https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 10 June 2024

بدفالی کااسلام سے کوئی تعلق نہیں

 کائنات کی تمام چیزوں میں تصرف کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، اور اس کی مرضی کے بغیر کسی کو نہ کوئی خیر پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی شر، لہذا اس قسم کے توہمات رکھنا شرعاً درست نہیں،  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توہمات و بد فالی  لینے  کی سختی سے تردید فرمائی ہے،  لہذا ان توہمات سے اپنے ذہنوں کو صاف کرنا اور اللہ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے ان توہمات کی تردید کرنا ضروری ہے۔

شیطان اس طرح کے توہمات وبدعقیدگی ذہن میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان کم زور کرتاہے،  ایسا عقیدہ و توہم پرستی ناجائز ہے، سائلہ کا خیال اور عقیدہ درست ہے، اگر وہ اس گھر میں مجبوری کی وجہ سے دال نہیں پیس سکتی یا اچار نہیں ڈال سکتی تو اسے چاہیے کہ اپنے درست عقیدے پر ثابت قدم رہے، اس صورت میں امید ہے کہ اسے گناہ نہیں ہوگا۔ نیز اسے چاہیے کہ حکمت و تدبیر کے ساتھ گھر والوں کے اس باطل و بے حقیقت توہم کی اصلاح کی کوشش کرتی رہے۔جو اس طرح کا عقیدہ رکھے اور بدشگونی کا شکار ہو وہ ایمانی کم زوری کی وجہ سے قابلِ مؤاخذہ ہوگا

اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ دراصل امت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر کسی کے پاس ایسا مکان ہو جس میں رہناوہ ناپسند کرتا ہو، یاکسی کی ایسی بیوی ہو جس کے ساتھ صحبت و مباشرت اسے ناگوار ہو، یا کسی کے پاس ایسا گھوڑا ہو جو اسے اچھا معلوم نہ ہوتا ہو تو ان صورتوں میں یہ چیزیں چھوڑ دینی چاہئیں، یعنی مکان والا اس مکان سے منتقل ہو جائے بیوی والا اس کو طلاق دیدے اور گھوڑے والا اس گھوڑے کو بیچ ڈالے۔

حدیث کی ان توضیحات کی روشنی میں یہ بات صاف ہوگئی کہ یہ ارشاد گرامی" الطیرة منهى عنها" (بدشگونی لینے کی ممانعت) کے منافی نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر لوگ جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ مکان منحوس ہے یا فلاں عورت یا فلاں گھوڑا سبزقدم(باعث نحوست،منحوس) ہے، تویہ بات یہاں مراد نہیں ہے۔

(مظاہرحق ،کتاب النکاح،الفصل الاول،ج:3،ص:246-247،ط:دارالاشاعت کراچی)

ارشادباری تعالیٰ ہے:

"وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ یَزِیْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ(26) وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ(27)"

ترجمہ:اور ان لوگوں کی عبادت قبول کرتا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ (ثواب) دیتا ہے اور جو لوگ کفر کر رہے ہیں انکے لیے سخت عذاب ہے،اور اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے لیے روزی فراخ کردیتاتو وہ دنیا میں شرارت کرنے لگتے  لیکن جتنا رزق چاہتا ہے انداز (مناسب) سے (ہر ایک کے لیے) اتارتا ہے۔ وہ اپنے بندوں (کے مصالح) کو جاننے والا (اور ان کا حال) دیکھنے والا ہے۔

(تفسیربیان القرآن ،ج؛3،ص:351،ط:رحمانیہ

Saturday 8 June 2024

سنت غیر مؤکدہ بلاعذر چھوڑنا

 سنت مؤکدہ کا پڑھنا لازم ہے اور اسے بلا کسی عذر کے چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ کے پڑھنے پر بہت ثواب ملتا ہے لیکن  بلا عذر چھوڑنے پر کوئی گناہ نہیں ملتا۔ چوں کہ  سنت غیر مؤکدہ نفل نماز کے درجہ میں ہے، اس لیے اس پر نفل نماز والے احکام ہی جاری ہوتے ہیں۔


البحرالرائق میں ہے:

’’سنة مؤكدة قوية قريبة من الواجب حتى أطلق بعضهم عليه الوجوب، ولهذا قال محمد: لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه، وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه.‘‘ [3/ 6]

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر ويستوجب تاركها التضليل واللوم، كما في التحرير، أي على سبيل الإصرار بلا عذر.‘‘ [2/ 12]

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’تركه لايوجب إساءةً ولا عتابًا كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل.‘‘ [1/ 477، دارالفکر]

قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو جلانا

 قرآنِ کریم کے جو اَوراق انتہائی بوسیدہ ہوجائیں اور استفادہ کے لائق نہ رہیں ان کی حفاظت کی بہتر صورت  یہ ہے کہ انہیں کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر گہرائی میں دفن کردیا جائے تا کہ ان کی بے حرمتی نہ ہو، ان  کو جلانا خلافِ ادب ہے۔"درمختار مع ردالمحتار" میں ہے:

" المصحف إذا صار بحال لا يقرأ فيه يدفن كالمسلم"۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطهارة، سنن الغسل (1/177) ط:سعید)

"فتاویٰ ہندیہ" میں ہے:

"المصحف إذا صار خلقا وتعذرت القراءة منه لا يحرق بالنار، أشار الشيباني إلى هذا في السير الكبير وبه نأخذ، كذا في الذخيرة". (الفتاوی الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن (5/323) ط: دار الفکر

مولی علی کہنا

 مولیٰ"  کا لفظ کلماتِ مشترکہ میں سے ہے جس کے متعدد معانی آتے ہیں، ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو ترجیح دینے اور کہنے والے کی مراد سمجھنے کے لیے اس کلمہ کا استعمال، اس کا سیاق و سباق اور  سامعین نے  جملہ میں استعمال کے بعد اس کا  کیا معنی سمجھا ہے، اسے بھی جاننا ضروری ہوتا ہے۔

  •   پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق  "من كنت مولاه فعلي مولاه" والی روایت مختلف طرق سے  مختصر و طویل متن کے ساتھ متعدد کتب حدیث میں منقول ہے، ان تمام روایات کے مجموعہ کے سیاق و سباق اور پس منظر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے "مولا"  کا لفظ  محب، دوست  اورمحبوب کے معنی میں استعمال فرمایا ہے، اور یہی معنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا تھا؛ لہذا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے "مولا"  کا لفظ اسی معنی میں استعمال کرنا چاہیے۔
  • "مولیٰ" کا ایک معنی سردار بھی آتاہے، اس معنی کے اعتبار سے بھی "مولا علی"  کہنا جائز ہوگا۔

تاہم "مولی علی" آج کے زمانے میں ایک گم راہ فرقے کا شعار بن چکا ہے، اور "مولی علی" کے الفاظ کے پیچھے ان کا ایک نظریہ چھپاہوتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد  ان کے خلیفہ بلا فصل تھے وغیرہ ؛ لہذا ان الفاظ کے استعمال  سے اجتناب کرنا چاہیے، خصوصاً ایسے مواقع پر جہاں سننے والے "مولا علی" کے مختلف معانی کے فرق اور پس منظر کو نہ سمجھتے ہوں۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

''حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا، فَنَالَ مِنْهُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ، وَقَالَ: تَقُولُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»''. 

( فضل علی بن ابی طالب، رقم الحدیث:121، ج:1، ص:45، ط:دارالکتب العلمیۃ)

کسی مسلمان کو کافر کہنا

 اگر بطور گالی کافر کہا ہو اورعقیدہ کے اعتبار سے اسے کافر قرار نہ دیا ہو، تو یہ حرام ہے،  کہنے  والا گناہ گار ہوگا، تاہم کافر نہ ہوگا۔ البتہ اگر اس نے کسی مسلمان کو  اعتقاداً کافر قرار دیا ہو اور سامنے والے شخص میں کفر نہ پایا جاتا ہو تو کہنے والا کافر ہوجائے گا، تجدیدِِ ایمان کرنا ضروری ہوگا، شادی شدہ ہو تو تجدیدِ ایمان کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نیا مہر مقرر کرکے نکاح کی تجدید بھی کرنی ہوگی، بصورتِ دیگربیوی حلال نہ ہوگی۔

الأذكار للنووي میں ہے:

"520- فصل [النهي عن قول المسلم: يا كافر] :

1811- يحرم عليه تحريماً مغلّظاً أن يقولَ لمسلم: يا كافر!.

1812- رَوَيْنَا في صحيحي البخاري [رقم: 6103] ، ومسلمٍ [رقم: 60] ، عن ابن عمر رضي الله عنهُما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذَا قالَ الرَّجُلُ لأخِيهِ: يا كافِرٌ! فَقَدْ باءَ بِها أحَدُهُما، فإن كانَ كما قال، وَإِلاَّ رَجَعَتْ عَلَيْهِ".

1813- وَرَوَيْنَا في  "صحيحيهما"  [البخاري، رقم: 6045؛ مسلم، رقم: 61] ( ؛ عن أبي ذرّ رضي الله عنهُ، أنهُ سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولُ: "مَنْ دَعا رَجُلاً بالكُفْرِ" -أوْ قَالَ: "عَدُوُّ اللَّه" - "وَلَيْسَ كَذَلِكَ، إلاَّ حَارَ عَلَيهِ". هذا لفظ رواية مسلم، ولفظ البخاري بمعناه. ومعنى "حَارَ": رَجَعَ.

( كتاب حفظ اللسان، بابٌ في ألفاظٍ يكره استعمالها، فصل النهي عن قول المسلم: يا كافر، ص: 568، ط: الجفان والجابي - دار ابن حزم للطباعة والنشر الطبعة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وَلَوْ قَالَ لِمُسْلِمٍ أَجْنَبِيٍّ: يَا كَافِرُ، أَوْ لِأَجْنَبِيَّةٍ يَا كَافِرَةُ، وَلَمْ يَقُلْ الْمُخَاطَبُ شَيْئًا، أَوْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ:  يَا كَافِرَةُ، وَلَمْ تَقُلْ الْمَرْأَةُ شَيْئًا، أَوْ قَالَتْ الْمَرْأَةُ لِزَوْجِهَا: يَا كَافِرُ وَلَمْ يَقُلْ الزَّوْجُ شَيْئًا كَانَ الْفَقِيهُ أَبُو بَكْرٍ الْأَعْمَشُ الْبَلْخِيّ يَقُولُ: يَكْفُرُ هَذَا الْقَائِلُ،  وَقَالَ غَيْرُهُ مِنْ مَشَايِخِ بَلْخٍ رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى: لَايَكْفُرُ،  وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى فِي جِنْسِ هَذِهِ الْمَسَائِلِ أَنَّ الْقَائِلَ بِمِثْلِ هَذِهِ الْمَقَالَاتِ إنْ كَانَ أَرَادَ الشَّتْمَ وَلَايَعْتَقِدُهُ كَافِرًا لَايَكْفُرُ، وَإِنْ كَانَ يَعْتَقِدُهُ كَافِرًا فَخَاطَبَهُ  بِهَذَا بِنَاءً عَلَى اعْتِقَادِهِ أَنَّهُ كَافِرٌ يَكْفُرُ، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ.

( كتاب السير، الْبَابُ التَّاسِعُ فِي أَحْكَامِ الْمُرْتَدِّينَ، مطلب فِي مُوجِبَاتُ الْكُفْرِ أَنْوَاعٌ مِنْهَا مَا يَتَعَلَّقُ بِالْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ، ٢ / ٢٧٨، 

کیاايمان فطرة كا حصہ ہے

 وقد أشار إلى ذلك القرآن الكريم: {فأقم وجهك للدين حنيفا فطرت الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله}(الروم:30). قال عبد الله بن عباس: "{فطرت الله} دين الله {التي فطر الناس عليها} التي خلق الناس عليها في بطون أمهاتهم". وقال ابن كثير: "..لازم فطرتك السليمة، التي فطر الله الخلق عليها، فإنه تعالى فطر خلقه على معرفته وتوحيده، وأنه لا إله غيره"، وقال ابن عطية: "والذي يعتمد عليه في تفسير هذه اللفظة أي: (الفطرة) أنها الخلقة والهيئة التي في نفس الإنسان، التي هي معدة ومهيئة لأن يميز بها مصنوعات الله، ويستدل بها على ربه ويعرف شرائعه". فكل مخلوق فطر على الإيمان بالله عز وجل، ووجوده سبحانه من غير تفكير أو تعليم، ولا يجهل أو ينكر وجود الله إلا من انتكست فطرته، إذ ما من شيء إلا وهو أثر من آثار قدرته.


وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ما من مولود إلا يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه أو ينصرانه، أو يمجسانه) رواه البخاري. قال السيوطي والقاضي عياض وغيرهما: المراد بالفطرة المذكورة في الحديث: ما أخذ عليهم وهم في أصلاب آبائهم.
وقال ابن كثير في تفسيره لقول الله تعالى: {وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم وأشهدهم على أنفسهم ألست بربكم قالوا بلى شهدنا}(الأعراف:172): "يخبر تعالى أنه استخرج ذرية بني آدم من أصلابهم، شاهدين على أنفسهم أن الله ربهم ومليكهم، وأنه لا إله إلا هو. كما أنه تعالى فطرهم على ذلك وجبلهم عليه، قال تعالى: {فأقم وجهك للدين حنيفا فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله}(الروم:30). وفي الصحيحين عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (كل مولود يولد على الفطرة)". وقال السعدي: "أي: قررهم بإثبات ربوبيته، بما أودعه في فطرهم من الإقرار، بأنه ربهم وخالقهم ومليكهم. قالوا: بلى قد أقررنا بذلك، فإن الله تعالى فطر عباده على الدين الحنيف القيم. فكل أحد فهو مفطور على ذلك، ولكن الفطرة قد تغير وتبدل بما يطرأ عليها من العقائد الفاسدة".

حضور کے والدین کا ایمان

 صحیح بات یہی ہے کہ اس سلسلے میں توقف کیاجائے یعنی خاموشی اختیارکی جائے ،اورآپﷺ کے والدین کے بارے میں کسی قسم کی گستاخی اوربے ادبی سے زبان کومحفوظ رکھاجائے، اس لیے کہ یہ مسئلہ نہ عقائد میں داخل ہے اور ہی ایمان کا جز ہے اور نہ آخرت میں ہم سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔

فتاوی شامی (3/ 184) میں ہے:
'' ولا يقال: إن فيه إساءة أدب، لاقتضائه كفر الأبوين الشريفين مع أن الله تعالى أحياهما له وآمنا به، كما ورد في حديث ضعيف؛ لأنا نقول: إن الحديث أعم بدليل رواية الطبراني وأبي نعيم وابن عساكر: «خرجت من نكاح ولم أخرج من سفاح من لدن آدم إلى أن ولدني أبي وأمي لم يصبني من سفاح الجاهلية شيء»، وإحياء الأبوين بعد موتهما لا ينافي كون النكاح كان في زمن الكفر. ۔۔۔۔۔۔۔ 

وأما الاستدلال على نجاتهما بأنهما ماتا في زمن الفترة مبني على أصول الأشاعرة أن من مات ولم تبلغه الدعوى يموت ناجياً، أما الماتريدية، فإن مات قبل مضي مدة يمكنه فيها التأمل ولم يعتقد إيماناً ولا كفراً فلا عقاب عليه، بخلاف ما إذا اعتقد كفراً أو مات بعد المدة غير معتقد شيئاً.
نعم البخاريون من الماتريدية وافقوا الأشاعرة، وحملوا قول الإمام:لا عذر لأحد في الجهل بخالقه على ما بعد البعثة، واختاره المحقق ابن الهمام في التحرير، لكن هذا في غير من مات معتقداً للكفر، فقد صرح النووي والفخر الرازي بأن من مات قبل البعثة مشركاً فهو في النار، وعليه حمل بعض المالكية ما صح من الأحاديث في تعذيب أهل الفترة بخلاف من لم يشرك منهم ولم يوجد بل بقي عمره في غفلة من هذا كله ففيهم الخلاف، وبخلاف من اهتدى منهم بعقله كقس بن ساعدة وزيد بن عمرو بن نفيل فلا خلاف في نجاتهم، وعلى هذا فالظن في كرم الله تعالى أن يكون أبواه صلى الله عليه وسلم من أحد هذين القسمين، بل قيل: إن آباءه صلى الله عليه وسلم كلهم موحدون؛ لقوله تعالى: ﴿ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِيْنَ ﴾ [الشعراء: 219]۔ لكن رده أبو حيان في تفسيره بأن قول الرافضة ومعنى الآية وترددك في تصفح أحوال المتهجدين، فافهم.
وبالجملة كما قال بعض المحققين: إنه لا ينبغي ذكر هذه المسألة إلا مع مزيد الأدب. وليست من المسائل التي يضر جهلها أو يسأل عنها في القبر أو في الموقف، فحفظ اللسان عن التكلم فيها إلا بخير أولى وأسلم''۔
 فق

Friday 7 June 2024

اجتماعی قربانی سے منافع یااجرت کی چند صورتیں اور ان کاحکم

   اجتماعی قربانی کرنے والے اور اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والے لوگوں کے درمیان معاملہ کی ممکنہ طور پر چند صورتیں ہوسکتی ہیں،  اور ان مختلف صورتوں کی وجہ سے  اجتماعی قربانی کرنے والوں کے لیے اجرت رکھنے یا نہ رکھنے کے حکم میں فرق آئے گا؛ لہذا ن سب کا شرعی حکم  الگ الگ  لکھا جاتا  ہے:

1۔۔     خرید وفروخت کی صورت:

اس کا طریقہ یہ ہے کہ اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے اپنے  پیسوں سے قربانی کا  جانور خرید لیں، اور اس پر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے قبضہ کرلیں، اس کے بعد جو شخص  اجتماعی قربانی میں حصہ لینا چاہے اس  کو  مکمل جانور یا مطلوبہ حصے (مثلاً ایک، دو  یا تین وغیرہ)  اپنا منافع رکھ کرفروخت کردیں، اجتماعی قربانی والے شخص کو بتادیں یا رسید پر لکھ دیں کہ فی حصہ اتنے میں فروخت کیا جاتا ہے،    پھر ان کی طرف سے نائب بن کر ان کی اجازت سے  قربانی کی جائے  اور    قربانی کے بعد خریدار کو  گائے میں سے اس کے حصہ کے بقدر دے دیا جائے۔

2۔۔   وعدہ بیع کی صورت:

         اس کا طریقہ یہ ہے کہ مثلاً اجتماعی قربانی کرنے والوں کے پاس فی الحال جانور خریدنے کا انتظام نہیں  تو وہ  جانور کے بیوپاریوں سے قیمت طے کرلیں اور ان سے وعدہ بیع کرلیں، پھر  اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے وعدہ بیع کرلیں کہ ہم آپ کو ایک حصہ اتنے میں دیں گے (اور اس میں اپنا منافع رکھ لیں جیسا کہ پہلی صورت میں تھا) اور وعدہ بیع کی مد میں پیشگی ان سے رقم لے لیں، پھر آخر میں جانور خرید لیں  اور جانور خریدنے کے بعد  ان کا حصہ ان کی طرف سے ذبح کرلیا جائے۔

3۔۔ وکالت:

اجتماعی قربانی کرنے والوں کی طرف سے جانور خریدا جائے، اور اس صورت میں جو جو اخراجات آتے  ہیں وہ سب بھی ان کو بتا کر ان سے لے لیے جائیں، قربانی کاجانور خریدنے اور اس پرآنے والے تمام اخراجات  کے بعد جو رقم  بچ جائے  وہ حصہ داروں کو واپس کی جائے، اس رقم کو ان کی اجازت  کے بغیر  اپنے پاس رکھ لینا  بالکل ناجائز ہے، ہاں اگر وہ خود ہی خوش دلی  سے  باقی  بچ جانے والی  رقم ادارہ  کو عطیہ کردیں   تو اس صورت میں یہ  رقم لینا درست ہے ۔

وکالت والی صورت میں پہلے سے ہی طے کرکے الگ سے حق الخدمت/سروس چار جز کے نام سے ادارہ کے لیے  اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے طے شدہ اجرت وصول کی جاسکتی ہے

Thursday 6 June 2024

بعد وضو سورہ قدر پڑھنا

 فقراءة سورة القدر بعد الوضوء ليس له أصل في السنة، ففي "كنز العمال": من قرأ في أثر وضوئه إنا أنزلناه في ليلة القدر كان من الصديقين، ومن قرأها مرتين كان في ديوان الشهداء، ومن قرأها ثلاثا يحشره الله محشر الأنبياء.

قال العجلوني في "كشف الخفاء": لا أصل له. انتهى.

وفي السلسلة الضعيفة للشيخ الألبانيقراءة سورة إنا أنزلناه عقب الوضوء لا أصل له. انتهى.

Monday 3 June 2024

وتر میں دعائے قنوت کے بجائے سورہ فاتحہ پڑھنا

 وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے قبل تکبیر کے بعد کوئی بھی دعا جو کلام الناس کے مشابہ نہ ہو پڑھی جاسکتی ہے،  دعاء قنوت  کی  جو مشہور دعا وتر میں پڑھی جاتی ہے (اللھم انا نستعینک ۔۔) وہ دعا  پڑھنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔ اس  لئے اس کی جگہ اگر کسی نے  کوئی سورہ پڑھ لی، یا کوئی دعا پڑھ لی، یا  سورہ فاتحہ پڑھ لی تو سجدہ  سہو واجب نہیں ہوگا اور نماز درست  ہوجائے گی، اس لئے آپ کی نماز درست ہوگئی۔

’’وليس في القنوت دعاء مؤقت، كذا في التبيين. و الأولي أن يقرأ : اللّهم إنا نستعينك و يقرأ بعده اللّهم اهدنا فيمن هديت. و من لم يحسن القنوت يقول: "ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة و قنا غذاب النار"، كذا في المحيط. أو يقول: اللّهم اغفرلنا، و يكرر ذلك ثلاثاً، وهو اختيار أبي الليث، كذا في السراجية  (الھندیۃ، الباب الثامن في صلاة الوتر، ١/ ١١١، ط: دار الفکر)

 (قولہ ویسن الدعاء المشہور) قد منافی بحث الواجبات التصریح بذلک عن النھر، وذکر فی البحر عن الکرخی انّ القنوت لیس فیہ دعاء مؤقت، لانہ روی عن الصحابۃ ادعیۃ مختلفۃ، لانّ المؤقت من الدعا یذھب برقۃ القلب… ومن لا یحسن القنوت یقول۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ ـ الآیۃ۔ وقال ابو لیث یقول: اللھم اغفرلی یکررھا ثلاثا، وقیل یقول یارب ثلاثا، ذکرہ فی الذخیرۃ۔ (شامی 2/7)

وقولہ ویسن الدعاء المشھور) وھو اللھم انا نستعینک ونستھدیک ونستغفرک ونتوب الیک ونومن بک…الخ ویجوز ان یقتصر فی دعا القنوت علی نحو قولہ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ او یقول یا رب ثلاثا او اللھم اغفرلی ثلاثا لانہ غیر مؤقت فی ظاھر الروایۃ مطلقا سواء کان یحسن الدعا اولا (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار (۲۸۰/۱)

Sunday 2 June 2024

سوتیلی ساس سے پردہ

  شادی کی وجہ سے میاں بیوی کے اصول و فروع ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، اصول وفروع کے علاوہ دیگر لوگ غیرمحرم ہوتے ہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے اس کے سسر کی دوسری بیوی(سوتیلی ساس ) نامحرم ہے اور اس سے پردہ ضروری ہے، البتہ اگر وہ اتنی بڑی عمر کی ہے کہ چہرہ کھول کر سامنے آنے میں فتنے کا اندیشہ نہیں ہے تو داماد(سائل) کے سامنے چہرہ  کھولنے کی گنجائش ہوگی۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"معنى قوله تعالى: {وأحل لكم ما وراء ذلكم} [النساء: 24] أي: ما وراء ما حرمه الله تعالى... ويجوز الجمع بين امرأة وبنت زوج كان لها من قبل، أو بين امرأة وزوجة كانت لأبيها وهما واحد؛ لأنه لا رحم بينهما فلم يوجد الجمع بين ذواتي رحم."

(فصل أنواع الجمع بين ذوات الأرحام منه جمع في النكاح، 2/ 263، ط:دارالكتب العلمية)

البحر الرائق  میں ہے:

"وقد جمع عبد الله بن جعفر بين ‌زوجة ‌علي وبنته ولم ينكر عليه أحد."

(فصل في المحرمات بالنكاح، 3/ 105، ط:دارالمعرفة)

الدرالمختار میں ہے:

"و ) حرم الجمع ( وطأ بملك يمين بين امرأتين أيتهما فرضت ذكراً لم تحل للأخرى ) أبداً؛ لحديث مسلم: "لاتنكح المرأة على عمتها"، وهو مشهور يصلح مخصصاً للكتاب، فجاز الجمع بين امرأة وبنت زوجها أو امرأة ابنها أو أمة ثم سيدتها؛ لأنه لو فرضت المرأة أو امرأة الابن أو السيدة ذكراً لم يحرم بخلاف عكسه".

(الدرالمختار مع ردالمحتار،(39/3 ط: سعید)

Friday 31 May 2024

بیوہ،چاربیٹی،اور ایک بھائی کے درمیان وراثت کی تقسیم

 مرحوم  کی جائیداد کی تقسیم کا طریقہ کار یہ ہو گا کہ  مرحوم کی جائیداد میں سے اولاً اُن کی تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرضہ جات ادا کیے جائیں، پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہائی میں سے نافذ کیا جائے، اس کے بعد مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ  کو 24 حصوں میں تقسیم کر کے 3 حصے مرحوم کی  بیوہ  کو، 16 حصے مرحوم کی بیٹیوں کو (ہر ایک بیٹی کو چار حصے) اور مرحوم کے بھائی کو  5 حصے ملیں گے۔

یعنی فیصد کے اعتبار سے ساڑھے بارہ فیصد مرحوم کی بیوہ کو، 16.66 فیصد ہر ایک بیٹی کو اور 20.83  فیصد بھائی کو ملے گا۔

رسالةفي الخضاب لإبن لكمال

 الحمد لله الذي ألهم الحق لذوي الألباب، والصلاة على من أوتي الكتاب، محمد الناطق بالصواب، والسلام على آله وصحبه خير الآل والأصحاب، وبعد:

فهذه رسالة في "الخضاب"، رتبتها على مقدمة وثلاثة أبواب.

 

أما المقدمة: ففي بيان ما لا بدَّ من تقريره أمام الكلام.

 

اعلم أن السنة في اللغة: الطريقة، قال الإمام المطرزي في "المغرب": "ومنها - أي: من السنة بمعنى الطريقة -: الحديث في مجوس هجر: ((سُنُّوا بهم سنَّة أهل الكتاب))؛ أي: اسلكوا بهم طريقهم، يعني عامِلُوهم معاملة هؤلاء في إعطاء الأمان بأخذ الجزية منهم"؛ انتهى كلامه.

 

وأهل الشرع نَقَلوها عن مطلق الطريقة إلى الطريقة المخصوصة، وهي الطريقة المسلوكة في الدين.

 

والسنَّة بهذا المعنى تنتظم الطاعات والعبادات، ولها معنيان آخران اصطلاحيان:

أحدهما: ما ذكر في كتب الأصول على أنها أحد الأركان الأربعة للدِّين، وهي: الكتاب، والسنَّة، والإجماع، والقياس.

 

والسنة بهذا المعنى تنتظم قول النبي عليه السلام وفعله وتقريره، فهي أعم من الحديث؛ لاختصاصه بالقسم الأول من الثلاثة المذكورة، وأخص من السنة بالمعنى الأول الاصطلاحي؛ لانتظامها الأحكام أيضًا دون السنة بهذا المعنى.

 

وثانيهما: ما ذكر في الفروع على أنها أحد الأحكام الخمسة (الإباحة والندب والسنة والوجوب والفرض)، ومغايرة السنة بهذا المعنى للسنة بأحد المعنيين الأولين ظاهرة.

هذا ما عند الحنفية.

 

وأما الشافعية، فهم لا يفرِّقون بين المندوب والمَسنون؛ قال الإمام النووي في "التهذيب": "تُطلَق السنَّة على المندوب، وقال جماعة من أصحابنا في أصول الفقه: السنة والمندوب والتطوع والنفل والمرغب فيه والمستحب: كلها بمعنى واحد، وهو ما كان فعله راجحًا على تركه، ولا إثم في تركه"، إلى هنا كلامه.

 

 وليكن هذا التعميم عند الشافعية على ذُكْرٍ منك، فإنه به يندفع الاشتباه في بعض المواضع.

 

وأما الباب الأول:

ففي بيان أن الخضاب في اللحية مباح أم مسنون أم مستحب:

 اعلم أن السنَّة بمعنى المسنون التي هي أحد الأحكام الخمسة المذكورة فيما سبق: ما واظب عليه (عليه السلام)، ولا خلاف في أنه عليه السلام ما واظب على الخضاب؛ إنما الخلاف في أنه عليه السلام هل فعله مرة؟ قال في المبسوط: "اختلفت الروايات في أن النبي عليه السلام هل فعل ذلك في عمره؟ والأصح أنه عليه السلام لم يفعل" انتهى كلامه.

 

وإذا ثبت أنه عليه السلام ما واظب عليه فقد ثبت أنه ليس بسنَّة، فإن قلتَ: فما وجه قول صاحب الشرعة: "الخضاب سنَّة قولاً وفعلاً"؟

 قلت: أراد بالسنة الطريقة المسلوكة في الدين، لا السنَّة المُصطلَحة، والفرق بينهما واضح عند الخواص، وإن اشتبه على العوام، يرشدك إلى الفرق بينهما انتظام الأولى للمُستحب والمباح؛ بل الواجب والفرض أيضًا.

 

 بخلاف الثانية، فإنها مقابلة للأربعة المذكورة، وكفاك دليلاً قاطعًا على أنه أراد بالسنة المعنى الأول، قوله: قولاً، فإن السنة بالمعنى الثاني لا تثبت بقوله عليه السلام؛ لما عرفت أنه لا بدَّ فيها من المواظبة من النبي عليه السلام عليها، وهي لا تكون إلا بالفعل، هذا على تقدير أن صاحب الشرعة من أئمة الحنفية، وأما على تقدير أن يكون من أئمة الشافعية، فالأمر بيِّن؛ لأن السنة عندهم تنتظم المندوب على ما عرفت فيما تقدم.

 

أما ثبوت سنية الخضاب بالمعنى الأول بقوله عليه السلام، فلا شُبهة فيه؛ لورود الأحاديث الصحيحة في هذا الباب على ما ذُكر في الكتب الصحاح؛ ومنها:

 ما روى أبو هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((إن اليهود والنصارى لا يصبغون فخالفوهم))[1].

 

 ومنها: ما روي عنه أيضًا أنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ((غيِّروا هذا الشَّيب، ولا تشبَّهوا باليهود))[2].

 

 وهذان الحديثان ظاهران في استحباب الخضاب.

 

 وأما ثبوت سُنَّيته بالمعنى الأول فعلاً، فلما روي عن ابن عمر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يَلبس النعال السبتية، ويصفِّر لحيته بالورس والزعفران[3].

 

• والورس: صبغ أصفر، وقيل: نبت طيب الرائحة؛ ذكرَه في "المغرب".

 

 هذا ما عند أهل الظاهر من أصحاب الحديث، وبه أخذ صاحب الشرعة.

 

 والذي عند أهل الرأي والتحقيق ما قدمناه من أن النبي عليه السلام ما اختضب لحيته، والحديث المذكور ليس بنص في هذا الباب؛ لاحتمال ألا يكون ما ذكر من الاختضاب لتغيير الشيب، بل يكون لتطييب الرائحة، وفي عبارة: (يصفر لحيته) دون (يُغير شيبته)، والجمع بين طيبي الرائحة في الورس والزعفران: نوع تأييد لذلك الاحتمال.



وأما الباب الثاني: ففي بيان أنواع الخضاب:

وتفصيل بابه، التفضيل فيما بينها.

 

اعلم: أن الخضاب على خمسة أنواع:

حسن، وأحسن إضافي، وحسن حقيقي، ومكروه، وحرام.

أما الأول: فالخضاب بالحناء والوسمة.

وأما الثاني: فالخضاب بالحناء والكتم.

وأما الثالث: فالخضاب بالصفرة.

 

وإنما كان الثاني أحسن من الأول؛ لأنه أقرب إلى الصفرة، والأول أقرب إلى السواد؛ وذلك لأن الوسمة يشمل الكتم.

 

قال الجوهري: الكَتَم بالتحريك: "نبت يخلط بالوسمة يختضب به"، فالخضاب بالحناء والوسمة يكون أقرب إلى السواد من الخضاب بالحناء والكتم، والخضاب بالحناء والكتم يكون أقرب إلى الصفرة من الخضاب بالحناء والوسمة، وما هو أقرب إلى الأحسن الحقيقي يكون أحسن مما هو أقرب إلى الحرام.

 

وسيأتي نقل الخبر عن خير البشر على وفق هذا التفصيل.

 

وأما الرابع: فالخضاب بالحناء الخالص.

 

وأما الخامس: فالخضاب بالسواد؛ لما روى أبو داود والنسائي عن حديث ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي عليه السلام قال: ((يكون في آخر الزمان قوم يخضبون بالسواد كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة))؛ إسناده جيد[4].

 

ولا خفاء في أن مثل هذا الوعيد لا يكون إلا في حق الحرام، فمراد عامَّة المشايخ في هذه المسألة من الكراهية كراهيةُ التحريم.

 

قال صاحب المحيط: عامة المشايخ على أن الخضاب بالسواد مكروه، وبعضهم جوَّزه، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي كتاب التحري من "المحيط" لرضي الدين السرخسي نقلاً عن "المبسوط" قال عليه السلام: ((اختضبوا بالسواد؛ فإنه أهيب للعدو، وأعجب للنساء))[5].

 

وقال شمس الأئمة السرخسي في أوائل "شرح سير الكبير": فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين الأعداء، كان ذلك محمودًا منه، فأما إذا فعل ذلك في حق النساء، فعامة المشايخ على الكراهة، وبعضهم جوزوا ذلك، وقد روي عن أبي يوسف أنه قال: "كما يعجبني أن تتزين لي، يُعجبها أن أتزين لها" انتهى.

 

فمن رخص فيه يقول: إن الوعيد الشديد الوارد في الحديث في حق من يفعله لا لمصلحة الدين، فلا ينتظم من يفعله لترهيب الأعداء في الجهاد، ومن يفعله لترغيب امرأته وجواريه؛ لأن فيه تحصين النفس، وهو من مهمات مصالح الدين.

 

وأما الكراهة في الخضاب بالحناء الخالص، فكراهة التنزيه؛ ووجه ذلك: ما روى أبو داود والنسائي أن امرأة سألت عائشة رضي الله عنها عن خضاب الحناء الخالص فقالت: "لا بأس ولكن أكرهه؛ كان حبيبي صلى الله عليه وسلم يكره ريحه" انتهى[6].



ومن هنا ظهر وجه ما تقدم من جعلنا الخضاب بالحناء الخالص أدنى درجةً من الخضاب بالحناء والوسمة في الحسن.

 

وقولنا: إنه حسن دون أحسن، هو أن النبي صلى الله عليه وسلم قال فيه: ((ما أحسن هذا!))؛ وذلك فيما روى أبو داود والنسائي عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه قال: مرَّ على النبي صلى الله عليه وسلم رجل قد خضب بالحناء فقال: ((ما أحسن هذا!))، قال: فمرَّ آخر قد خضب بالحناء والكتم فقال: ((هذا أحسن من هذا))، ثم مر آخر قد خضب بالصفرة فقال: ((هذا أحسن من هذا كله))[7] انتهى.

 

هذا ما وعدنا إيراده.

 

قال شمس الأئمة السرخسي في أوائل "شرح السير الكبير" عن عمر رضي الله عنه أنه عليه السلام قال: ((لا تزال هذه الأمة على الشِّرعة من الإسلام حسنة، هم لعدوهم قاهرون، وعليهم ظاهرون، ما لم يصبغوا الشَّعر، ويَلبسوا المعصفَر، ويشاركوا الذين كفروا في صغارهم، فإن فعلوا ذلك كانوا قَمِنًا أن ينتصف منهم عدوهم)).

 

في الحديث:

 بيان النصرة لهذه الأمة ما داموا مشتغلين بالجهاد، وقال الله تعالى: ﴿ إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ ﴾ [محمد: 7].

 

 وفيه بيان أنهم إذا اشتغلوا بالدنيا، واتَّبعوا اللذات والشهوات، وأعرضوا عن الجهاد، يظهر عليهم عدوُّهم.

 

 ومعنى قوله: ((قَمِنًا)) أي: خليقًا وجَديرًا.

 

 كنى به عن اتِّباع الشهوات بأن يصبغوا الشعر - يريد به الخضاب - لترغيب النساء فيهم، فأما نفس الخضاب، فغير مذموم، بل هو من سيماء المسلمين؛ قال عليه السلام: ((غيِّروا الشَّيب، ولا تشبهوا باليهود))، فقال الراوي: رأيت بعد هذا الحديث أن أبا بكر رضي الله عنه على منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم ولحيته كأنها ضرام عرفج - يريد به أنه كان مخضوب اللحية - إلى هنا كلامه.

 

 قوله: "يريد به الخضاب لترغيب النساء فيهم" على ما اختاره عامة المشايخ من عدم الرخصة فيه لترغيبهم؛ قال القاضي الإمام ظهير الدين في فتاواه: "ولا بأس بخضاب اللحية؛ لما رُوي عن أبي بكر رضي الله عنه أنه خضب لحيته حتى صارت كأنها ضرام عرفج"، والضرام: اللهب، والعرفج: الشوكة، وقال الإمام الحاكم الجليل في "المنتقى": "ولا بأس بخضاب الرأس واللحية"، وقال صاحب "المحيط" في كتاب الاستحسان: "ولا بأس بخضاب الرأس واللحية بالحناء والوسمة للرجال والنساء؛ لأن ذلك سبب لزيادة الرغبة والمحبة والمودة بين الزوجين إلى صاحبه"، وقال محمد - رحمه الله - في "المبسوط": "لا بأس في الخضاب في غير الحرب، وهو الأصح".

 

 فإن قلت: أليس عبارة "لا بأس" صريحةً في أنه ليس بمندوب؟ فما وجه ما ذكر في مجمع الفتاوى في فصل قتْل الأعونة من كتاب الحظر والإباحة: "أما بالحمرة، فهي سُنَّة للرجال"، والسنة فوق المندوب؟ قلت: أراد بالسنَّة هنا: السنَّة بمعنى الطريقة المسلوكة في الدين، والسنَّة بهذا المعنى تنتظم ما دون المندوب من المُباحات؛ ما رآه المؤمنون حسنًا.

 

 قال الإمام قاضي خان في باب "ما يكره من الثياب والحلي": "والخضاب والوسمة حسن" انتهى.

 

 ومختار السيد أبو شجاع أنه مستحبٌّ؛ حيث قال في "آداب الملتقط": ويُستحبُّ خضاب الشعر واللحية للرجال"، ولم يفصل بين الحرب وغيره، وهذا في خضاب اللحية والرأس، وأما خضاب اليد والرِّجل، فلا بأس للنساء ما لم يكن فيه تماثيل، ويُكره للرجال والصبيان؛ لأن ذلك تزيين، وهو مباح للنساء دون الرجال، كذا قال صاحب "المحيط" في أوائل كتاب الاستحسان.



وأما الباب الثالث: ففي فضائل الخضاب ومنافعه:

ذكر حسن بن زياد من تلاميذ أبي حنيفة في المجرد: "وبعد ما قال: ولا ينبغي أن يخضب رجله ولا يده، وجوَّز على الرِّجْلِ بعذرٍ؛ استدلالاً بما رُوي عن النبي صلى الله عليه وسلم: ما شكى إليه أحد من وجع الرِّجل إلا قال له: ((اخضب))[8].

 

وقال صاحب "الكشاف" في "الفائق": عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: ((الخضاب بالحناء يَجلو البصر، ويُطيب النكهة، ويطرد الشيطان))[9]، والنكهة: رائحة الفم.

 

قال الشاعر: كأبهر يتنافى بنكهة الجار [؟].

 

وفي حديث شارب الخمر: ((استنكهوه))[10]، قال ابن الأثير في "النهاية": أي شمُّوا نكهة رائحة الفم، هل شرب الخمر أم لا؟

 

قال قاضي القضاة مجد الشريعة المعروف بقاضي مجدٍ لما سُئل عن الخضاب وما جاء في الحديث: ((إذا دُفن الميت وهو مختضب بالحناء أتاه ملَكان، ويقول لكل واحد منهما لصاحبه: ارفق بالمؤمنين، أما ترى آثار الإيمان أو نور الإيمان عليه)): إن هذا الخضاب محمول على اللحية أو على الرِّجل؛ كذا في "جواهر الفتاوى".

 

قوله: إن الخضاب محمول على جواب قاضي مجدٍ عن السؤال عن الخضاب المذكور في الحديث المزبور، يعني: أن مفهوم قوله عليه السلام: ((وهو مختضب بالحناء)): وهو مختضب اللحية أو مختضب الرِّجل بالحناء، ولا خفاء في أن الترديد المذكور يأبى عن أن يراد بنور الإيمان نفس الخضاب؛ إذ لا خلاف في أن الخضاب على الرِّجل ليس بمظنَّة لهذه الفضيلة، فلا بد من التأويل بأن المراد منه ما في موضع الخضاب من آثار الوضوء، هذا ما عند القاضي مجد.

 

والذي عندي: أن المعنى: وهو مختضب اللحية، والمراد من النور: نور الشيب؛ لما روى الترمذي والدارمي عن كعب بن مرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((مَن شاب شيبة في الإسلام، كانت له نورًا يوم القيامة))[11]، وروى أبو داود والترمذي والقزويني عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((لا تَنتفوا الشيب؛ فإنه نور المسلم، مَن شاب شيبةً في الإسلام كتب الله له بها حسَنة، وكفر بها عنه خطيئة، ورفعه بها درجة))[12] انتهى.

 

ولما كان الخضاب على اللحية أمَارة الشيب، قال المَلَك عند رؤيته: أما ترى نور الإيمان؟ فالفضيلة للشَّيب لا للخضاب، والله أعلم بالصواب.

 

ومن فوائد الخضاب:

ما ذكر محمد في "الزيادات"؛ حيث قال: "إذا اختلط موتى المسلمين بموتى الكفار، يُميز بينهم بالسيماء، وسيماءُ المسلمين: الختان، والخضاب، ولبس السواد، وعلامات الكفار: أن يكون غير مختون، وزنار قد شدَّه فوق قبائه، وأبيض الرأس واللحية قد جعل رأسه فضة كما يفعله أهل الذمة"، وقال الشارح: يريد به أنه لم يغيِّر شعره سوادًا بالخضاب، وفي "سير المحيط": "وأما لبس السواد، فإنه عادة بني العباس، كانوا في زمنهم يلبسون السواد يأخذون الناس".

 

قال صاحب "النقاية": ويُستحبُّ أن يلبس المصبوغ أحيانًا خلافًا للمجوس، وإنما قيل: خلافًا للمجوس؛ لأنهم يلبسونه دائمًا، وقيل: لأن بعض المجوس يقال لهم سبيدجامه كانوا يلبسون الأبيض دائمًا.

 

تمت رسالة الخضاب؛ لمولانا أحمد بن كمال باشا.




[1] صحيح البخاري رحمه الله (3462) مسلم رحمه الله (2103).
[2] أخرجه الترمذي رحمه الله (1752) وقال: حسن صحيح، أحمد رحمه الله في مسنده 13 / 274، صححه أحمد شاكر رحمه الله، والألباني رحمه الله.
[3] أخرجه أبو داود رحمه الله (4210) وسكت عنه، قال ابن القطان رحمه الله: ما به مِن ضَعف، حسنه ابن حجر رحمه الله، صححه السيوطي رحمه الله في الجامع، وصححه الألباني رحمه الله.
[4] جوَّد إسناده العراقي رحمه الله في "الإحياء"، وصحَّحه ابن باز رحمه الله في مج فتاواه 4 / 58، 10 / 89، وصحَّحه الألباني رحمه الله.
[5] لم أجده بهذا اللفظ، أخرجه ابن ماجه رحمه الله بلفظ: ((إن أحسن ما اختضبتم به...))، وضعَّفه الألباني رحمه الله، والبزار 6 / 30: ((عليكُم بخضابِ السَّوادِ؛ فإنَّهُ أرهَبُ لَكُم في صدورِ عَدوِّكم، وأرغَبُ لنسائِكُم فيكُم))، وإسناده ليس بالقوي.
[6] أبو داود (4146)، وسكت عنه، وضعَّفه ابن العربي رحمه الله والألباني، وحسنه ابن الملقن رحمه الله في البدر.
[7] أبو داود (4211)، وسكت عنه، جوده الألباني في المشكاة، وضعَّفه في أبي داود، في إسناده حميد بن وهب القرشي الكوفي، وهو منكر الحديث، ومحمد بن طلحة الكوفي، وكان ممن يُخطئ حتى خرج عن حد التعديل.
[8] أبو داود (3858) عن سلمى أم رافع خادمة النبي، والحديث صحَّحه الحاكم ووافقه الذهبي، وهو في الصحيحة للألباني.
[9] لم أجده.
[10] حديث بريدة رضي الله عنه: "جاء ماعز رضي الله عنه..." أخرجه الطبراني رحمه الله في الأوسط 5 / 117، قال الهيثمي 6 / 282: رجاله رجال الصحيح.
[11] ابن العربي "عارضة الأحوزي" 4 / 118، وأخرجه الترمذي (1635) عن عمرو بن عبسة رضي الله عنه، وقال: حسن صحيح غريب، حديث كعب بن مرة رضي الله عنه عند النسائي صحَّحه الألباني في الترغيب والترهيب للمنذري عن عمرو بن عبسة بإسناد صحيح، وعن فضالة رضي الله عنه بسند ثقات فيه ابن لهيعة، وبإسنادين لأبي أمامة أحدهما سنده ثقات، وعن عمر رضي الله عنه، وأخرجه ابن حبان في صحيحه (2983) عن عمر رضي الله عنه.
[12] حسَّنه الألباني في المشكاة.


رابط الموضوع: https://www.alukah.net/sharia/0/79516/%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%A9-%D9%81%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D8%AE%D8%B6%D8%A7%D8%A8-%D9%84%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D9%83%D9%85%D8%A7%D9%84-%D8%A8%D8%A7%D8%B4%D8%A7/#ixzz8boG6z0V1