https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 12 January 2022

قرآنی آیات میں تضاد کی حقیقت

 

اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا [1]قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس آخری کتاب کی صداقت و حقانیت پر جو دلائل دیے، ان میں سے ایک اہم دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید ہر قسم کے تضاد اور اختلاف سے پاک ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے اور اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا یہ اس میں بہت سے اختلافات پاتے۔

جو بھی قرآن مجید میں تفکر و تدبر کرے گا تو قرآن مجید کے اس دعویٰ کی صداقت اس پر واضح سے واضح تر ہوتی چلی گئی۔ قرآن مجید کا تناقض اور اختلاف سے پاک ہونا ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس کا انکار کوئی بھی انصاف پسند آدمی نہیں کرتا۔ قرآن مجید میں زبان و ادب کے مختلف اسالیب اختیار کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی قرآنی اسالیب کی ان نزاکتوں سے واقف نہ ہویا الفاظ کی حقیقت تک رسائی نہ رکھتا ہو یا نسخ کی حقیقت سے نا آشنا ہو تو ممکن ہے وہ بعض مقامات میں تضاد کی کیفیت محسوس کرے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہو گا۔

قرآن مجید کے طلباء کے لیے یہ کوئی اجنبی بات نہیں ہے۔ اس حقیقت کو مفسرین کرام نے خوب واضح کر دیا ہے اور اس فن پر مشتمل کتابیں بھی موجود ہیں کہ قرآن مجید ہر قسم کے تضاد اور تناقض سے محفوظ ہے۔ بات کی حقیقت کو نہ سمجھنے سے شبہات پیدا ہو جاتے ہیں لیکن عام قاری ایسی چیزوں سے کوئی غلط مفہوم اخذ کر سکتا ہے یا ایک اضطراب میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ زیر نظر تحریر کا مقصد ایسے ہی شبہات کا ازالہ ہے تاکہ قرآن مجید کی صداقت و حقانیت پر کوئی کسی بدگمانی میں مبتلا نہ ہو۔ اس مضمون میں اس آرٹیکل کے مندرجات کا ذکر بھی ہو گا اور اس تناظر میں چند دیگر چیزیں بھی ذکر کی جائیں گی تاکہ اس مسئلہ کے تمام بنیادی پہلو بیان کر دیے جائیں۔اقول و باللّٰہ التوفیق علیہ توکلت و الیہ انیب

حضرت مریم علیہا السلام سے کتنے فرشتوں نے کلام کیا؟

حضرت مریم علیہا السلام سے فرشتوں کے کلام کے حوالے سے ان کی تعداد پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ اس سوال کا جواب قرآن مجید سے ہی ملتا ہے۔ایک مقام پرارشادہے:

اِذْ قَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ یامَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ [2]

جب فرشتوں نے کہا اے مریم ! بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْہَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًاسَوِیًّا [3]ہم نے ان کے پاس اپنی روح (جبریل امین) کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کو بشارت صرف جبریل امین نے دی تھی اور مابعد آیات بھی اسی کی مؤید ہیں کہ بشارت ایک فرشتے نے ہی دی اور جبریل امین نے کہا :

اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّک لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا [4]

میں تمہارے ربّ کا (بھیجا ہوا) قاصد ہوں اور (اس لیے آیا ہوں) تاکہ میں تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔

یہاں اََھَبَو احدمتکلم کا صیغہ ہے ۔اس سے واضح ہے کہ بشارت ایک فرشتے نے دی اور یہاں جبریل کی طرف بیٹا دینے کی نسبت مجازی ہے کیونکہ وہ اس کا سبب بن رہے تھے ورنہ بیٹے اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔

ان دونوں آیات میں بظاہر تضاد محسوس ہوتا ہے کہ سورۃ آل عمران میں کہاں فرشتوں نے بشارت دی اور سورۃ مریم میں فرمایا کہ ایک فرشتے نے بشارت دی۔ حقیقت میں یہاں کوئی تضاد نہیں یہ صرف زبان کا ایک اسلوب ہے۔ سورہ مریم سے واضح ہے کہ بشارت صرف جبریل امین علیہم السلام نے دی تھی چونکہ وہ فرشتوں کے سردار ہیں تو ان کی بات گویا سب کی بات تھی جیسے امام کی قرآت سب مقتدیوں کی قرآت ہوتی ہے۔ یہاں الملائکہ کے متعلق علامہ آلوسی فرماتے ہیں :

والمراد من الملائکۃ رئیسھم جبریل [5]

کہ یہاں الملائکہ سے مراد ان کے سردار جبریل ہیں۔

امام رازیؒ فرماتے ہیں:

المراد بالملائکۃ ھھنا جبریل وحدہ [6]

یہ ملائکہ سے مراد صرف جبریل ہیں۔

ممکن ہے جبریل امین اور فرشتوں کی معیت میں آئے ہوں تو سب کا اعتبار کرتے ہوئے جمع کا صیغہ بول دیا اور رئیس و متکلم کا اعتبار کرتے ہوئے واحد کا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک انسان کسی عالم سے کوئی مسئلہ پوچھے اور پھر کہے کہ اس مسئلہ میں علماء یہ کہتے ہیں۔ بہر صورت یہ زبان کاا سلوب ہے تضاد نہیں۔

قوم ثمود کیسے تباہ ہوئی؟

قوم ثمود کی تباہی کے سبب کو بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر فرمایا:

فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِہِمْ جَاثِمِیْنَ [7]

تو انہیں ایک زلزلے نے پکڑ لیا۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَاَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِہِمْ جَاثِمِیْنَ [8]

تو جن لوگوں نے ظلم کیا تھا، انہیں ایک چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ اپنے گھروں میں اس طرح اوندھے پڑھے رہ گئے۔ ایک اور مقام پر فرمایا:

فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُہْلِکُوْا بِالطَّاغِیَۃِ [9]

رہے ثمود تو وہ حد سے بڑھی ہوئی چیز سے ہلاک کر دیے گئے۔

فَاَخَذَتْہُمْ صاعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ [10]

تو انہیں ان کے کرتوتوں کے سبب سراپا ذلت کڑک نے آن پکڑا۔

ان آیات میں بظاہر تضاد محسوس ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں ہلاکت کا سبب زلزلہ، دوسری میں چنگھاڑ، تیسری میں الطاغیۃ اور چوتھی میں صَاعِقَۃ کو قرار دیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کوئی تضاد نہیں بلکہ یہاں ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں۔ ان کی ہلاکت اس طرح ہوئی کہ جبریل امین ؑنے ایک چیخ ماری جس سے ان کے دل سینوں میں پھٹ گئے اور مر گئے۔ جب سخت آواز آئے تو اس سے زمین میں تھر تھراہٹ پیدا ہو جاتی ہے یعنی الصیحۃ، الرجفۃ کا سبب تھی۔ الرجفۃان کی ہلاکت کا سبب قریب اور الصَّیْحَۃُ سبب بعید تھا تو ان کی ہلاکت کا ذکر کبھی سبب قریب سے کیا گیا اور کبھی سبب بعید سے اور ایک قول یہ بھی کہ ان پر اوپر سے چیخ کا عذاب آیا اور نیچے سے زلزلے کا:

الزلزلۃ الشدیدۃ من الارض و الصیحۃ من السماء [11]

زمین سے شدید زلزلہ آیا اور آسمان سے چنگھاڑ کی آواز آئی۔

لأن عذابھم کان بھما معا [12]

کیونکہ ان پر بیک وقت دونوں طرح سے عذاب آیا۔

اس لیے الصیحۃ اور الرجفۃ میں کوئی تضاد نہیں۔ عذاب کا تیسرا سبب الطاغیۃ بیان کیا گیا۔ الطاغیۃ حد سے بڑی ہوئی چیز کو کہا جاتا ہے چونکہ یہ عذاب بہت سخت اور حد سے بڑھا ہوا تھا اس لیے اسے الطاغیۃ سے تعبیر کیا گیا اور ان کی تباہی کا سبب الصاعقہ بھی قرار دیا گیا۔ یہ بھی دراصل اسے عذاب کی تعبیر ہے:فان الصاعقہ ھی الصوت الشدید من الجوّ [13] کیونکہ الصاعقۃ دراصل فضا سے آنے والی سخت آواز کو کہا جاتا ہے۔ تو دراصل ان چیزوں میں تضاد نہیں ہے۔ یہ ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں۔ جیسے اگر کسی کے بیٹے کا نام ڈاکٹر قاری محمد اسلم ہو تو وہ کبھی اسے بیٹا کہہ کر پکارے، کبھی ڈاکٹر صاحب، کبھی قاری صاحب اور کبھی اسلم کہہ کر پکارے تو یہ تضاد نہیں ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں۔

زمین کی تخلیق پہلے ہوئی یا آسمان کی؟

زمین و آسمان کی تخلیق سے متعلق ایک مقام پر فرمایا:

ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاق ثُمَّ اسْتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ [14]

وہ وہی تو ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے تمہارے فائدے کے لیے پیدا کیا۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمان بنا دیا۔

اس آیہ کریمہ سے واضح ہو رہا ہے کہ زمین پہلے بنی اور آسمان بعد میں جبکہ ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذالِکَ دَحٰہَا [15]

اور اس نے زمین کو اس کے بعد بچھایا۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے زمین کی تخلیق آسمان کے بعد ہوئی جبکہ قرآن مجید سے واضح ہوتاہے کہ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی۔ زمین فرش کی طرح اور آسمان چھت کی طرح ہے تو فرش پہلے بنتا ہے اور چھت بعد میں۔ ان آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ نوعیت کا بیان ہے۔ دَحْو سے مراد زمین کی تخلیق نہیں ہے بلکہ اسے بچھانا ہے یعنی زمین کا مادہ پہلے پیدا کیا اور اسے موجودہ حالت میں بچھایا آسمان کی تخلیق کے بعد۔ علامہ زمحشری لکھتے ہیں:

لأ جرم الارض تقدم خلقہ خلق السماء و اما دحوھا فمتاخر [16]

زمین کے مادے کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی اور اس کا پھیلاؤ اس کے بعد ہوا۔

علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:

قیل ان الدحی کان بعد خلق السموات و الارض رواہ علی ابن ابی طلحۃ عن ابن عباس [17]

اور ایک قول یہ ہے کہ زمین کو پھیلایا آسمان کے بعد گیا۔ اسے علی ابن ابی طلحہ ؓنے حضرت ابن عباس ؓسے روایت کیا ہے۔

یعنی زمین بنی آسمان سے پہلے ہے اور اسے پھیلایا آسمان کے بعد گیا ہے۔ حضرت ابن عباس اس تناظر میں فرماتے ہیں:

خلق اللّٰہ الارض بأقواتھا من غیر ان یدحوھا قبل السماء [18]

کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس کی خوراکوں کے ساتھ بغیر پھیلائے آسمان سے پہلے پیدا کیا۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی لیکن اسے پھیلایا آسمان کے بعد گیا۔ اس لیے ان آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ علّامہ عزالدین عبدالسلام کی رائے یہ ہے کہ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہی ہوئی لیکن ان میں اونچ نیچ بہت تھی :

فازال التفسر لیس بعد بناء السماء و اما خلقھا فکان قبل خلق السماء[19]

تو اس کی اونچ نیچ آسمان کی تخلیق کے بعد درست ہوئی اور زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہی ہوئی۔

اور اس کا ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے : والارض ذلک دحھا میں بعد مَعْ کے معنی میں ہے جیسے ایک مقام پر ایک سرکش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا:

عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ [20]

اور اس کے ساتھ وہ بد اصل بھی ہے۔

یعنی اس میں پہلی بیان کردہ برائیاں بھی ہیں اور یہ بھی ہے۔ ایسے ہی پہلے اللہ تعالیٰ نے آسمان کی تخلیق کاذکر کیا اور اس تناظر میں اپنی نعمتیں یاد دلائیں اور پھر فرمایا: والارض بعد ذلک دحھا۔ کہ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے زمین کو پھیلانے کا بھی انعام کیا۔ اس سے ان آیات میں تطبیق واضح ہو جاتی ہے۔

# روزے رکھنا ضروری ہے یا اختیاری؟

اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی دو آیات میں مختلف حکم بیان کیا گیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:

وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ، فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ [21]

اور جو لوگ اس کی طاقت رکھیں (اور روزہ نہ رکھنا چاہیں) تو ایک مسکین کا کھانا فدیہ دیں۔

اور دوسرے کے مقام پر فرمایا:

فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ [22]

اور تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔

ان دونوں آیات میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں یہاں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ روزے داروں کی مختلف حیثیتوں کا ذکر ہے۔ ان آیات کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ رخصت والا حکم ابتدا میں تھا اور یہ بعد والی آیت سے منسوخ ہو گیا۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں یہ آیات نازل ہوئی: وعلی الذین یطیقونہ تو ہم میں سے جو چاہتا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا فدیہ ادا کر دیتا: حتی نزلت الآیۃ بعدھا فنسختھا فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ [23]یہاں تک کہ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی فمن شھد منکم کہ جو تم میں سے جو موجود ہو وہ اس کے روزے رکھے تو اس آیت نے اسے منسوخ کر دیا۔ قاضی بیضاوی لکھتے ہیں:

رخص لھم فی ذلک اول الامر لما امرو بالصوم فاشتد علیھم لانھم لم یتعد ثم نسخ [24]

جب انہیں روزوں کا حکم دیا گیا تو یہ ان پر بہت شاق گزرا کیونکہ وہ اس کے عادی نہیں تھے اس لیے شروع شروع میں فدیہ کی رخصت دی گئی۔ پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا۔

نسخ کی صورت میں دونوں آیات میں تطبیق بلکل واضح ہے۔ ان آیات کی تطبیق میں ایک قول یہ ہے کہ یطیقونہ باب افعال ہے اور اس کا ہمزہ کسی سلب ماخذ کے لیے آتا ہے جیسے اشکیتہ کا مطلب ہے میں نے اس کی شکایت کو دور کیا۔ تو یطیقونہ سے مراد یہ ہے کہ جو اس کی طاقت نہیں رکھتے وہ فدیہ ادا کریں اور باقی لوگ روزے رکھیں تو یہ حکم شیخ فانی کے لیے اور دوسرا حکم عام لوگوں کے لیے ہے ۔ایک قول کے مطابق یطیقونہ سے پہلے لا محذوف ہے لیکن اس صورت لا کو محذوف ماننے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ایک قول کے مطابق یُطَیِّقُوْنَہ، کے معنی میں ہے۔ اس کی ایک قراء ت یہ بھی ہے۔ اس سے مراد ہے:

یکلفونہ اَوْ یتکلفونہ علی جھد منھم وعسروھم الشیوخ والعجائز و حکم ھولاء الافطار و الفیدیۃ وھو علی ھذا الوجہ ثابت غیر منسوخ [25]

جو روزہ بہت تکلیف اور مشقت کے ساتھ رکھ سکتے ہیں اور وہ بوڑھے مرد اور عورتیں ہیں، ان کا حکم یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں اور افطار کریں اور فدیہ ادا کریں۔ اس صورت میں یہ آیت منسوخ نہیں ہو گی۔

اس معاملہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی رائے یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق روزوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ یہاں فدیۃ طعام مسکینسے مراد صدقہ فطر ہے مراد یہ ہے:

و علی الذین یطیقون الطعام فدیۃ ھی طعام مسکین [26]

جو لوگ کھانا کھلانے پر قادر ہوں وہ ایک مسکین کا کھانا صدقہ فطر دیں۔

حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں:

و علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین میں فدیۃ طعام مسکین اگرچہ مؤخر ہے لیکن ترکیب میں بلحاظ مرتبہ مقدم ہے چونکہ یہ مبتدا مؤخر ہے تو یہاں اضمار قبل الذکر صرف لفظاً ہے جو کہ جائز ہے اور چونکہ فدیہ طعام کے معنی میں ہے اس لیے یطیقونہ کی ضمیرکے اس کی طرف لوٹنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان آیات میں کوئی تعارض نہیں بلکہ ان میں واضح تطبیق موجود ہے۔

# زمین و آسمان کتنے دنوں میں بنے؟

اس سوال کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی آیات میں اختلاف ہے۔ کہیں فرمایا گیا کہ زمین و آسمان چھ دنوں میں بنے۔ ارشاد ہوتا ہے:

وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ [27]

اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔

اور یہی بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی بالخصوص درج ذیل مقامات ملاحظہ ہوں:

الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْش۔ اَلرَّحْمٰنُ فَسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا [28]

ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِط یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَاط وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ [29]

جبکہ ایک اور مقام پر فرمایا:

خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہ،ۤ اَنْدَادًاط ذٰلِکَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِہَا وَبٰرَکَ فِیْہَا وَقَدَّرَ فِیْہَآ اَقْوَاتَہَا فِیْۤ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍط سَوَآئً لِّلسَّآئِلِیْنَ ۔ ثُمَّ اسْتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًاط قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ ۔فَقَضٰہُنَّ سَبْعَ سَمٰواتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ [30]

اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دنوں میں بنایا۔ اور اس نے زمین میں جمے ہوئے پہاڑ پیدا کیے جو اس کے اوپر ابھرے ہوئے ہیں اور اس میں برکت ڈال دی اور اس میں توازن سے غذائیں پیدا کیں ۔ یہ سب کچھ چار دن میں ہوا۔ پھر اس نے دو دن میں سات آسمان بنائے۔

ان آیات سے یہ استدلال کرنا کہ زمین و آسمان آٹھ دنوں میں بنے، ایک بے دلیل بات ہے۔ ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو دنوں میں زمین بنائی اور دو دنوں میں اس میں انسانی ضروریات کی چیزیں اور خوراک پیدا کی۔ یہ سب چیزیں چار دنوں میں ہوئیں پھر اس نے دو دنوں میں آسمان بنائے۔ تو یہ سب کچھ چھ دنوں میں ہی بنا اور دوسری آیات میں بھی یہی فرمایا گیا فی اربعۃ ایام سے مراد زمین اور اس کی ضروری اشیا کے ٹوٹل دن ہیں اور وہ چار ہیں جیسے کوئی کہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو چار سال کی عمر میں مکتب میں داخل کر وایا اور چھ سال کی عمر میں سکول میں داخل کروایا تو یہاں چھ سال کی عمر ٹوٹل عمر ہے۔ ایسے ہی فی اربعۃ ایام زمین اور اس کی ضروری اشیاء پیدا کرنے کے کل دن ہیں۔ امام نسفیؒ فرماتے ہیں:

تقول سرت من البصرہ الی بغداد فی عشرۃ و الی الکوفۃ فی خمسۃ عشر ای فی تتمۃ فی خمسۃ عشر [31]

تو کہتا ہے کہ میں بصرہ سے بغداد دس دن میں پہنچا اور کوفہ تک پندرہ دن میں تو یہاں پندرہ دن سے مراد بغداد سے کوفہ تک کی مدت نہیں بلکہ بصرہ سے کوفہ تک کی مدت ہے۔

ایسے ہی فی اربعۃ ایام میں زمین اور اس کی ضروریات کی تخلیق کی کل مدت ہے اور پھر دو دن میں آسمان بنائے۔ یہ ٹوٹل چھ دن ہوئے اور یہی بات قرآن کریم میں دیگر مقامات پر صراحت سے کہی گئی ہے۔ اس سے ان آیات میں تطبیق واضح ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام اس سے پاک ہے کہ اس میں تضاد ہو۔

# ٦۔ بدکاری کی سزا کیا ہو گی؟

قرآن مجید میں بدکاری کی سزا بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر فرمایا:

وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ۔ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً [32]

اور تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنوں میں سے چار گواہ بنا لو تو اگر وہ (بدکاری کی) گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں روک لو یہاں تک کہ ان کی موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے اور راستہ پیدا کر دے۔

اسی تناظر میں ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے:

اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ [33]

بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد دونوں کو سوسو کوڑے لگاؤ۔

ان دونوں آیات کی روشنی میں قرآن مجید میں تضاد کا دعویٰ کرنا فہم قرآن سے نا واقفیت کی دلیل ہے کیونکہ پہلی آیت بدکاری کی سزا کے تناظر میں ابتدائی اور پہلا حکم بیان کرتی ہے جس کی طرف اشارہ آیت کے الفاظ سے ہو رہا ہے کہ فرمایا: اویجعل اللّٰہ لھن سبیلا کہ تم انہیں محبوس رکھنے کی سزا اس وقت تک دو جب تک اللہ تعالیٰ کوئی اور راہ نہ نکال دے۔ یہاںیہ واضح اشارہ پایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مسئلہ میں کوئی اور حکم نازل فرمائے گا۔ پھر سورۃالنّور میں وہ حکم نازل فرما دیا گیا کہ ان دونوں کی سزا سو سو درّے ہو گی۔ سورۃالنساء والی آیت کو سورۃ النور کی اس آیت نے منسوخ کر دیا۔ تو ان دونوں آیات میں تضاد نہیں ہے بلکہ پہلی آیت منسوخ اور دوسری ناسخ ہے۔

جب سورۃالنّور کی یہ آیت نازل ہوئی تو رسول کریمﷺ نے فرمایا:

خذوا عنی خذوا عنی قدجعل اللّٰہ لھن سبیلا البکر بالبکر جلدمائۃ و تغریب عام والثیب و الثیب جلدمائۃ والرجم [34]

مجھ سے احکام لے لو، مجھ سے احکام لے لو۔ اللہ تعالیٰ نے بدکاری کرنے والی عورتوں کا حکم بیان فرما دیا ہے ۔اگر غیر شادی شدہ(مردوعورت) بدکاری کریں تو انہیں سو کوڑے مارو اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دو اور اگر شادی شدہ مرد و عورت بدکاری کریں تو انہیں سو کوڑے مارو اور سنگسار کر دو۔

تو پہلی آیت میں جس حکم کے نزول کا اشارہ تھا ،دوسری آیت میں اس کا تذکرہ ہے۔ محبوس کرنے کی سزا دوسرا حکم نازل ہونے تک تھی۔ علّامہ مظہریؒ فرماتے ہیں:

اللّٰہ سبحان أمر بالحبس الی ان ینزل الحد فیجری علیہ [35]

اللہ تعالیٰ نے قید کرنے کا حکم اس وقت تک دیا جب تک حد کا حکم نازل نہیں ہوا۔ حکم نازل ہونے کے بعد اسی کا نفاذ ہو گا۔

علامہ زمحشریؒ لکھتے ہیں:

کان ذلک عقوبتھن فی اول الاسلام ثم نسخ بقولہ الزانیۃ والزانی[36]

محبوس کرنے کی سزا شروع اسلام میں تھی پھر سورہ النور والی آیت سے یہ حکم منسوخ ہو گئی۔

اس سے واضح ہوتاہے کہ ان آیات میں نسخ ہے، کوئی تضاد نہیں ہے۔

# ٧۔ بیوہ کی عدت کتنی ہے؟

اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر بیوہ حاملہ بھی ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے ورنہ چار مہینے دس دن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا۔[37]

اور تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکیں گی۔

مقالہ کے شروع میں ہم نے قرآن کریم پر تضاد کا بہتان باندھنے والے جس مضمون کا ذکر کیا تھا ، اس میں مضمون نگار کا خیال ہے کہ مذکورہ آیہ کریمہ کا اِس درج ذیل آیہ کریمہ کے ساتھ تضاد ہے:

وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا، وَّصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ [38]

اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنی بیویوں کے متعلق وصیت کر جائیں کہ وہ (شوہر کے گھر سے) نکالے بغیر ایک سال تک (نان و نفقہ کا) فائدہ اٹھائیں گی اور اگر وہ خود نکل جائیں تو وہ قاعدہ کے مطابق اپنے متعلق جو بھی فیصلہ کریں تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ غلبے والا اور صاحبِ حکمت ہے۔

ان دونوں آیات کی روشنی میں قرآن مجید میں تضاد کا دعویٰ کرنا فہم قرآن سے محرومی ہے۔ ایک بہت سطحی اور بے حقیقت بات ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہے کہ پہلی آیت میں عدت چار مہینے دس دن اور دوسری میں ایک سال بیان کی گئی ہے۔ پہلی آیت میں عدت کا بیان اور دوسری میں وصیت کا۔ جب تک میراث کے احکام نازل ہوئے تھے اس وقت تک مرنے والے کو حکم تھا کہ وہ ممکنہ طور پر اپنے مال کے متعلق وصیت کر جائے۔ دوسری آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ قریب الموت خاوند کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر والوں کو وصیت کر جائے کہ وہ اس کی بیوی کو ایک سال تک گھر سے نہ نکالیں۔ وہ ایک سال سکنیٰ اور نفقہ سے فائدہ اٹھاتی رہے یعنی عدت تو چار مہینے دس دن ہی ہے البتہ وہ اپنے خاوند کی موت سے لے کر ایک سال تک سکنیٰ اور نفقہ کا فائدہ اٹھاتی رہے۔ البتہ اگر عدت گزارنے کے بعد خود نکلنا چاہے تو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں۔ تو پہلی آیت میں عدت کا بیان ہے اور دوسری میں نفقہ اور سکنیٰ کے لیے وصیت کا۔ ان میں تضاد والی کوئی بات نہیں ہے۔ یہاں وصیت کا حکم تھا تو احکام میراث نازل ہونے کے بعد یہ آیت منسوخ ہو گئی۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں:

وکان للمتوفی منھا زوجھا نفقتھا و سکنٰھا فی الدارسنۃ فنسختھا آیۃ المواریث [39]

جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس کا سکنیٰ اور نفقہ ایک سال تک اس خاوند کے اہل خانہ پر لازم تھا۔ آیات میراث کے نزول سے یہ حکم منسوخ ہو گیا۔

اگر بالفرض اس سے مراد عدت بھی لی جائے، تب بھی یہ آیت چار مہینے دس دن عدت والی آیت سے منسوخ ہو گی۔ چنانچہ یہاں ان آیات میں تضاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

# ٨۔ اخلاق نبوی اور جہاد

قرآن مجید میں ایک مقام پر حضور اکرمﷺ کے اخلاق عالیہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ [40]

اور یقینا آپ بلند اخلاق پر فائز ہیں۔

اور ایک مقام پر ایک واقعہ کے تناظر میں فرمایا گیا:

عَبَسَ وَتَوَلّٰیۤ ۔اَنْ جَآءَ ہُ الْاَعْمٰی [41]

حضورﷺ چیں بہ جبیں ہوئے اور منہ پھیر لیا، اس لیے کہ آپ کے پاس ایک نا بینا آیا۔

ایک اور مقام پر جہاد کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

فَاِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِط حَتّٰۤی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ [42]

اور جب ان لوگوں سے تمہارا مقابلہ ہو جو کفر پر ڈٹ گئے تو ان کی گردنیں اڑا دو۔ یہاں تک کہ جب ان کی خوب خونریزی کر چکو تو انہیں مضبوطی سے باندھو۔

ان آیات طیبات کے متعلق یہ کہا گیا کہ ان میں تضاد پایا جاتا ہے کیونکہ کسی سے منہ پھیرنا اور خون ریزی کرنا اخلاق کے خلاف ہے۔ جبکہ یہ تینوں آیات اپنی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہیں، ان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ یہ ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں۔

سب سے پہلے ہمیں سمجھنا ہو گا کہ اخلاق کی حقیقت کیا ہے اور اس کا دائرہ کار کیا ہے تاکہ اخلاق کے متعدد مظاہر کی روشنی میں ان آیات میں تطبیق سمجھی جا سکے۔ اخلاق کی حقیقت بیان کرتے ہوئے امام رازیؒ فرماتے ہیں:

الخلق ملکۃ نفسانیۃ یسھل علی المتصف بھا الاتیان بالافعال الجمیلۃ [43]

خلق نفس کی اس صلاحیت کو کہا جاتا ہے کہ جس سے متصف ہونے والے شخص پر اچھے کام بجالانا آسان ہو جاتا ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ خلق اس صلاحیت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان بغیر کسی تکلف اور تردد کے اچھے کام سر انجام دیتا ہے جیسے کان بغیر کسی تردد کے سنتے اور آنکھ بغیر کسی تردد کے دیکھتی ہے، اسی طرح وہ بغیر کسی تردد کے ہر اچھا کام سر انجام دیتا ہے۔

یہ حقیقت بھی ناقابل فراموش ہے کہ اچھے کام کی نوعیت ہمیشہ یکساں نہیں ہوتی اور تمام بندوں کے معاملہ میں اچھا کام ہمیشہ ایک نوعیت کا نہیں ہوتا کچھ انسان دلیل کی بات سمجھتے ہیں، کچھ پیار کی اور کچھ سختی کی۔ ہر ایک سے اس کے مزاج کے مطابق معاملہ کرنا ہی اچھا کام کہلائے گا۔ جو بندہ سختی کی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان سمجھتا ہی نہیں، اس کے ساتھ نرم رویہ ہی رکھ کر اسے مزید بگاڑ دینا اچھا کام کہلائے گا اور نہ ہی اخلاق عالیہ بلکہ یہ اس کے ساتھ زیادتی اور ظلم ہو گا کہ اس پر سختی نہ کر کے اس کے مزید بگڑنے کے اسباب فراہم کیے جائیں۔ انسانوں کو معاف کرنا بہت اچھی چیز ہے لیکن اگر ایک انسان کسی بے گناہ کو قتل کر کے اس کے بچوں کو یتیم کرے اور اس کی بیوی کا سہاگ اجاڑ دے تو اخلاق کا تقاضا اسے معاف کرنا نہیں ہو گا بلکہ اخلاق کا تقاضا اسے سزا دینا ہو گاتاکہ آئندہ کوئی کسی کو قتل کر کے اس کے بچوں کو یتیم نہ کرے کیونکہ قانون الٰہی میں قصاص میں زندگی ہے۔ مجرم کو سزا دیتے وقت جس کے ہاتھ کانپ جائیں وہ رحم دل نہیں بزدل ہوتا ہے۔ مجرم کو سزا دینا اخلاق کے منافی نہیں بلکہ عین اخلاق کا تقاضا ہو گا اور اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسا نرم رویہ رکھنا کہ وہ بگڑتے چلے جائیں، اخلاق نہیں کہلائے گا بلکہ اخلاق کا تقاضا یہ ہو گا کہ نرمی کے موقع پر نرمی اور سختی کے موقع پر سختی کی جائے۔

اس اصولی بک8ات کو سمجھ لینے کے بعد بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ ان تینوں آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔نہ تو حضوراکرمﷺ کا ناراض ہونا اور روئے زیبا پھیرےنا اخلاق کے منافی ہے اور نہ ہی کافروں کی خون ریزی کرنا۔ سورہ عبس والی آیات اس وقت نازل ہوئیں جب رسول کریمﷺ قریش کو دعوت اسلام دینے میں مگن تھے کہ ایک نا بینا صحابی حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم حاضر خدمت ہوئے اور حضورﷺ کو بلند آواز سے پکارنے لگے، جس کی وجہ سے کار ِدعوت میں خلل واقع ہوا۔ اگرچہ ان کا یہ عمل دانستہ نہیں تھا لیکن بہتر ہوتا کہ وہ پہلے رسول اللہﷺ کی مصروفیت کےبابت کسی دوسرے صحابی سے پوچھ لیتے۔ چنانچہ حضور اکرمﷺ کا یہ رویہ ان کی تأدیب کے لیے تھا تاکہ لوگوں پر کارِ دعوت کی حساسیت نمایاں ہو جائے اور یہ بات تأدیب اخلاق کے منافی نہیں ہوتی۔ ماں اگر بیٹے کو ادب سکھاتے تھپڑ بھی مار دے تو کوئی احمق ہی اخلاق کے منافی قرار دے گا کیونکہ تادیب عین اخلاق ہے، اخلاق کے منافی نہیں۔

اسی طرح مشرکین کی خونریزی بھی اخلاق کے منافی نہیں بلکہ عین اخلاق ہے جیسے ایک ماہر ڈاکٹر جسم کا وہ حصّہ کاٹ دیتا ہے جس سے جسم کے باقی حصے کے خراب ہونے کا خدشہ ہو۔ ایسا کرنا رحم دلی کے منافی ہوتا ہے اور نہ ہی اخلاق ِ عالیہ کے بلکہ یہ ایک اعلیٰ اور بلند مقصد کے لیے ہوتا ہے۔ ایسے ہی تمام تر محبتوں اور شفقتوں کے باوجود جو سرکش لوگ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، انہوں نے اللہ کی زمین کو فساد سے بھر رکھا تھا، انہیں سخت سے سخت سزا دینا تاکہ وہ حق پرستی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں پوری انسانیت پر رحم اور عین اخلاق ہے اور اسلامی جہاد سے صرف مسلمانوں کو فائدہ نہیں ہوا بلکہ مخلوقِ خدا کو بادشاہوں کے جبر سے نجات ملی۔ اگر اسلام ان سرکشوں کو سخت سے سخت سزا نہ دیتاتو دنیا اس جبر سے نجات کیسے پاتی؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان آیات میں کوئی تضاد نہیں بلکہ تادیب اور سرکشوں کو سزا دے کر انسانیت کو ان کے شرّ سے بچانا سب اخلاق عالیہ کے ہی مظاہر ہیں۔

# ٩۔ دین میں جبر ہے یا نہیں؟

قرآن مجید میں ارشاد ہے:

لاَۤ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ [44]

دین میں کوئی جبر نہیں۔

اور دوسرے مقام پر فرمایا:

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ، وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ[45]وہ اہل کتاب جو نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ یوم آخرت پر اور جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے اور نہ دین حق کو اپنا دین تسلیم کرتے ہیں، آپ ان سے جنگ کریں۔

ان دونوں آیات کے متعلق بھی تضاد کا دعویٰ کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ پہلی آیت میں فرمایا گیا کہ دین میں جبر نہیں ہے اور دوسری آیت میں فرمایا کہ دین قبول نہ کرنے والوں سے لڑو۔

جب جبر نہیں تو پھر لڑائی کیوں؟ کہنے کو تو کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان آیات میں تضاد نام کی کوئی چیز نہیں۔ دین میں جبر نہ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ دین قبول کرنے میں کس پر جبر نہیں کیا جائے گا اور جہاد کا مقصد انہیں جبراً مسلمان کرنا نہیں بلکہ جہاد کا مقصد یہ ہے کہ وہ دین الٰہی کی برتری کو قبول کریں اور ذمی بن کر جس عقیدے پر چاہیں رہیں اور سورۃ التوبہ کی اسی آیہ کریمہ کے آخری الفاط اسی مفہوم کو خوب واضح کر رہے ہیں کہ فرمایا:

حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ [46]

کہ ان سے اس وقت لڑو جب تک وہ اپنی پستی کا احساس کرتے ہوئے جزیہ نہ دیں۔

اس سے واضح ہوتاہے کہ جہاد کا مقصد جبراً دین قبول کروانا نہیں بلکہ اسلامی ریاست کے غلبہ اور تسلط کر منوانا ہے اور لا اکراہ فی الدین والی آیت تو نازل ہی اس وقت ہوئی تھی کہ بنو اوس کے کچھ بچے قبیلہ بنو نضیر کے ہاں رضاعت پر پلے تھے اور بنو نضیر یہودی تھے۔ ان بچوں نے کہا ہم تو یہودیوں کے ساتھ جائیں گے اور انہیں کا دین قبول کریں گے، تو بنو اوس نے چاہا کہ انہیں جبراً مسلمان کریں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیہ کریمہ نازل فرما کے بنو اوس کو ان بچوں کو جبراً مسلمان کرنے سے روک دیا۔[47]

واضح رہے کہ دین قبول کرنے میں کسی پر جبر نہیں ہے لیکن جب کوئی اپنی مرضی سے دین قبول کر لے تو پھر احکامات پر عمل کرنے میں ان پر سختی کی جا سکتی ہے۔ اس لیے یہ آیت بھی لا کراہ فی الدین کے منافی نہیں ہے:

وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَط خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ [48]

اور یاد کرو جب ہم نے تم سے (تورات پر عمل کرنے کا) عہد لیا اور پھر (نافرمانی کرنے پر)، کوہ طور تمہارے اوپر بلند کر دیا کہ جو (کتاب) ہم نے تمہیں دی اسے مضبوطی سے تھامو۔

اور اس میں جو کچھ ہے اسے یاد رکھو تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ ۔ یہاں بھی دین میں ان پر کوئی جبر نہیں تھا بلکہ انہوں نے عہد اپنی مرضی سے باندھا۔ جب اسے توڑا تو ان پر سختی کی گئی۔ امام رازیؒ فرماتے ہیں:

و المعنی ان اخذ المیثاق کان متقدما فلما نقضوہ بالامتناع عن قبول الکتاب رفع علیھم الجبل [49]

کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے پہلے قبول کتاب کا عہد لیا گیا تو جب انہوں نے عہد توڑا تو پہاڑ ان کے سروں پر معلق کر دیا گیا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین میں جبر نہ ہونے اور حکم جہاد میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ جہاد کا مقصد جبراً دین قبول کروانا نہیں بلکہ کافروں کے فساد کو ختم کرنا ہے۔ قاضی مظہریؒ فرماتے ہیں:

فان الامر بالقتال و الجھاد لیس لاجل الاکراہ علی الدین بل لدفع الفساد من الارض فان الکفار یفسدون فی الارض ویصدون عباداللّٰہ عن الھدی والعبادۃ [50]

جہاد اور قتال کا حکم دین پر جبر کرنے کے لیے نہیں بلکہ زمین سے فساد ختم کرنے کے لیے تھا کیونکہ کافر زمین میں فساد پھیلاتے تھے اور لوگوں کو ہدایت قبول کرنے اور عبادت الٰہی سے روکتے تھے۔

اس سے ان آیات میں تطبیق واضح ہے۔

# ١٠۔ سو مومن دوسو کافروں پر بھاری ہیں یا ہزار پر؟

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِط اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِج وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا[51]

اے نبی (مکرم!ﷺ) مومنوں کو جہاد کی ترغیب دیں اگر تمہارے بیس آدمی ہوں جو ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمہارے سو آدمی ہوں تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آئیں گے۔

اس کے بعد فرمایا:

اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًاط فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ[52]اب اللہ نے تم پر آسانی کر دی او وہ جانتا ہے کہ تمہارے اندر کچھ کمزوری ہے تو (اب حکم یہ ہے کہ) اگر تمہارے ثابت قدم رہنے والے سو ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمہارے ہزار آدمی ہوں تو وہ دو ہزار پر غالب آئیں گے۔

ان آیات کے متعلق بھی تضاد کا دعویٰ کیا گیا اور کہا گیا کہ پہلے کہا کہ سو مومن ہزار کافروں پر غالب آئے گا اور پھر کہا گیا کہ سو مومن دو سو پر غالب آئے گا حالانکہ آیات کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ پہلا حکم یہ تھا کہ مومن اس طرح جرأت و استقامت کا مظاہرہ کریں کہ سو مومن ہزار کافر پر غالب آ جائیں، پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر نرمی کرتے ہوئے تخفیف کر دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری کمزوری سے آگاہ ہے اس لیے تم پر نرمی کی جاتی ہے اور پہلا حکم منسوخ کر کے دوسرا حکم یہ دیا جاتا ہے کہ سو مومن کو دوسو کافروں پر اور ہزار مومن کو دوہزار کافروں پر غالب آنا چاہیے۔ اس دعویٰ تضاد کا بنیادی سبب یہ غلط فہمی ہے کہ یہاں شرط کو خبر سمجھ لیا جائے جبکہ شرط خبر کے معنی میں نہیں، امر کے معنی میں ہے یعنی مراد یہ نہیں ہے کہ اگر سو ہوگا تو ہزار پر غالب آئے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر سو ہو تو اسے ہزار پر غالب آنا چاہیے اور پھر نرمی کرتے ہوئے فرمایا کہ سو کو دو سو پرغالب آنا چاہیے۔

امام بیضاویؒ فرماتے ہیں: شرط معنی الامر [53]کہ یہاں شرط امر کے معنی میں ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آیات میں تضاد نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ پہلی آیت میں ایک سخت حکم تھا، دوسری آیت میں اسے منسوخ کر کے نرم حکم دے دیا گیا۔

# ١١۔ غزوہ بدر میں کتنے فرشتے آئے تھے؟

اس تناظر میں ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۤئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ [54]

جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری پکار کا جواب دیا کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرنے والا ہوں جو لگاتار آئیں گے۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلاَفٍ مِّنَ الْمَلٰۤئِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ[55]

جب آپ مومنوں سے فرما رہے تھے کہ کیا یہ تمہارے لیے کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کر دے۔

پھر ارشاد ہوا:

بَلٰۤی اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَاْتُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِہِمْ ہٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلاَفٍ مِّنَ الْمَلٰۤئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَ [56]

کیوں نہیں! اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور وہ لوگ اچانک تم پر ہلہ بول دیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد فرمائے گا۔

ان آیات میں فرشتوں کی مختلف تعداد کو بھی قرآن میں تضاد کا نام دیا گیا حالانکہ یہاں ایک ترتیب کا بیان اور اللہ تعالیٰ کی پہلے سے بڑھ کر کرم فرمائی کا تذکرہ ہے۔ ان آیات کی تطبیق میں ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک ہزار فرشتے بھیجنے کا وعدہ فرمایا پھر مزید کرم فرماتے ہوئے انہیں تین ہزار کر دیا پھر یہ افواہ پھیلی کہ کرزبن جابر فہری اپنے لشکر کے ساتھ قریش کی مدد کو آرہا ہے چونکہ قریش کی تعداد مسلمانوں سے پہلے ہی تین گنا سے بھی زیادہ تھی ،اس لیے لوگوں میں طبعی طور پر ایک بے چینی سی پیدا ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم صبر و تقویٰ کا مظاہرہ کرتے رہو اور وہ تم پر اچانک حملہ کر دیں تو میں پانچ ہزار فرشتے بھیج دوں گا لیکن چونکہ کر زبن جابر نہیں آیا اس لیے پانچ ہزار فرشتوں کی نوبت ہی نہیں آئی۔ البتہ تین ہزار فرشتے آئے اور دوسرا قول یہ ہےـ:

انہ امدھم اوّلا بھاثم صارت ثلاثہ ثم صارت خمسۃ [57]

کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک ہزار سے مدد فرمائی پھر تین سے اور پھر پانچ ہزار سے ۔

امام بیضاویؒ فرماتے ہیں:

قیل امدھم اللّٰہ یوم بدر اوّلا بالف من الملائکۃ ثم صاروا ثلاثۃ آلاف ثم صاروا خمسۃ آلاف [58]

اور ایک قول یہ ہے کہ بدر کے دن پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتوں سے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ پھر وہ تین ہزار ہو گئے۔ پھر وہ پانچ ہزار ہو گئے۔ اس سے واضح ہوا کہ ان آیات میں ایک ترتیب اور اللہ تعالیٰ کی کرم فرمائی کا بیان ہے، کوئی تضاد نہیں ہے۔

# ١٢۔ گمراہ کون کرتا ہے؟

اس تناظر میں مندرجہ ذیل آیات میں تضاد کا دعویٰ کیا گیا۔ ایک مقام پر شیطان کے متعلق فرمایا گیا:

اِنَّہ، عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ [59]

بے شک وہ واضح طور پر گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا کہ قیامت کے دن شیطان اللہ تعالیٰ سے ایک بھٹکے ہوئے انسان کے متعلق کہے گا۔

رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَكِنْ كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ [60]

اے ہمارے پروردگار! اسے میں نے گمراہ نہیں کیا بلکہ یہ خود پرلے درجے کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَمَنْ یَّہْدِ اللّٰہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِہٖ [61]

اور جسے اللہ ہدایت دے وہی سیدھی راہ چلنے والا ہے اور جنہیں اللہ گمراہ کر دے تو اللہ کے سوا تمہیں ان کا کوئی مددگار نہیں مل سکتا۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہ، سَبِیْلاً [62]

اور جسے اللہ گمراہ کر دے تم اس کے لیے کوئی راہِ راست نہیں پاؤ گے۔

ان آیات طیبات کے متعلق کہا گیا کہ ان میں تضاد ہے۔ ایک جگہ فرمایا گیا شیطان گمراہ کرتا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا انسان خود گمراہ ہوتا ہے اور پھر فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے۔ یہ دعویٰ ایک بنیادی غلط فہمی پر مبنی ہے کہ یہاں حقیقت اور سبب کی نسبت کو فراموش کیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہر کام کا فاعل حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن نظام الٰہی میں ہر کام ایک سبب کے تحت ہوتا ہے، اس لیے گمراہی کی نسبت کبھی حقیقت کی طرف کی جاتی ہے اور کبھی سبب کی طرف جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّکُوْرَ [63]

کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹا دیتا ہے۔

اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ بیٹے اور بیٹیاں اللہ ہی عطا کرتا ہے۔ لیکن جب جبریل امین حضرت مریم کے گریبان میں پھونک مار کے انہیں حضرت عیسیٰ علیہا السلام کی بشارت دینے آئے تو چونکہ وہ بیٹے کی پیدائش کا سبب بن رہے تھے۔ اس لیے بیٹا دینے کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لیے بھیجا ہے۔

لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا [64]

تاکہ میں تجھے پاکیزہ بیٹا دوں۔

تو ان دونوں آیات میں کوئی تضاد نہیں یھب میں نسبت حقیقی کا ذکر ہے اور لاھب میں سبب کی طرف نسبت کرتے ہوئے نسبت مجازی کا بیان ہے۔ اسی طرح مذکورہ چاروں آیات میں بھی کوئی تضاد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر کام کا فاعل حقیقی ہے۔ قانون الٰہی کے مطابق جو بندہ گمراہی کی راہ اختیار کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دیتا ہے۔ چونکہ گمراہی کا سبب شیطان بنتا ہے اور وہ انسان کو وسوسہ اندازی اور دیگر کئی طریقوں سے گمراہی کی ترغیب دیتا ہے۔ اس لیے گمراہی کی نسبت کبھی شیطان کی طرف کر دی جاتی ہے اور چونکہ انسان شیطانی وسوسوں کو قبول کر کے گمراہی کا راستہ اختیار کرتا ہے اس لیے گمراہی کی نسبت کبھی انسان کی طرف کر دی جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کی نسبت فاعل حقیقی ہونے کی جہت سے ہے اور شیطان یا انسان کی طرف اس کا سبب ہونے کے ناطے اس لیے ان ایات میں تضاد کا دعویٰ ایک بے حقیقت بات ہے۔

# ١٣۔ کیا اللہ تعالیٰ تمام گناہ بخش دے گا؟

اس تناظر میں ان دو آیات میں تضاد کا دعویٰ کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا [65]

کہ بے شک اللہ تعالیٰ سب گناہ معاف فرما دے گا۔

جبکہ دوسرے مقام پر فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئَ [66]

بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو معاف نہیں کرتا کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے اور اس سے کم ہر گناہ کی جس کے لیے چاہتا ہے بخشش فرما دیتا ہے۔

ان آیات سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا کہ پہلی آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف فرما دیتا ہے اور دوسری آیت میں فرمایا کہ وہ شرک معاف نہیں کرتا تو اس لیے ان دونوں آیات میں تضاد ہے( نعوذ باللّٰہ من ذلک)

حقیقت یہ ہے کہ یہاں کوئی تضاد نہیں۔ پہلی آیت کا تعلق توبہ سے ہے کہ اگر کوئی توبہ کر لے تو توبہ کے سبب اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دے گا اور دوسری آیت کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی بغیر توبہ کے مر جائے تو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس کے بھی جو گناہ چاہے معاف کر دے گا لیکن شرک معاف نہیں فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ شرک کے گناہ کو بغیر توبہ کے معاف نہیں کرتا۔ مفسر الصاوی فرماتے ہیں:

ای ان مات من غیر توبۃ [67]

یعنی اگر کوئی بغیر توبہ کے مر گیا تو اس کا شرک کا گناہ معاف نہیں ہو گا۔ مراد یہ ہے کہ شرک کے سوا باقی گناہ توبہ سے بھی معاف ہو جاتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو بغیر توبہ کے محض اپنے فضل سے بھی معاف فرما سکتا ہے لیکن شرک کا گناہ اللہ تعالیٰ بغیر توبہ کے معاف نہیں کرتا۔ اس سے ان آیات میں تطبیق واضح ہے۔

  1. ١٤۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں بدلی جا سکتی ہیں یا نہیں؟

اس تناظر میں بھی دو آیات سے حسبِ منشا استدلال کر تے ہوئے قرآن مجید میں تضاد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔

پہلی آیت ہے:

وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلاًط لاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ [68]

اور تمہارے ربّ کی باتیں سچائی اور انصاف میں مکمل ہو گئیں اور اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔

مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا اَوْ مِثْلِہَا [69]

ہم جب بھی کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی آیت لے آتے ہیں۔

ان آیات سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ پہلی آیت میں کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی باتیں بدلتی نہیں اور دوسری آیت میں کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی باتیں بدل جاتی ہیں ، حقیقت سے بالکل محروم اور انتہائی سطحی سی بات ہے کیونکہ پہلی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن مجید ہر لحاظ سے ایک مکمل اور محفوظ کتاب ہے اور کوئی اس میں تبدیلی نہیں کر سکتا۔ امام رازیؒ فرماتے ہیں:

والمراد بالکلمۃ القران أی تم القرآن فی کونہ معجزا دالا علی صدق محمد [70]

یہاں کلمہ سے مراد قرآن مجید ہے یعنی قرآن مجید اپنے معجزہ ہونے اور رسول کریم کی صداقت پر دلیل ہونے میں مکمل ہو گیا۔

جبکہ دوسری آیت سے مراد نسخ ہے، جس سے مراد ایک حکم شرعی کا دوسرے حکم شرعی سے بدلنا ہے جیسے مریض کی حالت بدلنے سے طبیب اس کی دوا تبدیل کر دیتا ہے۔ ایسے ہی جیسے جیسے لوگوں میں دین پختہ ہوتا گیا،اللہ تعالیٰ نے کچھ احکام بدل دیے جیسے پہلے صرف شراب کا نقصان واضح کیا گیا لیکن اسے حرام قرار نہیں دیا گیا۔ جب لوگوں میں دین راسخ ہوا تو شراب کو حرام قرار دے دیا گیا۔ ایسے ہی کسی سخت حکم کو نرم حکم سے بدل دیا گیا جیسے پہلے حکم تھا کہ سو مومن ہزار کافروں پر غالب آئیں اور پھر نرمی کرتے ہوئے فرمایا کہ سو مومن دو سو مومنوں پر غالب آئیں۔ [71]

تو نسخ کو کلمات کی تبدیلی قرار دینا علوم قرآنی سے مکمل نا واقفیت کی دلیل ہے اور ان آیات میں تضاد نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ۔

  1. ١٥۔ ابلیس جنّ تھا یا فرشتہ؟

مندرجہ ذیل دو آیات کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ قرآن کریم کے بیان میں اس سوال کے جواب میں تضاد ہے کہ ابلیس جنّ تھا یا فرشتہ۔ پہلی آیہ کریمہ یہ ہے:

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۤئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّآ اِبْلِیْسَ [72]

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔

اور دوسرے مقام پر شیطان کے متعلق فرمایا:

کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ [73]

وہ جنّات میں سے تھا تو اس نے اپنے ربّ کے حکم کی نافرمانی کی۔

ان آیات کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ قرآن مجید میں ایک مقام پر ابلیس کو فرشتہ کہا گیا اور دوسرے مقام پر جنّ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بے دلیل بات ہے۔ شیطان کی اصل کے بارے میں اگرچہ طویل مباحث موجود ہیں لیکن بعض اصولی باتوں کی روشنی میں حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ فرشتوں کے متعلق یہ واضح فرمایا گیا:

لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ [74]

وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو انہیں حکم دیا جائے وہی بجا لاتے ہیں۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے اور پھر کان من الجنّ تو نص ہے کہ وہ جنّوں میں سے تھا۔ یہاں تک سطورِ بالا میں مذکور سورۃ البقرہ کی آیت٣٤ کا تعلق ہے تواس میں شیطان کا فرشتوں سے استثناء کیا گیا ہے۔ وہاں یہ تو نہیں کہا گیا کہ وہ فرشتوں میں سے تھا، صرف یہ فرمایا گیا کہ فرشتوں نے سجدہ کیا، ابلیس نے نہیں کیا۔ استثناء تو متصل بھی ہو سکتا ہے اور منقطع بھی۔ تو یہاں واضح نصوص کا تقاضا ہے کہ اس سے مراد مستثنیٰ منقطع لیا جائے کہ یہ فرشتوں میں سے نہیں تھا لیکن چونکہ فرشتوں کے ساتھ عبادت کرتا تھا تو جو حکم اعلیٰ کو دیا جائے ،ادنیٰ اس میں بدرجہ اولیٰ شامل ہوتا ہے۔ جس کی تعظیم بادشاہ کرے گا، رعایا پر اس کی تعظیم بدرجہ اولیٰ ثابت ہو گی۔چنانچہ جب فرشتوں کو حکم دیا گیا تو شیطان بدرجہ اولیٰ اس حکم میں شامل ہو گیا۔ اس آیت سے اس کی سرکشی ثابت ہوتی ہے۔ اس کا فرشتوں میں سے ہونا ثابت نہیں ہوتاکیونکہ یہاں مستثنیٰ متصل نہیں منقطع ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سجدہ کے حکم میں جنّات بھی شامل ہوں۔

لکنہ استغنی عن ذکرھم بذکر الملائکۃ لان الاکابر لما امروا بالسجود فالاصاغر اولیٰ [75]

لیکن فرشتوں کے ذکر کے بعد جنون کا الگ ذکر کرنے کی ضرورت نہ رہی کیونکہ جب اکابر کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اصاغر اس میں بدرجہ اولیٰ شامل ہو گئے۔

اس بحث میں ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں:

و الراجح لدی القول الاوّل لصریح آیۃ کان من الجن والأنّ ابلیس قدعصی امر ربہ و الملائکۃ لا یعصون اللّٰہ ما امرھم [76]

اور میرے نزدیک راجح قول پہلا ہے کہ وہ جنوں میں سے تھا کیونکہ اس پر صریح آیت دلیل ہے کہ وہ جنوں میں سے تھا اور ابلیس نے تو اپنے ربّ کی نافرمانی کی اور فرشتے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ جنوں میں سے تھا اور ان آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

# ١٦۔ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی یا پانی سے؟

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا [77]

اور وہ وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ [78]

وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔

ان آیات کی روشنی میں بھی قرآن میں تضاد کا دعویٰ کیا گیا کہ ایک مقام پر کہا کہ انسان کی تخلیق پانی سے ہوئی اور دوسرے مقام پر فرمایا کہ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی حالانکہ ان آیات میں تضاد نام کی کوئی چیز بالکل نہیں ہے کیونکہ حضرت آدم علیہا السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی اور پھر تمام انسانوں کی تخلیق قطرہ آب سے ہوئی یہاں خلقکم سے مراد ہے ۔

بخلق ابیکم آدم منہ [79]

تمہارے باپ آدم علیہا السلام کو مٹی سے پیدا کر کے۔

یعنی خَلَقَکُم ْسے مراد ہے خلق اباکم کہ تمہارے باپ آدم علیہا السلام کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر بعد میں نسل انسانی قطرہ آب سے چلی یعنی پہلی آیت میں عام انسانوں کی تخلیق کا ذکر ہے جو مشاہداتی طور پر بھی بالکل واضح ہے اور دوسری آیت میں تخلیق آدم علیہا السلام کا ذکر ہے جس کی خبر قرآن و سنت میں دی گئی کہ انہیں مٹی سے پیدا کیا گیا۔

ان آیات میں تطبیق کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان کی تخلیق قطرہ آب سے ہوتی ہے جو خوراک سے بنتا ہے اور خوراک مٹی سے پیدا ہوتی ہے تو قطرہ آب انسان کی تخلیق کا سبب ِقریب ہے اور مٹی سببِ بعید۔ تو پہلی آیت میں سببِّ قریب کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں سببِ بعید کا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

# ١٧۔ شراب شیطانی کام ہے یا نعمت؟

قرآن مجید میں ایک مقام پر فرمایا گیا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ [80]

اے ایمان والو! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر، یہ سب نجس شیطانی کام ہیں، ان سے بچو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

اور دوسرے مقام پر فرمایا:

وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْہُ سَکَرًا وَّرِزْقًا حَسَنًا [81]

اور کھجور کے پھلوں اور انگوروں سے بھی (ہم تمہیں ایک مشروب دیتے ہیں) جس سے تم شراب بھی بناتے ہو اور پاکیزہ رزق بھی۔

ان دونوں آیات سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا کہ قرآن مجید کا بیان متضاد ہے کہ ایک جگہ شراب کو شیطانی کام کہا اور دوسری جگہ شراب کا ذکر نعمتوں میں کیا۔ یہاں تضاد قطعاً نہیں ہے۔ شراب شیطانی کام ہی ہے۔ یہ حرام بھی ہے اور نجس بھی۔یہاں تک دوسری آیت کا تعلق ہے کہ وہاں شراب کا ذکر نعمتوں کے ساتھ کیا گیا ہے تو مفسرین کرام نے اس کے تین اسباب بیان کیے ہیں:ان کے نزدیک یا تو یہ سورت مکی ہے اور شراب مدینہ منورہ میں حرام ہوئی چونکہ اس وقت تک شراب حرام نہیں تھی، اس لیے اس کا ذکر کیا گیا لیکن اسے رزق حسن کے مقابل ذکر کے اشارہ کر دیا کہ شراب رزق حسن نہیں ہے، اس لیے اس سے بچو۔ یہ امام شعبیؒ اور امام نخفیؒ کی رائے ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان یجمع بین العتاب والمنتۃ [82]یعنی یہاں عتاب اور احسان دونوں جمع کیے گئے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تو تمہیں کھجور اور انگور کے پاکیزہ پھل دیتے ہیں اور تم اس سے شراب بنانے لگتے ہیں؟ اور اسی سے پاکیزہ چیزیں بھی بناتے ہو۔ چنانچہ شراب کا تعلق عتاب سے ہے اور رزق حسن کا احسان سے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اگرچہ سکر کا لفظ عموماً شراب کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن بہرحال یہ خمر کا مترادف نہیں ہے ۔ اس سے مراد کوئی میٹھا رس وغیرہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہاں سکر سے مراد شراب نہیں ہے بلکہ نبیذ ہے اور اس سے مراد ہے:

عصیر العنب والذبیب والتمراذا طبخ حتی یذہب ثلثاہ ثم۔ یترک حتی یشتد وھو حلال عند ابی حنیفۃ و ابی یوسف الی حد السکر [83]

انار، انگور اور کھجور کا رس جب اسے اتنا پکایا جائے کہ اس کا دو تہائی ختم ہو جائے پھر اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ اس میں سختی آ جائے تو یہ امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف کے نزدیک اتنی مقدار میں حلال ہے جب تک وہ نشہ کی حد کو نہ پہنچے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان دونوں آیات میں کوئی تضاد نہیں۔

# ١٨۔ کیا بیویوں میں انصاف ممکن ہے؟

قرآن کریم میں واضح فرمایا گیا ہے کہ ایک انسان کو چار عورتوں تک نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ پھر فرمایا:

فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ [84]

ہاں! اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (ان بیویوں میں) انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک عورت ہی سے نکاح کرو یا وہ کنیزیں جو تمہاری ملکیت ہیں۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْۤا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ [85]

اور تم بیویوں میں انصاف نہیں کر سکتے اگرچہ تم جتنا بھی چاہو۔ البتہ کسی ایک کی طرف پورے پورے نہ جھک جاؤ کہ دوسری درمیان میں لٹکی ہوئی چیز کی طرح ہو جائے۔

ان دونوں آیات کے متعلق کہا گیا کہ ان میں قرآن مجید کا بیان مختلف ہے کہ ایک مقام پر کہا کہ بیویوں میں عدل کر سکتے ہو تو نکاح کرو اور دوسرے مقام پر کہا کہ تم ان میں ہرگز عدل نہیں کر سکتے تو پھر چاربیویوں تک نکاح کرنے کی اجازت کا مقصد کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان آیات میں کوئی تضاد نہیں بلکہ یہ حکم عین فطرتِ انسانی کے مطابق ہے کیونکہ انسان بعض چیزوں میں انصاف کر سکتا ہے اور بعض میں نہیں۔ ایک انسان کے لیے یہ تو ممکن ہے کہ وہ نفقہ، سکنیٰ اور دیگر معاملاتِ حیات میں سب بیویوں میں انصاف کرے اور سب کو برابر نفقہ اور سکنیٰ وغیرہ دے لیکن وہ یہ نہیں کر سکتا کہ وہ دو بیویوں سے برابر کی محبت کرے۔ پہلی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تم چار عورتوں سے نکاح اس وقت کر سکو گے جب نفقہ، سکنیٰ اور وقت وغیرہ میں برابری کرو اور دوسری آیت کا مقصد یہ ہے کہ تم قلبی رجحان اور محبت میں کبھی بھی برابری تو نہیں کر سکو گے البتہ حتیٰ الامکان کوشش ضرور کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری پورا جھکاؤ ایک کی طرف ہو جائے اور دوسری درمیان میں لٹکتی رہے کہ نہ تو تم اسے بیوی کے حقوق دو اور نہ ہی آزاد کرو۔

یہ حکم فطرت انسانی کے عین مطابق ہے ۔ان دونوں باتوں کو متضاد کہنا انسانی فطرت سے نا واقفیت کی دلیل ہے۔ عدل کرنے کا حکم نان و نفقہ اور سکنیٰ کے متعلق ہے اور عدل نہ کر سکنے کا تعلق قلبی جھکاؤ اور محبت سے ہے۔ آیت کریمہ میں خود اس کی وضاحت کر دی گئی کہ ان معاملات میں تم انصاف تو نہیں کر سکو گے البتہ ممکنہ حد تک کوشش ضرور کرو ایسا نہ ہو کہ ایک تو بیوی بن کے رہے اور دوسری درمیان میں لٹکتی رہے، نہ اسے بیوی کے حقوق دو اور نہ ہی آزاد کرو۔ چونکہ انسان تکلیف مالا یطاق کا مکلف نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا [86]

اللہ تعالیٰ کسی بھی انسان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر حکم نہیں دیتا۔

اس لیے دیگر معاملات میں انصاف نکاح کی شرط ہے لیکن محبت میں ممکنہ حد تک انصاف کرنے کا حکم ہے۔

وقیل معناہ ان تعدلوا فی المحبۃ [87]

اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں عدل نہ کر سکنے سے مراد محبت میں عدل ہے۔

چنانچہ رسول کریمﷺ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کرتے تھے:

ھذہ قسمتی فیما املک فلا تلمنی فیما تملک ولا املک [88]

اے اللہ! بیویوں کے درمیان یہ میری وہ تقسیم جو میرے اختیار میں ہے اور تو اس چیز میں مجھے ملامت نہ فرمانا جو تیرے اختیار میں ہے، میرے اختیار میں نہیں۔

اس سے ان آیات میں تطبیق واضح ہے۔

# ١٩۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب لوگوں سے کلام کرے گا یا نہیں؟

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے بدلہ میں بیچ دیا ان کا آخرت میں کوئی حصّہ نہیں پھر فرمایا:

وَلاَ یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَلاَ یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلاَ یُزَکِّیْہِمْ [89]

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا۔

ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

فَوَرَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ [90]

تو آپ کے رب کی قسم! ہم سب سے ان کے اعمال کے متعلق پوچھیں گے۔

ان دونوں آیات کے متعلق بھی تضاد کا دعویٰ کیا گیا اور کہا گیا کہ پہلی آیت میں منکرین سے اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کی نفی ہے جبکہ دوسری آیت سب سے کلام کرنے کا ذکر ہے۔ اس لیے قرآن کریم کی ان آیات میں تضاد ہے۔ جبکہ در حقیقت ان آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے یا تو اس لیے کہ یہاں جس کلام کی نفی ہے وہاں کلام محبت و الطاف مراد ہے اور یہاں کلام کا اثبات ہے، وہاں کلام غضبی مراد ہے جو منکرین کے لیے اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کا اظہار ہو گا یا یہاں کلام کی نفی ہے، وہاں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا بلاواسطہ کلام کرنا ہے اور یہاں کلام کا اثبات ہے، وہاں فرشتوں کی وساطت سے اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا مراد ہے۔

امام بیضاوی لاَ یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

بما یسرھم اوبشئی اصلا و ان الملائکۃ یسئلونھم یوم القیامۃ اولاینتفعون بکلمات اللّٰہ و آیاتہ والظاہر انہ کنایۃ عن غضبہ علیھم [91]

یعنی اللہ تعالیٰ ان سے ایسا کلام نہیں کرے گا جو انہیں خوش کرے یا اللہ تعالیٰ ان سے بالکل کلام نہیں کرے گا اور قیامت کے دن ان سے سوال فرشتے کریں گے یا وہ اللہ تعالیٰ کے کلمات اور اس کی آیات سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے اور ظاہر ہے یہ ان کے لیے غضب الٰہی کا کنایہ ہے۔

مراد یہ ہے کہ ان آیات میں کوئی تضاد نہیں۔ یہاں نفی ایسے کلام کی ہے جو انہیں خوش کرے جبکہ ان سے سوال کرنا تو انہیں عذاب دینے کے لیے ہو گا یا اللہ تعالیٰ ان سے بالکل کلام نہیں کرے گا اور ان سے سوال فرشتے کریں گے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی بادشاہ اپنا کوئی حکم کارندوں کے ذریعے سے اپنی رعایا تک پہنچائے اور پھر کہے کہ ہم نے اپنی رعایا کو یہ حکم دیا ہے، یہی اسلوب یہاں اختیار کیا گیا یا ہے۔ ان سے ایسے کلام کی نفی ہے جو انہیں فائدہ دے اور سوال کرنے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ نقصان ہو گا۔ اس سے ان آیات میں تطبیق واضح ہوتی ہے۔

# ٢٠۔ مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا خود انسان کی طرف سے؟

اس تناظر میں ایک مقام پر ارشاد ہے:

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ [92]

کوئی مصیبت حکم الٰہی کے بغیر نہیں آتی۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ [93]

اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب پہنچتی ہے اور وہ بہت سے کاموں سے درگزر فرماتا ہے۔

ان آیات کے متعلق بھی تضاد کا دعویٰ کیا گیا کہ پہلی آیت میں کہا گیا کہ مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور دوسری آیت میں کہا گیا کہ انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے ۔چنانچہ درست بات یہ ہے کہ ان آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ایک آیت میں جو اجمال ہے دوسری میں اسی کی تفسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا فاعل حقیقی اور خالق ہے اور اللہ تعالیٰ کا ضابطہ یہ ہے کہ وہ انسان کو نعمتیں تو محض اپنے فضل سے دیتا ہے اور مصیبت انسان کے اعمال کی وجہ سے اس پر نازل کرتا ہے چنانچہ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ز وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ [94]

تمہیں جو اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو مصیبت پہنچتی ہے تووہ تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے۔

تو مصیبت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فاعل حقیقی اور ہر چیز کے خالق ہونے کی نسبت سے ہے اور بندوں کی طرف نسبت اس مصیبت کا سبب ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے ان آیات میں کوئی تضاد نہیں۔ واضح رہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مصیبت صرف گناہوں کے سبب ہی نہیں آتی کبھی نیک بندوں کی آزمائش یا ان کے درجات بلند کرنے کے لیے ان کی آزمائش کے طور پر بھی آتی ہے۔

# ٢١۔ قرآن مجید صرف متقین کے لیے ہدایت ہے یا تمام لوگوں کے لیے؟

اس تناظر میں تضاد کا دعویٰ کرتے ہوئے ان دو آیات سے استدلال کیا گیا۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ [95]

یہ متقین کے لیے ہدایت ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ [96]

رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔

ان آیات سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا کہ پہلی آیت میں کہا کہ قرآن متقین کے لیے ہدایت ہے اور دوسری آیت میں کہا کہ تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ اس سے قرآن مجید کے بیان میں اختلاف واضح ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں آیات اپنی جگہ پر حقیقت ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ قرآن مجید ہدایت تو تمام لوگوں کے لیے ہے لیکن اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو تقویٰ کے طالب ہوتے ہیں چنانچہ قرآن مجید اپنی اصل کے اعتبار سے سب لوگوں کے لیے ہدایت ہے لیکن انجام کے اعتبار سے اس سے صرف متقین ہی کے لیے ہدایت ہے۔ چنانچہ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْن میں انجام کا ذکر ہے اورہُدًی لِّلنَّاس میں اصل کا۔

وتخصیص الھدی بالمتقین باعتبار الغایۃ [97]

اور متقین کے ساتھ ہدایت کی تخصیص انجام کے اعتبار سے ہے

اس بات کو ہدایت کی اقسام کے اعتبار سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہدایت کی دو قسمیں ہیں ایک اراء ۃ الطریق دوسری ایصال الی المطلوب۔اراء ۃ الطریق سے مراد صرف راستہ دکھاتا ہے اور ایصال الی المطلوب سے مراد منزل مقصود تک پہنچا دینا ہے۔ مراد یہ ہے اراء ۃ الطریق کے اعتبار سے قرآن مجید تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے کہ سب کو راستہ دکھاتا ہے اور ایصال الی المطلوب کے اعتبار سے صرف متقین کے لیے ہدایت ہے کہ جو لوگ تقویٰ کے طالب ہوتے ہیں قرآن مجید انہیں منزل مقصود یعنی اللہ تعالیٰ کی حریم نازک تک پہنچا دیتا ہے۔ تو یہ دونوں آیات لوگوں کی دو قسموں کے اعتبار سے ہیں، ان میں کوئی تضاد نہیں۔

# ٢٢۔ جادوگر حضرت موسیٰ علیہا السلام پر ایمان لائے تھے یا نہیں؟

قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد ہے:

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤی اِلاَّ ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلاَ ْئِہِمْ اَنْ یَّفْتِنَہُمْ [98]

فرعون اور اس کے سرداروں کے فتنہ کے خوف سے موسیٰ علیہا السلام پر ان کی قوم کے چند نوجوان ہی ایمان لائے۔

اور دوسرے مقام پر ارشاد ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہا السلام کی لاٹھی سے بننے والا اژدہا جادو گروں کے سانپوں کو نگل گیا تو اس وقت جادوگر سجدے میں گر گئے:

وَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیْنَ ۔ قَالُوْۤااٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ [99]

اس واقعہ نے جادوگروں کو بے ساختہ سجدہ میں گرا دیا اور وہ پکار اٹھے کہ ہم تمام جہانوں کے پروردگار پر ایمان لے آئے۔

ان آیات سے استدلال کرتے ہوئے قرآن مجید میں تضاد کا دعویٰ کیا گیاہے کیونکہ پہلی آیت سے واضح ہوتا ہے کہ آپ پر آپ کی قوم کے ہی چند نوجوان ایمان لائے تھے کوئی اور نہیں۔ جبکہ دوسری آیات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ پر جادوگر بھی ایمان لائے تھے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں تضاد کا دعویٰ کرنا ایک بہت بے حقیقت اور انتہائی سطحی سی بات ہے کیونکہ جادوگر بعد میں حضرت موسیٰ علیہا السلام سے مقابلہ کرنے کے بعد مسلمان ہوئے تھے جبکہ جس آیت میں چند نوجوانوں کے مسلمان ہونے کا ذکر ہے وہ آپ کے دعویٰ رسالت کے بعد فوری حالات کا بیان ہے:

فما امن الموسیٰ کی تفسیر میں علامہ الزمخشری لکھتے ہیں:

فی اوّل امرہ [100]

یعنی آپ کے دعویٰ رسالت کے بعد شروع شروع میں آپ پر چند نوجوان ہی ایمان لائے تھے۔ امام نسفی نے بھی یہی لکھاہے۔ [101]

اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کی قوم میں سے صرف چند نوجوانوں کا آپ پر ایمان لانا آپ کے دعویٰ رسالت کے بعد ابتدائی دنوں کی بات ہے اور جادوگروں کا مسلمان ہونا اس سے بہت بعد کی بات ہے۔ اس لیے ان آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

# ٢٣۔ شیطان کو لوگوں کا دوست اللہ تعالیٰ بناتا ہے یا لوگ خود؟

قرآن مجید میں ایک مقام پر فرمایا:

اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لاَ یُوْمِنُوْنَ [102]

بے شک ہم نے شاطین کو انہیں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

اِنَّہُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ [103]

بے شک ان لوگوں نے اللہ کے بجائے شیطانوں کو اپنا دوست بنا لیا ہے۔

ان آیات سے متعلق کہا گیا کہ پہلی آیت میں فرمایا کہ شیطانوں کو لوگوں کا دوست اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور دوسری آیت میں کہا گیا کہ لوگ خود شیطانوں کو اپنا دوست بناتے ہیں۔ اس لیے ان آیات میں تضاد ہے ۔ لیکن درحقیقت یہاں تضاد کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف شیطانوں کو سرکش لوگوں کے دوست بنانے کی نسبت فاعل حقیقی اور ہر چیز کا خالق ہونے کی وجہ سے ہے اور لوگوں کی طرف اس کا سبب ہونے کی وجہ سے ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب کوئی انسان راہِ حق سے انحراف کر کے شیطان کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرتا ہے تو اللہ جبراً اسے روکتا نہیں بلکہ بطور سزا شیطانوں کو اس پر مسلط کر دیتا ہے اور اس کے لیے شیاطین کی دوستی کو مزین کر دیتا ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا:

وَکَذٰلِکَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًا م بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ [104]

اس طرح ہم ان کے کرتوتوں کے سبب بعض ظالموں کو بعض پر مسلط کر دیتے ہیں۔

تو یہاں اس فعل کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت خلق کے اعتبار سے ہے اور بندوں کی طرف کسب کے اعتبار سے۔ لہٰذا ان آیات میں کوئی تضاد نہیں۔ ان دونوں آیات سے واضح ہوتا ہے کہ بندوں کے افعال کا خالق تواللہ تعالیٰ ہے لیکن بندے اپنے افعال کے کاسبب خود ہیں۔ اس لیے وہ اپنے افعال کے جواب دہ ہیں۔ اس طرح یہ آیات معتزلہ کے خلاف حجت ہیں جو بندوں کو ہی اپنے افعال کا خالق مانتے ہیں ،اللہ تعالیٰ کو نہیں۔ امام نسفیؒ فرماتے ہیں:

والآیۃ حجۃ لنا علی الاعتزال فی الھدایۃ والضّلال [105]

کہ یہ آیت ہدایت اور گمراہی میں معتزلہ کے خلاف ہمارے حق میں دلیل ہے۔

یعنی ان افعال کی خلق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور کسب کی بندوں کی طرف۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

# ٢٤۔ کیا حضورﷺ سے بات کرنے سے پہلے اہل ایمان کو صدقہ کرنے کا حکم ہے یا نہیں؟

قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَۃً [106]

اے ایمان والو! جب تم رسول (کریمﷺ) سے تنہائی میں کوئی بات کرنا چاہو تو اپنی اس تنہائی کی بات سے پہلے صدقہ کیا کرو۔

اس سے اگلی آیت میں ہے:

ءَ اَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقٰتٍ ط فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا وَتَابَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ[107]کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ اپنی سرگوشی کی بات سے پہلے صدقات دیا کرو۔ تو جب تم ایسا نہیں کر سکتے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے تم پر متوجہ ہوا تو نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔

ان دونوں آیات سے استدلال کرتے ہوئے بھی قرآن کریم میں تضاد کا دعویٰ کیا گیا اور کہا گیا کہ پہلی آیت میں صدقہ دینے کا حکم ہے اور دوسری آیت میں اسی حکم کی نفی ہے۔

تضاد کا یہ دعویٰ علوم قرآن سے نا واقفیت اور بہت سطحی سی بات ہے کیونکہ دوسری آیت میں فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْاکے الفاظ واضح انداز میں اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پہلی آیت میں جو صدقہ کرنے کا حکم تھا اس پر عمل کرنا لوگوں کو مشکل محسوس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر نرمی کرتے ہوئے پہلا حکم منسوخ کر دیا اور دوسری آیت میں حکم دیا کہ چونکہ تم ایسا نہیں کر سکتے، اس لیے صدقہ کرنے کا حکم منسوخ کیا جاتا ہے۔ اب نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو۔ تو ان آیات میں تضاد نہیں بلکہ نسخ ہے۔ پہلی آیت کے حکم کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔

جب کچھ لوگ حضور اکرمﷺ سے بہت زیادہ سرگوشیاں کرنے لگے اور ان کا یہ رویہ آپ پر شاق گزرا تو اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت نازل فرمائی۔ جب لوگوں نے اس حکم کو مشکل سمجھا تو اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت نازل فرما کے پہلے حکم کو منسوخ کر دیا۔ [108]پہلا حکم بہت جلد منسوخ ہو گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

آیۃ فی کتاب اللّٰہ لم یعمل بھا احد قبلی ولا یعمل احد بعدی وھی ایۃ المناجاۃ [109]

قرآن مجید میں ایک ایسی آیت ہے جس پر (میرے سوا) نہ مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا نہ میرے بعد اور وہ سرگوشی کے حکم والی آیت ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان آیات میں تضاد نہیں نسخ ہے۔

٢٥۔ زمین و آسمان الگ الگ تھے یا ملے ہوئے؟

قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد ہے:

ثُمَّ اسْتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا [110]

پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھوئیں کی شکل میں تھا اور اس نے اس سے اور زمین سے کہا چلے آؤ چاہے خوشی سے یا ناگواری سے ۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا [111]

جن لوگوں نے کفر کیا، کیا انہوں نے کبھی آسمانوں اور زمین میں غور نہیں کیا کہ وہ باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں کھول دیا۔

ان آیات کی روشنی میں بھی تضاد کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا کہ پہلی آیت میں فرمایا گیا کہ زمین و آسمان الگ الگ تھے اور دوسری آیت میں فرمایا گیا کہ وہ ملے ہوئے تھے لہٰذا قرآن کا بیان متضاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان آیات میں زمین و آسمان کے تخلیقی مراحل کے اعتبار سے بات کی گئی ہے۔ ان میں تضاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کیونکہ رتق کا لفظی معنی ہے دوچیزوں کا بندیا ملا ہوا ہونا۔ زمین و آسمان کے بندیا ملے ہوئے ہونے سے مراد یا تو یہ ہے کہ آسمان سے بارش نہیں برستی تھی اور آسمان سے سبزہ نہیں اگتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بارش برسائی اور زمین سے سبزہ اُگایا۔ یہ ضحاک عکرمہ اور مجاہد کا قول ہے۔ اس صورت میں تو دعویٰ تضاد کی کوئی صورت ہی نہیں بنتی۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان پہلے ملے ہوئے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں الگ الگ کر دیا۔

کان الجمیع متصلاً بعضہ ببعض متلاصق متراکم بعضہ فوق بعض فی ابتداء الامر ففتق ھذہ من ھذہ فجعل السموات سبعا و الارض سبعا [112]

ابتداء میں زمین و آسمان ملے ہوئے اور ایک دوسرے کے اوپر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں الگ الگ کرکے سات آسمان اور سات زمینیں بنا دیا۔

اس صورت میں بھی یہاں تضاد کی کوئی صورت نہیں ہے کہ وہ پہلے ملے ہوئے تھے پھر انہیں الگ الگ کر کے حکم دیا۔ تو اس میں تضاد کہاں سے آ گیا؟

٢٦۔ کیا اللہ کے سوا کوئی دوست یا مدد گار ہے؟

قرآن مجید میں ارشاد ہے:

وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ [113]

اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے نہ مددگار۔

جبکہ ایک اور مقام پر فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتے ہیں اور راہِ استقامت اختیار کرتے ہیں تو ان پر فرشتے اترتے ہیں جو انہیں خوف و حزن سے آزادی اور جنت کی بشارت دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں:

نَحْنُ اَوْلِیَاءُ کُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ [114]

کہ ہم دنیا اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں۔

ان آیات کے متعلق کہا گیا کہ پہلی آیت میں اللہ کے سوا کسی کی دوستی کی نفی ہے جبکہ دوسری آیت میں فرشتوں کی دوستی کا اثبات ہے لہٰذا اس تناظر میںقرآن مجید کا بیان مختلف ہے۔ حالانکہ ان آیات کا مطلب بالکل واضح ہے۔ یہاں کافروں کے لیے جس دوستی کی نفی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہے کہ جب عذاب الٰہی آئے گا تو کوئی تمہارا دوست نہیں ہو گا جو تمہیں اس عذاب سے بچا سکے۔

یمنعکم منہ و ینصرکم من عذابہ [115]

جو تم سے عذاب دور کرے اور عذاب الٰہی میں تمہاری مدد کرے۔

اور مومنوں کے لیے فرشتوں کی جس دوستی کا اثبات ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو نعمت کے طور پر دی ہے:

کما ان الشیاطین قرناء العصاۃ و اخوانھم فکذلک الملائکۃ اولیاء المتقین [116]

مراد یہ ہے کہ جیسے گنہگاروں پر شیاطین مسلط کر کے ان کے ساتھی اور بھائی بنا دیے جاتے ہیں ایسے ہی اللہ تعالیٰ فرشتوں کو نیک بندوں کے دوست بنا دیتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ کافروں کے لیے جس دوستی کی نفی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں مدد کرنے والی دوستی ہے اوراہل ایمان کے لیے فرشتوں کی جس دوستی کا ذکر ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہی بنانے سے ہے۔ اس لیے ان آیات میں کوئی تضاد نہیں

٢٧۔ بنی اسرائیل بچھڑے کی پوجا پر نادم ہوئے یا ڈٹ گئے؟

قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد ہے:

قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حَتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی [117]

وہ بولے جب تک موسیٰ علیہا السلام واپس نہ آ جائیں ہم تو اسی کی عبادت پر جمے رہیں گے۔

دوسرے مقام پر ارشاد ہے:

وَلَمَّا سُقِطَ فِیْۤ اَیْدِیْہِمْ وَرَاَوْا اَنَّہُمْ قَدْ ضَلُّوْالا قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَارَبُّنَا وَیَغْفِرْ لَنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ [118]

اور جب وہ اپنے کیے پر نادم ہوئے اور سمجھ گئے کہ وہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے اگر ہمارے ربّ نے ہم پر رحم نہ فرمایا اورہماری بخش نہ کی تو ہم یقینا خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

ان آیات کی روشنی میں بھی قرآن مجید میں تضاد کا دعویٰ کیا گیا اور کہا گیا کہ پہلی آیت میں تو بیان کیا گیاکہ وہ بچھڑے کی عبادت پر ڈٹ گئے تھے اور دوسری آیت میں کہا گیا کہ وہ نادم ہو گئے۔

تضاد کے اس دعویٰ کا حقیقت سے کوئی تعلق بالکل نہیں ہے۔ پہلی آیت میں یہی کہا گیا تھا کہ ہم موسیٰ علیہا السلام کی آمد تک اس کی عبادت میں مگن رہیں گے اور دوسری آیت میں ان کی جس ندامت کا ذکر ہے وہ موسیٰ علیہا السلام کے آنے کے بعد کا ہے اور اس کے بعد والی آیت میں حضرت موسیٰ علیہا السلام کے واپس آنے کے احوال کا تذکرہ ہے۔ مراد یہ ہے کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس اس لیے ہو گیا کہ حضرت موسیٰ علیہا السلام اس حالت غضب میں واپس آئے تھے اور انہوں نے لوگوں کو ان کی اس غلطی پر شدید الفاظ میں ڈانٹا تھا۔ اس پر تمام مفسرین متفق ہیں کہ بنی اسرائیل کو یہ ندامت حضرت موسیٰ علیہا السلام کی واپسی کے بعد ہی ہوئی تھی۔ علامہ مظہریؒ لکھتے ہیں:

والحاصل انھم ندموا علی عبادۃ العجل حین جاء ھم و عاتبھم موسیٰ [119]

اور خلاصہ بحث یہ ہے کہ وہ بچھڑے کی پوجا پر نادم اس وقت ہوئے جب ان کے پاس حضرت موسیٰ علیہا السلام آئے اور آپ نے انہیں جھڑکا۔

امام سیوطیؒ فرماتے ہیں:

و ذالک بعد رجوع موسیٰ [120]

اور بنی اسرائیل کی یہ ندامت حضرت موسیٰ علیہا السلام کے واپس آنے کے بعد تھی۔

اس کے بعد والی آیت حضرت موسیٰ علیہا السلام کے لوٹنے کے احوال کو بیان کرتی ہے:

اخبر سبحانہ بحال موسیٰ علیہ السلام معھم عند رجوعہ الیھم من الغضب للّٰہ [121]

(اس کے بعد) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہا السلام کی اس حالت کو بیان کیا جو ان کی طرف لوٹتے وقت اللہ کے لیے غضب کا سبب تھی۔

مراد یہ ہے کہ اس سے بعد والی آیت ولما رجع موسیٰ ۔سے یہ مراد نہیں ہے کہ انہوں نے ندامت کا اظہار پہلے کیا اور حضرت موسیٰ علیہا السلام بعد میں لوٹے بلکہ گو سالہ پرستی کرنے والوں نے ندامت کا اظہار حضرت موسیٰ علیہا السلام کے لوٹنے کے بعد کیا تھا اور یہ آیت ان کے لوٹنے کی حالت کو بیان کرتی ہے۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی بات تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کر دیتی ہے۔ وہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

یہ ندامت و استغفار کا واقعہ حضرت موسیٰ علیہا السلامکی واپسی کے بعد کا ہے جس کا ذکر ابھی آگے آتا ہے۔ آیت نمبر ١٤٨ کے بعد متصل سلسلہ بیان کے لحاظ سے آیت نمبر ١٥٠ کو پڑھا جائے ۔یہ آیت بطور جملہ معترضہ کے ہے اور قرآن مجید کا عام اسلوب بلاغت یہ ہے کہ واقعات کی تقسیم و تاخیر کا اعتبار کیے بغیر وہ نتائج اور عبرتوں کو درمیان کلام میں لے آتاہے۔ [122]  مفسرین کی ان تصریحات سے واضح ہے کہ اس آیہ کریمہ کی کوئی بھی توجیہ کی جائے،یہ بات سب کے نزدیک مسلمہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ندامت حضرت موسیٰ علیہا السلامکی واپسی کے بعد تھی، اس لیے ان آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

٢٨۔ قیامت کے دن مجرموں کو نامہ اعمال کیسے دیا جائے گا؟

قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد ہے:

وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتابَہ، وَرَآءَ ظَہْرِہٖ [123]

رہا وہ شخص جسے اس کا نامہ اعمال پشت کے پیچھے سے دیا جائے گا۔

ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہ، بِشِمَالِہٖ [124]

اور رہا وہ شخص کہ جسے اس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

پہلی آیت میں فرمایا گیا کہ اسے نامہ اعمال پشت کے پیچھے سے دیا جائے اور دوسری آیت میں فرمایا کہ مجرم کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔ چنانچہ معترض کاخیال ہے کہ یہاں اس تناظر میں قرآن مجید کا بیان متناقض ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان آیات میں کوئی تضاد نہیں۔ نامہ اعمال بائیں ہاتھ کو پشت کے پیچھے کر کے بھی دیا جا سکتا ہے۔ علامہ زمخشری مجرم کو نامہ اعمال دینے کی حالت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قیل تغل یمناہ الی عنقہ و تجعل شمالہ وراء ظھرہ فیوتی کتابہ بشمالہ من وراء ظھرہ [125]

ایک قول یہ ہے کہ اس کا دایاں ہاتھ گلے کا طوق بنا دیا جائے گا اور بایاں ہاتھ پشت کی طرف لے جا کر اس میں نامہ اعمال تھما دیا جائے گا۔

مجاہد کہتے ہیں:

یجعل شمالہ وراء ظھرہ فیاخذبھا کتابہ [126]

اس کا بایاں ہاتھ اس کی پشت کے پیچھے کیا جائے گا اور پھر اسے اس کا نامہ اعمال دیا جائے گا۔

امام سیوطیؒ فرماتے ہیں:

تغل یمناہ الی عنقہ و تجعل یسرہ وراء ظھرہ فیاخذ بھاکتابہ [127]

اس کا دایاں ہاتھ گلے کا طوق بنا دیا جائے گا اور اس کا بایاں ہاتھ اس کی پشت کے پیچھے کر دیا جائے گا۔ اس طرح وہ اپنا نامہ اعمال پکڑے گا۔

مفسرین کی ان تصریحات سے واضح ہوتاہے کہ ان آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے اور ان میں تطبیق کو عقل سلیم بھی بخوبی سمجھ سکتی ہے۔

٢٩۔ حضرت عیسیٰ علیہا السلامکی وفات ہوئی یا ان کی موت مشتبہ کر دی گئی؟

اس تناظر میں بھی قرآن مجید کی دو آیات سے حسب منشا استدلال کرتے ہوئے قرآن مجید میں تضاد کا دعویٰ کیا گیا۔ پہلی آیت ہے:

اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰۤی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ [128]

جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے عیسیٰ ! بے شک میں تمہیں مکمل طور پر لینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ [129]

انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہا السلام کو قتل کیا اور نہ ہی سولی چڑھایا لیکن معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا۔

یہاں پہلی آیت سےمُتَوَفِّیْکَ سے عرفی معنی میں حضرت عیسیٰ علیہا السلامکی وفات ثابت کی اور پھر دعویٰ کیا کہ اس آیت سے ان کی موت ثابت ہوتی جبکہ دوسری آیت سے ان کی موت کا مشتبہ ہونا ثابت ہوتا ہے تو اس سے قرآن مجید کے بیان میں تضاد ثابت ہوا۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ ایک بے دلیل دعویٰ ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق حضرت عیسی ٰعلیہا السلام پر موت طاری نہیں ہوئی۔ جب یہودیوں نے انہیں پھانسی دینے کا منصوبہ بنایا تو ایک روایت کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہا السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جس پر میری شبیہ ڈال دی جائے اور میری جگہ پھانسی چڑھا دیا جائے اور شہادت کی موت پائے تو آپ کے ساتھیوں میں سے ایک نے اسے سعادت سمجھتے ہوئے قبول کیا اور یہودیوں نے اسے حضرت عیسیٰ علیہا السلام سمجھتے ہوئے پھانسی چڑھا دیا اور دوسرا قول یہ ہے کہ جس شخص نے آپ کی نشاندھی کی تھی اسی پر آپ کی شبیہ ڈال دی گئی اور انہوں نے اسے ہی عیسیٰ علیہا السلام سمجھتے ہوئے پھانسی چڑھا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہا السلام کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا م بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ [130]

اور یہ بات یقینی ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہا السلامکو قتل نہیں کیا بلکہ انہیں اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا۔

اسی چیز کو ولکن شبہ لھم (النسائ: ١٥٧) سے تعبیر کیا گیا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہا السلامکو نہ قتل کیا نہ سولی چڑھایا لیکن معاملہ ان پر مشتبہ کر دیا گیا۔ اور دوسری آیت میں متوفیک کے الفاظ اس سے متصادم نہیں ہیں کیونکہ یہاں توفی سے مراد عام معنی میں موت نہیں ہے۔ موت تو ہر انسان کو آئے گی۔ اس میں بتانے والی کوئی بات نہیں ہے۔ بتائی وہ بات جاتی ہے جس میں کوئی خبریت ہو۔ الوافی کا معنی ہے الذی بلغ التمام [131]وہ چیز جو اپنی تکمیل کو پہنچ جائے۔ اس صورت میں متوفیک کا معنی ہے متم عمرک[132] میں تیری عمر پوری کرنے والا ہوں۔ مراد یہ ہے کہ یہ یہودی آپ کو پھانسی نہیں دے سکیں گے اور آپ اپنی پوری عمر کو پہنچ کر انتقال کریں گے اور توفی کا دوسرا مفہوم ہے اخذ الشئی وافیا [133]کسی چیز کو پورا پورا لے لینا۔ اس صورت میں اس سے مراد یہ ہے کہ یہ تمہیں پھانسی نہیں دے سکیں گے، میں تمہیں مکمل طور پر آسمانوں پر اٹھالوں گا۔ اور توفی کا اصلی معنی کسی چیز کو مکمل طور پر لے لینا ہی ہوتا ہے اور اس کا معنی موت عرفی اور مجازی ہے تو یہاں اس سے مراد انہیں زندہ آسمانوں پر اٹھانا ہی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں کلام میں تقدیم و تاخیر ہے اور یہ عربی زبان کا معروف اسلوب ہے ۔اس صورت میں اس آیت سے مراد ہے:

انی رافعک الی ومطھرک من الذین کفروا و متوفیک بعد ان تنزل من السماء [134]

میں تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا اور کافروں کی تہمتوں سے پاک کرنے والا ہوں اور آپ کے آسمان سے اترنے کے بعد آپ پر موت طاری کرنے والا ہوں۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں آیات حضرت عیسیٰ علیہا السلامکی حیات ہی ثابت کرتی ہیں اور ان میں تضادکا نام و نشان تک نہیں ہے۔

٣٠۔ موت دوبار ہے یا تین بار

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتاً فَاَحْیَاکُم ْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ [135]

تم اللہ تعالیٰ کا انکار کیسے کر سکتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے، اس نے تمہیں زندہ کیا ،پھر وہ تمہیں مارے گا ،پھر تمہیں زندہ کرے گا اور پھر تم اس کے پاس لوٹائے جاؤ گے۔

دوسری جگہ ارشاد ہے:

رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ [136]

اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی اور دو مرتبہ زندگی دی۔

ان آیات کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا کہ پہلی آیت سے دو زندگیاں اور تین بار موت ثابت ہے اور دوسری آیت سے دوبار موت اور دوبار زندگی ثابت ہے۔ اس سے قرآن مجید کے متن میں تضاد کا دعویٰ کیا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ بالکل بے حقیقت اور بہت ہی سطحی سی بات ہے۔ ان دونوں آیات میں ایک ہی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ ان آیات پر متعدد پہلوؤں سے طویل مباحث موجود ہیں لیکن ان دونوں آیات کا مدار ایک ہی حقیقت کو بیان کرتا ہے اور وہ قدرت باری تعالیٰ کا اظہار ہے۔ حضرت ابن مسعود، ابن عباس اور قتادیٰ کا قول یہ ہے کہ ان دونوں آیات میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا ذکر ہے۔ پہلی موت حالت عدم اور دوسری موت دنیوی زندگی کے بعد کی موت اور پہلی زندگی دنیا کی زندگی اور دوسری زندگی مرنے کے بعد کی زندگی یعنی خواہ وہ کسی بھی مرحلہ کی ہو۔ حضرت ابن مسعودؓ آیت کریمہ:رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْن ِسے متعلق فرماتے ہیں:

ھذہ الآیۃ کقولہ تعالیٰ کیف تکفرون باللّٰہ و کنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحیکم ثم الیہ ترجعون و کذا قال ابن عباس والضحاک و قتادہ و ابومالک وھذا ھو الصواب الذی لا شک فیہ ولامریۃ [137]

یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا انکار کیسے کرو گے کہ تم مردہ تھے، اس نے تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ حضرت ابن عباس، ضحاک، قتادہ اور ابو مالک کا یہی قول ہے یہی درست ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

اگرچہ دو موتوں اور دو زندگیوں کی تعبیر مختلف بھی کی گئی ہے لیکن دونوں آیات میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا ہی ذکر ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان آیات میں کوئی تضاد نہیں۔ ان تمام مباحث سے یہ حقیقت بالکل واضح اور عیاں ہو جاتی ہے کہ ان تیس مقامات پرتضاد کا دعویٰ ایک بے حقیقت بات ہے۔ قرآن مجید ہر قسم کے تضاد سے بالکل محفوظ اور مبرا ہے۔ اب ان تمام مقامات کا خلاصہ ملاحظہ ہو تا کہ حقیقت سمجھنے میں مزید آسانی ہو۔

خلاصہ بحث

  1. ان تمام مباحث کا خلاصہ مندرجہ ذیل نکات سے واضح ہے اور خلاصہ میں بھی مضمون والی ترتیب ہی ملحوظ خاطررکھی گئی ہے:حضرت مریمؓ کو بشارت حضرت جبریل امینؑ نے ہی دی تھی لیکن چونکہ وہ فرشتوں کے سردار تھے اور سردار کی بات پوری قوم کی بات ہوتی ہے، اس لیے کبھی کہا گیا کہ فرشتے نے بشارت دی اور کبھی کہا گیاکہ فرشتوں نے بشارت دی ۔اس لیے سورہ آل عمران کی آیت نمبر ٣ اور سورہ مریم کی آیت نمبر ١٩ میں کوئی تضاد نہیں اور ممکن ہے کہ حضرت جبریل ؑ امین کے ساتھ اور فرشتے بھی ہوں اور متکلم صرف حضرت جبریل ؑہوں۔ تو متکلم کے اعتبار سے واحد اور سب کے اعتبار سے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہو۔ اس لیے ان آیات میں کوئی تضاد نہیں۔
  2. قوم ثمود کی تباہی اس طرح ہوئی کہ حضرت جبریل امین ؑنے کوخوفناک چیخ ماری جس سے زمین لرز اٹھی اور ان کے دل سینوں میں پھٹ گئے اور وہ تباہ و برباد ہو گئے ۔تو چیخ کے اعتبار سے ان کی بربادی کا سبب الصیحۃ کو قرار دیا گیا اور زلزلہ کے اعتبار سے اسے الرجفۃ کہا گیا۔ چونکہ یہ عذاب حد سے بڑھا ہوا تھا، اس لیے اسے الطاغیۃ بھی کہا گیا۔ چونکہ یہ آواز فضا سے بلند ہوئی تھی اس لیے اسے الصاعقۃ بھی کہا گیا۔ اس لیے سورہ ھود: ١٤، سورہ الاعراف:٧٨، سورہ الحاقہ:٥ اور سورہ حم السجدہ:١٧ میں کوئی تضادمطلقاً نہیں ہے۔
  3. زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی اور اس کا دحو یعنی پھیلاؤ آسمان کی تخلیق کے بعد ہوا۔ لہٰذا سورۃ البقرہ کی ٢٩ اور سورۃ النازعات کی آیت٣٠ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  4. پہلے روزے رکھنے کا حکم اختیاری تھا کہ روزہ رکھو یا فدیہ دو۔ یا روزے کا حکم روزے کی استطاعت رکھنے والے کے لیے ہے اور فدیہ کا حکم شیخ فانی کے لیے یا فدیہ سے مراد صدقہ فطر ہے۔ اس لیے سورۃ البقرہ کی١٨٤، اور آیت ١٨٥ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  5. زمین و آسمان چھ دنوں میں ہی بنے: و قدر فیھا اقواتھا فی اربعہ ایام میں چار دنوں سے زمین اور اس کی روزی کے مجموعی چار دن ہیں اور دو دنوں میں آسمان بنا۔ یہ کل چھ دن ہوئے لہٰذا سورہ ھود کی آیت ٧ اور سورہ حم السجدہ کی آیات ٩ تا ١٢ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  6. بدکاری کی سزا پہلے انہیں گھروں میں بند کرنا تھا ،پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور سزا دونوں کے لیے سو سو درّے مقرر ہوئی۔ اس لیے سورۃ النساء کی آیت ١٥ اورسورۃ النورکی آیت٢ میں کوئی تضاد نہیں واضح ہے۔ یہ غیر شادی شدہ کی سزا ہے اور شادی شدہ کی سزا رجم ہے۔
  7. احکام میراث کے نزول سے پہلے فوت ہونے والے خاوند کو حکم تھا کہ وہ ممکنہ حد تک اپنے گھر والوں کو اپنی بیوی کے حق میں ایک سال کے لیے سکنی اور نان و نفقہ کی وصیت کر جائے اور متوفی عنھا زوجھا کی عدت چار مہینے دس دن ہی ہے۔ اس لیے سورۃ البقر ہ کی آیت ٢٣٤ اور آیت ٢٤٠ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  8. جہاد کا مقصد دین کے دشمنوں پر سختی کرنا ہے تاکہ ان کا وجود باقی لوگوں کے لیے فساد اور شر کا سبب نہ بنے اور یہ اخلاق عالیہ کے منافی نہیں ہے۔ اسی طرح کسی کی تربیت کرتے ہوئے اس پر سختی کرنا اخلاق حسنہ کے منافی نہیں ہے۔ اس لیے سورہ عبس کی آیات١،٢ اور سورۃ القلم کی آیت٤ اورسورہ محمدکی آیت ٤ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  9. دین میں کوئی جبر نہیں اور جہاد کا مقصد کسی کو جبراً مسلمان کرنا نہیں بلکہ اسلامی ریاست کا غلبہ ہے۔ غیر مسلم افراد اسلامی ریاست کے غلبہ کو مان کر جس دین پر چاہیں رہیں۔ اس لیے سورۃ البقرہ کی آیت ٢٥٤ اور سورۃ التوبہ کی آیت ٢٩ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  10. پہلے حکم تھا کہ سو مومنوں کو ہزار کافروں پر غالب آنا چاہیے۔ پھر مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے اس حکم میں نرمی کر دی گئی اور حکم دیا گیا کہ سو مومن دو سو کافروں پر غالب آئیں۔ اس لیے سورۃ الانفال کی آیت ٦٥ اور ٦٦ میں نسخ ہے، تضاد نہیں۔
  11. غزوہ بدر میں پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتے بھیجنے کا وعدہ فرمایا پھر محض اپنے کرم سے اس تعداد کو تین ہزار کر دیا۔ پھر جب یہ افواہ پھیلی کہ کرز بن جابر ایک لشکر کے ساتھ قریش کی مدد کو آ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے چند شرائط کے ساتھ اس تعداد کو پانچ ہزار کر دیا۔ اس لیے سورۃ الانفال کی آیت٩ اور سورہ آل عمران کی آیت ١٢٤ اور١٢٥ میں ایک ترتیب کا بیان ہے، تضاد نہیں۔
  12. ہر فعل کا خالق اور فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہے لیکن اس دنیا میں ہر کام اسباب کے پردے میں ہوتا ہے۔ اس لیے جب ایک بندہ حق سے اعراض کرتا ہے تو شیطان اسے ورغلاتا ہے اور وہ شیطان کے اثر کو قبول کرتا ہے۔ اس لیے خالق ہونے کے ناطے گمراہی کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاتی ہے اور کبھی گمراہی کا سبب ہونے کے ناطے شیطان کی طرف اور کبھی گمراہی کا اثر قبول کرنے کے سبب انسان کی طرف۔ اس لیے سورۃ القصص کی آیت١٥،سورہ ق کی آیت٢٧ اور سورہ بنی اسرائیل کی آیت٩٧ میں کوئی تضاد نہیں۔
  13. اگر بندہ بغیر توبہ کے مر جائے تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے کرم سے شرک کے سوا اس کے باقی گناہ معاف کر دے لیکن اللہ تعالیٰ شرک کو بغیر توبہ کے معاف نہیں کرتا۔ اس لیے سورۃ الزمر کی آیت٥٣ اور سورۃ النساء کی آیت ١١٦ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  14. کوئی بندہ قرآن مجید میں تبدیلی نہیں کر سکتا البتہ اللہ تعالیٰ نے بعض احکامات کو خود منسوخ کر دیا۔ اس لیے سورۃالانعام کی آیت ١١٥ اور سورۃ البقرہ کی آیت ١٠٦ میں کوئی تضاد نہیں۔
  15. ابلیس جنّات میں سے تھا لیکن فرشتوں کے ساتھ عبادت کرتا تھا چونکہ جو حکم اعلیٰ کو دیا جائے، ادنیٰ اس میں بدرجہ اولیٰ شامل ہوتا ہے۔ اس لیے سجدہ کے حکم میں یہ بھی شامل ہو گیا تھا۔ اس لیے سورۃ البقرہ کی آیت ٣٤ اور سورۃ الکہف کی آیت٥٠ میں کوئی تضاد نہیں ہے
  16. حضرت آدم علیٰ نبیّنا و علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی۔پھر انسان کی بقا کا سبب قطرہ آب کو بنایا گیا ۔ اب انسان کی تخلیق قطرہ آب سے ہوتی ہے اور قطرہ آب خوراک سے بنتا ہے اور خوراک مٹی سے بنتی ہے تو قطرہ آب انسانی تخلیق کا سبب قریب اور مٹی سبب بعید ہے۔ اس لیے کہیں انسانی تخلیق کا سبب قطرہ آب کو قرار دیا گیا اور کہیں مٹی کو۔ اس لیے سورۃ الفرقان کی آیت ٥٤ اور سورۃ الانعام کی آیت٢ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  17. شراب حرام بھی ہے اور نجس بھی لیکن سکر کو نعمتوں کے ساتھ یا تو اس لیے ذکر کیا گیا کہ اس وقت تک شراب حرام نہیں تھی لیکن وہاں بھی اسے رزق حسن کے مقابل ذکر کے یہ احساس دلا دیا گیا کہ شراب رزق حسن میں شامل نہیں۔ اور یا پھراسے نعمتوں کے ساتھ اس لیے ذکر کیا گیا کہ سکر کا لفظ کسی میٹھے مشروب کے لیے ہے اور اس سے نبیذ بھی مراد ہو سکتی ہے۔ اس لیے سورۃ المائدہ کی آیت ٩٠ اور سورۃ النحل کی آیت٦٧ میں کوئی تضاد نہیں۔
  18. ایک سے زائد بیویوں میں معاملات میں تو انصاف ممکن ہے لیکن محبت میں انصاف ممکن نہیں ۔ چنانچہ انسان بیویوں میں معاملات میں تو انصاف کر سکتا ہے لیکن قلبی رجحان اور محبت میں نہیں۔ اس لیے سورۃ النساء کی آیت ٣ اور آیت ١٣٩ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  19. قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام ِمحبت صرف ایمان والوں سے کرے گا جو ان کے لیے بہت بڑا انعام ہو گا لیکن کافروں کی زجر و توبیخ کرے گا جو ایک عذاب ہو گا یا بلاواسطہ کلام صرف مومنوں سے فرمائے گا اور کافروں سے فرشتوں کے واسطہ سے کلام فرمائے گا۔ اس لیے سورہ آل عمران کی آیت٧٧ اور سورۃ النحل کی آیات ٩٢۔ ٩٣ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  20. اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔ نعمت کا بھی اورمصیبت کا بھی۔ سرکش انسانوں پر مصیبتیں ان کے گناہوں کے سبب آتی ہیں۔ اس لیے مصیبتوں کی نسبت کبھی خالق ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاتی ہے اور کبھی سبب ہونے کے ناطے انسانوں کی طرف۔ اس لیے سورۃ التغابن کی آیت١١ اور سورۃ الشوریٰ کی آیت ٣٠ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  21. قرآن مجید ہدایت کا راستہ تمام انسانوں کو دکھاتا ہے لیکن اس ہدایت کو قبول صرف تقویٰ کے طالب ہی کرتے ہیں اور ہدایت کی ایک صورت راستہ دکھانا ہے جسے اراء ۃ الطریق کہا جاتا ہے اور دوسری صورت منزل مقصود تک پہنچانا ہے جسے ایصال الی المطلوب کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید تمام لوگوں کے لیےاراء ۃ الطریق والی ہدایت ہے اور ایمان والوں کے لیےایصال الی المطلوب والی۔ اس لیے سورۃ البقرہ کی آیت٢، اور آیت ١٨٥ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  22. ضرت موسیٰ ؑکی دعوت کے ابتدائی دنوں میں ان کی قوم کے چند نوجوان ہی آپ پر ایمان لائے تھے اور بعد میں بہت سے لوگ ایمان لائے اور جادوگر بھی۔ اس لیے سورہ یونس کی آیت٨٣ اورسورہ الاعراف کی آیت١١٩ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  23. اللہ تعالیٰ ہر فعل کا خالق حقیقی ہے۔ جب کوئی سرکش انسان حق سے اعراض کرکے شیطان کی طرف مائل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے شیطان کا دوست بنا دیتا ہے تو فاعل حقیقی ہونے کے ناطے شیطان کی لوگوں سے دوستی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاتی ہے اور سبب ہونے کے ناطے انسان کی طرف۔اسی لیے سورۃالاعراف کی آیت٢٧ اور آیت ٣٠ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  24. جب امیر لوگوں نے رسول کریمؐ سے سرگوشیاں کرتے ہوئے آپ کا بہت زیادہ وقت لینا شروع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیاکہ رسول کریمؐ سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ دیاکرو۔ جب یہ حکم لوگوں پر شاق گزرا تو اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو اٹھا لیا۔ اس لیے سورۃ المجادلۃ کی آیت١٢ اور ١٣ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  25. زمین و آسمان بند تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زمین سے سبزہ اگا کر اور آسمان سے بارش برسا کر انہیں کھول دیا۔ یا پہلے وہ آپس میں پیوست تھے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں الگ الگ کر دیا۔ جہاں ان سے جو الگ الگ خطاب ہے، وہ الگ کرنے کے بعد ہے اور جہاں اکٹھا ذکر ہے وہ ان کے متصل ہونے کے وقت ہے۔ اس لیے سورہ حم السجدہ کی آیت گیارہ اور سورۃ الانبیاء کی آیت٣٠ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  26. اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کا کوئی دوست یا مددگار نہیں۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب دینا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کسی کا دوست یا مددگار نہیں لیکن اللہ تعالیٰ جب چاہے تو کسی کے لیے بھی بطور انعام یا بطور عذاب اس کا کوئی دوست یا مددگار بنا دیتاہے۔ اس لیے سورۃا لعنکبوت کی آیت٢٢ اور سورہ حم السجدہ کی آیت ٣١ میں کسی قسم کا تضاد نہیں۔ فرشتوں کو ایمان والوں کے دوست اللہ تعالیٰ نے ہی بنایا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی دوستی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی ہی دوستی ہوتی ہے۔
  27. بنی اسرائیل میں سے بچھڑے کی پوجا کرنے والے لوگ پہلے بچھڑے کی پوجا کرنے پر ڈٹ گئے تو پھر حضرت موسیٰ ؑ کے تشریف لانے کے بعد آپ کی زجر و توبیخ کے سبب اپنے اس فعل پر نادم ہوئے۔ اس لیے سورہ طٰہٰ کی آیت ٩١ اور سورۃ الاعراف کی آیت ١٤٩ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  28. قیامت کے دن مجرموں کو ان کا نامہ اعمال ان کا بایاں ہاتھ ان کی پشت کے پیچھے کر کے اس ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اس لیے سورۃ الانشقاق کی آیت دس اورسورۃ الحاقۃ کی آیت٢٥ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
  29. حضرت عیسیٰ ؑ کو یہودی نہ قتل کر سکے اور نہ ہی سولی چڑھا سکے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا اور متوفیک کا معنی بھی اسی مفہوم کو واضح کرتا ہے کیونکہ اس کا معنی یا تو یہ ہے کہ میں آپ کو آپ کی پوری عمر تک پہنچانے والا ہوں یا یہ کہ میں آپ کومکمل طور پر اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ مقصود دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے کہ یہودیوں کے منصوبے ناکام ہوں گے ۔یہ آپ کوسولی نہیں چڑھا سکیں گے ۔میں آپ کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لوں گا۔ آپ وقت مقررہ پر واپس زمین پر جاؤ گے اور عمر پوری کر کے آپ کا وصال ہو گا۔ اس لیے سورۃ آل عمران کی آیت ٥٥ اور سورۃ النساء کی ١٥٧ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
  30. دوبار ہی موت ہے اور دوبار ہی حیات، پہلی موت حالت عدم اور دوسری دنیوی زندگی کے بعد۔ پہلی حیات دنیوی اور دوسری اخروی۔ برزخی حیات اخروی حیات کے ہی تابع ہے۔ اس لیے سورۃ البقرہ کی آیت ٢٨ اور سورۃ المؤمن کی آیت گیارہ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

Monday 10 January 2022

Anocracy

 On Sunday, Tharoor while taking a dig at the BJP by using the word Anocracy. He explained that anocracy is a form of government that mixes democracy with autocratic features.

"A word we'd better start learning in India: anocracy. A form of government that mixes democratic with autocratic features, permits elections, allows participation through opposition parties and institutions accommodating nominal amounts of competition, but acts with minimal accountability," Tharoor who is a Congress MP from Thiruvananthapuram said in a tweet.

Here are some of the other words that Tharoor has used:

Allodoxaphobia: Irrational fear of opinions

Pogonotrophy: Cultivation of a beard

Paraprosdokian: A figure of speech in which the latter part of the sentence is unexpected in a manner which promotes the reader to rethink the first part.

Sunday 9 January 2022

طلاق واقع ہو نے کے لئے بیوی کی رضامندی ضروری نہیں

شوہرجب طلاق دینے کااقرار کرلے تورشتۂ نکاح ٹوٹ ہے فریقین کا رشتہ نکاح بالکلیہ ختم ہوگیا، بیوی اور اس کے والدین کے طلاق نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، شریعت میں طلاق دینے کا اختیار شوہر کوحاصل ہے الطلاق لمن أخذ الساق (الحدیث) شوہر جب طلاق دینے کا اقرار کرتا ہے تو بیوی خواہ نہ مانے پھربھی طلاق واقع  ہو جاتی ہے۔

اقرار طلاق سے طلاق واقع ہو جاتی ہے

 طلاق کا اقرار کرنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے ، خواہ مذاق میں اقرار کیا ہو، یا جھوٹ بولا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’ولو أقر بالطلاق كاذباً أو هازلاً وقع قضاءً لا ديانةً‘‘.  (3 / 236،  کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

تین طلاق کوایک سمجھنا

 واضح رہے کہ قرآنِ کریم، اَحادیثِ  مبارکہ، اَقوالِ  صحابہ کرام اور  چاروں ائمہ کرام کے نزدیک اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے  یا علیحدہ علیحدہ مجلس میں تین طلاقیں دے، یاتحریر ی طلاقنامے ارسال کردے  بہر صورت تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی  ہے اور  دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں رہتی ۔ 

لہذا جب کسی  نے تین طلاق والے طلاق نامہ پر دستخط کردیے یاایک ایک ماہ کے فاصلے سے اپنی بیوی کو تین طلاق نامے ارسال کردیئے تو اس سے  اس کی بیوی  حرمت ِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی  اور نکاح ختم ہو گیا ، اس کے بعد  دوبارہ رجوع کرنا جائز نہیں ہے۔

مطلقہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔     

            ہاں البتہ عدت گزارنے کے بعد  اگر مطلقہ  کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ اس سے صحبت (ہم بستری ) کر لے  اس کے بعد وہ دوسرا شخص اس  کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر(سائل) سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

(کتاب الطلاق، ص/233، ج/3، ط/سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و إن کان الطلاق ثلاثًا في الحرۃ و ثنتین في الأمة، لم تحلّ له حتی تنکح زوجًا غیرہ نکاحًا صحیحًا، و یدخل بها، ثمّ یطلّقها أو یموت عنها."

(الباب السادس في الرجعة، فصل فیما تحلّ به المطلقة، کتاب الطلاق، ص:۴۷۳  المجلد الأوّل، مکتبه رشیدیه)

سنن ابي داؤد ميں هے:

"عن ابن شهاب عن سهل بن سعد في هذا الخبر قال: فطلقا ثلاث تطليقات عند رسول الله صلي الله عليه وسلم، فأنفذه رسول الله صلي الله عليه وسلم."

(باب فی اللعان، ص/324، ج/1، ط/رحمانیہ) 

صورتِ  مسئولہ میں مطلقہ یعنی  سائل کی بیوی پر سائل کے گھر میں ہی عدت گزارنا واجب ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(فصل فی الحداد، ص/536، 537، ج/3، ط/سعید)

طلاق کے لیے گواہ ضروری نہیں

 واضح رہے کہ طلاق کے لیے گواہ بنانا مستحب تو ہے؛ تاکہ فریقین بعد میں جھوٹا دعویٰ  نہ کرسکیں، تاہم گواہ بنائے بغیر بھی اگر  کوئی  طلاق دے تو  طلاق واقع ہوجاتی ہے، طلاق واقع هونے كے ليے گواهوں كي موجودگي ضروری نہیں ہے  ؛ حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں طلاق کے کئی واقعات پیش آئے جن میں بغیر گواہی کے طلاق کا اعتبار کیا گیا، اگر طلاق میں گواہی یا دوسروں کا سننا ضروری ہوتا تو گواہ ضرور طلب کیے جاتے، ورنہ کم از کم اعتراف کے موقع پر مکرر اعتراف کروایا جاتا۔ نیز اس طرح کے معاملات میں جہاں گواہی کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی قبول  کی جاتی ہے، نہ کہ تین گواہ۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  اگر آپ  کی بہن کے شوہر نے اپنی بیوی کو واقعتًا  تین مرتبہ یہ جملہ کہا ہے کہ  ” میں تجھے طلاق دیتا ہوں“ اور شوہر نے اس کا اعتراف بھی کرتا ہے تو  آپ کی بہن پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی  ہیں،  دونوں کا  نکاح ختم ہوگیا ہے، اب شوہر کے لیے بیوی سے رجوع کرنا اوریا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔

آپ کی بہن عدت (  یعنی تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور حمل ہونے صورت میں بچہ کی ولادت  تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

تفسیرالقرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: {وأشهدوا} أمر بالإشهاد على الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعاً. وهذا الإشهاد مندوب إليه عند أبي حنيفة، كقوله تعالى: {وأشهدوا إذا تبايعتم} [البقرة: 282] . وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألايقع بينهما التجاحد، وألايتهم في إمساكها، و لئلايموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية". 

(18 / 157، سورۃ الطلاق، ط؛ الھیۃ المصریۃ العامہ لکتاب)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(3/187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

طلاق نامہ اپنے پاس لکھ کررکھنے سے طلاق ہوجاتی ہے کہ نہیں

 فتاوی شامی میں ہے:

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 246):

"كتب الطلاق، وإن مستبينًا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل: مطلقًا، ولو على نحو الماء فلا مطلقًا. (قوله: كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرًا ومعنونًا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لايكون مصدرًا ومعنونًا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لايمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لايقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينةً لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لاتخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق، كذا في الخلاصة ط (قوله: إن مستبينًا) أي ولم يكن مرسومًا أي معتادًا وإنما لم يقيده به لفهمه من مقابلة وهو قوله: ولو كتب على وجه الرسالة إلخ فإنه المراد بالمرسوم (قوله: مطلقاً) المراد به في الموضعين نوى أو لم ينو وقوله ولو على نحو الماء مقابل قوله: إن مستبيناً (قوله: طلقت بوصول الكتاب) أي إليها ولايحتاج إلى النية في المستبين المرسوم، ولايصدق في القضاء أنه عنى تجربة الخط بحر، ... ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارًا بالطلاق وإن لم يكتب؛ ولو استكتب من آخر كتابًا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها، وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لاتطلق قضاء ولا ديانة، وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لايقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ ملخصًا".

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: ومبدأ العدة بعد الطلاق والموت) یعنی ابتداء عدة الطلاق من وقته ... سواء علمت بالطلاق والموت أو لم تعلم حتى لو لم تعلق ومضت مدة العدة فقد انقضت؛ لأن سبب وجوبها الطلاق ... فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب، كذا في الهداية". (كتاب الطلاق، باب العدة، 4/144/ ط: سعيد

طلاق احسن کاطریقہ

 طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ عورت کو پاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دی جائے، ایک طلاق کے بعد عدت کے اندر اگر چاہیں تو رجوع کرلیں، رجوع کرنے کی صورت میں آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا اختیار باقی ہوگا، اور رجوع نہ کرناچاہیں تو عدت گزرنے کے بعد عورت آزاد ہوگی، وہ کسی اور سے نکاح کرناچاہے تو درست ہوگا۔ اس کو شریعت میں" طلاق احسن" کہتے ہیں۔ ایک طلاق رجعی کے بعد عورت کی عدت گزرجائے، پھر صلح کی کوئی صورت نکل آئے تو نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے، ایسی صورت میں آئندہ دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔


قال اللہ تعالیٰ:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًاO


اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے۔



بیک وقت تین طلاقیں دینا شرعاً ناپسندیدہ ہے، اس لیے بیک وقت تین طلاقیں نہ دی جائیں، لیکن اگر تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی جائیں تو  بھی واقع ہوجاتی ہیں، اور تین طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش بھی نہیں رہتی ہے، 

لما فی السنن النسائی:
أُخْبِرَ رَسُولُ ﷲِ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثَ تَطْلِیقَاتٍ جَمِیعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ: أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اﷲِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْهُرِکُمْ.

ترجمہ:
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دی ہیں۔ یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور غصہ کی حالت میں ارشاد فرمانے لگے: کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب مقدس کی صریح تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا ہے حالانکہ میں تم میں موجود ہوں۔

( 6: 142، رقم: 3401، حلب: مکتب المطبوعات الإسلامیه)

قال اللہ تعالیٰ :
فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ۔ 


اگر مرد اپنی بیوی کو تیسری طلاق بھی دے دے، پس یہ عورت اس مرد کے لئے حلال نہیں ہو سکتی، جب تک یہ اس کے علاوہ کسی اور مرد کے ساتھ نکاح صحیح سے حقوق زوجیت ادا نہ کرلے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کما فی القرآن الکریم:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًاO

(سورۃ الطلاق، آیت: 1)

وفیہ ایضاً:

فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ۔ 

(سورۃ البقرۃ، آیت: 230)

وفی سنن النسائی:

أُخْبِرَ رَسُولُ ﷲِ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثَ تَطْلِیقَاتٍ جَمِیعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ: أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اﷲِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْهُرِکُمْ.

(ج: 6، ص: 142، رقم: 3401، ط: مکتب المطبوعات الإسلامیه)

Friday 7 January 2022

دواوقات کی نماز جمع کرکے پڑھنے کی اجازت کب ہے

 ہر نماز کو اپنے اپنے وقت میں پڑهنا فرض ہے، نمازوں کے اوقات قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے فرمایاہے :
﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾ 
(النساء:۱۰۳)
ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے۔

ہرنماز کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے، اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقرر ہے، بلکہ ایک حدیث میں نبی صلی الله عليه وسلم نے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں بلا عذر پڑھنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ جو عمل گناہِ کبیرہ ہو، وہ کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ 

لما فی الترمذی:
مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ.‘‘
(سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:۱۸۸)
ترجمہ: جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔

لہذا معلوم ہوا کہ دو وقتوں کی نماز کو ایک ہی وقت میں ادا کرنا جائز نہیں ہے، البتہ سفر وغیرہ میں ایک نماز اپنے وقت کے آخر میں اور دوسری نماز اپنے وقت کے شروع میں پڑهی جائے، تو اس کی گنجائش ہے۔
اب رہی وہ احادیث جن میں سفر یا کسی اور عذر کی بنا پر دو نمازوں کو جمع کرنے کا ذکر ہے، تو اس کے دو جواب ہیں:

ایک جواب یہ ہے کہ جن روایات میں صراحتاً وقت سے پہلے یا وقت کے بعد نماز ادا کرنے کا ذکر ہے، وہ قرآن مجید اور ان احادیث سے متعارض ہیں، جن میں نمازوں کے اوقات مقرر کیے گئے ہیں، کیونکہ قرآن مجید میں نماز کو اس کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اس حدیث میں وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ قرآن اور حدیث میں ٹکراؤ ہو، تو قرآن کو ترجیح دی جاتی ہے، نیز دیگر احادیث جو نمازوں کو اوقات کے علاوہ اد اکرنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں، ان سے بھی ٹکراؤ کی صورت میں ان کثیر وصحیح روایات کو ترجیح دی جائے گی، اس لیے ظہر اور عصرکی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اور مغرب و عشاء کی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اسی پر عمل کیاجائے گا، اور نمازیں اسی وقت میں ادا کرنا ضروری ہوگا، اور دو نمازوں کو جمع کرنے والی روایات کو ترک کردیا جائے گا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ان روایات میں جمع کرنے سے صورتاً جمع کرنا مراد ہے، حقیقتاً نہیں، اس کی وضاحت یہ ہے کہ ظہر کی نماز اتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کاوقت ختم ہونے لگے، جیسے ہی ظہر کی نماز سے فراغت ہو، کچھ دیر انتظار کیا جائے، پھرجب عصر کا وقت شروع ہوجائے، تو عصر بھی پڑھ لی جائے، اسی طرح مغرب اور عشاء میں کیا جائے، اس صورت میں ظہر اپنے وقت میں پڑھی جائے گی، اور عصر اپنے وقت میں پڑھی جائےگی، لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ دونوں ایک ہی ساتھ پڑھی گئیں ہیں۔ آپ صلی الله عليه وسلم نے دونمازوں کو اس طرح جمع فرمایا تو راویوں نے کہہ دیا کہ آپ نے دونمازوں کو جمع فرمایا ہے، جب کہ اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی، جیسا کہ مندرجہ ذیل تفصیلی روایات میں اس کی وضاحت ملتی ہے:

عبد اللہ ابن عمر فرماتے ہیں:
’’رَاَيْتُ رَسُوْلَ الله ﷺ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ حَتّٰى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ.‘‘ قال سالم وکان عبداللہ بن عمر یفعلہ اذا اعجلہ السیر یقیم المغرب فیصلیھم ثلاثا ثم یسلم ثم قلما یلبث حتی یقیم العشاء۔
(صحیح بخاری، باب ہل یوذن او یقیم اذا جمع الخ، ج1، ص149)

اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نمازِ مغرب سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر ٹھہر جاتے تھے، پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے تھے، تو حضرت ابن عمر کا مغرب پڑھ کر ٹھہرنا صرف اس لیے تھا کہ عشاء کے وقت کے داخل ہونے کا یقین ہوجائے۔

عن ابن مسعود مارایت النبی صلی الله عليه وسلم صلی صلوۃ لغیر میقاتھا الا صلوتین جمع بین المغرب والعشاء ای فی المزدلفۃ و صلی الفجر قبل میقاتھا( المعتاد) 
(صحیح بخاری، ج1، ص228، باب متی یصلی الفجر بجمع) 

ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وقت کے علاوہ نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، سوائے مزدلفہ میں آپ نے مغرب اور عشاء کو جمع فرمایا اور فجر کی نماز اپنے (مقررہ) وقت سے پہلے ادا فرمائی۔

ان روایات سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا، حقیقتاً نہیں، چنانچہ اگر ہم ان روایات کو جمع صوری پر محمول کرتے ہیں، تو تمام آیات اور روایات میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے، اور اگر حقیقت پر محمول کرتے ہیں، تو پھر آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ کو ترک کرنا لازم آتا ہے، اس لئے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا، تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو، اور ان میں باہم تضاد اور ٹکراؤ نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کذا فی الدر مع الرد: 

''(ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)۔

(قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله''.

'' ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ «أنه عليه الصلاة والسلام كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعاً، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب» .

(قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى :﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ ﴾ [البقرة: 234] أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر: « أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا.» " وفي رواية ": ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء "، كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى». رواه مسلم، وهذا قاله وهو في السفر. وروى مسلم أيضاً عن ابن عباس «أنه صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر، لئلا تحرج أمته». وفي رواية: «ولا سفر». والشافعي لا يرى الجمع بلا عذر، فما كان جوابه عن هذا الحديث فهو جوابنا. وأما حديث أبي الطفيل الدال على التقديم فقال الترمذي فيه: إنه غريب، وقال الحاكم: إنه موضوع، وقال أبو داود: ليس في تقديم الوقت حديث قائم، وقد أنكرت عائشة على من يقول بالجمع في وقت واحد. وفي الصحيحين عن ابن مسعود : « والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة، وبين المغرب والعشاء بجمع». " ويكفي في ذلك النصوص الواردة بتعيين الأوقات من الآيات والأخبار، وتمام ذلك في المطولات، كالزيلعي وشرح المنية. وقال سلطان العارفين سيدي محيي الدين نفعنا الله به: والذي أذهب إليه أنه لا يجوز الجمع في غير عرفة ومزدلفة؛ لأن أوقات الصلاة قد ثبتت بلا خلاف، ولا يجوز إخراج صلاة عن وقتها إلا بنص غير محتمل؛ إذ لاينبغي أن يخرج عن أمر ثابت بأمر محتمل، هذا لا يقول به من شم رائحة العلم، وكل حديث ورد في ذلك فمحتمل أنه يتكلم فيه مع احتمال أنه صحيح، لكنه ليس بنص اهـكذا نقله عنه سيدي عبد الوهاب الشعراني في كتابه الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر''.

(ج:1،ص:382-381،ط:سعید،کراچی)

Thursday 6 January 2022

براؤن کلر کاخضاب لگاناجائز ہے یانہیں

 بالوں کو کلر کرنا جائز ہے، البتہ خالص کالے رنگ کاخضاب لگاناجائز نہیں  ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی ممانعت اور سخت وعیدآئی ہے، صرف حالتِ جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے سامنے جوانی اور طاقت کے اظہار کے لیے کالا خضاب استعمال کرنے کی  اجازت دی گئی ہے۔ ابوداودشریف کی روایت میں ہے:"حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں: جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوترکاسینہ،ان لوگوں کوجنت کی خوش بوبھی نصیب نہ ہوگی"۔

البتہ خالص کالے رنگ کے علاوہ دیگر رنگوں کے خضاب لگانا جائز ہے۔

یہی حکم آج کل بازار میں دست یاب بالوں کے  جدید کلر (رنگ)  کا بھی ہے یعنی خالص سیاہ (کالا) کلر  بالوں پر لگاناتو جائز نہیں ہے، البتہ  کالے رنگ کے علاوہ دوسرے کلر مثلاً خالص براؤن ،  سیاہی مائل براؤن یا سرخ(لال) کلر لگانا جائز ہے، خلاصہ یہ ہے کہ کالے رنگ کے علاوہ کوئی بھی کلر لگانا جائز ہے چاہے کوئی بھی نمبر ہو ، بس رنگ خالص کالا نہیں ہونا چاہیے۔
سنن النسائي (8/ 138):

" أخبرنا عبد الرحمن بن عبيد الله الحلبي، عن عبيد الله وهو ابن عمرو، عن عبد الكريم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، رفعه أنه قال: «قوم يخضبون بهذا السواد آخر الزمان كحواصل الحمام، لايريحون رائحة الجنة»".

صحيح مسلم (3/ 1663):

" وحدثني أبو الطاهر، أخبرنا عبد الله بن وهب، عن ابن جريج، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال: أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضاً، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غيروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد»".

الفتاوى الهندية (5/ 359):

"اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ"

اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے؛ سیاہ خضاب  خواہ کالی منہدی کا ہو یا کسی اور کلر سے؛ ہاں خالص سیاہ کے علاوہ دیگر رنگ کا خضاب استعمال کیاجاسکتا ہے۔ اختضب لأجل التزین للنّساء الجواري جاز في الأصحّ ویکرہ بالسواد․․․ ومذہبنا أن الصبغ بالحناء والوسمة حسن کما في الخانیة، قال النووي:ومذہبنا استحباب خضاب الشیب للرّجل والمرأة بصفرة أو حُمرة وتحریم خضابہ بالسواد علی الأصحّ لقولہ علیہ السلام: غیّروا ہذا الشیب واجتنبوا السّواد اھ قال الحموي وہذا في حق غیر الغزاة ولا یحرم في حقّہم للإرہاب ولعلّہ محمل من فعل ذلک من الصحابة ط․ (درمختار مع رد المحتار: ۱۰/ ۴۸۸، ط: زکریا)

Wednesday 5 January 2022

اسلام اوراحترام انسانیت

 رسول اﷲ ﷺ کا آخر ی خطبہ احترام انسانیت کا عالمی منشور اور ایک مکمل نصاب ہے۔ اس تاریخی خطبے میں آپ ﷺ نے انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر بزرگی حاصل نہیں۔ آپ ﷺ نے انسانیت کا احترام سکھایا کہ جب بھی کسی سے بات کرو اچھے انداز سے کرو، اچھی گفت گو کرو اور دوسروں کو اپنے شر سے بچاؤ۔

آپؐ اس قدر دوسروں کا خیال رکھتے تھے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں لیٹی ہوئی تھی اچانک میری آنکھ کھلی، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ بڑے آہستہ آہستہ بستر سے نیچے اترے اور دبے قدموں سے پاؤں رکھتے ہوئے چلنے لگتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ! آپ کیوں اس طرح کر رہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا: تم سوئی ہوئی تھی میں تہجد کے لیے اٹھ رہا تھا، میں نے چاہا میرے اٹھنے کی وجہ سے کہیں تمہاری نیند میں خلل نہ آجائے۔

مخلوق خدا پر رحم کرنے کی تعلیم اسلام ہی دے رہا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’رحم کرنے والوں پر اﷲ رحم فرماتے ہیں، تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ تم اس وقت مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم رحم کرنے والے نہ بن جاؤ۔ آپ ﷺ نے دفع شر اور نفع رسانی کی تعلیم دی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تُو روک لے اپنے شر کو دوسرے انسانوں سے۔،، یعنی ہر بندے کے اندر خیر بھی ہے اور شر بھی، تو فرمایا کہ اپنا شر دوسرے انسانوں تک نہ پہنچاؤ اس کو اپنے تک ہی روک لو۔ مثلا کئی مرتبہ انسان چاہتا ہے کہ دوسرے بندے کا مذاق اڑائے، شریعت کہتی ہے کہ تمہارے اندر جو خواہش پیدا ہورہی ہے اسے روک لو، اگر تم کسی دوسرے کا مذاق اڑا کر اس کو ایذا پہنچاؤ گے تو یہ مناسب نہیں۔

Tuesday 4 January 2022

Rubbish directives of the UGC

 The University Grants Commission on December 29 had issued a circular, asking three lakh students in 30,000 institutes across the country to perform Surya Namaskar in front of the Tricolour under the Amrit Mahotsav celebrations to mark India's 75th year of Independence. "To commemorate the Amrit Mahotsav celebrations, the 75th anniversary of Independence Day, the federation has decided to run a project of 750 million surya Namaskar in 30 states, involving 30,000 institutes and 3 lakh students from January 1 to February 7," the circular signed by UGC Secretary Rajnish Jain said.

"The government is trying to impose the traditions and culture of the majority on others. This is unconstitutional," General Secretary of the organisation Maulana Khaled Rahmani said.

"The government must immediately roll back the diktat and promote secular values in the country," he said. Instead of issuing such directives, the government needs to focus on real issues such as inflation unemployment, etc, he added.

Monday 3 January 2022

مساجدکی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں


ارشاد باری تعالی ہے :

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ {التوبہ18}

خدا کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے

1 : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ آنے کے بعد سب سے پہلئے مسجد کا کام شروع کیا ہے:

قبامیں آپ چنددن ٹھرے اور وہاں مسجد کی بنیاد رکھی ۔

پھر جب مدینہ منورہ منتقل ہوئے تو اپنے لئے گھر کی تعمیر سے قبل مسجد کی بنیاد رکھی ۔

اور صحابہ کے ساتھ آپ خود بھی اسکی تعمیر میں شریک رہے ۔

2 : مسجد کو شریعت میں اللہ تعالی کا گھر کہا گیا اور اسکی نسبت اللہ کی طرف کی گئی :

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا{الجن18}

اور یہ کہ مسجدیں (خاص) خدا کی ہیں تو خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو

ومااجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ ۔۔۔۔ الحدیث

{ مسلم عن ابی ھریرۃ}

اس حدیث میں مسجد کو اللہ کے گھر سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

3 : آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مساجد بنانے کا حکم دیتے :

امرنا رسول ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب

{ احمد ابوداود عن عائشہ}

“ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم محلات میں مسجد تعمیر کریں اور اسے پاک وصاف اور معطر رکھیں ” ۔

آپ کے پاس وفود آتے تو آپ انہیں بھی مساجد کی بناء کا حکم دیتے ۔

حضرت طلق بن علی بیان کرتے ہیں کہ

4 : کسی علاقے میں مسجد کا نہ ہونا اور وہاں سے آذان کی آواز کا نہ آنا اس بات کی دلیل تھی کہ یہ بستی مسلمانوں کی نہیں ہے :

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذاغزا بنا قوم لم یکن یغزو بنا حتی یصبح وینظر الیھم فان سمع الآذان کف عنہم وان لم یسمع اغار علیہم الحدیث

{ متفق علیہ عن انس}

5 : مساجد کا تاکیدی حکم :

مامن ثلاثۃ فی ضربۃ ولاتقام فیہم الصلاۃ الا قد استحوذ علیہم الشیطان فعلیکم با لجماعۃ فان الذئب یاکل من الغنم الفاصبۃ

{احمد ابوداود عن ابی الدرداء}

مسجد کی فضیلت :

۱- مسجد بنانے کی فضیلت :

من بنا للہ مسجدا یبتغی بہ وجہ اللہ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ

“جس نے اللہ تعالی کی رضا مندی چاہتے ہوئے مسجد کی تعمیر کی اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھر کی تعمیر فرماتا ہے ”

{متفق علیہ عن عثمان}

۲- مسجد صدقہ جاریہ ہے :

ان مما یلحق المئومن من عملہ وحسناتہ بعد موتہ علما علم ونشرہ او ولد ا صالحا ترکہ اومصحفا ورثہ اومسجدا بناہ اوبیتالابن السبیل بناہ اونہر ا اجراہاوصدقۃ اخرجہا من مالہ فی صحتہ وحیاتہ تلحق من بعد موتہ ۔

{ابن ماجہ ۔ ابن خزیمہ عن ابی ھریرۃ}

++ مذکورہ حدیث میں وجہ استشہاد ہے کہ مسجد کی تعمیر صدقہ جاریہ میں سے ہے ۔

۳- مسجد کی محبت عظیم نیکی ہے :

کیونکہ مسجد سے محبت اللہ سے محبت کی دلیل ہے اور اللہ سے محبت لاالہ الاللہ کے شرائط میں سے ہے ،

سبعۃ یظلہم اللہ فی ظلہ یو م لاظل الاظلہ ، الامام العادل ، وشاب نشا فی عبادۃ اللہ عزوجل ،ورجل قلبہ معلق بالمساجد۔۔۔ الحدیث

{ البخاری مسلم عن ابی ھریرۃ}

+++ اس حدیث سے مطلوب یہ کہ مسجد کی محبت دل میں بسانے والے کے لئے قیامت والے دن عرش کا سایہ نصیب ہوگا ۔

۴- مسجد کی طرف جانا گویا اللہ کی ضیافت میں جانا ہے :

من غدا الی المسجد اوراح اعد اللہ لہ نزلا من الجنۃ کلماغدا اوراح

” جو کوئی صبح یا شام میں مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت کی مہمانی تیار فرماتا ہے ”

{ متفق علیہ عن ابی ھریرۃ}

۵- مسجد کا قصد کرنے والوں کی قیامت کے نرالی شان :

بشر المشائین فی الظلم الی المساجد بالنور التام یوم القیامۃ

“خوشخبری ہو تاریکی میں مسجد کی جانب چلنے والوں کے لئے قیامت کے دن مکمل روشنی کی ”

{ ابوداود، الترمذی عن بریدۃ}

۶- مسجد کی طرف جانا گناہ کاکفارہ اور درجات کی بلندی ہے:

صلاۃ الرجل فی الجماعۃ تضعف علی صلاتہ فی بیتہ وفی سوقہ خمساوعشرون درجۃ وذلک انہ اذا توضا فاحسن الوضوء ، ثم خرج الی المسجد لایخرجہ الا الصلاۃ لم یحط خطوۃ الا رفعت لہ درجۃ وحط عنہ بہا خطیئۃ ۔۔۔۔الحدیث

{البخاری ، مسلم عن ابی ھریرۃ}

++ اس حدیث کا وجہ ذکر یہ کہ مسجد کی طرف قدم بڑھانے والے کے گناہ معاف اور درجات بلند ہوتے ہیں ۔

۷-مسجد میں جانے والوں کی ایک اہم فضیلت :

بما تو طن رجل المساجد للصلاۃ والذکر الاتبشبش اللہ تعالی الیہ کمایتبشبش اھل الغائب بغائبہم اذا قدم علیہم ۔

” جو شخص بھی مسجدمیں نماز اور ذکر کیلئے کوئی جگہ بنالیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اسکی آمد پر اسی طرح خشی اور استقبال کا اظہار کرتا ہے جس طرح کسی کا عزیز ایک مدت غائب رہنے کے بعد اسکے پاس آئے۔”

{ ابن ماجہ ، ابن خزیمہ عن ابی ھریرۃ}

۸- مسجدمیں چھاڑو دینے کی فضیلت :

ان امرۃ سوداء ۔۔۔۔۔۔ {متفق علیہ عن عائشہ}

مذکور ہ حدیث میں اس عورت کا ذکر ہے جو غریب اور کالی کلوٹی تھی اور مسجد نبوی کی صفائی کا اہتمام کرتی تھی ، اس کی وفات ہوجاتی ہے اور لوگ اس کی تدفین کا انتظام فرمادیتے ہیں اور اس عورت کوغیر اہم جانتے ہوئے اس کی اطلاع بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہنچاتے ، بعدمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر اس عورت کی وفات کا علم ہوتا ہے ، آپ افسوس ظاہر کرتے ہوئے عدم اطلاع کی شکایت کرتے ہیں اور قبرستان پہنچ کر اس گمنام عورت کی نماز جنازہ ادا فرماتے ہیں ۔

اس واقعہ سے اس بات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد نبوی کی صفائی کرنے والی ایک گمنام عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر اہمیت دی اور اہمیت کی اہم وجہ یہی تھی کہ وہ عورت مسجدکی صفائی کا خیال رکھتی تھی ۔