https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 27 November 2021

امام کاربنالک الحمد کہنا

 امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک امام رکوع سے اٹھتے ہوئے صرف تسمیع (سَمِعَ اللّٰہ لمَن حَمِدَہ) کہنے پر اکتفا کرے گا، تحمید (رَبَّنَا لَکَ الحمد) امام نہیں کہے گا، یہی قول متون کاہے، اس لیے امام کو صرف تسمیع پر اکتفا کرنا چاہیے۔ تعدیل ارکان امام کے رَبَّنَا لَکَ الحمدکہنے پر موقوف نہیں ہے۔ قال الحصکفي : ثم یرفع رأسہ من رکوعہ مسمعاً۔۔۔۔۔۔ویکتفي بہ الامام۔۔۔۔۔۔۔قال ابن عابدین: المتون علی قول الامام۔۔۔۔۔۔ ( کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة)

نماز میں رکوع سے اٹھتے ہوئے امام کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ  ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہے، اور مقتدی  ”ربنا لک الحمد“ کہیں، اور اگر نماز پڑھنے والا منفرد ہے تو وہ یہ دونوں کہے، باقی امام ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے کے بعد  ”ربنا لک الحمد“ کہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ ہمارے مشایخ میں مختلف فیہ ہے،  امام صاحب رحمہ اللہ کا قول یہ ہے امام صرف ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے پر اکتفا کرے، فتویٰ اسی پرہے۔ جب کہ صاحبین رحمہما اللہ اور امام صاحب کی ایک روایت یہ ہے کہ امام   ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے کے بعد  ”ربنا لک الحمد“ بھی کہے یہ افضل اور مستحب ہے، اور متاخرین میں سے بہت سے مشایخ نے اس کو راجح قرار دیا ہے، یہ اختلاف صرف افضلیت میں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 496):
"(ثم يرفع رأسه من ركوعه مسمعاً) في الولوالجية لو أبدل النون لا ما يفسد وهل يقف بجزم أو تحريك؟ قولان (ويكتفي به الإمام) ، وقالا: يضم التحميد سراً (و) يكتفي (بالتحميد المؤتم) وأفضله: اللهم ربنا ولك الحمد، ثم حذف الواو، ثم حذف اللهم فقط. 

(قوله: وقالا: يضم التحميد) هو رواية عن الإمام أيضاً، وإليه مال الفضلي والطحاوي وجماعة من المتأخرين، معراج عن الظهيرية. واختاره في الحاوي القدسي، ومشى عليه في نور الإيضاح، لكن المتون على قول الإمام".

الفتاوى الهندية (1/ 74):

"فإن كان إماماً يقول: سمع الله لمن حمده بالإجماع، وإن كان مقتدياً يأتي بالتحميد ولايأتي بالتسميع بلا خلاف، وإن كان منفرداً الأصح أنه يأتي بهما، كذا في المحيط. وعليه الاعتماد، كذا في التتارخانية وهو الأصح"

Friday 26 November 2021

تفسیر ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین

إنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ

یقینا اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے .
محسن کے اردو میں دو ترجمے کئے جاسکتے ہیں. نیکی کرنے والا ,دوسرااحسان کرنے والا. 

 :اپنے روابط اللہ اور بندوں کے ساتھ درست رکھنے والے ہی محسنین (نیکی کرنے والے) ہوتے ہیں۔ رحمۃ اللہ قریبۃ نہیں فرمایا۔ چونکہرحمۃ مصدر ہے۔ اس میں دونوں صورتیں جائز ہیں۔ جیسے لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیۡبٌ ۔۔۔۔ (۴۲ شوری:۱۷) بندوں سے تعلق و ربط کی نوعیت بھی اسی بندگی کے دائرہ میں ہونی چاہیے کہ اللہ نے جن فطری تقاضوں کے مطابق انسانوں کو بنایا اور انہی فطری تقاضوں کے مطابق قانون بنایا۔ ان کو سبوتاژ کر کے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔

اہم نکات

۱۔ رب کی بندگی سے آزاد ہو تو انسان مفسد و تجاوز کار بن جاتاہے۔

۲۔ بندگی خود بینی و مایوسی سے نہیں، خوف و رجاء کے دائرے میں ہوتی ہے: خَوۡفًا وَّ طَمَعًا۔۔۔۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 2
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور لَا تُفْسِدُوْا : نہ فساد مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح وَادْعُوْهُ : اور اسے پکارو خَوْفًا : ڈرتے وَّطَمَعًا : اور امید رکھتے اِنَّ : بیشک رَحْمَتَ : رحمت اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ: قریب مِّنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان (نیکی) کرنیوالے
اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنے اور خدا سے خوف کھاتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔
قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا اس میں ایک مسئلہ ہے : وہ یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اصلاح کے بعد چاہے وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہر فساد سے منع فرمایا ہے چاہے وہ قلیل ہو یا کثیر۔ صحیح اقوال کے مطابق یہ حکم عام ہے۔ اور حضرت ضحاک (رح) نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تم چشمے دار پانی بند نہ کرو اور نقصان پہنچانے کے لیے پھل دار درخت نہ کاٹو۔ اور یہ بھی وارد ہے : زمین میں فساد سے دنانیر ختم ہوگئے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین میں فساد سے حکام کی تجارت منقطع ہوگئی۔ اور علامہ قشیری نے کہا ہے : اس سے مراد ہے اور تم شرک نہ کرو، پس یہ شرک، خون بہانے اور زمین میں ہرج اور فساد برپا کرنے سے نہی ہے اور زمین میں اصلاح کے بعد احکام شریعہ کو لازم پکڑنے کا حکم ہے، بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب سے رسول بھیج کر اس کی اصلاح فرما دی ہے، ( پس یہ) شرائع کو پختہ کرنا اور حضور نبی رحمت ﷺ کے دین کی وضاحت ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اس قول کے قائل نے عظیم اصلاح کے بعد بہت بڑے فساد کا قصد کیا ہے پس اس نے اسے خاص طور پر ذکر کیا ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 411) ۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : رہا وہ جو حضرت ضحاک (رح) نے ذکر کیا ہے تو وہ اپنے عموم پر نہیں ہے، بلاشبہ وہ تب ہے جب اس میں ضرور اور نقصان مومن کا ہو۔ اور اگر اس کا ضرر اور نقصان مشرکین کو پہنچے تو پھر وہ جائز ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے بدر کے کنویں کا پانی بند کیا اور آپ نے کافروں کے درخت کاٹ دیئے۔ قطو الدنانیر کے بارے میں بحث سورة ہود میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ آیت : وادعوہ خوفا وطمعا یہ اس بارے امر ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 411) کہ انسان انتظار، کواور اللہ تعالیٰ سے امید کی حالت میں ہوتا ہے، یہاں تک کہ امید اور خوف انسان کے لیے پرندے کے دو پروں کی مثل ہوتے ہیں جو اسے صراط مستقیم میں اٹھائے رکھتے ہیں اور اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک منفرد ہوجائے تو انسان ہلاک ہوجائے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : آیت : نبی عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ھو العذاب الالیم ( الحجر) ( بتا دو میرے بندوں کو کہ میں بلا شبہ بہت بخشنے والا از حد رحم کرنے والا ہوں اور ( یہ بھی بتا دو کہ) میرا عذاب بھی بہت درد ناک ہے۔ خوف کا معنی ہے : الانزعاج لما لا یومن من المضار ( اس شے کے لیے بےقرار اور بےچین ہونا جس کے ضرور اور نقصان سے وہ محفوظ نہ ہو) اور طمع کا معنی ہے : توقع المحبوب ( کسی محبوب اور پسندیدہ شی کی توقع رکھنا) یہ علامہ قشیری نے کہا ہے۔ اور بعض اہل علم نے کہا ہے : مناسب یہ ہے کہ طویل زندگی میں خوف امید پر غالب رہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 411) اور جب موت آجائے تو پھر امید غالب رہے۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : لا یموتن احدکم الا وھو یحسن الظن باللہ (صحیح مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، جلد 2، صفحہ 387) ( تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہو) یہ حدیث صحیح ہے اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین اس میں قریمۃ نہیں کیا، سو اس میں سات وجوہ ہیں : ان میں سے پہلی یہ ہے کہ رحمت اور رحم ایک ہی شے ہے اور یہ عفو اور غفران کے معنی میں ہیں۔ یہ زجاج نے کہا ہے۔ اور نحاس نے اسے ختیار کیا ہے۔ اور نضر بن شمیل نے کہا ہے : رحمت مصدر ہے اور مصدر کا حق یہ ہے کہ وہ مذکر ہو، جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : فمن جآء موعظۃ ( البقرہ : 175) یہ قول زجاج کے قول کے قریب ہے، کیونکہ موعظۃ بمعنی وعظ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت سے احسان کا ارادہ کیا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ جس کی تانیث حقیقی نہ ہو تو اسے مذکر لانا جائز ہوتا ہے، اسے جوہری نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ یہاں رحمت سے مراد بارش ہے۔ یہ اخفش نے کہا ہے۔ اور کہا : اسے مذکر لانا جائز ہے جیسے بعض مونث کو مذکر ذکر کیا جاتا ہے۔ اور یہ شعر بھی کہا ہے : فلا مزنۃ ودقت ودقھا ولا ارض ابقل ابقالھا اور ابو عبیدہ نے کہا ہے : مکان کی تذکیر کی بنا پر قریب مذکر ذکر کیا گیا ہے، یعنی مکانا قریبا۔ علی بن سلیمان نے کہا ہے : یہ خطا ہے، اگر اس طرح ہوتا جیسے انہوں نے کہا تو پھر قرآن کریم میں قریب منصوب ہوتا، جیسے آپ کہتے ہیں : ان زیدا قریبا منک اور یہ بھی کہا گیا ہے : اسے نسبت کی بنا پر مذکر ذکر کیا گیا ہے، گویا کہ فرمایا : ان رحمۃ اللہ ذات قرب ( بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت قرب والی ہے) جیسے آپ کہتے ہیں : امراۃ طالق وحائض۔ اور فراء نے کہا ہے : جب قریب کا لفظ مسافت کے معنی میں ہو تو اسے مذکر اور مونث دونوں طرح لایا جاتا ہے اور اگر نسب کے معنی میں ہو تو پھر بلا اختلاف مونث لایا جاتا ہے۔ آپ کہتے ہیں : ھذہ المراۃ قریبتی، ای ذات قرابتی اسے جوہری نے ذکر کیا ہے۔ اور اس کے علاوہ نے فراء سے ذکر کیا ہے : نسب میں کہا جائے گا قریبۃ فلان اور غیر نسب میں تذکیر وتانیث دونوں جائز ہیں۔ کہا جاتا ہے : دارک منا قریب ( تیرا گھر ہمارے قریب ہے) وفلانۃ منا قریب ( اور فلانہ ہمارے قریب ہے) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : ومایدریک لعل الساعۃ تکون قریبا ( الاحزاب) ( اور ( اہل سائل) ! ) تو کیا جانے شاید وہ گھری قریب ہی ہو) اور جس نے اس کا استدلال کیا ہے اس نے کہا ہے : اسی طرح کلام عرب بھی ہے، جیسا کہ امرء القیس نے کا کہا ہے : لہ الویل ان امسی ولا ام ہاشم قریب ولا البسباسۃ ابنۃ یشکرا زجاج نے کہا ہے : یہ غلطی ہے، کیونکہ مذکر اور مونث کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دونوں اپنے افعال پر جاری ہوں.

القرطبی:الاعراف.

برےپڑوسی سے بچنے کی دعاء

 اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ جَارِ السَّوْءِ


ترجمہ: اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں برے ہمسائے سے۔

(السنن النسائي، الاستعاذة من جار السوء، رقم الحديث: 5517)

Thursday 25 November 2021

حضرت الاستاذ مولاناعلی محمد علیہ الرحمۃ

 حضرت الاستاذ مولاناعلی محمد قاسمی ہرواڑی علیہ الرحمۃ 

زہدوتقوی, تعلیم وتعلم درس و تدریس شرم وحیا متانت وسنجیدگی بے باکی ووضعداری خودداری وغمناکی شرافت وکرامت سے منسوب پیکر علم ودیانت حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمۃ کی شخصیت میوات کے طبقۂ علماء میں محتاج بیان نہیں .آپ سے میں نے مدرسہ میل کے زمانۂ قیام میں صرف ونحومنطق فلسفہ, معانی وبلاغت وغیرہ علوم اسلامی ہی کی تحصیل نہیں کی بلکہ اس کارگہ حیات کے بے شمار اتارچڑھاؤ, نشیب و فراز سے روبرو ہونے کے وہ نکتہائے دقیق بھی سیکھے جنہیں عام طور پر اوراق کتب میں نہیں لکھاجاتا.

حیران ہیں اب جائیں کہاں ڈھونڈنے تم کو

آئینۂ ادراک میں بھی تم نہیں رہتے


دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں بحیثیت طالب علم میں نے دومرتبہ داخلہ لیا. سب سے پہلا مرحلہ وہ تھا جب کہ" باتک سدنل ید ہل" سے میری تعلیم کاآغاز ہواان دنوں مولانارحیم اللہ سلطانپوری یہ رسالہ پڑھایاکرتے تھے. موصوف بہت ہنس مکھ مزاحیہ طبع تھے. بہت سے بچوں کاایک ساتھ سبق سنتے تھے مجھ جیسے نابکاراس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت کے سامنےانگلی چلاتے ہوئے ہونٹ ہلاتے ہوئے پڑھائی کےشور کاپورا پورا فائدہ اٹھاتے.اس طرح کئ دن سبق سنایا لیکن ایک روز مولانا رحیم اللہ صاحب نے تاڑلیا اس کے بعد ہی حقیقتاً تعلیم کاصحیح طور پر آغاز ہوا اس کے بعد میں نے قاری صابر صاحب تاؤلوی علیہ الرحمہ کے درجہ میں حفظ قرآن مجید کی شروعات کی.اس زمانے میں میرے نگراں حافظ منشی صاحب دامت برکاتہم ہواکرتے تھے وہ میرے والدماجد علیہ الرحمہ کے مرکز نظام الدین میں ہم درس رہ چکے تھے اس دور میں بھی حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمہ کادارالعلوم محمدیہ میں طوطی بولتا تھا. اس وقت مولانانثاراحمدبستوی ,مولاناصغیرصاحب بستوی بڑے اساتذہ تھے, مولاناصغیر صاحب اکثر صبح کوحاضری لیتے تھے, اورمولانانثارصاحب سراپامتانت وسنجیدگی حلم وبردباری تقوی وطہارت کاایساپیکرتھے جسے دیکھ کربڑے بڑے اساتذہ بے محابہ کھڑےہوجاتے تھے میں انہیں دیکھ کر دل دل میں خوش ہوتا تھا ان کا رعب ودبدبہ طلباء ہی نہیں اساتذہ پربھی تھا. مولانا علی محمد علیہ الرحمہ اس زمانے میں اپنے ہم عمرطلباء کوشرح جامی مختصرالمعا نی, شرح تہذیب, سلم العلوم, قطبی کافیہ وغیرہ پڑھاتے تھے, اس دور کے منتہی درجات کےطلباء میں مولاناجمال الدین عرف دادا, مولاناسراج الدین مالپوری, مولاناشرف الدین چلی, مولاناعالم چلی,وغیرہ ہواکرتھے .مولانا علی محمد صاحب ان لحیم شیحم طلباء کے مابین ان کے ہم درس معلوم ہوتے تھے. لیکن سبھی طلباء پر ان کارعب ودبدبہ قابل دیدہوتاتھا. ان کی ضرب مبرح اورغیرمبرح,نیزمتانت,وسنجیدگی سےسبھی خائف رہتے تھے. ان کی آمد ہوا کے جھونکے کی طرح اچانک ہوتی تھی جودریامیں غول کے  غول کوخس وخاشاک کی طرح بہالیجاتی ہے. کبھی نماز کے وقت یااس کے بعدیا اس سے پہلے لیکن ان کی طویل ترشاخ نخیل کے نشانے پر چندایک ہی جیالے آتے تھے زیادہ ترعدیم الفرصتی یابھاگ دوڑ کی اس قیامت صغری میں نصف, سدس ,ثمن ہی بقدرخوش قسمتی حصہ پاتے تھے لیکن بعض نصیبہ ور ایسے بھی ہوتے جومثنی ورباع کی کیفیت سے دوچار ہوتے اورکمریاہتھیلی کے تکلیف دہ لیکن مقدس احساس کا کام ودہن سےشکوہ کرتے روتے بلبلاتے رہ جاتےجبکہ بہت سے اپنی اس حرماں نصیبی پرہنستے کھلکھلاتے.یہ آمدبادصرصرسے بھی زیادہ پرسکون ہوتی لیکن اس کے بعد کاسماں اجڑے ہوئے کارواں کی یاددلاتاتھا بقول علامہ اقبال :

آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر

لگتاہے اس مقام سےگذرے ہیں کتنے کارواں

حضرت مولانا سے اس زمانے میں مینے کچھ نہیں پڑھاچونکہ وہ عربی کی بڑی کتابیں پڑھایاکرتے تھے میں اس زمانے میں درجۂ تحفیظ القرآن کاطالب علم تھا. تاہم میری خوش بختی کہ پھر بھی مجھے حضرت سے استفادہ کاموقع ملا:اس دور میں دارالعلوم محمدیہ میں سالانہ جلسہ بڑے تزک واحتشام سے ہوتا تھا جس کی تیاری ایک ماہ پہلے ہی سے شروع ہوجاتی تھی. تاریخ موعودپردوردراز سے مہمانان گرامی کی آمد آمد جشن کاسماں باندھتی تھی, رات دن تقاریر رٹنا پھربارباران کی ریہرسل ہوتی رہتی تھی کبھی مہتمم صاحب علیہ الرحمہ کے سامنےکبھی مولاناصغیر صاحب کی نگرانی میں کبھی مولاناعلی محمد صاحب کی موجودگی میں غرضیکہ ایک لامتناہی سلسلہ تھا. مجھے مولاناوحید الدین خاں صاحب کے الرسالہ سےایک تقریر یاد کرنے کا حکم ملا. مولاناعلی محمد صاحب کی نگرانی میں,خود حضرت الاستاذ  نے مہتمم صاحب علیہ الرحمہ  سے یہ کہتے ہوئے استدعاء کی کہ میں انہیں یاد کراؤں گا. آپ نے مجھے کبھی میدان میں کبھی اپنے کمرے کے سامنے کبھی زینہ کے اوپر بہ آواز بلند تقریر مسلسل کرتے رہنے کاحکم دیا لہذامیں صبح آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک پھر ظہرکے بعد سے عصر تک تقریر رٹتا رہتا اور حضرت کی توجہ تام کایہ عالم تھا کہ جب بھی ادھرسے گذرتے جواب آں غزل کے طور پر کسی بھی رطب ویابس قطعۂ نخیل سے نواز جاتے. اس طرح میں نے حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمہ سے تقریر کافن سیکھا ایسا فن جس کااظہارانہوں نے پوری عمر خودکبھی نہیں فرمایا بلکہ ان کی شرمیلی طبیعت سے اس کا تصور بھی محال تھا. البتہ ان کی ضرب نخیل سے بے شمار مقرروں نےجلاپائی.جمعرات کوبعد نماز مغرب تقریری مشق کے لئے طلبا کی انجمن قائم ہوتی تھی ظہرکے بعد تقاریریادکی جاتیں اوربعد مغرب باقاعدہ طلباء کے ایک گروہ کے سامنے اس کی باقاعدہ مشق کی جاتی. اس کی نگرانی عام طور پر حضرت الاستاذ ہی فرماتے تھے تاہم درجۂ حفظ کے طلباء کواس سے استثنی حاصل تھا. دوسری بار جب میں نے دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں داخلہ لیا تواس کی تقریب کچھ اس طرح رہی کہ حضرت الاستاذ رمضان المبارک کی تعطیلات میں ضلع جھنجھنوں راجستھان چندہ کرنے جاتے تھے جہاں والد صاحب کاقیام تھا. آپ والد ماجد کے پاس قصبہ مہنسر کئ کئ روز قیام فرماتے میں ان دنوں دارالعلوم بساؤ میں جواب انعام العلوم کے نام سے اس علاقے کا مشہور مدرسہ ہے زیرتعلیم تھا. میل سے پہلے مرحلے میں دس پارے حفظ کرنے کے بعد مجھے یہاں داخل کردیا گیا تھا یہاں میں نے تکمیل حفظ کے علاوہ فارسی کی تکمیل کی نیز میزان منشعب نحومیرصرف میر مفید الطالبین وغیرہ ابتدائی عربی کتب پڑھیں لیکن والد صاحب نے علاقہ شیخاواٹی مہنسر راجستھان سے دہلی منتقل ہونے کاارادہ کیاکیونکہ مدرسہ بساؤ میں انتظامیہ اورمیواتی اساتذہ و طلباء کے مابین سخت معرکہ آرائی ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں کئی اساتذہ وطلباء زخمی بھی ہوئے بالآخر سبھی میواتی طلباء واساتذہ کوبادل ناخواستہ مدرسہ چھوڑناپڑا اس وقت مدرسہ انعام العلوم بساؤ میں مولاناجمیل احمد صاحب کوٹ رحمۃ اللہ علیہ صدرالمدرسین تھے آپ کے خسر حاجی نورمحمد علیہ الرحمہ کوٹوی اس مدرسہ کے بانی تھے وہ حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی قدس سرہ العزیز کے مریدتھے .ان کی خداترسی للہیت اورطلباء کی خدمت اوردینی لگن کویادکرکے آج بھی دل کوسکون ملتاہے.

شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ

استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

بہرکیف بساؤسے میواتی اساتذہ وطلباء کایہ قافلہ مہنسر ریلوے اسٹیشن پروالد صاحب سے ملاقات کرتے ہوئے میوات کے لئے عازم سفر ہوا اس کے بعد مدرسہ انعام العلوم میں میواتی طلباء واساتذہ کاداخلہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ممنوع قرار دے دیا گیا. لیکن ہم دونوں بھائی ڈاکٹر ابوالفضل ندوی اورراقم الحروف میواتی ہونے کے باوجود اس ضابطہ سے متثنی رکھے گئے.اس کی مختلف وجوہات تھیں منجملہ ان کے یہ بھی ہے کہ اتفاق سے شورش کے دن میں مدرسہ میں موجود ہی نہیں تھاوالد ماجدرحمہ اللہ کے پاس مہنسر گیاہواتھااور ابوالفضل بہت چھوٹے تھے جن پرکسی طرح کاالزام لگاناممکن نہ تھا لہذاہم دونوں اس کے بعد بھی ایک یادو سال مدرسہ انعام العلوم میں زیرتعلیم رہے. وہاں کے اساتذہ میں مولاجمیل احمد کوٹ رحمہ اللہ قاری نورمحمد چھائنسہ رحمہ اللہ کے علاوہ استاذالاساتذہ مفتی محمد یحیی قاسمی رحمہ اللہ. مولانامحمدیونس مظاہری مدظلہ العالی  مولانااکرام الحق باغپتی قابل ذکرہیں مفتی یحیی صاحب سے نحومیرصرف میر پڑھنے کاشرف حاصل ہواان کی محبت وشفقت کی یاد آج بھی سایہ کی طرح ساتھ رہتی ہے. ایک مرتبہ ایک طالب کوحضرت نے غصہ میں ہاتھ میں قمچی ماردی یہ ظہرکے بعد کاواقعہ تھاعصرکی نماز کے بعد سبھی طلباء کوعصرکی نماز کے بعدروک لیا اورمنبر پربیٹھ کراس طالب علم سے درخواست کی کہ وہ اپنا بدلہ لے لے اگر بدلہ لے گا تومجھے خوشی ہوگی کیونکہ میں آخرت کی گرفت سے بچ جاؤں گا یامجھے معاف کردے اس طالب علم نے عرض کیاحضرت میں نے معاف کیا یہ سن کر رونے لگے. اب انہیں ڈھونڈو چراغ رخ زیبا لے کر. 

انعام العلوم کے ناگفتہ بہ حالات کے مدنظر حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمۃ کی رمضان المبارک میں آمد پر والدصاحب نے آئند ہ میل میں داخلے کی بات کی میراامتحان بھی صرف میر اورنحومیرکالیا. اس کے بعد میں نے القراۃ  الواضحۃ, تیسرالمنطق, مرقات, ہدایۃ النحو, کافیہ شرح تہذیب , سلم العلوم, قطبی  ,شرح جامی مختصر المعانی, ملاحسن ہدایۃ الحکمت, میبذی وغیرہ ترجمۂ  قرآن مجید  وغیرہ کتب پڑھیں. آپ کااندازتعلیم مولاناخورشید عالم عثمانی دیوبندی کے طرز پر تھا. لیکن ضرب شدید میں آپ اپنے استاذ سے بہت فائق تھے. اس زمانے میں عصانہ ہوتوکلیمی ہے کار بے بنیاد ,کے بقول یہ مشہور تھا کہ جوان کی زدوکوب سے لطف اندوز ہوگیا اس پر علم وعمل کے چہار طبق روشن ہوگئے. الحمد للہ راقم الحروف نے اس سے وافرحصہ پایا لیکن بادئ النظر میں سبھی طبق اب تک تاریک ہیں. نحومیں آپ کی نظیرمشکل تھی. حقیقتاً یہ علم آپ نے اپنے استاذ مولاناغلام قادرکشمیری سے حاصل کیاتھا جودارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا کے اولین اساتذہ میں تھے. دارالعلوم دیوبند میں بھی ان کی علمی صلاحیتوں کے چرچے تھے. آپ میرے پھوپا مولاناروزہ دارخانصاحب کے درسی ساتھی تھے. 1984میں جب بساؤ راجستھان میں عالمی تبلیغی اجتماع ہواتوحضرت مولانامحمدقاسم رحمہ اللہ سابق مہتمم دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا کے ساتھ آپ بھی بساؤ اجتماع میں شرکت کی غرض سے نیز ہم لوگوں سے ملنے فرید آباد سے تشریف لائے تھے مہتمم صاحب رحمہ اللہ بھی ساتھ تھے .

دوسری مرتبہ جب میراداخلہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں ہوا توحضرت الاستاذ سے استفادہ کابہت موقع ملا. لیکن حضرت کارنگ مدرسہ مذکور میں بالکل مختلف تھا جبکہ راجستھان میں جب تشریف لاتے تھے توبالکل مختلف تھے. میں نےمیل سے پہلے اس ضرب مبرح کےرنگ وروپ نہیں دیکھے تھے جویہاں اپنی تمام تر رعنائی وآب وتاب کے ساتھ  جلوہ گر تھی. اس سے مرعوب ہوکرہمیشہ کے لئے اسے خیرباد کہتے ہوئے ایک روز میں نے دارالعلوم بساؤ کے لئے چپکے سے رخت سفر باندھ لیاکیونکہ حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمۃ نے فرمایاتھاکہ "تمہیں کل دیکھوں گا". میں نے خوف کا مبالغہ آمیز تصور باندھتے ہوئے مدرسہ انعام العلوم بساؤ کے لئے رخت سفر باندھ لیا.تاکہ حضرت کے عتاب سے بچ سکوں .

نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں

عجب سفر ہے کہ بس ہم سفر کو دیکھتے ہیں

.اس وقت بارہ روپے میرے پاس تھے. میں پہلے بھرت پور تک بس میں گیا وہاں سوچاکہ ریلوے اسٹیشن دیکھنا چاہیے کیونکہ ٹرین میں کرایہ کم لگے گا. بھرت پورریلوے اسٹیشن پرآگرہ جانے والی ٹرین کھڑی تھی. ٹرین پرآگرہ کانام پڑھ کر تاج محل کی چمک دمک نے اپنی طرف کھینچا میں نے سوچا آزادی سے فائدہ اٹھانا چاہیے زندگی میں تاج محل توایک بار ضرور دیکھا چاہیے پھرعمروفارہے رہے نہ رہے. چارروپیہ آگرہ کاکرایہ تھاجس سے مجھے اورمہمیز ملی لہذاآگرہ کی ٹرین میں بیٹھ گیاشام سات بجے آگرہ اترا. ریلوے اسٹیشن پر فیروزآباد کے ایک باریش ضعیف مسلمان مسافر نے مدرسہ کابچہ سمجھ کرمجھے اپنے ساتھ بیٹھالیا رات بھر اسٹیشن پربھوکے پیاسے گذاری صبح فجرکی اذان شاہی مسجدکے میناروں سے بلندہوئی تو اس مسافرکے ساتھ شاہی مسجد آگرہ میں فجر کی نماز پڑھی. نماز کے بعد نہایت ضعیف وناتواں امام نے صلوۃ وسلام پڑھناشروع کردیا اس مسافرکے ساتھ میں بھی ہاتھ باندھ کر کھڑاہوگیا.کیونکہ کہاوت ہے: when you are in  Rome do as the Romans do. یعنی بامسلماں اللہ بابرہمن رام رام.( علی گڑھ میں عرصۂ دراز کے بعد مجھے ایک صاحب نے اطلاع دی کہ ان امام صاحب کابعد میں قتل ہوگیاتھا. )غرض صلوۃ و سلام کے بعد فیروزآبادی کرم فرمانے اپنی راہ لی اور میں آگرہ کی سیرکونکلا. سب سے پہلے منی بس میں تاج محل گیا وہاں ٹکٹ لے کرتاج محل کےحسن وجمال کوقریب سے دیکھنے کی کوشش کی لیکن مجھے وہاں حسن وجمال نام کی کوئی چیز نظرنہیں آئی. ایک جم غفیر کوزیارت کے لئے قطار میں دیکھ کر مجھے ہنسی آتی تھی اورلوگوں کی حماقت پر افسوس ہوتا تھا کہ یہ لوگ کیوں اپناوقت اورپیسہ برباد کرنے یہاں آئے ہیں.کیونکہ میں نے منزل مقصود بساؤ کوسمجھ رکھاتھا. مرادرمنزل جاناں چہ امن و عیش چوں ہردم 

جرس فریاد می دارد کہ بربندید محملہا 

جب تاج محل میں جی نہ لگا تومجھے خیال آیا مدرسہ افضل العلوم میں اباجی نے پڑھایاتھاچلوآج اس کی بھی زیارت کرچلیں. لیکن مدرسہ کے دروازے سے واپس لوٹ آیا , مبادا یہ لوگ مجھے پکڑکر مدرسہ واپس نہ بھیج دیں. بالآخر آگرے کے راستوں میں تھکا ماندہ یہ مسافر یوں ہی بھٹکتا رہا.

وہ جس کی منزل مقصود کہکشاں سے پرے.

ہمارے ساتھ فقط چند گام آتے ہیں.

بالآخر آگرہکینٹ سے جے پور کی راہ لی جیب خالی تھی بغیرٹکٹ ہی جے پور کے لئے بیٹھ گیا پھرخیال آیا ٹی ٹی کوکیاجواب دیں گے لہذا سیٹ کے نیچے سوتے ہوئے جے پور پہنچے وہاں سے سیکر ہوتے ہوئے بساؤ مدرسہ انعام العلوم جاپہنچا. کئی دن کی بھوک و فاقہ مستی سے طبیعت نڈھال ہوچکی تھی .لہذا جاتے ہی اپنے ساتھیوں سے کھانے کی فرمائش کی ادھروالدصاحب کومیرے جانے کی اطلاع ہوئی توسخت صدمہ ہوا دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا آکرمیرے سامان کاجائزہ لیاتوانہوں نے اندازہ لگالیاکہ میں نے بساؤ کی راہ لی ہے. مولاناعلی محمد صاحب والد صاحب کے شاگرد تھے انہوں نے گلستاں بوستاں نحومیر صرف میروغیرہ والد صاحب سے مدرسہ افضل العلوم آگرہ میں پڑھی تھی.جس کی ابتدا کچھ اس طرح ہوئی : مدرسہ افضل العلوم کے قیام کے وقت سب سے پہلے مدرس حضرت مولانادین محمد صاحب لکھناکارحمۃ اللہ علیہ ,کومدرسہ میل سے بھیجا گیا آپ یہاں کے اولین اساتذہ میں سے ایک بہت ہی متدین اور خداترس عالم دین تھے. ان کے ساتھ چند طلباء بھی تھے جن میں مولاناعلی محمد علیہ الرحمہ بھی تھے والد ماجد اس کے اولین صدرمدرس مقرر ہوئے. اس طرح مدرسہ افضل العلوم کاقیام عمل میں آیا اس وقت مدرسہ چھم چھم گلی میں تھا. مولاناعارف صاحب اس کے اولین مہتمم تھے. جب مدرسہ کومقامی طلبہ مل گئے تومیواتی طلباء جن میں حضرت الاستاذ بھی تھے واپس دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا آگئے. غرض والد صاحب نے میرے خطوط وغیرہ پڑھ کرمیری تلاش میں بساؤ جانے کافیصلہ کیا بالآخر دوبارہ حضرت الاستاذ کی زیرنگرانی آگیا.اب جب بھی اس سفر بے راہ روی کاخیال آتاہے توکف افسوس ملتے ہوئے ہیجانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور سوچنے لگتاہوں کہ اتنالمباسفر تن تنہااتنی کم عمری میں میں نے کیسے طے کر لیا! تبارک اللہ ازیں فتنہا کہ درسر ماست. 

حضرت الاستاذ کی مثال اس ناپیدکنار دریاکی تھی جس میں مختلف اشیاء ہوتی ہیں اور وہ سب کو یکساں طور پر بہائے لیجاتاہے.تصوف وطریقت پرجب گفتگو ہوتی شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی کی فصوص الحکم اورفتوحات مکیہ پر ایسے تبصرہ کرتے گویا اس دریا کے قدیم شناور وغواص ہیں. منطق وفلسفہ پرجب گفتگو فرماتے توعلامہ قطبی کی طرح اپنی بھی ایک رائے پیش فرماتے غرض:اسی دریاسے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی. نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ وبالا. 

اگرچہ ان کا اصل میدان بظاہرنحوتھالیکن فی الحقیقت وہ کوچۂ تصوف کے سالک تھے. مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب شروانی جلال آباد ی خلیفہ اجل حضرت تھانوی سے باقاعدہ بیعت کی اور ان کے ہاں اکثرقیام فرماتے.فلسفیانہ مسائل سے آپ کودلچسپی تھی. اقبال کے تصور خودی کی بھی بہت جامع تشریح فرماتے.

مجذوب کبھی سوز کبھی سازہے تجھ میں

تومیرکبھی اورکبھی سودانظرآیا

کافیہ پرلمبی چوڑی تقریرات سنتے ہوئے ایک روز میں نے حضرت سے یہ دریافت کرنے کی جر ات کی "الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفرد بہت ہی مختصر جملہ ہے. لیکن کلمہ, لفظ ,پر شارحین ایک ایک دن گذاردیتے ہیں اوراپنی طرف سے اشکال وجواب کاایک لامتناہی سلسلہ قائم فرماتے ہیں .اتنی طویل تقریر صاحب کافیہ علامہ ابن حاحب کے ذہن میں سچ مچ تھی بھی یامحض یہ شارحین کی اختراع ہے ؟توفرمایااس میں کچھ اختراع بھی ہے لیکن مقصود فن کی باریکیوں سے روشناس کرانا ہے .حضرت مہتمم صاحب رحمہ اللہ سے آپ کا تعلق استاذ شاگرد کارہا دارالعلوم محمدیہ سے علیحدگی کے بعد بھی حضرت کاذکرخیر محبت اور والہانہ انداز میں فرماتے عقیدت واحترام میں ذرابھی فرق نہیں پڑا تھا.حضرت مہتمم صاحب بھی آپ کاذکر بڑی محبت سے فرماتے تھے .ان دواساطین کی وفات حسرت آیات دل سے بھلائے نہیں بھولتی :


تمہاری موت نے مارا ہے جیتے جی ہم کو

ہماری جان بھی گویا تمہاری جان میں تھی

نماز چھوڑنے پرتجدید نکاح کاحکم

 اگر کوئی آدمی نماز کو اس اعتقاد کے ساتھ ترک کرتا ہے کہ نماز فرض ہی نہیں تو ایسا آدمی کافر ہے اور توبہ کی صورت میں تجدیدِ نکاح بھی ضروری ہو گا اور اگر کوئی شخص ایسا اعتقاد تو نہیں رکھتا، بلکہ محض سستی کی وجہ سے نماز ترک کر دیتا ہے تو ایسا آدمی نماز چھوڑنے کی وجہ سے کافر نہ ہو گا، البتہ فاسق ہو گا، لہذا جب کافر نہ ہو گا تو نکاح بھی نہیں ٹوٹا؛ اس لیے اس کی تجدید کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ 

اور جن احادیث میں نماز کے ترک پر کفر کا حکم لگایا گیا ہے، اس سے مراد بھی وہی صورت ہے جب اس اعتقاد سے چھوڑے کہ نماز چھوڑنا جائز ہے۔ اور اس صورت میں چھوڑنے والا بہرحال کافر ہو جاتا ہے یا اُن احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا یہ فعل کفار کے فعل سے مشابہ ہے۔ 

شرح النووي على مسلم (2/ 71):
’’وتأولوا قوله صلى الله عليه وسلم: ’’بين العبد وبين الكفر ترك الصلاة‘‘ على معنى أنه يستحق بترك الصلاة عقوبة الكافر وهي القتل، أو أنه محمول على المستحل، أو على أنه قد يؤول به إلى الكفر، أو أن فعله فعل الكفار،

Tuesday 23 November 2021

میت کے اہل خانہ کاکھانابناکرمہمانوں کوکھلاناجائز ہے کہ نہیں

 جس گھر میں میت ہوجائے ان کے پڑوسیوں اور رشتے داروں کے لیے مستحب اور باعث اجر و ثواب ہے کہ میت کے گھر والوں کے لیے اس دن (دو وقت) کے کھانے کا انتظام کریں اور خود ساتھ بیٹھ کر، اصرار کر کے ان کو کھلائیں،اور ضرورت ہو تو تین دن تک کھانا کھلانا بھی جائز ہے، اہلِ میت کو یہ کھانا کھلانا اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ میت کے گھر میں یا میت کے گھر والوں کے لیے کھانا پکانا ممنوع ہے، بلکہ اس وجہ سے   ہوتا ہے کہ غم و حزن اور تجہیز و تکفین کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو کھانا پکانے کا موقع نہیں ملے گا، لہٰذا اگر میت کے گھر والے خود اپنے لیے اسی دن کھانا بنائیں تو اس کی اجازت ہے۔رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کو ایسی خبر پہنچی ہے جو ان کو مشغول کرے گی ( یعنی جعفر کی شہادت کی خبر سن کر صدمہ اور رنج میں مشغول ہوکر کھانے پینے کے انتظام کی خبر نہیں رہے گی)۔

                لیکن یہ کھانا صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہے ، یہ نہیں کہ تمام برادری اور قوم کو کھلایا جائے، کیوں کہ تعزیت کرنے والوں کو اپنے اپنے گھروں کو واپس جانا چاہیے، میت کے گھر قیام بھی نہیں کرنا چاہیے اور اہلِ میت کے یہاں ضیافت و دعوت بھی نہیں کھانی چاہیے، کیوں کہ دعوت کا کھانا تو خوشی کے موقع پر مشروع ہے نہ کہ غم کے موقع پر، اسی لیے فقہاء نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعتِ مستقبحہ قرار دیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر قال النبي صلى الله عليه وسلم: صانعوا لآل جعفر طعاما فقد أتاهم ما يشغلهم). رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه". (مشکاة المصابیح، کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثاني،ص:۱۵۱ ،ط:قدیمي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"والمعنى: جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم، فيحصل لهم الضرر وهم لايشعرون. قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لايستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية، ثم إذا صنع لهم ما ذكر من أن يلح عليهم في الأكل لئلايضعفوا بتركه استحياء، أو لفرط جزع، واصطناعه من بعيد أو قريب للنائحات شديد التحريم ؛ لأنه إعانة على المعصية، واصطناع أهل البيت له لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة، بل صح عن جرير رضي الله عنه: كنا نعده من النياحة، وهو ظاهر في التحريم. قال الغزالي: ويكره الأكل منه، قلت: وهذا إذا لم يكن من مال اليتيم أو الغائب، وإلا فهو حرام بلا خلاف". (کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثاني،ج:۴؍ ۱۹۴ ،ط: رشیدیه) 

  فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ.

مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت

وقال أيضاً: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل: أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاماً للفقراء كان حسناً اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لايريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه عليه الصلاة والسلام دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالاً بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالباً من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم". (کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة،ج:۲ ؍ ۲۴۰ ، ط: سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. روى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة. ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون، والله أعلم". (کتاب الصلاة، قبیل باب الشهید، ج:۲ ؍ ۱۰۲ ، ط: رشیدیه

بٹ کوئن اورکرپٹوکرنسی کاحکم

 الجواب حامداً ومصلیاً واضح رہے کہ کسی بھی قدری (Valueable) چیز کے کرنسی بننے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی حکومت اور اسٹیٹ کی جانب سے اس کرنسی کو سکہ اور ثمن تسلیم کرکے اس کو عام معاملات (لین دین) میں زرِمبادلہ کا درجہ دے دے دیا گیا ہو، ایسی کرنسی کو لوگ رغبت ومیلان کے ساتھ قبول کرنے کے لیے آمادہ بھی بن جائیں اور اُسے رواجِ عام مل جائے۔ ۱:… مذکورہ ڈیجیٹل کرنسی نہ تو کسی حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ کرنسی (ثمن) ہے اور نہ ہی تمام لوگوں میں اس کا رواج ہے، لہٰذا اس کی ثمنیت قابلِ اعتبار نہیں ہے اور محض چند ٹوکن جن کی کوئی واقعی مالی حیثیت نہیں ہے، ا س کی قیمت ۱۰۰ یورو سے ۲۸۰۰۰ تک مقرر کرنا درست نہیں ہے۔ نیز اگر مجوزہ ڈیجیٹل کرنسی کو بالفرض قانونی واصطلاحی کرنسی تسلیم کرلیا جائے تو ڈیجیٹل کرنسی کا مبادلاتی عمل (لین دین) شرعی لحاظ سے بیع صرف (نقدی کا لین دین) کہلائے گا، جبکہ نقدی کا آپس میں تبادلہ کرتے وقت ایک ہی مجلس میں قبضہ ضروری ہے، جبکہ مذکورہ کمپنی ٹوکن دینے کے ۹۰ دن بعد ان ٹوکنوں کو دگنا کرکے ڈیجیٹل کوائنز (سکوں) میں تبدیل کرکے دیتی ہے تو یہ بھی بیع صرف میں اُدھار کی ایک صورت ہونے کی وجہ سے ناجائز ہی ہے ، لہٰذا سوال میں مذکور منافع کا پہلا طریقہ بھی ناجائز ہے۔فتاویٰ شامی میں ہے: ’’والمالیۃ تثبت بتمول الناس کافۃً أو بعضہم والتقوم یثبت بہا وبإباحۃ الانتفاع بہٖ شرعاً۔‘‘                                              (ج:۴،ص:۵۰۱،ط:ایچ ایم سعید) وفیہ ایضاً: ’’ہو مبادلۃ شئ مرغوبٍ فیہ بمثلہٖ علی وجہٍ مفیدٍ مخصوصٍ۔‘‘                                                            (ج:۴،ص:۵۰۶،ط:ایچ ایم سعید) بدائع الصنائع میں ہے: ’’وأما الشرائط (فمنہا) قبض البدلین قبل الافتراق لقولہٖ علیہ الصلاۃ والسلام فی الحدیث المشہور والذہب بالذہب مثلاً بمثل یداً بید والفضۃ بالفضۃ مثلاً بمثل یداً بید، الحدیث۔‘‘                                 (فصل فی شرائط الصرف،ج:۵،ص:۲۱۵) ۲…مذکورہ کمپنی کے منافع حاصل کرنے کا دوسرا طریقہ جس کی تین صورتیں ہیں، یہ تینوں صورتیں دراصل کمیشن کے تحت آتی ہیں اور کمیشن کی اسلامی قانونِ تجارت اور تبادلہ میں مستقل تجارتی حیثیت نہیں ہے، اس لیے کہ جسمانی محنت (جو کہ تجارت کا ایک اہم جزء ہے) کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر فقہاء کرام نے اصولاً اس کو ناجائز قرار دیا ہے، لیکن لوگوں کی ضرورت اور تعامل کی وجہ سے ا س کی محدود اور مشروط اجازت دی ہے، بظاہر مذکورہ کمپنی کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کا سرمایہ اپنے کاروبار میں لگا کر اور ممبردر ممبر سازی کرکے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کرنا اور اس حاصل ہونے والی رقم سے لوگوں کو کمیشن فراہم کرنا ہے، لہٰذا اس کمپنی سے معاملہ کرنا اور اس میں سرمایہ کاری کرکے منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہے، چونکہ اس کمپنی کے کوائنز اور ٹوکن خریدنا جائز نہیں ہے، اسی طرح اس کمپنی کے ممبر بن کرمذکورہ تینوں صورتوں ’’Direct Sale‘‘ ، ’’ Network Bounus ‘‘ اور ’’Matching Bounus‘‘ کے ذریعے کمیشن حاصل کرنا بھی درست نہیں ہے۔ فتاویٰ شامی میں ہے: ’’والربح إنما یستحق بالمال أو بالعمل أو بالضمان۔‘‘                             (فتاویٰ شامی، کتاب المضاربۃ،ج:۵،ص:۶۴۶،ط:ایچ ایم سعید) وفیہ ایضاً: ’’سئل عن محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار: فقال: أرجو أنہ لابأس بہ وإن کان فی الأصل فاسداً لکثرۃ التعامل وکثیرمن ہذا غیر جائزۃ فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ۔‘‘                          (فتاویٰ شامی ،مطلب فی أجرۃ الدلال،ج:۶،ص:۶۳،ط:ایچ ایم سعید) الأشباہ والنظائر میں ہے: ’’ما أبیح للضرورۃ یقدر بقدرہا۔‘‘ (الأشباہ والنظائر ،القاعدۃ الخامسۃ: الضرر یزال،ص:۸۷، قدیمی) وفیہ ایضاً: ’’وصرح بہ فی فتاویٰ قاری الہدایۃ ثم قال والعقد إذا فسد فی بعضہ فسد فی جمیعہٖ۔‘‘                    (الأشباہ والنظائر ،القاعدۃ الثانیۃ،ص:۱۱۷، قدیمی) ۳… مذکورہ کمپنی کے کوائنز (سکوں) کا حصول اور ان کی خرید وفروخت چونکہ ناجائز ہے، اسی طرح ان کوائنز کو دگنا کرکے بیچنا بھی ناجائز ہے۔البنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے: ’’إن فساد العقد فی البعض إنما یؤثر فی الباقی إذا کان المفسد مقارناً۔‘‘                                     (البنایۃ شرح الہدایۃ ،ج:۸،ص:۱۷۷) نیز ان کوائنز (سکوں) کی زیادتی بلاعوض ایک عقد میں لازم ہونے کی وجہ سے بھی جائز نہیں ہے۔ فتاویٰ شامی میں ہے: ’’باب الربا ہو لغۃً مطلق الزیادۃ وشرعاً (فضل) ولو حکماً فدخل ربا النسیئۃ والبیوع الفاسدۃ فکلہا من الربا فیجب رد عین الربا ولو قائمًا لارد ضمانہٖ لأنہٗ یملک بالقبض قنیۃ وبحر (خال عن عوض) … مشروط ذٰلک الفضل لأحد العاقدین۔‘‘   (فتاویٰ شامی ،ج:۵،ص:۱۶۸،۱۶۹،ط:ایچ ایم سعید) ۴،۵…مذکورہ کمپنی کا ٹوکن اور کوائنز کا لین دین کرنا چونکہ ناجائز ہے، اس لیے اگر کوئی اس کمپنی میں صرف کوائنز حاصل کرنے کے لیے رکنیت حاصل کرے اور نیٹ ورکنگ (Networking) کے ذریعے اگرچہ ممبر سازی نہ کرے، تب بھی ان کوائنز کو خریدنا جائز نہیں ہے۔  نیز اس طرح کی مشکوک کمپنی کے کارو بار میں سرمایہ کاری کرنا بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ شریعتِ اسلامی میں کاروبار اور لین دین کا مدار معاملات کی صفائی اور دیانت وامانت پر ہے اور فرضی چیزوں کے بجائے اصلی اور حقیقی چیزوں کی خرید وفروخت اور حقیقی محنت پر زور دیتی ہے اور استفتاء کے ساتھ منسلکہ فتویٰ سے یہ بھی بات واضح ہوتی ہے کہ ’’One Coin ‘‘ (ون کوائن) کمپنی کے معاملات صاف اور واضح نہیں ہیں، لہٰذا ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ بظاہر دوسروں کا مال، غیر واضح، مبہم اور ناجائز طریقے سے ہتھیانے کے مترادف ہے، جسے شرعی اصطلاح میں ’’اکل باطل‘‘کہتے ہیں۔ تفسیر کبیر میں ہے: ’’قال بعضہم: اللّٰہ تعالٰی إنما حرم الربا حیث أنہ یمنع الناس عن الاشتغال بالمکاسب… فلایکاد یتحمل مشقۃ الکسب والتجارۃ والصناعات الشاقۃ۔‘‘                                                      (التفسیر الکبیر للرازی، سورۃ البقرۃ،ج:۷،ص:۹۱، ایران) ’’ بعض علماء فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس لیے سود کو حرام قراردیا ہے کہ یہ لوگوں کو اسباب معاش اختیار کرنے سے روکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا لوگ کمائی، تجارت اور سخت محنتوں کے بوجھ برداشت کرنے سے کتراتے ہیں۔‘‘ احکام القرآن میں ہے: ’’نہٰی لکل أحد عن أکل مال نفسہ ومال غیرہٖ بالباطل وأکل مال نفسہٖ بالباطل إنفاقہٗ فی معاصی اللّٰہ وأکل مال الغیر بالباطل قد قیل: فیہ وجہان: أحدہما ما قال السدی وہو أن یاکل بالربا والقمار والبخس والظلم وقال ابن عباسؓ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ والحسن رحمہ اللّٰہ تعالٰی أن یأکلہٗ بغیر عوض۔‘‘                                                                       (احکام القرآن ،ج:۲،ص:۲۱۶، دار الکتب العلمیہ، بیروت) ’’ہر ایک کو اپنا مال اور دوسروں کا مال ناحق طور پر کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اپنے مال کو ناحق طور پر کھانا یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کیا جائے اور دوسرے کے مال کو ناحق طور پر کھانے کے متعلق آیا ہے اس کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت: سدیؒ فرماتے ہیں : اس کو سود، جوا، کمی(ناپ تول میں) اور ظلم کے ذریعہ کھائے۔ حضرت ابن عباسؓ اور حسنؒ فرماتے ہیں کہ: اس کو بغیر عوض کے کھائے(سودی معاملہ کرے)۔‘‘     الجواب صحیح              الجواب صحیح          الجواب صحیح                 کتبہٗ   ابوبکرسعید الرحمن         محمد شفیق عارف         رفیق احمد بالاکوٹی          محمد طیب حیدری                                                                    تخصصِ فقہِ اسلامی                                                          جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔

Monday 22 November 2021

بیٹیوں کے لئے خریدے گئے پلاٹ پر زکوۃ

 اگر مذکورہ پلاٹ خریدتے وقت یہ نیت تھی کہ بیٹیوں کی شادی کے وقت اسے بیچ کر شادی میں خرچہ کریں گے، تو یہ تجارتی پلاٹ ہے اور دیگر اموال کے ساتھ اس پر بھی زکات واجب ہے۔ اور اگر پلاٹ خریدتے وقت بیچنے کی نیت نہیں تھی تو مذکورہ پلاٹ پر زکات واجب نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:172، ط : دار الفكر):

"(و منها فراغ المال) عن حاجته الأصلية، فليس في دور السكنى و ثياب البدن و أثاث المنازل و دواب الركوب و عبيد الخدمة و سلاح الاستعمال زكاة."

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:2، ص:265، ط : دار الفكر):

"(و أثاث المنزل و دور السكنى و نحوها) و كذا الكتب و إن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة. (قوله: وأثاث المنزل إلخ) محترز قوله نام و لو تقديرا، و قوله و نحوها: أي كثياب البدن الغير المحتاج إليها و كالحوانيت و العقارات."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:2، ص:11، ط : دار الكتب العلمية):

"و أما فيما سوى الأثمان من العروض فإنما يكون الإعداد فيها للتجارة بالنية؛ لأنها كما تصلح للتجارة تصلح للانتفاع بأعيانها بل المقصود الأصلي منها ذلك فلا بد من التعيين للتجارة و ذلك بالنية."