https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 24 December 2022

A lesson to the judiciary

The court's three-judge bench observed that the Marine Corps could never really explain why it can't provide similar religious accommodations that other military branches such as the US Army, Navy, Air Force and Coast Guard already provide. "If the need to develop unit cohesion during recruit training can accommodate some external indicia of individuality, then whatever line is drawn cannot turn on whether those indicia are prevalent in society or instead reflect the faith practice of a minority," read the decision written by the court. Notably, the US Army, Air Force, Navy and Coast Guard accommodate the religious requirements of the Sikh recruits. The court was hearing the case pertaining to three Sikh men named Aekash Singh, Jaskirat Singh and Milaap Singh Chahal who passed tests to enlist in the US Marine last year. However, since then, the three have been forced to fight the lawsuits as the Marines argue that recruits need to be stripped of their 'individuality'. The Marines also argue that the rules are necessary to maintain uniformity for national interest. Read more: Sikh-American airman allowed by US Air Force to keep turban, beard on active duty The court, in response, said US Marines is part of Navy and that officers train at the Naval Academy. The Academy accommodates beards and wearing of the religious articles. It added that even the US Marines allowed men with specific skin conditions to not shave and that women recruits maintained hairstyles. After the ruling, Eric Baxter, representing the plaintiffs took to Twitter and said, "Today's ruling is a major victory for these Sikh recruits, who can now begin basic training without having to forfeit their religious beliefs."

Friday 23 December 2022

تعلق مع اللہ

اللہ کی محبت کا یہ مقام کیسے حاصل ہو کہ ھمارے دلوں میں اللہ کی محبت اشد ہوجائے اگر اشد نہ ہوئی تو ہم اللہ تعالی کے پورے فرمانبردار نہیں ہوسکتے کیوں؟ اس لیے کہ جب ھم کو اپنا دل زیادہ پیارا ہوگا تو جہاں ھمارے دل کو تکلیف ہوگی ھم اللہ کے قانون کو توڑیں گے مثلاً اگر گناہ کا ارادہ تھااور ھم سے گناہ سرزد ہوگیا تو اللہ ناراض ہوا کہ نہیں مطلب کہ دل ذیادہ عزیز ہے خدا کی محبت نہیں اور اگر خدا کی محبت اشد ہوگی توگناہ کے اسباب ہونے کے باوجود ھم گناہ یہ سوچ کر نہیں کریں گے کہ مولا ناراض ہوگا معلوم ہوا اللہ کی محبت دل کی محبت سے ذیادہ ہونی چاھیےمولانا رومی فرماتے ہیں سلطان محمود نے اپنے 65 وزیروں کو بلایا اور کہا کہ شاھی خزانے کا نایاب موتی توڑ دو ۔ لیکن ہر وزیر نے کہا کے حضور یہ خزانے کا نایاب موتی ہے اس کی شاھی خزانے میں کوئی مثال نہیں میں اس کو نہیں توڑوں گا یہاں تک کہ ان سب وزیروں نے معذرت کرلی آخر میں شاہ محمود نے ایاز کو بلایا اسے دراصل وزیروں کو ایاز کا مقام عشق دکھلانا تھا ۔ یہ دکھلانا تھا کہ ایاز میرا سچا عاشق ہے باقی سب وزراء مصنوعی محبت کے دعویدار اور تنخواہی ہیں اس نے کہا ایازتم اس موتی کو توڑ دو ایاز نے فوراً پھتر لیااور موتی کو توڑ دیا .پورے ایوان شاھی میں شور مچ گیاسب نے کہا ارے ایاز بڑا بےباک اورناشکراہے. شاہ محمود نے کہا ایاز تم نے قیمتی موتی کیوں توڑا ان وزراء کو جواب دو ایاز نے جواب دیا۔ اے معزز لوگو! آپ نے موتی کو قیمتی سمجھ کر نہیں توڑا لیکن شاھی حکم کو توڑدیامیں آپ سے پوچھتاہوں کہ شاھی حکم زیادہ قیمتی تھا یہ موتی؟؟؟؟؟؟ ایک اور واقعہ اسی طرح آتا ہے محمودغزنوی نے سب وزیروں کو کہا جو چیز تمہیں پسند ہے لے لو ب نے اپنی اپنی پسند کی چیزیں لے لی لیکن ایاز نے کچھ نہ لیا بلکہ کہا میں بس آپ کا ساتھ چاھتا ہوں جب آُپ ساتھ ہوں گے تو سب چیزیں خود ہی مل جائیں گی ۔ تو شاھی حکم کے واقعہ سےمولانا رومی یہ نصیحت فرماتے ہیں کہ اسی طرح ہمارے دل اگر ٹوٹتے ہیں تو ٹوٹ جائیں لیکن اللہ کا فرمان نہ ٹوٹے دل کی وہ خواھشات جن سے اللہ راضی نہیں مثل بیش بہا موتی کے خواہ کتنی ہی قیمتی ہوں انکو توڑ دو لیکن حکم الیٰ کو نہ توڑو...

اللہ بے کس کی پکارسنتاہے

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زبدانی لے جایا کرتا تھا اور اسی کرایہ پرمیری گذر بسر تھی . ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر کرائے پر لیا میں نے اسے سوار کیا اور لے چلا ایک جگہ دو راستے تھے ، جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ سے چلو، میں نے کہا میں اس راہ سے ناواقف ہوں . سیدھی راہ تو یہی ہے ، اس نے کہا نہیں ، میں پوری طرح واقف ہوں . یہ بہت نزدیک کا راستہ ہے اس کے کہنے سے اسی راہ چلا. تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ہم یکایک بیابان میں آگئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا. نہایت خطرناک جنگل ہے اور ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں میں سہم گیا. وہ مجھ سے کہنے لگا : ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے. میں نے لگام تھام لی اور وہ اترا اور اپنے کپڑے ٹھیک کرکے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا . میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑ لیا. میں نے اس کی منت و سماجت کی لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا. میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے. اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں توتجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا. میں نے اسے اﷲ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا. اب میں مایوس ہوگیا، اور مرنے کیلئے تیار ہوگیا اور اس سے بامنت التجا کی کہ آپ مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دیجئے. اس نے کہا: اچھا جلدی پڑھ لے میں نے نماز شروع کی لیکن اﷲ کی قسم ! میری زبان سے قرآن مجید کا ایک حرف بھی نہیں نکلتا تھا یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا ہوا تھا اور وہ جلدی مچا رہاتھا. اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آگئی '' امن یجیب المضطر اذا دعاہ ویکشف السوء '' (( اﷲ ہی ہے جو بے قرار کی بے قراری کے وقت دعا کو سنتا ہے اور قبول فرماتا ہے اور بے بسی ، بے کسی ، سختی اور مصیبت کو دور کردیتا ہے). پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھاجو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھوڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آرہا ہے اور بغیر کچھ کہے ڈاکوکے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھسیڑ دیاجو اس کے جگر کے آرپار ہوگیا . وہ اسی وقت بے جان ہو کر گر پڑا. سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور کہنے لگا :'' اﷲ کیلئے یہ تو بتلاؤ کہ تم کون ہو ؟'' اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں ، بے کسوں اور بے بسوں کی دعا قبول فرماتا ہے . اور مصیبت و آفت کو ٹال دیتا ہے. میں نے اﷲ کا شکر ادا کیا اور وہاں سے اپنا خچر اور مال لے کر صحیح سالم واپس لوٹا. لہ دعوة الحق اسی کو پکارنا حق ہے اس کے سوا نہ کوئی پکار سن سکتا اور نہ مصیبتوں اور پریشانیوں کو دور کرسکتا ہے . (تفسیرابن کثیر ، جلد4) ( ''صحیح اسلامی واقعات ''، صفحہ نمبر 154-152)

Thursday 22 December 2022

کرسی پر نماز اور اس کاطریقہ

جو شخص بیماری کی وجہ سے کھڑے ہونے پر قادر نہیں، یا کھڑے ہونے پر قادر ہے، لیکن زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے، یا قیام و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا شفا ہونے میں تاخیر یا ناقابلِ برداشت درد کا غالب گمان ہو تو ان صورتوں میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اسی طرح جو شخص فرض نماز میں مکمل قیام پر تو قادر نہیں، لیکن کچھ دیر کھڑا ہو سکتا ہے اور سجدہ بھی زمین پر کرسکتا ہے توایسے شخص کے لیے اُتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے، اگر چہ کسی چیز کا سہارا لے کر کھڑا ہونا پڑے، اس کے بعد بقیہ نماز زمین پر بیٹھ کر پڑھنا چاہیے۔ اور اگر زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہیں تو ایسی صورت میں شروع ہی سے زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ اور اس صورت میں اس کی نماز اشاروں والی ہوتی ہے، اور اس کے لیے بیٹھنے کی کوئی خاص ہیئت متعین نہیں ہے، وہ جس طرح سہولت ہو بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھ سکتا ہے، چاہے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے یا کرسی پر بیٹھ کر، البتہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے، لہذا جو لوگ زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرسکتے ہیں تو زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کریں، اور اگر زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے میں مشقت ہوتو وہ کرسی پر بیٹھ کر فرض نمازیں، وتر اور سنن سب پڑھ سکتے ہیں۔ اشارہ سے نماز پڑھنے والے بیٹھنے کی حالت میں معمول کے مطابق ہاتھ باندھیں، اور سجدہ میں رکوع کی بنسبت ذرا زیادہ جھکیں، تشہد بھی معمول کے مطابق کریں، اور اگر زمین پر بیٹھنے کی صورت میں تشہد میں دو زانو ہو کر بیٹھنا مشکل ہوتو جس طرح سہولت ہو مثلاً چار زانو (آلتی پالتی مار کر)، یا پاؤں پھیلا کر جس طرح سہولت ہو بیٹھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ جو شخص زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو اس کے لیے قیام پر قدرت ہونے کے باوجود قیام فرض نہیں ہے، لہٰذا ایسا شخص کرسی پر یا زمین پر نماز ادا کر رہاہو تو اس کے لیے دونوں صورتیں جائز ہیں: قیام کی حالت میں قیام کرے اور بقیہ نماز بیٹھ کر ادا کرے یا مکمل نماز بیٹھ کر بغیر قیام کے ادا کرے، البتہ دوسری صورت یعنی مکمل نماز بیٹھ کر ادا کرنا ایسے شخص کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ فقط و ان تعذرا، لیس تعذُّرَھما شرطاً بل تعذر السجود کافٍ، لا القیام أومأ قاعدًا؛ لأن رکنیۃ القیام للتوصل إلی السجود فلا یجب دونہ (درمختار مع الشامی زکریا: ۲/۵۶۷) فتاویٰ عالمگیری:

Monday 19 December 2022

سبتة

سبتة هي مدينة مغربية تحت السيادة الإسبانية ذاتية الحكم تقع على القارة الأفريقية ويعتبرها المغرب مدينة محتلة ولا يزال يطالب باسترجاعها، تقع مقابل لمضيق جبل طارق، تحدها من الشمال والجنوب والشرق البحر الأبيض المتوسط. يبلغ عدد سكان سبتة 82.376 نسمة (وفقاً لإحصائيات التعداد السكاني المؤرخ 1 يناير 2011)، وتبلغ مساحتها 19 كم مربع (معدل الكثافة السكانية 4.240,52 نسمة/كم²). يتألف سكانها من المسيحيين والمسلمين، مع وجود أقلية يهودية وهندوسية. وقد أصبحت المنطقة منذ عام 1995 تتمتع بصيغة الحكم الذاتي داخل إسبانيا بقرار البرلمان الإسباني عام 1995. في أقصى طرف المدينة تمتد شبه جزيرة ألمينة، وتضم أراضيها جزيرة سانتا كاتالينا.7 الرئيسية / دراسات وأبحاث / معالم وحدة المملكة المغربية علم وعمران معالم جوانب من تاريخ الحركة العلمية بسبتة..الجزء الأول 2015-01-02 0229 4 دقائق د.جمال بامي مدير وحدة علم وعمران عرف علم التاريخ ازدهارا ملحوظا خلال القرنين السادس والسابع، وألف المغاربة خلال هذه الفترة كتبا عديدة في التاريخ بمختلف فروعه.. وقد كان لمدينة سبتة المباركة دور بارز في علوم التأريخ خصوصا ما تعلق منها بالتأريخ للحركة العلمية وعلاقة ذلك بالاجتماع البشري والعمران الإنساني بفضل من الله. في هذه الحلقة الأولى من جوانب من تاريخ الحركة العلمية بسبتة سأتحدث عن اعتناء علماء سبتة بالسير عموما، وبسيرة الرسول الكريم خصوصا.. لقد ألف القاضي عياض في تاريخ سبتة كتابه: “الفنون الستة في أخبار سبتة، ذكر ابنه في التعريف أنه لم يكلمه، بينما نجد ابن مرزوق في: “المسند الصحيح الحسن، ينقل مباشرة من الكتاب في الفصل الثاني الباب[1]. ويفيدنا الفاضل إسماعيل الخطيب في كتابه الحركة العلمية في سبتة خلال القرن السابع (منشورات جمعية “البعث الإسلامي” – تطوان – المغرب، الطبعة الأولى: 1986) أن القاضي عياض حريص على مجالسة طائفة من أعلام سبتة من أشياخه من الذين كانوا على اطلاع على أخبار البلد منهم الأديب عثمان البرغواطي الذي يقول عنه: “… وجالسته كثيرا وحدثني بغير شيء من أخبار سبتة، وكان خبيرا بأهلها ومشيختها“[2]. وقد كان لأعلام سبتة في القرن السابع اهتمام بهذا الفن، فظهر طائفة من المؤرخين، خاصة مؤرخي التراجم، نذكر منهم: العباس بن فرتون أحد أعلام الرواية والتاريخ، له: الذيل على الصلة، والاستدراك والإتمام، استدرك فيه على الإمام السهيلي في كتابه التعريف والإعلام، وإبراهيم بن الحاج السلمي، وعلي بن محمد الغافقي الشاري الراوية المؤرخ الأديب[3] له استدراكات على الصلة لابن بشكوال، وعبد الله بن محمد العزفي وصف بالمعرفة بالتاريخ وألف الإشادة بذكر المشتهرين من المتأخرين بالإجادة، وإبراهيم بن أحمد بن الكماد الذي كان أذكر أهل زمانه للتاريخ[4]، والحسن بن عتيق ابن الحسين بن رشيق وصف بعلو كعبه في علم التاريخ، ومحمد بن محمد بن إدريس القللوسي، كانت له عناية بالتاريخ، وله تأليف في تاريخ اصطبونة، وعبد المهين الحضرمي برز في علم التاريخ، وهو صاحب السلسل العذب والمنهل الأحلى، ومحمد بن خميس الأنصاري الجزيري[5] كان على معرفة بالتاريخ “الأعلام”. ومعلوم أن علماء سبتة كغيرهم من علماء الغرب الإسلامي قد اهتموا بالسير، خصوصا السيرة النبوية، وصنفوا فيها تصانيف هامة قامت على منهج المحدثين في الضبط وطرق الجرح والتعديل. وقد كان لأهل سبتة فضل السبق في هذا الميدان بما صنفوه من تآليف في مقدمتها كتاب “شفاء الصدور” للفقيه المحدث الحافظ أبي الربيع سليمان بن سبع السبتي[6]. ثم جاء العلامة عياض بكتابه: “الشفاء” ليتناول جانبا من التاريخ النبوي، يتصل بالحياة النفسية والاجتماعية للرسول الكريم، ويبين أخلاقه وشمائله عليه الصلاة والسلام. وقد اهتم أهل سبتة بكتاب “الشفا”، فدرسوه، ورووه بالأسانيد المتصلة، وبرز طائفة من مدرسيه مثل أبي محمد عبد المهيمن الأنصاري المعروف بالحريزي[7]، وأبي الحسين بن أبي الربيع القرشي، وأبي الحسن عبد الرحيم بن عبد الرحمان القيسي الجزري[8]، وابن عبد الله محمد بن عبد الله الأزدي[9]. وخلال النصف الأول من القرن السابع، ألف علمان سبتيان فاضلان أولى التآليف في المولد النبوي، وهما: أبو الخطاب عمر بن دحية الكلبي، الذي وضع كتاب “التنوير في مولد السراج المنير، ألفه للملك المظفر التركماني صاحب أربل[10]، وأبو العباس العزفي، الذي ألف كتاب “الدر المنظم في مولد النبي المعظم[11]؛ وهو الكتاب الذي دعا من خلاله إلى الاحتفال بالمولد النبوي، وهذا ينسجم مع اهتمام المرينيين الكبير بمناسبة المولد النبوي، وإحيائهم فيها الأذكار والأوراد، وما يتصل بذلك من مواسم ولقاءات صوفية في جل ربوع البلاد. وقد أطال العزفي في التحذير من الاحتفال بفاتح يناير مستدلا بأقوال العديد من العلماء، وقال: “ومما فتن الناس فيه، السؤال عن مولد عيسى عليه السلام، فكثير ما يسألون عنه، أو ليس لميلاد نبينا محمد عليه الصلاة والسلام أولى والتهمم به، ومعرفته“. وقد ابتدأ أبو العباس العزفي تأليف الكتاب، وتوفي رحمه الله قبل أن يكمله، فأكمله ابنه، وكتبه في نسختين: صغرى وكبرى، والكبرى هي المتداولة بين الناس… ونقرأ في كتاب إسماعيل الخطيب حول “الحركة العلمية بسبتة” أن ثمة فرق بين القسم الأولى الذي كتبه أبو العباس والقسم الذي كتبه ابنه، الأول ظل حريصا على رواية الأحاديث بسندها، والتحري في ذلك، بينما نرى الثاني أقل تحريا وضبطا. وقد اعتنى الناس بكتاب: “الدر المنظم وتداولوه وكثرت نسخه، وعد من مراجع السيرة والشمائل النبوية[12]. وجاء العلامة مالك بن المرحل لينظم قصائد على حروف المعجم سماها “الوسيلة الكبرى المرجو نفعها في الدنيا والأخرى، وتسمى أيضا بالعشرينيات وهي تتضمن غزوات الرسول الكريم، وكثيرا من معجزاته على نسق ما ذكره ابن إسحاق[13]. وإلى جانب كتاب: “الشفا” كانت هناك كتب أخرى تدرس في حلق العلم منها : سيرة ابن إسحاق بتهذيب ابن هشام، درسها أبو العباس العزفي ويرويها بعدة طرق إلى القاضي عياض كما درسها أبو حاتم العزفي وأبو الحسين بن أبي الربيع[14]، وكتاب شمائل النبي صلى الله عليه وسلم، تصنيف أبي عيسى الترمذي درسه العلامة أبو إسحاق الغافقي، والقاسم بن عبد الله الأنصاري[15]، و”رائع الدرر ورائق الزهر في أخبار خير البشر” ألفه أبي الحسين أحمد بن فارس بن زكريا اللغوي، درسه محمد الكتامي المعروف بابن الخضار. وظهر خلال القرنين السادس والسابع فن من فنون السير هو المناقب، وقد اهتم العلماء بتدوين مناقب الأولياء والصلحاء، وألف في ذلك عدد كبير من المؤلفات، ويفيدنا الفاضل إسماعيل الخطيب في كتابه المذكور أن هذا النوع من التآليف ظهر بعد فتنة البرغواطيين، وساهم السبتيون في هذه الظاهرة بكتاب شهير هو “دعامة اليقين، في زعامة المتقين” لأبي العباس العزفي[16]. رحم الله هؤلاء الأفاضل وجازاهم عن سبتة والمغرب خيرا.. يتبع في العدد المقبل بحول الله تعالى.. —————————————— 1. كذلك نجد عياضا يشير إلى ما يفهم منه أنه أتم الكتاب، كقوله في المدارك 2: 628 طبع بيروت” وقد بسط أخباره في ذكر قضاة سبتة من تاريخها”. 2. التعريف، 41 – 42. 3. الإحاطة، 4:11. 4. جذوة الاقتباس، 84. 5. الإحاطة، 3:185 – اختصار الأخبار، 28 – بلغة الأمنية، 4. 6. المتوفى سنة 520 راجع بحث الأستاذ سعيد أعراب في مجلة دعوة الحق السنة 20 الأعداد 8-9-10. 7. نفسه. 8. برنامج التجيبي 115 ويقول التجيبي عن الشفا وهو من الكتب التي ينبغي لكل طالب علم أن لا يخلي خزانته منه، “البرنامج”. 9. نفسه. 10. صلة الصلة 73 – التكملة رقم 1832. 11. توجد منه بالمكتبة الملكية بالرباط أربع نسخ تحث رقم: 816 – 1431 – 1721 – وهي نسخة المكتبة الزيدانية المكتوبة عن أصل خلف بن عبد العزيز القبتور المكتوب سنة 653، راجع كتاب إسماعيل الخطيب المذكور. 12. انظر مثلا شرح الزرقاني على المواهب اللدنية، 1: 141 – 3: 123 أنظر مصادر مغربية في موسوعة المواهب اللدنية – للأستاذ سعيد أعراب مجلة “دعوة الحقّ عدد 8 سنة 21. 13. برنامج التجيبي 114. 14. برنامج التجيبي 106. 15. برنامج التجيبي 92. 16. يوجد على “مكرو فلم” بالخزانة الوطنية بالرباط x ابحث هنا نوابغ مغربية: أبو العباس السبتي.. رائد العمل الإحساني الذي جعل من التضامن والإيثار قيمة القيم تميز المغرب عل مدار تاريخه ببزوغ شخصيات نابغة أبدعت في مجال تخصصها وأسهمت في بناء الإدراك المعرفي للمجتمع وشحذ الهمم والارتقاء بالوعي الجمعي، كما رسخت عبقرية المغاربة بتجاوز إشعاعها حدود الوطن، ومنهم من لا تزال إنتاجاتهم العلمية والمعرفية تُعتمد في الحياة وتدُرس في جامعات عالمية. هم رجال دين وعلماء ومفكرون وأطباء ومقاومون وباحثون ورحالة وقادة سياسيون وإعلاميون وغيرهم، منهم من يعرفهم الجميع وآخرون لم يأخذوا نصيبهم من الاهتمام اللازم، لذا ارتأت جريدة “العمق” أن تسلط الأضواء على بعضهم في سلسلة حلقات بعنوان “نوابغ مغربية”، لنكتشف معًا عبقرية رجال مغاربة تركوا بصمتهم في التاريخ. : أحمد بن جعفر السَّبْــتـي.. رائدُ مذْهَبِ أَثَــرِ الجُود في حرَكة الواقع العطاء قيمةُ القِيم كان مولِده بحاضرة سبتة، أقصى شمال المغرب، سنة 524 هجرية الموافق لسنة 1129 ميلادية، فنشأ في بيئة متواضعة، ذاق فيها مرارة فَقْدِ الأبِ وحالِ الفَقْـرِ مَعاً. ولظروف العائلة العصيبة؛ قَرَّرَت أمُّه الدّفع به لتعلُّم الصنعة، ليُعينَها على نوائب الدَّهر، إلّا أنه كان يَفِرّ مِن مِهنة الحياكة إلى مجالس القراءة في الكتاتيب، وظَلَّ متنقِّلاً بينها إلى أنْ انتهى به المطاف في كُتّاب الفقيه العالِم عبد الله الفخّار، الذي أخَذَ عنه العِلم والــمَشْيَخَة، بعد أنْ اقتَنَعت والِدته بأهمية تعلُّم ولَدِها، وقنَعت بالمال الذي كان يَبعثُ به الشيخ الفخّار إليها أواخِر كلّ شهر. لم يكن يخُطر بخُلْدِ هاته الأمّ أنَّ هذا الفتى الذي أقْبَل على تَعَلُّمِ الحساب والنحو بنهمٍ، وحِفْظِ القرآن في سنواتٍ معدودات، مع ذكاءٍ وفِطنة تَفوَّق بهما على أقرانه؛ أنّه سيصير أحد أقطاب العلم والإصلاح في المغرب، وشخصية مؤثِّرة في شرائح عديدة من المجتمع وعلى توالِي القُرون. بعْدَ أنْ شبَّ واستقامَ تطلَّعت هِمّة أحمد بن جعفر السّبتي إلى خَوضِ غمار تجربة الارتحال عن الديار السَّبتية إلى الحاضرة المراكشية، منارة العلم وعاصمة الدولة المرابطية. “في طَلبِ العلم يَهون عليَّ سَفَرُك”، كذا علَّق الشيخ الفخّار على قرار رحيل تلميذه النجيب أحمد، فارتَحل إلى مراكش سيراً على الأقدام، فكان له في تِلك السَّفرة عِوض عمّن فارَقه، وأحوال وكرامات. حتى وصَل مراكش سنة 540 في عِزّ انتصار الموحِّدين على المرابِطين، وبدايات استِفرادهم بالحكم. أوّل قرار اتخذه أبو العباس السّبتي عند حلوله بمراكش؛ اتّخاذِهُ لخُلوةٍ شخصية في جَبل (جِـليز)، معية خَديمهِ سيدي مسعود، قَصَد بها وجه الله، تَعبُّداً وتبتُّلاً، وتدبُّراً في معاني سور القرآن الكريم، مع التركيز على الآيات التي حَضَّت على الإنفاق والصدقة والعطاء والبَذل والإحسان، وعلاقة ذلك بالطبيعة وتدبير خيرات الأرض ونهاية العالم والدار الآخِرة، وعامِلاً النَّظرَ والفِكَر في أحاديث النبي صلى الله عليه وسلم وسيرته، ولم يخرُج مِن خلوته إلّا سنة 580 هجرية حسَب تقدير المؤرخين، وهي السَّنة التي تُصادِف تَولِّي يعقوب المنصور حُكم الدّولة الموحدية. بَعد تجربة المكابَدة الباطنية للتربية، تخْلِيةً، وتربية للنفس، وانقطاعاً عن الملذات في جَبل كليز بمراكش، وظهور الكرامات على يديه في صفوف مَن كانوا يتسامعون به ويأتونَ أو يأتيهم أحياناً في دُورِهم، وإقبال الناس عليه وعلى أجوبته الدِّينية وفتوحاته الربانية، شاع صِيته، فأمَر السلطان أبو يعقوب منصور الموحِّدي بإنزال الشيخ السبتي مِن مآواه التبُّعدي بجبل كليز، وحَـبَّس عليه مَدْرسةً وداراً للسكن، ثم تزوَّج وطال به الاستقرار بعاصِمة الدولة الموحدية. بالموازاة مع عمله في التدريس، وانخراطه في التوعية بأهمية التضامن والعطاء والإنفاق، مَارس التبليغ في الناس، في أسواقهم، وطُرُقهم، قبْل أن تَظهر طريقة الدعوة والتبليغ بعشرات القرون، ومَدار حديثه الصَّدَقة، والإنفاق من المال، قَلَّ أو كَثُرَ، حتّى لُقِّبَ بــين العامّة بــ”تاجِر الله بين خَلْــقِه”. كان دَيْدنُ أبي العباس السبتي؛ البحث عن الفقراء والمحتاجين ومَن يعيشون في ضائقة، فيأخذ بأيديهم، وله عجائب وغرائب في إغاثة الملهوف، وبركاتٍ أكْثَرَ مِن إيرادها بالعشرات ابن الزيات التادلي رحمه الله، وكان أيْضاً يَطوف على ذوي المال والجاه في المدينة، محفِّزاً إياهم على التصدّق والإعالة. ولم يقتصِر على تشجيع الأثرياء على العطاء، بل طالَب كل مَن يملك ولو قليلاً أنْ يتصدّق على مَن لا يملِك. وكان شعاره في ذلك “سَبَق درهمٌ مائةَ ألْفِ درْهمٍ”، وكان يقول لتلامذته “إنما أنا دَلّالُ خَير، وواسطة بين الخلق وخالِقِهم، أدُلُّهم على فَضله وإحسانه”. وبعد أنْ اشتَهَر بين الناس ونَبَغ في وسائل إقناع فئات واسعة في المجتمع بأهمية الإنفاق والتضامن بين جَسَد الأمّة الواحد، وتناقَل أخباره المغاربة، صارَ يقصِده التّجار والحرفيون والعلماء والفقراء والأمراء، وأقْبلوا عليه بالتّعظيم والتكريم، كما كان يقصده المرضى طَلبا للدعاء بالشفاء، وكان لا يَفتأ يطلُب من كُلِّ ذي مَرَضٍ أنْ يَتَصَدّق، أو يَدفع “الفْـتوح”، لأنّه عَدَّ البُخْلَ مَرَضاً، وحُبَّ المال بإفراطٍ هو الشِّرك الخفي، وأنّ في الصَّدَقة أسرار، ليس أقَلُّها حلول بركة العافية والشفاء في المريض. وكان يقول لمن يشتكي له الجفاف “لو تَصَدَّقوا لـمُطِروا”، ويوقِنُ أنّ “البخل يُؤدِّي إلى الـجَـدْب”. لقد رَبَط الشيخ السَّبتي حقيقةَ التوحيد والإيمان بالجانب العملي؛ أيْ التَّضامن بين أفراد المجتمع، والإنفاق في سبيل الله، أي أنَّه كان يَعُدُّ “الإنفاق في مقدِّمة أعمال التديّن” بتعبير الدكتور أحمد التوفيق. وعن نفسه؛ فقد عَقَد العَزْم على أنْ لا يكون له مَتاع أو مال أو أكْل أو لباس إلّا وشاطَرَه مع أصحابه والنّاس، وعمِل بالإيثار، وتَمَثَّل بأوامِر كثير من آيات القرآن التي تَحُضَّ على الإنفاق. ورأى أنَّ الإحسانَ أعلى قيمة يمكن أنْ يتّصِف بها الإنسان. فارتقى به الحال والمآل والتصدّق طيلة 60 عاماً، إلى أنْ صارَ في مقامٍ لا يقول معه: “يا رب” إلاّ قال لي: “لبَّيْكَ”، كما حكى عن نفسه. إنَّ الشيخ السَّبتي صُوفِيٌّ ذاقَ جمالية الفِعل التعبُّدي في الإسلام، فكانت صلاته غير صلاةِ غيره، وصومه غير صوم غيره، وفهْمُه مؤيَّدٌ بالتعبُّد مطبوع بالتزهُّد في كل شيء، مُبادِراً، متطوِّعاً، سَخِيّاً، دائم الحركة في الأسواق والطرقات، قَصَده ذوو الفاقة فآواهم، وآتاه البعض عُراةً فكساهم، وجَوْعى فأطْعَمَهم. ومِن أغْرَب ما حُكِيَ عن زُهدِه وإحسانه، أنّه في ذات ليلةٍ مطيرة، بارِدة، اشتدَّ البَرد على الشيخ السَّبتي فأخذَ يَطْلُب من أبنائه مَدَّه باللحاف ليتدفَّأ، فما يزالَ يطوف بالبيت ذهاباً وجيئةً، إلى أنْ يسمِع أحاديث جيرانه وقد انتصف الليل، فيخرَج إليهم ويسألهم عن سبب بقائهم أيْقاظاً، فيُجيبُونَه أنهم لم يناموا مِن الأصْل، لابْتِلالِ أغْطِيتهم وافْتِقارهم إلى الأغشية، فيعودُ إلى أبنائه ويقول لهم: “تصدَّقوا بأغطيتي لجيرانكم، فمن هُنا كان يأتيني البَرد”. لقد كرَّس الرجل حياته لعمل جليل، فأحَبَّه الناس وقَدّروه. ذَكَـرَ الفقيه الصومعي أنّ السبتي “كانت له هِمّة عالية، وكان بقُدْرة العزيز الجبّار تَنْفَعِل له الأشياء على مُقتضى مُرادِه، فكان يتعجَّب منه العدو، ويَزيدُ في مَحَبَّـتِه الصَّديق”. وأكَثَر القولَ في مذهبه وجُوده وأسرارِه خَلْقٌ كثير. فالشيخ الأكبر صوفيُّ الأندلس وعالِمها محيي الدين بن عربي، في كتابه المعروف (الفتوحات المكية) ص: 386 وصَفَه بــ”صاحِب الصَّدَقة بمراكش”، وقد كان ممن التَقى بهم في جولته الشهيرة إلى المغرب وتعقُّبه آثارَ الأولياء والصالحين، فاجتَمع بأبي العباس ولازمه أيامًا. وقال عنه ابن الزيات في مرجِعه الشهير (التشوّف إلى رجال التصوّف): “إنّ شأْنَه من عجائب الزمان، كان رحمه الله قد أُعْطِيَ بَسْطة في اللِّسان وقُدرةً على الكلام، لا يُناظِرُه أحدٌ إلّا أفْـحَمَهُ، وكان سريع الجواب”، و”كان جميل الصورة أبيض اللون، حَسَن الثياب، مفوَّهاً، حليماً صَبوراً”. ووصَفه السيّد أحمد بن الخطيب بــ” الفقيه العالِم الـمحقِّق (..) آية في الـمناظَرَة”، وقال فيه فيلسوف قرطبة ابن رُشد لَـمَّا أطْلَعه أحدُ مبعوثيه إلى المغرب على أمْرِ وحالِ ومَذهب أبي العباس السبتي؛ إنّ “هذا رَجُلٌ مَذْهَبُه أنَّ الوجود ينْفَعِل بالجود”. ووصَفه أحمد المقري التلمساني في موسوعته (نفح الطِّيب من غُصن الأندلس الرطيب): بـــــ”الولي العارِف بالله، صاحب الحالات والكرامات الظاهرة، والطريقة الغريبة والأحوال العجيبة”. وشبَّههُ العلّامة أحمد بابا التّنـبكتي في (كِفاية المحتاج لمعرفة مَن ليس في الدِّيباج) بــ”الولِي الزّاهد، الغَوث العارِف باللهِ تعالى”. وقال علّامة الأندلس لسان الدين ابن الخطيب “كان سيدي أبو العبّاس السبتي رضي الله عنه مقصوداً في حياته، مُستَغاثًا به في الأزمات، وحالُه مِن أعْظَم الآيات الخارِقة للعادات، ومَبْنى أمْرِه على انْفِعالِ العالَم عن الجود وكَونُه حِكمة في تأثير الوجود”. وحلّاه بأوصافٍ جليلة العلّامة إبراهيم التعارجي المراكشي في منظومته (إظهار الكمال) في أبيات منها: وأحــمدُ المجد يعلو قَدْرُه أبَــــــــــداً إفْضاله عَمَّ لا يَخْشى من إقــــــــــــــــــــــــــــــــتارِ أمّا كَرامــاته فالعَــــــــــــــــــــــــــــــدُّ ممتنِـــعٌ جَلَّت عن الـحَصْر لا تُحْصى لإكْـــــــــــــثارِ نَعم، إنّ العطاء والجود في مذهب أبي العباس، مَسْلكٌ ذَوقي، وتربوي، وجمالي، وتَعَبُّدي أيضاً، وعلى ضوء هذا؛ لم يكن رحمه الله ينظُر إلى المجتمع بنظرة طَبقية تَجعله طَبَقتان: أغنياء، وفقراء، بل إلى شريحتين: مُنْفِقين وبُخلاء، فالبخيل قد يكون فقيراً أو قد يكون غنيا. لذا لم ينهَج السّبتي منهج أبي ذرٍّ ولا منهج الحركات الاجتماعية الثورية التي آمنت بالعدالة الاجتماعية وسَعت لأخذ الأموال من الأغنياء ورَدِّها على الفُقراء، بل كان يرى ذلكَ واجباً مفروغاً منه، فجَعل مَنهجه قائماً على الـجُود الـجماعي، فكُلُّ فَردٍ في المجتمع بإمكانه أنْ يَتَصدَّق، ويُنفِق مما آتاه الله، ماديا أو عَينيا. وجَعَل ثَورَتَه سِلمية هادئة، لم تُثِر ضِدَّه حَنق الأثرياء والأمراء، بل آلَفت بين القلوب، وشجّعت على الإحسان العمومي، ودعّمت التضامن، ودَعت للـمُشاطَرة ولو بِشِقِّ تَمرة، فاتّفَقت على مَحبته العامة والنخبة. وظَلَّ بجميل صَبْره وحُسْن خُلُقه ولِينِ دَعْوته ودائِبِ سَعْيه لصالح البسطاء؛ يَترقَّى في سُلَّمَ الـمحْبوبية حتى أحَبّه أهل المغرب حَيا وميّتاً. أكْسَبته أعماله الجليلة وذَكاؤه في فهمِ وتفسير القرآن واستِيعاب طَبيعة المجتمع وحاجياته؛ سُمعةً طيبة، وتناقَل الناس أخبارَه، واجتمَع حولَه الأتباع وتَشكَّلت في مجالسه مجموعات من التلامِذة الأوفياء، منهم ابنه عبد الله السّبتي، وعيسى بن شعيب، وأبو بكر بن مُساعد، ويوسف بن الحسين الأنصاري، ومحمد بن خالِص الأنصاري، وأبو يعقوب الحكيم، وأبو الحسن البلنسي، فضلاً عن خَديمه القديم سيدي مسعود. وقال الفقيه أحمد الصومعي إنّ أتباع الشيخ السبتي وتلامذته وأبناءه لم يرِثوا عنه شيئا، “لِصعوبة طَريقه، إذْ هي مَـبنية على البَذل والإيثار الكلّي”، فمنهج الشيخ يقرن الإيمان بالعمل، ويُلِزِم النفس نصيباً من التمرُّن على الكفاف وعَيش النُّدْرة، والإحساس بآلام الآخرين. وكان هو في حياته نموذجاً وقُدوة، لا يدّخِر ولا يكتنِز، ولا يتوانى عن خِدمة الناس ومُشاطَرَتهم ما يَملِك، ناهِجاً في الصدقة مَسْلَكاً لم يُسبَق إليه، حتى وثِق فيه مَن يملكون إرْثاً، أو متاعاً، ومَن يرغبون في إيداع أموالِهم لصرفها في طُرُقها النافعة، حيثُ كان بعض السّادة الفقهاء إذا توفِيَّ أحدُهم أوصى بَنيه بتسليم جزء من ثروته المالية للشيخ أبي العباس السبتي، كما في القصة التي رواها العلّامة أبو القاسم بن رضوان. لقد عاش القُطْب أحمد السبتي حياةً زاهدة، مبنية على العِلم والعمل، والإنفاق والتصدُّق، والاقتناع التام بكَون “أصْل الخير في الدنيا والآخِرة؛ الإحسان”، وكان لسانُ حاله دائما قَولُه “من يُعطِي دِرْهمين يُزال عنه وَجع الرأس”، ودعاءه الذي لا يتوقّف عن ترديده “يا مُصْلِح الأسرار صَفِّ أسْرارَنا”، ومُلاحَظته التي يُردّدها بمرارة قولُه لقد “رَكَن العلماء إلى الدُّنيا وبَخلوا بها”. فعاشَ كما قال فيه صديقه يوسف بن الحسين الأنصاري: يَدُلُّ بنا طريقَ الحقّ قصْداً فليسَ يعوجُ عنه ولا يَميلُ فتنتعِشُ مِن عوارِفهُ جُسومٌ وتَنْعَمُ مِن مَعارِفهِ عُقـــــــــولُ وإذا كان غالبية متصوِّفة المغرب والمشرق؛ قد تركَّزت جهودهم على التربية والتزكية والمشاركة في تحرير الثُّغور والدفاع عن الأوطان؛ فإنّ صُوفية الشيخ السّـبتي قد رَكّزت على قيمتَي العطاء والتضامن كَشَرطَيْن عَمليين عميقين للتوحيد وللتربية أيْضاً. ولم ينقطِع ذِكره في الناس مُذ وافته المنية يوم الإثنين 3 جمادى الثانية 601 هجرية، الموافق لــ 26 يناير 1205 بمدينة مراكش، بحيث مَدَحه الشعراء، وتوسَّل ببركته البُسطاء، وكَتَب عن سيرته وكراماته المؤرِّخون والفقهاء، وشُيِّدَ له ضريحٌ حضِيَ بعناية الحكّام والرعية، واستُحْدِثَت صَدقاتٌ باسمه، بقِيَت تشْمَل الفقراء وذوي الحاجات والتيامى والأرامل قَرْناً على صَدْرِ قَرْنٍ، حتى قال مَن شاهَد ضريحه في باب أغمات “روضَة هذا الولِيّ ديوان اللهِ تعالى في المغرب، لا يُحْصى دَخْلُه، ولا تُحْصَرُ جِبايته”، وحَضَّ المؤرّخ والكاتب محمد الصَّغير الإفراني الناسَ على تخليد مناقِب ومنهج أبي العباس السبتي في أبياتٍ منها قولُه: زُر أبا العبّاس تَظْفَر دون شـــــكٍّ بالأمانِ هوَ غَوْثُ الناس طُرّاً في عِـــــــــــــراقٍ مَعْ يَمانِ وهْـــوَ سِـــرّ الله فيـــــنا ما لـــــــه في السِّر ثانِ إنّمــــــــا السَّبتِيُّ ذُخْـــــــــرٌ ومَــــــلاذٌ للمــــــــــــــــعانِي إنّـــــــــــــما السَّبتِيُّ بَحْـــــــــرٌ لـــــــيسَ يَفنى بالأوانِي ورغم بُعد الزّمن الذي يَفصْلنا عن الشيخ السبتي؛ إلّا أنَّ ذِكْرَاه ومذْهَبَه في الجود وحِكَمَه وأدوارَه الإحسانية ما تَزال مَحطّ تقديرٍ وحُضور واستِحْضار، يُكَرَّم مَزارُ الشيخ، وتُقام حَفَلات “العبّاسية” إكراماً لمذهبه وطَريقته، ويُطْلَق اسمه على المدارس والشّوارع والممرات والمكتبات، وتُكتَب عن سيرته وكراماته الكُتب والمقالات والرِّوايات، ويُذْكَر مقروناً بالسَّبعة الكِبار في مراكش، ويُحتَفى به في البرامج التّلفزية، وتُعقَد النّدوات لمدارسَة منهجه في الجود والإحسان ونُبوغِه في خِدمة العامّة، ويحيى السلاطين ليالي القدر بضريح أبي العباس، وتذكُره الذاكرة الجمعية للمغاربة كرَمْز مُشْرِقٍ مُؤثِّر في ماضي المغرب وحاضِره ومُستقبَله. أنا السَّبْتِيُّ الذي قد طابَ أصْلي وقَرَّبَني الـمُـــــــــــــــــــــــــــــــهيمِنُ واجتــبانِي مصادر ومراجع: * (بن عربي) محيي الدين بن محمد: “الفتوحات الـمكّية“، ضبط وتصحيح أحمد شمس الدين، منشورات محمد علي بيضون، دار الكتب العلمية، بيروت –لبنان، الطبعة الأولى 1999. * (التنبُكتي) أحمد بابا: “كفاية الـمُحتاج لمعرفة من ليس في الدِّيباج“، جزآن، دراسة وتحقيق الأستاذ محمد مطيع، تقديم الدكتور الوزير عبد الكبير العلوي المدغري، الطبعة الأولى 2002، منشوات وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية. * (التادلي) يوسف بن يحيى: “التشوُّف إلى رجال التصوف وأخبار أبي العباس السبتي“، تحقيق الدكتور أحمد التوفيق، الطبعة الثانية 1997، منشورات كلية الآداب والعلوم الإنسانية بالرباط. * (علوان) محمد حسن: “موتٌ صغير“، رواية، منشورات دار الساقي، الطبعة الأولى 2016، نسخة ورقية.

Tuesday 13 December 2022

ہرسال مستحقین میں زکات تقسیم کرنالازم ہے دوسرے سال کے لئے جمع کرنا درست نہیں

زکاة فرض ہونے کے بعدبلا عذر تاخیر کرنا صحیح نہیں ہے، فورا ہی صحیح مصرف میں زکات کی رقم خرچ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاہم اگر کسی وجہ سے وقت پر زکات نکالنے میں تاخیر ہوجائے اور پورے سال زکاة اداء نہ کی جائے،یاکچھ رقم بچ جائے تو اگلے سال کی زکاة کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال کی بھی زکاة دی جاسکتی ہے.البتہ اس تاخیر سے بچنا چاہیے اور ہرسال مستحقین میں تقسیم کردینی چاہئے. وتجب علی الفور عند تمام الحول حتی یأثم بتأخیرہ من غیر عذر۔ (الفتاویٰ الہندیة ۱/۱۷۰)وافتراضہا عمري : أي علی التراخي وصححہ الباقاني وغیرہ، وقیل فوري: أی واجب علی الفور وعلیہ الفتویٰ، کما في شرح الوہبانیة، فیأثم بتأخیرہا بلاعذر۔ قولہ: فیأثم بتأخیرہا … وقد یقال: المراد أن لایوٴخر إلی العام القابل، لما في البدائع عن المنقی: إذا لم یوٴدِّ حتی مضی حولان، فقد أساء وأثم۔ (الدر المختار مع الرد المحتار، کتاب الزکاة ۲/۲۷۲ کراچی، بدائع الصنائع، الزکاة / في کیفیة فرضیة الزکاة ۲/۷۷ زکریا، کذا في الفتاویٰ التاتارخانیة ۳/۱۳۴ رقم: ۳۹۳۸ زکریا)

Friday 9 December 2022

صبرایوب

حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ” چیچک کی بیماری کی زد میں آنے والے سب سے پہلے ایوب علیہ السلام ہیں۔ “ مرض کا عرصہ اس میں کئی اقوال ہیں : وہب بن منبہ کے مطابق ”مکمل تین سال“ انس بن مالک کے مطابق ”سات سال اور کچھ مہینے اور آپ کو کوڑا کرکٹ میں پھینک دیا گیا اور آپ کے جسم میں بہت سے کیڑے پیدا ہو گئے یہاں تک کہ اللہ نے ان کی تکلیف کو دور فرمایا“ حضرت حمید کے مطابق ”18 سال آپ اس مرض میں مبتلا رہے “۔ اسماعيل بن عبد الرحمن السدی فرماتے ہیں کہ ” آپ کا گوشت گل سڑا گیا تھا، ہڈیاں اور پٹھے باقی رہ گئے تھے اور آپ کی زوجہ راکھ لاکر ان کے جسم کے نیچے بچھا دیتی جب تکلیف کی مدت زیادہ ہوگئی تو آپ کی بیوی نے کہا اے ایوب! آپ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ اس تکلیف سے چھٹکارا عطا کرے اور آزمائش ٹال دے۔ایوب علیہ السلام نے جواب دیا اللہ نے مجھے ستر سال صحت وسلامتی سے نوازا تو کیا میں ستر سال بیماری پر صبر نہیں کر سکتا تو آپ کی زوجہ روپڑیں اور لوگوں کے گھروں میں محنت ومزدوری کرتیں اور اس کی جو کچھ مزدوری ملتی تو اس سے آپ کے کھانے کا انتظام کرتیں۔ “ شفایابی اللہ تعالیٰ نے ایوب پر ایک وحی نازل فرمائی تھی جس کے بعد وہ شفایاب ہو گئے تھے۔ ” اُرْكُضْ بِـرِجْلِكَ ۖ هٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ‎ ​ ترجمہ : اپنا پاؤں (زمین پر) مار، یہ ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو ہے۔ “ اور ایوب شفا کے پانی میں نہانے کے بعد شفایاب ہو گئے تھے۔ جب ان کی بیوی آئیں تو وہ ان کو دیکھ کر پہچان نہیں پائیں. ابن کثیر کے مطابق ”جب ان کی بیوی دیر سے پہنچی تو دیکھنے لگ گئی اتنے میں ایوب علیہ السلام اس کی طرف آئے جب اللہ نے ان کی بیماری ختم کردی تھی۔ اور وہ بہت خوبصورت حالت میں تھے بیوی آپ کو دیکھ کر پہچان نہیں سکی اور کہنے لگی کیا تو نے اللہ کے نبی کو دیکھا ہے جو اس جگہ بیماری کی حالت میں موجود تھے؟ اللہ کی قسم میں نے کوئی نہیں دیکھا جو آپ کی مشابہ ہو جب وہ صحیح اور تندرست تھے انہوں نے جواب دیا میں وہی ہوں۔ “ ابن جریر طبری کے مطابق ”ایوب علیہ السلام کے دو کھلیان تھے ایک گندم کا ایک جو اللہ نے دو بادل بھیجے ایک بادل گندم کے کھلیان پر آیا اور اس نے سونا برسایا یہاں تک وہ لباب بھر گیا پھر دوسرے نے جو کے کھلیان پر چاندی برسائی یہاں تک کہ وہ لباب بھر گیا. ابن ابو حاتم نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ آپ کو جنت کا لباس پہنایا۔ ایوب علیہ السلام ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے آپ کی بیوی آئی اور آپ کو پہچان نہ سکی۔ اور کہنے لگی اے اللہ کے بندے اس جگہ ایک مریض تھا وہ کہاں گیا شاید اسے کتے لے گئے یا بھیڑئیے کھا گئے وہ کچھ دیر بات کرتی رہی۔ تو آپ نے فرمایا میں ہی ایوب ہوں تو کہنے لگی اے اللہ کے بندے میرے ساتھ کیوں مذاق کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے میں ہی ایوب ہوں اللہ نے مجھے شفا عطا فرمائی اور میرا جسم درست کر دیا. ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ پاک نے حضرت ایوب علیہ السلام کو تندرستی دی تو ان پر سونے کی ٹڈیوں کی بارش برسائی آپ اپنے ہاتھ سے ان کو لے کر کپڑوں پر ڈالنے لگے آپ کو کہا گیا کہ کیا تو سیر نہیں ہوا آپ نے بارگاہ الہٰی میں عرض کی یا اللہ تیری رحمت سے کون سیر ہو سکتا ہے۔ “(ابن ابی حاتم) صحت یابی کے بعد ایوب صحت یابی کے بعد ستر برس تک زندہ رہے اور دینِ حنیف کے لیے محنت کرتے رہے. مسلم عقائد کے مطابق ایوب کے بعد ان کی قوم نے ابراہیمی مذہب کو تبدیل کر دیا تھا۔ وفات ابن جریر طبری اور دیگر مؤرخین کے مطابق وفات کے وقت ایوب کی عمر تقریباً ترانوے برس تھی اور بعض کے خیال میں اس سے بھی زائد تھی.

ایک دعاء نبوی

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے: (رَبِّ اجْعَلْنِي لَكَ شَكَّارًا، لَكَ ذَكَّارًا، لَكَ رَهَّابًا، لَكَ مِطْوَاعًا، لَكَ مُخْبِتًا، إِلَيْكَ أَوَّاهًا مُنِيبًا، رَبِّ تَقَبَّلْ تَوْبَتِي، وَاغْسِلْ حَوْبَتِي، وَأَجِبْ دَعْوَتِي، وَثَبِّتْ حُجَّتِي، وَسَدِّدْ لِسَانِي، وَاهْدِ قَلْبِي، وَاسْلُلْ سَخِيمَةَ صَدْرِي [یا اللہ! مجھے اپنا بہت زیادہ شکر اور ذکر کرنے والا بنا، تجھ سے بہت زیادہ ڈرنے والا، تیری اطاعت کرنے والا، تیرے لیے مر مٹنے والا، اور تیری ہی جانب رجوع اور انابت کرنے والا بنا، میرے پروردگار! میری توبہ قبول فرما، میرے گناہ دھو ڈال، میری دعا قبول فرما، میری حجت ثابت کر دے، میرے دل کو ہدایت دے، میری زبان راست فرما، اور میرے سینے سے کینہ نکال باہر کر]) ابو داود نے روایت کیا ہے، اور ترمذی اسے حسن صحیح حدیث قرار دیا۔

Tuesday 6 December 2022

ایک یادوطلاق کے بعد رجوع

پہلی اور دوسری صریح طلاق کو ’طلاقِ‌ رجعی‘ کہا جاتا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ طلاق کی عدت مکمل ہونے تک نکاح قائم رہتا ہے، عورت بدستور اِسی شوہر کے عقد میں‌ ہوتی ہے۔ اس دوران اگر میاں بیوی کی صلح ہو جائے تو طلاق کا اثر ختم ہو جاتا ہے، اسی عمل کو ’رجوع‘ کہا جاتا ہے۔ رُجوع کے مخصوص الفاظ‌ ہیں نہ کوئی خاص طریقہ ہے۔ شوہر زبان سے کہہ دے کہ میں نے طلاق واپس لے لی، بیوی کو ہاتھ لگا دے، بیوی سے ہمبستری کر لے، رجوع کی نیت سے فون کر لے، رجوع کی نیت سے برقی پیغام (message) بھیج دے تو رجوع ہو جاتا ہے۔ اگر عدت کی مدت مکمل ہو جائے تو رجوع کے لیے دوبارہ نکاح کرنا لازم ہوتا ہے۔ رجوع کے بعد اگرچہ طلاق کا اثر ختم ہوجاتا ہے، لیکن طلاق کا یہ حق استعمال ہونے کے بعد شوہر کے پاس اب باقی طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ عقد نکاح کے وقت شوہر کو طلاق کے کُل تین حق ملے تھے اگر اس نے ایک حق استعمال کر کے رجوع کر لیا اُس کے پاس دو حق باقی ہیں، اگر دو حق استعمال کر کے رجوع کر لیا اس کے پاس صرف ایک حق باقی ہوگا۔ اگر اس نے یہ تیسرا حق بھی استعمال کر لیا تو اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی۔ والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409): "(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

Monday 28 November 2022

أهيم بتونس الخضراء

اهيم بتونس الخضراء اهيم بتونس الخضراء حبا فاق عن ظني هنا اصلي و ميلادي هنا اهلي هنا سكني و مهما كان تغريبي فتونس قطعة مني تلازمني كما نفسي كما روحي كما فني اعاودها باشواق كعود الطير للفنن هنا اصلي و ميلادي هنا اهلي هنا سكني وارفع هامتي فخرا بها واقول واغني واغني لتحيا تونس الخضراء في مجد على الزمن

Friday 25 November 2022

عظمت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین

حضرت سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میرے والد نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگو ں کے درمیان جلوہ فرماتھےکہ اچانک ہمارے قریب سے ایک شخص گزرا جس نے اپنے بچے کو کندھوں پر بٹھا رکھا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ان باپ بیٹے کو دیکھا تو فرمایا : ''جتنی مشابہت ان دونوں میں پائی جارہی ہے میں نے آج تک ایسی مشابہت اور کسی میں نہیں دیکھی۔''یہ سن کر اس شخص نے عرض کی : ''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرے اس بچے کا واقعہ بہت عجیب وغریب ہے، اس کی ماں کے فوت ہونے کے بعد اس کی ولادت ہوئی ہے۔'' یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' پوراواقعہ بیان کرو۔'' وہ شخص عرض کرنے لگا:''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں جہاد کے لئے جانے لگا تو اس کی والدہ حاملہ تھی،میں نے جاتےوقت دعا کی :''اے اللہ عزوجل! میری زوجہ کے پیٹ میں جو حمل ہے میں اُسے تیرے حوالے کرتاہوں، تُوہی اس کی حفاظت فرمانا۔ ''یہ دعا کر کے میں جہاد کے لئے روانہ ہوگیا جب میں واپس آیا تو مجھے بتایا گیا کہ میری زوجہ کا انتقال ہوگیا ہے ،مجھے بہت افسوس ہوا ۔ایک رات میں نے اپنے چچازاد بھائی سے کہا :''مجھے میری بیوی کی قبر پر لے چلو۔'' چنا نچہ ہم جنت البقیع میں پہنچے اور اس نے میری بیوی کی قبر کی نشاندہی کی۔جب ہم وہاں پہنچے تودیکھا کہ قبر سے روشنی کی کرنیں باہر آرہی ہیں۔میں نے اپنے چچازاد بھائی سے کہا :'' یہ رو شنی کیسی ہے؟'' اس نے جواب دیا: ''اس قبر سے ہر رات اسی طر ح روشنی ظاہر ہوتی ہے ،نہ جانے اس میں کیا راز ہے؟'' جب میں نے یہ سنا تو ارادہ کیا کہ میں ضرور اس قبر کو کھود کر دیکھو ں گا ۔'' چنانچہ میں نے پھاؤڑا منگوایا ابھی قبر کھود نے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ قبر خود بخود کھل گئی۔ جب میں نے اس میں جھانکا تو اللہ عزوجل کی قدرت کا کرشمہ نظر آیا کہ یہ میرا بچہ اپنی ماں کی گو د میں بیٹھا کھیل رہا تھا جب میں قبر میں اُتر ا تو کسی ندادینے والے نے ندادی :'' تُو نے جو امانت اللہ عزوجل کے پا س رکھی تھی وہ تجھے واپس کی جاتی ہے ، جا! اپنے بچے کو لے جا، اگر تُواس کی ماں کو بھی اللہ عزوجل کے سپرد کر جاتا تو اسے بھی صحیح وسلامت پاتا ۔''پس میں نے اپنے بچے کو اٹھا یا اور قبر سے باہر نکالا جیسے ہی میں قبر سے باہر نکلا قبر پہلے کی طر ح دوبارہ بند ہوگئی۔)صحابی ئ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم و رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا بیٹا اللہ عزوجل کے سپرد کیا تواللہ عزوجل نے اسے قبر میں بھی زندہ رکھا۔ اے اللہ عزوجل !ہم بھی اپنا ایمان تیرے سپر د کرتے ہیں تو ہمارے ایمان کی حفاظت فرمانا اور ہمارا خاتمہ با لخیر فرمانا (عُیُوْنُ الْحِکَایَات )حصہ اوّل ( مؤلف امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی الجوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی المتوفیٰ ۵۹۷ ھ)

Tuesday 22 November 2022

داڑھی کی شرعی حیثیت

داڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے، ا سی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا حکم دیا ہے، اس لیے جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے "امام مسلم" اور اصحابِ سنن نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ( پیدائشی سنت ہیں) : ایک تو مونچھ خوب کتروانا، دوسری داڑھی چھوڑنا، تیسری مسواک کرنا، چوتھی پانی سے ناک صاف کرنا، پانچویں ناخن کا ٹنا، چھٹی انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، ساتویں بغل کے بال اُکھاڑنا، آٹھویں زیرِ ناف کے بال مونڈنا، نویں پانی سے استنجا کرنا۔ زکریاؒ روای کہتے ہیں کہ مصعبؒ نے کہا: میں دسویں چیز بھول گیا، مگر یہ کہ یہ کلی ہوگی۔ "عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء " قال زكريا: قال مصعب: ونسيت العاشرة إلا أن تكون المضمضة". (صحيح مسلم ۔1/ 223) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے "بزار" نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجوسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔ "عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خالفوا على المجوس جزوا الشوارب وأوفوا اللحى". (مسند البزار = البحر الزخار ۔13/ 90) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ " عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: جُزُّوا الشوارب، وأرخوا اللحی، خالِفوا المجوس". (صحیح مسلم، کتاب الطهارة / باب خصال الفطرة ۱؍۱۲۹رقم:۲۶۰بیت الأفکار الدولیة) مذکورہ بالا احادیث میں صراحت سے داڑھی کے بڑھانے کا حکم ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے صریح حکم کی خلاف ورزی ناجائز اور حرام ہے۔ اسی معنی کی مزید احادیث درج ذیل ہیں۔ يه عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: أحفوا الشوارب وأعفوا اللحی". ( جامع الترمذي، أبواب الأدب، باب ماجاء في إعفاء اللحیة، النسخة الهندیة ۲/ ۱۰۵، دارالسلام رقم:۲۷۶۳) سنن أبی داؤد شریف، کتاب الطهارة، باب السواک من الفطرة، النسخة الهندیة ۱/ ۸، دارالسلام رقم:۵۳. "وعن ابن عمر رضي اللّٰه عنهما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: انهکوا الشوارب وأعفوا اللحی". (صحیح البخاري، کتاب اللباس / باب إعفاء اللحی۲؍۸۷۵رقم:۵۸۹۳دار الفکر بیروت) نیز داڑھی منڈوانا ایسا جرم ہے کہ اس کی حرمت پر ساری امت کا اجماع ہے، امت کا ایک فرد بھی اس قبیح فعل کے جواز کاقائل نہیں ہے۔ سنن ابو داوٴد کے شارح صاحب "المنہل العذب المورود“ علامہ سبکی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: داڑھی کا منڈانا سب ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ،امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام ہے۔ ”کان حلق اللحیة محرّماً عند ائمة المسلمین المجتهدین أبي حنیفة، ومالک، والشافعي، وأحمد وغیرهم -رحمهم الله تعالیٰ-“. (المنہل العذب المورود، کتاب الطہارۃ، أقوال العلماء فی حلق اللحیۃ واتفاقہم علی حرمتہ: 1/186، موٴسسۃالتاریخ العربی، بیروت، لبنان) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ ”بوادر النوادر “ میں لکھتے ہیں: ”قال العلائي في کتاب الصوم قبیل فصل العوارض: ”إن الأخذ من اللحیة، وهي دون القبضة، کما یفعله بعضُ المغارِبة ومُخَنَّثة الرجالِ، لَم یُبِحْه أحدٌ، وأَخْذُ کلِّها فعلُ الیهود والهنودِ ومَجوس الأعاجِم․ اهـ“ فحیثُ أَدْمَن علی فعلِ هذا المحرَّمِ یفسُقُ، وإن لم یکن ممن یستخفونه ولا یعُدُّونَه قادحاً للعدالة والمروة، إلخ“․ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ، کتاب الشھادۃ: 4/238، مکتبۃ رشیدیۃ، کوئٹۃ) قلت(الأحقر): قوله:”لم یبحه أحد“ نصٌّ في الإجماع، فقط“․ (بوادر النوادر، پچپنواں نادرہ در اجماع بر حرمت اخذ لحیہ دون القبضہ،ص: 443،ادارہ اسلامیات لاہور) علامہ علائی رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت کے آخر میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا قول: ”لَمْ یُبِحْہ أحدٌ“داڑھی منڈانے کی حرمت پر اجماع کی صریح دلیل ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرة من القبضة، فغیرُ جائزٍ فی المذاهب الأربعة“․ (العرف الشذی، کتاب الآداب، باب ما جاء فی تقلیم الأظفار، 4/162، دار الکتب العلمیۃ) نیز اس کے صاف کرنے/ مشت سے کم کاٹنے کی حرمت اشارۃً قرآن مجید میں بھی موجود ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالی نے تغییر خلقِ اللہ یعنی انسانی اعضاء میں اللہ تعالی کی بنائی ہوئی تخلیق میں تبدیلیاں کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے: ﴿ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا﴾ [النساء:119] ترجمہ:اور میں ان کو گم راہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس میں وہ چوپایوں کے کانوں کو تراشا کریں گے اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بناوے گا وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔ يه بات بھی قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ میں صراحتاً اور اشارۃً موجود ہے کہ مسلمان اہلِ علم کا اجماع/ اتفاق مستقل حجتِ شرعیہ ہے، یعنی اگر قرآن وحدیث میں کوئی حکم صراحتاً موجود نہ ہو ،لیکن صحابہ کرام یا قرونِ اولیٰ کے اہلِ علم کسی آیت یا حدیث کی مراد پر متفق ہوجائیں تو یہ اجماع خود حجتِ شرعیہ ہے، اس اجماع سے ہی حکم کا درجہ متعین ہوجاتاہے، جب تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین وتبع تابعین اورفقہاء مجتہدین رحمہم اللہ قرآن وحدیث سے ایک مسئلے (داڑھی صاف کرنے یا ایک مشت سے کم کرنے ) کا حکم سمجھ کر اس کے درجے پر متفق ہیں تو ان حضرات کا اجماع ہی اس کی حرمت کی دلیل ہے، خواہ قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ میں صراحتاً حرمت نہ بھی موجود ہو۔ چہ جائے کہ داڑھی بڑھانے کے وجوب پر صراحتاً دلالت کرنے والی احادیث موجود ہیں جن کی جانبِ مخالف (واجب کو ترک کرنا) حرام ہے۔ نیز ڈاڑھی منڈوانا درج ذیل گناہوں کا مجموعہ ہے: (1) نبی کریم ﷺ کے حکم کی مخالفت۔ (2) انبیاء کرام کی سنت اور فطرت کی مخالفت۔ (3)اس گناہ کا اعلانیہ ہونا کہ ڈاڑھی ایسا گناہ ہے جو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا، اور گناہ کی تشہیر خود ایک گناہ ہے۔ (4) اللہ کی فطری بنائی ہوئی خلقت میں تبدیلی اور مثلہ (چہرہ بگاڑنے) کا گناہ ۔ (5) کافروں سے مشابہت ۔(6) خواتین کے ساتھ تشبہ، اور مردوں کے لیے ایسا عمل جس سے خواتین کے ساتھ مشابہت حدیث کی رو سے موجبِ لعنت ہے ۔ (7) مخنثین اور ہیجڑوں سے مشابہت ۔(8) گناہ کا تسلسل اور استمرار۔یعنی جب تک انسان اس عمل کا مرتکب رہتا ہے اس وقت تک اس کا گناہ برابر جاری رہتا ہے۔ (9) اسلامی اور دینی شعائر کی خلاف ورزی۔ ڈاڑھی کے شرعی حکم سے متعلق حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے افادات میں ہے: " داڑھی قبضہ (ایک مشت) سے کم کرانا حرام ہے، بلکہ یہ دوسرے کبیرہ گناہوں سے بھی بدتر ہے؛ اس لیے اس کے اعلانیہ ہونے کی وجہ سے اس میں دینِ اسلام کی کھلی توہین ہے اور اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں، اور ڈاڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے حتی کے نماز وغیرہ عبادات میں مشغول ہونے کی حالت میں بھی اس گناہ میں مبتلا ہے"۔( "ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا اس کا مذاق اڑانا کفر ہے"ص 10،مکتبہ حکیم الامت) مذکورہ بالا تمام تفصیلات سے یقیناً آپ کے سامنے شرعی حکم واضح ہوگیا ہوگا، اور آپ کی تسلی بھی ہوگئی ہوگی، اور اگر مزید تفصیل چاہتے ہیں تو اس پر مستقل رسالے اور کتابیں لکھی گئی ہیں ، مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کا ڈاڑھی کے احکام سے متعلق رسالہ "جواہر الفقہ" 7 جلد میں موجود ہے، اسی طرح حکیم الامت تھانوی صاحب کے افادات "ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا اس کا مذاق اڑانا کفر ہے" ، اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اور مولانا قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کے رسالوں کا مطالعہ کیجیے۔ باقی داڑھی منڈوانے والے جہنم کے چوتھے درجے میں ہوں گے، یہ بات ہمیں نہیں مل سکی۔

Friday 18 November 2022

بلی کی خرید و فروخت جائز ہے کہ نہیں

بلی کی خرید و فروخت مطلقاً جائز ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 68): ’’لكن في الخانية: بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذا السنور، وسباع الوحش والطير جائز معلماً أو غير معلم‘‘. الفتاوى الهندية (3/ 114): ’’بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذلك بيع السنور وسباع الوحش والطير جائز عندنا معلماً كان أو لم يكن، كذا في فتاوى قاضي خان‘‘. الفتاوى الهندية (3/ 114): ’’وبيع الكلب غير المعلم يجوز إذا كان قابلاً للتعليم وإلا فلا، وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي‘