https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 24 May 2024

أ غرب كلمات اللغة العربية

 

  • كلمة نقاخ: يتم نطق هذه الكلمة من خلال ضم الحرف الأول وفتح الحرف الثاني، ومعناها هو الماء العذب.
  • كلمة هِلَّوف: تنطيق عبر كسر الحرف الأول مع فتح وتشديد الحرف الثاني، ومعنى هذه الكلمة يشير إلى من يست غمامه شمسه.
  • كلمة اطلخم: كسر الحرف الأول وفتح الثاني، وهي تأتي بمعنى زاد واشتد، كأن نقول على سبيل المثال: اطلخم الأمر.
  • كلمة الجرشي: استخدم بعض الشعراء هذه الكلمة ولقد كان معناها يُشير إلى النفس، مثل قول (كريم الجرشي عظيم النسب).
  • كلمة العرين: يتم استخدام هذه الكلمة في الوقت الحالي إلى حد ما، ولكن كان يتم نطقها بطريقة في لفظة يُشير معناها إلى (اللحم).

علما کو گالی دینا

 کسی عام مسلمان کو بھی  گالی دینا، از روئے حدیث سببِ فسق ہے،  جس سے اجتناب لازم ہے، اور حدیث شریف کے مطابق انسان کو جہنم کی آگ میں اوندھے منہ ڈالنے کا بڑا سبب زبان ہے، ایک حدیث میں ہے کہ جو دو چیزوں کی مجھے ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں، ان دو میں سے ایک زبان ہے۔

ریاض الصالحین للنووی میں ہے:

"وعنِ ابنِ مَسعودٍ قَالَ: قَالَ رسُولُ اللَّه ﷺ: سِباب المُسْلِمِ فُسوقٌ، وقِتَالُهُ كُفْرٌ متفقٌ عَلَيهِ". ( رياض الصالحين للنووي، باب تحريم سَبّ المسلم بغير حق)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔

"وعنْ أَبي هُرَيرةَ أنَّ رسُولَ اللَّه ﷺ قالَ: المُتَسابانِ مَا قَالا، فَعَلى البَادِي مِنْهُما حتَّى يَعْتَدِي المظلُومُ. رواه مسلم". ( رياض الصالحين للنووي، باب تحريم سَبّ المسلم بغير حق)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ایک دوسرے کو گالی دینے والے جو کچھ کہتے ہیں، تو وہ ان میں سے پہل کرنے والے کے سر ہے، یہاں تک کہ مظلوم زیادتی کرجائے۔ ( یعنی پھر وہ بھی اس گناہ میں شریک قرار پائے گا) .

علماءِ کرام کو بغیر کسی سبب ظاہری کے برا بھلا کہنا یا گالی دینا ناجائز ہے، فقہاءِ کرام نے ایسے شخص کے بارے میں بھی کفر کا اندیشہ ظاہر کیا ہے جو  کسی ظاہری سبب کے بغیر دل میں علماءِ کرام کا بغض رکھتاہو، لہذا اپنے اس عمل پر سچے دل سے توبہ و استغفار  لازم ہے، اور آئندہ علماءِ کرام سے بدگمان ہونے سے اجتناب کرنے کے  لیے اچھوں کی صحبت اختیار کی جائے۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقي الأبحر  میں ہے:

"وَفِي الْبَزَّازِيَّةِ: فَالِاسْتِخْفَافُ بِالْعُلَمَاءِ؛ لِكَوْنِهِمْ عُلَمَاءَ اسْتِخْفَافٌ بِالْعِلْمِ، وَالْعِلْمُ صِفَةُ اللَّهِ تَعَالَى مَنَحَهُ فَضْلًا عَلَى خِيَارِ عِبَادِهِ لِيَدُلُّوا خَلْقَهُ عَلَى شَرِيعَتِهِ نِيَابَةً عَنْ رُسُلِهِ، فَاسْتِخْفَافُهُ بِهَذَا يُعْلَمُ أَنَّهُ إلَى مَنْ يَعُودُ، فَإِنْ افْتَخَرَ سُلْطَانٌ عَادِلٌ بِأَنَّهُ ظِلُّ اللَّهِ تَعَالَى عَلَى خَلْقِهِ، يَقُولُ الْعُلَمَاءُ بِلُطْفٍ اللَّهُ اتَّصَفْنَا بِصِفَتِهِ بِنَفْسِ الْعِلْمِ، فَكَيْفَ إذَا اقْتَرَنَ بِهِ الْعَمَلُ الْمُلْكُ عَلَيْك لَوْلَا عَدْلُك فَأَيْنَ الْمُتَّصِفُ بِصِفَتِهِ مِنْ الَّذِينَ إذَا عَدَلُوا لَمْ يَعْدِلُوا عَنْ ظِلِّهِ، وَالِاسْتِخْفَافُ بِالْأَشْرَافِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ. وَمَنْ قَالَ لِلْعَالِمِ عُوَيْلِمٌ أَوْ لِعَلَوِيٍّ عُلَيْوِيٌّ قَاصِدًا بِهِ الِاسْتِخْفَافَ كَفَرَ.

وَمَنْ أَهَانَ الشَّرِيعَةَ أَوْ الْمَسَائِلَ الَّتِي لَا بُدَّ مِنْهَا كَفَرَ، وَمَنْ بَغَضَ عَالِمًا مِنْ غَيْرِ سَبَبٍ ظَاهِرٍ خِيفَ عَلَيْهِ الْكُفْرُ، وَلَوْ شَتَمَ فَمَ عَالِمٍ فَقِيهٍ أَوْ عَلَوِيٍّ يُكَفَّرُ، وَتَطْلُقُ امْرَأَتُهُ ثَلَاثًا إجْمَاعًا كَمَا فِي مَجْمُوعَةِ الْمُؤَيَّدِيِّ نَقْلًا عَنْ الْحَاوِي، لَكِنَّ فِي عَامَّةِ الْمُعْتَبَرَاتِ أَنَّ هَذِهِ الْفُرْقَةَ فُرْقَةٌ بِغَيْرِ طَلَاقٍ عِنْدَ الشَّيْخَيْنِ فَكَيْفَ الثَّلَاثُ بِالْإِجْمَاعِ، تَدَبَّرْ". (كتاب السير، بَابُ الْمُرْتَدِّ، أَلْفَاظَ الْكُفْرِ أَنْوَاع، الرَّابِعُ فِي الِاسْتِخْفَافِ بِالْعِلْمِ، ١ / ٦٩٥، ط: دار احياء التراث

Thursday 23 May 2024

تین طلاق کے بعد رجوع

  تین طلاقیں ایک ساتھ دینے سے  تینوں طلاق واقع ہوچکی ہیں، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  رجوع جائز نہیں، نیز تجدیدِ نکاح کی بھی اجازت نہیں ہے۔ عدت کے گزرنے کے بعد بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ اگر وہ دوسری جگہ نکاح کرتی ہے اور وہ زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد از خود طلاق دے دیتاہے یا اس کا انتقال ہوجاتاہے اور اس کی عدت بھی گزر جاتی ہے تو پہلے شوہر سے نئے مہر کے تقرر کے ساتھ نکاح  جائز ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1 / 473):

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية".

Sunday 19 May 2024

لا صلاة لجارالمسجد الا في المسجد کی تحقیق

 فحديث " لا صلاة لجار المسجد إلا في المسجد " ضعيف، وقد أخرجه الدارقطني، والحاكم ، والبيهقي . وقد أورده ابن الجوزي في الموضوعات ، وضعفه الألباني في : ( إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل)(2/251) و (السلسة الضعيفة برقم: 183) ، وضعيف الجامع الصغير برقم 6297.

ومع أن الحديث ضعيف فإن للمعنى الذي يدل عليه أصلا ثابتا

Saturday 18 May 2024

موبائل میں بغیر وضو قرآن مجید پڑھنا

 موبائل میں قرآنِ مجید انسٹال کرنا اور موبائل میں دیکھ کر قرآنِ مجید پڑھنا جائز ہے، چوں کہ قرآنِ کریم کو دیکھ کر ہاتھ لگائے بغیر زبانی تلاوت کرنا جائز ہے، اس لیے موبائل فون میں دیکھ کر بے وضو قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا بھی جائز ہے، اگر اسکرین پر قرآن کریم کھلا ہوا ہو تو بے وضو موبائل کو مختلف اطراف سے چھونا اور پکڑنا بھی جائز ہے، البتہ اسکرین کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے، کیوں کہ جس وقت قرآنِ کریم اسکرین پر کھلا ہوا ہوتا ہے اس وقت اسکرین کو چھونا قرآن کو چھونے کے حکم میں ہوتا ہے۔

خلاصة الفتاویٰ،( 104/1):

"ولایکره للمحدث قراءة القرآن عن ظهر القلب". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 173):

"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرز أو بصرة به يفتى، وحل قلبه بعود.

Friday 17 May 2024

اسقاط حمل کے جواز کی صورت

 حمل ضائع کرنے کے بارے میں شرعی اصول یہ ہے  کہ اگر  حمل  چار  ماہ  سے  کم کا ہو،  اور  ماہر ڈاکٹر  یہ   کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے  ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت اس حمل کاتحمل نہیں کرپاۓ گی،  تو ان  جیسےاعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے    پہلے  (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی، البتہ چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاط حمل جائزنہیں ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کسی خاتون کے بہت زیادہ کمزور ہونے کی وجہ سےماں یابچےکی جان جانے کا اندیشہ ہو، اور ڈاکٹر کی رائے کے مطابق اسقاطِ حمل ضروری ہو، تو مذکورہ  اعذار کی بناء پر   حمل  میں روح پڑجانے سے پہلے پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)  حمل  کو ساقط کرناجائزہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ویکره أن تسعی لإسقاط حملها، وجاز لعذر حیث لایتصور.... (قوله: ویکره الخ) أي مطلقًا قبل التصور و بعد علی ما اختاره في الخانیة کما قد مناه قبیل الا ستبراء، وقال: إلا أنّها لاتأثم إثم القتل. (قوله: وجاز لعذر) کالمرضعة إذا ظهربه الحبل وانقطع لبنها ولیس لأب الصبي ما یستأجر به الظئر وخاف هلاك الولد، قالوا: یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام الحمل مضغة أو علقة ولم یخلق له عضو، وقدروا تلك المدة بمائة وعشرین یوماً، وجاز؛ لأنّه لیس بآدمي، وفیه صیانة الآدمي، خانیة."

(كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغيره، فصل في البيع، فرع يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس، ج:6  ص:429 ط: سعید)

مکروہ اوقات میں نماز جنازہ پڑھنا

  ان  اوقات میں ہر قسم کی نماز ممنوع ہے، خواہ فرض نماز ہو یا نفل، ادا نماز ہو یاقضا۔  ان تین اوقات میں پڑھی گئی نفل نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ اداہوجائے گی، اور فرض یا واجب نماز پڑھی تو اس کااعادہ لازم ہوگا (سوائے وقتی نمازِ عصر کے کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے شروع کی اور اسی دوران سورج غروب ہوگیاتو کراہت کے ساتھ اداہوجائے گی اور اتنی تاخیر کرناگناہ ہے)۔

اوقاتِ ممنوعہ درج ذیل ہیں:

1۔عین طلوع کا وقت۔ 

2۔نصف  النہاریعنی استوائے شمس کے وقت ۔

3۔عین غروب کے وقت۔

"( وكره ) تحريماً... ( صلاة ) مطلقاً ( ولو ) قضاءً أو واجبةً أو نفلًا أو ( على جنازة وسجدة تلاوة وسهو ) ( مع شروق ) ( واستواء ) ... ( وغروب ، إلا عصر يومه ) فلايكره فعله لأدائه كما وجب". (ردالمحتار، 1/370. دارالفکر


فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع.كذا في الخلاصة هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه."

(كتاب الصلوة، الباب الاول في مواقيت الصلوة، الفصل الثالث في بيان الاوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها، ٥٢/١، ط:رشيدية)



Tuesday 14 May 2024

سن بلوغ

 لڑکی کی بلوغت کی کم سے کم عمر نو سال ہے، نو سال پورے ہونے کے بعد جب بھی بلوغت کی کوئی علامت (حیض آنا یا حمل ٹھہرنا وغیرہ) لڑکی میں ظاہر ہوجائے تو وہ بالغ سمجھی جائے گی، لیکن اگر پندرہ سال عمر پوری ہونے کے باوجود کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو پھر پندرہ سال مکمل ہوتے ہی لڑکی بالغ شمار کی جائے گی اور اس پر بلوغت والے تمام احکام نافذ ہوجائیں گے۔ خاندان، قوم، علاقہ اور موسم کے اختلاف کی وجہ سے لڑکی کی بلوغت کی عمر مختلف ہوسکتی ہے، یعنی نو سے پندرہ سال کے دوران کسی بھی عمر میں وہ بلوغت کو پہنچ سکتی ہے، کوئی ایک ضابطہ سب کے لیے نہیں ہے. البتہ پندرہ سال پورے ہونے کے بعد وہ بہرصورت بالغ سمجھی جائے گی۔

قال ابن قدامة في المغني: (وأما السن فإن البلوغ به في الغلام والجارية بخمس عشرة سنة). انتهى
وقال الشافعي في الأم: (ليس على الصبي حج حتى يبلغ الغلام الحلم، والجارية المحيض في أي سن بلغاها، أو استكملا خمس عشرة سنة). انتهى
قال في كنز الدقائق: (ويفتى بالبلوغ فيهما -أي الذكر والأنثى- بخمس عشرة سنة، وهذا عند أبي يوسف ومحمد -يرحمهما الله- وهو قول الشافعي ورواية عن أبي حنيفة) انتهى
وذهب المالكية إلى أن سن البلوغ عند عدم وجود باقي العلامات هو ثمانية عشر عاما، قال خليل في مختصره: (والصبي لبلوغه بثماني عشرة، أوالحلم، أو الحيض أو الحمل أو الإنبات). انتهى
وذهب أبو حنيفة في الرواية الأخرى إلى أن بلوغ الذكر والأنثى عند عدم وجود العلامات، هو ثماني عشرة سنة للغلام وسبع عشرة سنة للجارية، كما ذكره عنه صاحب كنز الدقائق.
والراجح هو القول الأول -كما ذكرنا- وعليه، فإن من بلغ هذا السن عاقلا يكون مكلفا مسؤولا عن كل ما يصدر منه من أقوال وأفعال، والحكمة في ذلك، ذكرها السيوطي في الأشباه والنظائر فقال: (والحكمة في تعليق التكليف بخمس عشرة سنة: أن عندها بلوغ النكاح وهيجان الشهوة والتوقان، وتتسع معها الشهوات في الأكل والتبسط ودواعي ذلك، ويدعوه إلى ارتكاب ما لا ينبغي، ولا يحجزه عن ذلك ويرد النفس عن جماحها إلا رابطة التقوى وتشديد المواثيق عليه والوعيد، وكان ذلك قد كمل عقله واشتد أسره وقوته، فاقتضت الحكمة الإلهية توجه التكليف إليه، لقوة الدواعي الشهوانية، والصوارف العقلية، واحتمال القوة للعقوبات علىالمخالفة). انتهى

فقہاءِ کرام کی عبارات سے معلوم ہوتاہے کہ لڑکے کے لیے بلوغت کی کم ازکم عمر  12 سال اور لڑکی کے لیے بلوغت کی عمر کم ازکم 9سال ہے، اس عمر میں اگر بالغ ہونے کی علامات (لڑکے میں احتلام، انزال، یا اس کے جماع کرنے سے بیوی کا حاملہ ہونا، اور لڑکی میں احتلام،حیض یا استقرار حمل) ظاہر ہوجائیں تو انہیں بالغ سمجھاجائے گا۔ اور اگر یہ علامات ظاہر نہ ہوں یہاں تک کہ قمری اعتبار سے دونوں پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں اور سولہواں سال شروع ہوجائے تو بلوغت کا حکم  خود ثابت ہوجائے گا۔

اس تفصیل سے یہ معلوم ہواکہ اگر لڑکا اور لڑکی  مذکورہ ادنیٰ مدتِ بلوغ سے پہلے بالغ ہونے کادعویٰ کریں تو ان کا دعویٰ معتبر نہیں سمجھا جائے گا، 9 سال سے پہلے بچی کو آنے والا خون بیماری کا خون کہلائے گا، اسی طرح اگر کوئی بچہ 9سال کی عمر میں منی کے خروج کا دعویٰ کرتاہے تو اس دعوی کو قابل قبول قرار نہیں دیاجائے گا اور اس عمرمیں یہ شریعت کے اَحکام کا مکلف نہیں بنے گا۔  جیساکہ "دررالحکام "کی عبارت میں صراحت ہے۔حوالہ جات درج ذیل ہیں :

دررالحکام شرح مجلة الأحکام میں ہے :

"(مبدأ سنّ البلوغ في الرجل اثنتا عشرة سنةً، وفي المرأة تسع سنوات، ومنتهاه في كليهما خمس عشرة سنةً. وإذا أكمل الرجل اثنتي عشرة سنةً ولم يبلغ يقال له: "المراهق"، وإذا أكملت المرأة تسعًا ولم تبلغ يقال لها: "المراهقة" إلى أن يبلغا) إن أقل سنّ يمكن أن يحتلم فيها الذكور ويبلغوا هي اثنتا عشرة سنةً، والإناث تسع سنوات، و منتهى السن في الاثنين خمس عشرة سنةً عند الإمامين، وعليه فمتى أتم الذكر الثانية عشرة من عمره يمكن أن تظهر عليه آثار البلوغ المذكورة في المادة الآنفة؛ لأنه قد شوهدت علامة البلوغ في هذه السن، ولقد كان عبد الله بن عمرو بن العاص أصغر من أبيه باثنتي عشرة سنةً فقط، كذلك يمكن أن تظهر آثار البلوغ على الأنثى متى اكتملت السنة التاسعة من عمرها؛ لأن البنت أسرع بلوغًا من الغلام ... الصغير الذي لم يدرك مبدأ سن البلوغ إذا ادعى البلوغ لايقبل منه )...مثلًا لو قال غلام لم يكمل الثانية عشرة: إنه بالغ، فلايقبل ذلك منه، كما أنه لايقبل قول بنت لم تتم التاسعة: بأنها بالغة، كما لو كانت في الخامسة من عمرها، ولو جاءها الدم لايعتبر حيضًا، ( الطحطاوي) ؛ لأن ظاهر الحال يكذبها، وفي هذه الصورة لاتجوز معاملاتهما كالبيع والشراء والقسمة. ( رد المحتار، العناية ). وتطلق الدعوى، كما ذكر في كتاب الدعوى، على طلب الحق لدى الحاكم. لكن الدعوى في هذه المادة لم تكن بهذا المعنى، وعليه فلو بين بلوغه في حضور غير الحاكم فلا حكم له، ويبقى محجورًا كالأول". (2/633،634، دارالکتب العلمیة، بیروت)


تین طلاق کے بعد عدت

 صورت ِ مسئولہ میں تین مرتبہ "طلاق دیتا ہوں " کہنے سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ،نکاح ختم ہوچکا ہے ،دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں ،بیوی عدت (تین حیض ) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتین في الأمة لم تحل له حتی تنکح زوجًا غیره نکاحًا صحیحًا ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها".

( کتاب الطلاق،الباب السادس في الرجعة،ج:1،ص:473،دارالفكر)

تحفۃ الفقہاء میں ہے :

"وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة۔۔۔۔۔وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل".

(کتاب الطلاق،باب العدۃ،ج:2،ص:245،دارالکتب العلمیۃ)

Monday 13 May 2024

سجدۂ تلاوت کے لیے وضو لازم ہے

  جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے  قولی اور فعلی دونوں طرح کی روایات منقول ہیں تو قولی روایت راجح ہوگی۔

اور اگر ہم ابن عمررضی اللہ عنہما کے مسلک کو مان بھی لیں  کہ ان کے ہاں بغیر وضو سجدۂ تلاوت کرنا درست تھا تو  یہ صرف ان ہی کا مسلک ہے، باقی  کسی صحابی رضی اللہ عنہ  کا یہ مسلک نہیں ہے،  اسی طرح ائمہ  اربعہ متبوعین کے ہاں بھی سجدۂ تلاوت کے لیے طہارت شرط ہے۔ ہاں  امام شعبی  اس  کے قائل ہیں کہ سجدہ تلاوت کے لیے طہارت شرط نہیں ہے، لہٰذا تفردات پر عمل کرنےکےبجائے  جملہ صحابہ کرام کے قول  پر عمل کرنا لازم ہے اور مشہور مذہب کو چھوڑنا نہ عقل کاتقاضا ہے اور نہ شرع کا،بلکہ اِبن عمر رضی اللہ عنہما سے اس فعل کا معارض قول بھی موجود ہے ،جو کہ راجح مذہب ہے،لہٰذااسی کےمطابق عمل کیاجائے۔

امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"ولا خلاف في أن سجود القرآن يحتاج إلى ما تحتاج إليه الصلاة من طهارة حدث ونجس ، ونية ، واستقبال قبلة ، ووقت . إلا ما ذكر البخاري عن ابن عمر أنه كان يسجد على غير طهارة . وذكره ابن المنذر عن الشعبي."

(تفسير القرطبي، (9 / 438) .

امام نووی رحمہ اللہ  "المجموع شرح المھذب" میں  تحریر فرماتے ہیں:

"و حكم سجود التلاوة حكم صلاة النافلة يفتقر إلى الطهارة و الستارة واستقبال القبلة لأنها صلاة في الحقيقة."

Friday 10 May 2024

چند بڑے گناہ

 معاشرہ میں جب لوگ مل جل کر ساتھ رہتے ہیں تو کبھی لڑائی جھگڑے کی نوبت بھی آجاتی ہے ، لیکن قرآن وسنت میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے باہمی جھگڑے کسی قیمت پر پسند نہیں ، بلکہ حکم یہ ہے کہ حتی الامکان آپس کی رنجشوں اور جھگڑوں کو، باہمی نفرتوں اورعداوتوں کو کسی طرح ختم کرو ۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْ اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (الحجرات : ۱۰)
ترجمہ
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں ، اس لئے اپنے دو بھائیوں کے درمیان (اگر کوئی رنجش یا لڑائی ہوگئی ہو تو تمہیں چاہئے کہ ان کے درمیان صلح کراؤ اور) تعلقات اچھے بناؤ ، اور (صلح کرانے میں) اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے ۔ (آسان ترجمہ قرآن : ۳/ ۱۵۸۳)
لڑائی جھگڑے مسلمانوں کے درمیان باہمی اتفاق و اتحاد ، محبت اور ملاپ پیدا کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں، انہی لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے دل میں بغض ونفرت اور کینہ پیدا ہوتا ہے ، اور ہمارے معاشرے کے جھگڑے عموماً دنیا داری کے لئے اور آپس میں کسی ایک کا حق دبانے سے ہوتے ہیں ، اور ہر فریق غصہ میں بھراہوا ہوتا ہے ، اس لئے ایک دوسرے پر زیادتی ہوجاتی ہے اور گالی گلوچ ، ہاتھا پائی تک نوبت آجاتی ہے ، جس کا نتیجہ یہ کہ پھر صاحب حق بھی حق پر قائم نہیں رہتا ، اس لئے حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ جھگڑے کی نوبت ہی نہ آئے ، کیونکہ جھگڑا لو انسان اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے ، اگر بالفرض کبھی جھگڑا ہوجائے تو دوسرے فریق کو معاف کرکے جھگڑا ختم کردینا چاہئے ، کیونکہ آپس میں صلح کرنے اور جھگڑا ختم کرنے کی قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں بہت ترغیب دی گئی ہے ۔ ذیل میں لڑائی جھگڑے کی مذمت سے متعلق چند احادیثِ طیبہ ملاحظہ فرمائیں:
حدیث نمبر ۱ : عن عائشۃ رضی اللہ عنہا، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : ان ابغض الرجال الی اللہ الالد الخصم(صحیح البخاری۔ ۳/ ۱۳۱)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے مبغوض اور ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو سخت جھگڑا لو ہو۔(صحیح بخاری)
حدیث نمبر ۲: عن ابن عباس، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : لا تمار اخاک ، ولا تمازحہ ، تعدہ موعدا فتخلفہ (سنن الترمذی ۔ ۴/ ۳۵۹) قال الترمذی : ھذا حدیث غریب
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی سے جھگڑا مت کر ، اور اس کے ساتھ نامناسب مذاق مت کر، اور اس کے ساتھ ایسا وعدہ نہ کر کہ (جس کو تو پورا نہ کرسکے اور) وعدہ خلافی کرے ۔(ترمذی)
حدیث نمبر ۳: عن ابن عباس قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : کفی بک ائثمًا ان لا تزال مخاصما۔ (سنن الترمذی۔ ۴/ ۳۵۹) قال الترمذی : ھذا حدیث غریب لا نعرفہ الا من ھذا الوجہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تجھ کو یہ گناہ کافی ہے کہ تو ہمیشہ جھگڑتا رہے ۔(ترمذی)
حدیث نمبر ۴ : عن أنس بن مالک ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من ترک الکذب وھو باطل ، بنی لہ قصر فی ربض الجنۃ ، ومن ترک المراء وھو محق ، بنی لہ فی وسطھا ، ومن حسن خلقہ ، بنی لہ فی اعلاھا۔ (سنن ابن ماجہ۔ ۱/ ۱۹) قال الترمذی بعد اخراجہ فی السنن ۴ / ۳۵۸ (۱۹۹۳) وھذا حدیث حسن ۔
ترجمہ :حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص جھوٹ کو ترک کردے حالانکہ جھوٹ باطل چیز ہے تو اس کے لئے جنت کے کناروں میں گھر تیار کیا جائے گا، اور جو شخص حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑدے اس کے لئے جنت کے بیچوں بیچ گھر بنایا جائے گا، اور جوشخص اپنے اخلاق اچھے کرے گا اس کے لئے جنت کے اوپر کے حصہ میں گھر بنایا جائے گا۔۔۔ (ابن ماجہ)
تشریح : یعنی جو شخص حق پر ہونے کے باوجود یہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں حق کا زیادہ مطالبہ کروں گا تو جھگڑا کھڑا ہوجائے گا، اس لئے اس حق کو چھوڑتا ہوں تاکہ جھگڑا ختم ہوجائے تو اس کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے بیچوں بیچ گھر دلوانے کی ذمہ داری لی ہے ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ سرکارِ دو عالم صلی للہ علیہ وسلم کو جھگڑا ختم کرانے کی کتنی فکر تھی ۔ ہاں اگر کہیں معاملہ بہت آگے بڑھ جائے اور قابلِ برداشت نہ ہوتو ایسی صورت میں اس کی اجازت ہے کہ مظلوم ظالم کا مقابلہ کرے اور اس سے بدلہ لے لے ، لیکن حتی الامکان کوشش یہ ہو کہ جھگڑا ختم ہوجائے ۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا ناپسندیدہ ہے ، اور اختلاف کے وقت صلح کرانا محمود اور مطلوب ہے ، بلکہ درجِ ذیل حدیث شریف کی رُو سے نماز ، روزہ اور صدقہ سے بھی افضل ہے۔
عن أبی الدرداء ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ألا أخبرکم بأفضل من درجۃ الصیام والصلاۃ والصدقۃ ، قالوا : بلی ، قال : صلاح ذات البین ، فان فساد ذات البین ھی الحالقۃ : ھذا حدیث حسن صحیح، ویروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : ھی الحالقۃ لا أقول تحلق الشعر ، ولکن تحلق الدین ۔(سنن الترمذی ۔ ۴/ ۶۶۳)
ترجمہ : حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابۂ کرام سے مخاطب ہوکر) فرمایا : کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتاؤں جو نماز ، روزے اور صدقہ سے بھی افضل ہے ؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگوں کے درمیان صلح کرانا ۔ اس لئے کہ آپس کے جھگڑے مونڈنے والے ہیں ۔ یعنی یہ چیزیں انسان کے دین کو مونڈنے والی ہیں (انسان کے اندر جو دین کا جذبہ ہے وہ اس کے ذریعہ سے ختم ہوجاتا ہے )۔ (ترمذی)
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ناحق جھگڑے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انابیہ نام رکھنا

 ”انابیہ“ ”اَناب“ (ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ )سے اسم منسوب موٴنث ہے جس کے معنی ہیں مشک، یا مشک کی  مانند ایک خاص قسم کی خوش بو۔

ففي المعجم الوسیط: "الأناب: المسک أو عطر یشبهه". (ص۲۸،الأنب، ط: دیوبند، وکذا في القاموس الوحید،ص: ۱۳۷، ط: دار اشاعت)

 ’’أَنَابَ‘‘ فعل ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے، جس کا معنی ہے" اس شخص نے اللہ کی طرف رجوع کیا" ،جیساکہ قرآن کریم میں بعض مقامات پر یہ لفظ آیاہے:

{قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَآءُ وَيَهْدِيْ اِلَيْهِ مَنْ اَنَابَ} [رعد:27]

ترجمہ:آپ کہہ دیجیے کہ واقعی اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گم راہی میں چھوڑ دیتے ہیں اور جو شخص ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کو اپنی طرف ہدایت کر دیتے ہیں ۔

لیکن اس معنی کے اعتبار سے اسم فاعل (رجوع کرنے والا)"مُنِیْب" استعمال ہوتاہے،جس کی مؤنث "مُنِیْبَة"ہے، نہ کہ "انابیۃ"؛ لہذا اس لفظ کا پہلا معنی (مشک/خوش بو)  ہی متعین ہے اور اس معنی کے لحاظ سے یہ نام رکھنا درست ہے۔فقط

Thursday 9 May 2024

عمایرہ نام رکھنا

 عمائرہ نام کا معنی اور اس لفظ کا عربی میں استعمال تلاش کے باوجود نہیں مل سکا، البتہ "عمائر" (یعنی آخر میں "ہ" کے بغیر) کے مختلف معانی ہیں، اگر یہ "عَمِیْرۃ" کی جمع ہو تو اس کا معنٰی ہے: بڑا قبیلہ،  شہد کی مکھیوں کا چھتہ، اور اگر یہ "عِمارۃ" کی جمع ہو تو  معنیٰ ہے: عمارات، تعمیرات، اور اگر "عَمارۃ" کی جمع ہو تو  معنیٰ ہے: سر پر اُوڑھنے کی کوئی بھی چیز، مثلًا: عمامہ، ٹوپی، چھتری میں سیے گئے کپڑے کے ٹکڑے وغیرہ۔

اس کے بجائے "عمارہ" نام  رکھا جا سکتا  ہے، ایک صحابیہ ہیں ’’نسیبہ مازنیہ‘‘ جو بیعتِ عقبہ ثانیہ میں ایمان لائی تھی، ان کی کنیت ’’ام عمارہ‘‘ تھی، ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ  اُحد والے دن میں نے جب بھی اپنے دائیں اور بائیں دیکھا تو ’’ام عمارہ‘‘  کو میری جان بچانے کے لیے میرے دفاع میں لڑتے ہوئے دیکھا۔

صور من حياة الصحابيات (ص: 61):

"نسيبة المازنية

«ما التفت يوم أحد يميناً ولا شمالاً إلا ورأيت أم عمارة تقاتل دوني» [محمد رسول الله] ... وعند «العقبة» في «منى» تم اللقاء الكبير في نجوة من قريش ... فلما تقدم اثنان وسبعون رجلاً من النبي صلوات الله وسلامه ... عليه ... ووضعوا أيديهم في يديه واحداً بعد آخر مبايعين على أن يمنعوه مما يمنعون منه نساءهم وأولادهم ... ولما انتهى الرجال من البيعة تقدمت امرأتان فبايعتا على ما بايع عليه الرجال ... ولكن من غير مصافحة ... ذلك؛ لأن الرسول عليه الصلاة والسلام لايصافح النساء. وقد كانت إحدى هاتين المرأتين تعرف بأم منيع  أما الأخرى فهي نسيبة بنت كعب المازنية المكناة بأم عمارة"