https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 29 February 2020

ہندوستانی نظام انصاف پر بی بی سی کا تجزیہ

انصاف کی امید کس سے کریں؟

  •  
   

Image copyrightGETTY IMAGESمایا کوڈنانی
Image captionاحمد آباد کی ذیلی عدالت نے مایا کوڈنانی کو 28 سال قید کی سزا سنائی تھی
انڈیا کی ریاست گجرات کی ہائی کورٹ نے جمعہ کو بی جے پی کی رہنما اور سابق وزیر مایا کوڈنانی اور کئی دیگر افراد کو گجرات فسادات کے تمام الزامات سے بری کر دیا۔
مایا کوڈنانی پر الزام تھا کہ انھوں نے گودھرا میں سابرمتی ٹرین کے ایک ڈبے میں ایودھیا سے واپس آنے والے 50 سے زیادہ ہندو زائرین کو ہلاک کیے جانے کے بعد احمدآباد کی ایک مسلم بستی میں مسلمانوں پر حملے کے لیے ہندوؤں کے ایک ہجوم کو مشتعل کیا تھا۔
اس واقع کی تفتیش سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم نے کی تھی۔ احمد آباد کی ذیلی عدالت نے سنہ 2012 میں مایا کوڈنانی کو 28 برس قید کی سزا دی تھی۔ انھوں نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
وہ فسادات کے دوران گجرات کی مودی حکومت میں وزیر تھیں اور سزا پانے والی وہ سب سے اہم حکومتی اہلکار تھیں۔ ہائی کورٹ نے انھیں ناکافی ثبوتوں کی بنا پر الزاما ت سے بری کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اس سے قبل گذشتہ پیر کو حیدر آباد کی مکہ مسجد بم دھماکے کے سلسلے میں وہاں کی ایک ذیلی عدالت نے سوامی اسیمانند سمیت سبھی ملزموں کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ تفتیش کار اس دھماکے میں ملزمان کا ہاتھ ہونے کا الزام ثابت نہیں کر سکے۔
Image copyrightGETTY IMAGESمکہ مسجد
Image captionحیدر آباد کی مکہ مسجد بم دھماکے کے سلسلے میں وہاں کی ایک ذیلی عدالت نے سوامی اسیمانند سمیت سبھی ملزموں کو تمام الزامات سے بری کر دیا
اس سے پہلے سوامی اسیم آنند نے اقبالیہ بیان میں دھماکے میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ انھوں نے ایک میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بھی اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے مکہ مسجد دھماکے کے سلسلے میں تفتیش کاروں نے پہلے متعدد مسلمانوں کو گرفتار کیا وہ کئی برس تک جیل میں رہے اور جب مزید تفتیش ہوئی تو انھیں بے قصور پایا گیا۔
فسادات، فرضی تصادم اور بم دھماکوں کے کئی اہم مقدمات ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور تقریـباً ہر ہفتے کسی نہ کسی مقدمے سے یہ خبر آتی ہے کہ تفتیش کاروں نے جنھیں اپنا گواہ بنا کر پیش کیا تھا وہ منحرف ہوتے جا رہے ہیں۔
اہم گواہوں کے منحرف ہونے سے تفتیش کی کڑیاں ٹوٹنے لگتی ہیں اور ملزم کے خلاف جرم ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس اور سمجھوتہ ایکسریس بم دھماکے جیسے اہم مقدمات میں درجنوں گواہ منحرف ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
معروف صحافی راج دیپ سر دیسائی نے انصاف کی موجودہ صورت حال پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا 'جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو ثبوت بھی بدل جاتے ہیں، الزامات بدل جاتے ہیں، تفتیش کار تبدیل ہو جاتے ہیں اور فیصلے بھی بدل جاتے ہیں۔ ان حالات میں جب ہر اہم مقدمے کو سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے تو پھر انصاف کے نظام پر کس طرح یقین کیا جائے۔'
Image copyrightNALSA.GOV.INدیپک مشرا
Image captionچیف جسٹس دیپک مشرا کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے
ملک میں تفتیش کا نظام شدید سیاسی دباؤ میں ہے۔ تفتیش اب سیاست کی تابع ہوتی جا رہی ہے۔ پولیس اور سی بی آئی جیسے اداروں کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے اور ان پر لوگوں کا یقین شکستہ ہو چکا ہے۔ امید کا آخری محور، ملک کی عدلیہ بھی اب ساکھ کے بحران سے گزر رہی ہے۔
چند ہفتے قبل سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججوں نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس میں ملک کے چیف جسٹس کے طریقۂ کار پر سوالات اٹھائے تھے۔ اب حزب اختلاف کی جماعتوں نے چیف جسٹس کو ہٹانے کے لیے مواخذے کی قرارداد پیش کی ہے۔ یہ صورت حال عدلیہ، حکومت اور ملک کی عوام کے لیے فکر کا باعث ہے۔
عدل کا نظام اگرچہ ملک کی اکثریت کی پہنچ سے باہر ہے اور اس کا عمل اتنا طویل ہے کہ انصاف ملتے ملتے اکثر وہ اپنا اثر اور مقصد کھو دیتا ہے لیکن اس کے باوجود عدلیہ عوام کی آخری امید ہے۔
انصاف کا یہ ادارہ پوری آزادی اور خود مختاری کے ساتھ اپنا کام کرتا رہا ہے۔ اس کی غیر جانبداری، خود مختاری اور اس کے وقار کا تحفظ ملک کے جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔
ملک کے عدل و انصاف کے نظام کو تنازعات اور شکوک سے پاک رکھنے کے لیے ججوں کی تقرری سے لے کر انصاف کے عمل تک ہر پہلو میں شفافیت لانے کی ضررت ہے۔ عدلیہ کی غیر جانبداری اور خود مختاری کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے اسے ہر طرح کی سیاست اور مداخلت سے پاک رکھا جائے۔

Friday 28 February 2020

دہلی کے فسادات کی جواب دہی کس کے ذمے؟

بظاہردہلی کے فسادات منصوبہ بند طریقے سے حکومت نے کرائے ہیں جو مسلمانوں کی کھلی ہوئی دشمن ہے.کیونکہ آرایس ایس کے غنڈے تلوار اٹھائے لاٹھی اور ڈنڈوں ہتھیاروں سے لیس متعدد ویڈیو فوٹیج میں حتی کہ مسجد کے مینار پر بھی چڑھے نظر آرہے ہیں. بعض فوٹیج سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس برابرکی شریک ہے مسلمانوں کو دیمک کہنے والے امت شاہ  وزیر داخلہ ہونے کی بنا پرپولیس کے سربراہ ہیں انہوں نے ہی پولیس کو شہہ دی ورنہ اتنازبردست فساد ممکن نہیں تھا  اب کسی میں ہمت ہے جو ان سے پوچھے! کٹھ پتلی راشٹر پتی میں بھی نہیں !مہاڈرپوک اور کرپٹ رشوت خور عدلیہ میں بھی نہیں! قارون زمانہ ڈولنڈ ڈرمپ میں بھی نہیں,آرایس ایس نفرت کے بیج جب تک بوتی رہی گی انسانیت کا خون اور گاندھی کا قتل باربار ہندوستان میں ہوتارہے گا, کیاہندومذہب معصوم لوگوں کو بلاوجہ قتل کرنے کی اجازت دیتاہے؟نفرت کی سیاست کرنے کی اجازت دیتاہے؟بھید بھاؤ کی اجازت دیتا ہے ؟میرا خیال ہے بالکل نہیں دیتا,پھر یہ آرایس ایس ,مودی ,یوگی امت شاہ ,بی جے پی,انوراگ,کپل شرما,گری راج وغیرہ وغیرہ,کیسے ہندوہیں ,یہ تو کھلے عام نفرت کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے ہندوہونے پر انہیں فخرہے! اگر سارے ہندو ایسے ہی ہوجائیں تونفرت کی آگ لگ جائے.عام ہندو شریف اور سادہ ہے اس کی غلطی یہ ہے کہ وہ ان خون کے سوداگروں کے بہکاوے میں آجاتاہے.دہلی کے فسادات گوڈسے کے پرستاروں نے کرائے ہیں جو امن وآشتی کے دشمن ہیں انہیں گاندھی سے نفرت ہے.بی جے پی کے کئ ایم پی ایم ایل اے گوڈسے کی تعریف کرچکے ہیں.حتی کہ ایک صاحب کھلے عام گاندھی کی تحریک کو ڈرامہ بازی سے تعبیر کرچکے ہیں .حقیقت یہ کہ ہندوستان کے سبھی اہم مناصب پر خواہ وہ صدارت,ہو یاوزارت عظمی عدلیہ ,فوج ,پولیس بیوروکریسی وغیرہ سبھی پر آرایس ایس کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اس لئے بڑی سے بڑی واردات ,فسادات ہوں یا بالکل بکواس اور مضکہ خیز فیصلے, ایم پیز کی نفرت آمیز ہزیان سرائی ہو یا انتقام کی سیاست,حتی کے فرقہ پرستی پرمبنی قانون سی اے اے تک اسی پارلیامنٹ نے پاس کردیا جواپنے کو گاندھی کی آماجگاہ کہنے پر فخر محسوس کرتی ہے .اب ایک مضبوط ومستحکم عدلیہ کی ضرورت ہے جو گوگوئی کی طر ح جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر فیصلہ کرکے انصاف کاخون نہ کرے بلکہ اس میں ٹی این سیشن کی جرأت ہونی چاہئے,حقیقت یہ ہے کہ نفرت کی سیاست کرکے بی جے پی اور اس کی حامی پارٹیاں ہندومذہب سے دنیا کو بدگمان کررہی ہیں سچے حقیقی مذہب پرست ہندوؤں کو آگے آکر ان کی کھلے عام اصلاح کرنی چاہئے اور اپنے مذہب کی سچی تصویر پیش کرنی چاۂیے مذہب کے نام پر خون خرابہ کرنے والوں اور اپنی سیاست چمکانے والوں کو اس گندی حرکت سے باز رکھنا چاہئے,

دہلی کے فسادات پر بی بی سی کا تجزیہ

#DelhiRiots: دلی میں 1984 کے سکھ مخالفت اور حالیہ مسلم مخالف فسادات میں پولیس کا کردار

हिंसा के बाद दिल्ली की सूरतتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionفسادات کے بعد خوف کی فضا
’ہم دلی میں دوسرا 1984 نہیں ہونے دیں گے۔ کم از کم اس عدالت کے ہوتے ہوئے تو ایسا نہیں ہوگا۔‘
دلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر نے بدھ کو مرکزی حکومت اور دلی سرکار کی باز پرس کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی۔
جسٹس مرلی دھر نے 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے سکھ مخالف فسادات کا حوالہ دیا تھا جس میں صرف دلی میں کم از کم 3000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ادھر مہاراشٹر میں برسراقتدار شو سینا نے دلی میں حال ہی میں ہونے والے فسادات کا موازنہ 1984 کے فسادات سے کیا ہے۔ شو سینا نے کہا 'دلی کی موجودہ 'ہارر فلم' دیکھ کر 1984 کے فسادات کی حیوانیت یاد آجاتی ہے۔ ان فسادات کے لیے کون ذمہ دار ہے یہ واضح ہونا بہت ضروری ہے'۔
1984 کے بعد یہ پہلی بار ہے جب دلی میں اتنے بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے ہیں۔ اتوار کو شروع ہونے والے یہ فسادات تین روز جاری رہے اور متاثرین اور گراؤنڈ پر موجود صحافیوں نے بتایا کہ یا تو پولیس موجود ہی نہیں تھی یا جو تھی وہ معقول کارروائی نہیں کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
1984 में सिख-विरोधी दंगों में अकेले दिल्ली में 3,000 से ज़्यादा लोग मारे गए थे.تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption1984 میں ، صرف دہلی میں سکھ مخالف فسادات میں 3،000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ دلی کے موجودہ فسادات کا موازنہ 1984 کے فسادات سے کیا جانا صحیح ہے؟

سنجے سوری 1984 میں انگریزی روزنامہ 'دا انڈین ایکسپریس' میں بطور کرائم رپورٹر کام کرتے تھے۔ انہوں نے 1984 کے فسادات کو تفصیلی طور پر رپورٹ کیا تھا اور ان فسادات کے چشمدید گواہ بھی رہے۔
سوری بتاتے ہیں ’ہر فساد مختلف ہوتا ہے۔ دو فسادات کا ایک دوسرے سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہر فساد میں قانون اور انتظامیہ ناکام نظر آتے ہیں'۔
سوری مزید بتاتے ہیں ’1984 میں بہت بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے۔ اس وقت 3000 سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ابھی 32 افراد کے ہلاک ہونے کی خبر ہے۔ لیکن اس سے فسادات کا خوفناک ہونا کم نہیں ہوجاتا ہے۔ ایک شخص کا بھی مارا جانا یا زخمی کیا جانا ہمیں ڈرانے کے لیے کافی ہونا چاہیے'۔
दिल्ली पुलिस पर अपना काम ठीक से न करने के आरोप लग रहे हैं.تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionدہلی پولیس پر اپنے کام کو صحیح طریقے سے نہ کرنے کے الزامات ہیں

پولیس کی ناکامی

1984: دی اینٹی سکھ رائٹس اینڈ آفٹر' نامی کتاب کے مصنف سنجے سوری یاد کرتے ہیں 'سکھ مخالف فسادات کے وقت تو جیسے نظام قانون کا نام و نشان مٹ گیا ہو۔ پولیس اپنا کام بھول گئی تھی۔ یا یوں کہیں کہ پولیس بھی فسادیوں کے ساتھ مل کر تشدد کر رہی تھی'۔
وہ مزید کہتے ہیں 'میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پولیس کس طرح سے تشدد میں شامل تھی۔ اگر میں نے یہ بات کسی اور کے منہ سے سنی ہوتی تو شاید مجھے کبھی یقین نہیں آتا۔ لیکن جو میں نے خود ہوتے ہوئے دیکھا کیسے بھلا دوں یا جھوٹا قرار دے دوں'۔
سوری نے فسادات کے چشم دید گواہ کے طور پر تفتیشی کمیشن کے سامنے اپنے بیانات بھی درج کرائے تھے۔
اب بھی دلی میں ہونے والے تشدد کے دوران پولیس کے کردار پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ دلی ہائی کورٹ نے پولیس کی ’سست‘ کارروائی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
सिख विरोधी दंगों की एक तस्वीरتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسکھ مخالف فسادات کی تصویر
عدالت نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کپل مشرا، پرویش ورما، اور انوراگ ٹھاکر کی جانب سے دیے گئے اشتعال انگیز بیانات کے بعد ایف آئی آر درج نہ کرنے، سوشل میڈیا پر تشدد کی ویڈیو کی تفتیش نہ کرنے اور متاثرین کو فوراً تحفظ نہ دینے پر دلی پولیس سے سوالات کیے ہیں۔
1984 کے فسادات کے دوران رپورٹنگ کرنے والے صحافی راہل بیدی نے پولیس کے کردار پر سوال اٹھائے ہیں۔
راہل بیدی کہتے ہیں 'پولیس کا فسادات میں شامل ہونے کا ہمیشہ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ فسادیوں کے ساتھ مل کر تشدد کر رہی ہے۔ پولیس کا فسادات میں شامل ہونے کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ملزموں کو شہ دے رہی ہے یا انہیں تشدد کرنے سے روک نہیں رہی اوران کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی۔ پولیس کا فسادات میں شامل ہونے کا مطلب ہوتا ہے فسادیوں کو تحفظ دینا'۔
دلی میں فسادات کے دوران کی بعض ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں پولیس کھڑی تشدد ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ متعدد متاثرین اور چشم دید گواہوں نے پولیس پر فوراً کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
1984 کے سکھ مخالف فسادات کو قریب سے دیکھنے والے صحافی پرکاش پاترا کا خیال ہے کہ پولیس کے اس وقت کے رویہ اور اب دلی فسادات کے دوران رویہ ایک جیسا ہے۔
ان کا کہنا ہے 'میں نے 1984 میں دیکھا تھا کہ پولیس اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے تشدد کو نظر انداز کر رہی تھی۔ اس بار بھی شروعات میں پولیس نے ایسا ہی رویہ دکھایا'۔
जब पुलिस दंगा रोकने के लिए निष्पक्ष कार्रवाई नहीं करती, तो राजनीति विज्ञान की भाषा में इसे Pogrom (पोग्रैम) कहते हैं.تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionجب پولیس فساد کو روکنے کے لئے منصفانہ کاروائی نہیں کرتی ہے تو پھر پولیٹیکل سائنس کی زبان میں اسے پوگرم (پوگرام) کہا جاتا ہے۔
جب پولیس فسادیوں کو نہیں روکتی اور تشدد ہونے دیتی ہے تو اس صورتحال میں اس تشدد کو 'پوگرام' یعنی قتل عام کہا جاتا ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خيال ہے کہ دلی میں جو ہوا وہ اسی طرح کی صورتحال ہے۔

انتظامیہ کی نرمی

سنجے سوری کہتے ہیں کہ انتظامیہ اگر چاہے تو فسادات روکنے سے پہلے ہی ان پرقابو پا سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے 'حکومت کے پاس اتنی طاقت ہوتی ہے، اتنے ذرائع ہوتے ہیں کہ اگر وہ واقعی تشدد روکنا چاہے تو روک سکتی ہے۔‘
سوری کہتے ہیں 'اگر تشدد ہونے کے خدشے کے بعد بھی حکومت احتیاطی قدم نہیں اٹھاتی اور فسادات کو قابو سے باہر نکلنے دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شاید حکومت اور انتظامیہ فسادات روکنا ہی نہیں چاہتی۔
وہ مزید کہتے ہیں 'دلی میں جس طرح کے حالات پیدا ہو رہے ہیں، جس طرح سے اشتعال انگیز بیانات دیے جارہے ہیں اور جس طرح کی باتیں سوشل میڈیا پر لکھی جارہی ہیں انہیں دیکھ کر انتظامیہ کو اچھی طرح یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آگے کیا ہونے والا ہے، اس کے باوجود کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے گئے'۔
'अगर हिंसा को बेकाबू होने दिया जाए, तो इसका मतलब यह है कि शायद सरकार और प्रशासन दंगों को रोकना ही नहीं चाहते.'تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption'اگر تشدد کو بے قابو ہونے کی اجازت دی گئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ شاید حکومت اور انتظامیہ فسادات کو روکنا نہیں چاہتی ہے۔'
چند ہفتے قبل جب دلی میں شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد ہوا تو بعض مقامات پر انٹرنٹ بند کردیا گیا لیکن دلی فسادات کے دوران ایسا نہیں کیا گیا اور اس بارے میں سوالات اٹھنے لگے ہیں؟
راہل بیدی یاد کرتے ہیں '2002 کے گجرات فسادات میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ گجرات فسادات کے دوران تو فوج کو بھی تعینات کیا گیا تھا۔ لیکن فوج کو کارروائی کرنے کی اتھارٹی یا طاقت نہیں دی گئی تھی'۔
راہل بیدی 1984 کے فسادات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں 'اس وقت بھی حکومت نے جان بوجھ کر ایسا ہی کیا تھا۔ مجھے یاد ہے اندرا گاندھی کی ہلاکت بدھ کو ہوئی تھی اور فوج کو شوٹ ایٹ سائٹ کا حکم سنیچر کو دیا گیا تھا۔ تب تک بہت کچھ تباہ ہوچکا تھا'۔

اشتعال انگیز تقریریں

دلی فسادات کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض لیڈروں کے جانب سے دلی الیکشن کے دوران دیے گئے اشتعال انگیز بیانات کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ ہائی کورٹ نے ان بیانات دینے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر دلی پولیس سے سوالات پوچھے تھے۔
1984 میں اشتعال انگیز بیانات کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اس زمانے میں اور موجودہ دور میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا۔
1984 کے فسادات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور اس وقت لوگوں گے گروپس افواہیں پھیلاتے تھے۔
سنجے سوری یاد کرتے ہیں 'اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد ان کے مردہ جسم کو تین مورتی بھون لایا گیا تھا۔ اس وقت بسوں پر بھر بھر کر لوگ آئے تھے اور نعرے لگا رہے تھے، 'خون کا بدلا خون سے لے گے'۔ ان نعروں کو سرکاری ٹی وی دوردرشن نیوز پر براہ راست نشر کیا جارہا تھا۔ اس کے فوراً بعد دلی کے رقاب گنج گرودوارے سے شروع ہونے والا تشدد پورے دلی میں پھیل گیا۔
سنجے سوری کہتے ہیں کہ فسادات کے بعد عام عوام کے لیے تو حالات معمول پر آجاتے ہیں لیکن متاثرین اور ان کے خاندان والوں کے لیے زندگی ہمیشہ کے لیے بدل جاتی ہے۔

اسی بارے میں