https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 29 July 2024

مساج اور اس کی اجرت کاحکم

 مساج (مالش)   اگر  محض تلذذ  یا شہوت رانی کے لیے ہو تو بالکل ناجائز ہے، تاہم اس کا ایک اہم مقصد  علاج بھی  ہے؛  لہٰذا   بطورِ علاج مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی:

  1.  مرد  اور عورت  کا بالکل اختلاط نہ ہو۔
  2. مرد مرد کا اور عورت عورت کا ہی مساج کرے۔
  3. ستر کے شرعی احکام کا لحاظ رکھا جائے۔
  4. کسی بھی غیر شرعی کام کا ارتکاب نہ ہو۔

مذکورہ شرائط میں سے کسی شرط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو مساج کرنا اور اس کی اجرت لینا جائز نہیں ہوگا، اور ان شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مساج کیا جائے تو اس کی اجرت لینا جائز ہوگا، لیکن عمومًا ایسے مقامات پر شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ، لہذا ان میں  کام کرنے اور  جانے سے اجتناب کیا جائے۔

اسی طرح  اگر مساج میں تو  مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھا جائے، لیکن اس جگہ غیر شرعی کام بھی ہوتے ہوں، مثلًا موسیقی چلنا،  داڑھی منڈوانا اور بھنویں بنوانا وغیرہ تو   ایسی جگہ کام کرنا ناجائز ہوگا،  ایسی صورت میں اپنے لیے کوئی جائز  و حلال پیشہ  اختیار کیاجائے۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"لا تجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره؛ لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة؛ ولأن الأجير مع المستأجر يشتركان في منفعة ذلك فتكون هذه الإجارة واقعة على عمل هو فيه شريك."

(كتاب الإجارات، الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات، وما لا يجوز، ج: 7، ص: 482، ط. دار الكتب العلمية، بيروت)

فتح الباری لابن رجب الحنبلی میں ہے:

"وقال عمرو بنِ ميمون: لا يدخل أحد الفرات إلا بإزار، و لا ‌الحمام إلا بإزار، إلا تستحيون مما استحى منهُ أبوكم آدم؟".

(كتاب الغسل، باب التستر في الغسل عند الناس، ج: 1، ص: 337، ط: مكتبة الغرباء الأثرية)

زمین پر سونا سنت ہے یا منع ہے

 آپ صلی اللہ علیہ  وسلم  سے بستر ،کھجور کے درخت کی چھال،چٹائی ،زمین ،چارپائی وغیرہ پر سونا ثابت ہے،لہذا  زمین پر سونے سے بھی  سنت ادا ہوجائے گی  ۔

وفي زاد المعاد في هدي خير العباد :

"فصل في هديه وسيرته صلى الله عليه وسلم في نومه وانتباهه كان ينام على الفراش تارة، وعلى النطع تارة، وعلى الحصير تارة، وعلى الأرض تارة، وعلى السرير تارة بين رماله وتارة على كساء أسود."

 (1/149،ط:مؤسسة الرسالة، بيروت)

کوشر سرٹیفائیڈ سپلیمنٹ کاحکم

 ’’جیلیٹن‘‘  ایک ’’پروٹین‘‘ کا نام ہے، جو جان دار کی ہڈی اور کھال سے حاصل کی گئی ’’کولیجن‘‘  سے حاصل کی جاتی ہے، اس کا بنیادی استعمال کھانے پینے کی اشیاء میں گاڑھاپن پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ ’’جیلیٹن‘‘  اگر حلال جانوروں سے حاصل کی گئی ہو اور اس جانور کو شرعی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو تو ایسی ’’جیلیٹن‘‘ حلال ہے، جس چیز میں اس کا استعمال ہو وہ بھی حلال ہے، اور اگر وہ حرام جانوروں سے حاصل کی گئی ہو،  یا حلال مردار جانور سےحاصل کی گئی ہوتو اس کا استعمال حرام ہے، اور جس چیز میں اس کا استعمال ہو وہ بھی حلال نہیں ہوگی، لہذا اگر تحقیق سے یہ معلوم ہوجائے کہ  کسی چیز میں  حرام جیلیٹن استعمال کی گئی ہے تو اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اور اگر یہ معلوم ہو جائے کہ حلال جیلیٹن شامل ہے یا معلوم نہ ہونے کی صورت میں کسی مستند حلال سرٹیفکیشن کے ادارے کی تصدیق ہو تو اس کا استعمال جائز ہوگا، اور جب تک معلوم نہ ہو، اجتناب بہتر ہے۔

 "کوشر "یہودیوں کے ہاں ان کے مذہب کے مطابق اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس معنی میں ہم "حلال" کا لفظ استعمال کرتے ہیں،اور موجودہ دور کے اکثر یہودی حقیقی معنوں میں اپنی کتابوں کی تعلیمات سےنہ تو واقف ہوتے ہیں،اور نہ ہی اپنی کتابوں کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، بلکہ اکثر مادہ پرست اور دہریہ نظریات کے حامل ہوتے ہیں، جس کی بناپر اُنہیں اہل کتاب میں شمار کرنا مشکل ہے، اس لیے ان کا ذبیحہ مطلقاً حلال نہیں ہوگا، بلکہ کم از کم مشتبہ ٹھہرتا ہے، اورموجودہ دور میں ان کے ذبیحہ سے احتراز کرنا ضروری ہے۔

لہذا صرف کوشر سرٹیفائیڈ ہونے کی وجہ سے ان سپلیمنٹ کا استعمال کرنا جائز نہ ہوگا، جب تک کہ یہ سپلیمنٹ کسی مستند حلال سرٹیفیکش ادارے سے سرٹیفائیڈ  ہو یا سپلیمنٹ میں شامل ہونے والے جیلیٹن سے متعلق اس بات کی مکمل تحقیق ہو کہ وہ حلال جانوروں سے  شرعی طریقے سے ذبح کر کے حاصل  کی گئی ہے،توپھر ان سپلیمنٹز کا استعمال جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ومقتضى الدلائل الجواز كما ذكره التمرتاشي في فتاواه، والأولى أن لا يأكل ‌ذبيحتهم ولا يتزوج منهم إلا للضرورة كما حققه الكمال بن الهمام اهـ"

(کتاب الذبائح، ج:6،ص:297،ط:سعید)

چرس میں جڑی بوٹیوں کی آمیزش کے بعد استعمال

نشہ آوراشیاءکااستعمال شرعاًحرام ہے،البتہ شراب کےعلاوہ دیگرنشہ آوراشیاءجیسےچرس وغیرہ کی حرمت کادارومدارنشہ دینےاورنہ دینےپرہےاورنشہ ہونےاورنہ ہونےمیں عام آدمی کااعتبارہے،یعنی چرس پینےسےاگرایک عام آدمی(جونشہ کاعادی نہ ہو)کونشہ آتاہوتووہ حرام ہےچاہےاس میں جڑی بوٹیاں ملائی گئی ہویانہ ہو،البتہ چرس میں اگراس قدرحلال جڑی بوٹیاں ملائی جائے جس سےوہ نشہ آورنہ رہےیعنی اس کےاستعمال کرنےسےایک عام آدمی کونشہ نہ آتاہوتوایسی ملاوٹ شدہ چرس اگرچہ شرعاًحرام تونہ رہےگی،تاہم طبی اورطبعی طورپرمکروہ پھربھی رہےگی۔

لہٰذااگرچرس کی اپنی فطری تأثیر(نشہ آورہونے)کوکسی مباح وحلال چیز(جیسے:جڑی بوٹی کی ملاوٹ)کےذریعےختم یااس طورپرکم کی جائےکہ وہ نشہ آورنہ رہےتوایسی صورت میں کم ازکم حرمت سےنکل جائےگی،البتہ طبی /طبعی نقصان کی وجہ سےبغیرضرورت کےمباح بھی نہ رہےگی جیسےحرام موادسےخالی سیگریٹ اورنسوار،لہٰذابہتریہ ہےکہ ملاوٹ شدہ غیرنشہ آورچرس کےاستعمال سے بھی احترازکیاجائے،ایسی چیزوں میں عام طور پر طلب ہوتی ہے، جو رفتہ رفتہ نشہ کی طرف لے جاتی ہے۔

البنایہ میں ہے:

"‌أكل ‌قليل ‌السقمونيا، والبنج مباح للتداوي. وما زاد على ذلك إذا كان يقتل أو يذهب العقل حرام".

(كتاب الأشربة،بيع الأشربة المحرمة،ج:12،ص:370،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويحرم أكل البنج والحشيشة)هي ورق القنب ...(قوله ويحرم أكل البنج) هو بالفتح: نبات يسمى في العربية شيكران، يصدع ويسبت ويخلط العقل كما في التذكرة للشيخ داود..وفي القهستاني: هو أحد نوعي شجر القنب، حرام لأنه يزيل العقل، وعليه الفتوى...ومن صرح بحرمته أراد به القدر المسكر منه...وهكذا يقول في غيره من الأشياء الجامدة المضرة في العقل أو غيره، يحرم تناول القدر المضر منها دون القليل النافع، لأن حرمتها ليست لعينها بل لضررها...بقي هنا شيء لم أر من نبه عليه عندنا، وهو أنه إذا اعتاد أكل شيء من الجامدات التي لا يحرم قليلها ويسكر كثيرها حتى صار يأكل منها القدر المسكر ولا يسكره..نعم صرح الشافعية بأن العبرة لما يغيب العقل بالنظر لغالب الناس بلا عادة".

(كتاب الأشربة في بدايته،ج:6،ص:457-458،ط:سعيد)

پاگل کو زکوٰۃ دینا

   پاگل/مجنون  مستحقِ زکات شخص  کو  براہ راست زکات دینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اسے  زکات دینے سے زکات ادا نہ ہوگی،  البتہ  پاگل، مجنون مستحقِ زکات ہونے کی صورت میں اگر  اس کا  ولی/ سرپرست اس کی طرف سے قبضہ کرلے تو زکات ادا  ہوجائے گی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"و كذا لو دفع زكاة ماله إلى صبي فقير أو مجنون فقير وقبض له وليه أبوه أو جده أو وصيهما جاز ؛ لأن الولي يملك قبض الصدقة عنه.و كذا لو قبض عنه بعض أقاربه و ليس ثمة أقرب منه و هو في عياله يجوز."

(ج: 4، صفحہ: 111، ط: دار الكتب العلمية - بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"و التملكيك إشارة إلى أنه لايصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضة كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ."

(ج:2، ص344، ط: سعيد

Sunday 28 July 2024

مردکے لیے چاندی کی انگوٹھی کی مقدار

 مردوں کے لیے ایک مثقال (ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm) سے کم  وزن کی  چاندی کی انگوٹھی یا چھلّا پہننا جائز ہے، ساڑھے چار ماشہ یا اس سے زیادہ وزن کی انگوٹھی پہننا  مکروہِ تحریمی اور ناجائز ہے۔ چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کی انگوٹھی پہننا  بھی جائز نہیں ہے، البتہ عام آدمی کے لیے چاندی کی  انگوٹھی بھی  نہ پہننا بہتر اور افضل ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ایک انگوٹھی پہننا ثابت ہے، اس سے زیادہ ثابت نہیں، بلکہ حدیث میں ایک مثقال سے کم کم کی اجازت ہے، نیز ایک سے زائد انگوٹھیاں پہننا مردانہ وقار کے خلاف ہے؛ لہذا اس سے احتراز کیا جائے۔ 

"عن عبد اﷲ بن بریدة، عن أبیه، قال: إن رجلاً جاء إلی النبي صلی اﷲ علیه وسلم وعلیه خاتم من حدید، فقال: مالي أری علیک حلیة أهل النار، فطرحه، ثم جاء ه وعلیه خاتم من شبه، فقال: مالي أجد منک ریح الأصنام، فطرحه، قال:یا رسول اﷲ! من أي شئ أتخذه؟ قال: من ورق ولاتتمه مثقالاً". (سنن النسائي، مقدار ما یجعل في الخاتم من الفضة، النسخة الهندیة ۲/۲۴۵، دارالسلام رقم: ۵۱۹۵، سنن أبي داؤد، باب ماجاء في خاتم حدید، النسخة الهندیة۲/۵۸۰، دارالسلام رقم:۴۲۲۳)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 358):

" (ولايتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً، (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة ... (ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ... ولايزيده على مثقال".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/361):

"(وَتَرْكُ التَّخَتُّمِ لِغَيْرِ السُّلْطَانِ وَالْقَاضِي) وَذِي حَاجَةٍ إلَيْهِ كَمُتَوَلٍّ (أَفْضَلُ)..."
"(قَوْلُهُ: فِي يَدِهِ الْيُسْرَى) وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ فِي خِنْصَرِهَا دُونَ سَائِرِ أَصَابِعِهِ، وَدُونَ الْيُمْنَى، ذَخِيرَةٌ، (قَوْلُهُ: فَيَجِبُ التَّحَرُّزُ عَنْهُ) عِبَارَةُ الْقُهُسْتَانِيِّ عَنْ الْمُحِيطِ: جَازَ أَنْ يَجْعَلَهُ فِي الْيُمْنَى إلَّا أَنَّهُ شِعَارُ الرَّوَافِضِ اهـ وَنَحْوُهُ فِي الذَّخِيرَةِ، تَأَمَّلْ. (قَوْلُهُ: وَلَعَلَّهُ كَانَ وَبَانَ) أَيْ كَانَ ذَلِكَ مِنْ شِعَارِهِمْ فِي الزَّمَنِ السَّابِقِ، ثُمَّ انْفَصَلَ وَانْقَطَعَ فِي هَذِهِ الْأَزْمَانِ، فَلَا يُنْهَى عَنْهُ كَيْفَمَا كَانَ. وَفِي غَايَةِ الْبَيَانِ: قَدْ سَوَّى الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ فِي شَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ بَيْنَ الْيَمِينِ وَالْيَسَارِ، وَهُوَ الْحَقُّ. (قوله: وترک التختم اهـ) وفي البستان عن بعض التابعین: لایتختم إلا ثلاثة: أمیر أو کاتب أو أحمق اهـ․" (ردالمحتار علی الدرالمختار، ۵/۲۳۱)

مثقال کاوزن اور چاندی کی انگوٹھی

 مثقال دراصل وزن کی ایک اکائی ہے اور اس کو اکثرطلائی دینار اور چاندی کے درہم کے وزن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور ایک مثقال کا وزن 100جَو(جو) کے دانوں کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔ ایک طلائی دینار کا وزن ایک مثقال ہوتا ہے، جو 25۔4 گرام ہوتا ہے۔ جبکہ ایک درہم کا وزن 7/10 مثقال ہوتا ہے یعنی 975۔2 گرام۔

ایک مثقال  سے کم  وزن چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لیے حلال اور جائز ہے، البتہ بلاضرورت نہ پہننا اولیٰ ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک مثقال ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm) ہوتا ہے۔ 

روایت میں آتا ہے کہ ایک  شخص نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ! میں کس دھات کی انگوٹھی پہنوں؟تو آپ نے فرمایا: چاندی کی، مگر ایک مثقال تک اس کا وزن نہ پہونچے۔

باقی حدیث شریف میں چوں کہ ایک مثقال تک کی اجازت ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص ایک ہی انگوٹھی پہنتا ہے تو  ایک مثقال سے زائد وزن کی انگوٹھی کی اجازت نہیں ہو گی،  اور اگر ایک سے زائد انگوٹھی پہنتا ہے تو اس کا مجموعی وزن ایک مثقال سے زائد ہونا منع ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 358):

"(ولايتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة .. (ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ... ولايزيده على مثقال.

 (قوله: ولايتختم إلا بالفضة) هذه عبارة الإمام محمد في الجامع الصغير، أي بخلاف المنطقة، فلايكره فيها حلقة حديد ونحاس كما قدمه، وهل حلية السيف كذلك؟ يراجع! قال الزيلعي: وقد وردت آثار في جواز التختم بالفضة وكان للنبي صلى الله تعالى عليه وسلم خاتم فضة، وكان في يده الكريمة، حتى توفي صلى الله تعالى عليه وسلم ، ثم في يد أبي بكر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عمر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عثمان رضي الله تعالى عنه إلى أن وقع من يده في البئر، فأنفق مالاً عظيماً في طلبه فلم يجده، ووقع الخلاف فيما بينهم والتشويش من ذلك الوقت إلى أن استشهد رضي الله تعالى عنه. (قوله: فيحرم بغيرها إلخ)؛ لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب» ، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلاً جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام! فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار! فطرحه، فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالاً»". فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام ؛ فألحق اليشب بذلك؛ لأنه قد يتخذ منه الأصنام ، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص، إتقاني، والشبه محركاً: النحاس الأصفر، قاموس۔ وفي الجوهرة: والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء ... (قوله: ولايزيده على مثقال)، وقيل: لايبلغ به المثقال، ذخيرة. أقول: ويؤيده نص الحديث السابق من قوله عليه الصلاة والسلام : «ولا تتممه مثقالاً»

نابالغ کے مال پر زکوۃ

 والد نے اگر ڈیڑھ تولہ سونا اپنی نابالغ اولاد کی ملکیت میں دیدیا، تو وہ شرعا اسی اولاد کی ملکیت شمار ہوگا اور جب تک وہ اولاد بالغ نہیں ہوجاتی اس پر اس سونے کی زکات واجب نہیں ہوگی، بالغ ہونے کے بعد اگر اُس کی ملکیت میں اس سونے کے علاوہ کچھ چاندی، نقدی یا مالِ تجارت ہوا تو سال گزرنے کے بعد صرف اسی سال کی زکات واجب ہوگی، گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔نیز سونا اولاد کی ملکیت میں دیدینے کے بعد والدین کے لیے اس کو فروخت کرنا یا اس کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ وہ اب اُس اولاد کی ذاتی ملکیت ہے ۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"( ومنها العقل والبلوغ ) فليس الزكاة علي صبي ومجنون".

( الهندية : كتاب الزكاة، (1171)مكتبه رشيديه )

زکوٰۃ کی رقم سے گھر تعمیر کرنا

 اگر آپ    زکوۃ کے مستحق ہیں ،یعنی آپ کی ملکیت میں ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی  ساڑھے سات تولہ سونا،یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم یا مالِ تجارت نہیں ہے، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  سید ، ہاشمی ہیں   ، تو آ پ کا زکوۃ لینادرست ہے ،اور آپ اس رقم کے مالک بن جائیں گے ،اور پھر اپنے مال کو جہاں چاہیں خرچ کر سکتے ہیں ،لہذامکان  تعمیر کرنا بھی اس زکوۃ کے مال سے جائز ہوگا۔ 

ملحوظ رہے کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر رقم آپ کی ملکیت میں موجود ہونے کی صورت میں  آپ کے لیے مزید زکات لینے کی  اس وقت تک اجازت نہیں ہوگی جب تک رقم خرچ ہوکر نصاب سے کم نہ رہ جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير."

(الباب السابع في المصارف ،ج:1،ص:187 ،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

در ر الحکام میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء."

(الفصل الاول فی بیان بعض القواعد المتعلقۃ باحکام الاملاک،ج:3،ص:201،ط:دار الجيل)

Saturday 27 July 2024

یمین لغو

 یمینِ لغو کا حکم یہ ہے کہ اس میں  نہ کفارہ لازم آتاہے اور نہ اس سے کسی کا ایمان جاتاہے البتہ   چوں کہ قسم اٹھانا ایک  بہت بڑی ذمہ داری ہے اس وجہ سے   کھیل کھود اور لغو امور میں  ربِ لم یزل،شہنشاہِ مطلق، مالک ارض وسماء  کے مبارک نام کی قسم اٹھانا سراسر بے ادبی اور گستاخی ہے جس سے ہرکلمہ گو مسلمان کو   بصد درجہ   احتیاط  برتنی   چاہیے۔

 فتاویٰ شامی میں ہے:

"و) ثانيها (لغو) لا مؤاخذة فيها إلا في ثلاث طلاق وعتاق ونذر أشباه، فيقع الطلاق على غالب الظن إذا تبين خلافه، وقد اشتهر عن الشافعية خلافه (إن حلف كاذبا يظنه صادقا) في ماض أو حال فالفارق بين الغموس واللغو تعمد الكذب، وأما في المستقبل فالمنعقدة وخصه الشافعي بما جرى على اللسان بلا قصد، مثل لا والله وبلى والله ولو لآت

قوله وخصه الشافعي إلخ) اعلم أن تفسير اللغو بما ذكره المصنف هو المذكور في المتون والهداية وشروحها. ونقل الزيلعي أنه روي عن أبي حنيفة كقول الشافعي. وفي الاختيار أنه حكاه محمد عن أبي حنيفة، وكذا نقل في البدائع الأول عن أصحابنا. ثم قال: وما ذكر محمد على أثر حكايته عن أبي حنيفة أن اللغو ما يجري بين الناس من قولهم لا والله وبلى والله فذلك محمول عندنا على الماضي أو الحال، وعندنا ذلك لغو. فيرجع حاصل الخلاف بيننا وبين الشافعي في يمين لا يقصدها الحالف في المستقبل. فعندنا ليست بلغو وفيها الكفارة. وعنده هي لغو ولا كفارة فيها اهـ"

(کتاب الأیمان: ج:3، ص:706، ط:ایچ ایم سعید)

قسم کا کفارہ

 قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔ اور اگر  کوئی ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے ،اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔

﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (المائدة: 89)۔

یمین منعقدہ

 مستقبل میں کسی کام کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانے والا شخص اگر عادت  کی بنا  پر بھی قسم کے الفاظ استعمال کرے گا تو قسم منعقد ہوجائے  گی اور  خلاف  ورزی کی صورت میں کفارہ لازم ہوگا۔ عادت والے شخص کے حق میں جو قسم لغو ہوتی ہے،  وہ صرف زمانه ماضی اور حال کے ساتھ خاص ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال: أشهد أن لا أفعل كذا، أو أشهد بالله، أو قال: أحلف، أو أحلف بالله، أو أقسم، أو أقسم بالله، أو أعزم، أو أعزم بالله، أو قال: عليه عهد، أو عليه عهد الله أن لا يفعل كذا، أو قال: عليه ذمة الله أن لا يفعل كذا يكون يمينا"

(کتاب الایمان فصل اول ج نمبر ۲ ص نمبر ۵۳،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"و) ثانيها (لغو) لا مؤاخذة فيها إلا في ثلاث طلاق وعتاق ونذر أشباه، فيقع الطلاق على غالب الظن إذا تبين خلافه، وقد اشتهر عن الشافعية خلافه (إن حلف كاذبا يظنه صادقا) في ماض أو حال فالفارق بين الغموس واللغو تعمد الكذب، وأما في المستقبل فالمنعقدة وخصه الشافعي بما جرى على اللسان بلا قصد، مثل لا والله وبلى والله ولو لآت

قوله وخصه الشافعي إلخ) اعلم أن تفسير اللغو بما ذكره المصنف هو المذكور في المتون والهداية وشروحها. ونقل الزيلعي أنه روي عن أبي حنيفة كقول الشافعي. وفي الاختيار أنه حكاه محمد عن أبي حنيفة، وكذا نقل في البدائع الأول عن أصحابنا. ثم قال: وما ذكر محمد على أثر حكايته عن أبي حنيفة أن اللغو ما يجري بين الناس من قولهم لا والله وبلى والله فذلك محمول عندنا على الماضي أو الحال، وعندنا ذلك لغو. فيرجع حاصل الخلاف بيننا وبين الشافعي في يمين لا يقصدها الحالف في المستقبل. فعندنا ليست بلغو وفيها الكفارة. وعنده هي لغو ولا كفارة فيها اهـ"

(کتاب الایمانج نمبر ۳ ص نمبر ۷۰۶،ایچ ایم سعید)

یمین غموس

 مذکورہ بندے نے جو جھوٹی قسم کھائی ہے وہ فقہی اصطلاح میں یمین غموس کہلاتی ہے، اس جھوٹی قسم کا حکم یہ ہے کہ قسم کھانے والا شدید گناہ گار ہوتا ہے، کیوں کہ ایسا شخص  اللہ رب العزت کا نام استعمال کرکے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر جھوٹ کہتاہے ،لہذا مذکورہ بندے کو چاہیے کہ سچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ جھوٹی قسم کھانے سے بچے، جھوٹی قسم کھانے کی وجہ سے اس پر کوئی کفارہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے حسبِ استطاعت کچھ صدقہ دے دے تو بہتر ہے،تا کہ اللہ پاک کی ناراضگی ا ور غضب کو صدقہ ٹھنڈا کر دے ، کم کر دے،نیز آئندہ  نا محرم لڑکیوں کے ساتھ تعلقات نہ رکھے یہ کبیرہ گناہ ہے

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا النضر، أخبرنا شعبة، حدثنا فراس،، قال: سمعت الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس".

(صحيح البخاري،  كتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، 8/ 137، ط:   دار طوق النجاة)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

" أما يمين الغموس فهي الكاذبة قصدا في الماضي والحال على النفي أو على الإثبات وهي الخبر عن الماضي أو الحال فعلا أو تركا متعمدا للكذب في ذلك مقرونا بذكر اسم الله تعالى نحو أن يقول: والله ما فعلت كذا وهو يعلم أنه فعله، أو يقول: والله لقد فعلت كذا وهو يعلم أنه لم يفعله، أو يقول: والله ما لهذا علي دين وهو يعلم أن له عليه دينا فهذا تفسير يمين الغموس."

(كتاب الأيمان،في أنواع اليمين،3/ 3 ،ط: دار الكتب العلمية)