https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 11 June 2024

بہوپرساس کی خدمت لازم ہے کہ نہیں

  میاں بیوی کا باہمی اور اسی طرح سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت  اور ہم دردی و  ایثار  کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے، شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی کے حقوق میں توازن رکھا ہے  اور حسنِ معاشرت کا حکم دے کر  یہ واضح کیا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ باہم اخلاقیات اور ایثار اور ہم دردی سے چلتا ہے،  کچھ چیزیں  بیوی کے ذمہ لازم نہیں کیں، اور کچھ شوہرکے ذمہ لازم نہیں کیں، لیکن حسنِ معاشرت کے باب میں دیانۃً اور اخلاقاً یہ چیزیں  دونوں کی ایک  دوسرے پر لازم ہیں۔

لہذا عورت کے ذمہ ساس کی خدمت  اگرچہ شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر عورت کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اُس کے شوہر کی ماں ہے، جس طرح اَپنی ماں کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کی ماں کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔

لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر یا ساس کا اپنی بہو کو خدمت پر مجبور کرنا اور اس پر اس ظلم جبر کرنا درست نہیں ہے،(بلکہ خود شوہر پر اپنے والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے)  یعنی دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے، ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  ’’بہشتی زیور‘‘ میں خواتین کو خطاب کرکے تحریر فرماتے ہیں:

’’جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑدیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کردو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی‘‘۔ (بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان، [باب: 31] (ص:47، 48) ط: تاج کمپنی کراچی)

فقط 

تحلیل کے لیے نکاح

 اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے اور پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے اس کا نکاح  کسی دوسرے شخص سے اس شرط پر کرائے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے گا، ایسا کرنا مکروہ تحریمی (ناجائز) ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے والے اور جو شخص ایسا کروا رہا ہے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اور وہ کسی دوسری جگہ طلاق دینے کی شرط کے بغیر نکاح کرے ، نکاح کے بعد دوسرا شوہر حقوقِ زوجیت ادا کرے اور اس کے بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ اسے اتفاقی طور پر طلاق دےدے تو وہ بیوی پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔

مسند أحمد  (8/ 266)
' عن أبي هريرة قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحل والمحلل له'.
' ( وكره ) التزوج للثاني ( تحريماً )؛ لحديث: لعن المحلل والمحلل له، ( بشرط التحليل )، كتزوجتك على أن أحللك، ( وإن حلت للأول )؛ لصحة النكاح وبطلان الشرط، فلا يجبر على الطلاق'۔ (شامی، كتاب الطلاق، باب الرجعة ۳/ ۴۱۵ ط:سعيد)

خداکو ظالم کہنا

 واضح   رہے  کہ قرآن ِ مجید میں اللہ  تعالی نے اپنی  ذات سے صراحتًا  ظلم کی نفی کی ہے، جیسے کہ  سورۂ  نساء میں  ہے: 

"بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہ کریں گے۔"

(سورۃ النساء، رقم الآیۃ:40، ترجمہ:بیان القرآن)

اور جس صفت کی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذات سے نفی کی ہے، اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا کفر ہے۔

بصورتِ  مسئولہ جو شخص اپنے ہوش وحواس میں اللہ تعالیٰ کی طرف صفتِ ظلم کی نسبت کرتے ہوئے "ظلم خدا کا" کہے تو وہ شخص  دائرۂ  اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس  پر  لازم ہے کہ وہ تجدیدِ ایمان کرے اور صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرے، اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدیدِ نکاح بھی لازم  ہے۔

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

"نِسْبَةُ الظُّلْمِ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَأَثَرُهَا فِي الرِّدَّةِ : اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ نِسْبَةَ الظُّلْمِ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى مِنْ مُوجِبَاتِ الْحُكْمِ بِالرِّدَّةِ فَلَوْ قَال شَخْصٌ لِغَيْرِهِ : لاَ تَتْرُكِ الصَّلاَةَ فَإِنّ اللَّهَ تَعَالَى يُؤَاخِذُكَ فَقَال : لَوْ آخَذَنِي اللَّهُ بِهَا مَعَ مَا بِي مِنَ الْمَرَضِ وَالشِّدَّةِ ظَلَمَنِي ، فَإِنَّهُ يَكُونُ مُرْتَدًّا ."

(المادة:ظلم، ج:29، ص:175، ط:اميرحمزه كتب خانه)

الفتاوى الهندية میں ہے:

"قال أبو حفص (رحمه الله تعالى): من نسب الله تعالى إلى الجور فقد كفر، كذا في الفصول العمادية".

(مطلب في موجبات الكفر أنواع منها ما يتعلق بالإيمان والإسلام، ج:2، ص:259، ط:مكتبه رشيديه)

تکفیر مسلم

 کسی بھی مسلمان پربغیرکسی شرعی دلیل کے کافرہونے کاحکم لگانا،اس کوکھیل بنالیناسخت گناہ اورحرام ہے،ایمان کے لئے بھی خطرناک ہے،اس سے آدمی کااپنادین وایمان سلامت نہیں رہتا،لہذا دوسرے مسلمانوں پرکفرکاحکم لگانے والے شخص کواپنے دین وایمان کی فکرکرنی چاہیئے،اپنی حرکات سے بازآکرتوبہ تائب ہوناچاہیے،ایسے شخص کوحکمت وتدبیرکے ساتھ سمجھایاجائے ،اگر اپنی ان حرکات سے بازنہ آئے تواس سے قطع تعلق کرنادرست ہے۔

مشکوۃ شریف میں ہے:

" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری ومسلم)

دوسری روایت میں ہے:

''حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا''۔

(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 )

جے شری رام یاوندے ماترم کہنا

 جس شخص نے جان بوجھ کر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیا جس سے کفر لازم آتا ہےتو اس پر تجدید ایمان بھی لازم ہے ۔  اگرغلطی سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے (مثلاً کہنا کچھ اور چاہ رہاہو اور زبان سے کفریہ جملہ نکل جائے) تو اس کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا،لہذا اس صورت میں ایمان اور نکاح کی تجدید لازم نہیں ہوگی۔ البتہ احتیاطاً استغفار کرلینا چاہیے۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ نعرہ  اگر جان بوجھ کر لگایا گیا تھا  تو یہ کلمہ کفر ہے  مذکورہ شخص  پر  تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح ضروری ہے۔

 فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومن تکلم بها مخطئًا أو مکرهًا لایکفر عند الکل".

(باب المرتد جلد 4 ص: 224 ط: سعید)

و فیہ ایضاً: 

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع".

قال ابن عابدین رحمه الله:

قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها  عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ".

(باب المرتد جلد 4 ص: 224 ط: سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:کسی ہندوکو"رام رام"کرنےیا لینے سے کفر عائد ہوجاتا ہے؟یا"جے رام"کرنے سے؟

"جواب:اسلامی شعائر"السلام علیکم "ہے،غیر اسلامی شعائر کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے،پھر اگر وہ غیر کا شعار ہوتو اس کو اختیار کرنا معصیت ہے،اگر مذہبی شعار ہو تو کفر تک پہنچ جانے کا خطرہ ہے۔"

(ج:19،ص:96،ط:زیر نگرانی دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

انبیاء اور صحابہ کی توھین کرنا

 حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات میں سے کسی  کی شان میں گستاخی کرنا،سب وشتم کرنا  موجبِ کفر  ہے؛کیوں کہ انبیاء علیہم السلام کی نبوت نصوص قطعیہ سے ثابت ہے،اسی طرح  حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین  کی پوری جماعت  (مجموع من حیث  المجموع )  کی صحابیت کا انکارکرنا،یاحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی صحابیت کا انکاکرنایا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی براءت کا انکارکرنا بھی کفر ہے ؛کیوں کہ جماعتِ  صحابہ کرام رضوان  اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ   کی صحابیت  ، اسی  طرح  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت   نصِ قطعی سے ثابت ہے، جب کہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین   کی صحابیت چوں کہ  اخبار آحاد سے ثابت ہے اس وجہ سے   ان میں سے کسی ایک  کے حق میں گستاخی  کفر نہیں، تاہم انتہائی سنگین گناہ   اور فسق فجور کا ارتکاب ہے،لیکن اگر کوئی شخص   صحابہ کرام رضی  اللہ عنہم  کی شان میں گستاخی  کو حلال یا کارثواب سمجھتاہو یا صحا بہ کرام  رضی اللہ عنہم کے کفر کا اعتقاد رکھتاہو تو ایسا  شخص بالاجماع کافرہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا یہ کہنا کہ   " گستاخ رسولﷺ کافر اور واجب القتل ہے،اور گستاخ صحابی صرف فاسق فاجر اور گمراہ ہے " درست نہیں بلکہ اس میں  تفصیل ہے جو اوپر کے سطور میں لکھ دی گئی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا." (البقرة: 137)

ترجمہ:" سواگر وہ  بھی اسی طریق سے ایمان لے آئیں  جس طریق سے تم (اہلِ اسلام) ایمان لائے ہو تب تو وہ بھی راہِ حق پر لگ جائیں گے۔"(از بیان القرآن)

جامع الاحادیث میں ہے:

(ج:20، ص:368، رقم الحدیث :2363، ط:حسن عباس زک"‌من ‌سب ‌نبيا فاقتلوه ومن سب أصحابى فاضربوه."ی)

تنبیہ الولاۃ والحکام میں ہے:

"والحاصل أن الحكم بالكفر علي ساب الشيخين أو غيرهما من الصحابة مطلقا قول ضعيف لا ينبغي الإفتاء به ولا التعويل عليه لما علمته من النقول المعتبرة."

( الحكم بالكفر علي ساب الشيخين أو غيرهما من الصحابة مطلقا قول ضعيف، ص:195، ط:مركز البحوث الإسلامية، )

وفیہ ایضاً:

"هذا وقد رأيت في هذه المسئلة رسالة لخاتمة العلماء الراسخين شيخ القراء والفقهاء والمحدثين سيدي منلا علي القارى رحمه الله تعالي مال فيها إلي ما ذكرته فلا بأس بتلخيص حاصلها،وذلك حيث قال : ....

وأما من سب أحدا من الصحابة فهو فاسق ومبتدع بالإجماع إلا إذا اعتقد أنه مباح أو يترتب عليه ثواب كما عليه بعض الشيعة او اعتقد كفر الصحابة فإنه كافر بالإجماع، فإذا سب أحد منهم فينظر فإن كان معه قرائن حالية علي ما تقدم من الكفريات فكافر وإلا ففاسق..."

(شهادة أهل الأهواء، ص:200،، ط:مركز البحوث الإسلامية، مردان)

اپنے آپ کو کافر کہنا

 شوھرنے اگرکہاکہ میں" کافر ہوں ،میں نہیں مانتا اللہ کو "تو اس کی وجہ سے کہنے والادائرہ اسلام سے خارج ہوچکا میاں بیوی کا نکاح ختم ہوچکا۔ شوہر پر تجدید ایمان ضروری ہے ۔نیز اگر تجدید ایمان کے بعدمیاں بیوی دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کر کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"مسلم قال: أنا ملحد يكفر، ولو قال: ما علمت أنه كفر لا يعذر بهذا.....وفي اليتيمة سألت والدي عن رجل قال: أنا فرعون، أو إبليس فحينئذ يكفر كذا في التتارخانية."

(كتاب السير،الباب التاسع في احكام المرتدين جلد 2 ص: 279 ط:

الٹی ناقض وضو ہے کہ نہیں

 اگر کسی شخص کو قے ہو اور اس میں کھانا  یا پانی یا پت گرے تو اگر منہ بھر   کر قے ہوئی ہو تو وضو ٹوٹ گیا اور اگر منہ بھر  کر نہیں ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔ منہ بھر کر قے ہونے کا مطلب ہےکہ منہ میں مشکل سے رکے۔

اگر قے میں صرف بلغم گرا تو وضو نہیں ٹوٹا،  چاہے بلغم جتنا بھی ہو،منہ بھر ہو یا نہ ہو،سب کا ایک حکم ہے۔

اگر قے میں خون گرے تو اگر پتلا اور بہنے والا ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا، چاہے کم ہو یا زیادہ،منہ بھر ہو یا نہیں ہو،اور اگر خون جمے ہوئے  ٹکڑوں کی صورت میں ہو اور منہ بھر ہو تو وضو ٹوٹ جاے گا اور اگر کم ہو تو نہیں ٹوٹے گا۔

اگر تھوڑی تھوڑی کرکے کئی دفعہ قے ہوئی، لیکن سب ملا کر اتنی ہےکہ اگر ایک دفعہ میں ہوتی تو منہ بھر جاتا تو  دیکھا جائے گا کہ اگر ایک ہی متلی مسلسل باقی رہی اور تھوڑی تھوڑی قے ہوتی رہی تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر ایک ہی متلی مسلسل نہیں رہی، بلکہ پہلی دفعہ کی متلی ختم ہوگئی اور طبیعت ٹھیک ہو گئی پھر دوبارہ متلی شروع ہوئی اور تھوری قے ہو گئی،پھر جب متلی ختم ہو گئی تو تیسری دفعہ پھر متلی شروع ہوکر قے ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔

"ينقض الوضوء قىء ملأفاه بأن يضبط بتكلف من مرة اي صفراء او علق أي سوداء؛وأما العلق النازل من الرأس فغير ناقض او طعام أو ماء اذا اوصل الي معدته وان لم يستقر، وهو نجس مغلظ ولو من صبي ساعة ارتضاعه هو الصحيح لمخالطة النجاسة، ذكره الحلبي.

ولو هو في المرىء فلا نقض اتفاقا كقىء حية أو دود كثير لطهارته في نفسه،كماء فم النائم فانه طاهر مطلقا به يفتی، بخلاف ماء فم الميت فانه نجس كقيء عين خمر أو بول وان لم ينقض لقلته لنجاسته بالأصالة لا بالمجاورة لاينقضه قيء من بلغم علي المعتمد(أصلا) الا المخلوط بطعام فيعتبر الغالب،ولو استويا فكل على حدة. وينقضه دم مائع من جوف أو فم (غلب على بزاق) حكما للغالب( أو ساواه) احتياطاً. لاينقضه المغلوب بالبزاق والقيح كالدم والاختلاط بالمخاط كالبزاق.

ويجمع متفرق القيء و يجعل كقيء واحد لاتحاد السبب وهو الغيثان عند محمد رحمه الله وهو الأصح؛ لأن الأصل إضافة الأحكام إلى أسبابها إلا لمانع، كما بسط في الكافي".

(رد المحتار على الدرالمختار) (حاشية ابن عابدين) (ج: ا/ص ٢٩٣۔٢٨٩


فقد اختلف العلماء في اعتبار القيء ناقضا للوضوء أو غير ناقض على قولين:

الأول: أنه لا ينقض الوضوء قل أو كثر، وبه قال المالكية والشافعية، وأحمد في رواية. وعللوا ذلك بأن الأصل هو عدم النقض، فمن ادعى خلافه فعليه الدليل، وأنه لا يوجد دليل صحيح يوجب نقض الوضوء بالقيء، وما ورد من الأحاديث في ذلك فهو ضعيف، ولأن القيء خارج من غير السبيلين، فلا يعتبر ناقضا، بخلاف الخارج من السبيلين كالبول والغائط.

القول الثاني: أن القيء الكثير ينقض الوضوء دون القليل، وبه قال الحنفية، والحنابلة في المشهور من المذهب، واختلفوا في تحديد الكثير، فمنهم من قال: يحدد ذلك بالعرف، ومنهم من قال: هو ما بلغ ملء الفم.

قال ابن قدامة في المغني: بعد قول الخرقي (والقيء الفاحش، والدم الفاحش...الخ):
(وإنما ينتقض الوضوء بالكثير من ذلك دون اليسير... ولنا ما روى أبو الدرداء: أن النبي صلى الله عليه وسلم قاء فتوضأ، فلقيت ثوبان في مسجد دمشق فذكرت له ذلك، فقال ثوبان: صدق، أنا صببت له وضوءه. رواه الأثرم والترمذي، وقال: هذا أصح شيء في هذا الباب).

كما اعتبر الحنفية القيء ملء الفم ناقضا للوضوء.

والراجح - والله أعلم - أن القيء لا ينقض الوضوء ولو كان كثيرا، لأن حديث: أبي الدرداء قد ضعفه كثير من أهل العلم، وعلى افتراض صحة إسناده فإن مدلوله مجرد فعل، ومجرد الفعل لا يدل على الوجوب لأنه خال من الأمر. انظر الشرح الممتع على زاد المستقنع (1/225) للشيخ ابن عثيمين.

Monday 10 June 2024

بدفالی کااسلام سے کوئی تعلق نہیں

 کائنات کی تمام چیزوں میں تصرف کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، اور اس کی مرضی کے بغیر کسی کو نہ کوئی خیر پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی شر، لہذا اس قسم کے توہمات رکھنا شرعاً درست نہیں،  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توہمات و بد فالی  لینے  کی سختی سے تردید فرمائی ہے،  لہذا ان توہمات سے اپنے ذہنوں کو صاف کرنا اور اللہ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے ان توہمات کی تردید کرنا ضروری ہے۔

شیطان اس طرح کے توہمات وبدعقیدگی ذہن میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان کم زور کرتاہے،  ایسا عقیدہ و توہم پرستی ناجائز ہے، سائلہ کا خیال اور عقیدہ درست ہے، اگر وہ اس گھر میں مجبوری کی وجہ سے دال نہیں پیس سکتی یا اچار نہیں ڈال سکتی تو اسے چاہیے کہ اپنے درست عقیدے پر ثابت قدم رہے، اس صورت میں امید ہے کہ اسے گناہ نہیں ہوگا۔ نیز اسے چاہیے کہ حکمت و تدبیر کے ساتھ گھر والوں کے اس باطل و بے حقیقت توہم کی اصلاح کی کوشش کرتی رہے۔جو اس طرح کا عقیدہ رکھے اور بدشگونی کا شکار ہو وہ ایمانی کم زوری کی وجہ سے قابلِ مؤاخذہ ہوگا

اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ دراصل امت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر کسی کے پاس ایسا مکان ہو جس میں رہناوہ ناپسند کرتا ہو، یاکسی کی ایسی بیوی ہو جس کے ساتھ صحبت و مباشرت اسے ناگوار ہو، یا کسی کے پاس ایسا گھوڑا ہو جو اسے اچھا معلوم نہ ہوتا ہو تو ان صورتوں میں یہ چیزیں چھوڑ دینی چاہئیں، یعنی مکان والا اس مکان سے منتقل ہو جائے بیوی والا اس کو طلاق دیدے اور گھوڑے والا اس گھوڑے کو بیچ ڈالے۔

حدیث کی ان توضیحات کی روشنی میں یہ بات صاف ہوگئی کہ یہ ارشاد گرامی" الطیرة منهى عنها" (بدشگونی لینے کی ممانعت) کے منافی نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر لوگ جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ مکان منحوس ہے یا فلاں عورت یا فلاں گھوڑا سبزقدم(باعث نحوست،منحوس) ہے، تویہ بات یہاں مراد نہیں ہے۔

(مظاہرحق ،کتاب النکاح،الفصل الاول،ج:3،ص:246-247،ط:دارالاشاعت کراچی)

ارشادباری تعالیٰ ہے:

"وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ یَزِیْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ(26) وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ(27)"

ترجمہ:اور ان لوگوں کی عبادت قبول کرتا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ (ثواب) دیتا ہے اور جو لوگ کفر کر رہے ہیں انکے لیے سخت عذاب ہے،اور اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے لیے روزی فراخ کردیتاتو وہ دنیا میں شرارت کرنے لگتے  لیکن جتنا رزق چاہتا ہے انداز (مناسب) سے (ہر ایک کے لیے) اتارتا ہے۔ وہ اپنے بندوں (کے مصالح) کو جاننے والا (اور ان کا حال) دیکھنے والا ہے۔

(تفسیربیان القرآن ،ج؛3،ص:351،ط:رحمانیہ

Saturday 8 June 2024

سنت غیر مؤکدہ بلاعذر چھوڑنا

 سنت مؤکدہ کا پڑھنا لازم ہے اور اسے بلا کسی عذر کے چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ کے پڑھنے پر بہت ثواب ملتا ہے لیکن  بلا عذر چھوڑنے پر کوئی گناہ نہیں ملتا۔ چوں کہ  سنت غیر مؤکدہ نفل نماز کے درجہ میں ہے، اس لیے اس پر نفل نماز والے احکام ہی جاری ہوتے ہیں۔


البحرالرائق میں ہے:

’’سنة مؤكدة قوية قريبة من الواجب حتى أطلق بعضهم عليه الوجوب، ولهذا قال محمد: لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه، وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه.‘‘ [3/ 6]

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر ويستوجب تاركها التضليل واللوم، كما في التحرير، أي على سبيل الإصرار بلا عذر.‘‘ [2/ 12]

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’تركه لايوجب إساءةً ولا عتابًا كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل.‘‘ [1/ 477، دارالفکر]

قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو جلانا

 قرآنِ کریم کے جو اَوراق انتہائی بوسیدہ ہوجائیں اور استفادہ کے لائق نہ رہیں ان کی حفاظت کی بہتر صورت  یہ ہے کہ انہیں کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر گہرائی میں دفن کردیا جائے تا کہ ان کی بے حرمتی نہ ہو، ان  کو جلانا خلافِ ادب ہے۔"درمختار مع ردالمحتار" میں ہے:

" المصحف إذا صار بحال لا يقرأ فيه يدفن كالمسلم"۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطهارة، سنن الغسل (1/177) ط:سعید)

"فتاویٰ ہندیہ" میں ہے:

"المصحف إذا صار خلقا وتعذرت القراءة منه لا يحرق بالنار، أشار الشيباني إلى هذا في السير الكبير وبه نأخذ، كذا في الذخيرة". (الفتاوی الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن (5/323) ط: دار الفکر

مولی علی کہنا

 مولیٰ"  کا لفظ کلماتِ مشترکہ میں سے ہے جس کے متعدد معانی آتے ہیں، ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو ترجیح دینے اور کہنے والے کی مراد سمجھنے کے لیے اس کلمہ کا استعمال، اس کا سیاق و سباق اور  سامعین نے  جملہ میں استعمال کے بعد اس کا  کیا معنی سمجھا ہے، اسے بھی جاننا ضروری ہوتا ہے۔

  •   پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق  "من كنت مولاه فعلي مولاه" والی روایت مختلف طرق سے  مختصر و طویل متن کے ساتھ متعدد کتب حدیث میں منقول ہے، ان تمام روایات کے مجموعہ کے سیاق و سباق اور پس منظر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے "مولا"  کا لفظ  محب، دوست  اورمحبوب کے معنی میں استعمال فرمایا ہے، اور یہی معنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا تھا؛ لہذا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے "مولا"  کا لفظ اسی معنی میں استعمال کرنا چاہیے۔
  • "مولیٰ" کا ایک معنی سردار بھی آتاہے، اس معنی کے اعتبار سے بھی "مولا علی"  کہنا جائز ہوگا۔

تاہم "مولی علی" آج کے زمانے میں ایک گم راہ فرقے کا شعار بن چکا ہے، اور "مولی علی" کے الفاظ کے پیچھے ان کا ایک نظریہ چھپاہوتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد  ان کے خلیفہ بلا فصل تھے وغیرہ ؛ لہذا ان الفاظ کے استعمال  سے اجتناب کرنا چاہیے، خصوصاً ایسے مواقع پر جہاں سننے والے "مولا علی" کے مختلف معانی کے فرق اور پس منظر کو نہ سمجھتے ہوں۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

''حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا، فَنَالَ مِنْهُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ، وَقَالَ: تَقُولُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»''. 

( فضل علی بن ابی طالب، رقم الحدیث:121، ج:1، ص:45، ط:دارالکتب العلمیۃ)

کسی مسلمان کو کافر کہنا

 اگر بطور گالی کافر کہا ہو اورعقیدہ کے اعتبار سے اسے کافر قرار نہ دیا ہو، تو یہ حرام ہے،  کہنے  والا گناہ گار ہوگا، تاہم کافر نہ ہوگا۔ البتہ اگر اس نے کسی مسلمان کو  اعتقاداً کافر قرار دیا ہو اور سامنے والے شخص میں کفر نہ پایا جاتا ہو تو کہنے والا کافر ہوجائے گا، تجدیدِِ ایمان کرنا ضروری ہوگا، شادی شدہ ہو تو تجدیدِ ایمان کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نیا مہر مقرر کرکے نکاح کی تجدید بھی کرنی ہوگی، بصورتِ دیگربیوی حلال نہ ہوگی۔

الأذكار للنووي میں ہے:

"520- فصل [النهي عن قول المسلم: يا كافر] :

1811- يحرم عليه تحريماً مغلّظاً أن يقولَ لمسلم: يا كافر!.

1812- رَوَيْنَا في صحيحي البخاري [رقم: 6103] ، ومسلمٍ [رقم: 60] ، عن ابن عمر رضي الله عنهُما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذَا قالَ الرَّجُلُ لأخِيهِ: يا كافِرٌ! فَقَدْ باءَ بِها أحَدُهُما، فإن كانَ كما قال، وَإِلاَّ رَجَعَتْ عَلَيْهِ".

1813- وَرَوَيْنَا في  "صحيحيهما"  [البخاري، رقم: 6045؛ مسلم، رقم: 61] ( ؛ عن أبي ذرّ رضي الله عنهُ، أنهُ سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولُ: "مَنْ دَعا رَجُلاً بالكُفْرِ" -أوْ قَالَ: "عَدُوُّ اللَّه" - "وَلَيْسَ كَذَلِكَ، إلاَّ حَارَ عَلَيهِ". هذا لفظ رواية مسلم، ولفظ البخاري بمعناه. ومعنى "حَارَ": رَجَعَ.

( كتاب حفظ اللسان، بابٌ في ألفاظٍ يكره استعمالها، فصل النهي عن قول المسلم: يا كافر، ص: 568، ط: الجفان والجابي - دار ابن حزم للطباعة والنشر الطبعة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وَلَوْ قَالَ لِمُسْلِمٍ أَجْنَبِيٍّ: يَا كَافِرُ، أَوْ لِأَجْنَبِيَّةٍ يَا كَافِرَةُ، وَلَمْ يَقُلْ الْمُخَاطَبُ شَيْئًا، أَوْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ:  يَا كَافِرَةُ، وَلَمْ تَقُلْ الْمَرْأَةُ شَيْئًا، أَوْ قَالَتْ الْمَرْأَةُ لِزَوْجِهَا: يَا كَافِرُ وَلَمْ يَقُلْ الزَّوْجُ شَيْئًا كَانَ الْفَقِيهُ أَبُو بَكْرٍ الْأَعْمَشُ الْبَلْخِيّ يَقُولُ: يَكْفُرُ هَذَا الْقَائِلُ،  وَقَالَ غَيْرُهُ مِنْ مَشَايِخِ بَلْخٍ رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى: لَايَكْفُرُ،  وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى فِي جِنْسِ هَذِهِ الْمَسَائِلِ أَنَّ الْقَائِلَ بِمِثْلِ هَذِهِ الْمَقَالَاتِ إنْ كَانَ أَرَادَ الشَّتْمَ وَلَايَعْتَقِدُهُ كَافِرًا لَايَكْفُرُ، وَإِنْ كَانَ يَعْتَقِدُهُ كَافِرًا فَخَاطَبَهُ  بِهَذَا بِنَاءً عَلَى اعْتِقَادِهِ أَنَّهُ كَافِرٌ يَكْفُرُ، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ.

( كتاب السير، الْبَابُ التَّاسِعُ فِي أَحْكَامِ الْمُرْتَدِّينَ، مطلب فِي مُوجِبَاتُ الْكُفْرِ أَنْوَاعٌ مِنْهَا مَا يَتَعَلَّقُ بِالْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ، ٢ / ٢٧٨،