https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 20 June 2023

ذوالحج کے ابتدائی ایام روزے

ذوالحجہ کے ابتدائی دس ایام بڑی فضیلت کے حامل ہیں، بعض مفسرین نے قرآنِ کریم کی سورہ فجر کی آیت کریمہ {ولیالٍ عشر} کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت میں جن دس راتوں کی قسم کھائی گئی ہے، اس سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان ایام میں نیک اعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان دنوں کی عبادت کی بہت زیادہ فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے، چاہے یہ عبادات ذکر و اذکار کی صورت میں ہوں، یا قیام اللیل کی صورت میں یا روزوں کی صورت میں۔ احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی ایام میں ہردن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اجر رکھتا ہے، اور بطورِ خاص یومِ عرفہ (9 ذوالحجہ)کے روزے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس دن کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اس سلسلہ کی احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں: ترمذی شریف میں ہے: "عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَيْئٍ." (باب ما جاء في العمل في أيام العشر، 3/130 ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت) ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کیے گئے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ایام میں کیے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اگر ان دس دنوں کے علاوہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے تب بھی؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں! تب بھی اِن ہی اَیام کا عمل زیادہ محبوب ہے، البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان و مال دونوں چیزیں لے کر جہاد میں نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیاتو یہ افضل ہے)۔ وفیه أیضاً: "عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَی اللَّهِ أَنْ يُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ." ( باب ما جاء في فضل صوم يوم عرفة ،3/124 ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) ترجمہ: حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرما دے۔ وفیه أیضاً: "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ يَعْدِلُ صِيَامُ کُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ وَقِيَامُ کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْر." (باب ما جاء في العمل في أيام العشر، 3/131 ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی عبادت تمام دنوں کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان ایام میں سے (یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں) ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔

کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی

اگر قربانی کے جانور کا کان ایک تہائی یا اس سے کم کٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اور اگر ایک تہائی سے زائد کٹا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: "وفي الجامع: أنه إذا کان ذهب الثلث أو أقلّ جاز، و إن کان أکثر لایجوز، و الصحیح أنّ الثلث وما دونه قلیل، وما زاد علیه کثیر، وعلیه الفتوی." (ج:5، ص:298۔ط:رشیدیه فتاوی ہندیہ میں ہے: "وَلَوْ ذَهَبَ بَعْضُ هَذِهِ الْأَعْضَاءِ دُونَ بَعْضٍ مِنْ الْأُذُنِ وَالْأَلْيَةِ وَالذَّنَبِ وَالْعَيْنِ ذَكَرَ فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ إنْ كَانَ الذَّاهِبُ كَثِيرًا يَمْنَعُ جَوَازَ التَّضْحِيَةِ، وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا لَا يَمْنَعُ، وَاخْتَلَفَ أَصْحَابُنَا بَيْنَ الْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ فَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ -رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - أَرْبَعُ رِوَايَاتٍ، وَرَوَى مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - عَنْهُ فِي الْأَصْلِ وَفِي الْجَامِعِ أَنَّهُ إذَا كَانَ ذَهَبَ الثُّلُثُ أَوْ أَقَلُّ جَازَ، وَإِنْ كَانَ أَكْثَرَ لَا يَجُوزُ، وَالصَّحِيحُ أَنَّ الثُّلُثَ وَمَا دُونَهُ قَلِيلٌ وَمَا زَادَ عَلَيْهِ كَثِيرٌ، وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ.... وَسُئِلَ عَمْرُو بْنُ الْحَافِظِ عَنْ الْأُضْحِيَّةِ إذَا كَانَ الذَّاهِبُ مِنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْ الْأُذُنَيْنِ السُّدُسَ هَلْ يُجْمَعُ حَتَّى يَكُونَ مَانِعًا عَلَى قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ -رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - قِيَاسًا عَلَى النَّجَاسَاتِ فِي الْبَدَنِ أَمْ لَا يُجْمَعُ كَمَا فِي الْخُرُوقِ فِي الْخُفَّيْنِ؟ . قَالَ: لَا يُجْمَعُ". ( كتاب الاضحية، الْبَابُ الْخَامِسُ فِي بَيَانِ مَحَلِّ إقَامَةِ الْوَاجِبِ، ۵ / ۲۹۸، ط: دار الفكر)

ذوالحج کا چاند دیکھ کر بال وناخن وغیرہ نہ کاٹنا

جوشخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہو اس کے لیےذی الحجہ کاچاند ہوجانے کے بعد بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب اور باعثِ ثواب امر ہے،داڑھی تراشنا بہرحال مکروہ تحریمی ہے, چناں چہ حدیث شریف میں ہے: '' حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ماہ ذی الحجہ کا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ نہ لے ''۔(صحیح مسلم ) یہ ممانعت تنزیہی ہے ، لہذا عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن نہ کٹوانا مستحب ہے، اور اس کے خلاف عمل کرنا ترکِ اولیٰ ہے، یعنی اگر کسی نے ذوالحجہ شروع ہوجانے کے بعد قربانی سے پہلے بال یا ناخن کاٹ لیے تو اس کا یہ عمل ناجائز یا گناہ نہیں ہوگا، بلکہ خلافِ اولیٰ کہلائے گا۔ اور اگر کوئی عذر ہو یا بال اور ناخن بہت بڑھ چکے ہوں تو ان کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صحيح مسلم (3/ 1565) 'سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئاً»۔' سنن النسائي (7/ 211) 'عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من رأى هلال ذي الحجة، فأراد أن يضحي، فلا يأخذ من شعره، ولا من أظفاره حتى يضحي»۔' مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1081) ' قال التوربشتي: ذهب بعضهم إلى أن النهي عنهما للتشبه بحجاج بيت الله الحرام المحرمين، والأولى أن يقال: المضحي يرى نفسه مستوجبةً للعقاب وهو القتل، ولم يؤذن فيه، ففداها بالأضحية، وصار كل جزء منها فداءً كل جزء منه، فلذلك نهي عن مس الشعر والبشر ؛ لئلا يفقد من ذلك قسط ما عند تنزل الرحمة، وفيضان النور الإلهي، ليتم له الفضائل، ويتنزه عن النقائص. قال ابن حجر: ومن زعم أن المعنى هنا التشبه بالحجاج غلطوه بأنه يلزم عليه طلب الإمساك عن نحو الطيب ولا قائل به اهـ.وهو غلط فاحش من قائله ؛ لأن التشبه لا يلزم من جميع الوجوه، وقد وجه توجيهاً حسناً قي خصوص اجتناب قطع الشعر أو الظفر داڑھی کاٹنا بہرحال مکروہ تحریمی ہے

Sunday 18 June 2023

حالت احرام میں بال ٹوٹنا

اگر بال محرم کے فعل کے بغیر خود بخود گر جائیں تو کچھ لازم نہیں،اور اگر بال محرم کے ایسے فعل سے گریں جس کا اس کو شریعت کی جانب سے حکم دیا گیا ہو ، جیسے نماز کے لئے وضو کرنے کاحکم دیا گیا ہے اور وضو کے دوران بال ٹوٹ جائیں تو تین بال گر جائیں تو ایک مٹھی گندم صدقہ کرنا ہو گا ۔ اگر تین سے زائد بال گریں تو صدقہ فطر کی مقدار خیرات کرے یعنی پونے دوسیر گیہوں یاآٹایااس کی قیمت.جب تک بالوں کی تعداد چوتھائی سر تک نہ پہنچے. اور اگر بیماری کے سبب یا اَزخود بال گریں تو اس صورت میں کوئی کفارہ نہیں "اما اذا سقط بفعل المامور به کالوضوء، ففی ثلاث شعرات کف واحدۃ من طعام." (غنیة الناسک: 256 ط ادارۃ القران) "وكذلك إذا حلق ‌ربع ‌رأسه أو ثلثه يجب عليه الدم ولو حلق دون الربع فعليه الصدقة كذا في شرح الطحاوي.وإذا حلق ربع لحيته فصاعدا فعليه دم، وإن كان أقل من الربع فصدقة كذا في السراج الوهاج."(فتاوی الهندية:243/1،ط:دارالفكر مناسك (ملاعلي قاری ) میں ہے: "لا یخفی أ ن الشعر اذا سقط بنفسه لامحذور فيه ولا محظور لاحتمال قلعه قبل احرامه وسقوطه بغير قلعه." (167،باب الجنایات ،مطبعۃ الترقی الماجدیہ بمکۃ) غنیة الناسک ميں هے : "اما اذا سقط بفعل المامور به کالوضوء، ففی ثلاث شعرات کف واحدۃ من طعام." (256 ط ادارۃ القران) فتاوی ہندیہ میں ہے : "وكذلك إذا حلق ‌ربع ‌رأسه أو ثلثه يجب عليه الدم ولو حلق دون الربع فعليه الصدقة كذا في شرح الطحاوي.وإذا حلق ربع لحيته فصاعدا فعليه دم، وإن كان أقل من الربع فصدقة كذا في السراج الوهاج."

Saturday 17 June 2023

زناسےحمل ٹھہرنے کے بعد نکاح

جب کسی مرد اور عورت کی غیر شرعی یا غیر قانونی مباشرت سے عورت کو حمل ٹھہر جائے تو جس مرد کے ساتھ زنا سے حمل ٹھہرا ہے دورانِ حمل اسی کے ساتھ نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ زانی اور زانیہ کا نکاح کروا دیا جائے کیونکہ زانیہ کو حمل ٹھہرنے کی صورت میں کوئی دوسرا اس کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اگر کوئی نکاح کر بھی لے تو کئی طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنا ہے تو وضع حمل (بچے کی پیدائش) کے بعد کیا جائے گا۔ زنا سے ٹھہرنے والے حمل سے جو پچہ پیدا ہوگا اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت والدین ہی کے ذمہ ہے۔ وہ ناپاک نہیں ہے، اور اسی محبت کا مستحق ہے جو اولاد کے ساتھ کی جاتی ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار ) (3/ 49): "لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة. (قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن"

Thursday 15 June 2023

ریشمی رومال تحریک

ں1914 میں عالمی جنگ چھڑ جانے کے بعدمولانا محمودحسن دیوبندی بے محسوس کیا کہ وقت قریب آگیاہے کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے جنگ شروع کی جاسکتی ہے ۔شیخ الہند نے محسوس کرلیاتھا کہ ہندوستانی عوام اور مشرقِ وسطی کے ممالک خصوصاًافغانستان،ایران اور خلافت عثمانیہ کو متحد کیے بغیر برطانوی حکومت سے ایشیاء کو آزاد نہیں کرایا جاسکتا ہے۔ اس وقت خلافت عثمانیہ مشرقی وسطی کے وقار کی محافظ سمجھی جاتی تھی، اور ترکی ہی برطانیہ،اٹلی ،فرانس،یونان اور روس کے مقابلہ میں ڈٹا ہوا تھا؛ اس لیے آپ نے حضرت مولا نا عبید اللہ سندھی کو افغانستان جانے کا حکم دیا اورخود حجاز وخلافت عثمانیہ کا سفر کیا۔ 1915ء میں شیخ الہند نے سندھی کو کابل جانے کا حکم دیا؛ مگر انھیں کوئی مفصل پروگرام نہیں دیا ۔ سی آئی ڈی کو غفلت میں ڈال کر شیخ عبدالرحیم سندھی کے ساتھ کوئٹہ ہوتے ہوئے افغانستان کے لیے روانہ ہوگئے ۔ شیخ عبدالرحیم سندھی جنہوں نے اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا یہ بھی حضرت شیخ الہند کی تحریک کے معتمد تھے۔ عبید اللہ سندھی کو افغانستان جانے کے لیے ان کی بیوی اور بیٹیوں نے اپنے زیورات فروخت کرکے زاد راہ کی فراہمی کی تھی۔ روانگی کے وقت شیخ عبدالرحیم کو ئٹہ تک گئے اور وہاں جاکر روپئے سپر د کرکے واپس لوٹ آئے۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے مولانا سندھی بلوچستان کے ریگستان اور سنسان پہاڑی راستوں اور دروں سے ہوتے ہوئے 15اگست 1915ء کو افغانستان کی سرحد میں داخل ہوئے ۔ اس وقت سورج غروب ہورہا تھا ۔ افغانستان کی آزاد سرزمین پر انھوں نے پہلی مغرب کی نماز ادا کی۔ اور حسنِ اتفاق یہی 15 اگست ہندوستان کی آزادی کی تاریخ ہوئی۔ عبید اللہ سندھی تحریر کرتے ہیں: ”1915ء میں شیخ الہند کے حکم سے کابل گیا، مجھے کوئی مفصل پروگرام نہیں بتایاگیا تھا؛ اس لیے میری طبیعت اس ہجرت کو پسندنہیں کرتی تھی؛لیکن تعمیلِ حکم کے لیے جانا ضروری تھا۔خدانے اپنے فضل سے نکلنے کا راستہ صاف کردیا اور میں افغانستان پہنچ گیا۔روانگی کے وقت دہلی کی سیاسی جماعت کو میں نے بتلایا کہ میرا کابل جانا طے ہوچکا ہے، انھوں نے بھی مجھے اپنا نمائندہ بنایا؛ مگر کوئی معقول پروگرام وہ بھی نہ بتاسکے۔کابل جاکر مجھے معلوم ہوا کہ حضرت شیخ الہند قدس سرہ جس جماعت کے نمائندہ تھے، اس کی پچاس سال کی محنتوں کا حاصل میرے سامنے غیر منظم شکل میں تعمیلِ حکم کے لیے تیار ہے۔ان کو میرے جیسے ایک خادمِ شیخ الہند کی اشد ضرورت تھی۔اب مجھے اس ہجرت اور شیخ الہند کے اس انتخاب پر فخر محسوس ہونے لگا۔میں سات سال تک حکومتِ کابل کی شرکت میں اپنا ہندوستانی کام کرتارہا۔ 1919ء میں امیرحبیب اللہ خاں نے ہندوؤں سے مل کر کام کرنے کا حکم دیا، اس کی تعمیل میرے لیے فقط ایک ہی صورت میں ممکن تھی کہ میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوجاؤں اس وقت سے میں کانگریس کا داعی بن گیا۔ 1922ء میں امیر امان اللہ خاں کے دور میں میں نے کانگریس کمیٹی کابل بنائی، جس کا الحاق ڈاکٹر انصاری کی کوششوں سے کانگریس کے گیا سیشن نے منظورکر لیا۔برٹش ایمپائر سے باہر یہ پہلی کانگریس کمیٹی ہے اور میں اس پر فخر محسوس کرسکتا ہوں کہ میں اس کا پہلا پریسیڈنٹ ہوں۔ افغانستان کے جس علاقہ میں مولانا سندھی داخل ہوئے اس علاقہ کو ”سوریایک“ کہا جاتا ہے۔ حضرت مولانا وہاں سے قندھار پہنچے۔ وہاں سے کابل پہنچے۔ ان کے سفر کا مقصد تھا افغانستان کو ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں اخلاقی اور فوجی امداد دینے کے لیے تیار کرانا۔ مولانا اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کوشش کرتے رہے ۔ اس سلسلہ میں حکومت کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کیا اوران کی مدد سے امیر حبیب اللہ تک رسائی حاصل کی۔ اور اپنے مقصد سفر کے سلسلہ میں ایک عرض داشت پیش کی، جس میں افغانستان کو ہندوستان کی آزادی کے لیے امداد دینے کی درخواست تھی۔ ”مولانا سندھی کے کابل پہنچنے سے پہلے پنجاب اورسرحد کے انگریزی کالج کے طلبہ کا ایک وفد بھی کابل پہنچ چکا تھا ۔ جہاں ان کو نظر بند کردیا گیا تھا۔ طلبہ کے اس وفد کا مقصد تھا خلافت عثمانیہ کی فوج میں شامل ہوکر انگریزوں سے لڑنا ۔ ان طلبہ کو مولانا سندھی نے کابل پہنچنے کے بعد رہا کرایا تھا۔ مولانا سندھی نے ان مہاجر طلبہ کو اپنے حلقہ میں شامل کرلیا۔ ان کو مشورہ دیا کہ وہ ترکی فوج میں شامل ہونے کا ارادہ ترک کردیں۔ اورافغانستان ہی میں رہ کر ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کریں؛ چنانچہ وہ طلبہ تیار ہوگئے۔ اوران کے ساتھ مل کر مولانا سندھی نے ایک عارضی حکومت قائم کی ۔ اس عارضی حکومت کے تین رکن تھے۔ راجہ مہندر سنگھ،مولانا برکت اللہ بھوپالی اور مولانا عبیداللہ سندھی۔ اس عارضی حکومت نے مختلف ممالک میں اپنے وفود روانہ کرکے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی ۔ اسی سلسلہ میں مارچ 1916ء کو ایک وفد روس بھیجا گیا ،اس کے بعد دووفود کو ترکی اور جاپان کے لیے روانہ کیا گیا۔ ترکی جانے والے وفد میں عبدالباری اور شجاع اللہ اور جاپان جانے والے وفد میں شیخ عبد القادر اور ڈاکٹر متھرا سنگھ شامل تھے ۔ جاپان جانے والے وفد کوگرفتار کرکے روسی حکام نے برطانیہ کے حوالے کردیا۔ اور بد قسمتی سے ترکی جانے والا وفد بھی برطانوی حکام کے قبضہ میں آگیا۔ ان کے بیانات سے سارے واقعات انگریزوں کے علم میں آگئے۔ حکومتِ برطانیہ نے حکومتِ افغانستان سے احتجاج کیا، جس کے دباؤ میں آکر حکومتِ افعانستان نے مولوی محمد علی اور شیخ ابراہیم کو ہندوستان جانے کا حکم دے دیا۔ یہ دونوں حبیبیہ کالج کے پرنسپل اور پروفیسر تھے۔“ مولانا عبیداللہ سندھی نے ان حالات سے حضرت شیخ الہند کو مطلع کرنا ضروری سمجھا اور ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑوں پر خط لکھ کر 9 جولائی 1916ء کو عبد الحق کو دیا اور اس کو ہدایت کردی کہ یہ خطوط شیخ عبدالرحیم سندھی کو پہچا دیں ”ریشمی رومال“ کے اس خط کو ”ریشمی رومال تحریک “ یا”ریشمی خطوط تحریک“ کہتے ہیں۔ یہ خطوط کیسے ہاتھ لگے؛ اس سلسلہ میں ریشمی خطوط سازش کیس میں آفیسران کی تحریر ملاحظہ ہو: 14 اگست کو ملتان کے خان بہادر رب نواز خاں نے ملتان ڈویزن کے کمشنر کو زرد ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑے دکھا ئے جن پر خوش خط اردو لکھی تھی۔انھوں نے بیان کیا کہ یہ 4 اگست سے ان کے پاس تھے؛ لیکن کمشنر کی عدم موجود گی کے باعث پیش نہیں کیے جاسکے۔ خان بہادر نے بتاکہ انھیں یہ خطوط عبدالحق سے ملے ہیں، جو پہلے ان کے لڑکوں کا اتالیق تھا اور 1915ء میں ان کے ہمراہ کابل گیا تھا۔ عبدالحق نے رب نواز خاں کو یہ خطوط پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان خطوط کو پہنچا نے کے لیے ہی اس کوکابل سے بھیجا گیا ہے۔جو حیدرآباد سندھ میں عبدالرحیم کو دیے جانے تھے؛ تاکہ وہ ان خطوط کو مدینہ روانہ کردے ۔عبدالحق کو عبدلرحیم سے ان خطوط کی رسیدلینی تھی اور اس رسید کو واپس کابل لے جانا تھا۔ کمشنر ملتان نے اس خط کے بعض حصے پڑھواکر سنے اور انھیں بچوں کی سی حماقت قرار دیا؛ تاہم ان خطوط کو پنجاب سی آئی ڈی کے حوالہ کردیا گیا، پنجاب سی آئی ڈی کے مسٹر ٹومکنس نے ان خطوط کا ترجمہ کرایا اور عبدالحق قاصد پر جر ح کرائی۔“ انگریز آفیسران خطوط کی تحریر کے سلسلہ میں لکھتے ہیں: ”ان خطوط کی تحریر بہت اچھی نہایت صاف اور پختہ ہے۔نہ تو کوئی لفظ کھرچ کر صاف کیا گیا ہے، نہ کہیں کچھ مٹا یا گیا ہے، نہ کسی لفظ کی اصلاح کی گئی ہے۔صرف ونحوکی صرف ایک نہایت معمولی غلطی پوری تحریر میں نظر آتی ہے۔خط کی زبان اگرچہ بعض مقامات پر مبہم ہے۔جیسا کہ بالعموم سازشی تحریروں میں ہوتی ہیں؛لیکن اچھے تعلیم یافتہ؛ بلکہ عالم شخص کی زبان ہے۔“ مولانا عبیداللہ سندھی نے جوریشمی رومال پر خطوط لکھے تھے ’تاریخی اور سیاسی اعتبار سے وہ خطوط نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے پہلا خط شیخ عبد الرحیم سندھی کے نام تھا۔ یہ خط 6 انچ لمبے اور 5 انچ چوڑے ٹکڑوں پرلکھا گیا تھا۔ دوسرا خط حضرت شیخ الہند کے نام تھا۔ یہ خط دس انچ لمبے اور آٹھ انچ چوڑے کپڑے کے ٹکڑے پر لکھا گیا تھا ۔ تیسرا خط 15انچ لمبے اور دس انچ چوڑے ٹکڑے پر لکھا گیا تھا یہ خط شیخ الہند کے نام تھا۔ ریشمی خطوط سازش کیس میں ان خطوط کے سلسلہ میں تفصیل درج ہے، وہ یہ ہے: ”یہ خطوط زرد رنگ کے ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑوں پر ہیں، ان میں پہلا خط شیخ عبدالرحیم صاحب کے نام ہے۔یہ ٹکڑا چھ انچ لمبا اور پانچ انچ چوڑا ہے۔دوسرا خط مولانا کے نام ہے یہ دس انچ لمبا اور آٹھ انچ چوڑا ہے۔تیسرا خط بظاہر پہلے خط ہی کے تسلسل میں ہے۔پندرہ انچ لمبا اور دس انچ چوڑا ہے۔ پہلے اور تیسرے خطوط پر ”عبیداللہ“دستخط ہیں۔عبدالحق نے ہمیں بتایاہے کہ مولوی عبیداللہ نے نے اس کو یہ تینوں ریشمی رومال دیے ہیں۔جن پر اس کی موجود گی میں مولوی عبیداللہ نے خطوط لکھے تھے۔ اس میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ عبیداللہ نے خود ہی یہ خط لکھے تھے۔ عبیداللہ نام کے دستخط عبیداللہ کے ان دستخطوں سے پوری مطابقت رکھتے ہیں۔ جو یہاں ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ ریشمی خطوط کے مضمون ترميم ریشمی خطوط کے مضمون کیا تھے۔اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ”پہلا خط جو شیخ عبد الرحیم سندھی کے نام تھا، اس کا مضمو ن یہ تھا : ”یہ خط حضرت مولانا شیخ الہند کو مدینہ بھیجنا ہے ۔حضرت شیخ الہندکو خط کے ذریعہ بھی اور زبانی بھی آگاہ کردیں کہ وہ کابل آنے کی کوشش نہ کریں ۔ حضرت مولانا شیخ الہند مطلع ہوجائیں کہ مولانا منصور انصاری اس بار حج کے لیے نہ جاسکیں گے۔ شیخ عبد الرحیم کسی نہ کسی طرح کابل میں مولانا سندھی سے ملاقات کریں“ ۔ دوسرا خط شیخ الہند  کے نام تھا جس کے سلسلہ میں ہدایت تھی کہ تحریک کے ممتاز کارکنوں کو بھی یہ خط دکھادیا جائے! اس خط میں رضاکار فوج ”جنود اللہ“ اور اس کے افسروں کی تنخواہوں کا تذکرہ ہے۔ ۱۰۴ افراد کے نام ہیں ۔ جنہیں فوجی تربیت اور ان کے کام کی ذمہ داری کے سلسلہ میں تحریر ہے۔ اس کے علاوہ راجہ مہندر پرتاب سنگھ کی سرگرم ”جرمن مشن کی آمد، عارضی حکومت“ کا قیام روس جاپان اورترکی وفود کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ تیسرا خط حضرت شیخ الہند کے نام تھا ۔ مشہور یہ ہے کہ یہ خطوط مولانا منصور انصاری نے لکھا تھا؛ لیکن عبدالحق ‘ جنہیں یہ خط پہنچانے کے لیے دیا گیا تھا ،کابیان ہے کہ یہ خط مولانا سندھی نے اس کے سامنے لکھا تھا ۔ اس خط کے خاص مضامین یہ ہیں کہ ہندوستان میں تحریک کے کون کون سے کارکن سرگرم ہیں۔ اور کون کون سے لوگ سست پڑگئے ہیں ۔ اس میں مولانا آزاد اور مولانا حسرت موہانی کی گرفتاری کی اطلاع بھی تھی۔ اس میں یہ بھی تحریر ہے کہ میرا حجاز آناممکن نہیں ہے۔ ”غالب نامہ“ تحریک کے کارکنوں کودکھا کر قبائلی علاقہ کے سرداروں کو دکھا دیا گیا ہے۔ حاجی ترنگ زئی اس وقت ”مہمند“ علاقہ میں ہیں ۔مہاجر ین نے مہمند اور ”سوات“ کے علاقہ میں آگ لگا رکھی ہے۔ جرمن ترک مشن کی آمد اور اس کے ناکام ہونے کے اسباب کا تذکر ہ بھی ہے۔مشن کی ناکامی کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ جرمنی اور ترکی کو چاہیے تھا کہ پہلی جنگِ عظیم میں شامل ہونے سے پہلے ایران اورافغانستان کی ضرورت معلوم کرے اور اس کو پورا کرنے کی صورت نکالے۔اس کے علاوہ افغانستان کو جنگ میں شریک ہونے کے لیے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے اس کی تفصیل درج ہے۔ ساتھ ہی حضرت شیخ الہند کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ مدینہ منورہ میں ٹھہر کر ترکی، افغانستان اور ایران میں معاہدہ کرانے کی کوشش کریں۔ اس خط میں حضرت شیخ الہندسے یہ بھی گزارش کی گئی تھی کہ وہ ہندوستان نہ آئیں حکومت نے ان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ “ مولانا سندھی نے یہ خطوط ریشمی رومال پر لکھ کر عبد الحق کو دیے، او راس کو ہدایت کردی کہ یہ خط شیخ عبدالرحیم سندھی کو پہنچادیں ۔ عبدالحق ایک نو مسلم تھا ‘ وہ مہاجر طالب علموں کے ساتھ افغانستان گیا تھا۔ مہاجر طالب علموں میں دوطالب علم اللہ نوازاورشاہ نواز قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں رب نواز کے لڑکے تھے، جو ملتان میں انگریزی ایجنٹ تھا‘ عبد الحق بھی رب نواز کے یہاں رہتا تھا۔ جب یہ خطوط عبدالحق کو پہنچانے کے لیے دیے گئے تو وہ سرحد کے راستے سے پنجاب ہوتا ہوا بھاولپور پہنچا‘ وہاں بھاولپور کے مرشد کے پاس وہ کوٹ رکھ دیا جس کے استر میں وہ ریشمی ٹکڑے سلے ہوے تھے۔ اس کے بعد وہ بھاولپور سے اپنے آقا رب نواز سے ملاقات کرنے کے لیے ملتان چلا گیا۔ اس نے ان دونوں کی خیر یت کے علاوہ تحریک اوراس کی سرگرمی، قبائلی علاقہ اور جیل کے واقعات اور مولانا عبید اللہ سندھی کی سرگرمیوں کی تفصیل بھی بتادی ۔اور دھمکانے پر بھاولپور کے مرشد مولانا محمد کے پاس سے لاکر وہ کوٹ بھی دیا، جس کے استر میں وہ ریشمی خطوط سلے ہوئے تھے، جب رب نواز کو یہ خطو ط ہاتھ لگے تو اس نے غداری کی، اور اس نے فوراً ہی کمشنر سے ملاقات کی، اور ریشمی خطوط پیش کیے اور تمام تفصیلات سے اس کو باخبر کردیا۔ ساتھ ہی عبد الحق کو کمشنر کے پاس لے گیا، اس کے صلہ میں اس کو ”خان بہادر“ کے خطاب سے نوازا گیا۔ اس طرح وہ رب نواز سے خان بہادررب نواز بن گیا۔ گرفتاریاں ترميم 10 اگست 1916ء کو رب نواز کے ذریعہ کمشنر کو مفصل رپورٹ ملی، اور پھر کیا تھا ، اس کی روشنی میں حکومت نے نہایت ہی تیزی سے کاروائی شروع کردی، چھاپے مارے گئے۔ اور گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ اور اس طرح 220 افراد کے خلاف انکوائری اور پوچھ تاچھ کی گئی۔ ۵۹ اشخاص پر حکومت برطانیہ کا تختہ الٹنے کا اور غیر ممالک سے امداد حاصل کرنے کی سازش کا مقدمہ قائم کیاگیا۔ شیخ الہند محمود حسن دیوبندی کو گرفتار کر کے انگریز کے حوالہ کیا گیا تو ان کے ہمراہ چار شاگرد و ان کے قابل رشک تحریک کے سرگرم اراکین مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا وحید احمد مدنی [1] ، مولانا عزیزگل پیشاوری [2] اور سید حکیم نصرت حسین مالٹا بھی تھے۔ شیخ الہند محمود حسن دیوبندی نے کہا انگریزی گورنمنٹ نے مجھ کو تو مجرم سمجھا ہے، تم تو لوگ تو بے قصور ہو اپنی رہائی کی کوششیں کرو تو چاروں نے جواب دیا جان چلی جائے گی مگر آپکی خدمت سے جدا نہیں ہوں گے۔ حکیم نصرت حسین کوروی مالٹا جیل میں ہی وفات [3] پا گۓ، جس کے بعد وہ حکیم نصرت حسین مالٹا کے نام سے مشہور ہوۓ، مولاناسندھی نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے: ” ہندوستان میں گرفتار یاں شروع ہوئیں تو ہم حیران رہ گئے، چند روز بعد شیخ الہند او ران کے ساتھی مکہ معظمہ میں گرفتار کیے گئے۔ ایک عرصہ کے بعد ہمیں حقیقت معلوم ہوئی، اس کے ساتھ ہی کابل کی حالت بھی خراب ہونے لگی، امیر حبیب اللہ کی رائے بھی بدل گئی، وہ نہیں چاہتا تھا کہ افغانستان اس تحریک میں کوئی دلچسپی لے یا ہندوستان کو کسی قسم کی مدد دے۔ اس کے علاوہ انگریزوں کا دباؤ مولانا سندھی اور ان کے ساتھیوں کے سلسلہ میں امیر حبیب اللہ پر بڑھ رہا تھا۔ آخر کار حبیب اللہ نے مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری اور نظر بندی کا حکم جاری کردیا۔ “ ”یہ تینوں خط انڈیا آفس لائبریری لندن کے پولٹیکل اور سکریٹریٹ شعبہ میں من وعن محفوظ ہیں حوالہ جات

Tuesday 13 June 2023

طلاق رجعی کے بعد رجوع کا طریقہ

اگر شوہر نے بیوی کو ایک طلاقِ رجعی دی ہے تو شوہر کو اپنی بیوی کی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، وگرنہ حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش) کے اندر اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے، اگر عدت کے اندر رجوع کرلیا تو نکاح قائم رہے گا ورنہ بعد از عدت نکاح ختم ہوجائے گا، پھر اگر دونوں ساتھ رہنے پر رضا مند ہوں تو نئے مہر اور شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے ایجاب وقبول کے ساتھ تجدید نکاح کرنا ہوگا، رجوع یا تجدیدِ نکاح دونوں صورتوں میں شوہر کو آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔ رجوع کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ شوہر شرعی گواہان کے سامنے زبان سے یوں کہہ دے کہ ’’میں نے رجوع کیا‘‘ تو اس سے رجوع ہوجائے گا۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: "وإذا طلق الرجل امرأته تطليقةً رجعيةً أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض". (الباب السادس فيما تحل به المطلقة وما يتصل به ج:1، ص: 470، ط: ماجديه) وفيه أيضاً: "إذا كان الطلاق بائناً دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها". (كتاب الطلاق، فيما تحل به المطلقة وما يتصل به ج:1، ص: 473، ط: ماجديه) المبسوط للسرخسی میں ہے: "ولو تزوجها قبل التزوج أو قبل إصابة الزوج الثاني كانت عنده بما بقي من التطليقات". (ج:6، ص: 65، ط: دارالكتب العلميه بيروت) فتاویٰ ہندیہ میں ہے: "وهي –الرجعة- على ضربين: سني، وبدعي، فالسني أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك". (الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:468، ط: ماجديه) فق

دوطلاق دیں رجوع نہیں کیا

بیوی کو طلاق کے صریح الفاظ کے ساتھ ایک یا دو طلاق دیں تو ایسی طلاق کو ''طلاقِ رجعی'' کہتے ہیں، طلاقِ رجعی کے بعد شوہر کے لیے اپنی بیوی کی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے، اگر عدت میں قولاًوفعلاً رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا اور نکاح برقرار رہے گا، اور اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی طلاقِ بائنہ سے نکاح ٹوٹ جائے گا، میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا، بعد ازاں اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے الھدایة: (کتاب الطلاق، 394/2) واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقة رجعیة او تطلیقتین فلہ ان یراجعھا فی عدتھا۔ الدر المختار مع رد المحتار: (401/3) وندب اعلامھا بھا۔۔۔۔۔وندب الاشہاد بعدلین (قولہ ولو بعد الرجعة بالفعل۔۔۔۔۔ فالسنی ان یراجعھا بالقول ویشھد علی رجعتھا ویعلمھا

Monday 12 June 2023

بدل خلع

اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف و ناچاقی کا سبب شوہر ہو یعنی شوہرکی زیادتی کی بناپرخلع کی نوبت آگئ تو ایسی صورت میں دیانةً خلع کے عوض میں شوہر کے لیے کچھ لینا جائز نہیں، تاہم اگر وہ پھر بھی مہر واپس لے لیتا ہے تو اس پر اس کی ملکیت ثابت ہوجائے گی، اور اگر نا چاقی و اختلاف کا سبب بیوی ہویعنی بیوی زیادتی کی بناپرخلع ہورہاہے تو ایسی صورت میں شوہر کے لیے مہر کے طور پر دیے گئے مال سے زیادہ وصول کرنا مکروہ ہے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: إنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِ الزَّوْجِ فَلَا يَحِلُّ لَهُ أَخْذُ شَيْءٍ مِنْ الْعِوَضِ عَلَى الْخُلْعِ وَهَذَا حُكْمُ الدِّيَانَةِ فَإِنْ أَخَذَ جَازَ ذَلِكَ فِي الْحُكْمُ وَلَزِمَ حَتَّى لَا تَمْلِكَ اسْتِرْدَادَهُ، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ. وَإِنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِهَا كَرِهْنَا لَهُ أَنْ يَأْخُذَ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَاهَا مِنْ الْمَهْرِ وَلَكِنْ مَعَ هَذَا يَجُوزُ أَخْذُ الزِّيَادَةِ فِي الْقَضَاءِ كَذَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ. ( الْبَابُ الثَّامِنُ فِي الْخُلْعِ وَمَا فِي حُكْمِهِ ،الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي شَرَائِطِ الْخُلْعِ وَحُكْمِهِ، ١ / ٤٨٨، ط: دار الفكر)

خلع کسے کہتے ہیں

شریعت میں عقدنکاح کوختم کرنے کے جوطریقے ہیں ان میں ایک طریقہ خلع بھی ہے،اگرعورت شوہرکے ساتھ رہنے پرراضی نہیں ہے اورشوہراسے طلاق بھی نہیں دیتاتواسے اختیارہے کہ اپناحق مہرواپس کرکے یاکچھ مال بطورفدیہ دے کر شوہرکورضامند کرکے خلع حاصل کرے،جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے جس کاترجمہ یہ ہے: ''سواگرتم لوگوں کو(یعنی میاں بیوی کو)یہ احتمال ہوکہ وہ دونوں ضوابط خداوندی کوقائم نہ کرسکیں گے تودونوں پرکوئی گناہ نہیں ہوگاکہ اس(مال لینے دینے میں )جس کردے کرعورت اپنی جان چھڑالے''۔(بیان القرآن،سورۃ البقرۃ،1/133) خلع کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے،اگردونوں میں سے ایک بھی رضامند نہ ہو توپھرخلع واقع نہیں ہوگا۔جس طرح طلاق کے بعد عدت ہوتی ہےاسی طرح خلع کے بعدبھی عدت لازم ہے،اوروہ عورت جسے ماہوری آتی ہوخلع یاطلاق کی صورت میں جدائی کے بعداس کی عدت تین ماہواریاں ہے،اگرماہواری نہ آتی ہوتوقمری حساب سے تین مہینے عدت گزارنا لازم ہے۔

Sunday 11 June 2023

طواف کی قسمیں

طواف کی سات قسمیں ہیں: (۱) طواف قدوم: یہ صرف حج یا قران کرنے والے آفاقی کے لیے سنت ہے۔ تمتع یا عمرہ کرنے والے کے لیے خواہ وہ آفاقی ہو یا مکی مسنون نہیں ہے۔ ہاں، اگر کوئی مکی میقات سے باہر جاکر صرف حج یا قران کا احرام باندھ کر حج کرے تو اس کے لیے بھی مسنون ہے۔ اور اس کا وقت مکہ مکرمہ میں داخلے سے وقوف عرفہ تک ہے۔ (۲) طواف زیارت:اس کادوسرانام طواف افاضہ بھی ہے. یہ حج کا رکن ہے، اس کے بغیر حج پورا نہیں ہوتا۔ اس کا وقت دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور یام نحر یعنی دسویں سے بارہویں تک کرنا واجب ہے۔ (۳) طواف صدر: یعنی بیت اللہ سے واپسی کا طواف، اس کو طواف وداع بھی کہتے ہیں۔ یہ ہرآفاقی پر واجب ہے، لیکن مکی یا جوآفاقی مکہ مکرمہ کو ہمیشہ کے لیے وطن بنالے اس پر واجب نہیں۔ یہ تینوں طواف حج کے ساتھ مخصوص ہیں۔ (۴) طوافِ عمرہ: یہ عمرہ میں رکن اور فرض ہے۔ (۵) طواف نذر یعنی منت ماننا: یہ نذر ماننے والے پر واجب ہوتا ہے۔ (۶) طوافِ تحیہ: یہ مسجد حرام میں داخل ہونے والے کے لیے مستحب ہے، لیکن اگر کوئی دوسرا طواف کرلیا تو وہ اس کے قائم مقام ہوجائے گا۔ (۷) طواف نفل: یہ جس وقت جی چاہے کیا جاسکتا ہے۔

Saturday 10 June 2023

سخت مجبوری میں بینک سے لون لینا

سودی قرض لینا بنصِّ قطعی حرام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، دینے والے، لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے (مشکوة : ۲۴۴) البتہ اگر کوئی حد درجہ مجبوری ہو کہ اس کے بغیر گذر بسر کا کوئی نظم نہ ہو اور بغیر سود کے قرض کا ملنا دشوار ہو ایسا شخص اگر بقدرِ ضرورت جس سے گذر بسر ہوسکے سودی قرض لے لے تو علماء نے اس کی گنجائش دی ہے۔ یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح کما فی الأشباہ لہذا اگر کرایہ کے مکان میں رہنے کی صورت میں سخت دشواری کا سامنا ہوتو ایسی صورت میں اگر بقدرِ ضرورت ہوم لون لے لیں تو ممکن ہے کہ وبال نہ ہو ؛لیکن حتی الوسع کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اس کی ضرورت پیش نہ آئے «. وفي إجابته، أكد الشيخ محمد عبدالسميع، أمين الفتوى بدار الإفتاء المصرية، إن الاقتراض لشراء منزل ليس حراما بل جائز، موضحا أنه عند اقتراض مبلغ من البنك لشراء منزل فكأن ما حدث هو توسط للسلع، فالمنزل توسط بين الشخص وبين البنك، وإذا توسطت السلعة انتفى الربا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق جنرل سکریٹری(صدرمسلم پرسنل لاء بورڈ) مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ موجودہ دور میں سود کے بغیر قرض حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایسی صورت میں شریعت میں معقول سود کے ساتھ قرض لینے کی گنجائش ہے، لیکن شریعت کی روشنی میں اس کا مزید جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں انہوں نے اپنی رائے پیش کی.ان کے نزدیک بینک سے مکان کے لئے ہوم لون لیناجائزہے.

قیمت سے زیادہ کابل بنانا

کسی کمپنی یا شخص کا ملازم جو کمپنی یا شخص کے لیے کوئی چیز خریدتا ہے تو اس ملازم کی حیثیت وکیل کی ہوتی ہے، اور وکالت کی بنیاد امانت پر ہوتی ہے، چنانچہ وکیل اپنے موکل کے لیے جو چیز جتنے روپے کی خریدے گا اتنے ہی پیسے اپنے موکل سے لے سکتا ہے، اس سے زیادہ پیسے بتاکر لینا جھوٹ اور خیانت پر مبنی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، ملازم کو تو اپنے کام کی تنخواہ ملتی ہے، اس لیے اس کا تو ویسے بھی کمیشن یا اجرت لینے کا کوئی حق نہیں بنتا ہے، لیکن اگر اسے اپنی تنخواہ کم لگتی ہو تو وہ مالک سے پہلے سے طے کرلے کہ میں اگر باہر سے یہ سامان لینے جاؤں گا تو اتنا کرایہ یا اجرت لوں گا، ایسا کرنا جائز ہے، لیکن بغیر کچھ طے کیے زیادہ بل بنواکر دھوکے اور جھوٹ کے ذریعہ سے زیادہ پیسے وصول کرنا جائز نہیں ہے اوردوکان دار کا زیادہ کا بل بناکر دینا بھی ناجائز ہے۔ چوں کہ ملازم کا زیادہ بل بنواکر زیادہ پیسے لینا ناجائز اور گناہ کا کام ہے، اس لیے دکان دار کا اس کے لیے اصل بل سے زیادہ کا بل بناکر اس کو دینا بھی ناجائز اور گناہ کا کام ہے، کیوں کہ یہ گناہ کے کام میں معاونت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگر دکان دار اصل مقدار سے زیادہ پیسوں کا بل بناکر ملازم کو دیتا ہے تو اس سے اس کی کمائی تو حرام نہیں ہوگی، لیکن چوں کہ یہ گناہ کے کام میں معاونت ہے، اس لیے ایسا کرنے سے دکان دار گناہ گار بھی ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ بھی ہوگا، لہٰذا اسے اس طرح کے کاموں سے بچنا چاہیے۔ درر الحکام في شرح مجلة الأحکاممیں ہے: "(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة". (الکتاب الحادي عشر: الوکالة، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل