https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 23 May 2023

اونٹ کے پیشاب کاحکم

اونٹ اور گائے بھینس وغیرہ کا پیشاب حرام وناپاک ہے، اس کا پینا اور استعمال کرنا جائز نہیں، جمہور علما کا یہی مسلک ہے اوراس سلسلے میں صحیح بخاری کی جو حدیث پیش کی جاتی ہے وہ منسوخ ہے بعض علماء کے نزدیک آپ علیہ الصلاة والسلام نے قبیلہ عرینہ والوں کو بطور علاج اونٹ کا دودھ اور پیشاب پینے کی اجازت دی تھی یہ حکم صرف انہیں کے ساتھ خاص تھا. کذا فی معارف السنن (۱: ۲۷۳، ۲۷۴ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند) البتہ اونٹ گائے بھینس کے گوبر کی خرید وفروخت جائز. خریدوفروخت کتے بلی تک کی جائز ہے لیکن اس یہ مطلب نہیں کہ جانور بھی کھانے جائزہیں بلکہ حرام ہیں. قالوا: أبوال الإبل نجسة، وحکمہا حکم دمائہا لا حکم لحومہا، وأراد بہم أبا حنیفة وأبا یوسف والشافعي، وقال ابن حزم في المحلي: والبول کلہ من کل حیوان: إنسان أو غیر إنسان، فما یوٴکل لحمہ أو لا یوٴکل لحمہ کذٰلک، أو من طائر یوٴکل لحمہ أو لا یوٴکل لحمہ فکل ذٰلک حرام أکلہ وشربہ إلا لضرورة تداوي أو إکراہ أو جوع أو عطش فقط۔ وفرض اجتنابہ في الطہارة والصلاة إلا ما لا یمکن التحفظ منہ إلا بحرج، فہو معفو عنہ … وقالوا: أما ما رویتموہ من حدیث العرنیین فذٰلک إنما کان للضرورة، فلیس في ذٰلک دلیل أنہ مباح في غیر حال الضرورة؛ لأنا قد رأینا أشیاء أبیحت في الضرورات ولم تبح في غیر الضرورات (نخب الأفکار في تنقیح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار، کتاب الطہارة، باب حکم بول مایوٴکل لحمہ ۲: ۳۸۲، ط: وزارة الأوقاف والشوٴون الإسلامیة، دولة قطر) ، وانظر الدر المختار ورد المحتار (کتاب الطھارة، باب المیاہ، ۱: ۳۶۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) أیضاً۔

حلال جانوروں کے بول وبراز کاحکم

*جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے، اور جن کا نہیں کھایاجاتا حنفيه شافعيه اور اهل الظاهر كے نزدیک ان سبھی کابھی بول وبراز ناپاک ہے دیگر ائمہ کے نزدیک جن جانوروں کاگوشت کھایاجاتاہے ان کابول وبراز پاک ہے یعنی ان کا پیشاب ،پاخانہ کپڑوں کو لگنے سے کپڑے ناپاک نہیں ہوتے، ان کپڑوں میں نماز پڑھ سکتے ہیں، پاک کہنے والوں کے دلائل شرعیہ ملاحظہ فرمائیں:* دلیل نمبر 1 : 🌹عن أنس قال : قدم أناس من عکل أو عرینۃ ، فاجتووا المدینۃ ، فأمرھم النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بلقاح ، وأن یشربوا من أبوالھا وألبانھا ، فانطلقوا ، فلمّا صحّوا قتلو راعی النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم واستاقوا النعم ، فجاء الخبر فی أوّل النھار ، فبعث فی آثارھم ، فلمّا ارتفع النھار جیء بھم ، فأمر ، فقطع أیدیھم وأرجلھم ، وسمرت أعینھم ، وألقوا فی الحرّۃ یستسقون فلا یسقون ، قال أبو قلابۃ : فھولاء سرقوا ، وقتلوا ، وکفروا بعد أیمانھم ، وحاربوا اللّٰہ و رسولہ ۔ ”سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل یا عرینہ کے کچھ لوگ آئے ، ان کو مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیت المال کی اونٹنیوں کے پاس جانے اور ان کاپیشاب اور دودھ پینے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ چلے گئے ، جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہانک کر لے گئے۔ یہ خبر صبح ہی پہنچ گئی، آپ نے ان کے پیچھے صحابہ کو بھیجا ،جب دن چڑھ آیا تو ان کو پکڑ لایا گیا۔ آپ نے حکم دیا اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے ، ان کی آنکھیں نکال دی گئیں اور ان کو پتھریلی زمین میں پھینک دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن ان کو پانی دیا نہ گیا۔ ابو قلابہ تابعی فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کا یہ انجام اس لئے ہوا کہ انہوں نے قتل کیا ، چوری کی ، ایمان لانے کے بعد مرتد ہوئے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ کیا ۔ (صحیح بخاری : حدیث نمبر_ 233) ( صحیح مسلم : حدیث نمبر_1671) *یعنی جب دوا کے لیے حلال جانوروں کا پیشاب پیا جا سکتا ہے تو کپڑوں پر لگنے سے کپڑے کیسے ناپاک ہو سکتے ہیں* *فقہائے امت نے اس حدیث سے یہی سمجھا ہے کہ حلال جانوروں کا پیشاب وغیرہ پاک ہوتا ہے۔ آئیے چند مشہور فقہاء کے فرامین ملاحظہ فرمائیں :* 🌹امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ (١٩٤ ۔ ٢٥٦ ھ)اس حدیث پر تبویب کرتے ہوئے لکھتے ہیں : باب أبوال الإبل والدواب والغنم ومرابضھا ۔ ”اونٹوں ، چوپائیوں اور بھیڑ بکریوں کے پیشاب اور ان کے باڑوں کا حکم ۔ ” 🌹حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : وحدیث العرنیین لیستدل بہ علی طھارۃ ابوال الابل ۔ ”امام بخاری رحمہ اللہ نے قبیلہ عرینہ والے لوگوں کی حدیث اس لئے بیان کی ہے تا کہ اس کے ذریعے اونٹوں کے پیشاب کے پاک ہونے پر استدلال کریں ۔” (فتح الباری : ١/٣٣٥) 🌹شاہ ولی اللہ محدث دہلوی امام بخاری رحمہ اللہ کی اس تبویب کی وضاحت میں لکھتے ہیں : غرضہ إثبات طھارۃ أبوال الدوابّ المأکولۃ لحمھا ۔ ”امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب پاک ہیں۔” (شرح تراجم ابواب صحیح البخاری از شاہ ولی اللّٰہ ) 🌹 امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ (٢٢٣۔ ٣١١ ھ ) اس حدیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں : باب الدلیل علی أنّ أبوال ما یؤکل لحمہ لیس بنجس ، ولا ینجس الماء إذا خالطہ ، إذ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قد أمر بشرب أبوال الإبل مع ألبانھا ، ولو کان نجسا لم یأمر بشربہ ۔ ”اس بات پر دلیل کا بیان کہ ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب ناپاک نہیں، نہ اس کے پانی میں ملنے سے پانی ناپاک ہوتا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے دودھ کے ساتھ ان کے پیشاب کو بھی پینے کا حکم دیا تھا۔ اگر وہ نجس ہوتا تو آپ اس کو پینے کا حکم نہ دیتے۔” (صحیح ابن خزیمہ : ١/٦٠۔٦١) 🌹 امام ترمذی رحمہ اللہ (٢٠٠ ۔ ٢٧٩ ھ ) تبویب میں یوں رقمطراز ہیں : باب ما جاء فی بول ما یوکل لحمہ ۔ ”ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب کا بیان۔” نیز لکھتے ہیں : وھو قول أکثر أھل العلم ، قالوا: لا بأس ببول ما یؤکل لحمہ ۔ ”اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں ۔” (جامع الترمذی، تحت الحدیث : ٧٢) اس سے بڑھ کر یہ کہ امام ترمذی نے اسی حدیث کو ”کتاب الاطعمہ” (کھانے کا بیان) میں بھی پیش کیا ہے اور باب یوں باندھا ہے : باب ما جاء فی شرب أبوال الإبل ۔ ”اونٹ کا پیشاب پینے کے بارے میں باب۔” ( جامع الترمذی، تحت الحدیث : ١٨٤٥) معلوم ہوا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی حلال جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔ 🌹 اس حدیث پر امام نسائی رحمہ اللہ (٢١٥ ۔ ٣٠٣ )کی تبویب یوں ہے : باب بول ما یؤکل لحمہ ۔ ”ما کول اللحم جانوروں کے پیشاب کا بیان۔” (سنن النسائی، قبل الحدیث : ٣٠٦) 🌹 امام ابنِ منذر رحمہ اللہ (م ٣١٨ ھ ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : وھذا یدلّ علی طھارۃ أبوال الإبل ، ولا فرق بین أبوالھا وأبوال سائر الأنعام ، ومع أنّ الأشیاء علی الطھارۃ ، حتّی تثبت نجاسۃ شیء منھا بکتاب أو سنۃ أو إجماع ۔ ”یہ حدیث اونٹوں کے پیشاب کے پاک ہونے پر دلیل ہے ، اونٹوں اور دوسرے مویشیوں کے پیشاب میں کوئی فرق نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تمام اشیاء اصلاً پاک ہوتی ہیں یہاں تک کہ قرآن ، حدیث یا اجماع کے ذریعے ان کی نجاست ثابت نہ ہو جائے ۔” (الاوسط لابن المنذر : ٢/١٩٩) 🌹 امام ابن حبان (م ٣٥٤ھ) اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ذکر الخبر المصرّح بأنّ أبوال ما یؤکل لحومھا غیر نجسۃ ۔ ”اس بات میں صریح حدیث کا بیان کہ ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب ناپاک نہیں ہے ۔” (صحیح ابن حبان : ٤/٢٢٣، تحت الحدیث : ١٣٨٦) 🌹 امام الفقیہ عبدالحق الاشبیلی رحمہ اللہ (٥١٠ ۔ ٥٨١) اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں : باب أبوال ما یؤکل لحمہ ورجیعہ ۔ ”ما کول اللحم جانوروں کے پیشاب اور فضلے کا بیان ۔” (الاحکام الشرعیۃ الکبرٰی للاشبیلی : ١/٣٨٩) 🌹 شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) لکھتے ہیں : فإذا أطلق ۔۔۔ الإذن فی الشرب لقوم حدیثی العھد بالإسلام جاھلین بأحکامہ ، ولم یأمرھم بغسل أفواھھم وما یصیبھم منھا لأجل صلاۃ ولا لغیرھا، مع اعتیادھم شربھا ، دلّ ذلک علی مذھب القائلین بالطھارۃ ۔ ”جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اونٹ کا پیشاب پینے کی مطلق اجازت دی ہے جوکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اسلام کے احکام سے نا واقف تھے ، نیز ان کو منہ اور پیشاب سے ملوث چیزوں کو نماز وغیرہ کے لئے دھونے کا حکم بھی نہیں دیا حالانکہ وہ بار بار اسے پیتے رہے۔اس سے اونٹ کے پیشاب کو پاک کہنے والوں کی دلیل بنتی ہے ۔” (بحوالہ تحفۃ الاحوذی : ١/٧٨) 🌹 شیخ الاسلام ثانی ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) فرماتے ہیں : وفی القصّۃ دلیل علی ۔۔۔۔۔ طہارۃ بول مأکول اللحم ، فإنّ التداوی بالمحرّمات غیر جائز ، ولم یؤمروا مع قرب عہدہم بالإسلام بغسل أفواہہم وما أصابتہ ثیابہم من أبوالہا للصلاۃ ، وتأخیر البیان لا یجوز عن وقت الحاجۃ ۔ ”اس واقعے میں حلال جانوروں کے پیشاب کے پاک ہونے کی دلیل موجود ہے کیونکہ حرام چیزوں کو بطور دوائی استعمال کرنا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں ان لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نماز کے لیے اپنے منہ اور وہ کپڑے دھونے کا حکم نہیں ملا جن کو یہ پیشاب لگتا تھا۔ کسی وضاحت کو وقت ضرورت سے مؤخر کرنا جائز ہی نہیں(اگر یہ پیشاب ناپاک تھا تو اسی وقت ان کو وضاحت کی جانی چاہیے تھی)۔ ”(زاد المعاد لابن القیم : ٤/٨٤) *آپ نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کے پیشاب کو پینے کا حکم دے رہے ہیں اور محدثین و فقہاء کی ایک جماعت اس حدیث سے حلال جانوروں کے پیشاب کی طہارت ثابت کر رہی ہے جبکہ اس کو نجس کہنے والوں کے پاس سرے سے کوئی دلیل موجود نہیں* _______&&______ دلیل نمبر 2_ 🌹عن أنس قال : کان النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یصلّی قبل أن یبنی المسجد فی مرابض الغنم ۔ ”سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بننے سے پہلے بکریوں کے باڑے میں نماز ادا فرماتے تھے ۔” (صحیح البخاری : حدیث نمبر-234) (صحیح مسلم : حدیث نمبر-524) 🌹دوسری روایت میں ہے کہ: آپ سے اونٹ کے باڑے ( بیٹھنے کی جگہ ) میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اونٹ کے بیٹھنے کی جگہ میں نماز نہ پڑھو کیونکہ وہ شیاطین میں سے ہے ،(یعنی اونٹ سرکش اور طاقتور ہوتا ہے وہ نقصان پہنچا سکتا ہے نمازی کو) اور آپ سے بکریوں کے باڑے ( رہنے کی جگہ ) میں نماز پڑھنے کے سلسلہ میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں نماز پڑھو کیونکہ وہ برکت والی ہیں، (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر-184) *جب بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنا جائز ہے تو یط بات ثابت ہوئی کپ انکا پیشاب پاخانہ ناپاک نہیں،کیونکہ باڑے میں ہر جگہ پاخانہ پیشاب ہی ہوتا ہے* *اس حدیث سے بھی ائمہ حدیث اور فقہائے امت نے حلال جانوروں کے پیشاب کے پاک ہونے کو ثابت کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں :* 🌹 امام بخاری رحمہ اللہ (١٩٤۔ ٢٥٦ھ) اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں : باب أبوال الإبل والدوابّ والغنم ومرابضھا ۔ ”اونٹوں، مویشوں اور بکریوں کے پیشاب نیز بکریوں کے باڑوں کا بیان۔” 🌹امام ترمذی رحمہ اللہ (٢٠٠ ۔ ٢٧٩ھ)کی تبویب یہ ہے : باب ما جاء فی الصلاۃ فی مرابض الغنم وأعطان الابل ۔ ”بکریوں اور اونٹوں کے باڑوں میں نماز کا بیان۔” (جامع الترمذی، قبل الحدیث : 350) نیز بکریوں کے باڑوں میں نماز کی اجازت اور اونٹوں کے باڑوں میں نماز کی ممانعت والی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وعلیہ العمل عند أصحابنا ، وبہ یقول أحمد وإسحاق ۔ ”ہمارے اصحاب (محدثین) کے ہاں اسی پر عمل ہے ، نیز امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا یہی فتوی ہے ۔” (جامع الترمذی، تحت الحدیث : 349) 🌹 امام ابن خزیمہ(٢٢٣۔٣١١ھ) فرماتے ہیں : باب ما جاء الصلاۃ فی مرابض الغنم ۔ ”بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کے جواز کا بیان۔”(صحیح ابن خزیمۃ : ٢/٥) 🌹 امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ٣٥٤ھ) اس حدیث پر تبویب فرماتے ہیں : ذکر جواز الصلاۃ للمرء علی المواضع التی أصابھا أبوال ما یؤکل لحومھا وأرواثھا ۔ ”اس بات کا بیان کہ آدمی کا ان جگہوں میں نماز پڑھنا جائز ہے جو حلال جانوروں کے پیشاب اور گوبر میں ملوث ہوں ۔” نیز بکریوں کے باڑوں میں نماز کی اجازت والی ایک دوسری حدیث پر یہ تبویب کرتے ہیں : ذکر الخبر المدحض قول من زعم أنّ أبوال ما یؤکل لحومھا نجسۃ ۔ ”اس حدیث کا بیان جو ما کول اللحم جانوروں کے پیشاب کو نجس خیال کرنے والے لوگوں کا رد کرتی ہے۔” (صحیح ابن حبان : ٤/٢٢٤۔ ٢٢٦) 🌹علامہ نووی(٦٣١۔٦٧٦ھ)اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : وأمّا إباحتہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم الصلاۃ فی مرابض الغنم دون مبارک الإبل ، فھو متّفق علیہ ۔ ”رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بکریوں کے باڑوں میں نماز کو مباح قرار دینا اور اونٹوں کے باڑوں میں نماز سے روکنا تو اس پر سب کا اتفاق ہے۔” (شرح صحیح مسلم للنووی : ١/١٥٨) 🌹شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) احادیث سے حلال جانوروں کے پیشاب کے پاک ہونے پر دلیل لیتے ہوئے فرماتے ہیں : وصحّ عنہ أنّہ أذن فی الصلاۃ فی مرابض الغنم ، ولم یأمر بحائل ۔۔۔ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے اور کسی قسم کی رکاوٹ وغیرہ رکھنے کا حکم نہیںدیا(تو معلوم ہوا کہ بکریوں کا پیشاب پاک ہے)۔” (شرح العمدۃ فی الفقہ : ١/٦٠) *آپ جان چکے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھی ہے ، نیز سوال کرنے والے صحابی کو آپ نے بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کی اجازت بھی دی ہے (صحیح مسلم : ٣٦٠) *محدثین کرام نے ان احادیث سے بھی ما کول اللحم جانوروں کے پیشاب کی طہارت ثابت کی ہے جیسا کہ اوپر مذکورہ تبویب سے عیاں ہے* ________&&_________ دلیل نمبر 3 : 🌹عن عبداللّٰہ قال : کان النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یصلّی عند البیت ، وأبو جھل وأصحاب لہ جلوس ، إذ قال بعضھم لبعض : أیّکم یجیء بسلی جزور بنی فلان ، فیضعہ علی ظھر محمّد إذا سجد؟ فانعبث أشقی القوم ، فجاء بہ ، فنظر حتّی إذا سجد النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وضعہ علی ظھرہ بین کتفیہ ، وأنا أنظر ، لا أغنی شیأا ، لو کانت لی منعۃ ، قال : فجعلوا یضحکون و یحیل بعضھم علی بعض ، ورسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ساجد لا یرفع رأسہ ، حتّی جاء تہ فاطمۃ فطرحتہ عن ظھرہ ، فرفع رأسہ ثمّ قال : (( اللّٰھم علیک بقریش )) ، ثلات مرّات ، فشقّ علیھم إذ دعا علیھم ، قال : وکانوا یرون أنّ الدعوۃ فی ذلک البلد مستجابۃ ، ثمّ سمّی : (( اللّٰھم علیک بأبی جھل ، وعلیک بعتبۃ بن ربیعۃ ، وشیبۃ بن ربیعۃ ، والولید بن عتبۃ ، وأمیّۃ ابن خلف ، وعقبۃ بن أبی معیط )) ، وعدّ السابع فلم نحفظہ ، قال : فوالذی نفسی بیدہ ! لقد رأیت الذین عدّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صرعی فی القلیب قلیب بدر ۔ ”سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے قریب نماز ادا کر رہے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: تم میں سے کون فلاں قبیلے کے اونٹ کی بچہ دانی لا کر سجدے کی حالت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر رکھے گا ؟ ان میں سے بد بخت ترین شخص اٹھا ، بچہ دانی لایا اور انتظار کرتا رہا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو وہ آپ کی کمر پر دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دی۔ میں یہ منظر دیکھ رہا تھا لیکن کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ کاش مجھ میں طاقت ہوتی۔ وہ کفار ہنسنے لگے اور خوشی سے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ہی تھے ، سر نہیں اٹھا سکتے تھے ،یہاں تک کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں اور بچہ دانی آپ کی کمر مبارک سے ہٹا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا ، پھر تین مرتبہ فرمایا : اے اللہ !قریشیوں کو ہلاک کر دے، آپ کی بد دعا ان پر گراں گزری۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کفار سمجھتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہو جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر نام لے کر فرمایا : اے اللہ ! تو ابو جہل کو ہلاک کر دے ، عتبہ بن ربیعہ کو ہلاک کر دے ، شیبہ بن ربیعہ کو ہلاک کر دے ، ولید بن عقبہ کو ہلاک کر دے ، امیہ بن خلف کو ہلاک کر دے ، عقبہ بن ابی معیط کو ہلاک کر دے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے ساتواں نام بھی شمار کیا لیکن ہم اسے یاد نہ رکھ سکے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میرے جان ہے! میں نے ان سب لوگوں کو بدر والے دن کنویں میں اوندھے پڑے دیکھا جن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شمار کیا تھا۔” (صحیح البخاری : حدیث نمبر- 240) ( صحیح مسلم : حدیث نمبر-1794) 🌹بعض روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قریش کی طرف سے گوبر اور خون ڈالنے کا صریح ذکر بھی ہے۔ (سنن النسائی : ٣٠٨، وغیرہ) *اوجھری ،گوبر وغیرہ اگر نجس ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز توڑ دیتے، اور کپڑے پاک کر کے دوبارہ نماز پڑھتے مگر آپ نے نماز جاری رکھی،کو اس بات کی دلیل ہے کہ حلال جانوروں کا گوبر پیشاب کپڑوں کو ناپاک نہیں کرتے* 🌹امام نسائی رحمہ اللہ (٢١٥۔٣٠٣ھ) اس حدیث پر یوں باب باندھتے ہیں : باب فرث ما یؤکل لحمہ یصیب الثوب ۔ ”ماکول اللحم جانوروں کا گوبر اگر کپڑوں کو لگ جائے تو اس کا حکم ۔” (سنن النسائی المجتبی : ٣٠٨) 🌹علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ (م ١١٣٨ھ)لکھتے ہیں : واستدلّ بالحدیث المصنّف علی طھارۃ فرث ما یؤکل لحمہ ۔ ”امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ماکول اللحم جانوروں کے گوبر کے پاک ہونے کا استدلال کیا ہے ۔” (حاشیۃ السندی علی سنن النسائی : ١/١٦٢) 🌹امام عبدالحق الاشبیلی رحمہ اللہ (٥١٠ ۔ ٥٨١ ھ ) اس کی تبویب میں لکھتے ہیں : باب أبوال ما یؤکل لحمہ و رجعیہ ۔ ”ما کول اللحم جانوروں کے پیشاب اور گوبر کا بیان۔” (الاحکام الشریعۃ الکبرٰی للاشبیلی : ١/٣٨٩) 🌹قاضی عیاض رحمہ اللہ (٤٧٦۔٥٤٤ھ) بھی ماکول اللحم جانوروں کے گوبر کو پاک کہتے تھے ۔ (شرح مسلم للنووی : ٢/١٠٨) جاری ہے ۔۔ *اوپر ذکر کردہ تینوں احادیث اور محدثین کا ان کے اوپر باب باندھنے اور وضاحت کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حلال جانوروں کا پیشاپ پاخانہ اگر کپڑوں کو لگ جائے تو کپڑے ناپاک نہیں ہوتے،ان کپڑوں ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں* ______&&&_________ *ایک اعتراض کا جواب* *کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اونٹوں کا پیشاب پینے والی حدیث سے انکا پیشاب پاک ہونا ثابت نہیں ہوتا،بلکہ اس حدیث سے حرام کو علاج کے لیے استعمال کرنا ثابت ہوتا ہے، یعنی حرام چیز کو صرف علاج کے لیے استعمال کر سکتے ہیں* اسکا جواب یہ ہے کہ:::: علاج کی مجبوری کی بناء پر نجس و حرام چیز حلال نہیں ہو سکتی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی نجس و حرام چیز سے اپنا علاج کیا نہ کسی بیمار کو ایسا مشورہ دیا۔ اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجس و حرام چیز سے علاج کرنے سے منع فرمایاہے ، جیسا کہ : 🌹 سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : نھی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن الدواء الخبیث ۔ ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث دوا کے استعمال سے منع فرما دیا۔” (سنن ابی داو،د : 3870) (سنن الترمذی : 2045) ( سنن ابن ماجہ : 3499، وسندہ، صحیحٌ) *اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث چیز کو بطور دوائی استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے* 🌹 نیز قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائضِ منصبی بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : (یَأْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبَائِثَ)(الاعراف : ١٥٧) ”آپ ان کو نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے منع کرتے ہیں، پاکیزہ چیزیں ان کے لئے حلال ٹھہراتے اور خبیث چیزیں ان پر حرام قرار دیتے ہیں ۔” *معلوم ہوا کہ جو چیزیں حرام ہیں وہ خبیث اور مضر ہیں۔اسی لئے تو وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حرام قرار دی ہیں۔ اگر ان میں یہ خباثت اور ضرر نہ ہوتا تو امت ِمحمدیہ کے مرد و عورت دونوں پر کبھی بھی حرام قرار نہ دی جاتیں۔ لہٰذا اگر حلال جانوروں کے پیشاب کو حرام و نجس قرار دیا جائے تو یہ خبیث قرار پائے گا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف لوگوں کو خبیث دوائی سے منع فرمائیں اور دوسری طرف اس کے پینے کا حکم بھی دیں ؟* 🌹 ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کو دوائی میں استعمال کرنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إنّہ لیس بدواء ، ولکنّہ داء ۔ ”یہ دوائی نہیں ، بلکہ بیماری ہے ۔” (صحیح مسلم : ١٩٨٤) *صحابہ کرام جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم یافتہ تھے ، ان کا بھی یہی فتوی تھا کہ حرام چیز دوائی میں استعمال نہیں ہو سکتی ، جیسا کہ :* 🌹 سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ اس بارے میں سوال ہوا تو فرمایا : إنّ اللّٰہ لم یجعل شفاء کم فیما حرّم علیکم ۔ ”یقینا اللہ تعالی نے اس چیز میں تمہارے لیے شفا نہیں رکھی جو تم پر حرام قرار دی ہے۔” (مصنف ابن أبی شیبہ : ٨/٢٠ ، ح : ٢٣٧٣٩ ، وسندہ، صحیحٌ) *سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ حرام چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہی نہیں ، لہٰذا حرام کے استعمال سے شفا کی توقع کرنا بھی بذات ِ خود ایک گناہ ہے۔* 🌹 نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : کان ابن عمر إذا دعا طبیبا یعالج بعض أصحابہ اشترط علیہ أن لا یداوی بشيء حرّم اللّٰہ عزّوجلّ ۔ ”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ معمول مبارک تھا کہ جب کسی عزیز کے علاج کے لئے حکیم کو بلاتے تو اس پر یہ شرط عائد کرتے کہ وہ اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے علاج نہیں کرے گا۔” (المستدک للحاکم : ٤/٢١٨ ، وسندہ، صحیحٌ) *کیسے ممکن ہے کہ ایک رخصت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دی ہو اور صحابہ کرام اس کے بارے میں اتنی سختی کریں کہ دوسروں کو بھی اس کے استعمال کی اجازت نہ دیں* *قارئین کرام نے دیکھ لیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام حرام و نجس چیز سے علاج کو ممنوع قرار دیتے تھے اور ان کے نزدیک حرام میں شفا کی توقع بھی عبث ہے۔ اگر حلال جانوروں کا پیشاب نجس ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی اسے پینے کا حکم نہ دیتے۔ جب حرام میں شفا ہے ہی نہیں بلکہ یہ الٹا خود بیماری ہوتی ہے تو اسے بطور دوا استعمال کرنا کیسی عقل مندی ہے ؟* *پھر حرام میں شفا تلاش کرنے سے دین اسلام پر بھی زد آئے گی کہ اس میں علاج کے لئے حلال و طیب اشیاء نہیں تھیں ، اس لئے حرام و نجس چیزوں سے علاج مشروع قرار دیا گیا۔ بھلا نجاست اور شفا کی آپس میں کیا مناسبت ؟ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ اونٹ کا پیشاب نجس ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صرف ضرورت ِتداوی کی بناء پر استعمال کرایا* 🌹امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ (٢٢٣۔٣١١ھ) اس بات کا ردّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ولو کان نجساً لم یأمر بشربہ ، وقد أعلم أن لا شفاء فی المحرّم ، وقد أمر بالاستشفاء بأبوال الإبل ، ولو کان نجساً کان محرّماً ، کان دائً لا دوائً ، وما کان فیہ شفاء ، کما أعلم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لمّا سئل : أیتداوی بالخمر؟ فقال : (( إنّما ہی داء ، ولیست بدواء )) ”اگر اونٹوں کا پیشاب نجس ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پینے کا حکم نہ دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود بتا دیا تھا کہ حرام میں شفا نہیں، پھر اونٹوں کے پیشاب سے علاج کا بھی حکم دیا۔ اگر یہ حرام ہوتا تو بیماری ہوتا ، دوا نہ بنتا اور اس میں شفا نہ ہوتی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب شراب کو بطور دوائی استعمال کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا : یہ تو بیماری ہے ، شفا نہیں۔ ”(صحیح ابن خزیمۃ : ١/٦٠، قبل الحدیث : ١١٥) 🌹امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ٣٥٤ھ) شراب کو بیماری قرار دینے والے فرمانِ رسول کو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ذکر الخبر المدحض قول من زعم أنّ العرنیّین إنّما أبیح لہم فی شرب أبوال الإبل للتداوی ، لا أنّہا طاہرۃ ۔ ”اس حدیث کا بیان جو اس شخص کی بات کا ردّ کرتی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ قبیلہ عرینہ والوں کے لیے اونٹوں کا پیشاب پینا بطور دوائی جائز قرار دیا گیا ہے ، اس لیے نہیں کہ وہ پاک تھا۔” (صحیح ابن حبان : ٤/٢٣١، قبل الحدیث : ١٣٨٩ *اس ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی کے کپڑوں پر حلال جانوروں کا پیشاب پاخانہ لگ جاتا ہے تو کپڑے ناپاک نہیں ہونگے، وہ نماز پڑھ سکتا ہے، اگر اسکا دل مطمئن نہیں تو وہ دھو لے، اور اگر کسی کو بیماری وغیرہ میں حلال جانوروں کا پیشاب دوا کے لیے پینا پڑ جائے تو وہ علاج کے لیے اونٹ وغیرہ کا پیشاب بھی استعمال کر سکتا ہے ،جیسا کہ اج کل بہت سی ادویات میں گائے وغیرہ کا پیشاب شامل ہوتا ہے* وقد اختلف العلماء على مذهبين : المذهب الأول : إنَّ بول الحيوان المأكول لحمه نجس.وهو المعتمد عند الحنفية والشافعية والظاهرية المذهب الثاني : إنَّ بول الحيوان المأكول لحمه طاهر ؛ وبه قال المالكية والحنابلة ، ومحمد بن الحسن وزفر من الحنفية والراجح أنه نجس للأدلة الآتية : 1- قوله تعالى: (وَإِنَّ لَكُمْ فِي الأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَناً خَالِصاً سَآئِغاً لِلشَّارِبِينَ ) وجه الدلالة: إنَّ الله سبحانه أنعم علينا بإخراج اللبن من بين فرث ودم، وفائدة الامتنان إخراج طاهر من بين نجسين 2- ـ قوله تعالى : ( وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ ) وجه الدلالة: من المعلوم أنَّ الطباع السليمة تستخبث البول مطلقاً ، وتحريم الشيء لا لاحترامه وكرامته تنجيس له شرعاً 3- ـ عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: مَرَّ النبي صلى الله عليه وسلم بقبرين فقال: ( إنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير، أما أحدهما فكان لا يستتر من البول وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة) {متفق عليه :رواه البخاري ومسلم في صحيحيهما . وجه الدلالة: إنَّ هذا الحديث قد عم جنس البول ولم يخصه ببول الإنسان ولا أخرج عنه بول المأكول ثانياً : وبما أن أبوال الإبل نجسة فيترتب عليه حرمة شربها ، وحتى الذين قالوا بطهارتها فإنهم لم يبيحوا شربها لغير ضرورة العلاج . وأما الحديث الصحيح الذي رواه البخاري ومسلم عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : " قَدِمَ أُنَاسٌ مِنْ عُكْلٍ أَوْ عُرَيْنَةَ ، فَاجْتَوَوْا المَدِينَةَ ، فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلِقَاحٍ ، وَأَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا ) فهذا حديث خاص ولحالة خاصة ، وهو من باب ضرورة العلاج ، كضرورة إباحة الميتة لمن خاف على نفسه الموت حنفیہ کے نزدیک نجاست دو طرح کی ہوتی ہے: (1) نجاستِ غلیظہ، (2) نجاستِ خفیفہ۔ (1) نجاستِ غلیظہ: مندرجہ ذیل چیزیں نجاست غلیظہ ہیں: آدمی کا فضلہ، پیشاب اور منی، جانوروں کا گوبر، حرام جانوروں کا پیشاب، انسان اور جانوروں کا بہتا ہوا خون، شراب، مرغی اور مرغابی و بطخ کی بیٹ۔ نجاستِ غلیظہ کا حکم: نجاستِ غلیظہ کپڑے یا بدن میں مقدارِ درہم کے برابر ہو تو دھونا واجب ہے، اور مقدارِ درہم سے کم لگ جائے تو معاف ہے، نماز ہو جائے گی، لیکن اگر مقدارِ درہم سے زائد لگی ہو تو معاف نہیں، بلکہ دھونا فرض ہے۔ (2) نجاستِ خفیفہ: مندرجہ ذیل چیزیں نجاست خفیفہ ہیں: حلال جانوروں مثلاً گائے، بکری وغیرہ کا پیشاب، اور حرام پرندوں کی بیٹ۔ نجاستِ خفیفہ کا حکم: اگر نجاستِ خفیفہ کپڑے یا بدن میں لگ جائے، تو جس حصہ میں لگی ہے، اگر اس کے چوتھائی حصہ سے کم ہو، تو بغیر دھوئے نماز ہو جائے گی، اور اگر پورا چوتھائی یا اس سے زیادہ پر نجاست لگی ہو تو معاف نہیں، بلکہ دھونا لازم ہے۔ اس تقسیم میں انسان کا کسی چیز سے کراہیت کھانے پر مدار نہیں، بلکہ دلائل شرعیہ پر مدار ہے۔ ’’أَنَّ الْمُغَلَّظَ مِنْ النَّجَاسَةِ عِنْدَ الْإِمَامِ مَا وَرَدَ فِيهِ نَصٌّ لَمْ يُعَارَضْ بِنَصٍّ آخَرَ، فَإِنْ عُورِضَ بِنَصٍّ آخَرَ فَمُخَفَّفٌ كَبَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ، فَإِنَّ حَدِيثَ «اسْتَنْزِهُوا الْبَوْلَ» يَدُلُّ عَلَى نَجَاسَتِهِ وَحَدِيثَ الْعُرَنِيِّينَ يَدُلُّ عَلَى طَهَارَتِهِ. وَعِنْدَهُمَا مَا اخْتَلَفَ الْأَئِمَّةُ فِي نَجَاسَتِهِ فَهُوَ مُخَفَّفٌ، فَالرَّوْثُ مُغَلَّظٌ عِنْدَهُ؛ لِأَنَّهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – سَمَّاهُ رِكْسًا وَلَمْ يُعَارِضْهُ نَصٌّ آخَرُ. وَعِنْدَهُمَا مُخَفَّفٌ، لِقَوْلِ مَالِكٍ بِطَهَارَتِهِ لِعُمُومِ الْبَلْوَى.‘‘ (شامی، 1/318، باب الأنجاس، ط:سعید کراچی) ’’وَذَكَرَ الْكَرْخِيُّ أَنَّ النَّجَاسَةَ الْغَلِيظَةَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ: مَا وَرَدَ نَصٌّ عَلَى نَجَاسَتِهِ، وَلَمْ يَرِدْ نَصٌّ عَلَى طَهَارَتِهِ، مُعَارِضًا لَهُ وَإِنْ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيهِ وَالْخَفِيفَةُ مَا تَعَارَضَ نَصَّانِ فِي طَهَارَتِهِ وَنَجَاسَتِهِ، وَعِنْدَ أَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ الْغَلِيظَةُ: مَا وَقَعَ الِاتِّفَاقُ عَلَى نَجَاسَتِهِ، وَالْخَفِيفَةُ: مَا اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي نَجَاسَتِهِ وَطَهَارَتِهِ.‘‘ (بدائع الصنائع، 1/80، فصل فی الأنجاس، ط:سعید کراچی) گوبرکی بیع و شراء کاحکم : گوبر خالص بیچنا بھی جائز ہے، اور مٹی وغیرہ کے ساتھ ملا ہوا ہو یا کھاد کی صورت میں ہو تب بھی اس کی خرید و فروخت جائز ہے اور اُس سے حاصل شدہ آمدنی کو استعمال کرنا بھی جائز ہے۔(تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا،5/418، ط: بیت العمار)۔ اور مرغی کی بیٹ (جو پولٹری فارم والے زمینداروں کو کھاد کے طور پر فروخت کرتے ہیں، اس) کے ساتھ بھی چونکہ مٹی وغیرہ ملی ہوتی ہے، لہٰذا اس کا بیچنا بھی جائز ہے۔(تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا،6/151، ط: بیت العمار) الفقہ الاسلامی و أدلتہ میں ہے: "ويكره بيع العَذِرة، ولا بأس ببيع السرقين أو السرجين: وهو (الزبل) وبيع البعر، لأنه منتفع به، لأنه يلقى في الأرض لاستكثار الريع، فكان مالاً، والمال محل للبيع بخلاف العذرة، لأنه لا ينتفع بها إلا مخلوطة، ويجوز بيع المخلوط كالزيت الذي خالطته النجاسة." (القسم الثالث، الفصل الأول، المبحث الرابع، المطلب الأول: أنواع البيع الباطل، بيع النجس والمتنجس، 5/ 3431، الناشر: دار الفكر- دمشق) المحیط البرہانی میں ہے: "ويجوز بيع ‌السرقين والبعر والانتفاع بها، وأما العذرة فلا يجوز الانتفاع بها ما لم يخلط بالتراب ويكون التراب غالبا، وهذا لأن محلية البيع بالمالية، والمالية بالانتفاع، والناس اعتادوا الانتفاع بالبعر والسرقين من حيث الإلقاء في الأرض لكثرة الريع، أما ما اعتادوا الانتفاع بالعذرة ما لم يكن مخلوطاً بالتراب، ويكون التراب هو الغالب" (كتاب البيع، ‌‌الفصل السادس: فيما يجوز وما لا يجوز بيعه، 6/ 350، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت) ( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

آٹومیٹک مشین میں کپڑے دھونے سے پاک ہو جاتے ہیں کہ نہیں

اگر پاک کپڑے مشین میں دھوئے جائیں تو انہیں تین پانی سے دھونا ضروری نہیں ہے اور اگر کپڑے ناپاک ہیں یا پاک اور ناپاک کپڑے دونوں ملادیے تو انہیں پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ پاک پانی سے دھویا جائے، اور ہر مرتبہ نچوڑا بھی جائے، لہذا اگر آٹو میٹک واشنگ مشین میں انہیں اس طرح دھویا جائے کہ تین مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ کپڑے دھلیں اور ہر مرتبہ اس میں صاف اور پاک پانی استعمال ہوتاہو اور دوسری طرف سے کپڑوں سے مشین کے ذریعہ پانی نچڑ جائے تو وہ پاک ہوجائیں گے، اگرچہ پہلی مرتبہ پانی میں سرف اور صابن وغیرہ بھی شامل ہو۔ جدید آٹو میٹک مشین میں یہ سہولت موجود ہوتی ہے کہ جتنی مرتبہ کپڑے کی دھلائی مقصود ہو اُسے سیٹ کردیا جائے، مشین اتنی مرتبہ نیا پانی لے کر کپڑے کو دھوکر ہرمرتبہ نچوڑ دیتی ہے، لہٰذا گر تین مرتبہ یا اس سے زیادہ دھلنے کی سیٹنگ کرکے کپڑے دھوئے جائیں تو آٹو میٹک مشین میں ناپاک کپڑے دھونے سے پاک ہوجائیں گے۔ واضح رہے کہ کپڑے ناپاک ہونے کی صورت میں قلیل پانی میں انہیں ایک یا دو مرتبہ دھونا کافی نہیں ہوگا، اس لیےاگر دھوئے جانے والے کپڑے پاک اور ناپاک دونوں طرح کے ہوں تو ان کے دھونے کے لیے یہ طریقے اختیار کیے جائیں: 1۔ جن کپڑوں کے بارے میں یقین ہے کہ یہ پاک ہیں انہیں پہلے دھولیا جائے، اور اس کے بعد ناپاک اور مشکوک کپڑوں کو دھولیا جائے۔ 2۔ جو کپڑے ناپاک ہیں، ان میں ناپاک جگہ کو پہلے الگ سے تین مرتبہ اچھی طرح دھوکر اور نچوڑ کر، یا ناپاک حصے کو جاری پانی یا کثیر پانی میں دھو کر پاک کرلیاجائے، پھر تمام پاک کپڑوں کو واشنگ مشین میں دھولیا جائے، اس صورت میں دوبارہ واشنگ مشین میں تین مرتبہ دھونا یا بہت زیادہ پانی بہانا ضروری نہیں ہوگا۔ ہاں اگر جاری پانی میں یا کثیر پانی میں ناپاک کپڑے کو اچھی طرح دھو لیا جائے کہ ناپاکی زائل ہونے کا اطمینان ہوجائے تو کپڑا پاک ہوجائے گا، اگرچہ کپڑا تین مرتبہ نہ دھلاہو۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: إِزَالَتُهَا إنْ كَانَتْ مَرْئِيَّةً بِإِزَالَةِ عَيْنِهَا وَأَثَرِهَا إنْ كَانَتْ شَيْئًا يَزُولُ أَثَرُهُ وَلَا يُعْتَبَرُ فِيهِ الْعَدَدُ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ ... وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ مَرْئِيَّةٍ يَغْسِلُهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ وَيُشْتَرَطُ الْعَصْرُ فِي كُلِّ مَرَّةٍ فِيمَا يَنْعَصِرُ. (1/41، 42، الفصل الاول فی تطہیر الانجاس، ط:رشیدیہ) وفیہ ایضاً: ثَوْبٌ نَجِسٌ غُسِلَ فِي ثَلَاثِ جِفَانٍ أَوْ فِي وَاحِدَةٍ ثَلَاثًا وَعُصِرَ فِي كُلِّ مَرَّةٍ طَهُرَ لجرَيَانِ الْعَادَةِ بِالْغَسْلِ. هَكَذَا فَلَوْ لَمْ يَطْهُرْ لَضَاقَ عَلَى النَّاسِ. (1/ 42، الفصل الاول فی تطہیر الانجاس، ط:رشیدیہ)

Monday 22 May 2023

نماز فجر ختم اورقضانمازپندرہ یابیس منٹ بعد پڑھنے کا اعلان کرنا

شریعت میں قضا کا اعلان معہود نہیں ہے؛ اس لیے اس اعلان کی ضرورت نہیں۔ ہرشخص کی یہ اپنی ذمہ داری ہے کہ جس طرح وہ سفر میں جاتے وقت ٹرین وغیرہ کے اوقات کی رعایت کرتا ہے اسی طرح اس کو چاہیے کہ نمازوں کے اوقات کی بھی رعایت کرے، نماز کا معاملہ سفر سے بڑھ کر ہے اگر وقت پر بیدار نہ ہونے کا خطرہ ہو تو الارم وغیرہ لگاکر سوئے اور سونے میں جلدی کرے، سونے میں تاخیر نہ کرے، دن میں قیلولہ کرلیا کرے، آدمی نماز سے یکسر غافل ہوکر اس طرح نہ سوئے کہ جب نیند کھل جائے گی نماز پڑھ لیں گے یہ کس قدر غفلت کی بات ہے، جہاں تک اوقات مکروہ میں فجر کی نماز ادا کرنے کا مسئلہ ہے تو ان اوقات میں فجر کی نماز پڑھنا جائز نہیں۔ ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتی ترتفع․․․ (الہندیة: ۱/ ۵۲)

Saturday 13 May 2023

حج کے موقع پرحاجی عیدالاضحیٰ کی قربانی بھی کرے یانہ کرے

حجِ قران یا حجِ تمتع کرنے کی صورت میں دمِ شکر کے طور پر ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ، یا بھیڑ، یا بکری حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتا ہے، یہ اس قربانی کے علاوہ ہے جو ہر سال اپنے وطن میں کی جاتی ہے، دونوں الگ الگ ہیں،عید والی قربانی کا حج والی قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔ حاجی کے لیے عید والی قربانی واجب ہونے یا نہ ہونے کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر حاجی شرعی مسافر ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں، البتہ اگر مسافر حاجی بھی اپنی خوشی سے عید والی قربانی کرے گا تو اس پر ثواب ملے گا، لیکن لازم نہیں ہے۔ اور اگر حاجی مقیم ہے اور اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ نصاب کے برابر زائد رقم موجود ہے تو اس پر قربانی کرنا واجب ہوگی۔ نوٹ: اگر حاجی ایام حج میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ مکہ میں قیام کی نیت سے ٹھہرے اور 8 ذی الحجہ کو منیٰ روانہ ہونے سے پہلے پندرہ دن مکمل ہو رہے ہوں تو یہ حاجی عید کے دنوں میں مقیم شمار ہوگا، اور صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں اس پر دمِ شکر کے علاوہ عید کی قربانی بھی واجب ہوگی۔ لیکن اگر منیٰ روانہ ہونے سے پہلے مکہ میں پندرہ دن پورے نہ ہورہے ہوں تو اقامت کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، لہٰذا یہ حاجی مقیم نہیں کہلائے گا ، بلکہ مسافر شمار ہوگا، چنانچہ اس حاجی پر دمِ شکر کے علاوہ عید کی قربانی واجب نہیں ہوگی۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 174) '' قال أصحابنا: إنه دم نسك وجب شكراً ؛ لما وفق للجمع بين النسكين بسفر واحد''۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 63) ''ومنها: الإقامة فلا تجب على المسافر؛ لأنها لا تتأدى بكل مال ولا في كل زمان، بل بحيوان مخصوص في وقت مخصوص، والمسافر لا يظفر به في كل مكان في وقت الأضحية، فلو أوجبنا عليه لاحتاج إلى حمله مع نفسه، وفيه من الحرج ما لا يخفى، أو احتاج إلى ترك السفر، وفيه ضرر، فدعت الضرورة إلى امتناع الوجوب، بخلاف الزكاة؛ لأن الزكاة لا يتعلق وجوبها بوقت مخصوص بل جميع العمر وقتها، فكان جميع الأوقات وقتاً لأدائها، فإن لم يكن في يده شيء للحال يؤديها إذا وصل إلى المال، وكذا تتأدى بكل مال، فإيجابها عليه لا يوقعه في الحرج، وكذلك صدقة الفطر ؛ لأنها تجب وجوباً موسعاً كالزكاة، وهو الصحيح. وعند بعضهم وإن كانت تتوقف بيوم الفطر لكنها تتأدى بكل مال، فلا يكون في الوجوب عليه حرج، وذكر في الأصل وقال: ولا تجب الأضحية على الحاج؛ وأراد بالحاج المسافر، فأما أهل مكة فتجب عليهم الأضحية وإن حجوا''۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 125) ''(فيقصر إن نوى) الإقامة (في أقل منه) أي في نصف شهر، (أو) نوى (فيه لكن في غير صالح) أو كنحو جزيرة، أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى)، فلو دخل الحاج مكة أيام العشر لم تصح نيته؛ لأنه يخرج إلى منى وعرفة فصار كنية الإقامة في غير موضعها، وبعد عوده من منى تصح، كما لو نوى مبيته بأحدهما أو كان أحدهما تبعاً للآخر بحيث تجب الجمعة على ساكنه؛ للاتحاد حكماً''۔ الفتاوى الهندية (1/ 139) ''ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوماً أو أكثر، كذا في الهداية. ۔۔۔ ونية الإقامة إنما تؤثر بخمس شرائط: ترك السير، حتى لو نوى الإقامة وهو يسير لم يصح، وصلاحية الموضع، حتى لو نوى الإقامة في بر أو بحر أو جزيرة لم يصح، واتحاد الموضع والمدة، والاستقلال بالرأي، هكذا في معراج الدراية. ۔۔۔ وإن نوى الإقامة أقل من خمسة عشر يوماً قصر، هكذا في الهداية''

Friday 12 May 2023

حضرت علی بن مدینی کاواقعہ

حضرت علی بن مدینیؒ جلیل القدر محدث اور امام بخاریؒ جیسے محدثین کے استاذ ہیں۔ انہیں علم حدیث میں امام مانا جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حافظ قرآن تھا۔ میرا یہ معمول تھا کہ میں روزانہ والد صاحب کی قبر پر جاتا اور تلاوت قرآن کریم کر کے انہیں ایصال ثواب کرتا۔ ایک مرتبہ رمضان شریف کا مہینہ تھا، ستائیسویں شب تھی، سحری کھا کر فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حسب معمول میں فجر کے بعد والد صاحب کی قبر پر جا کر تلاوت کرنے لگا تو اچانک برابر والی قبر سے مجھے ہائے ہائے کرنے کی آواز آنے لگی۔ جب پہلی مرتبہ یہ آواز آئی تو میں خوف زدہ ہو گیا۔ میں اِھر اُدھر دیکھنے لگا تو اندھیرے کی وجہ سے مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔ جب میں نے آواز کی طرف کان لگائے اور غور کیا تو پتہ چلا کہ یہ آواز کسی قریب والی قبر سے آ رہی ہے اور ایسا لگا کہ میت کو قبر میں بہت خوفناک عذاب ہو رہا ہے اور اس عذاب کی تکلیف سے میت ہائے ہائے کر رہی ہے۔ بس پھر کیا تھا میں پڑھنا پڑھانا تو بھول گیا اور خوف کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں اسی قبر کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گیا، پھر جوں جوں دن کی روشنی پھیلنے لگی تو آواز بھی مدھم ہونے لگے، پھر اچھی طرح دن نکلنے کے بعد آواز بالکل بند ہو گئی۔ جب لوگوں نے آنا جانا شروع کیا تو ایک آدمی سے میں نے پوچھا کہ یہ قبر کس کی ہے ؟ اس نے ایک ایسے شخص کا نام لیا، جس کو میں بھی جانتا تھا۔ کیونکہ وہ شخص ہمارے محلے کا تھا اور بہت پکا نمازی تھا۔ پانچ وقت کی نماز باجماعت صف اول میں ادا کرتا تھا اور انتہائی کم گو اورنہایت شریف آدمی تھا۔ کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتا تھا۔ جب بھی کسی سے ملتا تو اچھے اخلاق سے ملتا، ورنہ زیادہ تر وہ ذکر وتسبیح میں مشغول رہتا۔ جب میں اس کو پہچان گیا تو مجھ پر یہ بات بہت گراں گزری کہ اتنا نیک آدمی اور اس پر یہ عذاب !! میں نے سوچا کہ اس کی تحقیق کرنی چاہئے کہ اس نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو یہ عذاب ہو رہا ہے ؟ چنانچہ میں محلے میں گیا اور اس کے ہم عصر لوگوں سے پوچھا کہ فلاں شخص بڑا نیک اور عابد و زاہد آدمی تھا، لیکن میں نے اس کو عذاب کے اندر مبتلا دیکھا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ویسے تو وہ بڑا نیک اور عبادت گزار تھا، اس کی اولاد بھی نہیں تھی۔ ہاں اس کا کاروبار بہت وسیع تھا، جب وہ بوڑھا ہو گیا اور اس کے اندر کاروبار کرنے کی طاقت نہ رہی اور کوئی دوسرا اس کے کاروبار کو چلانے والا نہیں تھا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور خود بھی سوچا کہ میں اب ذریعہ معاش کیلئے کیا طریقہ اختیار کروں ؟ اس کے نفس نے اس کو یہ تدبیر سمجھائی کہ تو اپنا سارا کاروبار ختم کر اور جو کچھ پیسے آئیں، اس کو سود پر دے دے۔ اس نے سارا حلال کاروبار ختم کیا اور جو رقم آئی، اس کو سود پر لگا دیا۔ چنانچہ کاروبار سے فارغ ہو گیا تھا، اس لئے ہر وقت مسجد میں رہتا۔ اشراق، چاشت، تہجد اوابین وغیرہ تمام نوافل پڑھتا اور پانچوں نمازیں امام کے پیچھے باجماعت صف اول میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھتا اور رات دن ذکر و تسبیح میں مشغول رہتا۔ ادھر لوگوں سے اسے ہر مہینے سود کی معقول رقم مل جاتی تھی، جس کے ذریعے مہینے بھر کا سارا گزارہ چلاتا۔ علی بن مدینیؒ فرماتے ہیں کہ بس یہ سن کر میں سمجھ گیا کہ اس کو جو شدید عذاب ہو رہا تھا، وہ اسی سود خوری کے گناہ کا وبال تھا۔ حق تعالیٰ مسلمانوں کو حرام کھانے اور حرام پہننے سے بچائے۔ آمین۔ (بے مثال واقعات)

مسجد میں نماز جنازہ ادا کرناجائزہےکہ نہیں

مسجد میں نمازِ جنازہ کی تین صورتیں ہیں، اور حنفیہ کے نزدیک علی الترتیب تینوں مکروہ ہیں : ایک یہ کہ جنازہ مسجد میں ہو اور امام و مقتدی بھی مسجد میں ہوں۔ دوم یہ کہ جنازہ باہر ہو اور امام و مقتدی مسجد میں ہوں۔ سوم یہ کہ جنازہ امام اور کچھ مقتدی مسجد سے باہر ہوں اور کچھ مقتدی مسجد کے اندر ہوں۔ اگر کسی عذر صحیح (مثلًا شدید بارش) کی وجہ سے مسجد میں جنازہ پڑھا تو جائز ہے۔(مستفاد از آپ کے مسائل اور ان کا حل) لہذا اگر واقعتًا مسجد کے قریب ایسی کوئی جگہ میسر نہیں ہے جہاں نمازِ جنازہ ادا کی جاسکے، بلکہ ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر ہی ایسی جگہ ہے، تو مسجد کے اندر نمازِ جنازہ ادا کرنے کی گنجائش ہوگی، تاہم اس کے لیے تیسری صورت ہی اختیار کی جائے، یعنی جنازہ ،امام اور کچھ مقتدی محراب سے آگے جو مسجد کے باہر کا حصہ ہے، وہاں کھڑے ہوں۔ نیز اہلِ علاقہ کو چاہیے کہ وہ مسجد کے علاوہ، جنازہ کے لیے کسی جگہ کا انتظام کریں، اگر مستقل جنازہ گاہ کی گنجائش نہ ہو تو کسی بھی کشادہ جگہ پر نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے، مثلًا: کسی کمیونٹی ہال یا کھیل کے میدان وغیرہ میں۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا مستقل معمول کھلے میدان (عیدگاہ/ جنازہ گاہ) میں نمازِ جنازہ ادا کرنے کا تھا، اس لیے سنت طریقہ یہ ہے کہ جنازہ مسجد سے باہر ادا کیا جائے۔ صاحبِ مظاہر حق شرح مشکاۃ المصابیح علامہ قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : "مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے ۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک تو اس حدیث کے پیش نظر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے۔ حضرت امام اعظم کی دلیل بھی یہی حدیث ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنے پر صحابہ نے اس بات سے انکار کر دیا کہ سعد ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد میں لایا جائے؛ کیوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول نہیں تھا کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھتے ہوں، بلکہ مسجد ہی کے قریب ایک جگہ مقرر تھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے۔ پھر یہ کہ اس کے علاوہ ابوداؤد میں ایک حدیث بھی بایں مضمون منقول ہے کہ جو شخص مسجد میں نماز جنازہ پڑھے گا اسے ثواب نہیں ملے گا۔ جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں سہیل اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ پڑھی ہے تو اس کے بارہ میں علماء لکھتے ہیں کہ ایسا آپ نے عذر کی وجہ سے کیا کہ اس وقت یا تو بارش ہو رہی تھی یا یہ کہ آپ اعتکاف میں تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ہی میں نماز جنازہ ادا فرمائی، چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت بھی کی گئی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ اعتکاف میں تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی۔" الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 225) "(واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقًا خلاصة، بناء على أن المسجد إنما بني للمكتوبة، وتوابعها كنافلة وذكر وتدريس علم، وهو الموافق لإطلاق حديث أبي داود «من صلى على ميت في المسجد فلا صلاة له» أن الصلاة على الميت فعل لا أثر له فى المفعول وإنما يقوم بالمصلي، فقوله من صلى على ميت في مسجد يقتضي كون المصلي في المسجد سواء كان الميت فيه أو لا، فيكره ذلك أخذا من منطوق الحديث، ويؤيده ما ذكره العلامة قاسم في رسالته من أنه روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم لما نعى النجاشي إلى أصحابه خرج فصلى عليه في المصلى» قال: ولو جازت في المسجد لم يكن للخروج معنى اهـ مع أن الميت كان خارج المسجد. وبقي ما إذا كان المصلي خارجه والميت فيه، وليس في الحديث دلالة على عدم كراهته لأن المفهوم عندنا غير معتبر في غير ذلك، بل قد يستدل على الكراهة بدلالة النص، لأنه إذا كرهت الصلاة عليه في المسجد وإن لم يكن هو فيه مع أن الصلاة ذكر ودعاء يكره إدخاله فيه بالأولى لأنه عبث محض ولا سيما على كون علة كراهة الصلاة خشيت تلويث المسجد. وبهذا التقرير ظهر أن الحديث مؤيد للقول المختار من إطلاق الكراهة الذي هو ظاهر الرواية كما قدمناه، فاغتنم هذا التحرير الفريد فإنه مما فتح به المولى على أضعف خلقه، والحمد لله على ذلك." الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 224): "(وكرهت تحريمًا) وقيل: (تنزيهًا في مسجد جماعة هو) أي الميت (فيه) وحده أو مع القوم. (واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقا خلاصة." وفی الرد: "(قوله: مطلقًا) أي في جميع الصور المتقدمة كما في الفتح عن الخلاصة." الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 226): "إنما تكره في المسجد بلا عذر، فإن كان فلا، ومن الأعذار المطر كما في الخانية." الفتاوى الهندية (1/ 165): "والصلاة على الجنازة في الجبانة والأمكنة والدور سواء، كذا في المحيط وصلاة الجنازة في المسجد الذي تقام فيه الجماعة مكروهة سواء كان الميت والقوم في المسجد أو كان الميت خارج المسجد والقوم في المسجد أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد والقوم الباقي في المسجد أو الميت في المسجد والإمام والقوم خارج المسجد هو المختار، كذا في الخلاصة."

Sunday 7 May 2023

قاعدۂ اولی بھول گیا لقمہ دینے پر تشہد کے لئے لوٹ آیا

اگر امام قعدہ اولی چھوڑ کر اٹھنے لگا اور مقتدیوں کے لقمہ دینے سے واپس بیٹھ گیا تو اگر امام کے گھٹنے سیدھے نہیں ہوئے تھے یعنی وہ بیٹھنے کے قریب تھا اور پھر لوٹ آیا تو نماز ہوگئی اور سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہے، اور اگر اس کے گھٹنے سیدھے ہوگئے تھے یعنی وہ کھڑے ہونے کے قریب تھا تو اس کو کھڑا ہی رہنا چاہیے تھا ، دوبارہ لوٹ کر نہیں آنا چاہیے تھا، اور اس پر سجدہ سہو بھی واجب ہوگیا تھا، تاہم اگر واپس لوٹ آیا تو راجح قول کے مطابق نمازفاسد نہیں ہوگی، اور سجدہ سہو لازم ہونے کی صورت میں اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو اس نماز کا وقت کے اندر اعادہ واجب تھا، وقت گزرنے کے بعد اعادہ کا وجوب ختم ہوگیا ہے۔ '' فتاوی شامی'' میں ہے: ''(سها عن القعود الأول من الفرض) ولو عملياً، أما النفل فيعود ما لم يقيد بالسجدة (ثم تذكره عاد إليه) وتشهد، ولا سهو عليه في الأصح (ما لم يستقم قائماً) في ظاهر المذهب، وهو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) يعود لاشتغاله بفرض القيام (وسجد للسهو) لترك الواجب (فلو عاد إلى القعود) بعد ذلك (تفسد صلاته) لرفض الفرض لما ليس بفرض، وصححه الزيلعي (وقيل: لا) تفسد، لكنه يكون مسيئاً ويسجد لتأخير الواجب (وهو الأشبه)، كما حققه الكمال، وهو الحق، بحر''۔ (2/ 83، کتاب الصلوٰۃ ، باب سجود السہو

Saturday 6 May 2023

دماغی توازن ٹھیک نہ ہو نے کی صورت میں طلاق

طلاق کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق دینے والا عاقل ہو، یعنی اس کا دماغی توازن ٹھیک ہو، اگر کوئی آدمی ایسا ہے کہ اُس کا دماغی توازن ٹھیک نہ ہو یا ایسی حالت کبھی کبھی اس پر آتی ہو اور وہ اسی حالت میں طلاق کے الفاظ کہہ دے تو ایسے آدمی کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ الفتاوى الهندية (1/353): "و لايقع طلاق الصبي و إن كان يعقل و المجنون و النائم و المبرسم و المغمى عليه و المدهوش، هكذا في فتح القدير."

Saturday 29 April 2023

ارکان حج

حج کے ارکان تین ہیں: 1- احرام یعنی حج اور عمرے کی نیت، 2- میدانِ عرفات میں وقوف، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’الْحَجُّ عَرَفَة، مَنْ جَاءَ لَیْلَة جَمْعِِ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ فَقَدْ اَدْرَکَ الحَجَّ". (الترمذي:۸۸۹، النسائي: ۳۰۱۶، ابن ماجه: ۳۰۱۵) ترجمہ: ’’حج وقوفِ عرفہ سے عبارت ہے۔ جو شخص مزدلفہ کی رات طلوعِ فجر سے قبل میدانِ عرفات میں آجائے اس کا حج ہوگیا‘‘۔ 3- طوافِ زیارت، [اسی کو طوافِ افاضہ بھی کہتے ہیں]؛ فرمانِ باری تعالی ہے: " وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ". ترجمہ: اور وہ بیت العتیق کا طواف کریں۔[الحج : 29] بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 125): "الوقوف بعرفة، وهو الركن الأصلي للحج، والثاني طواف الزيارة". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 128): "وأما شرطه وواجباته فشرطه النية، وهو أصل النية دون التعيين حتى لو لم ينو أصلاً بأن طاف هارباً من سبع أو طالباً لغريم لم يجز". الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 49): "الوقوف بعرفة ركن أساسي من أركان الحج، يختص بأنه من فاته فقد فاته الحج. وقد ثبتت ركنية الوقوف بعرفة بالأدلة القاطعة من الكتاب والسنة والإجماع: أما القرآن؛ فقوله تعالى: {ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس}. فقد ثبت أنها نزلت تأمر بالوقوف بعرفة. وأما السنة: فعدة أحاديث، أشهرها حديث: الحج عرفة. وأما الإجماع: فقد صرح به عدد من العلماء، وقال ابن رشد: أجمعوا على أنه ركن من أركان الحج، وأنه من فاته فعليه حج قابل". الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 51): "وعدد أشواط الطواف سبعة، وكلها ركن عند الجمهور. وقال الحنفية: الركن هو أكثر السبعة، والباقي واجب ينجبر بالدم". الموسوعة الفقهية الكويتية (2/ 129): "أجمع العلماء على أن الإحرام من فرائض النسك، حجاً كان أو عمرةً، وذلك؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: إنما الأعمال بالنيات. متفق عليه. لكن اختلفوا فيه أمن الأركان هو أم من الشروط؟ ... الخ

تیجہ چالیسویں کی شرعی حیثیت

کسی میّت کے ایصالِ ثواب کے لیے سوئم، چالیسواں یا کوئی بھی وقت، دن یا کیفیت کا مخصوص کرناشریعت میں ثابت نہیں؛لہٰذا یہ بدعت ہے؛ کیوں کہ ثواب سمجھ کر اس کا اہتمام کیا جاتاہے۔ مسلمان کا فرض ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی حال میں بھی دین کے احکامات سے رو گردانی نہ کرے، بلکہ ہر خوشی و غم کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے کی پوری کوشش کرے۔ غم کے موقع پر غیر شرعی رسومات و بدعات (مثلاً: تیجہ، چالیسواں، اجرت کے عوض تلاوتِ قرآن پاک ، نوحہ وغیرہ) ناجائز ہیں،میت کے لیے ایصالِ ثواب تو ہر وقت ، ہر موقعہ پر کرنا جائز ہے، اور میت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے، اس لیے گھر میں ہی جو افراد اتفاقًا جمع ہوں اور اعلان و دعوت کے بغیر اپنی خوشی سے کچھ پڑھ لیں، دن وغیرہ کی کوئی تخصیص نہ ہو، اور قرآن پڑھنے کے عوض اجرت کا لین دین نہ ہو تو اس کی اجازت ہے، لیکن اس کے لیے تیسرے دن، اور چالیسویں دن ،اور سال کی تخصیص کرنا شرعاً ثابت نہیں ہے، نیز موجودہ زمانہ میں تیجہ ، چالیسواں اور برسی یا عرس میں اور بھی کئی مفاسد پائے جاتے ہیں، اور اسی ضروری سمجھا جاتاہے، شرکت نہ کرنے والوں کو طعن وتشنیع کا سامنا کرنا پڑتاہے؛ لہذا یہ بدعت ہے اور ناجائز ہے، ایسی تقریبات میں شرکت کرنا اور کھانا کھانا بھی ناجائز ہے۔ اگر کسی نے اس تقریب میں شرکت نہ کی ہو، اور اجرت پر تلاوت بھی نہ کی ہو، اسے یہ کھانا دے دیا جائے تو اس کے لیے یہ کھانا ناجائز نہیں ہوگا۔ فتاوی شامی میں ہے: "یکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة، وقوله: ویکره اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع، ونقل الطعام إلی القبرفي المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقرّآء للختم أو لقراء ة سورة الإنعام أوالإخلاص". (ردالمحتار على الدر المختار ، کتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة، مطلب في كراهة الضیافة من أهل المیت، کراچی ۲/۲۴۰) وفیہ ایضا: ومنها: الوصیة من المیت باتخاذ الطعام والضیافة یوم موته أو بعده و بإعطاء دراهم من یتلو القرآن لروحه أو یسبح و یهلل له، وکلها بدع منکرات باطلة، والماخوذ منها حرام للاٰخذ، وهو عاص بالتلاوة والذکر". (رد المحتار مع الدر المختار :۶/۳۳ ط: سعید، کراچی) الاعتصام للشاطبي (ص: 112): "وعن أبي قلابة: " لاتجالسوا أهل الأهواء، ولاتجادلوهم; فإني لاآمن أن يغمسوكم في ضلالتهم، ويلبسوا عليكم ما كنتم تعرفون". قال أيوب: "وكان والله من الفقهاء ذوي الألباب". وعنه أيضاً: أنه كان يقول: "إن أهل الأهواء أهل ضلالة، ولاأرى مصيرهم إلا إلى النار". وعن الحسن: " لاتجالس صاحب بدعة فإنه يمرض قلبك".

تعویذ کی شرعی حیثیت

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص اپنی نیند میں گھبرا جائے اُسے چاہیے کہ وہ یہ کلمات پڑھے : ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ۔‘‘ تو وہ خواب اُسے ہر گز نقصان نہ دے گا ، آپؓ کے پوتے کہتے ہیں کہ: حضرت عبد اللہؓ کی اولاد میں جو بالغ ہو جاتا تو آپ اُسے یہ کلمات سکھادیتے ، اور جو نابالغ ہوتا تو آپ اس کے گلے میں یہ دعا لٹکا دیتے تھے : ’’و کان عبد اللہ بن عمروؓ یعلمھا من بلغ من ولدہٖ و من لم یبلغ منھم کتبھا في صک ، ثم علقھا في عنقہٖ۔‘‘ (رواہ ابو داؤد و الترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ، ص: ۲۱۷) اس سے معلوم ہوا کہ کلام پاک کا پڑھنا اور کلماتِ مبارکہ تعویذ لکھ کر بنانا اور اُسے بدن سے باندھنا دونوں عمل جائز ہیں۔ اگر یہ عمل ناجائز ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابیؓ کبھی بھی اپنے بچوں کے گلے میں تعویذ نہ ڈالتے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ تعویذات کے اثر کے قائل تھے ، جبھی تو آپ نے تعویذ لکھا اور اسے اپنے بچوں کے گلے میں ڈالا۔ یہ کلمات کوئی روحانی تاثیر نہ دیتے تو آپ ہی بتلائیں کیا صحابی رسول ایسا عمل کرتے ؟ تاثیر میں اذنِ الٰہی کو شرط جاننا ضروری ہے ۱: دسویں صدی کے مجدد حضرت ملا علی قاری ؒ (متوفی:۱۰۱۴ھ) اس حدیث پر لکھتے ہیں کہ : ’’و ھٰذا أصل في تعلیق التعویذات التي فیھا أسماء اللہ تعالٰی۔‘‘ ( مرقات ،ج: ۵، ص: ۲۳۶) ا س سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تعویذات جو اسمائے الٰہیہ اور کلماتِ مبارکہ پر مشتمل ہوں ، اپنے اندر ایک روحانی ا ثر رکھتے ہیں اور اس سے مریضوں کا علاج کرنا علاج بالقرآن ہی ہے۔ ہاں! وہ تعویذات جو شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہوں‘ ان کی قطعاً اجازت نہیں۔ جن روایات میں تمائم اور رُقٰی کو شرک کہا گیا ہے، اس سے مراد اسی قسم کے دم اور تعویذ ہیں، جن میں شرکیہ الفاظ و اعمال کا دخل پایا جائے۔ ’’التمائم‘‘ میں ’’ الف لام‘‘ اسی کے لیے ہے ، اور جو دم اور تعویذ اس سے خالی ہوں، ان کا استعمال جائز ہے اور اس کے روحانی اثرات ثابت ہیں۔ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم دورِ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ،ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’أعرضوا عَلَیَّ رقاکم ، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک۔‘‘ (رواہ مسلم ، مشکوٰۃ، ص: ۳۸۸) اس سے پتہ چلتا ہے کہ دم اور تعویذ میں اصل وجہِ منع کفر و شرک ہے، جب یہ نہ ہو تو وہ دم اور تعویذ جائز ہے، چنانچہ ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ’’ مجموعۃ الفتاویٰ‘‘ میں تعویذ کے جواز پر ایک مستقل فصل ’’ فصل : في جواز أن یکتب لمصاب و غیرہ ۔۔۔ الخ‘‘ باندھ کر اس کے تحت لکھتے ہیں: ’’و یجوز أن یکتب للمصاب و غیرہ من المرضٰی شیئًا من کتاب اللہ و ذکرہ بالمداد المباح ، ویغسل و یسقٰی ، کما نص علٰی ذلک أحمد و غیرہ۔‘‘ (مجموعۃ الفتاویٰ، ج: ۱۹، ص: ۳۶، ط: مکتبۃ العبیکان ) کسی مریض کے لیے کتاب اللہ میں کچھ لکھ کر دینا یا اس کو دھو کر پانی میں گھول کر پلانا، یہ دونوں جائز ہیں۔حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ ’’ کفایت المفتی‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ : ’’ قرآن شریف کی آیت تعویذ میں لکھنا جائز ہے۔‘‘ (کفایت المفتی ، الحظر والاباحۃ ، الفصل الثانی فیما یتعلق بالعوذۃ، ج: ۱۲، ص: ۴۸۲، ط: فاروقیہ) حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب ’’ تکملۃ فتح الملہم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ’’ ۔۔۔۔۔۔ فتبین بھٰذا أن التمائم المحرمۃ لا علاقۃ لھا بالتعاویذ المکتوبۃ المشتملۃ علٰی أٰیات من القرآن أو شيء من الذکر ؛ فإنھا مباحۃ عند جماھیر فقھاء الأمۃ ، بل استحبھا بعض العلماء إذا کانت بأذکار مأثورۃ ، کما نقل عنھم الشوکاني في النیل ، واللہ أعلم۔‘‘ (تکملہ فتح الملہم، کتاب الطب ، باب رقیۃ المریض، کتابۃ التعویذات، ج: ۴، ص: ۳۱۸، ط: دار العلوم، کراچی ) وہ تعویذات جن میں اللہ کے کلام اور مسنون دعاؤں کا ذکر ہو تو وہ قطعاً حرام نہیں ، ان کاحرمت سے کوئی تعلق نہیں، ایسے تعویذات تو عام جمہور علماء کے نزدیک جائز ہیں، بلکہ بعض علماء نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے ، علامہ شوکانی ؒ نے ان سے یہ ’’نیل الأوطار‘‘ میں نقل بھی کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ’’ فتح الباري‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ’’أجمع العلماء علٰی جواز الرقیٰ عند اجتماع ثلاثۃ شروط: أن یکون بکلام اللہ أو بأسمائہ و صفاتہ و باللسان العربي أو بما یعرف معناہ من غیرہ و أن یعتقد أن الرقیۃ لا تؤثر بذاتھا بل بذات اللہ تعالٰی۔‘‘( فتح الباری ،ج: ۱۰ ، ص: ۱۹۵ ، ط: دار الفکر بیروت ) ’’علماء نے دم اور تعویذ کے جواز پر اجماع کیاہے ، جب ان میں درج ذیل شرائط پائی جائیں: ۱:- وہ اللہ کے کلام ،اسماء یا اس کی صفات پر مشتمل ہو ں۔ ۲ :- وہ عربی زبان یاپھر ایسی زبان میں ہوں جس کا معنی سمجھ میں آتا ہو ۔ ۳ :- یہ یقین رکھنا کہ اس میں بذاتِ خود کوئی اثر نہیں ، بلکہ مؤثر حقیقی اللہ جل شانہ کی ذات ہے۔ علامہ شامیؒ بھی اپنی کتاب ’’رد المحتار‘‘ میں تعویذ کا جواز نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ’’و إنما تکرہ العوذۃ اذا کانت بغیر لسان العرب و لا یدری ما ھو ، ولعلہ یدخلہ سحر أو کفر أو غیر ذلک و أما ما کان من القرآن أو شیء من الدعوات، فلا بأس بہ۔‘‘ ( رد المحتار ، ج: ۶، ص: ۳۶۳) ’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے کہ : ’’ و اختلف في الاسترقاء بالقرآن نحو : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أن یکتب في ورق و یعلق أو یکتب في طست ،فیغسل و یسقیٰ المریض ،فأباحہ عطاء و مجاھد و أبو قلابۃ و کرھہ النخعي و البصري ،کذا في ’’ خزانۃ الفتاویٰ‘‘ قد ثبت ذلک في المشاھیر من غیر إنکار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔و لابأس بتعلیق التعویذ ۔۔الخ۔‘‘ (الفتاوی الہندیۃ، الباب الثامن عشر فی التداوي ، ج: ۵، ص؛۳۵۶ ، ط: دار الفکر ) ’’قرآنی آیات کے ذریعہ دم میں علماء نے اختلاف کیا ہے، مثلاً : ......کسی کاغذ پر قرآن کی آیت لکھ کر مریض کے جسم پر باندھ لیا جائے ، یا کسی برتن میں آیات لکھ کر دھویا جائے اور مریض کو پلایا جائے ، تو عطاءؒ ، مجاہدؒ اور ابو قلابہؒ اس کو جائز سمجھتے ہیں اور امام نخعیؒ اور بصریؒ اس کو مکروہ سمجھتے ہیں ، لیکن مشہور کتابوں میں اس کے جواز پر کوئی نکیر وارد نہیں ہوئی ہے...... آگے لکھتے ہیں کہ تعویذ کے لٹکانے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ ابن القیم الجوزیۃؒ اپنی کتاب ’’ زاد المعاد‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’قال المروزي : و قرأ علیٰ أبي عبد اللہ وأنا أسمع أبو المنذر عمرو بن مجمع ، حدثنا یونس بن حبان ، قال : سألت أبا جعفر محمد بن علي أن أعلق التعویذ ، فقال : إن کان من کتاب اللہ أو من کلام عن نبي اللہ فعلقہ و استشف بہ ما استطعت۔‘‘ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ، کتاب عسر الولادۃ، ج:۴، ص: ۳۳۷، ط: مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت ۔ کذا فی الطب النبوی لابن القیم الجوزیۃ، حرف الکاف ، ج: ۱ ،ص: ۳۷۰، ط: دار الہلال، بیروت ) ’’راوی کہتا ہے کہ میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے تعویذ باندھنے کے بارے میں دریافت کیا کہ اس کا کیا حکم ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :کہ اگر وہ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر مشتمل ہو تو اس کو باندھ لیا کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ‘‘ تفسیر ’’روح البیان‘‘ میں ہے کہ : ’’وأما تعلیق التعویذ و ھو الدعاء المجرب أو الآیۃ المجربۃ أو بعض أسماء اللہ تعالٰی لدفع البلاء ، فلا بأس بہٖ و لکن ینزعہ عند الخلاء و الجماع۔‘‘ (روح البیان ، سورۃ یوسف ، آیۃ : ۶۸، ج: ۴، ص:۲۹۵، ط: دار الفکر ،بیروت ) ’’تعویذ اگر مجرب دعا ، مجرب آیت یا اللہ کے اسماء پر مشتمل ہو ، اور کسی مصیبت یا بیماری کے دفعیہ کے غرض سے لٹکایا ہو تو یہ جائز ہے ، لیکن جماع اور بیت الخلاء جانے کے وقت نکالے گا ۔ ‘‘ ’’ تفسیر قرطبی‘‘ میں ہے کہ : ’’و سئل ابن المسیب عن التعویذ أیعلق ؟ قال : إذا کان في قصبۃ أو رقعۃ یحرز، فلابأس بہٖ ۔ و ھٰذا علیٰ أن المکتوب قرآن ۔ وعن الضحاک أنہ لم یکن یری بأسا أن یعلق الرجل الشيء من کتاب اللہ إذا و ضعہ عند الجماع و عند الغائط ، و رخص أبو جعفر محمد بن علي في التعویذ یعلق علی الصبیان ، وکان ابن سیرین لا یری بأسا بالشيء من القرآن یعلقہ الإنسان۔‘‘ (تفسیر قرطبی، سورۃ الاسراء: ۸۲ ، ج:۱۰ ، ص:۳۲۰،ط: دار المعرفۃ ) سعید ابن المسیب ؒ ،ضحاک اور ابن سیرین جیسے اکابر علماء اس کے جواز کے قائل تھے ۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ لکھتے ہیں کہ : ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآنی آیات کا تعویذ جائز ہے، جبکہ غلط مقاصد کے لیے نہ کیاگیا ہو ، حدیث میں جن ٹونوں ، ٹوٹکوں کو شرک فرمایا گیا ہے، ان سے زمانۂ جاہلیت میں رائج شدہ ٹونے اور ٹوٹکے مراد ہیں، جن میں مشرکانہ الفاظ پائے جاتے تھے، اور جنات وغیرہ سے استعانت حاصل کی جاتی تھی، قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ سے ثابت ہے اور بزرگانِ دین کے معمولات میں شامل ہے۔‘‘ ( آپ کے مسائل اور ان کا حل، تعویذ گنڈے اور جادو، ج: ۲، ص: ۴۹۹، ط: مکتبہ لدھیانوی) علامہ شوکانی ؒ ابن ارسلانؒ سے نقل کرتے ہیں کہ : ’’قال ابن أرسلان ،فالظاہر أن ھٰذا جائز لا أعرف الاٰن ما یمنعہ في الشرع۔‘‘ (فتاویٰ اہل حدیث، ج: ۱ ،ص: ۱۹۳ ) ’’ابن ارسلان کہتے ہیں کہ ظاہر یہی ہے کہ یہ جائز ہیں، شریعت میں اس کے منع کی کوئی دلیل میں نہیں جانتا۔‘‘ شفاء بنت عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں ام المؤ منین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکے پاس بیٹھی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے مجھے کہا : ’’ألا تعلمین ھٰذہ رقیۃ النملۃ کما علمتھا الکتابۃ۔‘‘ (مسند احمد ج: ۱۷ ، ص: ۱۷۹ ،مبوب ) ’’اے شفاء! کیا تو انھیں ( یعنی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو) نملہ کا دم نہیں سکھادیتی، جیسا کہ تو نے انھیں لکھنا سکھادیا ہے؟ ۔‘‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ دم اور تعویذ جس میں کفر و شرک اور غیر معروف الفاظ نہ ہوں اور الفاظ میں ذاتی تاثیر نہ سمجھی جائے ، اس کے منع پر کوئی دلیل وارد نہیں ۔شیخ احمد عبد الرحمٰن البنا ؒ لکھتے ہیں کہ یہ ہر گز ممنوع نہیں ، بلکہ سنت ہے: ’’فلا نھيَ فیہ ، بل ھو السنۃ۔‘‘(ایضاًص: ۱۷۷) نواب صدیق حسن خانؒ نے ’’ الدین الخالص‘‘ میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے ، اور انہوں نے بھی دم اور تعویذ کو جائز قرار دیا ہے، البتہ ان سے پرہیز کرنے کو افضل کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کو ابرار میں لانا ہے جو اسباب اختیار نہیں کرتے۔ حافظ عبد اللہ روپڑی صاحبؒ نواب صاحبؒ کی یہ عبارت پیش کر کے لکھتے ہیں : ’’اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں، باقی جائز ہیں۔ ہاں! پرہیز بہتر ہے۔‘‘ ( فتاویٰ اہل حدیث ، ج: ۱ ، ص: ۱۹۳) حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’راجح یہ ہے کہ آیات یا کلماتِ صحیحہ دعائیہ جو ثابت ہوں ، ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ، ہندو ہو یا مسلمان، صحابہ کرام ؓ نے ایک کافر بیمار پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔‘‘ (فتاویٰ ثنائیہ، ج:۱،ص: ۳۳۹) اہلِ حدیث کے ایک مشہور عالم مولاناشرف الدین دہلویؒ اس کی تائید میں لکھتے ہیں کہ : ’’ حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن العاص ؓ صحابی ’’ أعوذ بکلمات اللہ ۔۔۔۔ الخ‘‘ساری دعا لکھ کر اپنے بچوں کے گلے میں لٹکایا کرتے تھے۔‘‘ (ایضا) غرض یہ کہ مذکورہ بالا دلائل و حوالہ جات سے یہ بات واضح اور عیاں ہوگئی کہ علاج بالقرآن کی ایک قسم تعویذ بھی ہے، اور اس کے روحانی اثرات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے مریض تعویذوں میں لکھی گئی آیاتِ قرآنیہ اور کلماتِ دعائیہ کی برکت سے کئی لا علاج امراض سے بھی نجات پا گئے ہیں ۔ ہاں! ان میں تاثیر ان کلمات کی ذات سے نہیں، بلکہ اللہ رب العزت کے حکم ہی سے آتی ہے۔ اگر ان تعویذات اور دموں میں کوئی روحانی تاثیر نہ ہوتی ، اور اس کا باطنی فائدہ نہ ہوتا ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے پہلے قرآن کی آخری تین سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک نہ مارتے اور انھیں اپنے بدن پر نہ ملتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ عمل تین مرتبہ فرماتے، حتیٰ کہ مرض الوفات میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کمزوری کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے ، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہی سورتوں کو پڑھا ، اور آپ کے ہاتھوں پر پھونک لگائی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو آپ کے بدن پر مل لیا ۔ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلامنے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کیا تھا۔ (رواہ مسلم) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سورتوں کو پڑھ کر ہاتھوں پر دم کرنا اور پھر اپنے ہاتھوں سے پورے بدن کو ملنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ان آیات میں ضرور روحانی اثر ہے ، اور یہ شیطانی اثرات سے بچانے کا ایک خاص عمل ہے ، جو بظاہر نگاہوں سے مخفی ہوتا ہے ، لیکن باطنی آنکھ والے ان کی تاثیرات کھلے طور پر دیکھتے ہیں ، اور پڑھنے کے ساتھ ہاتھ پھیرنا یہ بھی ہر گز منع نہیں ۔ یاد رہے کہ کہ دم اور تعویذمیں وہی فرق ہے جو کلام میں اور کتاب میں ہے ، دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے اور دونوں کا اپنا اپنا احترام ہے ۔ لیکن تعویذ کے سلسلہ میں بعض فحش غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں ، جس کی بیخ کنی نہایت اہم ہے اور اس سے قطعی پرہیز اور کنارہ کشی اختیار کرنا بہت ہی ضروری ہے : ۱:- بعض جاہلوں نے لکھا ہے کہ : مسلمان کی خیر خواہی کے لیے بوقتِ ضرورت شرکیہ الفاظ سے دم کرنا جائز ہے ، سو یہ بالکل غلط ہے اور اس کا شریعت میں بالکل ثبوت نہیں ۔ ۲:- اکثر عوام عملیات ( اور تعویذات وغیرہ ) کو ایک ظاہری تدبیر سمجھ کر نہیں کرتے ، بلکہ اس کو سماوی اور اور ملکوتی چیز سمجھ کر کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ تعویذ گنڈوں کے متعلق عوام کے عقائد نہایت برے ہیں، حالانکہ عملیات ،تعویذ اور گنڈے وغیرہ بھی طبی دواؤں کی طرح ایک ظاہری سبب اور تدبیر ہے ، ( کوئی آسمانی اور ملکوتی چیز نہیں ) بس جس طرح دواء سے کبھی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نہیں ، اسی طرح تعویذ میں بھی کبھی فائدہ ہوتا اور کبھی نہیں، پھر بھی دونوں برابر نہیں ، بلکہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ عملیات میں فتنہ ہے اور دواء میں فتنہ نہیں ، اور وہ فتنہ یہ ہے کہ کہ عامل کی طرف بزرگی کا خیال و اعتقاد پیدا ہوتا ہے ، طبیب کی طرف بزرگی کا خیال پیدا نہیں ہوتا ۔ ۳:- ایک اور بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر تعویذ گنڈے وغیرہ سے کام نہ ہوا ، تو پھر آیاتِ الٰہیہ سے بد عقیدگی اور بد گمانی پیدا جاتی ہے۔ ۴:- عملیات قریب قریب سب اجتہادی ہیں، روایات سے ثابت نہیں ، جیسا کہ عوام کا خیال ہے کہ ان عملیات کو اوپر ہی سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سمجھتے ہیں ، یہ صحیح نہیں ہے ، بلکہ عاملین مضمون کی مناسبت سے ہر کام کے لیے مناسب آیات وغیرہ تجویز کرتے ہیں ۔ ۵:- آج کل لوگ اپنے مقاصد میں اور امراض و مصائب کے دفعیہ میں تعویذ گنڈوں کی تو بڑی قدر کرتے ہیں ، اس کے لیے کوششیں بھی کرتے ہیں، اور جو اصل تدبیر ہے یعنی اللہ سے دعا ، تو اس میں غفلت برتتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ کوئی نقش و تعویذ دعا کے برابر مؤثر نہیں، بشرطیکہ تمام آداب و شرائط کی رعایت رکھی جائے۔ خلاصہ یہ کہ تعویذ بذاتہ جائز ہے ، بشرطیکہ مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھی جائے ، اور درج بالا ناجائز اعتقادات سے خود کو پاک اور منزہ کیا جائے ۔ وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ وأن یعتقد أن الرقیة لا تؤثر بذاتہا بل بذات اللہ تعالی (فتح الباري: الطب والرقی بالقرآن والمعوذات: ۵۷۳۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً ایسے رقیے اور تعویذ کی اجازت دی ہے جس میں شرک نہ ہو: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: کُنَّا نَرْقِی فِی الْجَاہِلِیَّةِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ تَرَی فِی ذَلِکَ؟ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَیَّ رُقَاکُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ شرکٌ، رواہ مسلم (مشکاة: ۲/۳۸۸) نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کلمات لکھ کر دیے تھے جس کی وجہ سے ان کو پریشان کرنے والا شیطان ہلاک ہوگیا۔ وأخرج البیہقي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: فَقَالَ لِعَلِیِّ رضي اللہ عنہ اکْتُبْ: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَی مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَّارِ وَالصَّالِحِینَ، إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ․ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَةً، فَإِنْ تَکُ عَاشِقًا مُولَعًا، أَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا أَوْ رَاغِبًا حَقًّا أَوْ مُبْطِلًا، ہَذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ، إِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ، اتْرُکُوا صَاحِبَ کِتَابِی ہَذَا، وَانْطَلِقُوا إِلَی عَبَدَةِ الْأَصْنَامِ، وَإِلَی مَنْ یَزْعُمُ أَنَّ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ یُغْلَبُونَ، حم لَا یُنْصَرُونَ، حم عسق تُفَرِّقَ أَعْدَاء َ اللہِ، وَبَلَغَتْ حُجَّةُ اللہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ․ (دلائل النبوة ما یذکر من حرز أبی دجانة: ۷/۱۱۸) ایک اورحدیث میں ہے: عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِیہِ، قَال: سَافَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ․․․وَأَتَتْہُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنِی ہَذَا بِہِ لَمَمٌ مُنْذُ سَبْعِ سِنِینَ یَأْخُذُہُ کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَدْنِیہِ فَأَدْنَتْہُ مِنْہُ فَتَفَلَ فِی فِیہِ وَقَالَ: اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّہِ أَنَا رَسُولُ اللَّہِ․ (رواہ الحاکم في المستدرک) اس کے علاوہ صحابہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ وغیرہ اور ان کے علاوہ تابعین میں حضرت عطا وغیرہ اس کے جواز کے قائل تھے، اور آج بھی اس پر لوگوں کا عمل ہے: عن عمرو بن شعیب، عن أبیہ، عن جدہ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ بکلمات اللہ التامة، من غضبہ وشر عبادہ، ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون․ وکان عبد اللہ بن عمر یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ․ (أبوداوٴد: ۳۸۹۳، والترمذي: ۳۵۲۸ وقال: حسن غریب، اور علامہ شامی لکھتے ہیں: اخْتُلِفَ فِی الِاسْتِشْفَاء ِ بِالْقُرْآنِ بِأَنْ یُقْرَأَ عَلَی الْمَرِیضِ أَوْ الْمَلْدُوغِ الْفَاتِحَةُ، أَوْ یُکْتَبَ فِی وَرَقٍ وَیُعَلَّقَ عَلَیْہِ أَوْ فِی طَسْتٍ وَیُغَسَّلَ وَیُسْقَی. وَعَنْ النَّبِیِّ -صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- أَنَّہُ کَانَ یُعَوِّذُ نَفْسَہُ قَالَ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ -: وَعَلَی الْجَوَازِ عَمَلُ النَّاسِ الْیَوْمَ، وَبِہِ وَرَدَتْ الْآثَارُ․ (شامي: ۹/۵۲۳) واضح رہے کہ تعویذ میں جس طرح پڑھ کر دم کرنا جائز ہے اسی طرح قرآنی آیات وغیرہ کو کسی کاغذ پر لکھ کر اس کو باندھنا بھی جائز ہے، علامہ سیوطی تحریر فرماتے ہیں: وأما قول ابن العربي: السُّنة في الأسماء والقرآن الذکر دون التعلیق فممنوع (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں تمیمہ کو لٹکانے پر شرک کا حکم مذکور ہے، جیسا کہ امام اسیوطی کی جامع صغیر میں ہے: من تعلق شیئا وکل إلیہ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: من علق ودعة فلا ودع اللہ ومن علق تمیمة فلا تمم اللہ لہ (فیض القدیر: ۶/۱۸۱) تو یہ اس صورت پر محمول ہیں جب کہ اسی تعویذ کومؤثربالذات سمجھے یااس میں شرکیہ الفاظ ہوں یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معانی معلوم نہ ہوں، ان حدیثوں کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: أو المراد من علق تمیمة من تمائم الجاہلیة یظن أنہا تدفع أو تنفع فإن ذلک حرام والحرام لا دواء فیہ وکذا لو جہل معناہا وإن تجرد عن الاعتقاد المذکور فإن من علق شیئا من أسماء اللہ الصریحة فہو جائز بل مطلوب محبوب فإن من وکل إلی أسماء اللہ أخذ اللہ بیدہ․ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷)

Thursday 27 April 2023

ایک بہن اورتین بھائی میں ترکہ کی تقسیم

مرحوم کی جائیدادمنقولہ وغیرمنقولہ کی تقسیم کا طریقہ کار شرعاً یہ ہے کہ اولاً مرحوم کے ترکہ میں سے اُس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کیے جائیں گے، پھر اگر مرحوم کے ذمے کوئی قرضہ ہو تو اُس کو کل ترکہ میں سے ادا کیا جائے، اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی تو اس کو ایک تہائی میں سے نافذ کر کے مرحوم کے کُل ترکہ کو 7 حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس میں سے2دودوحصے مرحوم کے ہر بھائی کواور ایک حصہ مرحوم کی بہن کو دیا جائے گا ۔ باقی بھائی کی موجودگی میں بھتیجے اور بھتیجیاں محروم ہوں گی اور بھانجے اور بھانجیوں کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔.لہذامرحوم کی وصیت کوتہائی مال میں نافذ کیاجائے اوربقیہ مذکورہ طریقہ پرتقسیم کیاجائے گا.