https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 22 June 2024

شھیدکے اقسام

 بنیادی طور پر شہید کی دو قسمیں ہیں:حقیقی اور حکمی۔

حقیقی شہید وہ کہلاتا ہے جس پر شہید کے دنیوی احکامات لاگو ہوتے ہوں کہ اس کو غسل وکفن نہیں دیا جائے گا اور جنازہ پڑھ کر ان ہی کپڑوں میں دفن کر دیا جائے جن  میں شہید ہوا ہے ، مثلاً اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والا، یا کسی کے ہاتھ ناحق قتل ہونے والا بشرطیکہ وہ بغیر علاج معالجہ اور وصیت وغیرہ موقع پر ہی دم توڑجائے۔

اور حکمی شہید وہ کہلاتا ہے جس کے بارے میں احادیث میں شہادت کی بشارت وارد ہوئی ہو، ایسا شخص آخرت میں تو شہیدوں کی فہرست میں شمار کیا جائے گا ، البتہ دنیا میں اس پر عام میتوں والے احکام جاری ہوں گے،  یعنی اس کو غسل دیا جائے گا اور کفن بھی پہنایا جائے گا۔

متفرق احادیث میں ایسے شہداء کی چالیس سے زیادہ قسمیں مذکور ہیں،تمام  اقسام کےاحاطے کی یہاں گنجائش نہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:

ڈوب کر موت آئے یا کسی آسمانی آفت میں اس کی موت آجائے یا ہیضہ ،طاعون یا دیگر ایسے اسباب سے اس کی موت واقع ہو یا مسافر کا سفر میں انتقال ہوجائے وغیرہ۔

علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے حاشیہ رد المحتار میں تمام اقسام کو جمع کیا ہے 

الموسوعة الفقهية میں ہے:

لا يُغَسَّلُ الشَّهيدُ الذي مات مِنَ المسلمينَ في جهادِ الكُفَّارِ بسببٍ من أسبابِ قتالِهم قبل انقضاءِ الحَرْبِ، وذلك باتِّفاقِ المذاهِبِ الفقهيَّةِ الأربعةِ: الحَنفيَّة، والمالِكيَّة، والشَّافعيَّة، والحَنابِلَة



خلفائے راشدین کی ترتیب

 رسول اللہ صلی اللہ  علیہ والہ وسلم  کے پردہ فرما جانے کے بعد  امت (جميع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین)  نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کو بطورِ خلیفہ انتخاب  کیا، اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ  نے وصال سے قبل   حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر بطورِ وصیت  اپنے ولی عہد  کا نام لکھوا دیا، آپ کے وصال کے بعد تمام صحابہ رضی اللہ عنہم  سے دریافت  کیا گیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے  جس شخصیت کے بارے میں خلیفہ مقرر کرنے کی وصیت کی ہے، اس سے سب متفق ہیں؟ جس پر سب نے اتفاق کیا، یوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی مقرر ہوئے،  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی شہادت کے بعد خلیفہ ثالث  کے انتخاب کی ذمہ داری چھ کبار صحابہ (  حضرت عثمان ، حضرت علی،  حضرت عبد الرحمن بن عوف،  حضرت طلحہ، حضرت زبیر،  اور حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ  عنہم ) کے سپرد  ہوئی، ان چھ حضرات نے خلیفہ ثالث  کے انتخاب کا اختیار حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ  کو  دے دیا، یوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ثالث مقرر ہوئے،  حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت  کے بعد  کبار صحابہ  انصار و مہاجرین  رضی اللہ عنہم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے ہاتھ پر بیعت فرمائی، یوں حضرت علی رضی اللہ عنہ  خلیفہ  رابع مقرر ہوئے،پس  خلفائے راشدین کا انتخاب    باجماع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم تکوینی طور پر ہوا تھا، رہی یہ بات کہ خلفاء اربعہ کی ترتیب اس طرح کیوں ہے ، تو اس کا تعلق تکوینی امور  سے ہے،اس کی حکمت کا علم اللہ تعالی کو ہے، اس طرح کی بحث میں پڑنا جس میں نہ دنیوی اور نہ ہی اخروی فائدہ ہو، لایعنی وبے فائدہ ہے۔


شرح العقائد النسفية میں ہے:

"وخلافتهم أي نيابتهم عن الرسول في إقامة الدين، بحيث يجب على كافة الأمم الاتباع، على هذا الترتيب أيضا، يعني أن الخلافة بعد رسول الله عليه السلام لأبي بكر، ثم لعمر، ثم لعثمان، ثم لعلي، وذلك لأن الصحابة قد اجتمعوا يوم توفي رسول عليه السلام في سقيفة بني ساعدة، واستقر رأيهم بعد المشاورة والمنازعة على خلافة أبي بكر رضي الله عنه، فاجمعوا على ذلك وبايعه علي رؤس الأشهاد بعد توقف كان منه، ولو لم تكن الخلافة حقا له لما اتفق عليه الصحابة، و لنازعه علي كما نازع معاوية، ثم إن أبا بكر رضي الله عنه ولا احتج عليهم لو كان في حقه نص، كما زعمت الشيعة، و كيف يتصور في حق أصحاب رسول الله عليه السلام الإتفاق علي الباطل، و ترك العمل بالنص الوارد، ثم إن أبا بكر لما يئس من حياته، دعا عثمان، و أملى عليه كتاب عهده لعمر رضي الله عنه فلما كتب ختم الصحيفة و اخرجها الي الناس، وأمرهم أن يبايعوا لمن في الصحيفة، فبايعوا حتي مرت بعلي فقال: بايعنا لمن فيها و إن كان عمر، و بالجملة وقع الإتفاق علي خلافته، ثم استثهد عمر، وترك الخلافة شورى بين ستة: عثمان، وعلي، وعبد الرحمن بن عوف، وطلحة، وزبير، وسعد ابن أبي وقاص رضي الله عنهم، ثم فوض الأمر خمستهم إلى عبد الرحمن بن عوف، ورضوا بحكمه، فاختار عثمان، وبايعه بمحضر من الصحابة، فبايعوه وانقادوا لأوامره و صلوا معه الجمع و الأعياد، فكان اجماعا، ثم استثهد وترك الأمر مهملا، فأجمع كبار المهاجرين و الأنصار على علي رضي الله عنه، والتمسوا منه قبول الخلافة وبايعوه، لما كان أفضل أهل عصره وأولاهم بالخلافة."

( ص:150-152، ط: المصباح)

Wednesday 19 June 2024

سفرکی فوت شدہ نمازکیسے پڑھیں

 سفرِ شرعی  میں فوت شدہ نماز حضر (حالتِ اقامت )میں بھی قصر کی صورت میں پڑھی جائے گی، مثلاً سفر  میں چار رکعات والی نماز دو رکعت پڑھی جاتی ہے تو حضر (حالتِ اقامت )میں اس کی قضا بھی دو رکعتوں کی صورت میں کی جائے گی،الغرض جیسی  نماز قضاء ہوتی ہے،اسی طرح ادا ہوگی،قصر کی قصر،اور حضر کی حضر ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 131):

"(والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت) وهو قدر ما يسع التحريمة (فإن كان) المكلف (في آخره مسافرا وجب ركعتان وإلا فأربع) لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله.

 (قوله: والمعتبر في تغيير الفرض) أي من قصر إلى إتمام وبالعكس (قوله: وهو) أي آخر الوقت قدر ما يسع التحريمة، كذا في الشرنبلالية والبحر والنهر، والذي في شرح المنية تفسيره بما لايبقى منه قدر ما يسع التحريمة وعند زفر بما لا يسع فيه أداء الصلاة (قوله: وجب ركعتان) أي وإن كان في أوله مقيما وقوله: وإلا فأربع أي وإن لم يكن في آخره مسافرا بأن كان مقيماً في آخره فالواجب أربع. قال في النهر: وعلى هذا قالوا: لو صلى الظهر أربعاً ثم سافر أي في الوقت فصلى العصر ركعتين ثم رجع إلى منزله لحاجة فتبين أنه صلاهما بلا وضوء صلى الظهر ركعتين والعصر أربعاً لأنه كان مسافراً في آخر وقت الظهر ومقيماً في العصر (قوله: لأنه) أي آخر الوقت. (قوله: عند عدم الأداء قبله) أي قبل الآخر.

ایام تشریق میں قضاء نماز پڑھیں تو تکبیر پڑھیں گے کہ نہیں

 ایامِ تشریق میں اگر کوئی نماز قضاہوئی اور اس کی قضا اسی سال ایام تشریق میں کی گئی تو اس نماز کے فوراً  بعد تکبیراتِ تشریق پڑھنا ضروری ہوگا، تاہم اگر سابقہ فوت شدہ نماز ایامِ تشریق میں پڑھی گئی، یا ایامِ تشریق میں فوت شدہ نماز ایامِ تشریق گزرنے کے بعد قضا کی گئی تو تکبیرات نہیں پڑھی جائیں گی۔ جیساکہ "فتاوی ہندیہ" میں ہے:

"ومن نسي صلاة من أيام التشريق فذكرها في أيام التشريق من تلك السنة قضاها و كبرها، كذا في الخلاصة". (١/ ١٥٢، ط: رشيدية) ۔ فقط 

١٣,ذوالحج کو قربانی کرسکتے ہیں کہ نہیں

 عید  کے  چوتھے دن یعنی 13 ذو الحجہ کے دن قربانی کرنا معتبر نہیں ہے؛  اس لیے  کہ  حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابنِ عمر اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں اور پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عبادات کے مخصوص اوقات صحابہ کرام خود سے نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ  کے بیان کی روشنی میں بتاتے تھے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5 / 65):

"وأيام النحر ثلاثة: يوم الأضحى - وهو اليوم العاشر من ذي الحجة - والحادي عشر، والثاني عشر وذلك بعد طلوع الفجر من اليوم الأول إلى غروب الشمس من الثاني عشر، وقال الشافعي - رحمه الله تعالى -: أيام النحر أربعة أيام؛ العاشر من ذي الحجة والحادي عشر، والثاني عشر، والثالث عشر، والصحيح قولنا لما روي عن سيدنا عمر وسيدنا علي وابن عباس وابن سيدنا عمر وأنس بن مالك - رضي الله تعالى عنهم - أنهم قالوا: أيام النحر ثلاثة أولها أفضلها، والظاهر أنهم سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم؛  لأن أوقات العبادات والقربات لا تعرف إلا بالسمع فإذا طلع الفجر من اليوم الأول فقد دخل وقت الوجوب فتجب عند استجماع شرائط الوجوب."


والقول بأن وقت الذبح يختص بيوم النحر ـ فقط ـ هو قول محمد بن سيرين ـ رحمه الله ـ وهو خلاف قول الجماهير، والحجة مع من قال إن وقت الذبح يمتد إلى آخر أيام التشريق، فقد روى أحمد في مسنده من حديث جبير بن مطعم ـ رضي الله عنه ـ أنه صلى الله عليه وسلم قال: وكل أيام التشريق ذبح.

قال الإمام المحقق ابن القيم ـ رحمه الله ـ مبينا رجحان هذا القول وخلاف العلماء في المسألة ما عبارته: وقد قال علي بن أبي طالب ـ رضي الله عنه: أيام النحر: يوم الأضحى وثلاثة أيام بعده ـ وهو مذهب إمام أهل البصرة الحسن، وإمام أهل مكة عطاء بن أبي رباح، وإمام أهل الشام الأوزاعي، وإمام فقهاء أهل الحديث الشافعي ـ رحمه الله ـ واختاره ابن المنذر، ولأن الثلاثة تختص بكونها أيام منى وأيام الرمي وأيام التشريق ويحرم صيامها فهي إخوة في هذه الأحكام فكيف تفترق في جواز الذبح بغير نص ولا إجماع، وروي من وجهين مختلفين يشد أحدهما الآخر عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: كل منى منحر وكل أيام التشريق ذبح ـ وروي من حديث جبير بن مطعم ـ وفيه انقطاع ـ ومن حديث أسامة بن زيد عن عطاء عن جابر قال يعقوب بن سفيان: أسامة بن زيد عند أهل المدينة ثقة مأمون، وفي هذه المسألة أربعة أقوال هذا أحدها.

والثاني: أن وقت الذبح يوم النحر ويومان بعده، وهذا مذهب أحمد ومالك وأبي حنيفة ـ رحمهم الله ـ قال أحمد: هو قول غير واحد من أهل أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم وذكره الأثرم عن ابن عمر وابن عباس ـ رضي الله عنهم.

الثالث: أن وقت النحر يوم واحد وهو قول ابن سيرين، لأنه اختص بهذه التسمية فدل على اختصاص حكمها به ولو جاز في الثلاثة لقيل لها: أيام النحر كما قيل لها: أيام الرمي وأيام منى وأيام التشريق، ولأن العيد يضاف إلى النحر وهو يوم واحد كما يقال: عيد الفطر.

الرابع: قول سعيد بن جبير وجابر بن زيد: أنه يوم واحد في الأمصار وثلاثة أيام في منى، لأنها هناك أيام أعمال المناسك من الرمي والطواف والحلق فكانت أياماً للذبح بخلاف أهل الأمصار. انتهى.

Tuesday 18 June 2024

قربانی کتنے دن کرسکتے ہیں

 :ایامِ اضحیہ (یعنی قربانی کے ایام) تین ہیں:  دس، گیارہ  اور  بارہ  ذی الحجہ (یعنی عید کا پہلا، دوسرا اور تیسرا دن)، لہٰذا  عید  کے چوتھے دن (یعنی ۱۳ ذی الحجہ کے دن)  قربانی کرنا معتبر نہیں ہے؛  اس لیے  کہ  حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابنِ عمر اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں اور پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عبادات کے مخصوص اوقات صحابہ کرام خود سے نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ  کے بیان کی روشنی میں بتاتے تھے۔ اگر کوئی شخص قربانی کے ایّام میں جانور ذبح نہیں کرسکا، تو اس کے بعد صدقہ کرنا ضروری ہے۔

2: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ  عید کے چوتھے دن (یعنی تیرہ ذوالحجہ) بھی  قربانی کے درست ہونے کے قائل  ہیں، ان کی دلیل حضرت علی  و عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی روایت ہے :

" کُلُّ اَیَّامِ التَّشرِیقِ ذِبح.

(موارد الظمآن ، ص:249، ط:المکتبة السلفیة)

یعنی ایامِ  تشریق سب قربانی کے دن ہیں ،  جب کہ احناف  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  صحیح قول وہی ہے جو   حضرت  علی، عمر، ابوہریرہ، انس ، ابن عباس ، ابن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے مروی ہے کہ" أيام النحر ثلاثة، أولها أفضلها"،  (قربانی کےدن تین ہیں، اور ان میں پہلا افضل ہے) اور  اسی قول کو جمہور  نے  قبول کیا ہے؛کیوں کہ قربانی ایک  عبادت ہے اور عبادات کے لیے اوقات کی پہچان سماع  سے ہوتی ہے،باقی  جو  دلیل حضرت عباس وعلی رضی اللہ عنہما کے حوالے سے مذکور ہے، تو ان کا یہ قول مجمل ہے، جس کی  تشریح  خود ان ہی کے قول : "أيام النحر ثلاثة، أولها أفضلها" سے ہورہی  ہے، یعنی حضرت علی  اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے ہی تمام ایامِ تشریق میں ذبح کی روایت موجود ہے، جب کہ آپ  دونوں رضی اللہ عنہما  ہی سے ایامِ نحر کی تحدید تین دن منقول ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ  ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما کے ہاں بھی قربانی کے تین دن ہیں، البتہ ایامِ تشریق میں چوں کہ حجاجِ کرام منٰی اور حدودِ حرم میں ہی ہوتے ہیں تو  عرب اس میں جانور ذبح کرنے کا اہتمام کرتے تھے، اس کی اجازت اس روایت میں منقول ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأيام النحر ثلاثة: يوم الأضحى - وهو اليوم العاشر من ذي الحجة - والحادي عشر، والثاني عشر وذلك بعد طلوع الفجر من اليوم الأول إلى غروب الشمس من الثاني عشر، وقال الشافعي - رحمه الله تعالى -: أيام النحر أربعة أيام؛ العاشر من ذي الحجة والحادي عشر، والثاني عشر، والثالث عشر، والصحيح قولنا؛ لما روي عن سيدنا عمر وسيدنا علي وابن عباس وابن سيدنا عمر وأنس بن مالك - رضي الله تعالى عنهم - أنهم قالوا: أيام النحر ثلاثة أولها أفضلها، والظاهر أنهم سمعوا ذلك من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لأن أوقات العبادات والقربات لا تعرف إلا بالسمع".

(کتاب التضحیة، فصل في وقت وجوب الأضحية، ج:5، ص:65، ط:دارالکتب العلمیة)

الموسوعة الفقهية  میں ہے:

"ذهب الحنفية و المالكية و الحنابلة إلى أن أيام التضحية ثلاثة، و هي يوم العيد، و اليومان الأولان من أيام التشريق، فينتهي وقت التضحية بغروب شمس اليوم الأخير من الأيام المذكورة ، و هو ثاني أيام التشريق.و احتجوا بأن عمر وعليًّا و أبا هريرة و أنسًا و ابن عباس و ابن عمر رضي الله عنهم أخبروا أن أيام النحر ثلاثة .و معلوم أن المقادير لايهتدى إليها بالرأي ، فلا بد أن يكون هؤلاء الصحابة الكرام أخبروا بذلك سماعًا.

وقال الشافعية - وهو القول الآخر للحنابلة واختاره ابن تيمية - أيام التضحية أربعة ، تنتهي بغروب شمس اليوم الثالث من أيام التشريق ، وهذا القول مروي عن علي وابن عباس رضي الله عنهم أيضا ، ومروي كذلك عن جبير بن مطعم رضي الله عنه ، وعن عطاء والحسن البصري وعمر بن عبد العزيز وسليمان بن موسى الأسدي ومكحول . وحجة القائلين بهذا قوله عليه الصلاة والسلام :كُل أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْح".

(اضحیة، نهاية وقت التضحية، ج:5، ص:93، ط:امیرحمزہ کتب خانه)

ایام تشریق کون کون سے ہیں

 ایام تشریق  چار دن ہیں، دس ذی الحجہ سے تیرہ ذی الحجہ تک، البتہ   تکبیرات "الله أكبر الله أكبر لا إله لا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد" نو ذی الحجہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن یعنی 13 ذی الحجہ کی شام تک پڑھی جاتی ہیں، ان ایام میں 9تاریخ کے سوا باقی سارے ایام،  ایامِ تشریق ہیں، اس لیے تغلیباً  (یعنی اکثر دنوں کا اعتبار کرتے ہوئے) ان تکبیرات کو تکبیراتِ تشریق کہتے ہیں، اگرچہ ان  تکبیرات کے حکم میں ایک دن ایامِ تشریق سے پہلے کا (یعنی نو ذی الحجہ ) بھی شامل ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 177):

" مَطْلَبٌ فِي تَكْبِيرِ التَّشْرِيقِ

(قَوْلُهُ: وَيَجِبُ تَكْبِيرُ التَّشْرِيقِ) نُقِلَ فِي الصِّحَاحِ وَغَيْرِهِ أَنَّ التَّشْرِيقَ تَقْدِيدُ اللَّحْمِ وَبِهِ سُمِّيَتْ الْأَيَّامُ الثَّلَاثَةُ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ. وَنَقَلَ الْخَلِيلُ بْنُ أَحْمَدَ وَالنَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ أَهْلِ اللُّغَةِ أَنَّهُ التَّكْبِيرُ فَكَانَ مُشْتَرَكًا بَيْنَهُمَا وَالْمُرَادُ هُنَا الثَّانِي"

يقول الدكتور عبد الرحمن العدوي أستاذ الفقه بجامعة الأزهر:

فإن أيام التشريق هي الأيام الثلاثة بعد يوم النحر، أي أنها أيام الحادي عشر، والثاني عشر، والثالث عشر من شهر ذي الحجة، وهي الأيام المعدودات التي أمر الله تعالى بذكره فيها في قوله جل شأنه: (واذكروا الله في أيام معدودات فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه ومن تأخر فلا إثم عليه لمن اتقى واتقوا الله واعلموا أنكم إليه تحشرون) وهذه الأيام هي التي يبيت الحجيج لياليها في منى، فيبيتون ليلة الحادي عشر من شهر ذي الحجة، والثاني عشر، ومن تعجل يغادر “منى” في يوم الثاني عشر بعد أن يرمي الجمرات بعد الزوال، ومن لم يتعجل يبيت ليلة الثالث عشر، ويرمي الجمرات بعد الزوال في يوم الثالث عشر، ثم يغادر منى بعد ذلك. وهذه الأيام الثلاثة بعد يوم الأضحى هي أيام أكل وشرب وذكر لله ـ عز وجل ـ كما قال رسول الله ـ ﷺ ـ وهذه الأيام المعدودات غير الأيام المعلومات التي جاء ذكرها في قول الله تعالى: (ليشهدوا منافع لهم ويذكروا اسم الله في أيام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير).

قال البخاري: وقال ابن عباس: واذكروا الله في أيام معلومات أيام العشر يعني أيام العشر من شهر ذي الحجة. والأيام المعدودات أيام التشريق.

قال وكان ابن عمر وأبو هريرة يخرجان إلى السوق أيام العشر يكبران، ويكبر الناس بتكبيرهما، قال: وكان عمر يكبر في قبته بمنى، فيسمعه أهل المسجد فيكبرون، ويكبر أهل الأسواق حتى ترتج منى تكبيرًا.


قربانی کے موقع پر بال وناخن نہ کاٹنے کی حکمتیں

 ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ  ﷺ نےارشاد فرمایا : ’’جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا  ارادہ ہو تو وہ بال، ناخن یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے ، جب تک قر بانی نہ دے دے. ‘‘   ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوتے ہی ان چیزوں سے رک جائے۔

اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے ، نیز بلاضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے،   اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔

البتہ  بعض اکابر فرماتے  ہیں کہ قربانی نہ کرنے والے بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرکے  عام لوگوں کی قربانی کے بعد ناخن اور بال وغیرہ کاٹیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ بھی ثواب سے محرو م نہیں ہوں گے۔ نیز  اس میں یہ ملحوظ رہے کہ اگر زیر ناف بال اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو  ایسی صورت میں ان کی صفائی کرنا ضروری ہے۔

مذکورہ حکم کی حکمتیں:

اور اس کی دو حکمتیں علماء ومحققین سے منقول ہیں:

1۔ پہلی حکمت:

بعض علماء نے اس کی حکمت یہ ذکر کی ہے کہ اس کی ممانعت حجاجِ بیت اللہ سے مشابہت کے لیے ہے کہ ان کے لیے حج کے ایام میں بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا منع ہوتا ہے، لہٰذا جو لوگ حج پر نہ جاسکے اور قربانی کررہے ہوں تو وہ بھی حجاج کرام کی کچھ مشابہت اختیار کرلیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس رحمت کا کچھ حصہ انہیں بھی عطا فرمادیں گے جو حجاج بیت اللہ پر نازل ہوتی ہیں۔ اور انہی کے ضمن میں قربانی نہ کرنے والے بھی مشابہت اختیار کرلیں تو وہ بھی رحمت کے حق دار بن جائیں۔

یہ توجیہ ہمارے بعض اکابر علماء سے منقول ہے، خصوصاً جو بیت اللہ اور شعائرِ حج کا عاشقانہ ذوق رکھتے ہیں، اور یہ توجیہ اپنی جگہ درست بھی ہے۔ لیکن محققین علماء کرام اور شراح حدیث نے اس  توجیہ پر کلام کیاہے، اس لیے کہ اگر مقصود حجاج کی مشابہت ہو تو حجاج کرام کے لیے تو سلا ہوا لباس اور خوشبو کا استعمال وغیرہ بھی ممنوع ہے، اگر مشابہت مقصود ہوتی تو تمام احکام میں ہوتی۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ مشابہت کے لیے تمام امور میں مشابہت ضروری نہیں ہوتی، رحمتِ خداوندی متوجہ کرنے کے لیے ادنیٰ مناسبت بھی کافی ہے۔ لیکن اس پر پھر سوال ہوتا ہے کہ اگر بعض امور میں ہی مشابہت کافی تھی تو  بھی بال، ناخن اور جسم کی کھال وغیرہ کاٹنے کی ممانعت میں ہی کیوں مشابہت اختیار کی گئی؟ احرام کی چادروں اور خوشبو کی پابندی میں بھی مشابہت ہوسکتی تھی! اس لیے مذکورہ حکم کی ایک اور حکمت بیان کی گئی ہے، جو تحقیق کے زیادہ قریب اور راجح ہے، وہ درج ذیل ہے:

2۔ دوسری حکمت:

اس حکمت کو سمجھنے سے پہلے قربانی کی حقیقت اور فلسفہ سمجھنا ضروری ہے

قربانی کا فلسفہ:

درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی  قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جاندار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔

یکم ذی الحجہ سے بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کی راجح حکمت:

اب جب کہ قربانی کا مقصد معلوم اور مستحضر ہوگا تو گویا قربانی کرنے والے نے اپنے آپ کو  گناہوں کی وجہ سے عذاب  کا مستحق سمجھا کہ میں اس قابل ہوں کہ ہلاک ہوجاؤں اور میری جان خدا کے لیے قربان ہوجائے، لیکن شریعت نے جان کے فدیہ میں  جانور کی قربانی مقرر کردی، سو یہ جانور انسان کی نیابت میں قربان ہورہاہے، تو  قربانی کے جانور کا ہر جزو قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جز کا بدلہ ہے ۔ لہٰذا جس وقت جانور قربانی کے لیے خریدا جائے یا قربانی کے لیے خاص کیا جائے اس وقت انسانی جسم جس حالت میں ہو، مختص کردہ جانور اس انسانی جسم کے قائم مقام ہوجائے گا، اور جانور قربانی کے لیے خاص کرنے کے بعد جسم کا کوئی جز (نال، ناخن، کھال وغیرہ) کاٹ کر کم کردیا گیا تو گویا مکمل انسانی جسم کے مقابلے میں جانور کی قربانی نہیں ہوگی، جب کہ جانور انسانی جان کا فدیہ قرار پاچکاتھا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ قربانی اور نزولِ رحمت کے وقت انسانی جسم کا کوئی عضو و جزو  کم ہو کر اللہ تعالیٰ کی  رحمت  اور فیضان الٰہی کی برکات سے محروم نہ رہے،تاکہ اس کو مکمل فضیلت حاصل ہو  اور وہ مکمل طور پر گناہوں سے پاک ہو ،  اس لیے آں حضرتﷺنے مذکور حکم دیا ہے 

یکم ذی الحجہ مقرر کرنے کی وجہ:

اس کے لیے قریب ترین کسی زمانے کی تعیین کی ضرورت تھی، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ہر شخص جب اپنا جانور خریدے یا قربانی کے لیے خاص کرے اسی وقت سے اسے ناخن یا بال کاٹنا منع ہو۔ لیکن دینِ اسلام نے زندگی کے ہرمعاملے میں نظم وضبط اور نظام پر زور دیاہے، دین کی عبادات سے لے کر انفرادی اور اجتماعی احکام کو دیکھ لیاجائے، غور کرنے پر ہر حکم میں نظم واضح نظر آئے گا۔ لہٰذا نظام کا تقاضا تھا کہ قربانی کرنے والے تمام مسلمانوں کے لیے ایک وقت مقرر کرکے نظم قائم کردیا جائے ، اس کے لیے ایک قریب ترین مدت مقرر کی گئی۔

پھر یہ بھی ہوسکتاتھا کہ عیدالاضحی سے ایک آدھ دن پہلے وقت مقرر کردیاجاتا، لیکن اس کے لیے ذی الحجہ کا چاند مقرر کیا گیا، اس لیے کہ قربانی کی عبادت کا تعلق عید الاضحٰی اور حج کی عبادت سے ہے، جیساکہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد عیدالفطر ہے، اور اسلام نے شرعی احکام کو اوقات کے ساتھ جوڑا ہے، اور ان کا مدار قمری مہینے اور تاریخ پر رکھاہے، چناں چہ رمضان المبارک چاند دیکھ کر شروع اور چاند دیکھ کر ختم ہوتاہے، ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی حج کی تیاری تقریباً اختتام کو پہنچتی ہے، اور ذی الحجہ کے چاند سے عیدالاضحیٰ کا دن اور صحیح وقت متعین ہوتاہے، لہٰذا قربانی کی تعیین میں بھی ذی الحجہ کے چاند کو دخل ہوا۔ نیزضمنی طور پر اس بات کی ترغیب بھی دے دی گئی کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قربانی کا جانور کچھ ایام پہلے لے کر پالیں، تاکہ ان سے انسیت قائم ہونے کے بعد قربانی کرنے سے نفس کی قربانی اور جان نثاری کے جذبات مزید ترقی پائیں۔ اسی طرح جانور جلدی لے کر، اس کی خدمت کرنے، اور بال، ناخن وغیرہ نہ کاٹنے سے جو میل کچیل کی کیفیت ہوگی تو اس سے انسان کو اپنی حقیقت کی طرف بھی دھیان ہو اور تواضع وعاجزی کی ترقی بھی بنے۔

 صحيح مسلم (3/ 1565)

'سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئاً»۔'

سنن النسائي (7/ 211)
'عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من رأى هلال ذي الحجة، فأراد أن يضحي، فلا يأخذ من شعره، ولا من أظفاره حتى يضحي»۔'
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1081)
 ' قال التوربشتي: ذهب بعضهم إلى أن النهي عنهما للتشبه بحجاج بيت الله الحرام المحرمين، والأولى أن يقال: المضحي يرى نفسه مستوجبةً للعقاب وهو القتل، ولم يؤذن فيه، ففداها بالأضحية، وصار كل جزء منها فداءً كل جزء منه، فلذلك نهي عن مس الشعر والبشر ؛ لئلا يفقد من ذلك قسط ما عند تنزل الرحمة، وفيضان النور الإلهي، ليتم له الفضائل، ويتنزه عن النقائص. قال ابن حجر: ومن زعم أن المعنى هنا التشبه بالحجاج غلطوه بأنه يلزم عليه طلب الإمساك عن نحو الطيب ولا قائل به اهـ.وهو غلط فاحش من قائله ؛ لأن التشبه لا يلزم من جميع الوجوه، وقد وجه توجيهاً حسناً قي خصوص اجتناب قطع الشعر أو الظفر

 لو قلم المضحى أظافره أو قص شعره فالأضحية صحيحة ومقبولة، ولا إثم عليه، الحكمة من عدم الحلق تشبيه بالمُحرم أثناء الحج، حيث يحظر عليه تقليم أظفاره وقص شعره.

 الإمام السيوطي قال: «من أراد أن يضحي فلا يقلم من أظفاره ولا يحلق شيئًا من شعره في عشر الأول من ذي الحجة، وهذا النهي عند الجمهور نهى تنزيه والحكمة فيه أن يبقى كامل الأجزاء للعتق من النار وقيل للتشبيه بالمحرم».

الحكمة من عدم قص المضحي شعره وأظافره

قال الدكتور على جمعة، مفتي الجهورية السابق، عضو هيئة كبار العلماء بالأزهر الشريف، إنه من العبادات التي يتقرب بها المسلم  إلى الله - عز وجل- في الأيام العشر المباركة من ذي الحجة عبادة الأضحية.

وأوضح «جمعة»، أنه قبل ذبح الأضحية يقدم التوجه لله وحده والتوحيد له والإقرار بملة إبراهيم -عليه السلام-، ويؤكد أن الأعمال كلها لا تنصرف إلا لله - سبحانه-، فيذبح الأضحية تقربا إلى الله - تعالى- بكلام يوضح إذن الله لنا في ذبح هذا الحيوان للانتفاع به بالأكل والإطعام والإهداء.وأضاف عضو هيئة كبار العلماء أن هذا فيما يخص الجواب عن شبه اتهام الإسلام بالعنف والقسوة على الحيوان في شأن الأضحية، وفي الحديث عن الأضحية وفقهها، فعلينا أن نعلم أن هناك آداب يتحلى به من أراد ذبح الأضحية، منها: أنه إذا بدأ ذو الحجة لا يقلم أظفاره ولا يحلق رأسه  تشبهًا بالحجيج.

واستشهد  بقوله - صلى الله عليه وسلم-: «من أراد أن يضحى فلا يقلم أظفاره ولا يحلق شيئا من شعره في العشر من ذي الحجة»، (رواه ابن حبان في صحيحه).

 

الحكمة من عدم قص المضحي شعره وأظافره
ولفت إلى أن التشبه بالحجاج والمحرمين يشبع شيئا من أشواق المشتاقين إلى زيارة البيت الحرام، ومن شعر بالشوق يدرك ذلك الكلام، فمن زار تلك البقاع المقدسة يشعر بالشوق إليها ويحن للطواف بالبيت العتيق وزيارة روضة الحبيب - صلى الله عليه وسلم- ، وأن يأنس بالوقوف في تأدب وسلام ومحبة للحبيب - عليه الصلاة والسلام.

 

هل قص الشعر يبطل الأضحية 

قالت دار الإفتاء المصرية، إن من السُنة النبوية امتناع المُسلم المُضحي عن قص شعره وتقليم أظافره، مع أول أيام ذي الحجة.


واستشهدت الإفتاء في إجابتها عن سؤال: «هل يحرم على المُضحي الأخذ من شعره وأظافره؟» بما روي عَنْ أم سلمة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم قَالَ: «إِذَا رأيتم هِلالَ ذِي الْحِجَّةِ وأراد أحدكم أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعرِهِ وأظفاره» أخرجه مسلم في صحيحه. وفي رواية :«فَلا يَمَسَّ مِنْ شَعرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا».

وأوضحت أن جمهور العلماء رأى أن الأمر بالإمساك عن الشعر والأظافر في هذا الحديث محمول على الندب والاستحباب لا على الحتم والإيجاب، بمعني أن من أراد أن يضحي فإنه يكره له الأخذ من شعره وأظفاره، وكذلك سائر جسده، فإن فعل لا يكون آثمًا، إنما تاركًا للفضيلة فحسب، وذلك من ليلة اليوم الأول من ذي الحجة إلى الفراغ من ذبح الأُضْحِيَّة.
 

قص الشعر لمن لمن ينوي الأضحية
وأضافت في فتوى لها: أما من لم يَعزم على الأضحية من أول شهر ذي الحجة بل ترك الأمر في ذلك معلقًا حتى يتيسر له أن يضحي فإنه لا يصدق عليه أنه مريد للتضحية، فلا يُكره في حقه أن يأخذ من شعره أو أظفاره أو سائر بدنه شيئًا حتى يعزم على الأضحية؛ فإن عزم استُحِبَّ في حقه أن يمسك عن الشعر وغيره من حين العزيمة.

وتابعت: أما من أراد الحج متمتعًا ولم يرد التضحية فإنه لا يُكره له الأخذ من شعره وأظفاره وسائر بدنه ما لم يُحرِم؛ لأن الأضحية تختلف عن هدي التمتع، فإذا دخل في الإحرام حَرُم عليه ذلك من حيث إنه من محظورات الإحرام، فإذا قضى عمرته وتحلل من إحرامه جاز له كل ما كان حرامًا عليه حال إحرامه بما في ذلك ما ورد في السؤال من أخذ شيء من شعره أو أظافره حتى يُحرِم مرة أخرى بالحج، فيعود ذلك كله محظورًا عليه.

Monday 17 June 2024

اجتماعی ذکر بالجہر

 اصولی اور عمومی طور پر تو تنہائی میں  آہستہ آواز  سے ذکر کرنا بہتر ہے، لیکن  اجتماعی طور پر جہرًا ذکر کرنا بھی شریعتِ  مطہرہ کی رو سے جائز ہے، اس کو  مطلقًا بدعت سمجھنا درست نہیں ہے، کیوں کہ جہرًا  ذکر کرنے کی اصل  حدیث سے ثابت ہے؛ حدیثِ قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

’’ جب میرا بندہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے یاد کرتا ہوں، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں (یعنی چھپ کر آہستہ سے تنہائی میں) یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں (یعنی تنہائی میں جیسے اس کی شان ہے) یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی مجمع میں یاد کرتا ہے (یعنی لوگوں کے درمیان جہرًا میرا ذکر کرتا ہے) تو میں اس سے بہتر اور افضل مجمع (یعنی فرشتوں کے مجمع) میں اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔‘‘

بلکہ فقہاءِ کرام نے بعض احوال و اشخاص کے اعتبار سے ذکر بالجہر کو  افضل قرار دیا ہے۔

لہٰذا اگر کوئی متبعِ شریعت، شیخِ  کامل اپنے مریدوں کی اصلاح  و تربیت کے  لیے کسی ایسی جگہ پر ذکر کی مجلس منعقد کرے جہاں دیگر عبادت کرنے والوں کی عبادت میں خلل نہ پڑتا ہو  اور اسے لازم و ضروری نہ سمجھا جائے، بلکہ تربیت کا حصہ سمجھا جائے، نیز اسے ہی افضل نہ سمجھا جائے اور ذکر بالجہر نہ کرنے والوں کو برا یا کم تر نہ سمجھا جائے تو اس کی اجازت  ہوگی،   لیکن رسمی طور پر بلاکسی معتبر مربی کے ایسی مجلسیں منعقد کرنا جہاں حدود کی رعایت نہ رکھی جاتی ہو، یا ان مجلسوں میں شرکت کو ایسا لازم سمجھنا کہ شریک نہ ہونے والے کو  حقارت کی نظر سے دیکھا جائے یا ان پر جبر کیا جائے، یا ایسی جگہ پر مجلس منعقد کرنا جس سے دیگر عبادات گزاروں کی عبادت میں خلل پڑے، یہ قطعاً جائز نہیں ہے، اس سے احتراز لازم ہے، اسی طرح اگر اسی کو افضل سمجھا جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے،  اور  بہر حال بہتر  یہی  ہے کہ ذکر کے معمولات لوگ اپنے اپنے طور پر تنہائی میں پورے کیا کریں۔

اور جہاں ذکر بالجہر میں  مصلحت  ہو تو بھی یہ صورت  نہ اختیار کی جائے کہ پورا مجمع بیک زبان ایک ہی کلمہ دہرائے، بلکہ ہر ایک اپنے اپنے طور پر کلمات پڑھتا رہے، یا  یہ صورت اختیار کی جائے کہ شیخ ایک مرتبہ بلند آواز سے کلمات دہرا لے، اور پھر متوسلین اسے دل دل میں دہرائیں، پھر  دوسرے کلمات پڑھنے ہوں تو  شیخ بلند آواز سے پڑھ دے، تاکہ حاضرین کو پتا چل جائے کہ   اب دوسرا کلمہ پڑھنا ہے۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 660):

’’مطلب في رفع الصوت بالذكر

(قوله: و رفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارةً قال: إنّه حرام، وتارةً قال: إنّه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو: "«وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص و الأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر و الإخفاء بالقراءة و لايعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي»؛ لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل؛ لأنه أكثر عملًا و لتعدي فائدته إلى السامعين، و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همّه إلى الفكر، و يصرف سمعه إليه، و يطرد النوم، و يزيد النشاط. اهـ. ملخصًا، و تمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا و خلفًا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد و غيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ ...إلخ ‘‘

عید کے دن اشراق وچاشت

 عید کے دن فجر کی نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد سے عید کی نماز ادا کرنے تک نفل نماز ادا کرنا مطلقاً (عیدگاہ ہو یا گھر یا کوئی اور جگہ) مکروہِ (تحریمی) ہے، اور عید کی نماز کے بعد سے اس دن کے زوال تک صرف عیدگاہ میں نفل نماز ادا کرنا مکروہ ہے، جب کہ  عید کی نماز کے بعد گھر میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہے، لہذا عید کی نماز کے بعد گھر آکر اشراق اور چاشت کے نوافل پڑھنا جائز ہے۔

"طحطاوی علی الدر المختار" میں ہے:

"ولايتنفل قبلها مطلقاً ... و كذا لايتنفل بعدها في مصلاه؛ فإنه مكروه عند العامة، و إن تنفل بعدها في البيت جاز ... قوله: (فإنه مكروه) أي تحريماً علی الظاهر..."الخ (كتاب الصلاة، باب العيدين، ١/ ٣٥٣، ط: رشيدية)

Sunday 16 June 2024

بڑے جانور میں قربانی اور عقیقہ کے حصے لینا

  بڑے جانور جیسےگائے اور بھینس وغیرہ میں  سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں البتہ یہ جائز ہے کہ بڑے جانور  کے سات  حصوں میں سے بعض حصوں میں قربانی کی نیت کرے اور بعض میں عقیقہ کی نیت کرے ۔

           لہذا اگر ایک آدمی نے بڑے جانور میں تین حصے لیے ہوں  تو اگر  ان میں سے ایک حصے میں بچے کے عقیقے  کی نیت کرے اورباقی میں قربانی کی نیت کرے تو یہ جائز ہے  اور اس سے قربانی پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔

وشمل ما لو كانت القربة واجبة على الكل أو البعض اتفقت جهاتها أو لا: كأضحية وإحصار وجزاء صيد وحلق ومتعة وقران خلافا لزفر، لأن المقصود من الكل القربة، وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد.(رد المحتار على الدر المختار،كتاب الاضحية،ج:6،ص:326)

نماز فجریاعصر کے بعد مصافحہ کرنا

  مصافحہ ملاقات کے وقت مسنون ہے، جیسا کہ سنن الترمذي (5 / 74)میں ہے:

"عن البراء بن عازب قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ما من مسلمين يلتقيان فيتصافحان إلا غفر لهما قبل أن يفترقا. قال أبو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث أبي إسحاق عن البراء".

(ترجمہ) جب دو مسلمان مل کر باہم مصافحہ کریں تو ان کے جدا ہونے سے قبل ہی ان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔

لہذا اس کے علاوہ اوقات میں مصافحہ کرنا مثلاً نمازوں کے بعد، سنت کے خلاف عمل ہے اور اگر اس کا التزام کیا جائے اور مصافحہ نہ کرنے والے کو ملامت کا نشانہ بنایا جائے یا اس کے بغیر نماز نامکمل سمجھی جائے تو  یہ مصافحہ بدعت ہے، جیساکہ حاشية رد المحتار على الدر المختار  (6 / 381):
"ونقل في تبيين المحارم عن الملتقط: أنه تكره المصافحة بعد أداء الصلاة بكل حال؛ لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم ما صافحوا بعد أداء الصلاة؛ ولأنها من سنن الروافض اهـ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعية أنها بدعة مكروهة لا أصل لها في الشرع، وأنه ينبه فاعلها أولًا ويعزر ثانيًا، ثم قال: وقال ابن الحاج من المالكية في المدخل: إنها من البدع، وموضع المصافحة في الشرع إنما هو عند لقاء المسلم لأخيه لا في أدبار الصلوات، فحيث وضعها الشرع يضعها، فينهي عن ذلك ويزجر فاعله لما أتى به من خلاف السنة اهـ ثم أطال في ذلك فراجعه".

نیز فتاوی رحٰیمیہ(۲ /۲۲۸،کتاب السنۃ والبدعۃ) میں ’’مصافحہ بعد نماز‘‘  کا جواب لکھتے ہوئے آخر میں لکھا ہے:

بہرحال نمازفجریاعصر کے بعد مصافحہ التزام کرنا اور مصافحہ نہ کرنے والے کو براسمجھنا بدعت ہے بغیر کسی التزام کے مصافحہ کرنادرست ہےاسے لازمی نہ سمجھا جایے 

مفتی عبدالرحیم لاجپوری لکھتے ہیں:

’’ لوگوں کے حالات بہت نازک ہوچکے ہیں، مزاج بگڑچکے ہیں، بات بات پر لڑائیاں ہوتی ہیں، بدگمانیاں پھیلتی ہیں، لہذا رفعِ فتنہ کے طور علماء نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی مصافحہ کے  لیے ہاتھ بڑھائے تو اپنا ہاتھ کھینچ کر ایسی صورت پیدا نہ کرنا چاہیے کہ اسے بدگمانی ، شکایت اور رنج ہو‘‘۔

اللہ کو گالی دینے والے شخص کاحکم

 جو شخص (العیاذ باللہ) اللہ تعالی کو گالی دے  تووہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ،اس  پر لازم ہے کہ وہ تجدیدِ ایمان کرے اور صدق دل سے توبہ واستغفار کرے، اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدیدِ نکاح بھی لازم  ہے۔

الفتاوى الهندية (2/ 258):
"(ومنها: ما يتعلق بذات الله تعالى وصفاته وغير ذلك) يكفر إذا وصف الله تعالى بما لايليق به، أو سخر باسم من أسمائه، أو بأمر من أوامره، أو نكر وعده ووعيده، أو جعل له شريكاً، أو ولداً، أو زوجةً، أو نسبه إلى الجهل، أو العجز، أو النقص ويكفر بقوله: يجوز أن يفعل الله تعالى فعلاً لا حكمة فيه، ويكفر إن اعتقد أن الله تعالى يرضى بالكفر، كذا في البحر الرائق".