https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 5 October 2021

بڑے جانور میں عام دنوں میں عقیقہ کاحصہ لینا

 عقیقہ اور قربانی دونوں اکثر احکام میں باہم مشترک ہیں اس لیے جس طرح بڑے جانور میں قربانی کے سات حصے درست ہیں اسی طرح عقیقہ کے جانور کے اندر بھی سات حصے درست ہیں، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کا ثبوت نہیں ہے ان کا کہنا بالکل غلط ہے، حضرات فقہائے کرام نے اس مسئلہ کو ”البقرة عن سبعة والجزور عن سبعة“ والی حدیث سے مستنبط کیا ہے، طریقہ استنباط اس طرح ہے کہ ایک بقر اور ایک اونٹ سات کی طرف سے کافی ہے اور شریعت کے قاعدہ اور احادیث کی تصریح سے یہ ثابت ہے کہ سبع بدنہ (بڑے جانور کا ساتواں حصہ) قائم مقام ایک شاة (بکری) کے ہے پس جب عقیقہ میں ایک شاة (بکری) کافی ہے تو سبع بدنہ (بڑے جانور کا ساتواں حصہ) بھی ضرور کافی ہوگا اور جب کہ قربانی میں جو کہ واجب ہے سبع بدنہ (بڑے جانور کا ساتواں حصہ) کافی ہے تو عقیقہ میں جو کہ واجب بھی نہیں کیسے کافی نہ ہوگا؟ نیز فقہاء ومجتہدین کا قیاس بھی قابل حجت ہوتا ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ یہ ثابت نہیں بالکل غلط ہے اور اس کا ثبوت قیاس ہی سے نہیں ہے بلکہ احادیثِ رسول، اقوالِ صحابہٴ کرام، اور چاروں ائمہ کی کتب فقہ وفتاوی سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ گائے(فقہاء کے مطابق :  الجاموس نوع من البقر . بھینس  پڈے  بھی  گائے ہی  کی  قسم سے ہیں " ان کی قربانی  بھی  اونٹ  اور گائے کی  طرح  درست ہے اسی طرح عقیقہ بھی درست ہے اور جس طرح قربانی کے اندر ان تمام جانوروں میں سات حصے ہوسکتے ہیں اسی طرح عقیقہ کے اندر بھی سات حصے ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ تمام کے اندر قربت کی نیت ہو ”قد علم أن الشرط قصد القربة من الکل، وشمل ما لو کان أحدہم مریدا للأضحیة عن عامہ وأصحابہ عن الماضی الخ وشمل ما لو کانت القربة واجبة علی الکل أو البعض اتفقت جہاتہا أو لا: کأضحیة وإحصار الخ وکذا لو أراد بعضہم العقیقة عن ولد قد ولد لہ من قبل لأن ذلک جہة التقرب بالشکر علی نعمة الولد ذکرہ محمد رحمہ اللہ (رد المحتار: ۹/ ۴۷۲، ط: زکریا دیوبند) ولو ذبح بقرة أو بدنة عن سبعة أولاد أو اشترک فیہا جماعة جاز سواء أرادوا کلہم العقیقة أو أراد بعضہم العقیقة وبعضہم اللحم کما سبق فی الأضحیة (شرح المہذب/ ۸/۲۹) قلت مذہبنا في الأضحیة بطلانہا بإرادة بعضہم اللحم فلیکن کذلک في العقیقة (إعلاء السنن: ۱۷/ ۱۱۹، ط: إدارة القرآن کراچی) فیہ حدیث عند الطبرانی وأبی الشیخ عن أنس رفعہ یعق عنہ من الإبل والبقر والغنم ونص أحمد علی اشتراط کاملة وذکر الرافعی بحثا أنہا تتأدی بالسبع کما فی الأضحیة واللہ أعلم (فتح الباري: ۹/۷۴۰) قلتگ ہو مخالف فیہ حسن الحدیث وفیہ أنہ صلی اللہ علیہ وسلم سماہ نسیکة ونسکا وہو یعم الإبل والبقر والغنم إجماعا (إعلاء السنن: ۱۷/ ۱۱۷،ط: اشرفی دیوبند) القیاس حجة من حجج الشرع یجب العمل بہ عند انعدام ما فوقہ من الدلیل في الحادثة وقد ورد في ذلک الاأخبار والآثار (أصول الشاشی/ ۲۸۱، ط: اتحاد دیوبند) مذہبنا جواز العقیقة بما تجوز بہ الأضحیة من الإبل والبقر والغنم الخ (المجموع: ۸/ ۲۶۰، ط: احیاء التراث ا لعلمی بیروت) قال مالک وہی جنسہا جنس الأضاحی الغنم والبقر والإبل (الذخیرة في فروع المالکیة: ۲/ ۴۲۷) اختلفوا أیضا فیما تجوز بہ العقیقة أئمة الثلاثة مالک والشافعي وأحمد والجمہور إلی تخصیصہا ببہیمة الأنعام کالأضحیة وہي الإبل والبقر والغنم وسواء في ذلک في الذکور والإناث (فتح الرباني: ۱۳/ ۱۲۵) مزید تفصیل کے لیے جواہر الفتاوی: ۳/۴۱۳کا مطالعہ کریں)

کسی بزرگ کی قبر کے پاس اللہ کی عبادت کرنا

 مختار قول کے مطابق کسی بزرگ کی   قبر کے پاس بیٹھ کر اللہ کی عبادت  یا قرآن پاک کی تلاوت بلاکسی کراہت جائز ہے،بشرطیکہ اس  سے بزرگ کی عبادت  کاشبہ نہ ہوتا ہو.  ولا یکرہ الجلوس للقراء ة علے القبر فی المختار (نور الایضاح مع المراقی وحاشیة الطحطاوی ص: ۱۱۱، ۱۲۳)، وأخذ من ذلک جواز القراء ة علی القبر والمسألة ذات خلاف، قال الإمام: تکرہ لأن أہلہا جیفة ولم یصح فیہا شیء عندہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال محمد: تستحب الورود الآثار وہو المذہب المختار کما صرحوا بہ في کتاب الاستحسان (حاشیة الطحطاوی علی المراقي ص: ۶۲۱ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)، نیز شامی (۳: ۱۵۶، مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) 

Monday 4 October 2021

Cartoonist crashed

 STOCKHOLM (REUTERS) - Swedish artist Lars Vilks, who stirred worldwide controversy in 2007 with drawings depicting the Prophet Mohammad with the body of a dog, was killed in a car crash near the southern town of Markaryd on Sunday (Oct 3), police said.

Vilks, 75, who had been living under police protection since the drawings were published, was travelling in a police vehicle which collided with a truck. Two police officers were also killed.

"This is a very tragic incident. It is now important to all of us that we do everything we can to investigate what happened and what caused the collision," Swedish police said in a statement on Monday.

ہربدعت مذموم اور قابل ترک ہے.

 جس فعل شرعی کا سبب اور محرک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود نہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو نہ صحابہٴ کرام کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہو۔ اور نہ ترغیب دی ہو، دین سمجھ کر ایسا کام کرنا بدعت ہے، جیسے مروجہ میلاد کا سبب (حضور کے زمانہ میں) موجود تھا۔ اور صحابہٴ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا عشق اور عقیدتو محبت تھی اس کے باوجود کسی نے آپ کا یوم ولادت منایا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔

(۲) شریعت نے جو چیز مطلق رکھی ہے اس میں اپنی طرف سے قیودات لگانا بدعت ہے، جیسا کہ زیارت کے لیے وقت مقرر کرنا، ایصالِ ثواب کے لیے وقت متعین کرنا، مثلاً سیوم، چہلم۔

(۳) جو کام بذاتِ خود مستحب و مندوب ہے، مگر اس کا ایسا التزام کرنا کہ رفتہ رفتہ اس کو ضروری سمجھا جانے لگے اور اس کے تارک کی ملامت کی جانے لگے تو وہ کام مستحب کے بجائے بدعت بن جاتا ہے۔ مثلاً نماز جمعہ، پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں ہل اتاک حدیث الغاشیة پڑھنا مسنون ہے، مگر اس کا التزام کرنا کہ لوگ اس کو ضروری سمجھنے لگیں، بدعت ہے۔

(۴) جو کام فی نفسہ جائز ہے اگر اس کو کرنے میں کفار و فجار اور گمراہ لوگوں کی مشابہت لازم ہو تو اس کا کرنا ناجائز ہے، اس قاعدہ سے معلوم کہ تمام وہ اعمال جو اہل بدعت کا شعار بن جائیں، اس کا ترک لازم ہے۔ مزید تفصیل کے لیے الاعتصام (للعلامة الشاطبی) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

 

بدعت سب ہی مذموم اور قابل ترک ہیں جو کسی نے اسے حسنہ سے تعبیر کردیا تو اس سے لغوی معنی مراد ہیں۔

Sunday 3 October 2021

علم کلام کی اہمیت

 دینی علوم وفنون میں ایک اہم اور بنیادی علم ’’علم الکلام‘‘ہے، جس کو ’’علم التوحید‘‘، ’’علم الأسماء والصفات‘‘، ’’علم أصول الدین‘‘، اور ’’علم العقائد‘‘ وغیرہ ناموں سے بھی جانا جاتا ہے، دیگرتمام اہم علوم وفنون کی طرح اس علم کی بھی ایک ارتقائی تاریخ ہے، جو علمِ کلام کی مفصل کتابوں میں اور علمِ کلام کے ساتھ شغف رکھنے والے حضرات اہلِ علم کی تحریرات وتالیفات میں تفصیل کے ساتھ درج ہوتی ہے۔ اس علم کا بنیادی مقصود یہ تھا کہ قرآن وسنت میں جن عقائد کا ذکر کیاگیا ہے، ان کی حقانیت پر پوری طرح ایمان لایاجائے، معاصرانہ اسلوب کے مطابق اس کو درجۂ تحقیق وثبوت تک پہنچایاجائے اور ان اعتقادی نصوص پر وارد ہونے والے اشکالات وشبہات کاتسلی بخش جواب دے کر عام مسلمانوں کے دین وایمان کی اچھی طرح حفاظت کی جائے۔ امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  سوال و جواب کے انداز میں اس علم کی اہمیت اوراس کی اساس وبنیاد سمجھاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’فإن قلت: فلم صار من فروض الکفایات وقد ذکرت أن أکثر الفرق یضرہم ذٰلک ولا ینفعہم؟ فاعلم أنہ قد سبق أن إزالۃ الشکوک في أصول العقائد واجبۃ، واعتوار الشک غیر مستحیل وإن کان لا یقع إلا في الأقل، ثم الدعوۃ إلی الحق بالبرہان مہمۃ فی الدین، ثم لا یبعد أن یثور مبتدع ویتصدی لإغواء أہل الحق بإفاضۃ الشبہۃ فیہم، فلا بد ممن یقاوم شبہتہٗ بالکشف ویعارض إغواء ہ بالتقبیح، ولا یمکن ذٰلک إلا بہٰذا العلم۔ ولا تنفک البلاد عن أمثال ہٰذہ الوقائع، فوجب أن یکون في کل قطر من الأقطار وصقع من الأصقاع قائم بالحق مشتغل بہٰذا العلم یقاوم دعاۃ المبتدعۃ ویستمیل المائلین عن الحق ویصفي قلوب أہل السنۃ عن عوارض الشبہۃ، فلو خلا عنہ القطر خرج بہٖ أہل القطر کافۃ، کما لو خلا عن الطبیب والفقیہ۔ ‘‘ (۱)
ترجمہ:’’علم کلام کاسیکھناکیوں فرض کفایہ ہے؟ حالانکہ اکثرلوگوں کواس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ؟ دلیل کی بنیاد پرحق کی طرف دعوت دینا بھی ایک اہم دینی ذمہ داری ہے اورممکن ہے کہ کوئی بدعتی اُٹھ کھڑاہوکراہلِ حق کے دلوں میں شبہات ڈالے اورانہیں گمراہ کرنے کی ٹھان لے، لہٰذا ایسے افراد کی موجودگی ضروری ہے جو اس کاشبہ دورکرکے دلائل کے ساتھ اس کی گمراہی واضح کریں اوریہ علم کلام کے بغیر ممکن نہیں۔ اکثرشہروں میں اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں، لہٰذاہرجگہ ایسے افراد کی موجودگی ضروری ہے، جو حق پر قائم رہ کراس علم کوسیکھیں اورحق سے اعراض کرنے والے اوراہلِ بدعت کامقابلہ کرکے اُنہیں حق کی طرف راغب کریں، اہلِ سنت کے دلوں کو شبہات سے محفوظ رکھ سکیں، ورنہ اگرکوئی جگہ اس قسم کے لوگوں سے خالی ہوجائے تواہلِ باطل کاوہاں غلبہ ہوگا، جیساکہ کوئی علاقہ فقیہ اورڈاکٹرسے خالی ہوجائے ۔‘‘
شیخ عبد للطیف خربوتی  رحمۃ اللہ علیہ  علمِ کلام کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہي الترقي من حضیض التقلید إلی ذروۃ الیقین وإرشاد المسترشدین وإلزام المعاندین وحفظ عقائد المسلمین عن شبہ المبطلین۔ ‘‘ (۲)
ترجمہ:’’علمِ کلام کامقصد تقلید کی پستیوں سے یقین کی بلندیوں کی طرف بڑھنا، حق طلب کرنے والوں کی رہنمائی کرنا،مخالفین کولاجواب کرنااورمسلمانوں کے عقائد کو گمراہ لوگوں کے شبہات سے بچاناہے ۔‘‘
علامہ مرعشی مرحوم علم کلام کاتعارف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وأما علم الکلام: ویسمی أیضا علم أصول الدین، فہو علم یقتدر بہ علی إثبات العقائد الدینیۃ بإیراد الحجج علیہا ورفع الشبہ عنہا۔ ‘‘ (۳)
ترجمہ: ’’علم کلام جسے علم اصول الدین بھی کہاجاتاہے، ایسا علم ہے جس کے ذریعے دینی عقائد کو دلائل سے ثابت کرنے اورعقائد سے متعلق شبہات کوزائل کرنے کاملکہ پیدا ہوتا ہے ۔‘‘
سلف ِصالحین کے ابتدائی دور میں نقل ہی کا رواج تھا تو حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ اس وقت عقائد ِاسلامیہ کو قرآن وسنت کی نصوص کے ذریعہ ہی ثابت کرنے پر قناعت فرماتے رہے۔ مثال کے طور پر جب عقیدۂ’’تقدیر‘‘کے متعلق بعض لوگوں نے اسلامی عقیدے کے خلاف موقف اپناکر اس کی تبلیغ شروع کی اوراس کی اطلاع صحابی جلیل حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  کو پہنچی تو انہوں نے انکار کرنے والے سے براء ت وناراضگی کااظہار فرمایا اور پھر احادیثِ مبارکہ سے استدلال کرکے اس اعتقاد کی حقانیت وضرورت کو ثابت فرمایا۔ اسی طرح حضرت جابرؓ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے بھی مختلف اعتقادی مسائل میں یہی طرز اپنایا۔
 اس کے کچھ عرصہ بعد یونانی فلسفہ کی آمد اور عجمی دماغ لوگوں کے بکثرت مسلمان ہونے کی وجہ سے عقلیات کادور دورہ شروع ہوا اوردینی عقائد کو عقل کے ناتمام ترازو سے تولاجانے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے ایک یلغار سی شروع ہوئی اور کسی بھی خیال واعتقاد کی صداقت وحقانیت کا یہی معیار ٹھہرا تو اس وقت کے علماء راسخین نے اسی پہلو سے عقائدِ اسلامیہ کے دفاع کی کوشش فرمائی، جن میں وہ بڑی حد تک کامیاب وکامران ثابت ہوئے ۔تاریخ کے اوراق میں انہی حضرات کو متکلمین کے نام وخطاب سے جانا جاتا ہے۔ اس گلستانِ حکمت ودانائی میں امام غزالی، امام صابونی، امام رازی، علامہ آمدی، علامہ نسفی، علامہ عضد الدین ایجی، تفتازانی، علامہ میرسید شریف جرجانی، علامہ سبکی، اور علامہ سنوسی ولَقانی وغیرہ  رحمۃ اللہ علیہم  روشن قندیلیں ہیں، جن کی خوشبوؤں سے ہمیشہ عالمِ اسلام کوترووتازگی نصیب ہوتی رہی۔
ان حضرات کا غایت مقصود یہ تھا کہ قرآن وسنت کی نصوص میں جن اعتقادات کا ذکر کیاگیا ہے، ان کی حقانیت وصداقت ثابت کی جائے اور معاصرانہ مزاج کے اشکالات وشبہات سے اس کا کماحقہٗ دفاع کیا جائے، اس مقصود کی تکمیل کے لیے اس زمانہ کے رسم وطبیعت کے مطابق عقلیات میں مہارت بھی ضروری تھی اور افہام وتفہیم، بحث ومکالمہ میں اس عقلی طرزِ استدلال کا بروئے کار لانا بھی لازم تھا، ان دونوں باتوں کے بغیر کسی بات کی طرف اعتماد کی آنکھیں نہیں اُٹھتی تھیں، اس لیے ان حضرات نے اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے عقلیات میں بھی مہارت پیدا کرنے کی پوری کوشش فرمائی اور ساتھ اپنی تصنیفات وتالیفات کو بھی اسی قالب میں ڈھالا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مساعی حصنِ حصین(مضبوط قلعہ) ثابت ہوئیں اور اعتقادی میدان میں ہونے والے تمام حملوں سے عقائدِ اسلامیہ کی عمارت پوری طرح محفوظ وسالم رہی۔ اسباب کی دنیامیں ان حضرات کے خلوصِ دل، کمالِ عقل اور سرتوڑ محنت وکوشش ہی کا نتیجہ تھا کہ عقلیات کی اس طوفانی یورش میں بھی عقائد ِاسلامیہ پر کوئی حرف نہیں آیا، بعد میں صدیوں تک یلغار کی یہی صورت جاری رہی اور انہی حضرات متکلمین کی محنتیں سدّسکندری بن کر مانع رہیں۔

Friday 1 October 2021

محرمات ابدیہ

 تمام اصول (یعنی والدہ، دادی، نانی وغیرہ اوپر تک) اور فروع( یعنی بیٹی، پوتی، نواسی وغیرہ نیچے تک) محارم ہیں، اسی طرح بہن اور بہن کی اولاد( یعنی بہن کی بیٹی، پوتی،نواسی وغیرہ)، اسی طرح بھائی کی اولاد( بیٹی، پوتی، نواسی وغیرہ) ، پھوپھی اور خالہ بھی محارم میں شامل ہیں،اسی طرح بیوی کی ماں (خوش دامن) اور اس کی دادی،نانی وغیرہ، بیوی کی بیٹی (جو کسی اور شوہر سے ہو اور آپ کے زیرِ کفالت ہو ) جب کہ بیوی سے صحبت کی ہو، والد کی منکوحہ (جس کو ہمارے عرف میں سوتیلی ماں کہا جاتا ہے) اور بیٹے کی منکوحہ (بہو) بھی محارم میں سے ہیں، یہی تمام رشتے اگر رضاعی ہوں تو ان کا بھی یہی حکم ہے۔

" (حرم) على المتزوج ذكرا كان أو أنثى نكاح (أصله وفروعه) علا أو نزل (وبنت أخيه وأخته وبنتها) ولو من زنى (وعمته وخالته) فهذه السبعة مذكورة في آية: {حرمت عليكم أمهاتكم} [النساء: 23]،  ويدخل عمة جده وجدته وخالتهما الاشقاء وغيرهن وأما عمة عمة أمه وخالة خالة أبيه حلال كبنت عمه وعمته وخاله وخالته، لقوله تعالى:{وأحل لكم ما وراء ذلكم} [النساء: 24] (و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة وأم زوجته) وجداتها مطلقاً بمجرد العقد الصحيح (وإن لم توطأ) الزوجة لما تقرر أن وطئ الامهات يحرم البنات، ونكاح البنات يحرم الامهات، ويدخل بنات الربيبة والربيب.
وفي الكشاف: واللمس ونحوه كالدخول عند أبي حنيفة، وأقره المصنف (وزوجة أصله وفرعه مطلقاً) ولو بعيداً دخل بها أو لا، وأما بنت زوجة أبيه أو ابنه فحلال (و) حرم (الكل) مما مر تحريمه نسبا ومصاهرة (رضاعا) إلا ما استثني في بابه.[الدر مع الرد : ٣/ ٢٨-٣١]
ف

Thursday 30 September 2021

فون پر نکاح کرنے کاحکم

 


نکاح کے وقت عاقدین اور گواہوں کامجلس نکاح میں ہونا ضروری ہے، اور یہ ٹیلیفون پر ممکن نہیں اس لیے ٹیلیفون پر نکاح جائز نہیں۔ در مختار میں ہے: ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین وإن طال کمخیرة۔ (الدر المختار مع الشامي: 4/76، ط زکریا دیوبند) البتہ اگر وہ شخص ٹیلیفون پر کسی کو اپنا وکیل بنادے کہ وہ اس کی طرف سے فلاں لڑکی کے نکاح کو قبول کرلے پھر یہاں مجلس نکاح منعقد کی جائے اور قاضی صاحب یا لڑکی کے والد وغیرہ جو بھی نکاح پڑھائیں وہ کہیں کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح فلاں شخص سے کیا اور وکیل کہے کہ میں نے اس لڑکی کو فلاں کے نکاح میں قبول کیا، پس اس سے نکاح منعقد ہوجائے گا اور صحیح ہوجائے گا۔

Wednesday 29 September 2021

مولاناکلیم صدیقی کی گرفتاری اورآسام میں سرکاری آتنک واد کے خلاف احتجاج

 جلگاؤں(پریس ریلیز): جلگاوں شہر میں کلکٹر آفس پر بڑے پیمانے پر تمام دینی ملی ،سیاسی تحریکوں اور سماجی تنظیموں نے متحد ہوکر مولانا مفتی محمد ہارون ندوی صاحب کی قیادت میں "مولک ادھیکار منچ" کے پرچم تلے جمعیۃ علماء ہند ، جماعت اسلامی، وحدت اسلامی، ایس آئی او ،آئی وائی ایف ، کل جماعتی مشن، تبلیغی جماعت، سنی دعوت اسلامی ،اہل سنت اور سیاسی پارٹیوں میں کانگریس ، راشٹر وادی، سماجوادی ، ایم آئی ایم ، پاپولر فرنٹ آف انڈیا جیسی مختلف جماعتوں اور فعال و مستعد اہلیان جلگاوں نے اتحاد کے ساتھ داعی اسلام مولانا کلیم صدیقی کی غیر قانونی گرفتاری، یوگی تانا شاہی اور گھٹیا نیچ سیاسی ہتھکنڈوں کی جم کر مخالفت کی ۔اور مولانا کی رہائی کا بنا شرط مطالبہ رکھا گیا ،ساتھ ہی آسام میں 800 مکانات منہدم کردینے اور پولیس کی جانب سے حالیہ بربریت جس میں گولیوں سے دو سے تین لوگوں کی جان گئی سنگھی فوٹوگرافر کا لاش پر کودنا اس سرکاری آتنک واد کی بھی جم کر مذمت کی۔ ساتھ ہی ان پولیس والوں پر 302 مرڈر کا کیس درج کرنے کا مطالبہ کیا ۔ تمام تنظیموں ،تحریکوں اور پارٹیوں کے ذمہ داران نے تفصیلی بیان بھی کیا - اور ملک میں پھیلائی جارہی نفرت ، گودی میڈیا کا آتنک ، سرکاری دہشتگردی ، مندر اور مسجد کے نام پر گھٹیا سیاست اور ۔یوپی الیکشن کے گھٹیا منصوبوں کے تذکرے کے ساتھ ملت اور مسلمان نوجوانوں کو ہوش کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی نصیحت کی ۔اور حکومت کو بھی خبردار کیا کہ نفرتوں کی سیاست بند کرو ، منافرت ، فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے جیسا گھٹیا کام حکومت بند کرے۔حکومت اپنی کمیوں اور کوتاہیوں سےعوام کی نظریں ہٹانے کی خاطر انہیں غیر ضروری معاملات میں الجھا رہی ہے ۔یہ حکومت کا انتہائی گھٹیا عمل ہے ۔ایک حکومت اپنی اقلیت اور اس کے علماء کو اپنے نشانے پر رکھ کر انہیں یر قسم کی ایذاء و تکالیف پہنچارہی ہے ۔غم وغصہ کے باوجود عوام نے انتہائی سنجیدہ اور پر امن مظاہرہ کا پیغام دیا۔اور حکومت کے سامنے اپنی بات دو ٹوک انداز میں رکھی۔ احتجاج بارش اور طوفان کے باوجود صبح 11 سے لیکر دوپہر 3 بجے تک کامیابی کے پرجوش نعروں کے ساتھ چلتا رہا۔ تین بجے ایک وفد جس کے صدر مولانا مفتی محمد ہارون ندوی ، اور کوآرڈی نیٹر مفتی عتیق الرحمان ، مفتی خالد ، مزمل ندوی، محترم فاروق شیخ اور اقبال منیار نے ضلع ادھیکاری ، کلکٹر ابھیجیت راوت کو ہزاروں دستخط کے ساتھ مطالبات کا میمورنڈم دیا ۔کلکٹر صاحب نے یقین دلایا کہ آپ کے جذبات اور مطالبات کو سرکار تک پہنچایا جائے گا۔ اس احتجاجی شاندار ، کامیاب آندولن میں علمائے کرام نے اکیلے ایک تنہا پر ہونے والے ظلم کا متحد ہوکر مقابلہ کرنے کی نصیحت اور اہلیان جلگاوں نے بھی اعلان کیا کہ ہم اپنے علماء کے شانہ بشانہ ، قدم بقدم ساتھ رہیں گے، محترم فاروق شیخ صاحب، محترم عبدالکریم سالار صاحب ، محترم اعجاز ملک صاحب، ایاز علی، ڈاکٹر جاوید ، محترم سہیل سر ڈاکٹر راغیب ، فیروز ملتانی ، فہیم پٹیل ، زکی پٹیل ، سبیان ، اشفاق ، تابش ، ڈاکٹر شاکر، زیان جاگیردار، قاری عقیل، مولانا عبدالرحمان ملی، قاری مشتاق ، مولانا اختر ندوی ، مولانا اعجاز ندوی، ظفر بھائی پینچ، حافظ قاسم ، وسیم محبوب، حافظ اسامہ، حافظ صفی ، عمرفاروق، غرض کہ شہر کے تمام درد مند دل ، متحرک اور غیور نوجوان بڑی کثیر تعداد میں اس پروگرام میں موجود رہے۔ محترم مفتی عتیق الرحمان صاحب خطاب آخر صدر مولانا مفتی محمد ہارون ندوی صاحب کے پر مغز، بیباک خطاب کے ساتھ مفتی خالد صاحب کی دعا پر احتجاج دوپہر تین بجے ختم ہوا۔

Monday 27 September 2021

جامعہ نگر:مسلمانوں نے مندرکوبلڈرمافیا سے بچالیا

 نئی دہلی: جامعہ نگر کے مسلم باشندوں کے ایک متعلقہ گروہ کی جانب سے ایک تیز قانونی اقدام نے دہلی ہائی کورٹ کے ذریعہ علاقے میں ایک پرانے مندر کے احاطے کو پہنچنے والے نقصان کو روکنا یقینی بنایا ہے۔ مندر کے ساتھ والی دھرم شالا کا ایک حصہ حال ہی میں شرپسندوں نے مسمار کر دیا تھا۔

عدالت نے گزشتہ ہفتے اس وقت قدم اٹھایا جب جامعہ نگر 206 وارڈ کمیٹی نے اس سے رجوع کیا اور علاقے کے واحد مندر کی تجاوزات اور انہدام کو اجاگر کیا ، جس میں جوہری فارم میں واقع دھرم شالہ بھی شامل ہے۔

پریشان درخواست گزار ، جو کہ نور نگر ایکسٹینشن کالونی میں رہتے ہیں نے عدالت کو بتایا کہ دھرم شالہ کا ایک حصہ راتوں رات مسمار کر دیا گیا تھا اور پوری زمین کو برابر کر دیا گیا تھا تاکہ شرپسندوں/بلڈروں کی طرف سے اس پر قبضہ کیا جا سکے۔

اس علاقے کے لے آؤٹ پلان کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں مندر کے احاطے کو واضح طور پر نشان زد کیا گیا تھا ۔فوز العظیم کی سربراہی میں کمیٹی نے الزام لگایا کہ اس کے ایک حصے کو ایک عمارت کھڑی کرنے اور فلیٹ بیچنے کے لیے مسمار کیا گیا تھا۔ نہ صرف بلڈر کا یہ عمل غیر قانونی تھا ، بلکہ اس کا مقصد علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کر کے پیسہ کمانا تھا ، درخواست میں متنبہ کیا گیا ، عدالت پر زور دیا گیا کہ وہ میونسپل کارپوریشن اور دہلی پولیس کو اس کی حفاظت کے لیے ہدایت دے۔

نور نگر ایک بہت بڑا علاقہ ہے جس میں گھنی مسلم آبادی ہے اور غیر مسلموں کے چند گھر (40-50 خاندان)۔ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ دونوں کمیونٹیز برسوں سے یہاں محبت ، پیار اور بھائی چارے کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ تاہم ، بلڈر/شرپسند دونوں برادریوں کے درمیان بھائی چارے اور ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مقامی لوگوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے پولیس اور جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن کے عہدیداروں کو تجاوزات اور غیر قانونی مسمار کرنے کے حوالے سے بار بار کالیں کی تھیں ، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی ، جس سے انہیں عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔

جب بنچ نے دھرم شالا کے منہدم ہونے کے بارے میں پوچھا تو کارپوریشن نے واضح کیا کہ اس نے کوئی مسمار نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس کی اجازت دی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ جب جائیداد کا معائنہ کیا گیا تو کوئی تعمیراتی سرگرمی نہیں ملی۔ تاہم ، چونکہ یہ مسئلہ امن و امان اور علاقے کے تحفظ سے متعلق تھا ، اس لیے اس نے پولیس کو خبر کی گئی ہے ۔

پولیس نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مندر کے احاطے میں کوئی تعمیر نہ ہو اور اسے محفوظ رکھا جائے گا۔ پولیس اور کارپوریشن دونوں کو ان کی یقین دہانی کا پابند کرتے ہوئے ، عدالت نے انہیں حکم دیا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ علاقے میں امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور "لے آؤٹ پلان میں مندر کے طور پر دکھایا گیا علاقہ ایک مندر کے طور پر محفوظ اور برقرار ہے۔

بیف کا شبہ مسلمانوں کی دوکانوں کوبند کرادیاگیا

 بھوپال : مدھیہ پردیش کے ضلع کھرگون میں بیف کے شبہ پر ہندو تنظیموں نے احتجاج کرتے ہوئے مسلمانوں کے کاروبار اور دکانوں کو بند کرادیا۔ شرپسندوں کی جانب سے بعض دکانوں میں توڑپھوڑ بھی کی گئی اور اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے گئے۔ اس واقعہ کا ایک ویڈیو بھی وائرل ہوا ہے جس میں ہجوم پر قابو پانے کیلئے پولیس کو لاٹھی چارج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ بیف کے شبہ میں تین افراد کو گرفتار کیا گیا اور انہیں عدالتی تحویل میں دیدیا گیا۔ اس واقعہ میں ایک آٹو رکشہ کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔

Sunday 26 September 2021

انسانیت کے لباس میں خونی درندے

 نازش ہما قاسمی

کہا جاتا ہے کہ انسانوں کے سینے میں دل ہوتا ہے، جو کسی کی تکلیف اور مصیبت کو دیکھ کر کڑھتا ہے، اس میں ایسے جذبات ہوتے ہیں جو اس کو جانوروں اور وحشی درندوں سے الگ اور ممتاز بناتا ہے۔ لیکن اگر دنیا میں ظلم و جور اور جبر و تشدد کی تاریخ کو کھنگالا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان صفات رذیلہ کے حامل افراد کے سینے میں دل نہیں بلکہ پتھر ہوتا ہے جو ہر قسم کے جذبات سے عاری ہوا کرتے ہیں۔ اگر ان کے سینوں میں دھڑکنے والا دل موجود ہوتا تو پھر کیسے کسی معصوم کو موت کی نیند سلاکر خود خواب خرگوش کا مزہ لیتے۔ کسی بوڑھے پر گولیوں کی بوچھار کرکے آرام دہ بستروں پر آرام کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان افراد کے سینوں میں دل ہے لیکن وہ انسانیت کے جذبات اور محبت و مروت کی مٹھاس سے عاری ہیں۔ ان کے سینوں میں نفرت و عداوت، بغض و عناد اور کینہ و تکبر اس حد تک سما چکا ہے کہ وہ اچھے اور برے کی تمیز بھول جاتے ہیں۔ وہ انسانیت کے بجائے وحشیانہ طرز زندگی اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اجتماعی عصمت دری کے واقعات ہوں یا پھر ماب لنچنگ کی خون ریز داستانیں یا پھر معصوموں پر گولیوں کی بوچھار کرنے والے حادثات ان تمام میں یہ بات مشترک ہیں کہ ان کے انجام دینے والوں کی ذہنی تربیت پیار و محبت کے ماحول میں نہیں بلکہ نفرت و عداوت کے ماحول میں ہوئی ہے۔ ابتدا سے ہی انہیں نفرت کرنا اور تشدد پھیلانا سکھایا جاتا ہے۔ یہ جس گروہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں ان تمام کی منزل نفرت اور وحشیانہ پن ہے۔ اب تو حد ہوگئی کہ ہر کوئی دوسرے پر فوقیت لینے کی دوڑ میں ہے۔ اجتماعی عصمت دری کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنونی اور ہوس پرست بھیڑئے معصوموں کی عزت سے کھیلنے تک اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ تو ان کے کلی نما جسم کو اس طرح مسلتے ہیں جیسے کانٹوں میں گلاب کو مسل دیا جائے، جس کا ہر ہر جز سرخ اور زخمی ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان حادثات کی شکار معصوم بچیاں بہت جلد زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ ان خونی درندوں میں یہ وحشیانہ پن اسی نفرت کا نتیجہ ہے جو انہیں سکھائی جاتی ہے اور جس کی انہیں تعلیم دی جاتی ہے۔ انسان کی نشو و نما اگر نفرت بھرے ماحول میں ہو اور اس میں انسانیت کی مٹھاس کے بجائے نفرت کا زہر گھولا جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ظاہری دنیا میں اس نے کیا کمالات حاصل کئے ہیں یا کس پیشہ اور شعبہ سے تعلق رکھتا ہے۔

آسام اس کی زندہ مثال ہے جہاں بے گھر معصوموں پر گولیوں کی بوچھار کردی گئی جس کے نتیجہ میں موت تک کے واقعات پیش آئے ہیں۔ پولس کی ذمہ داری عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشہ سے جڑے بعض افراد انسانیت کی تعلیم سے مکمل طور پر بے بہرہ اور نابلد ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات وردی میں ملبوس انسان وہ کالے کارنامے کرجاتے ہیں جو دوسروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات ہے کہ صحافت جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ صحافی جسے معاشرہ میں سچائی اور انصاف پر مبنی واقعات و حادثات کو بیان کرنا ہوتا ہے، اگر وہ انسان کے مردہ جسم پر ناچنے لگے اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو تو آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے یہ آرہے ہیں۔ درحقیقت یہ وہی لوگ ہیں جن کی نشو و نما نفرت کے ماحول میں ہوئی ہے۔ جن کی بنیادی تعلیم اور انتہائی تعلیم ایسے ماحول میں ہوئی ہے جہاں انسانیت نہیں بلکہ نفرت سکھائی جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی لاش پر چڑھ کر ناچے، یہ تو ان آدم خور لوگوں کی بستی کے رہائشی اور مکین نہیں ہے جہاں ایک انسان دوسرے انسان کو کھاجاتا ہے۔ یہ لوگ اگرچہ نام نہاد مہذب سماج کا حصہ ہیں اور ان کی رہائش تہذیب و ثقافت کی عکاس بھی ہوسکتی ہے لیکن ان کے دل نفرت میں اس قدر ڈوبے ہوتے ہیں کہ ان سے انسانیت والے کام سرزد نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ خونی بھیڑئے ہیں جو ہمیشہ اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ کبھی کبھار ان کے کالے کرتوت عوام الناس کے حلقوں میں پہنچ جاتے ہیں جبکہ بیشتر اوقات ان کے جرائم پردہ خفا میں رہ جاتے ہیں کیونکہ چہار جانب نفرت کے سوداگر اور انسان نما درندے بیٹھے ہیں جو ایک دوسرے کے معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دجالی میڈیا کے معاون ہیں یہ جرنلزم کی آڑ میں ٹیررازم پھیلاتے ہیں صاف و شفاف اور منصف و غیر جانبدار میڈیا جمہوریت کا ستون ہے لیکن یہ لوگ جمہوریت کو کھوکھلا کرنے والے افراد ہیں جمہوریت کا ستون بننے کے بجائے اپنے اعمال و افعال سے اس ستون کو منہدم کرچکے ہیں اور یہ فرقہ پرست گودی میڈیا کی پیداوار نفرت کے سوداگر اپنے مذہبی تعلیمات سے بھی دور ہیں اور دجالی میڈیا کے آلہ کار بن کر اپنی ہندوازم کی عظیم تعلیمات و سنسکرتی جس میں انہیں زور دے کر کہاگیا ہے کہ انسانیت پر دیا کرو دیالو بنو ہنسا کا راستہ نہ چنو اہنسا کے پجاری بنو، ان سبھی کو پس پشت ڈال کر اپنے مذہب کا بھی مذاق اڑارہے ہیں اور ہنسا و تشدد کا راستہ اپنا کر مجبور و بے کس مسلمانوں کی لاشوں پر کود کر جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہوئے جمہوریت کے جنازے پر کود رہے ہیں۔


نازی حکومت سے آسام کوبچائیں. ایس ڈی پی آئی کا ملک گیرمظاہرہ

 نئی دہلی:سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI)نے آسام کے ضلع دارنگ، سیپاجھار، گوروکوٹھی گائوں میں پولیس اور ریاست کے گٹھ جوڑ کے ذریعے مظاہرین پر وحشیانہ حملوں اور ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے دہلی سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے ۔ نئی دہلی میں ہوئے احتجاجی مظاہرے میں پارٹی قومی صدر ایم کے فیضی ، قومی نائب صدوراڈوکیٹ شرف الدین احمد، شیخ دہلان باقوی، قومی جنرل سکریٹریان عبدالمجید کے ایچ، الیاس محمد تمبے، قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی ، تمل ناڈو ریاستی صدر نیلائی مبارک، کرناٹک ریاستی صدر عبدالحنان، کیرلا ریاستی صدر عبدالمجید فیضی، راجستھان ریاستی صدر محمد رضوان خان، قومی ورکنگ کمیٹی اراکین ریاض فرنگی پیٹ، عبدالستار، ڈاکٹر عواد شریف، محترمہ یاسمین فاروقی اور دیگر لیڈران شریک رہے ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی قومی صدر ایم کے فیضی نے آسام پولیس کے ایکشن کو غیر انسانی اور سفاکانہ بتایا ۔آسام پولیس نے ایک ہجوم پر فائرنگ کی جو اس زمین سے زبردستی بے دخلی کے خلاف احتجاج کررہا تھا جہاں وہ کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت بنگلہ دیش سے 'تجاوزات'اور 'غیر قانونی تارکین وطن کا الزام لگاتے ہوئے مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ بے دخلی مہم کی وجہ سے800سے زائدخاندانوں پر مشتمل 5000سے زائد افراد کو بے گھر کردیا ہے۔ موجودہ وبائی صورتحال میں متبادل سہولیات کا بندوبست کیے بغیر غریب شہریوں کو زمین سے بے دخل کرنا ظلم ہے۔ حکومت جس کو لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا چاہیے وہ مذہب کے نام پر ان کو پولرائز کرنے اور انہیں قتل کرنے میں مصروف ہے۔ بی جے پی حکومت کے2016میں اقتدار میں آنے کے بعد سے علاقے کے لوگوں کو بار بار ہراساں کیا جاتا رہا ہے ، ا س علاقے میں رہنے والے زیادہ تر کاشتکار ہیں اور ان کے معاش کے ذرائع پر حملہ کیا جارہا ہے۔ بیشتر نے زمین پر قبضہ کرلیا تھا کیونکہ وہ بے زمین ہیں اور اپنی زمین خریدنے کے متحمل نہیں ہیں۔ وزیر اعلی ڈاکٹر ہیمنت بسواس شرما متاثرین کو تسلی دینے کے بجائے ٹوئیٹ کے ذریعے پولیس کی بربریت کی تعریف کرتے ہوئے اور لوگوں کو بے دخل کرنے اور ایک مسجد کو مسمار کرنے کی تصاویر پوسٹ کرکے ظلم کا جشن منارہے تھے۔ ایس ڈی پی آئی قومی صدر ایم کے فیضی نے اس بات کی طر ف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی انتہا جو کہ انتہائی دائیں بازو کے ہندوتوا فاشسٹوں نے عام لوگوں میں داخل کی ہے، ایک فوٹوگرافر کی اس وائرل ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے ، جو پولیس کے ہاتھوں مار کھانے کے بعد زمین پر بے حرکت زمین پر پڑے مظاہرین کو لات ماررہا ہے ۔ کوئی بھی انسان سوائے سنگھیوں کے اتنے ظالم اور سفاک نہیں ہوسکتے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی قومی صدر ایم کے فیضی نے آسام حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ہندوستانی شہریوں کو غیر قانونی تارکین وطن کے نام سے نکالنے سے باز رہے، صرف اس لیے کہ ا ن کا مذہب اسلام ہے اور ریاست میں مسلمانوں کے خلاف مظالم بند کرے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ بے دخل کیے گئے لوگوں کی فوری طور پر بحالی کی جائے اور فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو معقول معاوضہ دیا جائے ۔

Saturday 25 September 2021

آسام میں دومظاہرین کی ہلاکت اورلاش کی بے حرمتی

 بھارتی ریاست آسام میں پولیس کارروائی میں ایک مہلوک کی لاش کی بے حرمتی کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے تحقیقات کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں 'غیر قانونی تجاوزات‘ کے خلاف پولیس کارروائی میں دو مسلمانوں کی ہلاکت اور لاش کی بے حرمتی کے واقعے کی سخت مذمت کی جارہی ہے اور اسے 'حیوانیت کی انتہا‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ آسام کے درانگ ضلع کے سیپا جھار علاقے میں مبینہ 'غیر قانونی تجاوزات‘ کے خلاف حکومتی کارروائی میں پولیس اور لوگوں کے مابین جھڑپ کے دوران پولیس فائرنگ میں دو افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہوگئے۔ اس تصادم کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس ایک شخص کو انتہائی بے رحمی سے پیٹ رہی ہے اور فائرنگ میں ہلاک ہوجانے والے ایک شخص کی لاش پر ایک کیمرہ مین نہ صرف کود رہا ہے بلکہ اسے گھونسے بھی مار رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے صورت حال کو ریکارڈ کرنے کے لیے ایک مقامی کیمرہ مین کی خدمات حاصل کی تھیں۔ ’غیر قانونی تجاوزات‘ کے خلاف حکومت کی کارروائی آسام میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ چند ماہ قبل ہیمنت بسوا سرما کو وہاں کا وزیر اعلی مقرر کیا گیا تھا۔ اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی انہوں نے ریاست کے مختلف حصوں میں 'غیر قانونی تجاوزات‘ کے خلاف مہم شروع کردی۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برسوں سے رہنے والے افراد کو بے دخلی کے نام پر دراصل مسلم اقلیتوں اور بنگالی برادری کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسامی روزنامے پرتی دن کے دہلی بیورو چیف اشیش چکرورتی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”وزیر اعلیٰ سرما کھلے عام مسلمانوں اور بنگالیوں کے خلاف باتیں کررہے ہیں۔ وہ لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کا یہ کام پچھلے کئی ماہ سے کررہے ہیں۔ اور جمعرات کے روز کا واقعہ بھی اسی کی ایک کڑی تھا۔" بھارت: مسلمانوں کی فیملی پلاننگ پر بی جے پی کا نیا شوشہ اشیش چکرورتی کا کہنا تھاکہ چونکہ سرما کا تعلق آرایس ایس سے نہیں ہے اس لیے وہ اپنی 'کارکردگی‘ سے آر ایس ایس اور بی جے پی کو 'خوش‘ کرنا چاہتے ہیں۔ چکرورتی کے بقول، ”جمعرات کے روز کا واقعہ نہ صرف انتہائی افسوس ناک بلکہ انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے۔ یہ حیوانیت کی انتہا ہے۔" ’کارروائی جاری رہے گی‘ اس مہم کے تحت اب تک ایک ہزار سے زائد کنبوں کو بے گھر کیا جا چکا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ حکومت انہیں جو متبادل جگہ فراہم کررہی ہے وہاں ہر برس سیلاب کی وجہ سے زمین کٹتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے وہاں آباد ہونا ممکن نہیں۔ وزیر اعلیٰ بسوا سرما نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کواپنی کارروائی جاری رکھنے اور 'غیرقانونی تجاوزات‘ کو ہر حال میں خالی کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ سرما کے بقول، ”وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں گے۔ مہم جاری رہے گی۔" آسام کے ایک اور صحافی انیربین رائے چکرورتی نے ڈی ڈبلیو سے با ت کرتے ہوئے کہا کہ بسوا سرما کے بیان سے مسلم مخالف اور بنگالی مخالف ہونے کا واضح اندازہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ”گزشتہ ماہ انہوں نے ایک بستی خالی کرانے کے لیے وہاں ہاتھیوں کے جھنڈ دوڑا دیے تھے۔ جس نے لوگوں کی جھونپڑیوں کو زمین بوس کردیا۔" آسام میں گائے کے گوشت پر پابندی کی تیاری انیربین چکرورتی کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ لوگوں کو بے گھر کررہے ہیں۔ ”ان لوگوں کی مناسب آبادکاری کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے آخر یہ کہاں جائیں گے؟" ان کا مزید کہنا تھا کہ جمعرات کے واقعے سے واضح ہوگیا ہے کہ پولیس جان بوجھ کر لوگوں کو گولیاں مار رہی ہے۔ براہ راست سینے پر گولی داغ دینا اس کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا، ”لاشوں کے ساتھ جس طرح کی بے حرمتی کی گئی وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ لوگوں میں نفرت کس حد تک انتہا کو پہنچ چکی ہے۔" پولیس کا بیان درانگ ضلع، جہاں یہ واقعہ پیش آیا، کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سوشانت بسوا سرما، ریاستی وزیر اعلی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ سوشانت سرما نے پولیس فائرنگ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ضلعی انتظامیہ کے افسران کے ساتھ جب 'غیر قانونی تجاوزات‘ کو ہٹانے شروع کیا تو احتجاج کرنے والوں نے ان پر پتھراؤ شروع کردیا۔ جس سے نو پولیس اہلکار اور دو عام شہری زخمی ہوگئے۔ ان میں اسے ایک پولیس اہلکار کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ بھارت: مسلمانوں کی آبادی کنٹرول کرنے کا نیا شوشہ پولیس نے بتایا کہ جس کیمرامین نے لاش کی بے حرمتی کی تھی اسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اور ریاستی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک سبکدوش جج کی سربراہی والی ایک کمیٹی ان واقعات کی تحقیقات کرے گی۔ دریں اثناء متعدد سماجی، سیاسی، انسانی حقوق اور مسلم تنظیموں نے اس واقعے کے خلاف احتجاجاً مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سیاسی ردعمل متعدد سیاسی جماعتوں نے بھی درانگ میں فائرنگ کے واقعے کی مذمت کی ہے۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ کرکے پولیس کارروائی کی نکتہ چینی کی۔ انہوں نے لکھا، ”آسام میں حکومت کی نگرانی میں آگ لگی ہے۔ میں ریاست میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ بھارت کے کسی بھی بچے کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔" بھارت: دو ریاستوں کے سرحدی تنازعے میں چھ پولیس اہلکار ہلاک آسام کانگریس کے صدر نے پولیس فائرنگ کو”وحشیانہ فعل" قرار دیا۔ کانگریس کے ایک مقامی رہنما کا کہنا تھا کہ متاثرین کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ گوکہ ان کے پاس زمینوں کے دستاویزات نہیں ہیں لیکن ان کے پاس شہریت کے تمام قانونی دستاویزات موجود ہیں اور سابقہ حکومتوں نے انہیں سرکاری زمینوں پر رہنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن وزیر اعلیٰ سرما ان لوگوں کو'درانداز‘ کہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ زمینیں خالی کرانے کے بعد اسے ریاست کے 'اصل باشندوں‘ میں تقسیم کردیں گے۔