https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 16 September 2022

الصحابى عبدالله بن حذافه السهمى رضى الله عنه

عبدُ الله بنُ حُذَافَةَ السَّهْميُّ، المكنى بِـ «أبي حُذافة». هو أحد صحابة النبي محمد صل الله عليه وسلم الذين بعثوا إلى ملوك الأعاجم برسائل تدعوهم إلى الإسلام. وكانت رسالة عبد الله إلى كسرى ملك الفرس وذلك في السنة السادسة للهجرة. وفي السنة التاسعة للهجرة خرج مع جيش المسلمين لمحاربة الروم في بلاد الشام وقد أسر عندهم. كان عبد الله قد هاجر إلى الحبشة بعد أن اشتد إيذاء المشركين في مكة للمسلمين. وشهد مع النبي محمد غزوة أحد وما بعدها من الغزوات، وشهد كذلك فتح مصر، وقد توفي فيها عام 33هـ. اشتهر عبد الله بين الصحابة بدعابته اللطيفة. عبد الله بن حذافة السهمي :معلومات شخصية هو عبد الله بن حذافة بن قيس بن عدي بن سعد السهمي القرشي الكناني وأمه تميمة بنت حرثان من بني الحارث بن عبد مناة. :سيرته رسالته إلى كسرى : رسائل رسول الله صل الله عليه وسلم في السنة السادسة للهجرة بعد عقد صلح الحديبية مع قريش عزم رسول الله محمد ﷺ أن يدعو ملوك وأمراء ذاك الزمان إلى دين الإسلام؛ فوقف وخطب بصحابته واختار منهم من يحمل رسائله، وكان اختيار النبي لسفرائه قائمًا على مواصفات معينة، اذ كانوا يتحلون بالعلم والفصاحة، والصبر والشجاعة، والحكمة وحسن التصرف، وحسن المظهر. وكان عبد الله بن حذافة ممن اختارهم النبي ليحمل رسالته إلى بلاد فارس حيث كان له دراية بهم ولغتهم، وكان أبي حذافة مضرب الأمثال في الشجاعة وثباته عند الشدائد. وجاء بالرسالة ما يلي: عبد الله بن حذافة السهمي "بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله إلى كسرى عظيم فارس، سلام على من اتبع الهدى، وآمن بالله ورسوله، وشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله، وأدعوك بدعاية الله، فإني أنا رسول الله إلى الناس كافة، لينذر من كان حيا ويحق القول على الكافرين فأسلم تسلم، فإن أبيت فإن إثم المجوس عليك." عبد الله بن حذافة السهمي فانطلق أبو حذافة راكبًا حصانه متجهًا إلى فارس وعند وصوله بعد حوالي شهر أخذ يسأل ويبحث عن القصر حتى وجده، وكان قصر كبير محاط بالجنود والأسوار، فاقترب من الحراس وأخبرهم أنه يحمل رسالة إلى الملك، فوصل الخبر إلى كسرى وأمر بتزيين الإيوان (مجلس لكبار القوم) ودعا عظماء الفرس ليكونوا في المجلس، وعند انتهائهم من تجهيزات الإستقبال سمحوا لأبي حذافة بالدخول. دخل أبو حذافة قاعة المجلس مرفوع الرأس واثقًا في خطاه فنظر إليه كسرى نظرة احتقار فرآه مرتديًا عباءة قديمة ويظهر عليه بساطة أعراب البادية، فأشار إلى أحد جنوده أن يحمل الرسالة، إلا أن أبي حذافة أبى ذلك وأصر أن يسلمها للملك بيده، وعند تسليمها أمر كسرى أحد الكتبة الذين يجيدون العربية أن يقرأها له، وما إن سمع كسرى أن محمد قد بدأ بنفسه قبل إسمه غضب وأخذ يمزق الرسالة دون أن يعلم ما مضمونها، وأمر أبو حذافة بالخروج؛ فخرج وعاد إلى يثرب، وعندما عاد كسرى إلى رشده أمر جنوده بجلب أبي حذافة عنده فلم يجدوه، وعند وصول أبو حذافة عند النبي أخبره ما حدث معه من تمزيق كسرى للرسالة فقال النبي: «مزّق الله مُلكه». كتب كسرى إلى نائبه في اليمن باذان رسالةً أن يبعث رجلين قويين إلى محمد وأن يحضراه إليه. فبعث باذان إلى النبي محمد رسالةً مع رجلين قويين يأمره بها أن يذهب معهما فورًا للقاء الملك كسرى، فعند وصول الرجلين عند النبي قال لهما «ارجعا إلى رحالكما اليوم وائتياني في الغد». وفي اليوم التالي جاء الرجلان عند النبي فقال لهما النبي أن كسرى قد مات على يد إبنه شيرويه فعادا الرجلين إلى باذان وأخبراه بما حصل. وبعد بضعة أيام وصلت رسالة إلى باذان أن شيرويه قد تولى الحكم فأعلن باذان إسلامه. أسره عند الروم في السنة التاسعة عشر للهجرة بعث الخليفة عمر بن الخطاب جيشًا لمحاربة الروم لفتح بلاد الشام، وأثناء الحرب وقع أسرى من المسلمين في يد الروم وكان من بينهم عبد الله بن حذافة. كان لدى قيصر ملك الروم علمٌ بما يتحلى به المسلمون من استرخاص النفس في سبيل الله، فأمر جنوده بجلب الأسرى عنده؛ إذ أراد أن يختبرهم، وكان من ضمنهم أبو حذافة، فنظر إليه طويلاً ثم عرض عليه أمرين إما الموت وإما أن يتنصر ويُخلى عن سبيله، فاختار أبو حذافة الموت على أن يغير دينه فغضب الملك وأمر جنوده بصلب عبد الله ورميه بالرماح لإخافته وليرجع عن دينه، إلا أن أبي حذافة بثباته وإصراره أمر جنوده يتركوه، وأمرهم بجلب قدر عظيم صُبَّ فيه الزيت ورُفع على النار حتى غلي، ثم دعا بأسيرين من أسرى المسلمين وأمر بأحدهما أن يُلقى فيها فأُلقي، فإذا لحمه يتفتت وعظامه تطفو على السطح، ثم التفت قيصر إلى أبي حذافة وعرض عليه النصرانية مرة أخرة إلا أنه رفض فأمر قيصر جنوده أن يُلقوه في القدر. وقف عبد الله ينظر إلى القدر وعيناه تدمعان، وعندما رآه قيصر على هذه الحال صرخ بجنوده أن يأتوه به لعله يكون قد جزع وخاف من الموت. إلا أن أبو حذافة قال: «واللهِ ما أبكاني إلا أني كنت أشتهي أن يكون لي بعدد ما في جسدي من شعرٍ أنفُسٌ فتُلقى كلُّها في هذه القدر في سبيل الله». فعجب قيصر من شجاعته وقال: «أتقبِّل رأسي وأُخلِّي سبيلك؟» فرد عليه: «عنّي وعن جميع الأسرى؟» فوافق ثم دنا أبو حذافة منه وقبَّل رأسه، فأمر قيصر بإخلاء سبيل جميع أسرى المسلمين. وعندما عاد أبو حذافة مع الأسرى إلى المدينة المنورة سُرَّ الخليفة عمر بن الخطاب بلقائهم وعند علمه بالقصة قال: «حقٌ على كل مُسلم أن يُقبِّل رأس عبد الله بن حذافة، وأنا أبدأ». وفاته توفي أبي حذافة في مصر عام 33هـ أثناء خلافة عثمان بن عفان.

المرأۃکالقاضی

المرأۃ کالقاضی‘‘ کی اصطلاح ’’المرأۃ کالقاضی‘‘ والی عبارت کتبِ فقہ میں کثرت سے ملتی ہے۔ اور یہ باب طلاق سے متعلق ہی استعمال ہوا کرتی ہے اور اس عبارت میں عورت کو جو قاضی کے حکم میں قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب جب تک واضح نہ ہوگا مسئلہ کی نوعیت سامنے نہیں آسکتی ہے۔ اور یہ عبارت دو حیثیت سے استعمال ہوتی ہے اور دونوں حیثیتوں میں واضح فرق یوں ہوا کرے گا کہ پہلی میں قاضی کا فیصلہ شوہر کے خلاف عورت کے موافق ہوگا۔ اور دوسری میں شوہر کے موافق عورت کے خلاف فیصلہ ہوگا، اب دونوں حیثیتوں کو ملاحظہ فرمائیے: حیثیت ۱؎: عورت کو قاضی کی طرح ظاہر کا اعتبار کرکے اپنے نفس کے متعلق حلت وحرمت کا از خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، مثلاً جب شوہر نے یہ کہہ دیا: تجھے طلاق، طلاق، طلاق اور از خود طلاق کا اقرار بھی کرتا ہے، مگر کہتا ہے کہ میں نے تکرار وتاکید کا ارادہ کیا تھا، تین طلاق کا ارادہ نہیں کیا ہے ۔ اور عورت نے خود بھی تین طلاق شوہر کی زبان سے سن رکھی ہیں، یا عادل شخص کی شہادت سے اس کو یقین حاصل ہوچکا ہے، اب اگر یہ معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچ جاتا ہے، تو مسئلہ آسان ہے، قاضی شوہر کی نیت کا اعتبار نہیںکرے گا؛ بلکہ ظاہری الفاظ کا اعتبار کرکے تین طلاق کا فیصلہ دے کر رجعت سے منع کردے گا۔ اور بیوی بالکلیہ آزاد ہوجائے گی؛ لیکن وہاں قاضی نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور عذر شدید کی وجہ سے معاملہ قاضی کی عدالت تک نہیں پہنچ سکتا؟ اور مفتی نے دیانت کا اعتبار کرکے ایک طلاق کا فتویٰ دے کر رجعت کو جائز قرار دیا ہے اور شوہر مفتی کے فتوی کی بنا پر رجعت کرکے بیوی کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے، تو ایسی صورت میں جس طرح ظاہر پر فیصلہ کرنا قاضی پر لازم ہوتا ہے، اسی طرح عورت کو بھی قاضی کی طرح ظاہر کا اعتبار کرکے اپنے نفس کے متعلق فیصلہ کا حکم دیا گیا ہے؛ اس لئے اب عورت کے لئے اپنے اوپر شوہر کو قدرت دینا جائز نہیں؛ بلکہ خلع کرکے آزادی حاصل کرنا یا مال دے کر طلاق حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور اگر شوہر ان میں سے کسی پر بھی راضی نہیں ہے، تو علاقہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جاکر عدت گذار کر دوسرے مرد سے نکاح کرکے با عصمت زندگی گذار سکتی ہے، اس طرح عورت کو ظاہر کا اعتبار کرکے اپنا فیصلہ خود کرنے کو حضرات فقہاء ’’المرأۃ کالقاضی‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور مسئلہ کے اس پہلو کو حضرات فقہاء ان الفاظ سے ذکر کرتے ہیں: وإذا قال: أنت طالق، طالق، طالق، وقال: إنما أردت بہ التکرار صدق دیانۃ لا قضاء، فإن القاضي مامور لاتباع الظاہر، واللہ یتولی السرائر، والمرأۃ کالقاضي لا یحل لہا أن تمکنہ إذا سمعت منہ ذلک أو علمت بہ؛ لأنہا لا تعلم إلا الظاہر۔ (تبیین الحقائق، کتاب الطلاق، باب الکنایات، کوئٹہ ۲/ ۲۱۸، جدید زکریا ۳/ ۸۲، ہندیۃ قدیم ۱/ ۳۵۴، جدید زکریا ۱/ ۴۲۲) جب شوہر بیوی کے متعلق کہے کہ تجھے طلاق، طلاق، طلاق اور کہتا ہے کہ میں نے اس سے تکرار وتاکید کا ارادہ کیا تھا، تو دیانۃً مان لیا جائے گا اور قضاء ً تسلیم نہیں کیا جائے گا؛ اس لئے کہ قاضی ظاہر کے اعتبار کرنے کا پابند ہے اور دلوں کی باتوں کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے اور عورت کو قاضی کی طرح قرار دیا گیا ہے؛ اس لئے یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر کو اپنے اوپر قدرت دے دے، جب کہ اس نے خود شوہر کے یہ الفاظ سن لئے ہیں، یا اس کو یقین سے معلوم ہوگیا ہے؛ اس لئے کہ وہ صرف ظاہر کی بات جان سکتی ہے۔ اور مذکورہ عبارت میں یہ لحاظ رہنا چاہئے کہ شوہر تین بار لفظ طلاق استعمال کرنے کا والمرأۃ کالقاضي إذا سمعتہ أو أخبرہا عدل لا یحل لہا تمکینہ، والفتوی علی أنہ لیس لہا قتلہ ولا تقتل نفسہا بل تفدی نفسہا بمال أو تہرب، (وقولہ) إنہا ترفع الأمر للقاضي فإن حلف ولا بینۃ لہا فلا إثم علیہ۔ شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، مطلب: في قول البحر، کراچی ۳/ ۲۵۱، زکریا ۴/ ۴۶۳، کراچی ۳/ ۳۰۵، زکریا ۴/ ۵۳۸، البحرالرائق، کوئٹہ ۳/ ۲۵۷، جدید زکریا ۳/ ۴۴۸) اور عورت قاضی کے حکم میں ہے، جب کہ اس نے سن رکھا ہے یا اس کو کسی عادل شخص نے بتایا ہے، اس کے لئے شوہر کو اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں ہے۔ اور فتویٰ اس پر ہے کہ عورت کا شوہر کو قتل کر دینا یا خودکشی کر لینا جائز نہیں ہے؛ بلکہ مال کے بدلے اپنے نفس کو شوہر سے آزاد کرلے یا بھاگ جائے اور بے شک عورت اپنا معاملہ قاضی کی عدالت میں پیش کردے، تو اگر شوہر جھوٹی قسم کھا لیتا ہے اور عورت کے پاس گواہ نہیں ہے، تو گناہ شوہر پر ہوگا۔ وفي البحر: یحل لہا أن تتزوج بزوج آخر فیما بینہ وبین اللہ تعالیٰ۔ (البحرالرائق، کتاب الطلاق، باب الرجعۃ، کوئٹہ ۴/ ۵۷، زکریا ۴/ ۹۶) اور ’’البحرالرائق‘‘ میں ہے کہ: عورت کے لئے دوسرے مرد سے نکاح کرلینا دیانۃً جائز ہے۔ نیز اسی طرح اگر بیوی حنفی المسلک ہے اور شوہر شافعی المسلک ہے اور شوہر نے طلاق کنائی دے دی ہے، تو اگر شافعی المسلک قاضی نے رجوع کا فیصلہ دے دیا ہے، تو ظاہراً اور باطناً دونوں اعتبار سے لازم ہوجائے گا۔ (ف المرأۃ کالقاضی‘‘ کی اصطلاح ’’المرأۃ کالقاضی‘‘ والی عبارت کتبِ فقہ میں کثرت سے ملتی ہے۔ اور یہ باب طلاق سے متعلق ہی استعمال ہوا کرتی ہے اور اس عبارت میں عورت کو جو قاضی کے حکم میں قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب جب تک واضح نہ ہوگا مسئلہ کی نوعیت سامنے نہیں آسکتی ہے۔ اور یہ عبارت دو حیثیت سے استعمال ہوتی ہے اور دونوں حیثیتوں میں واضح فرق یوں ہوا کرے گا کہ پہلی میں قاضی کا فیصلہ شوہر کے خلاف عورت کے موافق ہوگا۔ اور دوسری میں شوہر کے موافق عورت کے خلاف فیصلہ ہوگا، اب دونوں حیثیتوں کو ملاحظہ فرمائیے: حیثیت ۱؎: عورت کو قاضی کی طرح ظاہر کا اعتبار کرکے اپنے نفس کے متعلق حلت وحرمت کا از خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، مثلاً جب شوہر نے یہ کہہ دیا: تجھے طلاق، طلاق، طلاق اور از خود طلاق کا اقرار بھی کرتا ہے، مگر کہتا ہے کہ میں نے تکرار وتاکید کا ارادہ کیا تھا، تین طلاق کا ارادہ نہیں کیا ہے ۔ اور عورت نے خود بھی تین طلاق شوہر کی زبان سے سن رکھی ہیں، یا عادل شخص کی شہادت سے اس کو یقین حاصل ہوچکا ہے، اب اگر یہ معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچ جاتا ہے، تو مسئلہ آسان ہے، قاضی شوہر کی نیت کا اعتبار نہیںکرے گا؛ بلکہ ظاہری الفاظ کا اعتبار کرکے تین طلاق کا فیصلہ دے کر رجعت سے منع کردے گا۔ اور بیوی بالکلیہ آزاد ہوجائے گی؛ لیکن وہاں قاضی نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور عذر شدید کی وجہ سے معاملہ قاضی کی عدالت تک نہیں پہنچ سکتا؟ اور مفتی نے دیانت کا اعتبار کرکے ایک طلاق کاحکم دیدیاتوعورت اب قاضی کی طرح اپنی زندگی کافیصلہ کرنے میں قاضی کی طرح. ہے.

Thursday 15 September 2022

صلوۃ الحاجۃ

صلاۃ الحاجۃ بھی عام نفل نمازوں کی طرح ایک نما ز ہے ، جو اس نیت سے پڑھی جاتی ہے کہ اپنی کسی غرض کے لیے اللہ تعالی سے اس کے بعد دعا کی جائے۔ حدیث میں ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ سے کوئی خاص حاجت یا اس کے کسی بندے سے کوئی خاص کام پیش آجائے تو اس کو چاہیے کہ وضو کرے خوب اچھی طرح، پھر دو رکعت (اپنی حاجت کی نیت سے) نمازِ حاجت پڑھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور رسول اللہﷺ پرصلاۃ وسلام بھیجے (یعنی درود شریف پڑھے) اس کے بعد یہ دعا کرے: '' لَا اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، اَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ، وَالْعِصْمَةَ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ، وَالْغَنِیْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَّالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِیْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَه وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَه وَلَا حَاجَةً هِيَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَیْتَهَا یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ صلاۃ حاجت سے متعلق کوئی متعین روایت ثابت نہیں ہے بلکہ موضوع اور ضعیف روایات میں اس کی فضیلت بیان ہوئی لہذا اس کا کوئی خاص طریقہ مشروع نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی کو کوئی حاجت پیش آئے تو دو رکعت نفل نماز پڑھ کر دعا مانگنا جائز ہے اور اس نفل نماز کا کوئی خاص طریقہ مشروع نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٣﴾ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بےشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صلاۃ حاجت کے مروجہ طریقوں کا رد کرتے ہوئے شیخ صالح المنجد لکھتے ہیں: سوال : كيا نماز حاجت مشروع ہے اور اس كا تجربہ فائدہ مند ہو گا ؟ - 70295 نماز حاجت بارہ ركعت پڑھى جاتى ہے اور ہر دو ركعت كے درميان تشھد اور آخرى تشھد ميں ہم اللہ كى حمد و ثنا بيان كرتے اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھ كر پھر سجدہ كرے ہيں سات بار سورۃ الفاتحہ اور سات بار آيۃ الكرسى اور دس بار " لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير " پڑھتے پھر يہ كہتے ہيں: " اللهم إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة " پھر ہم اپنى ضرورت طلب كرتے اور سر سے اپنا سر اٹھا كر دائيں بائيں سلام پھير ديتے ہيں. ميرا سوال يہ ہے كہ: مجھے يہ بتايا گيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سجدہ ميں قرآن مجيد پڑھنے سے منع كيا ہے، ميں نے دوران تعليم اس نماز حاجت كا تجربہ بھى كيا تھا تو اللہ تعالى نے ميرى دعا قبول فرمائى اب مجھے پھر ايك ضرورت پيش آئى ہے جو ميں اللہ سے طلب كرنى چاہتى ہوں اس كے ليے نماز حاجت ادا كروں يا نہ كروں آپ مجھے كيا نصيحت فرماتے ہيں ؟ الحمد للہ: نماز حاجت كا ذكر چار احاديث ميں ملتا ہے، جن ميں سے دو احاديث تو موضوع اور من گھڑت ہيں، اور ان دو حديثوں ميں سے ايك ميں بارہ اور دوسرى حديث ميں دو ركعت كا ذكر ملتا ہے، اور تيسرى حديث بھى بہت زيادہ ضعيف ہے، اور چوتھى حديث بھى ضعيف ہے اور ان دونوں حديثوں ميں دو ركعت كا ذكر ہوا ہے. پہلى حديث: وہ ہے جس كا سوال ميں ذكر كيا گيا ہے اور يہ حديث عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كى جاتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " تم بارہ ركعتيں دن ميں يا رات ميں كسى وقت ادا كروا ور ہر دو ركعت ميں تشھد پڑھو جب تم اپنى نماز كى آخرى تشھد پڑھو تو اس ميں اللہ كى حمد و ثنا بيان كرو اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھو، اور سجدہ ميں سات بار سورۃ الفاتحہ پڑھو اور دس بار " لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير " پھر يہ كلمات كہو: " اللهم إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة " اور اس كے بعد اپنى حاجت طلب كروا ور سجدہ سے سر اٹھا كر دائيں بائيں سلام پھير دو، اور يہ بےوقوفوں كو مت سكھاؤ كيوكہ وہ اس سے مانگيں گے تو ان كى دعا قبول كر لى جائيگى " اسے ابن جوزى نے الموضوعات ( 2 / 63 ) ميں عامر بن خداش عن عمرو بن ھارون البلخى كے طريق سے روايت كيا ہے. اور ابن جوزى رحمہ اللہ نے عمرو البلخى كى ابن معين سے تكذيب نقل كى ہے، اور كہا ہے: سجدہ ميں قرآن كى ممانعت صحيح ثابت ہے . ديكھيں: الموضوعات ( 2 / 63 ) اور ترتيب الموضوعات للذھبى ( 167 ). اور اس دعاء " معاقد العز من عرش اللہ " سے مقصود ميں علماء كرام كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے جو شرع ميں وارد نہيں بلكہ بعض اہل علم جن ميں امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ شامل ہيں نے يہ دعا كرنے سے منع كيا ہے؛ كيونكہ يہ بدعتى وسيلہ ميں سے ہے، اور كچھ دوسرے علماء نے اسے جائز قرار ديا ہے ان كا اعتقاد ہے كہ اللہ كى صفات ميں سے كسى بھى صفت كا وسيلہ جائز ہے اس ليے نہيں كہ ان كے ہاں مخلوق كا وسيلہ جائز ہے. شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " ميں كہتا ہوں: ليكن جس اثر اور روايت كى طرف اشارہ كيا گيا ہے وہ باطل ہے صحيح نہيں، اسے ابن جوزى نے " الموضوعات " ميں روايت كيا ہے اور كہا ہے: يہ حديث بلاشك و شبہ موضوع ہے، اور حافظ زيلعى رحمہ اللہ نے نصب الرايۃ ( 273 ) ميں ان كے اس فيصلے كو برقرار ركھا ہے. اس ليے اس سے حجت پكڑنا صحيح نہيں، اگرچہ قائل كا قول ہى ہو " أسألك بمعاقد العز من عرشك " جو اللہ كى صفات ميں سے ايك صفت كے ساتھ وسيلہ ہے، اور دوسرے دلائل كے ساتھ يہ توسل مشروع ہے جو اس موضوع احاديث سے غنى كر ديتى ہيں. ابن اثير رحمہ اللہ كہتے ہيں: " أسألك بمعاقد العز من عرشك " يعنى ان خصلتوں كے ساتھ جن كا عرش عزت مستحق ہے، يا ان كے منعقد ہونے كى جگہوں كے ساتھ، اور اس كے معنى كى حقيقت يہ ہے كہ: تيرے عرش كى عزت كے ساتھ، ليكن ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے اصحاب اس لفظ كے ساتھ دعا كرنا مكروہ سمجھتے ہيں. اس شرح كى پہلى وجہ پر وہ خصلتيں ہوئيں جن كا عرش عزت مستحق ہے، تو يہ اللہ كى صفات ميں سے ايك صفت سے توسل ہوا لہذا جائز ہو گا. ليكن دوسرى وجہ كى بنا پر جو كہ عرش سے عزت كے حصول كى جگہيں معنى ہے تو يہ مخلوق سے توسل ہے اس ليے جائز نہيں، بہر حال يہ حديث كسى بحث و تمحيث كى مستحق نہيں اور نہ ہى تاويل كى؛ كيونكہ يہ حديث جب ثابت ہى نہيں اس ليے اوپر جو بيان ہوا ہے اس پر اكتفاء كرتے ہيں. علامہ البانى رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى. ديكھيں: التوسل انوعہ و حكامہ ( 48 - 49 ). اور شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں: " اس حديث ميں غرابت پائى جاتى ہے جيسا كہ كہ سائل نے بيان كيا ہے كہ قيام كے علاوہ ركوع يا سجدہ ميں سورۃ الفاتحہ مشروع ہے، اور يہ تكرار كے ساتھ ہے، اور پھر سوال ميں يہ بھى ہے كہ " أسألك بمعاقد العز من عرشك " جيسے اور كلمات بھى ہيں اور يہ سب امور غريب اور اچھنبے ہيں، اس ليے سائل كو چاہيے كہ وہ اس حديث پر عمل مت كرے. اور پھر نبى كريمص لى اللہ عليہ وسلم سے جو صحيح احاديث ثابت ہيں جن ميں كوئى اشكال بھى نہيں جن ميں نوافل اور عبادات نماز و اطاعت كا بيان ملتا ہے ان احاديث ميں ہى ان شاء اللہ كفائت ہے " انتہى ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 1 / 46 ). نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع اور سجدہ ميں قرآن مجيد كى تلاوت سے منع فرمايا ہے. على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: " مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع اور سجدہ ميں قرآت كرنے سے منع فرمايا " صحيح مسلم حديث نمبر ( 480 ). سوال نمبر ( 34692 ) كے جواب ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كى جانب سے حديث كے متن اور سند كے ضعف كا بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں. نماز حاجت كے متعلق دوسرى حديث درج ذيل ہے: ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " ميرے پاس جبريل عليہ السلام كچھ دعائيں لے كر آئے اور كہا: اگر آپ كو كوئى دنياوى پريشانى ہو تو آپ يہ دعائيں پڑھ كر اپنى ضرورت مانگيں: " يا بديع السموات والأرض ، يا ذا الجلال والإكرام ، يا صريخ المستصرخين ، يا غياث المستغيثين ، يا كاشف السوء ، يا أرحم الراحمين ، يا مجيب دعوة المضطرين ، يا إله العالمين ، بك أنزل حاجتي وأنت أعلم بها فاقضها " اے آسمان و زمين كے پيدا كرنے والے، يا ذالجلال و اكرام، اے لوگوں كى پكار سننے والے، اے مدد طلب كرنے والوں كى مدد كرنے والے، اے برائى اور شر كو دور كرنے والے، اے ارحم الراحمين، اے مجبور و لاچار كى دعا قبول كرنے والے، يا الہ العالمين، مجھے ضرورت اور حاجت ہے اور تو اسے زيادہ جانتا ہے ميرى اس حاجت كو پورا فرما " اسے اصبھانى نے روايت كيا ہے ديكھيں الترغيب و الترھيب ( 1 / 275 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب حديث نمبر ( 419 ) اور السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ حديث نمبر ( 5298 ) ميں اسے موضوع قرار ديا ہے. اور تيسرى حديث درج ذيل ہے: عبد اللہ بن ابى اوفى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " جس كسى كو بھى اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب يا پھر كسى بنى آدم كى طرف كوئى حاجت ہو تو وہ اچھى طرح وضوء كرے اور دو ركعت ادا كر كے اللہ كى حمد و ثنا بيان كر كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے اور پھر يہ كلمات كہے: " لا إله إلا الله الحليم الكريم ، سبحان الله رب العرش العظيم ، الحمد لله رب العالمين ، أسألك موجبات رحمتك ، وعزائم مغفرتك ، والغنيمة من كل بر ، والسلامة من كل إثم ، لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ، ولا هما إلا فرجته ، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين " اللہ حليم و كريم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، رب عرش عظيم كا مالك اللہ سبحانہ و تعالى پاك ہے، سب تعريفات و حمد اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اے اللہ ميں تجھ سے تيرى رحمت واجب ہونے والے امور طلب كرتا ہوں، اور تيرے بخشش كا طلبگار ہوں، اور ہر نيكى كى غنيمت چاہتا ہوں، اور ہر گناہ سے سلامتى طلب كرتا ہوں، ميرے سب گناہ معاف كر دے، اور ميرے سارے غم و پريشانياں دور فرما، اور تيرى رضا و خوشنودى كى جو بھى حاجت و ضرورت ہے وہ پورى فرما اے ارحم الراحمين " سنن ترمذى حديث نمبر ( 479 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1384 ). امام ترمذى اس حديث كے متعلق كہتے ہيں: يہ حديث غريب ہے، اور اس كى سند ميں كلام كى گئى ہے. اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب حديث نمبر ( 416 ) ميں ذكر كيا اور اسے ضعيف جدا يعنى بہت زيادہ ضعيف قرار ديا ہے. اس حديث كا ضعف سوال نمبر ( 10387 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں. چوتھى حديث درج ذيل ہے: انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيںكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " اے على كيا ميں تجھے ايك دعا نہ سكھاؤں جب تجھے كوئى غم و پريشانى ہو تو اپنے رب سے دعا كرو تو اللہ كے حكم سے يہ دعاء قبول ہو اور تيرى پريشانى و غم دور ہو جائے ؟ وضوء كر كے دو ركعت ادا كرو اور اللہ كى حمد و ثنا بيان كرنے كے بعد اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھو اور اپنے ليے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں كے ليے بخشش كى دعا كر كے يہ كلمات ادا كرو: " اللهم أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون ، لا إله إلا الله العلي العظيم ، لا إله إلا الله الحليم الكريم ، سبحان الله رب السموات السبع ورب العرش العظيم ، الحمد لله رب العالمين ، اللهم كاشف الغم ، مفرج الهم ، مجيب دعوة المضطرين إذا دعوك ، رحمن الدنيا والآخرة ورحيمهما ، فارحمني في حاجتي هذه بقضائها ونجاحها رحمة تغنيني بها عن رحمة من سواك " اے اللہ تو اپنے بندوں كے مابين فيصلہ كرنے والا ہے جس ميں وہ اختلاف كرتے ہيں، اللہ على العظيم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اللہ حليم و كريم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، آسمان و زمين اور عرش عظيم كا مالك اللہ سبحانہ و تعالى پاك ہے، سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اے غموں كو دور كرنے والے اللہ، اور پريشانيوں كو دور كرنے والے، مجبور و لاچار كى دعا كو قبول كرنے والے، دنيا و آخرت كے رحمن اور دونوں كے رحيم، ميرى اس حاجت و ضرورت ميں مجھ پر رحم فرما كر اس ضرورت كو پورا كر اور مجھ پر ايسى رحمت فرما جو مجھے تيرى رحمت كے علاوہ باقى سب سے مستغنى كر دے " اسے اصبھانى نے روايت كيا ہے ديكھيں: الترغيب و الترھيب ( 1 / 275 ). علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب ( 417 ) ميں ضعيف قرار ديا اور كہا ہے: اس كى سند مظلم يعنى اندھيرى ہے اس ميں ايسے روات ہيں جو معروف نہيں. اور السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ ( 5287 ) بھى ديكھيں. خلاصہ يہ ہوا كہ: اس نماز كے متعلق كوئى حديث صحيح نہيں، اس ليے مسلمان شخص كے ليے يہ نماز ادا كرنا مشروع نہيں، بلكہ اس كے مقابلہ ميں جو صحيح احاديث ميں نمازيں اور دعائيں اور اذكار ثابت ہيں وہى كافى ہيں. دوم: سوال كرنے والى كا يہ كہنا كہ: ميں نے اس كا تجربہ كيا ہے اور اسے فائدہ مند پايا ہے" اس كے علاوہ بھى كئى لوگ ايسى بات كر چكے ہيں، اور پھر اس طرح كے اقوال سے شريعت ثابت نہيں ہوتى اور كوئى امر مشروع نہيں ہو جاتا. شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " صرف تجربہ كى بنا پر ہى سنت ثابت نہيں ہو جاتى اور نہ ہى دعاء كى قبوليت اس پر دلالت كرتى ہے كہ قبول كا سبب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، بعض اوقات اللہ تعالى تو سنت كے علاوہ كسى اور چيز كے توسل سے بھى دعا قبول فر ليتا ہے، كيونكہ اللہ ارحم الراحمين ہے، اور بعض اوقات دعا كى قبوليت بتدريج ہوتى ہے " انتہى مختصرا فتوى علماء عرب هل صح عن النبي صلى الله عليه وسلم صلاة تسمى بصلاة الحاجة؟ وإن صحت فكيف يتم أداؤها؟ أجيبونا جزاكم الله خيرا. الإجابــة الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد: فقد ورد في سنن الترمذي وابن ماجه وغيرهما من حديث عبد الله بن أبي أوفى أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له إلى الله حاجة أو إلى أحد من بني آدم فليتوضأ فليحسن الوضوء ثم ليصل ركعتين ثم ليثن على الله وليصل على النبي صلى الله عليه وسلم ثم ليقل لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين أسألك موجبات رحمتك وعزائم مغفرتك والغنيمة من كل بر والسلامة من كل إثم لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين " زاد ابن ماجه في روايته " ثم يسأل الله من أمر الدنيا والآخرة ما شاء فإنه يقدر". فهذه الصلاة بهذه الصورة سماها أهل العلم صلاة الحاجة. وقد اختلف أهل العلم في العمل بهذا الحديث بسبب اختلافهم في ثبوته فمنهم من يرى عدم جواز العمل به لعدم ثبوته عنده لأن في سنده فائد بن عبد الرحمن الكوفي الراوي عن عبد الله بن أبي أوفى وهو متروك عندهم. ومنهم من يرى جواز العمل به لأمرين. 1. أن له طرقا وشواهد يتقوى بها. وفائد عندهم يكتب حديثه. 2. أنه في فضائل الأعمال وفضائل الأعمال يعمل فيها بالحديث الضعيف إذا اندرج تحت أصل ثابت ولم يعارض بما هو أصح. وهذا الحاصل هنا . وهذا الرأي أصوب إن شاء الله تعالى وعليه جماعة من العلماء . وأما كيفية أدائها فهي هذه الكيفية المذكورة في الحديث. والله أعلم.

سورة الفاتحة

سُورَةُ الْفَاتِحَة أو السبع المثاني أو أمّ الكتاب هي أعظم سُورة في القرآن الكريم، لقول النَّبي مُحمَّد: «﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن﴾ هي السبع المثاني، والقرآن العظيم الَّذي أوتيته»، وذلك لأنها افتتح بها المصحف في الكتابة، ولأنها تفتتح بها الصلاة في القراءة. لِسُورة الفاتحة أسماء كثيرة عدَّها السيوطي في كتاب الإتقان في علوم القرآن خمسةً وعشرين اسمًا بين ألقاب وصفات جرت على ألسنة القراء من عهد السلف، ومِنها: القُرآن العظيم، وسُورة الْحَمْد، والوافية، والكافية. وقد أجمع جُمهور العُلماء على أنَّ آيات سُورة الفاتحة سبع آياتٍ وذلك باتفاق القُرّاء والمُفسّرين، ولم يشذ عن ذلك إلَّا ثلاثة: الحسن البصري وقال إنَّهُنَّ ثمان آياتٍ، وقال عمرو بن عبيد والحسين الجعفي إنَّهُنَّ ست آياتٍ، واستدل الجُمهور بقول الرسول: «السبع المثاني». وتعد السُّورة سُورة مَكِّية أُنزلت قبل هجرة الرَّسول من مكة، وهو قول أكثر العُلماء، وكان ترتيبها في النزول خامسًا على قول بدر الدين الزركشي بعد سُورة العلق وسُورة القلم وسُورة المُزمل وسورة المُدثر. اشتملت السُّورة على أغراض عدة، وهي: حمد الله وتمجيده، والثناء عليه بذكر أسمائه، وتنزيهه عن جميع النقائص، وإثبات البعث والجزاء، وإفراده بالعبادة والاستعانة، والتوجه إليه بطلب الهداية إلى الصراط المستقيم، والتضرع إليه بتثبيتهم على الصراط المستقيم، والإخبار عن قصص الأمم السابقين، كما اشتملت السورة على الترغيب في الأعمال الصالحة. وذكَّرت بأساسيات الدين: شكر نعم الله في قوله: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ﴾، والإخلاص لله في قوله: ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾، والصحبة الصالحة في قوله: ﴿صراط الذين أنعمت عليهم﴾، وتذكر أسماء الله الحسنى وصفاته في قوله: ﴿الرحمن الرحيم﴾، والاستقامة في قوله: ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾، والآخرة في قوله: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾، بالإضافة لأهمية الدعاء في قوله: ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾.[] وإن لسورة الفاتحة أهمية كبيرة في الإسلام وكذلك في حياة المسلم، فهي ركن عظيم من أركان الصلاة، فالصلاة لا تصح إذا لم تُقرأ الفاتحة فيها على الرأي الراجح عند جمهور العلماء،[7] فقد روي عن أبي هريرة عن النبي قال: «من صلى صلاةً لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خِدَاجَ - ثلاثاً- غير تمام».[8] وفي رواية أخرى: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب».[9] لسورة الفاتحة أسماء كثيرة ذكرها العلماء في كتبهم منهم الإمام الرازي والقرطبي والسيوطي وغيرهم، حيث تدل كثرة الأسماء على شرف المُسمَّى ومكانته. التسمية الرئيسية للسورة هي الفاتحة، والفاتحة في اللغة: مشتقة من الفتح وهو نقيض الإغلاق، فَتحه يفتحه فَتحًا وافَتَتحه وَفتَّحه فانَفَتح وتَفَتَّح. وفاتحة الشيء أوله، وفواتح القرآن هي أوائل السور، والواحدة فاتحة. وأم الكتاب يقال لها: فاتحة القرآن. والفاتحة اسم على وزن (فاعلة)، تطلق على أول كل شيء فيه تدريج. بالإضافة لاسم الفاتحة، سميت السورة بأسماء عديدة بعضها أسماء توقيفية والبعض الآخر أسماء اجتهادية، فقد ذكر ابن عاشور أنه لم يثبت في السنة الصحيحة والمأثور من أسمائها إلا فاتحة الكتاب أو السبع المثاني وأم القرآن أو أم الكتاب] الأسماء التوقيفية:] فاتحة الكتاب: رُوي عن أبي هريرة أن رسول الله أمره أن يخرج فينادي: «أن لا صلاة إلا بقراءة فاتحة الكتاب فما زاد». وسميت بذلك: لأنه يفتتح بها في المصحف والتعليم، والقراءة في الصلاة، وقيل: لأنها أول سورة نزلت من السماء، وقيل: لأنها أول سورة كتبت في اللوح المحفوظ، وقيل: لأن الحمد فاتحة كل كلام. السبع المثاني: قال تعالى: وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ، وعن أبي بن كعب أنه قرأ على النبي أم القرآن فقال رسول الله: «والذي نفسي بيده ما أنزل في التوراة ولا في الإنجيل ولا في الزبور ولا في الفرقان مثلها، هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته». وسبب تسميتها بالسبع: فلأنها سبع آيات. أما سبب تسميتها بالمثاني فهناك عدة وجوه: فقيل لأنها مستثناة من سائر الكتب السماوية، وقيل لأنها تُقرأ في الصلاة ثم إنها تثنى بسورة أخرى، وقيل لأنها تثنى في كل ركعة، وقيل لأن الله أنزلها مرتين مرة بمكة ومرة بالمدينة، وقيل لأنها كلما قرأ العبد منها آية ثناه الله بالإخبار عن فعله، وقيل لأنها اجتمع فيها فصاحة المثاني وبلاغة المعاني، وقيل لأنها استُثنيت لهذه الأمة فلم تنزل على أحد قبلها ذُخرًا لها. أمّ القرآن أو أمّ الكتاب: روى أبو هريرة عن النبي قال: «من صلى صلاةً لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خِدَاج – ثلاثاً – غير تمام». ويعود سبب تسميتها إلى: أن أم الشيء أصله والمقصود من كل القرآن تقرير أمور أربعة: الإلهيات، المعاد، النبوات، إثبات القضاء والقدر لله، وهذه السورة اشتملت على هذه الأمور الأربعة، ولهذا لقبت بأم القرآن لاشتمالها على الأمور الأربعة، فهي أصل القرآن. رُوي عن أبي بكر بن دريد أنه قال: «الأم في كلام العرب الراية التي ينصبها العسكر، فسميت السورة بأم القرآن لأن مفزع أهل الإيمان إلى هذه السورة كما أن مفزع العسكر إلى الراية». قال الماوردي: «سميت بذلك لتقدمها وتأخر ما سواها تبعًا لها، صارت أمًا لأنها أَمَّتْهُ أي تقدمته، وكذلك قيل لراية الحرب أُم لتقدمها واتباع الجيش له. ويقال لما مضى على الإنسان من سِنِي عمره أُم لتقدمها، ولمكة أم القرى لتقدمها على سائر القرى، ولأن الأرض منها دحيت وعنها حدثت، فصارت أُمًا لها لحدوثها عنها كحدوث الولد عن أمه».[] وقيل: لأنها محكمة والمحكمات أم الكتاب. أما اسم أم الكتاب، ففي هذا الاسم خلاف، فجوزه الجمهور، وكرهه أنس بن مالك والحسن البصري ومحمد بن سيرين، واستدل أنس وابن سيرين على أن أم الكتاب هو اللوح المحفوظ، فيما قال الحسن البصري: أم الكتاب الحلال والحرام.[][15] القرآن العظيم: جاء عن الرسول أنه قال: «هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته». سميت بذلك: لتضمنها جميع علوم القرآن، وذلك أنها تشتمل على الثناء على الله تعالى بأوصاف كماله وجلاله، وعلى الأمر بالعبادات والإخلاص فيها، والاعتراف بالعجز عن القيام بشيء منها إلا بإعانته، وعلى الابتهال إليه في الهداية إلى الصراط المستقيم. أما الأسماء الاجتهادية للسورة فمنها: سورة الحمد: سميت بذلك لأن أولها لفظ الحمد. والوافية: فقد كان سفيان بن عيينة يسميها بهذا الاسم، قال الثعلبي: «وتفسيرها أنها لا تقبل التنصيف، ألا ترى أن كل سورة من القرآن لو قرئ نصفها في ركعة والنصف الثاني في ركعة أخرى لجاز، وهذا التنصيف غير جائز في هذه السورة».[] الكافية: سميت بذلك لأنها تكفي عن غيرها، وأما غيرها فلا يكفي عنها، روى عبادة بن الصامت عن الرسول قال: «أم القرآن عوض من غيرها، وليس غيرها عوضًا منها». الصَّلاة: روى أبو هريرة عن الرسول قوله: «يقول الله تعالى: قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين». والمراد هذه السورة. وقيل: لأنها من لوازمها، فهو من باب تسمية الشيء باسم لازمه. وقيل: لأن الصلاة لا تصح إلا بها. سورة الدعاء: لاشتمالها على قوله تعالى: اهدَِنا الصراط المسَتقِيم. والسؤال: روى أبو سعيد الخدري أن الرسول قال: «يقول الرب عز وجل: من شغله القرآن عن مسألتي أعطيته أفضل ما أعطي السائلين». والأساس: وفي سبب تسميتها بذلك وجوه: أنها أول سورة من القرآن الكريم فهي كالأساس. وأنها مشتملة على أشرف المطالب وذلك هو الأساس. وأن أشرف العبادات بعد الإيمان هي الصلاة، وهذه السورة مشتملة على كل ما لا بد منه في الإيمان، والصلاة لا تتم إلا بها. الشُّكر: وذلك لأنها ثناء على الله بالفضل والكرم والإحسان. الشّفاء: لأنها إذا قرئت على المريض فإنها تشفيه بأمر الله. والرقية: روى أبو سعيد الخدري أن رسول الله قال للرجل الذي رقى سيد الحي: «وما كان يدريه أنها رقية، اقسموا واضربوا لي بسهم». المناجاة: لأن العبد يناجى فيها ربه بقوله: ﴿إِياك نَعبد وإِياك نسَتعِين﴾. وسورة تعليم المسألة: قيل: لأن فيها آداب السؤال لأنها بدئت بالثناء قبله. وسورة التفويض: لاشتمالها على التفويض في قوله: ﴿إِياك نعبد وإِياك نسَتعِين﴾. سورة الكنز: سميت بذلك لأنها تشتمل على كنوز عظيمة من العلوم والمعاني، ذكر هذا الاسم الزمخشري في تفسيره. سورة النُّور: لظهورها بكثرة استعمالها أو لتنويرها القلوب لجلالة قدرها، أو لأنها لما اشتملت عليه من المعاني عبارة عن النور بمعنى القرآن. أما الأسماء الخمسة والعشرين التي أوردها جلال الدين السيوطي في كتابه الإتقان في علوم القرآن، فهي: الفاتحة، فاتحة الكتاب، أم الكتاب، أم القرآن، القرآن العظيم، السبع المثاني، الوافية، الكنز، الكافية، الأساس، النور، سورة الحمد، سورة الشكر، سورة الحمد الأولى، سورة الحمد القصرى، الرُّقية، الشفاء، الشافية، سورة الصلاة، اللازمة، سورة الدعاء، سورة السؤال، سورة تعليم المسألة، سورة المناجاة، سورة التفويض.[] عدد الآيات أجمع الجُمهور على أنَّ آيات سُورة الفاتحة سبع آياتٍ وذلك باتفاق القُرّاء والمُفسّرين، ولم يشذ عن ذلك إلَّا الحسن البصري حين قال إنَّهُنَّ ثمان آياتٍ، ونُسِب أيضًا لعمرو بن عبيد وإلى الحُسين الجعفي قولهما إنَّهُنَّ ست آياتٍ. واستدل الجُمهور على أنَّ السُّورة سبع آياتٍ بحديث أبي سعيد بن المعلَّى أنَّ رسول الله قال له: «لأعلمنك سُورة هي أعظم سُورة في القرآن، قال: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين…﴾ هي السَّبع المثاني والقرآن العظيم الَّذي أوتيته». أمَّا تحديد الآيات السَّبع فهو ما وُرد في حديث الصحيحين عن أبي هريرة أنَّ رسول الله قال: «قال الله عزَّ وجل قسمت الصلاة نصفين بيني وبين عبدي فنصفها لي ونصفها لعبدي، ولعبدي ما سأل، يقول العبد: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين﴾ فأقول حمدني عبدي، فإذا قال العبد ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ يقول الله: أثنى عليَّ عبدي، وإذا قال العبد ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾، قال الله مجدني عبدي، وإذا قال ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْن﴾، قال الله: هذا بيني وبين عبدي، وإذا قال ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيْم صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم وَلَا الضَّالِّيْن﴾ قال الله هؤلاء لعبدي ولعبدي ما سأل»1] سبب اختلاف عد الآيات هو أن أهل مكة والكوفة يعدون البسملة آية من الفاتحة وقالوا إن قوله ﴿صِراط الَّذِين أنعمتَ عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين﴾ هي آية تامة، وذهب إلى ذلك الشافعية. أمَّا أهل المدينة والبصرة والشام فلم يعدوا البسملة آية من الفاتحة، وقالوا: إن قوله ﴿صراط الَّذِين أَنعمتَ عليهم …﴾ آية، وقوله ﴿غير المغضوبِ عليهِم ولا الضالِّين …﴾ آية أخرى، وذهب إلى ذلك الأحناف. ذكر ابن قدامة في المغني، والنووي في المجموع، وابن حزم في المحلى أن الشافعي وابن المبارك وأحمد في رواية عنه جعلوها البسملة آية مستقلة في الفاتحة، ولا تصح الصلاة دونها، ورجح هذا المذهب النووي وابن حزم. ومن أوضح حجج هذا المذهب حديث الدارقطني والبيهقي: إذا قرأتم ﴿الحمد لله …﴾، فاقرؤوا ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾، إنها أم الكتاب والسبع المثاني، ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ إحدى آياتها. ذهب أبو حنيفة ومالك وأحمد في رواية ذكرها ابن قدامة في المغني إلى أن البسملة ليست آية مستقلة في الفاتحة، ومن أوضح ما احتجوا به ما أخرجه مالك في الموطأ مسلم في الصحيح عن أبي هريرة قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول قال الله تبارك وتعالى: قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين، فنصفها لي ونصفها لعبدي ولعبدي ما سأل، قال رسول الله ﷺ: اقرأوا يقول العبد ﴿الحمد للّهِ رب العَالمين﴾، يقول اللّهُ عز وجل: حمدني عبدي. محل الاستشهاد أنه بدأ الفاتحة بـ ﴿الحمد لله رب العالمين﴾، ولم يذكر البسملة، ويضاف إلى ذلك ما استفاض من عدم جهر الرسول وخلفائه بها في الصلاة، فقد روى أنس بن مالك قال: صليت خلف النبي ﷺ، وأبي بكر وعمر وعثمَان، فكانوا يستفتحون بـ ﴿الحَمد لله رب العالمين﴾، لاَ يذكرون ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ في أول قراءة ولا في آخرها. وعليه أصبحت مسألة البسملة في الفاتحة وما يترتب على تركها من المسائل الخلافية.[21 كما يرجع اختلاف العلماء في العد إلى ما حفظوه وتلقوه عن الصحابة عن النبي، يقول فضل عباس: «كان الرسول ﷺ يقف في قراءته غالبًا عند رؤوس الآي، وكان الصحابة رضي الله عنهم يتعلمون منه، وبهذا عرفوا رؤوس الآي، ولكنه ﷺ كان يقف أحيانًا على غير رأس الآي لبيان الجواز، فيحسب بعض الصحابة ممن لم يسمعوا النبي ﷺ وقف على رأس الآية سابقًا أن هذه الكلمة التي وقف عليها النبي ﷺ هي رأس الآي، هذا هو السبب الرئيس، وهناك سبب آخر أشار إليه الزركشي في البرهان، وهو اختلاف العلماء في عد ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ حيث اختلفوا فيها أهي آية أم ليست آية. وهذا السبب لا يعم كل ما وقع فيه خلاف». أما الحسن البصري فقد عد البسملة آية وعد أنعمت عليهم آية فصارت بذلك ثمان آيات.2] زمن النزول: اختلف العلماء في ذكر زمن نزول سورة الفاتحة، فقال أكثر العلماء إنها سورة مكية، وقال بعض العلماء منهم ومجاهد والزهري وغيرهم إنها سورة مدنية، وقيل إن نصفها نزل بمكة ونصفها الآخر بالمدينة، وقيل: إنها نزلت مرتين: مرة بمكة حين فرضت الصلاة، ومرة بالمدينة حين حولت القبلة فصارت مكية مدنية. الأقول5] مكية: وهو قول أكثر العلماء. روى الثعلبي بإسناده عن علي بن أبي طالب أنه قال: «نزلت فاتحة الكتاب بمكة من كنز تحت العرش». قال الثعلبي: «وعليه أكثر العلماء»، وروي أيضًا عن عمرو بن شرحبيل أنه قال: «أول ما نزل من القرآن: ﴿الحمد للَّهِ رب العالمين …﴾، وذلك أن رسول الله ﷺ أسر إلى خديجة فقال: لقد خشيت أن يكون خالطني شيء، فقالت: وما ذاك، قال: إني إذا خلوت سمعت النداء باقرأ، ثم ذهب إلى ورقة بن نوفل وسأله عن تلك الواقعة فقال له ورقة: إذا أتاك النداء فاثبت له، فأتاه جبريل عليه السلام وقال له: قل: ﴿بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين﴾». وفي رواية ابن عباس قال: «قام رسول الله ﷺ فقال: ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ فقالت قريش: دق الله فاك». وأخرج أبو نعيم الأصبهاني في دلائل النبوة عن رجل من بني سلمة قال: «لما أسلمت فتيان بني سلمة وأسلم ولد عمرو بن الجموح قالت امرأة عمرو له: هل لك أن تسمع من أبيك ما روي عنه، فسأله فقرأ عليه ﴿الحمد لله رب العالمين﴾، وكان ذلك قبل الهجرة». وأخرج أبو بكر بن الأنباري في المصاحف عن عبادة قال: «فاتحة الكتاب نزلت بمكة». مدنية: روى الثعلبي بإسناده عن مجاهد بن جبر أنه قال: «فاتحة الكتاب أنزلت بالمدينة». قال الحسين بن الفضل: «لكل عالم هفوة وهذه هفوة مجاهد، لأن العلماء على خلافه، ويدل عليه وجهان: الأول: أن سورة الحجر مكية بالاتفاق،[26] ومنها قوله تعالى: ولقد آتيناك سبعا من المثاني، وهي فاتحة الكتاب، وهذا يدل على أنه تعالى آتاه هذه السورة فيما تقدم، الثاني: أنه يبعد أن يقال إنه أقام بمكة بضع عشرة سنة بلا فاتحة الكتاب». روى أبو هريرة أن الرسول قال: «والذي نفسي بيده ما أنزل الله في التوراة ولا في الإنجيل ولا في الزبور ولا في الفرقان مثلها، إنها لهي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته». وسورة الحجر مكية بلا خلاف بين العلماء، كما أن الرسول قام بمكة بضع عشرة سنة فكان يصلي صلاته بفاتحة الكتاب. مكية مدنية: قال بعض العلماء هذه السورة نزلت بمكة مرة، وبالمدينة مرة أخرى، فهي مكية مدنية، ولهذا السبب سماها الله بالمثاني، لأنه ثنَّى إنزالها، وإنما كان كذلك مبالغة في تشريفها. فيما يخص تناول العلماء لسبب نزول السورة، فقد أورد بعضهم ومنهم الواحدي وابن أبي شيبة والبيهقي أن للسورة سبب نزول حيث أوردوا في كتبهم أن سبب نزول سورة الفاتحة ما روي عن أبي ميسرة: «أن رسول الله ﷺ كان إذا برز سمع مناديًا يناديه يا محمد فإذا سمع الصوت انطلق هاربًا فقال له ورقة بن نوفل: إذا سمعت النداء فاثبت حتى تسمع ما يقول لك قال: فلما برز سمع النداء يا محمد فقال: لبيك قال: قل أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدًا رسول الله، ثم قال: قل ﴿الحمد لله رب العالمين الرحمن الرحيم مالك يوم الدين …﴾ حتى فرغ من فاتحة الكتاب». يرى العلماء أن ما أورده الواحدي وغيره إنما هو خبر السورة وليس سبب نزولها، فالصحيح أن الحديث خبر وليس سبب نزول.] نزلت سورة الفاتحة قبل الهجرة من مكة على رأي أكثر العلماء، وقال كثير منهم إنها أول سورة نزلت، قال ابن عاشور: «والصحيح أنه نزل قبلها ﴿اقرأ باسم ربك …﴾ وسورة المدثر ثم الفاتحة، وقيل نزل قبلها أيضا سورة ﴿ن والقلم …﴾ وسورة المزمل، وقال بعضهم هي أول سورة نزلت كاملة أي غير منجمة، بخلاف سورة القلم، وقد حقق بعض العلماء أنها نزلت عند فرض الصلاة فقرأ المسلمون بها في الصلاة عند فرضها، وقد عدت في رواية عن جابر بن زيد السورة الخامسة في ترتيب نزول السور. وأيا ما كان فإنها قد سماها النبي ﷺ فاتحة الكتاب وأمر بأن تكون أول القرآن. قال ابن عاشور: ولا يناكد ذلك نزولها بعد سور أخرى لمصلحة اقتضت سبقها قبل أن يتجمع من القرآن مقدار يصير به كتابًا، فحين تجمع ذلك أنزلت الفاتحة لتكون ديباجة الكتاب وأغراضها قد علمت من بيان وجه تسميتها أم القرآن».[11] أنزل الله سورة الفاتحة في مرحلة كان عدد المسلمين يقارب أربعين رجلًا وامرأة، معظمهم من الفقراء والأرقاء والمستضعفين، وقد كانت مكة مليئة بالعقائد الباطلة، والتصورات المنحرفة، والعادات السيئة من شرك بالله وعبادة الأصنام والتماثيل، وإنكار البعث، وانتشار الزنا وشرب الخمر والقتل وغير ذلك، فنزلت سورة الفاتحة وأمثالها لتعالج أصحاب العقائد الباطلة، وتصحح تصوراتهم ومعتقداتهم، ولتغرس في نفوس المسلمين العقيدة السليمة، والأخلاق الحسنة، والتربية السليمة، وكانت الآيات وقطع السور التي تنزل في ذاك الزمان آيات قصيرة، ذات فواصل رائعة، وإيقاعات هادئة.] اشتملت السورة على أغراض عدة، تحدث عنها بعض المفسرين وهي: حمد الله تعالى وتمجيده، والثناء عليه بذكر أسمائه الحسنى المستلزمة لصفاته العليّة، وتنزيهه عن جميع النقائص، وإثبات البعث والجزاء، وإفراده بالعبادة والاستعانة، والتوجه إليه بطلب الهداية إلى الصراط المستقيم، والتضرع إليه بتثبيتهم على الصراط المستقيم، والإخبار عن قصص الأمم السابقين، وقد اشتملت على الترغيب في الأعمال الصالحة كما تُذكِّر السورة بأساسيات الدين: شكر نعم الله في قوله ﴿الحمد لله﴾، والإخلاص لله في قوله ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾، والصحبة الصالحة في قوله ﴿صراط الذين أنعمت عليهم﴾، وتذكر أسماء الله الحسنى وصفاته في قوله ﴿الرحمن الرحيم﴾، والاستقامة في قوله ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾، الآخرة في قوله ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾، بالإضافة لأهمية الدعاء في قوله (نعبد، نستعين.6] قال البقاعي: «إن سورة الفاتحة جامعة لجميع ما في القرآن، فالآيات الثلاث الأُول شاملة لكل معنى تضمنته الأسماء الحسنى والصفات العلى، فكل ما في القرآن من ذلك فهو مفصل من جوامعها، والآيات الثلاث الأُخر من قوله: ﴿اهدنا﴾ شاملة لكل ما يحيط بأمر الخلق في الوصول إلى الله، والتحيز إلى رحمته، والانقطاع دون ذلك، فكل ما في القرآن فمن تفصيل جوامع هذه، وكل ما يكون وصلة بين ما ظاهره من الخلق ومبدؤه وقيامه من الحق فمفصل من آية إياك نعبد وإياك نستعين». ذكر ابن القيم أن السورة اشتملت على الرد على جميع طوائف أهل البدع والضلال، كما بينت منازل السائرين، ومقامات العارفين، وبيان أنه لا يقوم غير هذه السورة مقامها، ولا يسد مسدها، ولذلك لم ينزل في التوراة، ولا في الإنجيل مثلها. كما قال عبد الرحمن بن ناصر السعدي: «وهذه السورة على إيجازها احتوت على ما لم تحتوِ عليه سورة من سور القرآن، فقد تضمنت أنواع التوحيد الثلاثة: توحيد الربوبية، يؤخذ من قوله: ﴿رب العالمين﴾. وتوحيد الإلهية، وهو إفراد الله بالعبادة، يؤخذ من لفظ: اللَّه، ومن قوله: ﴿إياك نعبد﴾. وتوحيد الأسماء والصفات، وهو إثبات صفات الكمال لله تعالى، التي أثبتها لنفسه، وأثبتها له رسوله ﷺ من غير تعطيل، ولا تمثيل، ولا تشبيه، وقد دل على ذلك لفظ ﴿الحمد﴾. وإثبات الجزاء على الأعمال في قوله: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾، وأن الجزاء يكون بالعدل، وتضمنت إخلاص الدين لله تعالى، عبادة واستعانة في قوله: ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾. وتضمنت إثبات النبوة في قوله: ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾؛ لأن ذلك ممتنع بدون الرسالة. وتضمنت إثبات القدر، وأن العبد فاعل حقيقة. وتضمنت الرد على جميع أهل البدع والضلال في قوله: ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾». يقول سيد قطب: «إن في هذه السورة من كليات العقيدة الإسلامية، وكليات التصور الإسلامي، وكليات المشاعر والتوجيهات، ما يشير إلى طرف من حكمة اختيارها للتكرار في كل ركعة، وحكمة بطلان كل صلاة لا تُذكر فيها.3] تفسير السورة تفسير الفاتحة الكبير المسمى بالبحر المديد للإمام أحمد بن عجيبة. في الآية أن الله أدب نبيه بتعليمه تقديم أسمائه الحسنى أما جميع أفعاله، وجعل ذلك لجميع خلقه سنة يستنون بها، في افتتاح أوائل منطقهم وصدور رسائلهم وكتبهم وحاجاتهم. قوله: ﴿بسم الله﴾، أي اقرأ بذكر الله ربك وقم واقعد بذكر الله، ومعناه أن ابدأ بتسمية الله وذكره قبل كل شيء. وتفسيرها في الآية أن اقرأ بتسمية الله وذكره، وافتتح القراءة بتسمية الله بأسمائه الحسنى وصفاته العلى. أما قوله ﴿الرحمن الرحيم﴾، فالرحمن هو فعلان من رحم، وأما الرحيم ففعيل منه، فإن قيل الرحمن والرحيم فهما اسمين مُشتقين من الرحمة. قال العرزمي: «الرحمن بجميع الخلق، والرحيم بالمؤمنين». وقال عبد الله بن عباس: «﴿الرحمن الرحيم﴾ الرقيق الرفيق بمن أحب أن يرحمه، والبعيد الشديد على من أحب أن يعنف عليه، وكذلك أسماؤه كلها». في السورة بدأ الله بتقديم اسمه الذي هو الله، لأن الألوهية ليست لغيره، ثم ثنى باسمه الذي هو الرحمن، حيث يصح لمن هو دون الله من خلقه التسمي ببعض صفات الرحمة، أما اسمه الذي هو الرحيم فهو جائز وصفه لغيره.[31] الحمد لله رب العالمين عدل المقالة الرئيسة: الحمد لله رب العالمين الحمد لله هو الشكر الخالص لله دون سائر ما يُعبد من دونه، بما أنعم على عباده من النعم التي لا يحصيها العدد ولا يحيط بعددها غيره. وقيل إن قول القائل ﴿الحمد لله﴾، هو ثناء عليه بأسمائه وصفاته الحسنى، وقوله الشكر لله ثناء عليه بنعمه وأياديه. ومعنى ﴿الحمد لله﴾ هو أن الله حمد نفسه وأثنى عليها بما هو له أهل، ثم علم ذلك عباده وفرض عليهم تلاوته. أما قوله ﴿رب﴾، فالرب في كلام العرب منصرف على معاني، فالسيد المطاع فيهم يدعى ربًا، فالله السيد الذي لا شبيه له ولا مثل في مثل سؤدده، والمصلح أمر خلقه بما أسبغ عليهم من نعمه. وقوله: ﴿رب العالمين﴾، قال ابن عباس في تفسير ﴿الحمد لله رب العالمين﴾: «الحمد لله الذي له الخلق كله، السموات كلهن ومن فيهن، والأرضون كلهن ومن فيهن، وما بينهما مما يعلم ومما لا يعلم». أما العالمين، فهو جمع عالم، والعالم جمع لا واحد له من لفظه، والعالم اسم لأصناف الأمم، كل صنف منها عالم. والقصد أن الحمد لله الذي له الخلق مما يعلم ومما لا يعلم. وقيل أن المقصود برب العالمين هو رب الجن والإنس.[32] الرحمن الرحيم عدل تفسير ﴿الرحمن الرحيم﴾ هو ما كان في تفسير قول الله: ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾. مالك يوم الدين عدل اختلف القراء في تلاوة ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾، فبعضهم يتلوها: مَلِكِ يوم الدين، وبعضهم يتلوها: مالك يوم الدين، وبعضهم يتلوها: مالكَ يوم الدين بنصب الكاف. فتأويل من قرأ: مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ، أن لله الملك خالصًا يوم الدين دون جميع خلقه الذين كانوا قبل ذلك في الدنيا ملوكًا جبابرة ينازعونه الملك، وأن له من دونهم ودون غيرهم الملك والكبرياء والعزة والبهاء. أما تأويل من قرأ: مالك يوم الدين، فقد قال ابن عباس: «لا يملك أحد في ذلك اليوم معه حكمًا كملكهم في الدنيا». وعموم المعنى أنه مالك جميع العالمين، وسيدهم ومصلحهم والناظر لهم والرحيم بهم في الدنيا والآخرة. قال الطبري وأولى القراءتين بالصواب قراءة من قرأه: مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ، بمعنى إخلاص الملك له يوم الدين، دون قراءة من قرأ: مالك يوم الدين، بمعنى أنه يملك الحكم بينهم وفصل القضاء متفردًا به دون سائر خلقه. أما قوله: ﴿يوم الدين﴾، فالدين هو بتأويل الحساب والمجازاة بالأعمال، قال ابن عباس: «يوم حساب الخلائق، هو يوم القيامة، يدينهم بأعمالهم إن خيرًا فخير، وإن شرًا فشر، وإلا من عفا عنه فالأمر أمره». ويقول عبد الملك بن عبد العزيز بن جريج: «يوم يدان الناس بالحساب».[33] إياك نعبد وإياك نستعين عدل أي لك نخشع ونذل ونستكين، إقرارًا لك يا ربنا بالربوبية لا لغيرك. عن ابن عباس قال: «قال جبريل لمحمد قل يا محمد: ﴿إياك نعبد﴾: إياك نوحد ونخاف ونرجو يا ربنا لا غيرك». يقول الطبري: «وإنما اخترنا نخشع ونذل ونستكين دون بيان أنه بمعنى نرجو ونخاف، وإن كان الرجاء والخوف لا يكونان إلا مع الذلة، لأن العبودية عند جميع العرب أصلها الذلة وأنها تسمى الطريق المذلل الذي قد وطئته الأقدام وذللته السابلة معبدًا». أما معنى قوله ﴿إياك نستعين﴾: أي إياك يا ربنا نستعين على عبادتنا إياك وطاعتنا في أمورنا كلها، لا أحد سواك، إذ كان من يكفر بك يستعين في أموره معبوده الذي بعبده من الأوثان دونك، فنحن بك نستعين في جميع أمورنا مخلصين لك العبادة. قال ابن عباس: «﴿إياك نستعين﴾ على طاعتك وعلى أمورنا كلها».[34] اهدنا الصراط المستقيم عدل قال ابن عباس: «قال جبريل لمحمد: ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾: ألهمنا الطريق الهادي». وإلهامه إياه هو توفيقه له». قال الطبري: «زعم البعض أن تأويل اهدنا أي زدنا هداية، وهذا لا وجه له لأن الله لا يكلف عبدًا فرضًا من فرائضه إلا بعد تبيينه له، ولو كان معنى ذلك مسألته البيان لكان قد أمر أن يدعو ربه أن يبين له ما فرض عليه». أما قوله: اهدنا، فهي هي مسألته الثبات على الهدى فيما بقي من عمره. أما قوله ﴿الصراط المستقيم﴾: فقد أجمعت أهل الحجة من أهل التأويل جميعًا على أن الصراط المستقيم هو الطريق الواضح الذي لا اعوجاج فيه، وقد اختلف تراجمة القرآن في معنى الصراط المستقيم، فعلي بن أبي طالب يقول: «القرآن هو الصراط المستقيم». أما جابر بن عبد الله فقال: «﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾، الإسلام هو أوسع مما بين السماء والأرض». وكذلك قال ابن عباس، أما محمد بن الحنفية فقال: «هو دين الله الذي لا يقبل من العباد غيره».[35] صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين عدل إبانه عن الصراط المستقيم، أي قل يا محمد ﴿اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم﴾ بطاعتك وعبادتك من ملائكتك وأنبيائك والصديقين والشهداء والصالحين. فالذي أُمر محمد وأمته أن يسألوا ربهم من الهداية للطريق المستقيم، هي الهداية للطريق الذي وصف الله صفته. قال ابن عباس: «﴿صراط الذين أنعمت عليهم﴾ هو طريق من أنعم الله عليهم من الملائكة والنبيين والصديقين والشهداء والصالحين الذين أطاعوك وعبدوك». أما قوله ﴿أنعمت عليهم﴾ فقد وردت عدة أقوال فيمن هو المقصود بذلك، فمنهم من قال النبيون ومن قال المؤمنون وقيل المسلمون، وقيل النبي ومن معه. أما قوله ﴿غير المغضوب عليهم﴾، ففيه أن من أنعم الله عليه فهداه لدينه الحق فقد سلم من غضب ربه ونجا من الضلال في دينه. أما المغضوب عليهم فقد روى عدي بن حاتم عن الرسول أن المغضوب عليهم اليهود، وكذلك قال ابن عباس: «يعني اليهود الذين غضب الله عليهم». أما تأويل الغضب، فقال بعضهم: غضب الله على من غضب عليه من عباده ذم منه لهم ولأفعالهم وشتم منه لهم بالقول. أما قوله: ﴿ولا الضالين﴾: أي النصارى، وسمَّى الله ذكره النصارى ضلالًا لخطئهم في الحق منهج السبيل، وأخذهم من الدين في غير الطريق المستقيم. وتأويل الآية ﴿اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم لا المغضوب عليهم ولا الضالين﴾.[36] نحوية عامة. 5 7 غيرِ غيرِ. غيرِ. غيرَ. الإعراب: على البدال من الذين، ويمكن جعله صفة لـ الذين، أي أنهم جمعوا بين النعمة المطلقة وبين السلامة من غضب الله والضلال. الإعراب: على البدال من العاء والميم في عليهم، أي: أن المُنعم عليهم هم الذين سلموا من الغضب والضلال. الإعراب: تأتي على الحال من الذين، وعلى الهاء والميم من عليهم، أي: أنعمت عليهم لا مغضوبًا عليهم. أو تأتي على الاستثناء، أي: إلا المغضوب عليهم دلالة نحوية عامة. دلالة نحوية خاصة. دلالة نحوية خاصة. 6 7 ﴿ولا الضالين﴾ ولا الضالين. غير الضالين. الإعراب: لتأكيد معنى النفي، أي: لا المغضوب عليهم ولا الضالين. الإعراب: للتأكيد، أي: أن المغضوب عليهم هم غير الضالين. دلالة نحوية عامة. علم المناسبات عدل المناسبة في اللغة: هي المقاربة والمشاكلة. وتعرف اصطلاحًا بأنها: علم تعرف به وجوه ارتباط أجزاء القرآن بعضها ببعض، وقول أجزاء القرآن شامل للآية مع الآية، والحكم مع الحكم، والسورة مع السورة، والقصة مع القصة، وكل جزء من القرآن مع ما قارنه.[46] علم المناسبات نبه إلى أهميته عدد من العلماء من أبرزهم الفخر الرازي حيث قال: «أكثر لطائف القرآن مودعة في الترتيبات والروابط». وقال السيوطي: «علم المناسبة علم شريف قل اعتناء المفسرين به لدقته». وقال البقاعي: «وهو سر البلاغة، لأدائه إلى تحقيق مطابقة المعاني لما اقتضاه من الحال، وتتوقف الإجازة فيه على معرفة مقصود السورة المطلوب ذلك فيها، ويفيد ذلك في معرفة المقصود من جميع جملها، فلذلك كان هذا العلم في غاية النفاسة، وكانت نسبته من علم التفسير كنسبة علم البيان من النحو». من أبرز من اعتنى بعلم المناسبة من العلماء: ابن المنذر النيسابوري، وفخر الدين الرازي، وأبو الحسن الحرالي المغربي، وأبو جعفر أحمد بن إبراهيم بن الزبير الغرناطي، وقد ألف في ذلك كتاب البرهان في ترتيب سور القرآن، والبقاعي حيث ألف كتابه نظم الدرر في تناسب الآيات والسور. وابن النقيب الحنفي، والسيوطي في كتابه تناسق الدرر في تناسب السور، وكتاب أسرار التنزيل. وقد عارض عدد من العلماء البحث عن المناسبات، وقالوا بأنه علم متكلف، ولا يطلب للآية الكريمة مناسبة لكونها نزلت متفرقة على حسب الوقائع والأحداث. ومنهم: ولي الدين الملوي، والعز بن عبد السلام، والشوكاني الذي قال: «اعلم أن كثيراً من المفسرين جاءوا بعلم متكلف، وخاضوا في بحر لم يكلفوا سباحته، واستغرقوا أوقاتهم في فن لا يعود عليهم بفائدة، بل أوقعوا أنفسهم في التكلم بمحض الرأي المنهي عنه في الأمور المتعلقة بكتاب الله سبحانه، وذلك أنهم أرادوا أن يذكروا المناسبة بين الآيات القرآنية المسرودة على هذا الترتيب الموجود في المصاحف فجاءوا بتكلفات وتعسفات يتبرأ منها الإنصاف، ويتنزه عنها كلام البلغاء فضلاً عن كلام الرب سبحانه، حتى أفردوا ذلك بالتصنيف، وجعلوه المقصد الأهم من التأليف، كما فعله البقاعي في تفسيره».[47] مناسبات السورة مناسبة آيات سورة الفاتحة لبعضها: مطلعها الحمد والثناء والتعظيم لله، وهو دعاء التعظيم والتمجيد، ومقطعها دعاء المسألة والطلب قوله: ﴿اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين﴾. فأولها وسيلة لمقطعها، وقد روى أبو هريرة أن رسول الله قال: «مَن صَلَّى صَلاةً لَمْ يَقْرَأْ فيها بأُمِّ القُرْآنِ فَهي خِداجٌ ثَلاثًا غَيْرُ تَمامٍ. فقِيلَ لأَبِي هُرَيْرَةَ: إنَّا نَكُونُ وراءَ الإمامِ؟ فقالَ: اقْرَأْ بها في نَفْسِكَ؛ فإنِّي سَمِعْتُ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يقولُ: قالَ اللَّهُ تَعالَى: قَسَمْتُ الصَّلاةَ بَيْنِي وبيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، ولِعَبْدِي ما سَأَلَ، فإذا قالَ العَبْدُ: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العالَمِينَ﴾، قالَ اللَّهُ تَعالَى: حَمِدَنِي عَبْدِي، وإذا قالَ:﴿الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾، قالَ اللَّهُ تَعالَى: أثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، وإذا قالَ: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾، قالَ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، وقالَ مَرَّةً فَوَّضَ إلَيَّ عَبْدِي، فإذا قالَ: ﴿إيَّاكَ نَعْبُدُ وإيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾، قالَ: هذا بَيْنِي وبيْنَ عَبْدِي، ولِعَبْدِي ما سَأَلَ، فإذا قالَ: ﴿اهْدِنا الصِّراطَ المُسْتَقِيمَ صِراطَ الَّذينَ أنْعَمْتَ عليهم غيرِ المَغْضُوبِ عليهم ولا الضَّالِّينَ﴾، قالَ: هذا لِعَبْدِي ولِعَبْدِي ما سَأَلَ.[8][48]» قال ابن القيم: «وَلَمَّا كَانَ سُؤَالُ اللَّهِ الْهِدَايَةَ إِلَى الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ أَجَلَّ الْمَطَالِبِ، وَنَيْلُهُ أَشْرَفَ الْمَوَاهِبِ: عَلَّمَ اللَّهُ عِبَادَهُ كَيْفِيَّةَ سُؤَالِهِ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْهِ حَمْدَهُ وَالثَّنَاءَ عَلَيْهِ، وَتَمْجِيدَهُ، ثُمَّ ذَكَرَ عُبُودِيَّتَهُمْ وَتَوْحِيدَهُمْ، فَهَاتَانِ وَسِيلَتَانِ إِلَى مَطْلُوبِهِمْ، تَوَسُّلٌ إِلَيْهِ بِأَسْمَائِهِ وَصِفَاتِهِ، وَتَوَسُّلٌ إِلَيْهِ بِعُبُودِيَّتِهِ، وَهَاتَانِ الْوَسِيلَتَانِ لَا يَكَادُ يُرَدُّ مَعَهُمَا الدُّعَاءُ».[49] وقد افتتح الله القرآن بهذه السورة لأنها جمعت مقاصد القرآن. قال فخر الدين الرازي: «المقصود من القرآن كله تقرير أمور أربعة: الإلهيات والمعاد والنبوات وإثبات القضاء والقدر، فقوله: ﴿الحمد لله رب العالمين﴾ يدل على الإلهيات، وقوله: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾ يدل على نفي الجبر وعلى إثبات أن الكل بقضاء الله وقدره، وقوله: ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾ يدل على إثبات قضاء الله وعلى النبوات، فقد اشتملت هذه السورة على المطالب الأربعة، التي هي المقصد الأعظم من القران». ويقول أبو حامد الغزالي: «مقاصد القرآن ستة، ثلاثة مهمة وثلاثة تتمة. الأولى: تعريف المدعو عليه، كما أشير إليه بصدرها، وتعريف الصراط المستقيم، وقد صرح به فيها، وتعريف الحال عند الرجوع إليه تعالى، وهو الآخرة، كما أشير إليه بقوله: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾. والأخرى: تعريف أحوال المطيعين كما أشار بقوله: ﴿الذين أنعمت عليهم﴾، وتعريف منازل الطريق كما أشير إليه بقوله: ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾».[50] أما مناسبة بداية سورة البقرة لخاتمتها سورة الفاتحة، ففيها قول الله في أواخر الفاتحة ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾، وقوله في بداية البقرة ﴿ذلك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين﴾ دلالة على أن الهداية التي طلبوها هي في كلام الله القرآن الكريم. ولما ذكر أصناف الناس الثلاثة في سورة الفاتحة: المؤمنون واليهود والنصارى، فصل الحديث عنهم في أول سورة البقرة.[51] وقد تضمنت سورة الفاتحة على الإقرار بالربوبية والالتجاء إليها في دين الإسلام والصيانة عن دين اليهود والنصارى، وسورة البقرة تضمنت قواعد الدين، وآل عمران مكملة لمقصدها.[52] قال الألوسي في تفسيره: «ووجه مناسبتها لسورة الفاتحة أن الفاتحة مشتملة على بيان الربوبية أولا، والعبودية ثانيا، وطلب الهداية في المقاصد الدينية والمطالب اليقينية ثالثًا، وكذا سورة البقرة مشتملة على بيان معرفة الرب أولا كما في يؤمنون بالغيب وأمثاله، وعلى العبادات وما يتعلق بها ثانيا، وعلى طلب ما يحتاج إليه في العاجل والآجل آخرا، وأيضا في آخر الفاتحة طلب الهداية وفي أول البقرة إيماء إلى ذلك بقوله: هدى للمتقين، ولما افتتح سبحانه الفاتحة بالأمر الظاهر وكان وراء كل ظاهر باطن افتتح هذه السورة بما بطن سره وخفي إلا على من شاء الله تعالى أمره».[53] للسورة مناسبة وثيقة بينها وبين آخر سور القرآن سورة الناس، فالله ذكر في بداية القرآن وفي مطلع سورة الفاتحة آيات الأولوهية والربوبية والملك، وختم القرآن بسورة الناس وضمنها بآيات الأولوهية والربوبية والملك، ففي الفاتحة ذكر الألوهية بقوله: ﴿الحمد لله﴾، والربوبية: ﴿رب العالمين﴾، والملك: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾. وفي سورة الناس ذكر الألوهية بقوله: ﴿إله الناس﴾، والربوبية: ﴿رب الناس﴾، والملك: ﴿ملك الناس﴾.[54] الاستعاذة عدل وصيغتها: أعوذ بالله من الشيطان الرجيم. ومشروعيتها دلت عليه آية من آيات القران: Ra bracket.png فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ Aya-98.png La bracket.png. وقد رُوي أن سليمان بن صرد قال: «كنت جالسا مع النبي ﷺ ورجلان يستبان فأحدهما احمر وجهه وانتفخت أوداجه، فقال النبي ﷺ: إني لأعلم كلمة لو قالها ذهب عنه ما يجد، لو قال: أعوذ بالله من الشيطان الرجيم ذهب عنه ما يجد، فقالوا: له إن النبي ﷺ، قال: تعوذ بالله من الشيطان، فقال: وهل بي جنون». وهذه الصياغة هي المختارة عند أكثر القراء والسلف، ومنهم: عمر بن الخطاب وعبد الله بن عمر والشافعي وأبو حنيفة النعمان وأحمد بن حنبل. أما الصيغة الأخرى الأقل شهرة من الأولى فهي: أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم. وهي ما جاءت عن أبي سعيد الخدري عن النبي: «أنه كان إذا قام إلى الصلاة استفتح ثم يقول: أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه»، وهذه الصيغة اختيار الحسن البصري ومحمد بن سيرين وطائفة من القراء. وقد عد العلماء ست صيغ للاستعاذة.[55] أجمع العلماء على أن الاستعاذة ليست بقرآن، وإنما تكون قبل التلاوة،[56] قال ابن تيمية: «لكن الاستعاذة ليست بقرآن، ولم تكتب في المصاحف، وإنما فيه الأمر بالاستعاذة، وهذ قرآن». إجمالًا أجمع جمهور العلماء على أنها مستحبة عند تلاوة القرآن وقبل الفاتحة في الصلاة وليست بمتحتمة يأثم تاركها،[57] وهي مستحبة عند التداوي بالقراءة، وفي أول كل ركعة، وقيل: إنما تستحب عند الركعة الأولى، ويستحب التعوذ أيضًا في التكبيرة الأولى من صلاة الجنازة.[58] أما تفصيلًا فقد اختلف العلماء في حكم الاستعاذة عند القراءة، فذهب البعض إلى أنها واجبة في الصلاة وخارجها، وهذا قول عطاء بن أبي رباح وابن حزم، واستدلوا بقول الله: فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم. أما الجمهور من الصحابة والتابعين ومن بعدهم قالوا أن الاستعاذة مستحبة قبل كل قراءة للقرآن، سواء كان في الصلاة أو خارجها، وهذا رأي عبد الله بن عمر وأبي هريرة والحسن البصري وابن سيرين وأبي حنيفة وأحمد بن حنبل.[59] لفظُ البسملة. أجمع العلماء على أن البسملة جزء من آية من سورة النمل في قوله تعالى: Ra bracket.png إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ Aya-30.png La bracket.png،[60] ولكنهم اختلفوا في هل هي آية من الفاتحة، ومن أول كل سورة أم لا، على أكثر من تسعة أقوال،[61] أبرزها: قول مالك بن أنس والأوزاعي وأهل البصرة والشام والمدينة: «إن البسملة ليست بآية من الفاتحة ولا من غيرها من السور إلا في سورة النمل، وإنما كتبت للفصل والتبرك للابتداء بها». واحتجوا على ذلك بأدلة منها: عن عائشة بنت أبي بكر أن النبي: «كان يفتتح الصلاة بالتكبير والقراءة بـ ﴿الحمد لله رب العالمين﴾، وهذا يدل على أن البسملة ليست آية من الفاتحة». لو كان قوله: ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ آية من هذه السورة للزم التكرار في قوله: ﴿الرحمن الرحيم﴾، وذلك بخلاف الدليل. وغيرها من الأدلة. وقالت الشافعية ومعهم عبد الله بن المبارك وسفيان الثوري وقراء مكة والكوفة وأكثر فقهاء الحجاز وأحمد بن حنبل في رواية عنه: «إنها آية من الفاتحة ومن كل سورة إلا التوبة»،[62] واستدلوا على ذلك بأدلة منها: عن أنس بن مالك قال: «بينما رسول الله ﷺ ذات يوم بين أظهرنا إذ أغفى إغفاءة ثم رفع رأسه مبتسمًا، فقلنا: ما أضحكك يا رسول الله، قال: نزلت عليَّ آنفاً سورة.. فقرأ: ﴿بسم اللهِ الرحمن الرحيمِ﴾ Ra bracket.png إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ Aya-1.png فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ Aya-2.png إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ Aya-3.png La bracket.png». كما استدلوا بحديث أنس بن مالك أنه سئل عن قراءة رسول الله فقال: «كانت قراءته مدًا، ثم قرأ ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾، يمد بـ ﴿بسم الله﴾، ويمد بـ ﴿الرحمن﴾، ويمد بـ ﴿الرحيم﴾». وغيرها من الأدلة. وقال الأحناف: «هي آية تامة من القرآن الكريم أنزلت للفصل بين السور، وليست آية من الفاتحة ولا من غيرها». واستدلوا على ذلك بحديث ابن عباس: «إن رسول الله ﷺ كان لا يعرف فصل السورة حتى ينزل عليه ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾». وغيرها من الأدلة. وقال داود الظاهري ورواية عن أحمد بن حنبل: «هي آية تامة مستقلة في أول كل سورة لا منها ما عدا التوبة». أما كيفية قراءة البسملة في الصلاة فقد اختلف العلماء على عدة أقوال: فأبو حنيفة النعمان وأحمد بن حنبل وسفيان الثوري والأوزاعي قالوا: «على أنه لا يجهر بالبسملة في الصلاة، بل يسر بها في كل ركعة من ركعات الصلاة، وإن قرأها مع كل سورة فحسن». وقال مالك بن أنس: «لا تقرأ البسملة في الصلاة المكتوبة بالكلية لا جهرًا ولا سرًا، لا في استفتاح سورة الفاتحة، ولا في غيرها من السور، أما في النافلة فإنه يجوز أن يقرأها، فإن شاء قرأها، وإن شاء ترك قراءتها». وقال الشافعي وعبد الله بن عمر وأبو هريرة وعبد الله بن عباس: «إن المصلي يقرؤها وجوبًا في الجهر جهرًا، وفي السر سرًا، ويجب قراءتها في كل الركعات».[63][64][65] أما عن سبب تأخر البسملة عن الاستعاذة، فيقول عبد الله بصفر: «والحكمة في تأخرها عن الاستعاذة هي تقدم التخلية على التحلية، فيخلِّي القلب والعقل عن الشيطان الرجيم، ويطهر النفس من وساوس الشيطان، ثم يذكر الله تبارك وتعالى».[66] قراءة الفاتحة في الصلاة عدل في حكم قراءة سورة الفاتحة في الصلاة قال جمهور الفقهاء ومنهم الشافعي ومالك وأحمد: «إن قراءة الفاتحة تتعين في الصلاة، فمن تركها مع القدرة عليها لم تَصح صلاته»، مصداقًا لحديث أبي هريرة أن رسول الله قال: «من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج، فهي خداج، فهي خداج»، وحديث عبادة بن الصامت أنه قال: قال رسول الله ﷺ: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب». وقال الأحناف وسفيان الثوري والأوزاعي: «إن قراءة الفاتحة لا تتعين في الصلاة، بل مهما قرأ به من القرآن أجزأه في الصلاة مع الإساءة، ولا تبطل صلاته»، واحتجوا على ذلك بحديث أبي هريرة بأن الرسول قال للمسيء في صلاته: «إذا قمت إلى الصلاة فكبر، ثم اقرأ ما تيسر معك من القرآن». أما ما يتعلق بحكم قراءة الفاتحة على المأموم خلف الإمام، فاختلف الفقهاء في هذه المسألة على ثلاثة أقوال، قال الشافعي: «تجب قراءة الفاتحة على المأموم خلف الإمام سواء أَسر الإمام بالقراءة أم جهر بها». واستدل بحديث الأعرابي الذي علمه الرسول أعمال الصلاة فقال: «ثم اقرأ بما تيسر معك من القرآن». وقالت المالكية والحنابلة وعبد الله بن المبارك: «تجب قراءة الفاتحة على المأموم إذا أسر الإمام، ولا تجب إذا جهر». واستدلوا على أن القراءة لا تجب في الصلاة الجهرية بحديث أبي موسى الأشعري قال: قال رسول الله ﷺ: «إنما جُعِل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا». وقالت الحنفية: «لا تجب على المأموم قراءة الفاتحة، ولا غيرها، لا في الصلاة الجهرية ولا في السرية، بل تكره القراءة خلف الإمام بكل حالة»، واستدلوا بحديث جابر بن عبد الله عن النبي أنه قال: «من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة».[67] وفي حكم قراءة الفاتحة في كل ركعة في الصلاة، فأيضًا اختلف الفقهاء في المسألة على عدة آراء: قال الشافعي وأحمد وقول لمالك: «إن قراءة الفاتحة تتعين في كل ركعة، فإن تركها في ركعة بطلت صلاته»، وهذا الرأي قال به أبو بكر الصديق وعمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد الله بن مسعود، واستدلوا على أن الرسول كان يقرأ في كل الركعات فيجب أن يُقتدى به. وقول آخر لمالك: «إنه تتعين قراءة الفاتحة في معظم الركعات، ولا تتعين في جميعها، فإن كانت الصلاة أربع ركعات كَفت القراءة في ثلاث ركعات، وإن كانت مغربًا كفت في ركعتين، وإن كانت صبحًا وجبت القراءة فيهما معًا». قال الحسن البصري: «إنما تتعين قراءتها في ركعة واحدة من الصلوات، فإذا قرأها مرة واحدة في الصلاة أجزأه، ولم تكن عليه إعادة أجزأه». قال أبو حنيفة وسفيان الثوري والأوزاعي: «لا تتعين قراءة الفاتحة أصلا، بل لو قرأ بغيرها أجزأه». أما حكم صلاة من قرأ الفاتحة بغير العربية، فقال جمهور العلماء من المالكية والشافعية والحنابلة: «أنها لا تجزئ صلاة من قرأ الفاتحة أو غيرها بغير العربية، ولا الإبدال بلفظها لفظًا عربيًا آخر سواء أحسن قراءتها بالعربية أو عجز عن قراءتها». وروي عن أبو حنيفة أنه قال: «تجزئه القراءة بغير العربية وإن أحسن العربية لأن المقصود إصابة المعنى».[68 وهي أن يقول عند انتهائه من تلاوة الفاتحة بعد ولا الضالين: آمين. قال أكثر الفقهاء: «إنه يسن للمصلي إمامًا أو مأمومًا أو منفردًا أن يقول آمين بعد الانتهاء من الفاتحة»،[70] وقال القرطبي في تفسيره: «ويسن لقارئ القرآن أن يقول بعد الفراغ من الفاتحة بعد سكتة على نون ﴿ولا الضالين﴾: آمين، ليتميز ما هو قرآن مما ليس بقرآن».[71] ودليلهم ما رواه أبو هريرة أن رسول الله قال: «إذا أمن الإمام فأمنوا، فإنه من وافق تأمينُه تأمين الملائكة، غفر له ما تقدم من ذنبه». وما رواه أيضًا: «كان رسول الله إذا تلا: ﴿غير المغضوب عليهم ولا الضالين﴾، قال: آمين حتى يسمع من يليه من الصف الأول».[72] وقالت المالكية: «لا يؤمن الإمام، ويؤمن المأموم»، واستدلوا بحديث أبي هريرة أن رسول الله قال: «وإذا قال ﴿ولا الضالين﴾ فقولوا آمين». وقال ابن كثير: «قال أصحابنا يستحب التأمين لمن هو خارج الصلاة، ويتأكد في حق المصلي، سواء كان منفردًا أو إمامًا أو مأمومًا وفي جميع الأحوال». وفي كيفية التأمين بعد الفاتحة، قال الأحناف والمالكية: «يقول المصلي سواء كان إمامًا أم مأمومًا أم منفردًا آمين سِرًا بعد الانتهاء من الفاتحة سواء في الصلاة الجهرية أم السرية». وقالت الشافعية والحنابلة: «يسر بها في الصلاة السرية، ويجهر بها في الصلاة الجهرية». وقال بعض الفقهاء في رواية عن القرطبي: «هو مخير بين الجهر أو السر».[73] وآمين اسم فعل، وفي معناها ثلاثة أقوال، الأول: بمعنى اللهم استجب، والثاني: بمعنى كذلك يكون، والثالث: بمعنى أنه اسم من أسماء الله تعالى، وقيل: ربِّ افعل وهو قول ابن عباس، وقال الترمذي: «لا تخيب رجانا». والقول الأول هو الأشهر والأصح في تفسير الكلمة، وهو بمعنى اللهم استجب. لفظها: آمين، وهي بالمد والتخفيف في جميع الروايات وعن جميع القراء، وفيها ثلاث ألفاظ أخرى شاذة: الأولى بالقصر: أمين، الثانية: بالتشديد مع المد: آمّين، الثالثة: التشديد مع القصر: أمِّين. أم حكم التجويد فيها فآمين الهمزة إذا جاءت في أول الكلمة ففيها مد يسمى مد البدل، ومد البدل يمد بمقدار حركتين اثنتين فقط. كلمة آمين ليست من القرآن الكريم بإجماع علماء الأمة، لأنها لم تكتب في مصحف عثمان ولا في غيره. وفي فضلها ما رواه البخاري عن النبي أنه قال: «إذا قال أحدكم آمين، وقالت الملائكة في السماء آمين، فوافقت إحداهما الأخرى، غُفِر له ما تقدم من ذنبه»، بالإضافة لما رواته عائشة بنت أبي بكر عن النبي قوله: «ما حسدتكم اليهود على شيء ما حسدتكم على السلام والتأمين». وروي عن النبي قوله: «أعطيت آمين في الصلاة، وعند الدعاء، ولم يعط أحد قبلي إلا أن يكون موسى، كان موسى يدعو وهارون يؤمن، فاختموا الدعاء بآمين فإن الله يستجيب لكم».[74][75] فضلها عدل جاءت عدد من الأحاديث الشريفة في تبيين فضل سورة الفاتحة، ومنها:[78][79][80] أنها أعظم سورة في القرآن الكريم. فقد روى البخاري عن أبي سعيد بن المعلَّى أنه قال: «كنت أصلي في المسجد، فدعاني رسول الله ﷺ فلم أجب حتى صليت، ثم أتيته فقال: ما منعك أن تأتي، فقلت يا رسول الله: إني كنت أصلي، فقال: ألم يقل الله: ﴿يا أَيها الَذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إِذا دعاكم لما يحيِيكم﴾، ثم قال: لأعلمنك سورة هي أعظم السور في القرآن قبل أن تخرج من المسجد، ثم أخذ بيدي، فلما أراد أن يخرج، قلت له يا رسول الله: ألم تقل لأعلمنك سورة هي أعظم سورة في القرآن، قال: ﴿الحمد لله رب العالمين …﴾، هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته». أنها دواء إن رقي بها، روى البخاري عن أبي سعيد الخدري قال: «كنا في مسير لنا فنزلنا فجاءت جارية فقالت: إن سيد الحي سليم، وإن نفرنا غيب فهل منكم راقٍ، فقام معها رجل ما كنا نأبنه برقية، فرقاه فبرأ فأمر له بثلاثين شاة وسقانا لبنًا فلما رجع قلنا له: أكنت تحسن رقية أو ترقي، قال: لا، ما رقيتُ إلا بأم الكتاب، قلنا: لا تحدثوا شيئًا حتى نأتي ونسأل رسول الله فلما قدمنا المدينة ذكرناه للنبي ﷺ فقال: وما كان يدريه أنها رقية، اقسموا واضربوا لي بسهم». سورة الفاتحة ركن عظيم من أركان الصلاة، فالصلاة لا تصح إذا لم تُقرأ الفاتحة فيها على الرأي الراجح عند جمهور العلماء. عن أبي هريرة عن النبي قال: «من صلى صلاةً لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج - ثلاثاً- غير تمام». عن أبي هريرة قال: سمعت رسول الله يقول: «قال الله عز وجل قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين، ولعبدي ما سأل، فإذا قال: ﴿الحمد لله رب العالمين﴾، قال الله: حمدني عبدي، وإذا قال: ﴿الرحمن الرحيم﴾ قال الله تعالى: أثنى علي عبدي، فإذا قال: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾ قال الله تعالى: مجدني عبدي، فإذا قال: ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾، قال الله تعالى: هذا بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل، فإذا قال: ﴿اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين﴾، قال الله: هذا لعبدي ولعبدي ما سأل». عن عبد الله بن عباس قال: «بينما جبريل عليه السلام قاعد عند النبي ﷺ سمع نقيضاً أي صوتاً كصوت الباب يفتح من فوقه فرفع رأسه فقال: هذا باب من السماء فتح اليوم لم يفتح قط إلا اليوم فنزل منه ملك، فقال: هذا ملك نزل إلى الأرض لم ينزل قط إلا اليوم فسلم: وقال: أبشر بنورين أوتيتهما لم يؤتهما نبي قبلك: فاتحة الكتاب، وخواتيم سورة البقرة لن تقرأ بحرف منهما إلا أعطيته». أنها أعظم ما أنزل الله على نبي، فعن أبي بن كعب أنه قرأ على النبي أم القرآن فقال رسول الله: «والذي نفسي بيده ما أنزل في التوراة ولا في الإنجيل ولا في الزبور ولا في الفرقان مثلها، هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته». أنها أخير سور القرآن، عن جابر بن عبد الله أن النبي قال: «ألا أخبرك يا جابر بن عبد الله بأخير سورة في القرآن، قلت: بلى يا رسول الله، قال: اقرأ ﴿الحمد لله رب العالمين﴾ حتى تختمها». أما فضلها الذي ورد في أقوال العلماء: روي عن مجاهد بن جبير المكي أنه قال: «إن إبليس لعنه الله رن أربع رنَّات: حين لُعن، وحين أُهبط من الجنة، وحين بعث محمد ﷺ، وحين أُنزلت فاتحة».[81] شكا رجل إلى الشعبي وجع الخاصرة، فقال: «عليك بأساس القرآن فاتحة الكتاب، سمعت ابن عباس يقول: لكل شيء أساس، وأساس الدنيا مكة، لأنها منها دُحِيَت، وأساس السموات عريبًا وهي السماء السابعة، وأساس الأرض عجيبًا وهي الأرض السابعة السفلى، وأساس الجنان جنة عدن وهي سرة الجنان عليها أُسست الجنة، وأساس النار جهنم، وهي الدركة السابعة السفلى عليها أسست الدركات، وأساس الخلق آدم، وأساس الأنبياء نوح، وأساس بني إسرائيل يعقوب، وأساس الكتب القرآن، وأساس القرآن الفاتحة، وأساس الفاتحة ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾، فإذا اعتللت أو اشتكيت فعليك بالفاتحة تشفى».[82] قال البقاعي: «وهي أُم كل خير، وأساس كل معروف، ولا يعتد بها إلا إذا ثُنّيتْ فكانت دائمة التكرار، وهي كنز لكل شيء، شافية لكل داء، كافية لكل هم، وافية بكل مرام، واقية من كل سوء، رقية لكل ملم، وهي إثبات للحمد الذي هو الإحاطة بصفات الكمال، وللشكر الذي هو تعظيم المنعِم، وهي عين الدعاء فإنه التوجه إلى المدعو، وأعظم مجامعًا الصلاة».[83] قال ابن القيم: «كثيرًا ما كنت أسمع ابن تيمية يقول ﴿إياك نعبد﴾: فيه علاج للرياء، ﴿وإياك نستعين﴾ فيه علاج للكبرياء».[84] ويقول أيضًا: «مكثت بمكة مدة تعتريني أدواء ولا أجد طبيبًا، فكنت أعالج نفسي بالفاتحة فأرى لها تأثيرًا عجيبًا، فكنت أصف ذلك لمن يشتكي ألمًا وكان كثيرًا منهم يبرأ سريعًا.»[85] كتب تفسير الفاتحة عُنِيَ المفسرون بسورة الفاتحة بسبب منزلتها الكبيرة بين السور، فكان ذلك دافعاً إلى تأليف مئات الكتب التي اختصت فقط بتفسير الفاتحة، وتكاد هذه المؤلفات أن تُصبحَ فرعاً جديداً من فروع عِلم التفسير، وقد كان مُعظم جهود أولئك المفسرين هو في إظهار كيف احتوتْ هذه السورة القصيرة على المعنى الموجَز للقرآن.[86] طباعة السورة عدل في أكثر المصاحف المطبوعة والمُلَوَّنة، يجد القارئ أن آيات سورة الفاتحة السبع في الصفحة الأولى، والآيات الخمس الأولى من سورة البقرة في الصفحة المقابلة، مكتوبة بلون مميّز يختلف عن باقي صفحات المصحف.[87] انظر أيضًا عدل قائمة سور القرآن الكريم آية مكية قراءات علم التفسير هوامش 1: «دلالة نحوية عامة» هي المعاني العامة المستفادة من الجمل والأساليب بشكل عام. 2: «دلالة نحوية خاصة» هي معاني الأبواب النحوية مثل: باب الفاعل وباب المفعول وباب الحال.. ألخ. تفسير سورة الفاتحة د. مصطفى مسلم شبكة الألوكة الشرعية، 27 نوفمبر 2012. وصل لهذا المسار في 27 يوليو 2016 نسخة محفوظة 06 أكتوبر 2017 على موقع واي باك مشين. ما هي أعظم سورة في القرآن؟ إسلام ويب مركز الفتاوى، 11 مايو 2002. وصل لهذا المسار في 27 يوليو 2016 "نسخة مؤرشفة"، مؤرشف من الأصل في 20 أغسطس 2017، اطلع عليه بتاريخ 29 يوليو 2016. بيان وتعريف بسورة الفاتحة شبكة الألوكة الشرعية، 13 ديسمبر 2014. وصل لهذا المسار في 27 يوليو 2016 نسخة محفوظة 21 أغسطس 2017 على موقع واي باك مشين. جلال الدين السيوطي، تحقيق مركز الدراسات القرآنية. (1426 هـ) الإتقان في علوم القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). المدينة المنورة - السعودية. مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف صفحة 355 ترتيب نزول سور القرآن المباركة هدى القرآن، 25 أبريل 2007. وصل لهذا المسار في 26 يوليو 2016 نسخة محفوظة 20 سبتمبر 2017 على موقع واي باك مشين. سورة الفاتحة (هدف السورة: شاملة لأهداف القرآن) الكلم الطيب. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 25 أغسطس 2017 على موقع واي باك مشين. محمد بن صالح العثيمين (1423 هـ). تفسير القرآن الكريم، الفاتحة والبقرة المجلد الأول (الطبعة الأولى). الدمام - السعودية. دار ابن الجوزي صفحة 3 "الاستذكار الجامع لمذاهب فقهاء الأمصار ،حديث أبي هريرة من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج"، islamweb.net، مؤرشف من الأصل في 12 نوفمبر 2020، اطلع عليه بتاريخ 27 نوفمبر 2021. قراءة الفاتحة واجبة في الصلاة على الإمام والمأموم إسلام ويب مركز الفتاوى. 3 مايو 2001. وصل لهذا المسار في 27 يوليو 2016 "نسخة مؤرشفة"، مؤرشف من الأصل في 22 أغسطس 2016، اطلع عليه بتاريخ 29 يوليو 2016. سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 3 التحرير والتنوير لمحمد الطاهر بن عاشور سورة الفاتحة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 14 سبتمبر 2017 على موقع واي باك مشين. كتاب التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب سورة الفاتحة القسم الأول أسمائها وفضلها وتفسير الآيات مفصلة الباب الأول في أسماء سورة الفاتحة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. تفسير الماوردي أبي الحسن علي بن محمد بن حبيب الماوردي البصري تفسير سورة الفاتحة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1427 هـ - 2006م). الجامع لأحكام القرآن والمبين لما تضمنه السنة وآي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). بيروت - لبنان. مؤسسة الرسالة صفحة 172 ابن كثير، تحقيق سامي بن محمد سلامة (1420 هـ - 1999م). تفسير ابن كثير الجزء الأول (الطبعة الثانية). الرياض - السعودية. دار طيبة للنشر والتوزيع صفحة 101 فخر الدين الرازي (1401 هـ - 1981م). تفسير الفخر الرازي الجزء الأول (الطبعة الأولى). بيروت - لبنان. دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع صفحة 182 سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 8 مجلة البحوث والدراسات الإسلامية، أضواء على الإعجاز البلاغي في سورة الفاتحة. صالح محمد أبو بكر الزهراني (العدد الرابع، السنة الثانية). الرياض - السعودية. جامعة الملك سعود صفحة 120 - 122 جلال الدين السيوطي، تحقيق مركز الدراسات القرآنية. الإتقان في علوم القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). المدينة المنورة - السعودية. مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف صفحة 349 - 355 ابن كثير، تحقيق سامي بن محمد سلامة (1420 هـ - 1999م). تفسير ابن كثير الجزء الأول (الطبعة الثانية). الرياض - السعودية. دار طيبة للنشر والتوزيع صفحة 143 أقوال العلماء في مسألة البسملة في الفاتحة إسلام ويب مركز الفتاوى، 18 أغسطس 2003. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 "نسخة مؤرشفة"، مؤرشف من الأصل في 26 فبراير 2019، اطلع عليه بتاريخ 29 يوليو 2016. سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 10 كتاب فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية للشوكاني معنى الفاتحة وهل هي مكية أم مدنية المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 29 سبتمبر 2018 على موقع واي باك مشين. كتاب: الحاوي في تفسير القرآن الكريم فصل في كيفية نزول سورة الفاتحة نداء الإيمان. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 23 فبراير 2019 على موقع واي باك مشين. كتاب أسباب النزول للواحدي القول في سورة الفاتحة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. ابن عطية الأندلسي، تحقيق عبد السلام عبد الشافي محمد (1422 هـ - 2001م). المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز (الطبعة الأولى الجزء الأول). بيروت - لبنان. دار الكتب العلمية صفحة 65 سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 19 صفي الرحمن المباركفوري، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1428 هـ - 2007م). الرحيق المختوم (الطبعة الأولى). الدوحة - قطر. وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية القطرية صفحة 76 دراسات عربية وإسلامية، التوجه النحوي للقراءات القرانية في سورة الفاتحة (يناير 2015م). عبد الباقي محمد البرير يوسف (العدد 12). الرياض - السعودية. جامعة الملك سعود صفحة 126 مقاصد سورة الفاتحة إسلام ويب موقع المقالات، 20 نوفمبر 2012. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 "نسخة مؤرشفة"، مؤرشف من الأصل في 22 أغسطس 2016، اطلع عليه بتاريخ 29 يوليو 2016. شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 111 - 134 شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 135 - 146. شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 146 - 158 شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 159 - 164. شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 165 - 175. شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 176 - 203. أثر اختلاف الإعراب في تفسير القرآن، دراسة تطبيقية في سورة الفاتحة والبقرة وآل عمران والنساء، رسالة ماجستير، هديل محمد عطية - يوسف المنيراوي (1430 هـ - 2009م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 23. شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 181 أثر اختلاف الإعراب في تفسير القرآن، دراسة تطبيقية في سورة الفاتحة والبقرة وآل عمران والنساء، رسالة ماجستير، هديل محمد عطية - يوسف المنيراوي (1430 هـ - 2009م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 38. ظهور القراءات السبع ودخولها إلى الأقطار المغربية وزارة الشؤون الإسلامية المغربية، 21 أكتوبر 2013. وصل لهذا المسار في 26 يوليو 2016 نسخة محفوظة 5 أكتوبر 2018 على موقع واي باك مشين. دراسات عربية وإسلامية، التوجه النحوي للقراءات القرانية في سورة الفاتحة (يناير 2015م). عبد الباقي محمد البرير يوسف (العدد 12). الرياض - السعودية. جامعة الملك سعود صفحة 130 أسباب اختلاف القراء في القراءات القرآنية إسلام ويب موقع المقالات، 19 يناير 2004. وصل لهذا المسار في 26 يوليو 2016 "نسخة مؤرشفة"، مؤرشف من الأصل في 24 نوفمبر 2016، اطلع عليه بتاريخ 29 يوليو 2016. كتاب التحرير والتنوير لابن عاشور المقدمة السادسة في القراءات المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 26 يوليو 2016 نسخة محفوظة 05 سبتمبر 2017 على موقع واي باك مشين. اختلاف القراءات في سورة الفاتحة وأثره في المعنى، رسالة ماجستير، زريدة أعيزة النعمة (1429 هـ - 2008م) كلية أصول العلوم الإنسانية والثقافة بالجامعة الإسلامية بمالانج. جاوة الشرقية - إندونيسيا. صفحة 69 دراسات عربية وإسلامية، التوجه النحوي للقراءات القرانية في سورة الفاتحة (يناير 2015م). عبد الباقي محمد البرير يوسف (العدد 12). الرياض - السعودية. جامعة الملك سعود صفحة 137 - 143 علم المناسبات في القرآن موقع محمد بن عبد العزيز الخضير، 25 أغسطس 2014. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 19 فبراير 2019 على موقع واي باك مشين. علم المناسبات في القرآن الكريم شبكة الألوكة، 30 أكتوبر 2010. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 20 سبتمبر 2017 على موقع واي باك مشين. الموسوعة الحديثية، أخرجه مسلم (395) واللفظ له، وأبو داود (821)، والترمذي (2953)، والنسائي (909)، وابن ماجه (838)، وأحمد (7291) وابن عبد البر في الاستذكار (4/190) بإختلاف يسير جلال الدين السيوطي، تحقيق محمد بن عمر بن سالم بازمول (1423 هـ - 2002م). علم المناسبات في السور والآيات (الطبعة الأولى). مكة - السعودية. المكتبة المكية صفحة 195 - 196 جلال الدين السيوطي، تحقيق عبد القادر أحمد عطا (1406 هـ - 1986م). تناسق الدرر في تناسب السور (الطبعة الأولى). بيروت - لبنان. دار الكتب العلمية صفحة 62 ابتسام عمر العمودي (1436 هـ - 2015م). المختارات من المناسبات بين السور والآيات (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. مركز تدبر للدراسات والاستشارات صفحة 15 جلال الدين السيوطي، تحقيق عبد القادر أحمد عطا (1406 هـ - 1986م). تناسق الدرر في تناسب السور (الطبعة الأولى). بيروت - لبنان. دار الكتب العلمية صفحة 63 تفسير الألوسي تفسير سورة البقرة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. محمد بن عبد الوهاب، تحقيق فهد بن عبد الرحمن بن سليمان الرومي (1407 هـ). تفسير الفاتحة (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. مكتبة الحرمين صفحة 42 سليمان بن إبراهيم الاحم (1420 هـ - 1999م). اللباب في تفسير الاستعاذة والبسملة وفاتحة الكتاب (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. دار المسلم للنشر والتوزيع صفحة 14 - 21. ابن كثير، تحقيق سامي بن محمد سلامة (1420 هـ - 1999م). تفسير ابن كثير الجزء الأول (الطبعة الثانية). الرياض - السعودية. دار طيبة للنشر والتوزيع صفحة 111 ابن كثير، تحقيق سامي بن محمد سلامة (1420 هـ - 1999م). تفسير ابن كثير الجزء الأول (الطبعة الثانية). الرياض - السعودية. دار طيبة للنشر والتوزيع صفحة 113. عبد الله بن علي بصفر (1427 هـ - 2006م). تأملات في سورة الفاتحة (الطبعة الثانية). جدة - السعودية. دار نور المكتبات صفحة 8 - 9 سليمان بن إبراهيم اللاحم (1420 هـ - 1999م). اللباب في تفسير الاستعاذة والبسملة وفاتحة الكتاب (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. دار المسلم للنشر والتوزيع صفحة 53 - 56 أجزاء من مجلدات مفتاح الإتقان: الاستعاذة والبسملة مفتاح تجويد القرآن الكريم. وصل لهذا المسار في 27 يوليو 2016 نسخة محفوظة 9 يونيو 2019 على موقع واي باك مشين. أبو الحسنات محمد عبد الحي، تحقيق صلاح محمد سالم أبو الحاج (1406 هـ - 2002م). أحكام القنطرة في أحكام البسملة (الطبعة الأولى). عمان - الأردن. دار البشير صفحة 25 أبو شامة المقدسي، تحقيق عدنان بن عبد الرزاق الحموي الغلبي (1425 هـ - 2004م). كتاب البسملة (الطبعة الأولى). أبوظبي - الإمارات العربية المتحدة. المجمع الثقافي صفحة 109 سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 151 - 157 أبو الحسنات محمد عبد الحي، تحقيق صلاح محمد سالم أبو الحاج (1406 هـ - 2002م). أحكام القنطرة في أحكام البسملة (الطبعة الأولى). عمان - الأردن. دار البشير صفحة 26 - 53 مجلة جامعة أم القرى لعلوم الشریعة واللغة العربية وآدابها، الخلاف الأصولي في قرآنية البسملة وأثره في الأحكام (1425 هـ). د. موسى بن علي فقيهي (الجزء 20). مكة المكرمة - السعودية. جامعة أم القرى صفحة 178 - 179 عبد الله بن علي بصفر (1427 هـ - 2006م). تأملات في سورة الفاتحة (الطبعة الثانية). جدة - السعودية. دار نور المكتبات صفحة 16 مجلة الجامعة الإسلامية، القواعد الأصولية المؤثرة في حكم قراءة الفاتحة في الصلاة. د.ترحيب بن ربيعان الدوسري (العدد 150). المدينة المنورة - السعودية. الجامعة الإسلامية صفحة 344 - 356 مجلة الحجاز العالمية المحكمة للدراسات الإسلامية والعربية، أرجح الكلام في قراءة المأموم سورة الفاتحة خلف الإمام (1434 هـ 2013م). محمد بن عبدالله بن عمر حلواني (العدد 2). جدة - السعودية. جامعة الملك عبد العزيز صفحة 131 - 158 حكم قراءة الفاتحة للمأموم، حذيفة بن قاسم بن أحمد حمراني خواجي. كلية الشريعة والقانون بجامعة جازان. جازان - السعودية. صفحة 15 - 25 ابن عطية الأندلسي، تحقيق عبد السلام عبد الشافي محمد (1422 هـ - 2001م). المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز (الطبعة الأولى الجزء الأول). بيروت - لبنان. دار الكتب العلمية صفحة 79 كتاب تفسير القرطبي الجزء الأول صفحة 127 الموسوعة الشاملة. وصل لهذا المسار في 31 يوليو 2016 نسخة محفوظة 16 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. ابن كثير، تحقيق سامي بن محمد سلامة (1420 هـ - 1999م). تفسير ابن كثير الجزء الأول (الطبعة الثانية). الرياض - السعودية. دار طيبة للنشر والتوزيع صفحة 144 سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 166 - 167 عبد الله بن علي بصفر (1427 هـ - 2006م). تأملات في سورة الفاتحة (الطبعة الثانية). جدة - السعودية. دار نور المكتبات صفحة 142 - 147 كيفية المدّ في " آمين " الإسلام سؤال وجواب. وصل لهذا المسار في 26 يوليو 2016 نسخة محفوظة 16 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. سليمان بن إبراهيم اللاحم (1420 هـ - 1999م). اللباب في تفسير الاستعاذة والبسملة وفاتحة الكتاب (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. دار المسلم للنشر والتوزيع صفحة 435 - 436 قراءة الفاتحة في صلاة الجنازة مستحبة لا واجبة المكتبة الإسلامية مركز الفتاوى، 30 أبريل 2003. وصل لهذا المسار في 27 يوليو 2016 "نسخة مؤرشفة"، مؤرشف من الأصل في 14 مايو 2017، اطلع عليه بتاريخ 29 يوليو 2016. ما صح وما لم يصح في فضائل سورة الفاتحة شبكة صيد الفوائد. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 09 أكتوبر 2017 على موقع واي باك مشين. من فضائل سورة الفاتحة والدروس المستفادة منها إسلام ويب مركز الفتاوى. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 29 سبتمبر 2018 على موقع واي باك مشين. سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 17 تفسير القرطبي سورة الفاتحة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. تفسير القرطبي الباب الأول في فضائلها وأسمائها المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. نظم الدرر في تناسب الآيات والسور سورة الفاتحة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر (1434 هـ - 2013م). من هدايات سورة الفاتحة (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. صفحة 7 عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر (1434 هـ - 2013م). من هدايات سورة الفاتحة (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. صفحة 8 حسين نصر، قرآن الدراسة، ص4 حسين نصر، قرآن الدراسة، ص12

Sunday 11 September 2022

ہبہ اور اس کے شرائط

ہبہ کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ کسی کو کسی چیز کا بغیر کسی عوض کے فی الحال مفت مالک بنادیا جائے۔شرعاً کسی شے کا مفت یعنی بلاکسی عوض کے مالک بنانا ہبہ کہلاتا ہے۔[3] الفاظِ الفاظِ ہبہ کی تین قسمیں ہیں : (1) پہلی قسم: ان الفاظ کی ہے جوصراحۃً اور وضعاً ہبہ کے معنی میں مستعمل ہوں جیسے کوئی شخص کسی سے کہے: میں نے تم کو یہ چیز ہبہ کی یا یہ کہے تم کو فلاں چیز کا مالک بنادیا یا میں نے فلاں چیز تمہارے لیے بنادی۔ (2)دوسری قسم: ان الفاظ کی ہے جو کنایۃً اور عرفاً ہبہ کے معنی میں مستعمل ہوتے ہیں ، مثلاً کوئی شخص کسی سے کہے میں نے تم کو یہ کپڑا پہنادیا، یامیں نے تم کو یہ گھر عمر بھر کے لیے دیدیا، اس طرح کے دیگر الفاظ عرفا اور کنایۃً ہبہ کے معنی میں مستعمل ہوتے ہیں ۔ (3)تیسری قسم: ان الفاظ کی ہے جو ہبہ اور عاریت دونوں کے معنی میں مستعمل ہوتے ہیں ، جیسے کوئی شخص کسی سے کہے میں نے تم کو اس جانور پر سوار کیا تو اس میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جانور سے نفع اُٹھانے یعنی سواری کرنے کی اجازت دی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس جانور ہی کا مالک بنادیا، پہلی صورت میں عاریت ہے اور دوسری صوت میں ہبہ ہے [4]۔ ارکانِ ہبہ ہبہ میں مجموعی طور پر تین باتیں پائی جاتی ہیں (1)ایجاب یعنی معطی (دینے والے) کی طرف سے کسی شیٔ کے دینے کی پیشکش (2)قبول (3)قبضہ۔ بعض نے تعریف لکھی کہ ہبہ ایجاب وقبول سے منعقد ہوتا ہے اور قبضہ سے مکمل ہوتا ہے[5] شرائطِ ہبہ ہبہ سے متعلق شرطیں چار طرح کی ہیں (1)ایجاب وقبول سے متعلق شرطیں (2)واہب یعنی ہبہ کرنے والے شخص سے متعلق شرطیں (3)موہوب یعنی جو چیزیں ہبہ کی جارہی ہیں اس سے متعلق شرطیں (4)موہوب لہ یعنی جس شخص کو ہبہ کیا جارہا ہے اس سے متعلق شرطیں جن کی تفصیل اس طرح ہے۔ پہلی قسم: یعنی ایجاب وقبول سے متعلق شرط یہ ہے کہ اس کو کسی ایسی بات کے ساتھ مشروط نہ کیا گیا ہو جس کے وجود اور عدم دونوں کا امکان ہو جیسے کہا جائے کہ میں نے ہبہ کیا بشرطیکہ فلاں شخص آجائے نیز ہبہ کو کسی وقت کی طرف منسوب نہ کیا گیا ہو کیونکہ ہبہ فی الفور مالک بنانے کا نام ہے۔ دوسری قسم: یعنی واہب سے متعلق شرط یہ ہے کہ وہ تبرع کا حق رکھتا ہو یعنی وہ عاقل، بالغ، آزاد اور موہوب کا مالک بھی ہو؛ لہٰذا نابالغ، پاگل، غلام کا ہبہ درست نہیں ہے۔ تیسری قسم: یعنی موہوب سے متعلق شرط یہ ہے کہ جو چیز ہبہ کی جارہی ہے وہ ہبہ کرنے کے وقت واہب کے پاس موجود ہو اور جس مال کو ہبہ کیا جارہا ہے وہ شریعت کی نگاہ میں قابل قدر وقیمت ہو؛ نیز وہ مال فی نفسہٖ شخصی ملکیت کے دائرے میں ہو اور واہب کی ملکیت میں ہو اگر موہوب قابلِ تقسیم ہو تو وہ تقسیم شدہ ہو مشترک نہ ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ غیر موہوبہ شے سے پوری طرح فارغ ہو مشغول نہ ہو۔ چوتھی قسم: یعنی موہوب لہ سے متعلق شرط یہ ہے کہ موہوب پر اس کی طرف سے قبضہ ضروری ہے؛ کیونکہ جمہور کے نزدیک ہبہ کے تام ہونے کے لیے قبضہ ضروری ہے، ان کا مسلک حضرت ابوبکر وعمر، عبد اللہ بن عباس اور معاذ بن جبل رضوان اللہ علیہم وغیرہم کے فتاویٰ پر مبنی ہے، جب کہ مالکیہ کے نزدیک ہبہ کرنے والے کے ایجاب ہی سے اس کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے؛ پھر قبضہ کے لیے واہب کی اجازت ضروری ہے؛ خواہ اجازت صراحۃً ہو یااشارۃً اور قبضہ کے درست ہونے کے لیے قبضہ کرنے کی اہلیت بھی ہو یعنی موہوب لہٗ عاقل ہو [6] فتاوی دارالعلوم دیوبند ،حصہ14،ص64 البحرالرائق:7/483 ردالمحتار، علی الدرالمختار، کتاب الھبۃ:8/488 فتاویٰ عالمگیری:4/375 بدائع الصنائع:6/511۔ البحرالرائق:7/483

ہبہ کی ہوئی چیز پرقبضہ لازم ہے

اگرکوئی شخص اپنی زندگی میں کوئی چیز کسی کو ہبہ(گفٹ) کردے، اور اس چیز کا قبضہ اور اس میں تصرف کا اختیار بھی موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا ہے) کو دے دے، اور ہبہ کرتے وقت اس سے اپنا تصرف بالکل ختم کردے تو شرعاً ایسا ہبہ درست اور مکمل ہوجاتا ہے، اور وہ چیز واہب (ہبہ کرنے والے) کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آجاتی ہے، لہذا اگر بعد میں واہب کا انتقال ہوجائے تو چوں کہ وہ چیز اس کی ملکیت میں نہیں ہے؛ اس لیے وہ اس کا ترکہ بھی شمار نہیں ہوگا، اور مرحوم واہب کے وارثؤں میں تقسیم نہیں ہوگا۔ لیکن اگر ہبہ کی شرائط نہ پائیں جائیں، بلکہ محض زبانی طور پر ہبہ کیاہو یا صرف کاغذی کاروائی کی، اور شے موہوبہ (جس چیز کو ہبہ کیا ہے) کو موہوب لہ کے قبضہ وتصرف میں نہ دیا ہو تو ایسا ہبہ مکمل نہیں ہوتا، ایسی صورت میں واہب کے انتقال کے بعد وہ چیز اس کا ترکہ شمارہوگا۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية‘‘. (4/378، الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدی

گواہی کے لئے عاقل بالغ ہونالازم ہے

شرعاہبہ کوعدالت میں ثابت کرنے کے لئے دوعاقل بالغ مسلم گواہان کاہوناضروری ہے

ہبہ زبانی کے لئے کتنے گواہ ضروری ہیں

ہبہ زبانی کے لئے دوگواہ مستحب و بہترہیں لازم یاضروری نہیں. البتہ اثبات عندالقضاء کے لئے دوگواہ لازم ہیں. یعنی اگر کسی نے اس ہبہ کی عدالت میں مخالفت کی اور اپناحق بتایاتب دوگواہ ضروری ہیں.

ہبہ مکمل ہونے کے شرائط

کوئی شخص اپنی تنہا خالص ملکیت کو کسی کو بلامعاوضہ حوالہ کردے یعنی اسے دیدے اور دے کر اسے مالک وقابض بنادے، تو شرعاً ہبہ صحیح ہوجاتا ہے، احتیاطاً دو مردوں کو گواہ بنالے تو بہترہے۔ کسی اولاد کے لیے جائز نہیں کہ باپ کی چھوڑی ہوئی تمام جائداد پر وہ تنہا قبضہ کرلے اور اسے اپنے بھائیوں یا بہنوں کو نہ دیں.۔ کسی کی حق تلفی کرنا، کسی بھائی بہن کی زمین ومکان کو دبالینا یہ بہت سنگین جُرم ہے۔ اپنے بھائی یابہنوں کا حق مارکر دوسروں کو ہبہ کرنا صحیح نہیں ہے، دستخط ہبہ زبانی کے لئے لازم نہیں.

نماز جنازہ میں ثناپڑھنے کاثبوت

نماز جنازہ میں ثناء پڑھنا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین عظام سے ثابت ہے۔ حضرت ابو سعید مقبری رحمہ اللہ (المتوفى: 100 ھ) سے روایت ہے : میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نماز جنازہ کس طریقہ پر پڑھتے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم میں تمہیں نماز جنازہ کا طریقہ بتاؤں گا ، وہ یہ کہ میں جنازہ کے ساتھ چلتا ہو ، اور جب جنازہ نماز کے لیے رکھ دیا جاتا ہے تو تکبیر کہتا ہوں، اور پھر حمد وثنا پڑھتا ہوں، اور پھر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہوں، اور پھر یہ دعا پڑھتا ہو۔۔۔الخ۔ جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (المتوفى: 96ھ) اور حضرت عامر شعبی رحمہ اللہ (المتوفى: 104ھ) فرماتے ہیں : نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد ثناء، اور دوسری تکبیر کے بعد درود شریف، اور تیسری تکبیر کے بعد دعا پڑھی جائے گی، اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیا جائے گا۔ وقتہ نمازوں اور نوافل میں پڑھی جانے والی ثناء کے مشہور الفاظ: "سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا إله غيرك" پڑھنا مستحب ہے، اور اس میں" وجل ثناؤك"کا اضافہ بھی جائز ہے، یہ اضافہ بھی حدیث سے ثابت ہے۔ 1-​عن سعيد بن أبي سعيد المقبري عن أبيه :أنه سأل أبا هريرة: كيف تصلي على الجنازة؟ فقال أبو هريرة: أنا -لعمر الله أخبرك- أتبعها من أهلها، فإذا وُضعت كبرت وحمدت الله، وصليت على نبيه، ثم أقول: اللهم إنه عبدك وابن عبدك وابن أمتك، كان يشهد أن لا إله إلا أنت، وأن محمدًا عبدك ورسولك، وأنت أعلم به، اللهم إن كان محسناً فزد في إحسانه، وإن كان مسيئاً فتجاوز عن سيئاته، اللهم لا تحرمنا أجره ولا تفتنا بعده. أخرجه الإمام مالك في موطئه في «باب ما يقول المصلي على الجنازة» (1/ 228) برقم (535)، والإمام محمد بن الحسن الشيباني في «باب الصلاة على الميت، والدعاء» (2/ 98) برقم (310)، وقال: وبهذا نأخذ، لا قراءة على الجنازة. وهو قول أبي حنيفة رحمه الله. وأخرجه الطبراني في «الدعاء» في «باب القول في الصلاة على الجنازة» (ص:361) برقم (1200). وقال عثمان بن سعيد الكماخي (المتوفى: 1171 هـ) في شرح هذا الحديث: فحمدت الله، أي: أثنيت عليه جل جلاله، أو قلت: "سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا إله غيرك". (المهيأ في كشف أسرار الموطأ: «أبواب الجنائز»، «باب الصلاة على الميت والدعاء له» (2/ 104)،ط. دار الحديث، القاهرة، عام النشر: 1425 هـ =2005 م) وفي مرقاة المفاتيح: يقال: حمدت فلاناً أحمده، إذا أثنيت عليه بجلائل خصاله. (مرقاة المفاتيح للملاعلي القاري (المتوفی: 1014 هـ) : «باب أسماء النبي صلى الله عليه وسلم وصفاته» (9/ 3696)، ط. دار الفكر، بيروت، الطبعة الأولى: 1422هـ= 2002م)

Saturday 10 September 2022

نمازجنازہ میں سورۂ فاتحہ کاپڑھناصرف جائزہے یاسنت وواجب ہے

جنازہ کی نماز صورت کے اعتبار سے تو نماز ہے، لیکن حقیقت میں دعا ہے؛ اس لیے جنازہ کی نماز میں قرأت کرنا مشروع نہیں ہے، اسی وجہ سے فقہاء نے جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ قرأت کی نیت سے پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، البتہ سورہ فاتحہ چوں کہ دعا ئیہ مضمون پر مشتمل ہے؛ اس لیے اگر کوئی جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ کو دعا کی نیت سے پڑھے تو یہ جائز ہے۔ "عن أبي سعید المقبري عن أبیه أنه سأل أبا هریرة: کیف تصلي علی الجنازة؟ فقال: أبو هریرة: أنا لعمر الله أخبرك، أتبعها من أهلها، فإذا وضعت کبرت وحمدت الله وصلیت علی نبیه، ثم أقول: اللّٰهم عبدك وابن عبدك وابن أمتك کان یشهد أن لا إله إلا أنت وأن محمداً عبدك ورسولك، وأنت أعلم به، اللّٰهم إن کان محسناً فزد في إحسانه، وإن کان مسیئًا فتجاوز عنه سيئاته، اللّٰهم لاتحرمنا أجره ولاتفتنا بعده". (مصنف ابن أبي شیبه، الجنائز، مایبدأ في التکبیرة الأولیٰ في الصلاة علیه الخ ، مؤسسة علوم القرآن ۷/۲۵۲، ۳/۲۹۵، رقم: ۱۱۴۹۵، مصنف عبد الرزاق، الجنائز، باب القراء ة والدعاء في الصلاة علی المیت المجلس العلمي ۳/۴۸۸، حدیث: ۶۴۲۵) "عن نافع أن ابن عمر کان لایقرء في الصلاة علی الجنازة". (مصنف ابن أبي شیبه، کتاب الجنائز ، من قال: لیس علی الجنازة قراء ة، مؤسسة علوم القرآن ۷/۲۵۸، ۳/۲۹۸، رقم: ۱۱۵۲۲) "أن ابن مسعود قال: إن النبی صلی الله علیه وسلم لم یوقت فیها قولاً ولا قراء ة". (المغني ابن قدامة بیروت ۲/۱۸۰) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 209): "(وسنتها) ثلاثة (التحميد والثناء والدعاء فيها) ذكره الزاهدي. (قوله: التحميد والثناء) كذا في البحر عن المحيط، ومقتضى قول الشارح: "ثلاثة"، أن الثناء غير التحميد مع أنه فيما يأتي فسر الثناء بقوله: "سبحانك اللهم وبحمدك"، فعلم أن المراد بهما واحد على ما يأتي بيانه، فكان عليه أن يذكر الثالث: الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 213): "(ولا قراءة ولا تشهد فيها) وعين الشافعي الفاتحة في الأولى. وعندنا تجوز بنية الدعاء، وتكره بنية القراءة لعدم ثبوتها فيها عنه عليه الصلاة والسلام. (قوله: وعين الشافعي الفاتحة) وبه قال أحمد؛ لأن ابن عباس صلى على جنازة فجهر بالفاتحة، وقال: عمدًا فعلت؛ ليعلم أنها سنة. ومذهبنا قول عمر وابنه وعلي وأبي هريرة، وبه قال مالك كما في شرح المنية (قوله: بنية الدعاء) والظاهر أنها حينئذ تقوم مقام الثناء على ظاهر الرواية من أنه يسن بعد الأولى التحميد (قوله: وتكره بنية القراءة) في البحر عن التجنيس والمحيط: لايجوز لأنها محل الدعاء دون القراءة اهـ ومثله في الولوالجية والتتارخانية. وظاهره أن الكراهة تحريمية، وقول القنية: لو قرأ فيها الفاتحة جاز أي لو قرأها بنية الدعاء ليوافق ما ذكره غيره، أو أراد بالجواز الصحة، على أن كلام القنية لا يعمل به إذا عارضه غيره، فقول الشرنبلالي في رسالته: "إنه نص على جواز قراءتها"، فيه نظر ظاهر لما علمته، وقوله: "وقول منلا على القارئ أيضًا يستحب قراءتها بنية الدعاء خروجًا من خلاف الإمام الشافعي" فيه نظر أيضًا؛ لأنها لاتصح عنده إلا بنية القرآن، وليس له أن يقرأها بنية القراءة، ويرتكب مكروه مذهبه ليراعي مذهب غيره كما مر تقريره أول الكتاب". جن صحابہ سے سورۂ فاتحہ پڑھنا ثابت ہے ان روایات کاجواب یہ ہے کہ محدثین کے نزدیک اصول ہے کہ جہاں دویایااس سے زیادہ روایات کے مضمون میں تعارض ہوجائے توان میں جس حدتک تطبیق ممکن ہوکرنی چاہئیے ،تاکہ دونوں حدیثوں پرعمل ہوسکے،اس اصول کوسامنے رکھتے ہوئے احناف کےبیان کردہ مفہوم اورمعنی لینے سےدونوں حدیثوں پرعمل ہوجاتاہےاورہ وہ مفہوم یہ ہے کہ نمازہ جنازہ کامقصداللہ تعالی کی حمدوثناء،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردرود اورمیت کے لئے دعاہے اوریہ حمدوثناء سورة الفاتحہ میں موجود ہےاس لئے اگرکوئی شخص سورة الفاتحہ حمدوثناء کی نیت سے پڑھتاہے تواس میں کوئی حرج نہیں۔چناچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے نمازہ جنازہ میں سورة فاتحہ حمدوثناء کی نیت سے پڑھی تھی ،نہ کہ فی نفسہ اس سورت کے نمازہ جنازہ میں معین ہونے کے،اس پر ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے جب نمازہ جنازہ کاطریقہ پوچھاگیاتوانہوں یہی معروف اورمروج طریقہ بتلایااس میں فاتحہ پڑھنے کاذکرنہیں کیا،اگرسورة فاتحہ پڑھناضروری ہوتاتوحضرت ابوہریرہ رضی اللہ ضروراس کاتذکرہ فرماتے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر،حضرت علی ،عبداللہ بن عمر،فضالہ بن عبید،ابوہریرہ،جابربن عبداللہ وغیرہم رضی اللہ تعالی عنہم ان سب کے بارے میں آتاہے کہ وہ نمازہ جنازہ میں قراء ت فاتحہ نہیں فرمایاکرتے تھے،جبکہ ان میں سے اکثریت اجلہ صحابہ اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکے اساتذہ پرمشتمل ہے اوریہ کیسے ہوسکتاہے کہ ان کے فعل اورقول میں تضادہو،اس لئے لازمی طورپریہی معنی مراد لینا پڑے گاکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکامقصدفاتحہ سے حمدوثناء اوردعاء تھی ۔ تیسری دلیل یہ ہےکہ قاسم بن محمد،سالم بن عبداللہ،ابن المسیب،ربیعہ،عطاء بن ابی رباح اوریحی بن سعیدجیسے جبال علم جواہل مدینہ کے فقہاء میں سے ہیں ان کے بارے میں بھی یہی منقول ہے کہ وہ نمازہ جنازہ میں قراء ت نہیں کرتے تھے ،اگرابن عباس رضی اللہ عنہماکے قول سے بعینہ فاتحہ کی سنت مرادلی جائے تو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اتنامشہوراورعام مسئلہ ان فقہاء سے مخفی رہ گیاہو اور عدم علم کی وجہ سے سورة فاتحہ نمازہ جنازہ میں نہ پڑھتے ہوں ،یقینی طورپران کاسورة فاتحہ کانہ پڑھنااس کی دلیل ہے کہ قول ابن عباس کاوہ مطلب نہیں جوبعض حضرات لیتے ہیں۔ حوالہ جات موطأ مالك لمالك بن أنس (ج 2 / ص 319): ”عن سعيد بن أبي سعيد المقبري عن أبيه أنه سأل أبا هريرة كيف تصلي على الجنازة؟فقال أبو هريرة: أنا لعمر الله أخبرك أتبعها من أهلها فإذا وضعت كبرت وحمدت الله وصليت على نبيه ثم أقول: اللهم إنه عبدك وابن عبدك وابن أمتك كان يشهد أن لا إله إلا أنت وأن محمدا عبدك ورسولك وأنت أعلم به اللهم إن كان محسنا فزد في إحسانه وإن كان مسيئا فتجاوز عن سيئاته اللهم لا تحرمنا أجره ولا تفتنا بعده۔ “ موطأ مالك لمالك بن أنس (ج 2 / ص 320): "عن مالك عن نافع أن عبد الله بن عمر كان لا يقرأ في الصلاة على الجنازة." المدونة الكبرى (ج 1 / ص 174): ”عن داود بن قيس أن زيد بن أسلم حدثه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في الصلاة على الميت:أخلصوه بالدعاء ( بن وهب ) عن رجال من أهل العلم عن عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد الله بن عمر وعبيد بن فضالة وأبي هريرة وجابر بن عبد الله ووائلة بن الأسقع والقاسم وسالم بن عبد الله وبن المسيب وربيعة وعطاء ويحيى بن سعيد أنهم لم يكونوا يقرؤون في الصلاة على الميت. “

Friday 2 September 2022

صاحب استطاعت پرحج کوجانامشکل ہوتووہ کیاکرے

جس شخص پر استطاعت کی وجہ سے حج فرض ہوگیا ہو اور اس نے حج کا زمانہ پایا مگر کسی وجہ سے حج نہ کر سکا، پھر کوئی ایسا عذر پیش آگیا جس کی وجہ سے خود حج کرنے پر قدرت نہیں رہی مثلاً ایسا بیمار ہوگیا جس سے شفا کی امید نہیں یا نابینا ہوگیا یا اپاہج ہو گیا یا فالج ہوگیا یا بڑھاپے کی وجہ سے ایسا کمزور ہوگیا کہ خود سفر کرنے پر قدرت نہیں رہی، تو اس آدمی کے لیے اپنی طرف سے کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر حج بدل کروانا یا اپنے مرنے کے بعد اپنے ترکے سے اپنی طرف سے حج بدل کروانے کی وصیت کرنا فرض ہے، وصیت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’میرے مرنے کے بعد میری طرف سے میرے مال سے حج بدل کرادیا جائے‘‘۔ لہذا کسی عذر کی وجہ سے خود حج کرنے پر قدرت نہیں ہے تو اپنی جانب سے حج بدل کروادیں یا حج بدل کی وصیت کردیں، جس کی تفصیل اوپر ذکر کی گئی ہے۔ نیز حج بدل کرتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے: میت یا جس زندہ معذور آدمی کی طرف سے حجِ بدل کیا جارہا ہے اس کے وطن سے کرانا چاہیے؛ کیوں کہ میت یا زندہ معذور آدمی اگر خود حج کرتے تو اپنے وطن سے کرتے، البتہ اگر وصیت یا فرضیت کے بغیر کوئی شخص اپنے عزیز کی طرف سے حج کرتا ہے تو وہ ایصالِ ثواب کا نفل حج ہے، وہ ہر جگہ سے ہو سکتا ہے۔ احرام کے وقت حج کی نیت میت یا جس زندہ معذور آدمی کی طرف سے حج کر رہا ہے اس کی طرف سے کرنی چاہیے، یعنی احرام باندھتے وقت زبان سے یہ کہے کہ ’’میں فلاں شخص کی طرف سے حج کی نیت کرتا ہوں‘‘ اور اگر نام بھول جائے تو یہ کہے کہ ’’جس شخص کی طرف سے مجھ کو حج کے لیے بھیجا گیا ہے میں اس کی طرف سے حج کی نیت کرتا ہوں‘‘۔ اگر حج بدل کا احرام باندھتے وقت اس آدمی کی طرف سے حجِ بدل کرنے کی نیت نہیں کرے گا تو حجِ بدل ادا نہیں ہوگا اور ضمان لازم آئے گا؛ کیوں کہ اس نے حجِ بدل کے لیے پیسہ لینے کے باوجود حجِ بدل نہیں کیا۔ حجِ بدل کرنے والے کو حج افراد کرنا چاہیے، یعنی وطن سے جاتے ہوئے صرف حج کا احرام باندھنا چاہیے،اور دس ذی الحجہ تک اس احرام میں رہنا چاہیے، البتہ حجِ بدل کے لیے بھیجنے والے کی اجازت سے حجِ بدل میں حجِ تمتع اور حجِ قران کرنا بھی جائز ہے، لیکن حجِ تمتع یا قران کرنے کی صورت میں جو دمِ شکر (قربانی) لازم ہوتی ہے اگر بھیجنے والا اپنی خوشی سے اس قربانی کی قیمت ادا کردے تو بہتر، ورنہ اپنے پاس سے قربانی کرنی ہوگی، موجودہ زمانہ میں عرف کے اعتبار سے حج کے لیے بھیجنے والے کی طرف سے تمتع، قران اور قربانی کی اجازت ثابت ہے؛ اس لیے واضح طور پر اجازت لینا ضروری نہیں، تاہم صراحۃً اجازت لے لینا زیادہ بہتر ہے، حجِ بدل کرانے والے کو چاہیے کہ حجِ بدل کرنے والے کو ہر قسم کا اختیار دے دے، تاکہ حساب، خرچ، تمتع، قران، قربانی یا کوئی حادثہ، بیماری یا عذر وغیرہ کے سلسلہ میں مزید اجازت کی ضرورت پیش نہ آئے، عام اجازت اس طرح دے کہ ’’ میری طرف سے جس طرح چاہو حج کر لینا ‘‘۔ حجِ بدل کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ حجِ بدل جس کی طرف سے کیا جارہا ہے سارا خرچہ یا خرچہ کا اکثر حصہ اسی کے مال میں سے ادا کیا جائے۔ حجِ بدل کرانے والا حجِ بدل کرنے والے کو جانے سے آنے تک تمام خرچہ دے، بلکہ واپسی تک اس کے گھر والوں کا خرچہ جن کی کفالت اس کے ذمہ ہے ان کا خرچہ بھی دینا چاہیے، لیکن حجِ بدل کرنے والے کو جو خرچہ دیا جائے اس میں اس پر انتہائی ایمان داری، دیانت داری اور احتیاط لازم ہے، ورنہ حق العباد کا مؤاخذہ ہوگا، سفر کے بعد جو رقم بچے وہ واپس کردے اور بہتر یہ ہے کہ بھیجنے والا پہلے ہی کہہ دے کہ اگر خرچ میں کوئی بد عنوانی اتفاقاً ہوجائے تو وہ میری طرف سے معاف ہے۔ حجِ بدل کرنے کے لیے باشعور عاقل اور بالغ ہونا ضروری ہے، نابالغ بچے اور پاگل حجِ بدل نہیں کرسکتے اور حجِ بدل کرنے والا دین دار اور قابلِ اعتماد ہونا چاہیے اور حجِ بدل کے مسائل سے واقف ہونا چاہیے، بلکہ عالم ہو تو زیادہ بہتر ہے اور پہلے سے حج کیا ہوا ہونا چاہیے خواہ غریب ہو یا امیر، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ حجِ بدل اجرت کے بدلہ نہ کروایا جائے۔ حجِ بدل کرنے والا آمر ( جس کے حکم سے حج کر رہا ہے ) کے حکم کی مخالفت نہ کرے، اور دی گئی ہدایات کے مطابق حج کرے۔ حجِ بدل کرنے والا صرف ایک حج کا احرام باندھے، ایک دفعہ میں متعدد آدمیوں کی طرف سے متعدد حج کا احرام نہ باندھے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: " الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة كان أو صوما أو صدقة أو غيرها كالحج وقراءة القرآن والأذكار وزيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء والأولياء والصالحين وتكفين الموتى وجميع أنواع البر، كذا في غاية السروجي شرح الهداية. (العبادات ثلاثة أنواع): مالية محضة كالزكاة وصدقة الفطر، وبدنية محضة كالصلاة والصوم، ومركبة منهما كالحج. والإنابة تجري في النوع الأول في حالتي الاختيار والاضطرار، ولا تجري في النوع الثاني وتجري في النوع الثالث عند العجز، كذا في الكافي. ولجواز النيابة في الحج شرائط. (منها) : أن يكون المحجوج عنه عاجزاً عن الأداء بنفسه وله مال، فإن كان قادراً على الأداء بنفسه بأن كان صحيح البدن وله مال أو كان فقيراً صحيح البدن لا يجوز حج غيره عنه. (ومنها) استدامة العجز من وقت الإحجاج إلى وقت الموت، هكذا في البدائع. حتى لو أحج عن نفسه وهو مريض يكون مراعى فإن مات أجزأه، وإن تعافى بطل وكذا لو أحج عن نفسه وهو محبوس، كذا في التبيين. فإن أحج الرجل الصحيح عن نفسه رجلاً ثم عجز لم تجزئه الحجة، كذا في السراج الوهاج. وإنما شرط عجز المنوب للحج الفرض لا للنفل، كذا في الكنز. ففي الحج النفل تجوز النيابة حالة القدرة؛ لأن باب النفل أوسع، كذا في السراج الوهاج. (ومنها) الأمر بالحج فلا يجوز حج الغير عنه بغير أمره إلا الوارث يحج عن مورثه بغير أمره فإنه يجزيه، (ومنها) نية المحجوج عنه عند الإحرام، والأفضل أن يقول بلسانه: لبيك عن فلان. (ومنها) أن يكون حج المأمور بمال المحجوج عنه فإن تطوع الحاج عنه بمال نفسه لم يجز عنه حتى يحج بماله، وكذا إذا أوصى أن يحج بماله ومات فتطوع عنه وارثه بمال نفسه، كذا في البدائع. وإذا دفع إلى رجل مالاً للحج عن ميت فأنفق المأمور شيئاً من مال نفسه فإن كان في ماله وفاء بالنفقة؛ لا يصير مخالفاً ويرجع بما أنفق من مال الميت استحساناً ولا يرجع قياساً، وإن لم يكن في مال الميت وفاء بالنفقة فأنفق شيئاً من ماله؛ ينظر إن كان أكثر النفقة من مال الميت؛ جاز ووقع الحج عن الميت، وإلا فلا، وهذا استحسان، والقياس أن لا يجوز، هكذا في محيط السرخسي. (ومنها) أن يحج راكباً حتى لو أمره بالحج فحج ماشياً يضمن النفقة ويحج عنه راكباً، كذا في البدائع. ثم الصحيح من المذهب فيمن حج عن غيره أن أصل الحج يقع عن المحجوج عنه، ولهذا لا يسقط به الفرض عن المأمور وهو الحاج، كذا في التبيين. والأفضل للإنسان إذا أراد أن يحج رجلاً عن نفسه أن يحج رجلاً قد حج عن نفسه، ومع هذا لو أحج رجلاً لم يحج عن نفسه حجة الإسلام يجوز عندنا وسقط الحج عن الآمر، كذا في المحيط. وفي الكرماني: الأفضل أن يكون عالماً بطريق الحج وأفعاله، ويكون حراً عاقلاً بالغاً، كذا في غاية السروجي شرح الهداية. ولو أحج عنه امرأةً أو عبداً أو أمةً بإذن السيد جاز ويكره، هكذا في محيط السرخسي. وإذا أمره رجلان كل واحد منهما أن يحج عنه حجة فأهل بحجة واحدة عنهما جميعاً فهذه الحجة عن نفسه ولا يقع لواحد منهما ويضمن النفقة ولا يمكنه بعد ذلك جعله عن أحدهما ... المأمور بالحج ينفق من مال الآمر ذاهبا وجائيا كذا في السراجية." [الباب الرابع عشر فی الحج عن الغیر، ج:1،ص:257،ط:رشیدیہ]

Saturday 27 August 2022

شوہرطلاق کاانکارکرےاوربیوی تین طلاق کادعوی کرے توکس کاقول معتبر ہوگا

فقہاء نے صراحتاًلکھا ہے کہ: اگرکسی عورت کو اس کا شوہر تین طلاقیں دے دے اور پھر انکارکرے تواس صورت میں یاعورت اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کرے اس صورت میں عورت کے حق میں فیصلہ کردیاجائے گااور شوہر کاانکار معتبر نہ ہوگا۔ اگر عورت کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو شوہرسے حلف لیاجائے گا،اگرشوہرحلف سے انکار کردے تو بھی فیصلہ عورت کے حق میں ہوگا، اور اگر شوہر حلف اٹھاتاہے توظاہری فیصلہ اسی کے حق میں ہوگا،البتہ جب عورت کوتین طلاق کایقین ہوتوشوہرکواپنے اوپرقدرت نہ دے اور چھٹکارے کی کوئی صور ت بنائے۔شریعت کایہ مسئلہ صاف اورواضح ہے۔لہذا ۱۔اگر بیوی کے پاس گواہ موجودہوں یاشوہرنے تحریری طلاق دی ہوتواس کاانکار معتبر نہیں۔ ۲۔اگر گواہ نہ ہوں اور شوہرحلف اٹھاتاہے تو ظاہری طورپراسی کے حق میں فیصلہ کیاجائے گا،اور اس صورت میں عورت بقدرامکان شوہرکواپنے اوپرقدت نہ دے،اگرشوہرزبردستی تعلقات قائم کرتاہے تواس کاگناہ شوہرپرہی ہوگا۔ ۳۔قدرت نہ دینے کاحکم اس بناپرہے کہ عورت کویقین ہے کہ اس نے تین طلاقیں سنی ہیں، لیکن وہ شرعی ضابطے کے مطابق گواہ نہیں رکھتی ،لہذا یہ نشو ز کی تعلیم نہیں، بلکہ دیانۃً چوں کہ جدائی ہوچکی ہے، اس لیے یہ حکم دیاگیاہے۔ ۴۔جب ظاہری فیصلہ شوہرکے حق میں ہے توعدت نہیں گزار سکتی ،اس لیے کہ ظاہراً نکاح برقراہے،اورجب تک عورت اس کے گھرمیں ہے تونان ونفقہ بھی شوہرپرہی ہے۔اور ظاہرہے کہ جب عدت نہیں کرسکتی توکسی اور سے نکاح بھی جائزنہیں۔مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’...اگرشوہراس (مطلقہ)کواپنے پاس رکھے گاتوہمیشہ نزاع اور شک وشبہ رہے گا، اور شوہرگناہ گارہوگا،اگرخدانخواستہ شوہرنہ طلاق کااقرار کرے ،نہ اب طلاق دے ،اور طلاق کے شرعی گواہ بھی موجود نہ ہوں، توایسی صورت میں عورت شوہرسے خلع کرے،کچھ دے دلاکررہائی حاصل کرے،جماعت اور برادری کے سمجھ دار دین دارحضرات شوہر کوسمجھاکر طلاق کااقراریاطلاق دینے یاخلع کرلینے پرآمادہ کریں، طلاق کااقرار یا طلاق حاصل کیے یاخلع کے بغیر عورت کسی اور جگہ نکاح نہیں کرسکتی....ایک صورت یہ ہے کہ شوہرسے جبراً واکراہاً طلاق بائن کہلوائی جائے یہ بالکل آخری درجہ ہے‘‘۔(فتاویٰ رحیمیہ8/283،ط:دارالاشاعت) ففي مسائل الإمام أحمد بن حنبل رواية صالح: وسألته عن امرأة ادعت أن زوجها طلقها وليس لها بينة، وزوجها ينكر ذلك. قال أبي: القول قول الزوج، إلا أن تكون لا تشك في طلاقه قد سمعته طلقها ثلاثا، فإنه لا يسعها المقام معه، وتهرب منه، وتفتدي بمالها. اهـ. وعلى من سمع الطلاق من الرجل، أن يشهد في المحكمة بما سمعه، حتى تفرق المحكمة بينه وبين امرأته. قال الخرشي المالكي -رحمه الله-: (وفي محض حق الله تجب المبادرة بالإمكان، إن استديم تحريمه كعتق، وطلاق، ووقف، ورضاع) ، يعني أن الحق إذا تمحض لله -تعالى- وكان مما يستدام تحريمه، فإنه يجب على الشاهد المبادرة بالشهادة إلى الحاكم بحسب الإمكان، كمن علم بعتق عبد, وسيده يستخدمه ويدعي الملكية فيه, وكذلك الأمة، أو علم بطلاق امرأة ومطلقها يعاشرها في الحرام... " اگر واقعی بیوی نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ اس کے شوہر نے اسے تین طلاقیں دی ہیں تو تین طلاقیں واقع ہو کر حرمت مغلظہ ثابت ہو چکی ہے اور اگر شوہر طلاق کا انکار کرتا ہے تو اس صورت میں بیوی اپنے شوہر کے پاس ہرگز نہ جائے اور اس کو عذابِ الٰہی سے ڈرائے اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئے تو خلع کرنے کو کہے یعنی اپنی طرف سے مہر معاف کر کے اس سے خلع کر لے یا کسی اور مال کی پیش کش کر کے اس سے جان چھڑا لے اس پر بھی اگر وہ راضی نہ ہو اور زبردستی اپنے ساتھ لے جائے تو الگ رہنے کی پوری کوشش کرے۔ پھر بھی شوہر قریب آئے اور اس کی طاقت میں روکنا مشکل ہو تو عدالت میں تین طلاق کا دعویٰ دائر کر دے پھر اگر شوہر کے قسم کھانے پر قاضی نے بیوی کے خلاف فیصلہ کر دیا تو اب گناہ شوہر پر ہوگا لیکن اس کے بعد بھی عورت علیحدگی کی کوشش جاری رکھے البتہ مذکورہ صورت میں چونکہ عورت کے پاس شرعی شہادت موجود نہیں اور شوہر تین طلاق کا منکر ہے لہٰذا عدالت کے فیصلے کے بغیر مذکورہ عورت کے لیے آگے نکاح جائز نہیں۔ وفی الشامیۃ والمرأۃ کالقاضی اذا سمعتہ أواخبرھا عدل لایحل لھا تمکینہ والفتویٰ علی انہ لیس لھا قتلہ ولا تقتل نفسھا بل تفدی نفسھا بمال او تھرب کما انہ لیس لہ قتلھا اذا حرمت علیہ وکلما ھرب ردتہ بالسحر وفی البزاریۃ عن الاوزجندی انھا ترفع الامر للقاضی فان حلف ولا بینۃ لھا فالاثم علیہ الخ۔ (ص ۲/۴۶۸، رشیدیہ) ہندیہ میں ہے: "وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (3/473، ط: ماجدية) بدائع الصنائع میں ہے: "وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر". (كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن 3/187، ط: سعيد