https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday, 5 May 2025

کیڑے مکوڑے اناج یاپانی میں گرگیے تواس پانی کاحکم

 آٹا، گندم یا کسی دوسرے اناج میں اگر صرف کیڑوں کا مادّہ جالے کی طرح پیدا ہوا، ابھی تک جاندار کیڑے نہیں ہوئے تو مع اس جالہ کے آٹا وغیرہ استعمال کرنا شرعاً درست ہے، اگر جاندار کیڑے پیدا ہوگئے تو پھر کیڑوں سمیت آٹا وغیرہ کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہے۔ (بہشتی زیور: ۹/۱۰۴، طبی جوہر، ط:اختری) (۲،۳) جن کیڑوں اور حشرات الارض میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا مثلاً چیونٹی، مچھر،چھوٹی چھپکلی ان کے پانی وغیرہ میں گر کر پھول پھٹ جانے سے پانی وغیرہ ناپاک نہیں ہوتا ہے، وضو او رغسل میں اس طرح کے پانی کا استعمال شرعاً جائز ہے؛ لیکن چوں کہ کیڑے مکوڑوں (خواہ ان میں بہتا ہوا خون ہو یا نہ ہو) کاکھانا بہرحال جائز نہیں؛ اس لیے ان کے سالن میں پک جانے کی صورت میں سالن کا کھانا جائز نہ ہوگا، اسی طرح پانی میں پھول پھٹ کر گھل مل جانے کی صورت میں اس پانی کا پینا بھی جائز نہیں ہے۔ وذکر الکرخی عن أصحابنا أنّ کل ما لایفسد الماء لایفسد غیر الماء وہکذا روی ہشام عنہم، وہذا أشبہ بالفقہ، ویستوي الجواب بین المتفسّخ وغیرہ فی طہارة الماء ونجاستہ إلاّ أنہ یکرہ شرب المائع الذي تفسّخ فیہ؛ لأنہ لایخلو عن أجزاء مایحرم أکلہ الخ (بدائع الصنائع: ۱/۲۳۲، ط:زکریا) نیز دیکھیں: بہشتی زیور اختری (۹/۱۰۳ تا ۱۰۵، بہ عنوان: حیوان کا بیان)

حرام اشیاء سے دوا بنانا

 قوله: ( اختلف في التداوي بالمحرم ) ففي النهاية عن الذخيرة: يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر، وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم كما رواه البخاري: أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس، فقال: لو عرف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء وبالبول أيضًا إن علم فيه شفاء لا بأس به لكن لم ينقل، وهذا لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع ا هـ من البحر . وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة واشتراط صاحب النهاية العلم لاينافيه اشتراط مَن بعده الشفاء، ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله: لا للتداوي محمول على المظنون، وإلا فجوازه باليقين اتفاق كما صرح به في المصفى اهـ 

 أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدل لقول الإمام لكن قد علمت: أن قول الأطباء لا يحصل به العلم، و الظاهر: أن التجربة يحصل به العلم،  والظاهر: أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم ۔ تأمل.

قوله: ( وظاهر المذهب المنع ) محمول على المظنون كما علمته، قوله ( لكن نقل المصنف الخ ) مفعول نقل قوله وقيل يرخص الخ والاستدراك على إطلاق المنح وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك،ونص ما في الحاوي القدسي إذا سال الدم من أنف إنسان ولا ينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلايرخص له ما فيه وقيل يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى ا هـ 

 قوله: ( ولم يعلم دواء آخر ) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي إلا أنه يفاد في قوله كما رخص الخ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط.قال: ونقل الحموي: أن لحم الخنزير لايجوز التداوي به وإن تعين والله تعالى أعلم."

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الطهارة، باب المياه، مطلب  في التداوي بالمحرم (1/ 210)،ط. سعيد)

Saturday, 3 May 2025

نماز کے دوران منھ میں خون محسوس ہونا

 اگر منھ سے نکلنے والا خون تھوک پر غالب ہو یا اس کے برابر ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں، وینقضہ دم غلب علی بزاق أو ساواہ لا المغلوب بالبزاق کذا في التنویر مع الدر والر د (۱: ۲۶۷)

Sunday, 27 April 2025

موبائل توڑنے کا ضمان

جاندار کی تصویریا ویڈیو بناناشرعاً ناجائز ہے، اس لیے کسی کی اجازت کے بغیر بھی تصویر یا ویڈیوبنانا جائز نہیں ،مزید قباحت کا باعث ہے  اور اگر کوئی اپنی تصویر یا ویڈیوبنانےکی اجازت دے تب بھی اس کی تصویر یا ویڈیوبنانا جائز نہیں ہے ۔ 

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي طلحة رضی اللہ عنہ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:لا تدخل الملائكة بيتاً فيه صورة".

 (صحيح البخاری ، كتاب بدء الخلق، رقم الحدیث:3226، ص:385، ط:دار ابن الجوزی)

وفیہ ایضاً:

"عن عبد الله رضی اللہ عنه ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون".

(صحيح البخاری ، كتاب اللباس، باب:عذاب المصورين، رقم الحدیث:5950، ص:463، ط:دار ابن الجوزی)



 ضمان توڑنے والے پر ہوگا۔  

لما في الشامية:

وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عند مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ ورأى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى... والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال (باب التعزير،مطلب: في التعزيربأخذ المال،698،ط:رشيدية)

و في شرح القواعد الفقهية:

' المباشر ' للفعل ' ضامن ' لما تلف بفعله إذا كان متعدياً فيه ، ويكفي لكونه متعدياً أن يتصل فعله في غير ملكه بمالا مسوغ له فيه سواء كان نفس الفعل سائغاً....أو غيرسائغ ...' وإن لم يتعمد ' الإتلاف ، لأن الخطأ يرفع عنه إثم مباشرة الإتلاف ولا يرفع عنه ضمان المتلف بعد أن كان متعدياً.( ( القاعدة الحادية والتسعون ( المادة / 92 ،ص:453،دارالقلم) )

Wednesday, 23 April 2025

فسخ نکاح کے لیے شوھر کی رضامندی ضروری نہیں

 خلع کے علاوہ  بعض مخصوص حالات میں قاضی  شرعی کو یہ  اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ  شوہر کی اجازت کے بغیر بھی  میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، اس لیے کہ   نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں  جو  نکاح کے مصالح  اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءً اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ  عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، مثلًا بیوی کا نان ونفقہ  اور حقوقِ زوجیت ادا کرنا وغیرہ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز  ہو تو عورت کو طلاق دے دے ایسی صورت میں اگر  وہ  طلاق دینے سے انکار کرتا ہے یا شوہر طلاق دینے کے قابل نہیں ہے تو قاضی اس کا قائم مقام بن کر میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، کیوں کہ اس کو ولایت حاصل ہوتی ہے،  بیوی خود تفریق نہیں کرسکتی۔

جن اسباب کی بنا پر قاضی شرعی، میاں بیوی کا نکاح فسخ کرسکتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

1۔شوہر پاگل یا مجنون ہو۔

2۔ شوہر نان و نفقہ ادا  نہ کرتا ہو۔

3۔ شوہر نامرد ہو۔

4۔  شوہر مفقود الخبر یعنی بالکل  لاپتہ ہو۔

5۔ شوہر  غائب غیر مفقود ہو اور عورت کے لیے خرچ وغیرہ کی کفالت کا انتظام نہ ہو یا عورت کے معصیت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔

6۔ضربِ مبرّح یعنی شوہر بیوی کو سخت مار پیٹ کرتا ہو۔

 ان اسباب  میں سےکسی  کی موجودگی میں  اگر عورت مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرکے گواہوں سے اپنے مدعی کو ثابت کردیتی ہے  اورقاضی حسبِ شرائط  نکاح فسخ کردیتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ معتبر ہوگا اور اس میں شوہر کی اجازت ضروری نہیں  ہوگی ، اسی طرح اگر شوہر  عدالت میں حاضر نہ ہو تو عدالت شوہر کی غیر موجودگی میں بھی نکاح ختم کرانے کا اختیار رکھتی ہے، نکاح فسخ ہوجانے کے بعد عورت عدت گزار کر  دوسری جگہ شادی کرنے میں آزاد ہوگی۔ (تفصیل کے لیے الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ،(مؤلف:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی) ؒ کا  مطالعہ کریں )

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."

(المبسوط للسرخسي (6 / 173) باب الخلع، ط: دارالمعرفة، بیروت)

Tuesday, 22 April 2025

منگنی نکاح نہیں

 منگنی کی مجلس تھی جس میں رشتہ دینے کا وعدہ ہوا ، باقاعدہ نکاح کا یاایجاب وقبول نہیں ہو ا، اس کا حکم یہ ہےکہ یہ محض ایک وعدہ ہے نکاح نہیں ہے۔اس وعدہ پر قائم رہنا ضروری ہے بلا عذ ر اس کو توڑنا جائز نہیں،شرعا نکاح کے لئے مجلس نکاح میں باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں شرعی مہر کے عوض ایجا ب وقبول ضروری ہے ۔

حوالہ جات
رد المحتار (9/ 204) لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد ، وإن كان للعقد فنكاح .ا هـ .

بچپن کے وعدہ نکاح کی حیثیت

  جب  بھایی نے اپنی بہن سے جبکہ ان کی بیٹی نابالغہ تھی یہ وعدہ کیا کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح تمہارے بیٹے سے کردوں گا ۔اس کے بعد نکاح بموجودگی گواہان نہیں ہوا تواس  شخص نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق اس کے بچپن میں  اپنی بہن سے محض وعدہ نکاح کیا تھا، باقاعدہ نکاح نہیں کیا تھا (جیسا کہ سوال میں وضاحت موجود ہے) پھر اس کا انتقال ہوگیا ۔اس  وعدہ نکاح سے نکاح نہیں ہوا بچپن میں کیا ہوا وعدہ محض وعدہ ہے، نکاح نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.

قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ." 

(كتاب النكاح، جلد:3، صفحہ:11، طبع: سعيد)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"خطبہ اور منگنی وعدۂ نکاح ہے، اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، اگرچہ مجلس خطبہ کی رسوم پوری  ہوگئی ہوں، البتہ وعدہ خلافی کرنا بدون کسی عذر کے مذموم ہے، لیکن اگر مصلحت لڑکی کی دوسری جگہ نکاح کرنے میں ہے تو دوسری جگہ نکاح لڑکی مذکورہ کا جائز ہے۔"

(کتاب النکاح، جلد:7، صفحہ: 110،  طبع: دار الاشاعت)

Sunday, 20 April 2025

وعدہ نکاح نکاح نہیں

 جب مذکورہ شخص نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق اس کے بچپن میں محض وعدہ کیا تھا، باقاعدہ نکاح نہیں کیا تھا ، بچپن میں کیا ہوا وعدہ محض وعدہ  اور منگنی ہے، نکاح نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.

قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ." 

(كتاب النكاح، جلد:3، صفحہ:11، طبع: سعيد)


 صرف نکاح کا وعدہ ہوا ہے اس لیے ابھی تک دونوں کا نکاح قائم نہیں ہوا،اور لڑکی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"الخطبة مجرد وعد بالزواج، وليست زواجاً ، فإن الزواج لا يتم إلا بانعقاد العقد المعروف، فيظل كل من الخاطبين أجنبياً عن الآخر، ولا يحل له الاطلاع إلا على المقدار المباح شرعاً وهو الوجه والكفان...الخطبة والوعد بالزواج وقراءة الفاتحة وقبض المهر وقبول الهدية، لا تكون زواجاً."

(‌‌القسم السادس: الأحوال الشخصية،‌‌ الباب الأول: الزواج وآثاره، ‌‌الفصل الأول: مقدمات الزواج،‌‌ خامسا ما يترتب على الخطبة، 6492/9، ط:دار الفکر)

ہدایہ میں ہے:

"قال: " النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي " لأن الصيغة وإن كانت للإخبار وضعا فقد جعلت للإنشاء شرعا دفعا للحاجة " ‌وينعقد بلفظين يعبر بأحدهما عن الماضي وبالآخر عن المستقبل مثل أن يقول زوجني فيقول زوجتك."

"قال: " ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه:اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود."

(کتاب النکاح ،325،26/2،ط:رحمانیة)

Saturday, 5 April 2025

عقیقہ میں ایک بکرا یابکری ذبح کرنا

 صاحبِ استطاعت افراد کے لیے اپنے نومولود بچہ کا عقیقہ کرنا مستحب ہے، جس کا مستحب وقت  پیدائش کا ساتوں روز ہے، اگر ساتویں روز عقیقہ نہ کرسکے تو چودہویں روز کرلے، اور چودہویں روز نہ کیا تو اکیسویں روز کرلے، اور کسی مجبوری کے بغیر اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کسی عذر کی وجہ سے اگر تاخیر ہوجائے تو  کوشش کرکے بلوغت سے پہلے پہلے کرلینا چاہیے، تاہم اگر اس وقت بھی حیثیت نہ ہو تو بعد میں جب بھی حیثیت ہو  کرسکتے ہیں، نیز صاحبِ حیثیت فرد کے لیے بیٹے کے عقیقہ میں دو بکرے کرنا مسنون ہے، تاہم اگر دو بکرے کرنے کی استطاعت نہ ہو تو ایک بکرا بطور عقیقہ ذبح کرنا بھی کافی ہے،  اس  لیے کہ بعض احادیث سے ایک بھیڑ عقیقہ میں ذبح کرنا بھی ثابت ہے۔

سنن ترمذی میں ہے:

’’عن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: الغلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع، و يسمي و يحلق رأسه. قال الإمام الترمذي: و العمل علي هذا عند أهل العلم، يستحبون أن يذبح عن الغلام يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم إحدی و عشرين‘‘. (أبواب الأضاحي، باب ما جاء في العقيقة، ١/ ٢٧٨، ط: سعيد)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية  میں ہے:

"و وقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلايجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة؛ للتبرك بالبكور". (٢/ ٢١٣)

المستدرك  میں ہے:

" عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا، بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه". ( المستدرك علی الصحیحین للحاکم ، ٤ ٢٦٦،  رقم الحدیث: 7595، کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘.( ٦ / ٣٣٦،   کتاب الاضحیۃ، ط: سعید

Friday, 4 April 2025

تراویح کے بعد دعاء

 نبی کریم ﷺ سے فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا ثابت ہے، لیکن اجتماعی دعا پر ایسا التزام کرنا کہ جو شخص اس اجتماعی دعا میں شامل نہ ہو رہا اس پر طعن و تشنیع کی جائے درست نہیں، تراویح کے بعد بھی اگر لازم سمجھے بغیر دعا کر لی جائے تو گنجائش ہے، اگر یہ دعاوتر کے بعد کی جائے تو اس کی بھی اجازت ہے، اور اگر کوئی شخص یہ دعا نہیں کرتا تو اس پر بھی لعن طعن نہ کی جائے۔ البتہ وتر کے بعد نوافل ادا کرکے پھر سے اجتماعی دعا سے اجتناب کیا جائے۔  (فتاوی محمودیہ ، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و القنوت 7 / 169 ط:فاروقیہ)  (کفایت المفتی  9 / 453 ط: دار الاشاعت

فکر اقبال

 شبے پیش خدا بگریستم زارِ

مسلماناں چرا زارند و خوارند
ندا آمد ، نمی دانی کہ ایں قوم
دلے دارند و محبوبے نہ دارند

Tuesday, 1 April 2025

سورہ توبہ درمیان سے پڑھیں تو بسم اللہ پڑھیں کہ نہیں

 اگر سورۂ توبہ کے درمیان یا شروع سے ہی تلاوت کی ابتدا  کی جائے  تو اعوذ باللہ اور بسم اللہ دونوں  پڑھنی چاہیے؛ کیوں کہ یہ تلاوت کے مطلقاً آداب میں سے ہے، اور اگر قاری اوپر سورۂ انفال سے پڑھتا ہوا آرہا ہے اور آگے سورۂ توبہ پڑھنے کا ارادہ ہے تو اب درمیان میں اعوذ باللہ اور بسم اللہ نہیں پڑھی جائے گی۔ (معارف القرآن، مفتی محمد شفیع صاحب، سورہ توبہ)

الفتاوى الهندية (5/ 316):
"وعن محمد بن مقاتل - رحمه الله تعالى - فيمن أراد قراءة سورة أو قراءة آية فعليه أن يستعيذ بالله من الشيطان الرجيم ويتبع ذلك بسم الله الرحمن الرحيم، فإن استعاذ بسورة الأنفال وسمى ومر في قراءته إلى سورة التوبة وقرأها كفاه ما تقدم من الاستعاذة والتسمية، ولا ينبغي له أن يخالف الذين اتفقوا وكتبوا المصاحف التي في أيدي الناس، وإن اقتصر على ختم سورة الأنفال فقطع القراءة، ثم أراد أن يبتدئ سورة التوبة كان كإرادته ابتداء قراءته من الأنفال فيستعيذ ويسمي، وكذلك سائر السور، كذا في المحيط

Monday, 31 March 2025

عیدین میں تکبیر ات زیادہ پڑھنا

 اگر امام نے عید کی نماز میں چھ سے زائد تکبیرات کہہ  دیں تو نماز ہوجائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں۔  اور مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے  سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا۔  مقتدی بھی چھ سے زائد تکبیرات میں امام کی اتباع کریں گے، تاہم احناف کے نزدیک تکبیرات زوائد کی تعداد چوں کہ چھ ہے، لہذا بالقصد  چھ سے زائد مرتبہ تکبیرات کہنا درست نہیں ہے۔

تنوير الابصار مع الدر المختار میں ہے:

’’(وَيُصَلِّي الْإِمَامُ بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ مُثْنِيًا قَبْلَ الزَّوَائِدِ، وَهِيَ ثَلَاثُ تَكْبِيرَاتٍ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ) وَلَوْ زَادَ تَابِعُهُ إلَى سِتَّةَ عَشَرَ؛ لِأَنَّهُ مَأْثُورٌ‘‘.

فتاوی شامیمیں ہے:

’’(قَوْلُهُ: مُثْنِيًا قَبْلَ الزَّوَائِدِ) أَيْ قَارِئًا الْإِمَامُ، وَكَذَا الْمُؤْتَمُّ الثَّنَاءَ قَبْلَهَا فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ؛ لِأَنَّهُ شَرَعَ فِي أَوَّلِ الصَّلَاةِ، إمْدَادٌ؛ وَسُمِّيَتْ زَوَائِدَ لِزِيَادَتِهَا عَنْ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ وَالرُّكُوعِ... (قَوْلُهُ: وَلَوْ زَادَ تَابِعُهُ إلَخْ) لِأَنَّهُ تَبَعٌ لِإِمَامِهِ فَتَجِبُ عَلَيْهِ مُتَابَعَتُهُ وَتَرْكُ رَأْيِهِ بِرَأْيِ الْإِمَامِ؛ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «إنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ»، فَمَا لَمْ يَظْهَرْ خَطَؤُهُ بِيَقِينٍ كَانَ اتِّبَاعُهُ وَاجِبًا، وَلَايَظْهَرُ الْخَطَأُ فِي الْمُجْتَهَدَاتِ، فَأَمَّا إذَا خَرَجَ عَنْ أَقْوَالِ الصَّحَابَةِ فَقَدْ ظَهَرَ خَطَؤُهُ بِيَقِينٍ؛ فَلَا يَلْزَمُهُ اتِّبَاعُهُ، وَلِهَذَا لَوْ اقْتَدَى بِمَنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ الرُّكُوعِ أَوْ بِمَنْ يَقْنُتُ فِي الْفَجْرِ أَوْ بِمَنْ يَرَى تَكْبِيرَاتِ الْجِنَازَةِ خَمْسًا لَايُتَابِعُهُ لِظُهُورِ خَطَئِهِ بِيَقِينٍ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ كُلَّهُ مَنْسُوخٌ بَدَائِعُ..... (قَوْلُهُ: إلَى سِتَّةَ عَشَرَ) كَذَا فِي الْبَحْرِ عَنْ الْمُحِيطِ. وَفِي الْفَتْحِ قِيلَ: يُتَابِعُهُ إلَى ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَقِيلَ: إلَى سِتَّ عَشْرَةَ. اهـ. قُلْت: وَلَعَلَّ وَجْهَ الْقَوْلِ الثَّانِي حَمْلُ الثَّلَاثَ عَشْرَةَ الْمَرْوِيَّةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى الزَّوَائِدِ كَمَا مَرَّ عَنْ الشَّافِعِيِّ، وَهِيَ مَعَ الثَّلَاثِ الْأَصْلِيَّةِ تَصِيرُ سِتَّ عَشْرَةَ، وَإِلَّا لَمْ أَرَ مَنْ قَالَ بِأَنَّ الزَّوَائِدَ سِتَّ عَشْرَةَ، فَلْيُرَاجَعْ، وَقَدْ رَاجَعْت مَجْمَعَ الْآثَارِ لِلْإِمَامِ الطَّحَاوِيِّ فَلَمْ أَرَ فِيمَا ذَكَرَهُ مِنْ الْأَحَادِيثِ وَالْآثَارِ عَنْ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ أَكْثَرَ مِمَّا مَرَّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَهَذَا يُؤَيِّدُ الْقَوْلَ الْأَوَّلَ، وَلِذَا قَدَّمَهُ فِي الْفَتْحِ، وَنَسَبَهُ فِي الْبَدَائِعِ إلَى عَامَّةِ الْمَشَايِخِ، عَلَى أَنَّ ضَمَّ الثَّلَاثِ الْأَصْلِيَّةِ إلَى الزَّوَائِدِ بَعِيدٌ جِدًّا؛ لِأَنَّ الْقِرَاءَةَ فَاصِلَةٌ بَيْنَهُمْ، فَتَأَمَّلْ‘‘. ( بَابُ الْعِيدَيْنِ، ٢ / ١٧٢ - ١٧٣