https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 3 November 2022

بیٹی نوسال کے بعد کس کی حضانت میں رہے گی

جب تک بچی کی عمر اس حد تک نہ پہنچی ہو جس میں وہ قابل ِشہوت ہو تب تک اس کی پرورش کی حقدار اس کی ماں ہے۔جب کہ اس کے بعد اس کی پرورش کا حق باپ کی طرف منتقل ہوجا تاہے۔فقہاے کرام نے عمر کی یہ حد نو(9)سال ذکر کی ہے۔صورتِ مسئولہ کے مطابق اگرآپ کی بیٹی کی عمر نو(9) سال ہوتو ماں کاحقِ پرورش ختم ہوا ہے لہذا اب سائل ہی اس کی پرورش کا حقدار ہے۔ (2) بیٹی اگرباپ کے ساتھ ہو تو ماں جب چاہےاپنی بیٹی کے ساتھ ملاقات کےلیےجا سکتی ہے ۔اسی طرح اگروہ ماں کے ساتھ ہوتو باپ اس کے ساتھ جب چاہے، ملاقات کرسکتا ہے۔دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کوملاقات سے منع کرنے کا مجاز نہیں۔ ( والأم والجدة ) لأم أو لأب ( أحق بها ) بالصغيرة ( حتى تحيض ) أي تبلغ في ظاهر الرواية.....( وغيرهما أحق بها حتى تشتهي ) وقدر بتسع وبه يفتى.....( وعن محمد أن الحكم فى الأم والجدة كذلك ) وبه يفتى لكثرة الفساد.(الدرالمختارمع تنويرالأبصار،كتاب الطلاق،باب الحضانة.ج5ص267) الْوَلَدُ مَتَى كان عِنْدَ أَحَدِ الْأَبَوَيْنِ لَا يَمْنَعُ الْآخَرَ عن النَّظَرِ إلَيْهِ وَعَنْ تَعَاهُدِهِ(الفتاوى الهندية،كتاب الطلاق،الباب السادس عشرفى الحضانة،ج1ص594) قلت وفى السراجية إذا سقطت حضانة الأم وأخذه الأب لا يجبر على أن يرسله لها بل هي إذا أرادت أن تراه لا تمنع من ذلك.(أيضا،ص275) والمطلقة البائنة خرجت بولدها إلى موضع يقدر الزوج أن يزور ولده في يومه لهاذالك،وإن خرجت إلى موضع لم يقدر الزوج أن يزور ولده في يومه لم يجز.(خزانة الفقه،كتاب الشهادات، باب المقادير،مادارعلى يوم واحد، ص324) "قال ابن الهمام: إذا بلغ الغلام السن الذي يكون الأب أحق به كسبع مثلًا أخذه الأب، ولايتوقف على اختيار الغلام ذلك، وعند الشافعي يخير الغلام في سبع أو ثمان، وعند أحمد وإسحاق يخير في سبع لهذا الحديث". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 567): "(ولا خيار للولد عندنا مطلقًا) ذكرًا كان، أو أنثى خلافًا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيًا للمنية، وأفاده بقوله: (بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرًا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبًا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونةً على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء، بحر عن الظهيرية. (والغلام إذا عقل واستغنى برأيه ليس للأب ضمه إلى نفسه) إلا إذا لم يكن مأمونًا على نفسه فله ضمه لدفع فتنة، أو عار، وتأديبه إذا وقع منه شيء، ولا نفقة عليه إلا أن يتبرع، بحر" بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (8 / 244): "ولا خيار للغلام والجارية إذا اختلف الأبوان فيهما قبل البلوغ عندنا، وقال الشافعي: يخير الغلام إذا عقل التخيير. واحتج بما روي عن أبي هريرة رضي الله عنه أن امرأة أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: زوجي يريد أن ينتزع ابنه مني، وإنه قد نفعني وسقاني من بئر أبي عنبة، فقال: { استهما عليه، فقال الرجل: من يشاقني في ابني؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم للغلام: اختر أيهما شئت، فاختار أمه، فأعطاها إياه}؛ ولأن في هذا نظر للصغير؛ لأنه يحتاج الأشفق. ولنا ما روينا عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال للأم: { أنت أحق به ما لم تنكحي ولم يخير}؛ ولأن تخيير الصبي ليس بحكمة؛ لأنه لغلبة هواه يميل إلى اللذة الحاضرة من الفراغ والكسل والهرب من الكتاب وتعلم آداب النفس ومعالم الدين فيختار شر الأبوين وهو الذي يهمله ولايؤدبه. وأما حديث أبي هريرة رضي الله عنه فالمراد منه التخيير في حق البالغ؛ لأنها قالت: نفعني وسقاني من بئر أبي عنبة، ومعنى قولها: نفعني أي: كسب علي، والبالغ هو الذي يقدر على الكسب. وقد قيل: إن بئر أبي عنبة بالمدينة لايمكن الصغير الاستقاء منه، فدل على أن المراد منه التخيير في حق البالغ، ونحن به نقول: إن الصبي إذا بلغ يخير. والدليل عليه ما روي عن عمارة بن ربيعة المخزومي أنه قال: غزا أبي البحرين؛ فقتل، فجاء عمي ليذهب بي، فخاصمته أمي إلى علي بن أبي طالب رضي الله عنه، ومعي أخ لي صغير، فخيرني علي رضي الله عنه ثلاثًا، فاخترت أمي فأبى عمي أن يرضى، فوكزه علي رضي الله عنه بيده وضربه بدرته، وقال: لو بلغ هذا الصبي أيضًا خيّر، فهذا يدل على أن التخيير لايكون إلا بعد البلوغ". بچی کی پرورش کا حق ماں کو بچی کے ۹/ سال کی عمر پہونچ جانے تک رہتا ہے بشرطیکہ ماں نے دوسری شادی بچی کے نامحرم سے نہ کرلی ہو اگر دوسری شادی کرے گی تو اس کا حق حضانت ختم ہو جائے گا اسی طرح بچی کے ۹/سال کی عمر کو پہونچ جانے پر بھی بچی کا حق حضانت ماں کے لئے ختم ہو جاتا ہے۔ اور باپ کو اختیار اور حق حاصل ہو جاتا ہے کہ بچی کو اپنی پرورش اور تربیت میں رکھے پھر شادی کے لائق ہو جانے پر اس کی شادی کا بندوبست کرے۔ قال فی الدر: والام احق بہا حتی تحیض... وغیرہما احق بہا حتی تشتہی وقدر بتسع وبہ یفتی وعن محمد ان الحکم فی الام والجدة وبہ یفتی لکثرة الفساد ۔ ص:۲۶۸، ۵۸۰۔ بچوں سے ماں باپ کا ملنا ملانا بھی تربیت کی ایک قسم ہے جوکہ بچہ والدین کی پرورش میں ہی سیکھتا ہے اوران دونوں کی دیکھـ بھال اوراس کی اچھی تربیت کرنے سے بچے کا جسم بڑھتا اوراس کی عقل میں نمو اورپختگي آتی ہے اوروہ اپنے آپ کو پاکيزہ بنا کر زندگی کے لیے تیار کرتا ہے ۔ اورجب والدین کے درمیان علیحدگی ہوجاۓ اوران کا کوئي بچہ بھی ہو تواس صورت میں باپ سے زيادہ ماں کو بچے کا حق ہے جب تک کہ کوئي مانع نہ پایا جاۓ اوریا پھر بچے میں کوئي وصف ہوجواختیار کا تقاضہ کرے ۔ باپ کے مقابلہ میں ماں کومقدم کرنے کا سبب یہ ہے کہ ماں کوہی بچے کی پرورش اوررضاعت کا حق حاصل ہے ، اس لیے کہ وہ بچے کی تربییت کرنا زيادہ جانتی ہے اوراسے اس پر قدرت بھی زيادہ حاصل ہوتی ہے اوراسی طرح اس معاملے میں صبرکرنے کی بھی گنجائش ہوتی ہے جوکہ مرد کے پاس نہیں ۔ اوراسی طرح ماں کے پاس تربیت کے لیے وقت بھی زیادہ ہوتا ہے جو کہ مرد کے پاس نہيں اس لیے بچے کی مصلحت کومد نظر رکھتے ہوۓ ماں کوپرورش اورتربیت کے لیے مقدم کیا گیا ہے ۔ عبداللہ بن عمرو رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ اس بچے کے لیے میرا پیٹ ایک برتن بنا رہا ، اورمیری گود اس کے لیے حفاظت کی جگہ رہی اورمیرا سینہ اس کے لیے خوراک مہیا کرتا رہا ، اوراب اس کا والد سے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے ۔ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تک تونکاح نہ کرلے اس کی توہی زيادہ حقدار ہے ۔ مسند احمد ( 2/ 182 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2276 ) مستدرک الحاکم ( 2 / 225 ) امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح کہا ہے ۔ یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس ( بیوی ) ایک انصاری عورت تھی جس سے ان کے بیٹے عمر بن عاصم پیدا ہوۓ ، پھربعد میں عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کوچھوڑ دیا ، ایک دفعہ عمر رضي اللہ تعالی عنہ قبا گۓ تواپنے بیٹے عاصم کومسجد کے صحن میں کھیلتے ہوۓ پایا تواسے بازو سے پکڑ کراپنے ساتھ سواری پر سوار کرلیا اتنی دیر میں بچے کی نانی عمر رضي اللہ تعالی عنہ تک آ پہنچی اوربچے کولینے کی کوشش کرنے لگی حتی کہ دونوں ابوبکرصدیق رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آۓ ۔ اورعمر رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : میرا بیٹا ہے ، اورعورت کہنے لگی یہ بیٹا میرا ہے ، توابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : آپ اسے اس عورت کو دے دیں توعمر رضي اللہ تعالی عنہ نے ان سے کوئي بات بھی نہ کی ۔ امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوموطا میں روایت کیا ہے ( 2 / 767 ) سنن بیھقی ( 8 / 5 ) ۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ یہ حدیث منقطع اورمتصل دونوں طریق سے مشہور ہے اوراہل علم نے اسے قبول کا درجہ دیا ہے ۔ اوربعض روایات میں ہے کہ ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : ماں زيادہ مہربان اوررحم کرنے والی اورنرم دل ، زيادہ محبت کرنے والی ، زيادہ لائق اور جب تک شادی نہ کرلے وہ بچے کی زيادہ حقدار ہے ۔ اورابوبکررضي اللہ تعالی عنہ نے جویہ فرمایا تھا کہ ماں زيادہ مہربان اوررحمدل ہوتی ہے ، اسی علت اورسبب سے ماں چھوٹے بچے کی زيادہ حقدار ہے ،

Sunday 30 October 2022

تقسیم سے پہلے ترکہ پرزکوۃ لازم نہیں

مرحوم کے ترکہ پر تقسیمِ میراث سے پہلے زکات واجب نہیں ہوتی تا وقتیکہ اسے شرعی ورثاء میں تقسیم نہ کردیا جائے، پھر جس شخص کے حصے میں وہ مال آئے اگر وہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو دیگر اموال کے ساتھ ملاکر اس کی زکات ادا کرنی ہوگی۔ بصورتِ دیگر اگر وہ رقم بقدرِ نصاب بھی ہو اور تقسیم کے بعد ہر وارث کے پاس اس پر مکمل سال بھی گزر جائے تب زکات لازم ہوگی،تین سال تک ترکہ تقسیم نہیں ہواتب بھی اس پر زکات لازم نہیں. تقسیم سے پہلے کے تین سالوں کی زکات واجب نہیں۔ بدائع الصنائع میں ہے: "وَوُجُوبُ الزَّكَاةِ وَظِيفَةُ الْمِلْكِ الْمُطْلَقِ، وَعَلَى هَذَا يُخَرَّجُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ فِي الدَّيْنِ الَّذِي وَجَبَ لِلْإِنْسَانِ لَا بَدَلًا عَنْ شَيْءٍ رَأْسًا كَالْمِيرَاثِ بِالدَّيْنِ وَالْوَصِيَّةِ بِالدِّينِ، أَوْ وَجَبَ بَدَلًا عَمَّا لَيْسَ بِمَالٍ أَصْلًا كَالْمَهْرِ لِلْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ، وَبَدَلِ الْخُلْعِ لِلزَّوْجِ عَلَى الْمَرْأَةِ، وَالصُّلْحِ عَنْ دَمِ الْعَمْدِ أَنَّهُ لَا تَجِبُ الزَّكَاةُ فِيهِ". (٢/ ١٠

Saturday 29 October 2022

چمچ سے کھانا

کھانا کھانے کے آداب میں سے ہے کہ انسان بغیر کسی واسطہ کے اپنے داہنے ہاتھ سے کھائے، یہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ عادیہ ہے، البتہ چمچ سے کھانا بھی جائز ہے، شرعاً اس کی ممانعت نہیں، البتہ طبی لحاظ سے چمچہ کے بغیر اپنے ہاتھ سے کھانا کھانے کے ہضم ہونے کے لیے زیادہ مفید ہے، نیز چمچہ سے کھانے کو ناجائز قرار دینا یا خلافِ سنت قرار دینا بھی درست نہیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاول بھی غذائی اجناس میں شامل تھا۔ اگر کسی جگہ براہِ راست ہاتھ سے کھانے کو معیوب سمجھا جائے یا چمچے / کانٹے وغیرہ سے کھانے کو بڑائی اور تکبر کی وجہ سے اختیار کیا جائے تو ایسی جگہ براہِ راست ہاتھ سے کھانا بہتر ہے۔ لیکن ایسی بات نہ ہو تو چمچے سے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ اور اگر غذا ایسی ہے کہ چمچے کے بغیر (یعنی براہِ راست ہاتھ سے) کھانے میں حرج و تکلیف ہو تو براہِ راست ہاتھ سے کھانے کے تکلف کی ضرورت نہیں ہے، ایسے موقع پر چمچے سے کھالینا چاہیے۔ سنن ابی داؤد میں ہے: "حدثنا محمد بن العلاء حدثنا أبو أسامة حدثنا عمر بن حمزة أخبرنا سالم بن عبد الله عن أبيه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من استطاع منكم أن يكون مثل صاحب فرق الأرز، فليكن مثله. قالوا: ومن صاحب فرق الأرز يا رسول الله؟ فذكر حديث الغار حين سقط عليهم الجبل، فقال كل واحد منهم: اذكروا أحسن عملكم، قال: وقال الثالث: اللهم إنك تعلم أني استأجرت أجيراً بفرق أرز، فلما أمسيت عرضت عليه حقه فأبى أن يأخذه وذهب، فثمرته له حتى جمعت له بقراً ورعاءها، فلقيني فقال: أعطني حقي، فقلت: اذهب إلى تلك البقر ورعائها فخذها، فذهب فاستاقها". ( سنن ابي داؤد، باب في الرجل يتجر في مال الرجل بغير إذنه، رقم الحديث، ٣٣٨٧) عون المعبودمیں ہے: "(مثل صاحب فرق الأرز ) : بفتح الفاء والراء بعدها قاف وقد تسكن الراء . قال في القاموس : مكيال بالمدينة يسع ثلاثة آصع أو يسع ستة عشر رطلاً، والأرز فيه ست لغات : فتح الألف وضمها مع ضم الراء وتضم الألف مع سكون الراء وتخفيف الزاي وتشديدها ، والرواية هنا بفتح الهمزة وضم الراء وتشديد الزاي قاله القسطلاني . وقال في القاموس : الأرز حب معروف وقال في الصراح: أرز برنج ( فذكر حديث الغار ) : لم يذكره أبو داود بطوله ، وذكره البخاري مطولاً في ذكر بني إسرائيل والمزارعة والبيوع وغيرها، وذكره مسلم في التوبة ( فثمرته ) : من التثمير أي كثرت الأرز وزدته بالزراعة ( له ) : أي للأجير ( ورعاءها ) : جمع راع واستدل أبو داود بهذا الحديث على جواز تجارة الرجل في مال الرجل بغير إذنه ، وقد تقدم اختلاف العلماء في هذه المسألة في الباب المتقدم ، وترجم البخاري في صحيحه : باب إذا اشترى شيئا لغيره بغير إذنه فرضي ثم ذكر هذا الحديث". ( ٩ / ١٩٠

Friday 28 October 2022

توبہ سے کون کونسے گناہ معاف ہوتے ہیں

کفر اور شرک کے علاوہ جتنے کبیرہ گناہ ہیں، وہ سب توبہ سے معاف ہوسکتے ہیں بشرطیکہ توبہ سچی توبہ ہو ،سچی توبہ کا مطلب یہ ہے کہ دل سے پشیمانی ہو، اس گناہ کو فوراً ترک کردیا جائے اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم ہو، اور اگر اس گناہ کی وجہ سے کسی کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس کی ادائیگی یا تلافی کی کوشش شروع کردی جائے۔ یعنی اگر حقوق اللہ (نماز ،روزہ ،زکوۃ ،حج وغیرہ) ذمہ پرہیں، تو انہیں ادا کرنا شروع کردے۔ اور اگر حقوق العباد میں کوتاہی کی ہو تو صاحبِ حق کو اس کا حق ادا کرے یا اس سے معاف کروالے، بندے کا حق اس کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوسکتا، حقوق العباد سے متعلق گناہوں سے توبہ کی تکمیل کے لیے یہ ضروری شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے، وہ کسی کو بے شمار گناہوں کے باوجود بھی معاف کرکے جنت میں داخل کرسکتاہے، اور اس میں وہ حق بجانب ہوگا، تاہم یہ بھی ملحوظ رہے کہ رحمت اور معافی کی امید پر گناہوں میں مبتلا ہونا عقل مندی نہیں، حماقت ہے، حدیث پاک میں ایسے شخص کو بے وقوف کہا گیا ہے جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے اور اللہ تعالیٰ سے امیدیں اور آرزو لگائے رکھے کہ وہ کریم ہے معاف کردے گا، جب کہ عقل مند اس شخص کو قرار دیا گیا ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور آخرت کی تیاری کرے۔ مسلمان کی شان یہ ہے کہ جس کام سے اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ ﷺ نے ناراضی کا اظہار فرمادیا، اس کام کے قریب بھی نہ جائے

طلاق سکران

نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کاحکم کیاہے، تواس سلسلے میں پہلے فقہاء کے مذاہب پر نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتاہے۔ حنفیہ کے ہاں معروف اورمفتی بہ قول کے مطابق نشہ اگر ایسے سبب سے ہوجومعصیت نہ ہو توسکران کی طلاق واقع نہیں ہوگی، اور اگر نشہ کسی ایسے سبب سے ہے جومعصیت ہے تو نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس دوسری قسم کے نشے میں خمر توبالاتفاق داخل ہے۔ دیگر ناجائز نشوں کے بارے میں متعدد مواقع پر اقوال کااختلاف بھی ہے ،بالخصوص غیرمائع نشہ آور چیزیں مثلاًبھنگ،افیون وغیرہ ، یاوہ مائع نشہ آورچیزیں جوانگور، کشمش ،کھجور اورچھوارے سے نہ بنی ہو۔، تاہم متأخرین کاعمومی رجحان ان چیزوں کے نشے میں بھی طلاق کے وقوع کی طرف ہے، الایہ کہ استعمال کرنے والے نے ان میں سے بطوردوااستعمال ہونے والی چیز بطور دواہی استعمال کی ہو۔ حنفیہ میں سے طحاوی اورکرخی نے ترجیح اس بات کو دی ہے کہ کسی بھی قسم کے نشے میں کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوگی، امام زفر اور محمد بن سلمہ کا مذہب بھی یہی نقل کیاگیاہے ،علامہ علاؤ الدین شامی کی ایک عبارت (تکملہ ج ۸ص ۱۹۷)سے معلوم ہوتاہے کہ حسن بن زیاد کا مذہب بھی یہی ہے ،امام غزالی نے الوسیط(۵/۳۹۰) میں امام ابویوسف کامذہب بھی یہی نقل کیاہے ،تاتارخانیہ میں بعض کتب سے اس کا مفتی بہ قول ہونا بھی نقل کیاہے ،لیکن شامی نے اسے عام متون کے خلاف قراردیاہے ۔ مالکیہ میں سے بعض حضرات کے نزدیک نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، لیکن مالکیہ کے ہاں معروف یہ ہے اورخودامام مالک کی تصریح بھی یہ ہے کہ یہ طلاق واقع ہوجائے گی، البتہ مالکیہ کے ہاں اس بارے میں اختلاف پایاجاتاہے کہ وقوعِ طلاق کی وجہ کیا ہے،ایک رائے یہ ہے کہ چونکہ نشے میں کی حالت میں عقل بالکل زائل نہیں ہوتی بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتی ہے اس لیے اس کاتصرف نافذ ہوگا ۔اس قول کے مطابق اگرنشہ اپنی انتہاء کوپہنچ جائے اورعقل بالکلیہ زائل ہوجائے توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس وجہ کے مطابق مالکی اورحنفی مذہبوں میں اصولی اختلاف ہوجائے گا،کہ حنفیہ کے نزدیک طلاق کے عدمِ نفاذ کے لیے زوالِ عقل شرط نہیں بلکہ اس کامغلوب ہوناہی کافی ہے ، جبکہ مالکیہ کی اس توجیہ کے مطابق عدمِ وقوعِ طلاق کے لیے زوالِ عقل ضروی ہوگا۔ مالکیہ کے ہاں طلاق واقع ہونے کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ چونکہ اس نے اپنی ذہنی کیفیت خوداپنے اختیار سے حرام سبب سے پیداکی ہے اس لیے اس کااعتبار نہیں کیاجائے گا ، اوراس پر ہوش وحواس والے شخص کے احکام جاری ہوں گے ۔اس توجیہ کے مطابق اگرنشا اپنی انتہاء کو بھی پہنچا ہواہو، اس کی طلاق واقع ہوجائے گی۔ (الشرح الکبیر ج ۲ص ۳۶۵ ٗ التاج والاکلیل ج ۴ ص ۴۳) شافعیہ کے ہاں اگرتونشہ کسی ایسے سبب سے ہوجس میں اس شخص کی تعدّی اورغلطی نہ ہوتوبالاتفاق طلاق نہ ہوگی ، اوراگرنشہ کسی ناجائز سبب سے ہو تو امام شافعی کے اس مسئلے میں دوقول ہیں،ایک یہ کہ طلاق واقع نہیں ہوئی ،دوسرایہ کہ طلاق واقع ہوجائے گی۔ پہلے قول کوقولِ قدیم قرادیاگیا ہے، اورابوثور،مزنی ، ابوسہل ، ابوطاہر الزیادی نے اسے ہی اختیار کیاہے اورامام غزالی نے اسے اقیس قرار دیاہے (الوسیط ج ۵ص ۳۹۰ ، روضۃ الطالبین ج۸ص۶۲) جبکہ دوسرے قول کو قولِ جدید قرار دیاگیا ہے اوربیشتر شافعیہ نے اسی کوترجیح دی ہے۔ سکران کے حکم بارے میں مرداوی نے الانصاف میں امام احمد سے پانچ روایتیں ذکر کی ہیں، ان میں تین کے مطابق طلاق واقع نہیں گی اور دوکے مطابق واقع ہوجائے گی، ترجیح میں بھی حنابلہ کے اقوال مختلف ہیں۔ صحابہ وتابعین میں سے سعید بن المسیب ،حسن بصری،ابراہیم نخعی ،زہری اورشعبی وغیرہ وقوعِ طلاق کے قائل ہیں، حضرت عمررضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کافیصلہ نقل کیاجاتاہے ۔جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سندِ صحیح کے ساتھ ثابت ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی اوریہی مذہب منقول ہے القاسم بن محمد، طاؤس ،عکرمہ ،عطا اورابوالشعثاء وغیرہ سے ۔عمربن عبدالعزیز پہلے طلاق واقع ہونے کے قائل تھے،بعد میں رجوع کرلیاتھا اورواقع نہ ہونے کے قائل ہوگئے تھے۔ جوحضرات طلاق سمیت سکران کے اقوال کومعتبر اورنافذ مانتے ہیں انہوں نے اس مسئلے پرکوئی واضح نص پیش نہیں کی ،جن نصوص سے کسی درجے میں استدلال کیابھی ہے تووہ ان حضرات کے لیے مفید ثابت ہوسکتاہے جومطلقاًنشے کی حالت کومزیلِ اہلیت نہ مانتے ہوں اس لیے کہ اس میں عقل بالکلیہ زائل نہیں ہوتی خواہ نشہ جائز سبب سے ہومثلاً قرآنی آیت: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَۃَ وَأَنتُمْ سُکَارَی [النساء ۴:۴۳] سے بعض فقہائے حنفیہ نے بھی استدلال کیاہے، قطع نظر اس امر کے کہ یہ استدلال کس حد تک واضح ہے اس پر یہ اشکال باقی رہتاہے کہ یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی تھی جب شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لیے اس سے ثابت ہونے والے اصول کااطلاق جائز نشے کی حالت پربھی ہونا چاہیے جبکہ حنفیہ کے نزدیک ایسانہیں ہے ۔ دوسری طرف جن حضرات کے نزدیک نشے کی حالت میں اقوال نافذ اورمعتبر نہیں ہیں ان کاایک اہم استدلال ماعزسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے واقعات سے ہے کہ ان کے اقرار کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال یہ بھی کیاکہ اس نے کہیں شراب تونہیں پی ہوئی ۔ اس سے معلوم ہواکہ نشے کی حالت میں کیاگیا اقرار معتبر نہیں ہے، اگرچہ اس پریہ کہاجاسکتاہے کہ حدود چونکہ شبہات کی وجہ سے ساقط ہوجاتی ہیں اورنشے کی حالت میں اقرار بھی شبہ سے خالی نہیں اس لیے اس اقرارکااعتبارنہیں کیاگیا۔ البتہ حدیث کے الفاظ’’المعتوہ المغلوب علی عقلہ‘‘ کا عموم ان حضرات کی اہم دلیل ہے کہ اس میں اس بات کی وجہ سے فرق نہیں کیاگیاکہ یہ غلبہ عقل جائز سبب سے ہویاناجائز سے۔ بہرحال مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی کہ جوحضرات حرام نشے کی حالت میں وقوعِ طلاق کے قائل ہیں بالخصوص حنیفہ اور شافعیہ ان کا مذہب کسی نص صریح پر مبنی نہیں ہے، اسی طرح ان حضرات کی یہ رائے قیاس اوراصول پربھی مبنی نہیں ہے،اس لیے کہ شروع میں ثابت کیا جاچکاہے کہ ان کے نزدیک اہلیتِ طلاق کے زائل ہونے کے لیے جنون کی کیفیت کاہونا ضروری نہیں بلکہ عقل کامغلوب ہوناہی کافی ہے اور یہ بات نشے میں ہوتی ہے جس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ اسی طرح کانشہ اگرجائز سبب سے ہو توان حضرات کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ اس لیے اگرچہ بعض حنفیہ نے حرام نشے کی حالت میں طلاق کے و قوع پر اصول سے استدلال کی کوشش کی ہے لیکن ان سب استدلالات پر ایک عمومی اعتراض یہی کیا جاسکتاہے کہ ان دلائل کے مطابق حلال نشے کی حالت میں بھی طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے ۔ ناجائز نشے میں دی گئی طلاق کے وقع ہونے کی اصل وجہ وہی ہے جوتقریباًتمام فقہائے حنفیہ اورشافعیہ نے ذکر کی ہے ،جس کاحاصل یہ ہے کہ اگرچہ نشے کی حالت بذاتِ خود طلاق کے واقع ہونے سے مانع ہے لیکن یہاں یہ مانعیت اپنا اثر اس لیے نہیں دکھائے گی کہ اس نے یہ حالت خود معصیت کے راستے سے پیدا کی ہے۔ گویا نہ صرف یہ کہ وقوعِ طلاق کافتویٰ اصول کامقتضا نہیں ہے بلکہ یہ فتویٰ ایک اصول کی تاثیر کونظرانداز کرکے گویا خلافِ قیاس دیاگیاہے۔ نشے کی حالت زوالِ اہلیت طلاق کاایک سبب ہے،لیکن یہاں طریق کار کے معصیت ہونے کی وجہ سے اس سبب کااثر مرتب نہیں ہوگا، تو کیا یہ بھی کوئی اصول ہے کہ معصیت کسی سبب کی تاثیر میں مانع بن جاتی ہے۔ توکم ازکم حنفیہ کے ہاں عموماایسانہیں ہوتا، اس کی ایک واضح مثال سفرِمعصیت میں قصرٗحالتِ حیض کی طلاق، اکٹھی تین طلاقیں ، ارض مغصوبہ میں نماز وغیرہ ہیں ۔ اسی طرح غصب وغیرہ کے کئی احکام سے اس کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔یہی اعتراض حافظ ابن حجر نے امام طحاوی کاوقوع طلاق کے قائلین پرنقل کیاہے۔(فتح الباری ۹/۱۹۳) اگربغوردیکھا جائے تووقوع طلاق کے قائلین کوامام طحاوی کی بات کی معقولیت سے بظاہر انکار نہیں ہوگا ۔ اس لیے کہ وقوعِ طلاق کے قائلین پر یہ اعتراض تب ہوتا جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے کہ وقوعِِ طلاق کافیصلہ اصول اورقواعد یاقیاس کی بنیاد پر ہے، جبکہ ان حضرات کامنشایہ ہرگز معلوم نہیں ہوتا۔ ان حضرات نے جولفظ استعمال کیے ہیں وہ عموماًدوہیں ایک تغلیظ کا دوسرے زجر۔تغلیظ کے معنی یہ ہیں کہ اگرچہ وہ اصولی طورپر اس ’’رعایت‘‘کامستحق تھاکہ اس کی طلاق واقع نہ ہو لیکن اس کے غلط طریقِ کار کی وجہ سے بطور سزایہ رعایت اسے نہیں دی جائے گی۔ اورزجر کے معنی یہ ہیں کہ جب نشے کی حالت میں دی گئی طلاق ہم نافذکردیں گے تویہ خودبھی اوردوسرے لوگ بھی آئندہ نشہ کرنے سے گریز کریں گے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کم از کم حنفیہ کے ہاں وقوعِ طلاق کا حکم محض انتظامی ہے اصولی یا منصوص نہیں ہے۔ مذکورہ بالابحث کامقصد بھی دلائل کے اعتبارسے کسی قول کوراجح یامرجوح قراردینا نہیں ہے۔بلکہ یہی دیکھنا ہے کہ وقوعِ طلاق کے قائلین کااصل منشاکیاہے، حقیقت یہ ہے کہ اگراس کوحکم انتظامی قرار نہ دیاجائے تواشکالات کاایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔ اورظاہر ہے کہ انتظامی نوعیت کے حکم کاانحصار حالات پربھی ہوتاہے جیسے سدّذریعہ وغیرہ پر مبنی احکام میں ہوتاہے، اس لیے حالات کی تبدیلی کی صورت میں ایسے احکام میں بھی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ آج کے حالات کے پیشِ نظر نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کا فتوی کئی وجوہ سے نظر ثانی کامحتاج معلوم ہوتاہے، مثلاً: ۱)جیساکہ اوپر بیان ہوابیشتر فقہا ء بالخصوص فقہائے حنفیہ نے سکران کی طلاق کو ’’تغلیظاً‘‘، ’’عقوبۃً‘‘ اور ’’تشدیداً‘‘ نافذ قرار دیا ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء کی عبارات اتنی کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ دشوار ہے ،ظاہر ہے کہ ’’تغلیظ‘‘، ’’تشدید‘‘ اور ’’عقوبت‘‘ اسی شخص پرہونی چاہیے جس سے معصیت کاصدور ہواہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان فقہاء کے پیش نظر عموماًوہ صورتیں تھی جن میں وقوعِ طلاق کانقصان خاوند کوہوتا ہے ،جبکہ ہمارے زمانے میں بالخصوص برّصغیر کے سماجی حالات میں عموماً طلاق کے اثراتِ بد مرد سے کہیں زیادہ بیوی اوراس کے بچوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک کے کیے کی سزا دوسروں کودینا جبکہ جس حکم کے ذریعے سزادی جارہی وہ غیر منصوص ہو بلکہ نص (المغلوب علی عقلہ)کے عموم اورعام اصول کے بھی خلاف ہو،قرین مصلحت اورقرینِ انصاف نہیں ہے۔ ۲)فقہاء نے وقوع طلاق کی ایک وجہ ’’زجر‘‘بیان کی ہے ،لیکن اول توہمارے زمانے میں یہ سوال اہم ہے کہ وقوع طلاق کے فتوے سے یہ مقصد حاصل ہوبھی رہاہے یانہیں، دوسرے اس کامطلب یہ ہواکہ یہ حکم ایک مصلحت کے حصول یاایک مفسدے کے ازالے کے لیے ہے، یعنی لوگ نشے سے بچ جائیں۔ نشہ بھی ایک مفسدہ ہے اورطلاق بھی ایک مفسدہ ہے ٗجسے ابغض الحلال قراردیاگیاہے اورحدیث شریف میں بتایا گیاہے کہ ابلیس اپنے اس چیلے کوزیادہ شاباش دیتاہے جو زوجین میں تفریق کراکے آیاہو، بالخصوص ہمارے ماحول میں اس کے مفاسد پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں،معاشی تنگی، مفادپرستی اور خود غرضی کے ماحول کی وجہ سے بیوی بچوں کی کفالت کے بے شمار پیدا ہوجاتے ہیں اور بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کے حوالے سے پیداہونے والے مسائل اس سے بھی سنگین ہوتے ہیں۔ ان حالات میں وقوعِ طلاق اورعدم وقوع دونوں پرمرتب ہونے والے مفاسد کے توازن کومدنظر رکھ کر اس مسئلے پرازسرنو غورکی ضرورت ہے ۔بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ عموماً وقوعِ طلاق کے مفاسد اس متوقع فائدے(زجرعن السکر)سے زیادہ ہوتے ہیں۔نیززجرکافائدہ محتمل ہے اوروقوعِ طلاق کے مفاسد یقینی ، اس لیے ہمارے زمانے میں عدمِ وقوع طلاق کافتوی ہی انسب معلوم ہوتاہے ۔ ۳)یوں لگتاہے کہ سکران کی طلاق واقع کرنے میں فقہاء کے پیش نظراحتیاط کاپہلو بھی تھا،چنانچہ شہد یااناج سے بنے ہوئے نبیذ مسکر پربحث کرتے ہوئے ابن نجیم بزازیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں : ’’المختار فی زماننا لزوم الحد، لأن الفساق یجتمعون علیہ، وکذا المختار وقوع الطلاق، لأن الحد یُحتال لدرۂ والطلاق یحتاط فیہ، فلما وجب مایحتال لأن یقع مایحتاط أولی‘‘۔ اس سے یہ قاعدہ معلوم ہوتاہے کہ طلاق ان احکام میں سے ہے جنہیں فقہاء بطور احتیاط بھی ثابت کردیتے ہیں،ظاہر ہے کہ احتیاط کو اسی صورت میں اختیار کیاجاتاہے جبکہ اس پر دیگر مفاسد ومضار مرتب نہ ہورہے ہوں۔ ۴) جیسا کہ اوپر ذکر ہواسکران کی طلاق واقع ہونے کاحکم منصوص یااصولی نہیں انتظامی ہے۔ اول تو لزومِ مفاسد وغیرہ کی وجہ سے ویسے ہی دوسرے مذہب کواختیار کرنے کی بیسیوں مثالیں فقہاء کے ہاں ملتی ہیں ۔حکم کے انتظامی ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ اورآسان ہوجاتاہے ، اورپھر اس وجہ سے بھی کہ خودحنفیہ میں سے بھی امام زفر، حسن بن زیاد، طحاوی اورکرخی جیسی شخصیات کی آراء عدمِ وقوع کی موجود ہیں۔ مزید برآں یہ کہ ہمارے زمانے میں نشہ یاتوغیرمائع چیزوں سے ہوتاہے یاایسے مائعات سے جوانگور یاکھجور سے بنے ہوئے نہ ہونے کی وجہ سے اشربہ اربعہ سے خارج ہوتے ہیں۔ ان نشوں کی حالت میں طلاق کے بارے میں مشائخِ حنفیہ کے اندرمزید اختلاف موجود ہیں اورتصحیح میں بھی اختلاف ہے۔ مثلاصاحب بحر نے قاضی خان سے عدمِ وقوع کی تصحیح نقل کی ہے، اس لیے عدمِ وقوع طلاق کافتویٰ دینے میں کوئی زیادہ خروج عن المذہب بھی نہیں پایا جا رہا ہے ، اس لیے وقوعِ طلاق والے حکم کی اصل حیثیت وتعلیل کو اورہمارے زمانے اور علاقوں کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے رجحان اس طرف ہورہاہے کہ طلاق واقع نہ ہونے کافتویٰ دیاجائے۔ البتہ اس میں نشے کی نوعیت کی تفصیل میں جانے سے اورقاضی خان وغیرہ کے قول اختیار کرنے کی صورت میں چونکہ بعض نشوں کی شناعت کم ہونے کااندیشہ ہے، اس لیے درست یہ معلوم ہوتاہے کہ امام زفر ،حسن بن زیاد ،طحاوی اورکرخی جیسے حضرات کی رائے اختیار کرتے ہوئے کہاجائے کہ نشے کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی

طلاق غضبان

علامہ شامیؒ نے رد المحتار میں ’’طلاق المدہوش ‘‘اور’’طلاق الغضبان‘‘پرتفصیلی بحث کی ہے،انہوں نے ابن القیم ؒ کے رسالہ ’’طلاق الغضبان ‘‘ سے نقل کیاہے کہ غصے کی تین حالتیں ہیں۔ایک ابتدائی حالت ہے، جس میں آدمی کوپتا ہوتاہے کہ میں کیا کہہ رہاہوں اورجوکچھ کہہ رہاہوتاہے قصداور ارادے سے کہہ رہاہوتاہے اس حالت میں دی گئی طلاق کے واقع ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ ایک انتہائی حالت ہے کہ غصے کے غلبے کی وجہ سے اسے پتاہی نہ ہو کہ میں کیاکررہاہوں، اوربغیر قصدو ارادے کے اس کے منہ سے الفاظ نکل رہے ہوں، اس حالت میں دی گئی طلاق کے بلاشک وشبہ واقع نہ ہونے کاحکم لگایاجائے گا ۔تیسری حالت وہ ہے جومذکورہ ان دوکیفیتوں کے بین بین ہے ، اس صورت میں دی گئی طلاق کاحکم قابلِ غور ہوسکتاہے، دلائل کامقتضا یہاں بھی یہ معلوم ہوتاہے کہ طلاق واقع نہ ہو۔ ابن القیم کے حوالے سے مذکورہ بالاتفصیل نقل کرنے کے بعد علامہ شامیؒ نے اس پر وارد ہونے والے بعض اشکالات کاجواب دینے کے بعد ابن القیم کی رائے کی تائید کرتے ہوئے اس طرف رجحان ظاہر کیاہے کہ ’’مدہوش‘‘ اور ’’غضبان‘‘ کے بارے میں مذکورہ مثالوں میں فقہاء کی تصریحات اور تعلیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے طلاق دینے والے میں عقل کاجودرجہ ضروری ہے کہ اس میں صرف یہ شرط نہیں ہے کہ علم اورارادہ موجود ہو، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تصرف سمجھ بوجھ کی حالت میں کیاہو۔ سمجھ بوجھ سے مرادیہ نہیں ہے کہ طلاق دینے والا بہت زیرک شخص ہو،نہ ہی یہ مراد ہے کہ وہ عملاًتمام عواقب ونتائج پراچھی طرح غورکرکے اس طرح کا قدم اٹھائے بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ اس کی ذہنی حالت ایسی ہوکہ اپنی سمجھ بوجھ کو استعمال کرنا چاہے توکرسکتاہو ۔ اگر اس حوالے سے اس کی ذہنی حالت نارمل ہے توبغیر سوچے سمجھے طلاق دے دیتاہے تواس کی حماقت کے باوجود طلاق واقع ہو جائے گی۔ تاہم اگرکوئی ایسا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے اس کی ذہنی حالت غیر عادی اورایبنا رمل ہوگئی ہے اوروہ سمجھ بوجھ کر بات نہیں کرسکتا جیسے سکران (بسبب جائز ) مدہوش،معتوہ، مجنون اورنائم وغیرہ میں ہوتاہے یااس کی سمجھ بوجھ شریعت کی نظر میں ابھی نشوونما کے مراحل میں ہے جیسے نابالغ میں ہوتاہے توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ حاصل یہ کہ طلاق کے وقو ع کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلاق دینے والا شرعی طورپر اکتمالِ عقل (بلوغ)کے بعد اسے استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہو، خواہ عملاًاسے استعمال کرے یانہ کرے ۔دوسرے لفظوں میں کہاجاسکتاہے کہ اس کی ذہنی حالت اس کے قابو میں ہو۔ حدیث کے الفاظ ’’المعتوہ المغلوب علی عقلہ ‘‘کا مقتضا بھی یہی ہے۔ کیونکہ حدیث میں جس کو وقوعِ طلاق سے مستثنیٰ کیا جارہا ہے وہ مفقود العقل نہیں بلکہ مغلوب العقل ہے۔ یہاں تک لکھنے کے بعد سرخسی کی ایک عبارت مل گئی جس میں وہ نشے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : لأن بالسکر لایزول عقلہ وانما یعجز عن استعمالہ لغلبۃ السرورعلیہ ۔ اس میں بعینہ وہی بات کہی گئی ہے جو اوپر فقہا کے ذکر کردہ متفرق احکام سے مستنبط کی گئی تھی۔ اوریہ بات طے شدہ ہے کہ اگرنشہ حرام سبب سے نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی ، معلوم ہواکہ عدمِ وقوع طلاق کے لیے آخری درجے کازوالِ عقل ضروری نہیں ، بلکہ اس کے استعمال سے عاجز ہونا کافی ہے۔ مدہوش اور غضبان دونوں میں طلاق واقع نہ ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ بد حواسی اس حد تک پہنچ جائے کہ اسے معلوم ہی نہ ہوکہ وہ کیاکررہاہے،بلکہ غلبۂ ہذیان اورسنجیدہ وغیر سنجیدہ گفتگو کاملاجلاہونا کافی ہے، تائید میں انہوں نے ’’سکران‘‘(جبکہ نشہ حرام سبب سے نہ ہو) کی مثال پیش کی ہے کہ اس میں حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق نشے کااتنا درجہ ہی کافی ہے، آگے چل کرعلامہ شامیؒ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھاہے کہ اگرمدہوش ،غضبان اورسکران وغیرہ جوکچھ کہ رہے ہیں وہ انہیں معلوم بھی ہے اورکہ بھی قصدا اورارادے سے رہے ہیں لیکن عمومی گفتگو سے عقل کااختلال واضح ہورہاہے تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی، اس لیے کہ سمجھ بوجھ کے صحیح نہ ہونے کی وجہ سے ان کاقصد اورارادہ غیرمعتبر ہے جیساکہ صبی ممیز میں ہوتاہے کہ وہ اگرطلاق دے تواپنے قصداورارادے سے دیتاہے لیکن سمجھ بوجھ کے مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی۔ علامہ شامی کی بحث کے چند اقتباسات یہاں پیش کیے جاتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں: ’’والذی یظہر لی أن کلام المدہوش والغضبان لایلزم فیہ أن یکون بحیث لایعلم مایقول،بل یکتفی فیہ بغلبۃ الہذیان واختلاط الجد بالہزل کما ہو المفتی بہ فی السکران علی مامر‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں: والذی ینبغی التعویل علیہ فی المدہوش ونحوہ إناطۃ الحکم بغلبۃ الخلل فی أقوالہ وأفعالہ، الخارجۃ عن عادتہ، وکذا یقال فیمن اختل عقلہ لکبر أو مرض أو لمصیبۃ فاجأتہ ،فما دام فی حال غلبۃ الخلل فی الأفعال والأقوال لاتعتبر أقوالہ، وان کان یعلمہا ویرید ہا، لأن ہذہ المعرفۃ والإرداۃ غیرہ معتبرۃ لعدم حصولہا عن إدراک صحیح کما لا تعتبر من الصبی العاقل۔ (شامی ج۳ص ۲۴۴)

جائزنشہ کی حالت میں طلاق

جائز نشے کی حالت میں طلاق اگرنشہ کسی ایسے سبب سے جوگناہ کاموجب نہ ہو ،مثلاًبعض ادویہ جن میں نشے کی تاثیر بھی ہوتی ہے انہیں دواکی نیت سے استعمال کیا،لیکن اتفاقاً نشہ آگیا اوراسی حالت میں طلاق دے دی تواکثرفقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لیکن اس نشے کی تعریف کیا ہے ، یا نشے کاکون سا درجہ مرادہے،توامام ابوحنیفہ سے نقل کیاگیاہے کہ’’سکران‘‘سے مراد وہ شخص ہے جس کی عقل اتنی زائل ہوچکی ہو کہ اسے زمین وآسمان اورمرد عورت کی تمییز باقی نہ رہے، جبکہ صاحبین کے نزدیک نشے کی حالت سے مراد ایسی کیفیت ہے جس میں آدمی بے ہودہ اوربے ربط سی باتیں کرتاہو۔یہاں اول تواکثرمشائخِ حنفیہ نے اس مسئلے میں صاحبین کے قول کو اختیار کیاہے، چنانچہ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: ومال أکثرالمشائخ الی قولہما ، وہو قول الأئمۃ الثلاثۃ، واختاروہ للفتوی،لأنہ المتعارف،وتأیّد بقول علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ’’اذاسکر ہذی ‘‘۔۔۔ وبہ ظہر أن المختار قولہما فی جمیع الأبواب فافہم (حاشیہ ابن عابدین علی الدر المختار ج ۳، ص ۲۳۹) دوسرے علامہ شامی نے ابن الہمام سے نقل کیاہے کہ امام صاحب نے نشے کے لیے جوشرط لگائی ہے کہ اسے زمین وآسمان کی تمییز نہ رہے اس سے مرادوہ نشہ ہے جس کی وجہ سے حد واجب ہوتی ہے، اس لیے کہ اگرنشہ اس سے کم درجے کاہے توشبہ پیدا ہوجائے گا اورشبہ کی وجہ سے حدساقط ہوجاتی ہے۔جہاں تک حد کے علاوہ باقی احکام کاتعلق ہے مثلاًاس کے تصرفات کانافذ نہ ہونا تواس کے لیے امام صاحب کے نزدیک بھی نشے کی وہی تعریف ہے جوصاحبین کے نزدیک ہے، ابن الہمام کے الفاظ یہ ہیں: ’’وأما تعریفہ عندہ فی غیر وجوب الحد من الأحکام فالمعتبر فیہ عندہ اختلاط الکلام والہذیان کقولہما‘‘۔ پچھلی عبارت میں اکثرمشائخ کی دلیل میں جوکہاگیاتھا’’لأنہ المتعارف‘‘اس سے معلوم ہواکہ کسی شخص کے نشے میں ہونے یانہ ہونے کامدار عرف پر ہے ۔ عرفاً جس شخص کو نشے میں سمجھا جائے وہ شرعاًبھی سکران ہوگا،یہی بات شافعیہ میں سے نووی نے کافی بحث کے بعد نقل کی ہے اور اسے اقرب قرار دیا ہے۔(روضۃ الطالبین ۸/۶۳) اس سے معلوم ہواکہ طلاق کے عدمِ وقوع کے لیے زوالِ عقل کایہ درجہ شرط نہیں ہے کہ اسے اپنے آپ کا، اپنے اردگرد کا اوراپنی کہی ہوئی باتوں کاہی ہوش نہ ہو ،بلکہ اتناہی کافی ہے کہ اسے اپنی گفتگو پرکنٹرول نہ ہو۔

معتوہ کی طلاق

معتوہ کی طلاق جس طرح مجنون کی طلاق واقع نہیں ہوتی اسی طرح فقہاء بالخصوص فقہائے حنفیہ کی تصریح کے مطابق’’معتوہ‘‘کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی، (الدرالمختار ۳/۲۴۳ )۔ ’’عتہ‘‘ کی وضاحت کرتے صاحبِ درمختار نے لکھاہے: ’’ھو اختلال فی العقل‘‘۔ علامہ شامی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے البحرالرائق کے حوالے سے نقل کیاہے کہ مجنون اورمعتوہ کے درمیان فرق کے سلسلے میں سب سے بہتر بات یہ ہے کہ معتوہ وہ ہوتاہے جس کی سمجھ بوجھ کم ہو، اس کی گفتگو غیر مربوط ہو اوراس کی تدبیر فاسدہو، البتہ وہ گالی گلوچ اورمارپیٹ نہ کرتاہو، جبکہ مجنون کی علامات اس سے مختلف ہوتی ہیں۔شامی کے نقل کردہ الفاظ یہ ہیں: وأحسن الاقوال فی الفرق بینہما أن المعتوہ ہوقلیل الفہم، المختلط الکلام ، الفاسد التدبیر،لکن لایضرب ولایشتم ،بخلاف المجنون ۔ (حاشیہ ابن عابدین علی الدرالمختار ج۳ص ۲۴۳)

Wednesday 26 October 2022

کن کن سے پردہ نہیں ہے

۔ وہ افراد جن سے عورت کا پردہ نہیں ہے، وہ یہ ہیں: (1) باپ (2) بھائی (3) چچا (4) ماموں (5) شوہر (6) سسر (7) بیٹا (8) پوتا (9) نواسہ (10) شوہر کا بیٹا (11) داماد (12) بھتیجا (13) بھانجا (14) مسلمان عورتیں (15) کافر باندی (16)ایسے افراد جن کو عورتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ ( مثلاً: چھوٹے بچے جن کو ابھی یہ سمجھ نہیں کہ عورت کیا ہے، جسے مرد اور عورت میں فرق ہی نہ معلوم ہو) اس کے علاوہ تمام اجنبیوں سے عورت کا پردہ ہے، ان میں رشتہ دار اور غیر رشتہ دار دونوں شامل ہیں، نامحرم رشتہ دار یعنی وہ رشتہ دار جن سے پردہ فرض ہے، وہ درج ذیل ہیں : (1) خالہ زاد (2) ماموں زاد (3) چچا زاد (4) پھوپھی زاد (5) دیور (6) جیٹھ (7) بہنوئی (8)نندوئی (9) خالو (10) پھوپھا (11) شوہر کا چچا (12) شوہر کا ماموں (13)شوہر کا خالو (14) شوہر کا پھوپھا (15) شوہر کا بھتیجا (16) شوہر کا بھانجا۔

Tuesday 25 October 2022

مدہوشی میں طلاق

طلاق کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق دینے والا عاقل ہو یعنی اُس کا دماغی توازن ٹھیک ہو، اگر کوئی آدمی ایسا ہے کہ اُس کا دماغی توازن ٹھیک نہ ہو یا ایسی حالت کبھی کبھی اس پر آتی ہو اور وہ اسی حالت میں طلاق کے الفاظ کہہ دے تو ایسے آدمی کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی، اور اگر کسی شخص کا دماغی توازن ٹھیک ہو، محض زیادہ غصہ کی حالت میں طلاق دی ہو اور پھر اس کو ہوش میں نہ ہونے سے تعبیر کرے تو یہ درست نہ ہو گا اور ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقع ہو جائے گی۔ اگر واقعتًا دماغی توازن کبھی کبھی بگڑ جاتا ہو، جس میں اپنے افعال اور اقوال کا بالکل ہوش نہ رہتا ہو اور اسی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دی ہو تو ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہو گی، لیکن اگر آپ کا دماغی توازن درست ہو اور سخت غصہ کے طاری ہونے کی حالت میں طلاق دی ہو تو ایسی طلاق واقع سمجھی جائے گی، اس کے بعد ساتھ رہنا جائز نہیں ہو گا۔ الفتاوى الهندية (1/ 353): "(فصل فيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه) يقع طلاق كل زوج إذا كان بالغاً عاقلاً سواء كان حرا أو عبداً طائعاً أو مكرهاً، كذا في الجوهرة النيرة". مصنف ابن أبي شيبة (4/ 73): " عن قتادة قال: «الجنون جنونان، فإن كان لا يفيق، لم يجز له طلاق، وإن كان يفيق فطلق في حال إفاقته، لزمه ذلك»".

Friday 21 October 2022

خواتین کاگاڑی چلانا

عورتوں کے لیے شدید ضرورت کی بنا پر اور کوئی شرعی محذور نہ پائے جانے کی صورت میں پردہ کے پورے اہتمام کے ساتھ یعنی برقعہ پہن کر چہرہ چھپا کر چلانے کی اجازت ہے، لیکن بلاضرورت یا بے پردگی کے ساتھ نہ تو باہر نکلنا جائز ہوگا اور نہ ہی گاڑی چلانا جائز ہوگا۔ قرآن کریم میں ہے: { وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} [الأحزاب: 33] اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکاۃ دیا کرو اور اللہ کا اور اس کے رسول (علیہ السلام) کا کہنا مانو ۔ (بیان القرآن) ’’ أحکام القرآن للفقیہ المفسر العلامۃ محمد شفیع رحمہ اللّٰہ ‘‘ میں ہے: "قال تعالی : {وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الأولی} [الأحزاب :۳۳]فدلت الآیة علی أن الأصل في حقهن الحجاب بالبیوت والقرار بها ، ولکن یستثنی منه مواضع الضرورة فیکتفی فیها الحجاب بالبراقع والجلابیب ۔۔۔۔ ۔۔۔ فعلم أن حکم الآیة قرارهن في البیوت إلا لمواضع الضرورة الدینیة کالحج والعمرة بالنص ، أو الدنیویة کعیادة قرابتها وزیارتهم أو احتیاج إلی النفقة وأمثالهابالقیاس، نعم! لا تخرج عند الضرورة أیضًا متبرجةّ بزینة تبرج الجاهلیة الأولی، بل في ثیاب بذلة متسترة بالبرقع أو الجلباب ، غیر متعطرة ولامتزاحمة في جموع الرجال؛ فلا یجوز لهن الخروج من بیوتهن إلا عند الضرورة بقدر الضرورة مع اهتمام التستر والاحتجاب کل الاهتمام ۔ وما سوی ذلک فمحظور ممنوع"۔ (۳/۳۱۷ – ۳۱۹ ) حدیث شریف میں ہے: "عن أبي أحوص عن عبد اللّٰه عن النبي ﷺ قال : ’’ المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشیطان ‘‘ ۔ (سنن الترمذی[۱/۲۲۱ ]، رقم الحدیث :۱۱۷۳) حدیث شریف میں ہے: صحيح مسلم (2/ 1021): "«إن المرأة تقبل في صورة شيطان، وتدبر في صورة شيطان، فإذا أبصر أحدكم امرأة فليأت أهله، فإن ذلك يرد ما في نفسه»"۔ ’’کنز العمال ‘‘ میں ہے: " عن ابن عمر مرفوعاّ: ’’ لیس للنساء نصیب في الخروج إلا مضطرة ‘‘ ۔ (۱۶/۳۹۱، الفصل الأول في الترهیبات) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 146): "وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم"۔

ویڈیوکال پرمیت کاچہرہ دکھانا

ویڈیو کالنگ میں موبائل کا جو کیمرہ استعمال ہوتا ہے ، وہ عام کیمرہ ہی کی طرح ہوتا ہے جیسے عام کیمروں میں تصویر کشی ہوتی ہے اسی طرح ویڈیو کالنگ میں بھی تصویر کشی وتصویر سازی پائی جاتی ہے اور احادیث میں تصویر کشی اور تصویر سازی پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، لہذا موبائل وغیرہ کے کیمرہ کا رخ اپنی طرف یا کسی اور انسان یا جاندار کی طرف کرکے ویڈیو کالنگ کرنا جائز نہیں ہے، ہر مسلمان کے لیے اس سے بچنا لازم وضروری ہے ۔ لہذاویڈیو کالنگ کے ذریعے میت کا چہرہ دیکھنا جائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے: "عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون»". (صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم: 5950، ص: 463، ط: دار ابن الجوزي) فتاوی شامی میں ہے: "وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ". (حاشية ابن عابدين: كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1/647، ط: سعيد) بلوغ القصدوالمرام میں ہے: "يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء، إذا كان يدوم، وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ. ويحرم النظر إليه؛ إذا النظر إلى المحرم لَحرام". (جواہر الفقہ، تصویر کے شرعی احکام:۷/264-265، از: .بلوغ القصد والمرام، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی البتہ علماء عرب کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے بشرطیکہ ممنوعات شرعیہ کا لحاظ رکھاجایے: إذا كانت هذه الأعمال التي تنشرها خالية من المخالفات الشرعية في مضمونها، وفي الصور وفي الأصوات. والتربح من الإعلانات جائز إذا كانت خالية من المحرمات، وراجع الفتاوى ذوات الأرقام التالية: 122925، 272881، 329356. وإذا كانت نيتك بهذه الأعمال رجاء الثواب من الله تعالى، وبقيت هذه النية هي الأصل الدافع للعمل، فلا يضيع الثواب ربح المال منها، وراجع الفتوى رقم: 281986.

Monday 17 October 2022

New courses in Jamia Millia Islamia University

Jamia Millia Islamia's (JMI) Centre for Innovation and Entrepreneurship (CIE) is inviting applications for admissions to three month online and offline skill-based courses. Interested candidates can apply for these courses at the official website — jmi.ac.in. Registrations for these three months long online and offline courses will begin on October 19. These courses are open and suited for professionals/, job seekers, school dropouts and university students. The university is offering a course in basics of digital marketing, which will will be an online course of a totality of 50 hours. Classes will be held for an hour from Monday to Thursday, or two hours classes on the weekend. The aspirants will be charged Rs 5000 for this course. This is the only online course the university is offering in skills-based short-term courses