنزيل العزيز: وترى كل أمة جاثية

قال مجاهد: مستوفزين على الركب. قال أبو معاذ: ‌المستوفز الذي رفع أليتيه ووضع ركبتيه."

(حرف الجیم، فصل الجیم، ج:14، ص:132، ط:دار صادر - بيروت)

ام الورء نام رکھنا

 "ام الوراء" دو لفظوں سے مرکب نام ہے،لفظ" ام" کا معنی عربی لغت میں ماں کے ہےاور لفظ ’’وراء‘‘ عربی لغت میں کئی معانی میں مستعمل ہے، مثلا پیچھے، سامنے، سوائے، پوتا  وغیرہ،  لہذا" ام الوراء" نام کوئی اچھے معانی والا نہیں ہے،لہذابچے یا بچی کا یہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ بچوں کے نام انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، ازواجِ مطہرات، صحابیات یا نیک مسلمان مرد یاعورتوں کے نام پر رکھے جائیں، یا کوئی اچھے معنیٰ والا نام رکھا جائے جو مسلمانوں میں معروف ہو، بچوں کے اچھے ناموں کے انتخاب کے لیے درج ذیل اسلامی ناموں کے سیکشن  سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے:

اسلامی نام

مفردات القران میں ہے:

" الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القريبة التي ولدته، والبعيدة التي ولدت من ولدته."

( کتاب الألف،75، ط: دار القلم، الدار الشامية - دمشق بيروت)

تاج العروس میں ہے:

" وعن ابن السكيت: الوراء الخلف، قال: يذكر (ويؤنث) ، وكذا أمام وقدام.وقال ابن الأعرابي في قوله عز وجل: بما ورآءه وهو الحق (البقرة: 91) أي بما سواه، والوراء: الخلف، والوراء: القدام.(والوراء: ولد الولد) ، ففي التنزيل: ومن ورآء إسحاق يعقوب(هود: 71) قاله الشعبي."

(فصل الواو مع الھمزۃ،487/1، ط:وزارة الإرشاد والأنباء في الكويت)

لسان العرب میں ہے:

" والوراء أيضا: ولد الولد. وفي حديثالشعبي: أنه قال لرجل رأى معه صبيا هذا ابنك؟ قال: ابن ابني، قال: هو ابنك من الوراء

؛ يقال لولد الولد: الوراء، والله أعلم." 

(فصل الواو،391/15، ط: دار صادر - بيروت)

تانبے پیتل اور چمڑے کے برتن استعمال کرنا

 سونے اور چاندی کے برتن کے علاوہ کسی بھی پا ک برتن کو استعمال میں لانا جائز ہے چاہے وضو کےلیے ہو یا دیگر ضروریا ت کےلیے ،صورت مسئولہ میں مذکورہ برتن کو وضو کے لیے استعمال کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما الآنية من غير الفضة والذهب فلا بأس بالأكل والشرب فيها، والانتفاع بها كالحديد والصفر والنحاس والرصاص والخشب والطين اهـ ".

(رد المحتار،ج:6 / ص: 343،ط: سعید)

کرکٹ کھیلنا

 شریعتِ مطہرہ میں چند شرائط کے ساتھ   مختلف کھیلوں کی اجازت دی ہے، مثلاً اس میں دینی یا دنیوی نفع ہو، وہ کھیل فی نفسہ جائز ہو، اس میں مشغول ہو کر فرائض اور واجبات کا ترک لازم نہ آتا ہو اور دیگر غیر شرعی امور  (مثلاً ویڈیو تصاویر ، مرد وزن کا اختلاط   وغیرہ) کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو،  اگر کسی کھیل میں اس طرح کی شرائط پائی جائیں، تو وہ کھیل   فی نفسہ جائز   ہے،  لہٰذا مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے کرکٹ کھیلنا جائز ہے، اگر ان شرائط کی رعایت نہ رکھی جائے، تو کرکٹ کھیلنا جائز نہیں ہے۔

  تکملۃ فتح الملہم شرح صحیح المسلم میں ہے:

"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه‘‘.

( کتاب الشعر، باب تحریم اللعب بالنردشیر،381/4، ط:  داراحیاء التراث العربی)

بیوی کو لیکر شاپنگ پر جانا

 بہتریہ ہے کہ شوہرخودہی خریداری کرے،آج کل مخلتف ذرائع سےخواتین کی پسندکی ہی چیزیں گھربیٹھےمنگوائی جاسکتی ہیں،لہٰذاعورت کےلیےبلاضرورت گھرسےخریداری کےلیےنکلناجائزنہیں،خصوصاًجب کہ بازارمیں مردوں کےساتھ بےتکلفانہ گفتگو،بھاؤ تاؤاوراختلاط ہو،تاہم اگرمجبوری ہوتوشوہر اپنی بیوی کو  مکمل پردےکی رعایت کےساتھ خریداری کےلیے  اپنےساتھ لےجاسکتاہے۔

الدرالمختار میں ہے:

"(وينقلها فيما دون مدته) أي السفر (من المصر إلى القرية وبالعكس) ومن قرية إلى قرية لأنه ليس بغربة، وقيده في التتارخانية بقرية يمكنه الرجوع قبل الليل إلى وطنه، وأطلقه في الكافي قائلا: وعليه الفتوى."

(کتاب النکاح، باب المهر، مطلب فی السفر بالزوجة، ج: 3، ص: 147، ط: سعيد)

تفسيرمظہری میں ہے:

"أمر بالقرار في البيوت وعدم الخروج بقصد المعصية كما يدل عليه قوله تعالى وَلا تَبَرَّجْنَ فإنه عطف تفسيري وتأكيد معنى وليس في الآية نهي عن الخروج من البيت مطلقا."

(ج: 7، ص:338، ط: رشيدية)

عورت کا ناپاکی کی حالت میں بچے کودودھ پلانا

 بچے کو دودھ پلانے کے لیے عورت کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے، لہذا حالتِ جنابت میں بھی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے  ۔ البتہ بچے کو فوری طلب نہ ہو تو غسل کرکے پلانا بہتر ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(عن عائشة قالت: كنت أرجل رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم) : أي شعر رأسه (و أنا حائض) : فيه جواز المخالطة مع الحائض  ... و في الحديث دلالة على ‌طهارة ‌بدن ‌الحائض ‌وعرقها."

(كتاب اللباس، باب الترجل، ج:7، ص:2813، ط:دار الفكر)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"وإن أراد أن يأكل أو يشرب فينبغي أن يتمضمض ويغسل يديه."

(كتاب الطهارة، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث في المعاني الموجبة للغسل، ج:1، ص:16، ط:رشيدية)

چہرے کی سرجری کرانا

 ازروئے شریعت   سرجری کروانے کی گنجائش صرف اُن انسانی عیب دار اعضاء میں دی  گئی ہے،جوسرجری کے بغیرانسان کے لیے باعث تکلیف ہوں یا جن میں سرجری نہ کروائی جائے توبیماری بڑھنے  یا پھیلنے کا امکان ہو، تاہم حُسن  وخوبصورتی کے لیے یا مزید پُر کشش بننے کے لیےکسی بھی قسم کی سرجری   کا عمل "تغییر لخلق اللّٰه" کے زمرے میں آتا ہے جو کہ حرام ہے،لہذا صورت مسئولہ میں بغیر کسی شرعی وجہ کے چہرے کی سرجری کرواناجائز نہیں ہے۔ تاہم اگر عیب ہو تو ازالہ عیب تک کی اجازت ہے۔

قرآن پاک میں ہے :

"{ لَعَنَهُ اللَّهُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا  وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِوَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِوَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا}"[النساء:118، 119]

ترجمہ :" جس کو خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور ڈال رکھا ہے اور جس نے یوں کہا تھا کہ میں ضرور تیرے بندوں سے اپنا مقرر حصہ (اطاعت کا) لوں گا۔ اور میں ان کو گمراہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس میں وہ چوپایوں کے کانوں کوتراشا کریں گے اورمیں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ الله تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے  اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کرشیطان کو اپنا رفیق بناوے گا وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔ "

(بيان القرآن ،ج:1،ص:157،ط:كتب خانه آرام باغ)

تفسیر قرطبی میں ہے :

"وهذه الأمور كلها قد شهدت الأحاديث بلعن فاعلها وأنها من الكبائر. واختلف في المعنى الذي نهي لأجلها، فقيل: لأنها من باب التدليس. وقيل: من باب تغيير خلق الله تعالى، كما قال ابن مسعود، وهو أصح، وهو يتضمن المعنى الأول. ثم قيل: هذا المنهي عنه إنما هو فيما يكون باقيا، لأنه من باب تغيير خلق الله تعالى، فأما ما لايكون باقيًا كالكحل والتزين به للنساء فقد أجاز العلماء ذلك مالك وغيره، وكرهه مالك للرجال."

(سورة النساء، آية: ۱۱۹، ج: ۵، صفحہ: ۳۹۳،  ط:  دار الکتب المصرية)

بیوی کے ہاتھ سے مشت زنی کرانا

 بیوی کی بیماری یا حیض یا نفاس کی حالت میں شوہر پر غلبۂ شہوت کی صورت میں بیوی سے  یہ فعل کروانا جائز ہے، البتہ عام حالات میں بیوی کے ہاتھ سے یہ عمل مکروہِ تنزیہی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويجوز أن يستمني ‌بيد ‌زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة: أنه يكره، ولعل المراد به كراهة التنزيه، فلا ينافي قول المعراج: يجوز، تأمل ...لأن فعله ‌بيد ‌زوجته ونحوها فيه سفح الماء، لكن بالاستمتاع بجزء مباح، كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين، بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه، وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضا، ويدل أيضا على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية، وقال: فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة، اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما، هذا ما ظهر لي. والله سبحانه أعلم."

(ج:2، ص:399، كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، مطلب في حكم الاستمناء بالكف، ط:سعيد)

وایضاً:

"[فرع]في الجوهرة: الاستمناء حرام، وفيه التعزير. ولو مكن امرأته أو أمته من العبث بذكره فأنزل كره ولا شيء عليه.

وفي الرد: (قوله: كره) الظاهر أنها كراهة تنزيه؛ لأن ذلك بمنزلة ما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين تأمل."

(ج:4، ص:27، کتاب الحدود، ‌‌باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وله أن يقبلها ويضاجعها ويستمتع بجميع بدنها ما خلا ما بين السرة والركبة عند أبي حنيفة وأبي يوسف. هكذا في السراج الوهاج."

(الفتاوى الهندية، كتاب  الطهارة، الباب السادس : الدماء المختصة  بالنساء، الفصل الرابع في الحيض، ج:1، ص:93)

گھڑی کونسے ہاتھ میں پہننا بہتر ہے

 شرعی اعتبار سےگھڑی پہننے میں کسی ہاتھ کی تعیین  نہیں، اپنی سہولت کے مطابق جس ہاتھ میں چاہیں  پہن سکتے ہیں ، البتہ اکثر  خیر  کی چیزوں میں   آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں سمت کو ترجیح دی ہے،گھڑی بھی خیر کا ذریعہ ہے، کیوں کہ اس سے نماز وں کے اوقات معلوم ہوتے ہیں،اس لیے گھڑی بھی دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے ، البتہ اگر کوئی بائیں ہاتھ میں پہنے، تو بھی کوئی حرج نہیں ۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن عائشة قالت: «كان النبي صلى الله عليه وسلم ‌يحب ‌التيمن ما استطاع في شأنه كله، في طهوره وترجله وتنعله»."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب التيمن في دخول المسجد وغيره، ج:1، ص:93، رقم الحدیث:426، ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جتنا ممکن ہو سکتا تھا اتنا اپنے ہر کام میں دائیں جانب سے ابتدا کرنے کو پسند کرتے تھے، مثلا: طہارت حاصل کرنے میں، اور کنگھی کرنے میں، اور جوتے پہنے ہیں ۔ (کشف الباری)

الیکٹرک مشین سے مچھروں کو مارنا

 مذکورہ مشین  (جس میں کرنٹ کے ذریعہ مچھر ہلاک ہوتے  ہیں) کے ذریعہ مچھر مارنا (مسجد اور غیر مسجد دونوں میں ) جائز ہے، البتہ بلاعذر مچھروں کے آگ کے ذریعہ جلا کر مارنا یا  کسی ایسی مشین کے ذریعہ اپنے عمل سے ان کو جلا کر مارنا  مکروہ  ہے، اور  اگر کسی نصب شدہ مشین میں وہ خود آکر  جل کر مرجائیں تو یہ صورت مکروہ نہیں ہے۔  

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"قتل النملة تكلموا فيها والمختار أنه إذا ابتدأت بالأذى لا بأس بقتلها وإن لم تبتدئ يكره قتلها واتفقوا على أنه يكره إلقاؤها في الماء وقتل القملة يجوز بكل حال كذا في الخلاصة

 وإحراق القمل والعقرب بالنار مكروه وطرح القمل حيا مباح لكن يكره من طريق الأدب كذا في الظهيرية."

(كتاب الكراهية، الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات، ج:5، ص:361، ط:رشيدية)

ولیمہ کا مسنون وقت

 " ولیمہ مسنونہ" کا اعلیٰ اور افضل درجہ یہ ہے کہ شبِ زفاف اور صحبت   کے بعد ہو، اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ  شبِ زفاف کے بعد اور صحبت سے پہلے ہو،  یہ دونوں مسنون ولیمہ شمار ہوں گے،  اور اس کے علاوہ  نفس نکاح  کے بعد، یا رخصتی کے بعد اور شبِ زفاف سے پہلے جو ولیمہ ہو وہ " ولیمہ مسنونہ" تو نہیں ہوگا، البتہ اس سے نفسِ ولیمہ کی سنت ادا ہوجائے گی، گو مسنون وقت کی سنت ادا نہیں ہوگی، اور جو دعوت/ ضیافت عقدِ نکاح سے ہی پہلے کی جائے وہ ولیمہ ہی نہیں ہوگا، بلکہ عام دعوت ہوگی۔نیز  شبِ زفاف  کے تیسرے دن تک حدیث شریف سے ولیمہ کا ثبوت ہے، اگر شبِ زفاف کے بعد پہلے دن انتظام ہوسکتا ہو تو سب سے بہتر پہلا دن ہے، تیسرے دن کے بعد ولیمہ کرنا فقط ضیافت شمار ہوگی۔

اگر مہمان زیادہ ہوں، یا کسی مقام کا عرف ایک ہی دفعہ ولیمہ منعقد  کرکے مہمانوں کو بلانے کے بجائے  یہ ہو  کہ یکے بعد دیگرے مہمان آتے ہوں اور کھا کر چلے جاتے ہوں تو مستقلاً تین دن تک بھی ولیمہ کا کھانا کھلایا جاسکتا ہے،  حضورِ اقدس ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح میں اسی طرح تین دنوں تک ولیمہ فرمایا ہے، الغرض ولیمہ ایک دن میں کر دیا جائے یا عرف کے مطابق مسلسل تین دنوں تک دونوں درست ہیں، لیکن مسلسل تین دن تک کھانا کھلانے میں یہ شرط ملحوظ رہے کہ اس میں دکھلاوا یا اسراف نہ ہو، بلکہ حسبِ استطاعت سنت کے اتباع کی نیت سے اس معاملے کو انجام دیا جائے۔ ایک حدیث میں ہے ' پہلے دن ولیمہ حق ہے، دوسرے دن نیکی ہے، اور  (مسلسل) تیسرے دن سناوا اور دکھلاواہے'۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"و عن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه و سلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً و لحماً. رواه البخاري".

 (كتاب النكاح،الفصل الاول، باب الولیمة، 278/2،ط: قدیمی)

وفیہ ایضا: 

" قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طعام أول يوم حق وطعام يوم الثاني سنة وطعام يوم الثالث ‌سمعة ومن سمع سمع الله به» . رواه الترمذي".

(‌‌كتاب النكاح،‌‌باب الوليمة،الفصل الثاني،٩٦٢/٢،ط : المكتب الإسلامي)

درختوں کی پیوند کاری درست ہے کہ نہیں

 درختوں اور پودوں کی پیوند کاری کرنا شرعاًجائز ہے،خواہ یہ پیوند کاری  ایک ہی قسم (جنس)کے  درختوں میں کی جائے یا ایک قسم کے درخت کو دوسری قسم کے درخت میں پیوند کیا جائے،احادیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں درختوں میں پیوندکاری کرنے کا ثبوت ملتا ہے،باقی اس کا کوئی مخصوص  شرعی طریقہ نہیں۔

 سنن ابن ماجہ میں ہے:

"حدثنا محمد بن يحيى قال: حدثنا عفان قال: حدثنا حماد قال: حدثنا ثابت، عن أنس بن مالك، وهشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم سمع أصواتا، فقال: «ما هذا الصوت؟» قالوا: النخل يأبرونه، فقال: «لو لم يفعلوا لصلح» ، فلم يؤبروا عامئذ، فصار شيصًا، فذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «إن كان شيئًا من أمر دنياكم، فشأنكم به، و إن كان شيئًا من أمر دينكم، فإلي»."

(کتاب الرھون،  باب تلقیح النخل، ج:2، ص:825، ط:دار إحياء الكتب العربية)

"ترجمہ:ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں تو پوچھا: ”یہ کیسی آواز ہے“؟ لوگوں نے کہا: لوگ کھجور کے درختوں میں پیوند لگا رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کریں تو بہتر ہو گا“ چنانچہ اس سال ان لوگوں نے پیوند نہیں لگایا تو کھجور خراب ہو گئی، لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری دنیا کا جو کام ہو، اس کو تم جانو، البتہ اگر وہ تمہارے دین سے متعلق ہو تو اسے مجھ سے معلوم کیا کرو“۔