https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 10 January 2024

منسوخ آیات


سیوطی نے ’’الاتقان‘‘ میں ناسخ و منسوخ کے باب میں لکھا ہے:
قَالَ الْآئِمَّۃُ لا یَجُوْزُ لِاَحَدٍ اَنْ یُّفَسِّرَ کِتَابَ اللّٰہِ اِلَّا بَعْدَ اَنْ یُعْرَفَ مِنْہُ النَّاسِخَ وَالْمَنْسُوْخَ
آئمہ نے کہا کہ کسی شخص کیلئے قرآن مجید کی تفسیر کرنا جائز نہیں جب تک اس میں سے ناسخ ومنسوخ کا علم نہ رکھتا ہو۔
چنانچہ اس کے بعد منسوخ آیات پر ایک طویل بحث کرنے کے بعد یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ میرے نزدیک کل منسوخ آیات کی تعداد (۲۰) ہے ان کو میں ایک نظم میں پیش کرتا ہوں:
وَقَدْ اَکْثَرَ النَّاسِ فِی الْمَنْسُوْخِ مِنْ عَدَدٍ
وَادْخُلُوْ فِیْہِ آیاً لَیْسَ تَنْحَصِرُوْا
لوگوں نے منسوخ آیات کی بڑی تعداد ذکر کی ہے اور اُن میں آیات داخل کیں جو شمار سے باہر ہیں۔
وَھَاکَ تَحْرِیْرُ آیٍ لا مَزِیْدٌ لَھَا
عِشْرِیْنَ حَرّرُھَا الْحَذَاقُ وَالْکِبَرُ
یہ لو بغیر کسی زیادتی کے آیات منسوخہ کی تعداد بیس ہے جسے ماہرین بزرگواروں نے تحریر کیا ہے۔
آیٍ التَّوَجُّہُ حَیْثُ الْمَرْئُ کَانَ وَاِنْ
یُوْصی لِاَھْلِیْہِ عِنْدَ الْمَوْتِ مُحْتَضِرُ
نماز کے وقت قبلہ کی طرف منہ پھیرنے اور بوقت ِاحتضار مرنے والے کی وصیت کے حکم والی آیات۔
وَحُرْمَۃُ الْاَکْلِ بَعْدَ النَّوْمِ مَعَ الرَّفْثِ
وَفِدْیَۃٌ لِمُطِیْقِ الصَّوْمِ مُشْتَھِرُ
رمضان میں سونے کے بعد کھانے، پینے اور مجامعت کی منع اور طاقت کے ہوتے روزہ نہ رکھنا اور فدیہ دینا یہ دونوں آیتیں۔
وَحَقّ تَقْوَاہُ فِیْ مَا صَحَّ فِیْ اَثَر
وَفِی الْحَرَامِ قِتَالٌ لِلْاُوْلِی کَفَرُوْا
اِتَّقُواللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے اور ماہِ حرام میں کفار سے لڑنے کا حکم،  یہ دونوں آئتیں۔
وَالْاِعْتِدَادُ بِحَوْلٍ مَعَ وَصِیَّتِھَا
وَاِن یُّدَانُ حَدِیْثُ النَّفْسِ وَالْفِکْر
عورت کا سال تک عدت میں بیٹھنا اور وصیت اور دل والی باتوں کا حساب لیا جانا یہ دونوں آئتیں۔
وَالْحَلْفُ وَالْحَبْسُ لِلزَّانِیْ وَتَرْکُ اَوْلٰی
کَفَرُوْا شَہَادَتُھُمْ وَالصَّبْرُ وَالنَّفْسُ
حلف، زانی کے حبس، اور کفار کو چھوڑدینے کے حکم والی آیات اور ان کی شہادت کی قبولیت اور صبر فی الجہاد اور عمومی حکمِ جہاد۔
وَمَنْعُ عَقْدِ الزَّانِیْ اَوِ الزَّانِیَۃِ
وَمَا عَلٰی الْمُصْطَفٰی فِی الْعَقْدِ مُحْتَظِرُ
زانی اور زانیہ کے عقد کی ممنوعیت اور وہ جو رسالتمآبؐ پر حکم منع تھا (عقد کے متعلق)
وَدَفْعُ مَھْرٍ لِمَنْ جَائَتْ وَآیۃُ نَجْوَاہُ
 کَذٰلِکَ قِیَامُ اللَّیْلِ مُسْتُطَرُ
کفار سے آئی ہوئی عورتوں کے مہر اور آیت نجویٰ میں صدقہ اور جناب رسالتمآبؐ کا عبادت کے لئے رات کا قیام۔
وَزِیْدَ آیۃُ الْاِسْتِیْذَانِ مَنْ مَلَکَتْ
وَآیۃٌ لِلْقِسْمَۃِ الْفَضْلِیْ لِمَنْ حَضَرُوْا
غلام کا نکاح میں اجازتِ آقا کا محتاج ہونا، اور حاضرین پر بچت مال کی تقسیم کا حکم (یہ دونوں بعض کی نظر میں منسوخ ہیں)
مذکورہ بالا نظم میں شاعر نے مختلف الفاظ کو ایک ایک آیہ کے منسوخ ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ الفاظ کہ جنہیں شاعر نے آیات کی جگہ استعمال کیا ہے درج ذیل ہیں:
التّوجُّہ : اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہ جس طرف منہ کر لو اسی طرف ذاتِ خدا موجود ہے، یہ منسوخ ہے اس آیت سے کہ فر ما یا  فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ  اپنے منہ مسجد حرام کی طرف پھیر دو۔
وَاَن یوْصٰی لاھلہٖ: کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتتم پر فرض ہے کہ مرتے دم اپنے والدین اور اقربا ٔ کے لئے وصیت کر جائو، اس آیت کو آیتِ وراثت نے منسوخ کر دیا۔
وَحُرمۃِ الاکْل: یہ حکم کَمَا کُتِبَ عَلٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُم سے مستفا د تھا،کیونکہ پہلے جن اُمتوں پر روزے فرض تھے ان کیلئے رات کو سونے کے بعد کھا نا پینا اور مجا معت ممنوع تھی اب یہ آیتیںاُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفْث اِلٰی نِسَائِکُمْ تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں سے ہمبستر ی جا ئز ہے۔۔۔اورکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَبَّنَ لَکُم۔۔۔یعنی تم روزوں کی راتوں میں صبح کی سفید ی ظاہر ہو نے تک کھا سکتے ہو، اس حکم کی ناسخ ہیں۔
وَفِدیۃٌ لمُطیق: وَعَلٰی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ  جو لوگ روزے کی طاقت رکھتے ہیں یا یہ کہ مالی طاقت رکھتے ہیں ان کے لئے ہر روزہ کے لئے فدیہ دے دینے کی صورت میں ان پر روز ہ معا ف ہے اس کی ناسخ یہ آیت ہے فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہ یعنی جو شخص اسی ما ہ میں حا ضر ہو (مسا فر نہ ہو) وہ روزہ ہی رکھے اس آیت نے واضح کر دیا کہ بیما رو مسافرکے علاوہ ہر آدمی پر روزہ رکھنا واجب ہے اور فدیہ دینا کافی نہیں۔
وَحَق تقْوَاہ: اِتَّقُواللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہ اللہ سے ڈرو جس طرح تقویٰ کا حق ہے اس حکم کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا کہ فر ما یا  فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُم یعنی اللہ سے تقویٰ اختیا کر و جتنا کر سکتے ہو

وَفِی الْحَرام قِتالٌ: یَسْألُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہتم سے لو گ ما ہِ حرام میں لڑائی کے متعلق سوال کر تے ہیں تو ان کو جواب دیجئے کہ حرمت والے مہینے میں لڑائی کر ناگنا ہ کبیرہ ہے اس حکم کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا چنا نچہ فر ما تا ہے قَاتِلُو الْمُشْرِکِیْنَ کَافَّۃ  تمام مشرکوں سے لڑائی کرو۔
وَالْاِعتِداد:  جس عورت کا شو ہر فو ت ہو جا تا ہے اس کے لئے عدت ایک سال تھی وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ تا مَتَاعًا اِلٰی الْحَوْل یعنی جو لوگ مر جا تے ہیں ان کی عورتیں سا ل بھر تک انتظار کریں اور اپنے مر نے والے شوہر کے سوگ میں وقت گزاریں اب اس آیت کے حکم کو چا رماہ دس دن کی عدت بتا نے آیت نے منسوخ کر دیا۔
وَصِیّتھا:  مطلقہ کے لئے ما لی وصیت کا حکم۔۔۔ وراثت والی آیت سے منسوخ ہے۔
وَانْ یدَان:  اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہٖ اللّٰہ دل کی بات ظاہر کرو یا چھپا ئے رکھو خدا ان سب کا حساب لے گایہ آیت لا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا خدا وسعت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتا کی آیت سے منسوخ ہے۔
وَالحَـلْف: وَالَّذِیْنَ عَاقَدْتَ اَیْمَانُکُمْ فَأتُوْہُمْ نَصِیْبَھُم جو لوگ تمہارے ساتھ ہم قسم ہیں انہیں اپنا حصہ دو (یہ ایک دستور جاہلی تھا کہ ہم قسم لوگ ایک دوسرے کی وراثت سے حصہ لیا کرتے تھے) قرآن مجید میں پہلے اس کی اجازت تھی بعد میں اولوالارحام والی آیت سے یہ حکم منسوخ ہوا۔
وَالْحَبْس:  زانی کے حبس کرنے والی آیت حکم رجم سے منسوخ ہوئی۔
وَتَرک اَوْلٰی:  وَلاالشَّہْر الْحَرَام  والی آیت اباحتِ قتال سے منسوخ ہوگئی۔
وَاشْہادُھمْ:  آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ دو گواہ غیر مسلم لے لو، وَاَشْھِدُوْ ذَوَیْ عَدْلٍ مِنْکُم (دو مسلم عادل گواہ قائم کرو) سے منسوخ ہوگئی۔
وَالصَّبْر:تم میں سے بیس ہوں تو دو سو (۲۰۰)کے مقابلہ میں صبر کر کے اور جَم کر لڑیں، یہ آیت اس کے بعد والی آیت سے منسوخ ہوگئی۔
وَالنَّفْس:  اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَ ثِقَالا جہاد کے لئے چلو۔۔۔ خواہ تندرست ہو یا بیمار لَیْسَ عَلٰی الْاَعْمٰی حَرَج والی آیت سے منسوخ ہو گئی۔
وَمَنْع عَقْد:  وَانْکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُم  والی آیت سے منسوخ ہے۔
وَمَا عَلٰی الْمُصْطفیٰٰ:  لا تَحِلُّ لَکَ النِّسَأ تجھ پر عورتیں حلال نہیں یہ آیت منسوخ ہوگئی اس آیت سے اِنَّا اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَک تیری زوجات ہم نے تیرے لیے حلال کی ہیں۔
وَدَفْع مَھر:  آیت غنیمت کے ساتھ منسوخ ہوگئی۔
وَآیۃ نَجْویٰ:  اس کے بعد والی آیت اس آیت کی ناسخ ہے۔
کَذٰلِک قِیامُ اللَّیْل:  سورت کا آخر اس کا ناسخ ہے۔
آیۃُ الْاِسْتیْذَان:  استیذان والی آیت علامہ سیوطی کے نزدیک منسوخ نہیں۔
آیۃُ الْقِسْمَۃ:   قسمۃ والی آیت علامہ سیوطی کے نزدیک منسوخات سے نہیں ہے۔
یہ فہرست ہے ان آیات کی جن کو منسوخ قرار دیا گیا ہے، اور آیات اب تک قرآن میں موجود ہیں، ان میں سے بعض کے منسوخ ہونے میں اختلاف بھی ہے، چنانچہ آخری دونوں علامہ سیوطی کے نزدیک منسوخ نہیں ہیں بلکہ محکم ہیں (الاتقان ج ۲ ص ۲۳
۔

ایسی آیات ہیں جو نازل ہوئی تھیں اور بعد میں منسوخ ہوگئیں

 ،کچھ آیات تھیں جنہیں بطور قرآن ان کی تلاوت کی جاتی تھی، لیکن بعد میں اللہ کے حکم سے ان کی تلاوت منسوخ ہوگئی،جیساکہ صحیح بخاری کی شروحات میں مذکور ہے، ملاحظہ فرمائیں:

شرح صحيح البخارى لابن بطال(5 / 225)

"وفيه : أنه قد يجوز النسخ فى الأخبار على صفة ولا تكون كليا ، إما يكون نسخه ترك تلاوته فقط ، كما أن نسخ الأحكام ترك العمل بها ، فربما عوض من المنسوخ من الأحكام حكمًا غيره، وربما لم يعوض فى النسخ من الأحكام . منه أمره يعلى بالصدقة عند مناجاة الرسول ، ثم عفى عنا بغير عوض من الشرع بنسخه ، بل ترك العمل به ، وكذلك الأخبار نسخها من القرآن رفع ذكرها ، وترك تلاوتها لآثار تكتب بخبر آخر مضاد لها مثله . مما نسخ من الأخبار ما كان يقرأ فى القرآن : ( لو أن لابن آدم واديين من ذهب لابتغى لهما ثالثًا )".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري(21 / 234)

"قوله ثم نسخ معناه سقط ذكره لتقادم عهده إلا أن يذكر بطريق الرواية وليس معناه النسخ الذين بدل مكانه خلافه لأن الخبر لا يدخله نسخ والقرآن ربما نسخ لفظه وبقي حكمه مثل الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة ومعنى النسخ هنا أنه أسقط لفظه من التلاوة قال السهيلي هذا المذكور أعني ما نزل نسخ وليس عليه رونق الإعجاز قوله رضينا عنه وقد تقدم بلفظ أرضانا والحال لا يخلو من أحدهما وأجيب بأن القرآن المنسوخ يجوز نقله بالمعنى".

اگر آدمی سفر شرعی کی مسافت کی دوری پوری کرچکا ہو اور اگر واپسی میں اس کا وطن اصلی سفر کی مسافت شرعی کی دوری پر نہ ہو تو کیا واپسی میں پوری نماز پڑھے گا یا قصر کرے گا؟ یعنی واپسی میں بھی قصر کے لیے مسافت شرعی کا ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟

 اگر کوئی شخص مسافت شرعی(سوا ستتر کلومیٹر) طے کر کے مسافر بن چکا ہو اور سفر میں قصر کرتا رہا ہو، لیکن واپسی کے وقت جس جگہ سے اپنے وطن اصلی تک واپسی کا سفر  طے کرنا ہو اس جگہ اور وطن اصلی کے درمیان شرعی مسافت سفر کے برابر فاصلہ نہ ہو  (یا تو اس وجہ سے کہ وہ سفر کرتے کرتے واپسی سے پہلے ایسی جگہ آکر ٹھہرا ہو جو اس کے وطنِ اصلی سے مسافت شرعی سے کم مسافت پر واقع  ہو یا اس وجہ سے کہ وہ واپسی کے وقت ایسے قریبی راستے کو اختیار کرے جو مسافت شرعی سے کم ہو ) تو اس کی دو صورتیں ہیں:

۱)جہاں ٹھہرا ہوا تھا اگر اس جگہ کم از کم پندرہ دن ٹھہر کر واپس ہورہا ہے تو اب واپسی میں قصر نہیں کرسکتا، کیوں کہ مقیم ہوجانے کے بعد سفر کا آغاز ہوا ہے، لیکن مسافت شرعی ( سوا ستتر کلومیٹر) سے کم ہے ، جب کہ اس صورت میں واپسی کے وقت قصر کے لیے سفر کی مسافتِ شرعی  کا ہونا ضروری ہے۔

۲)لیکن اگر جس جگہ سے واپسی ہورہی ہے وہاں   پندرہ دن قیام نہ کرنے کی وجہ سے مقیم نہیں تھا، بلکہ مسافر تھا اور قصر کر رہا تھا تو  اب واپسی میں بھی وطنِ اصلی میں داخل ہونے سے پہلے پہلے قصر کرتا رہے گا، کیوں کہ اس صورت میں پہلے ہی سے مسافر تھا، نئے سرے سے سفر شروع نہیں کیا، اور مسافر جب تک وطنِ اصلی میں داخل نہ ہوجائے اس وقت تک وہ قصر کرتا ہے، اس صورت میں واپسی کے وقت قصر کے لیے سفر کی مسافتِ شرعی کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ دونوں صورتوں (یعنی چاہے مسافتِ شرعی ہو یا نہ ہو) میں وطنِ اصلی میں داخل ہونے سے پہلے پہلے قصر کرنا لازم ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 123):

"ولو لموضع طريقان: أحدهما مدة السفر، والآخر أقل، قصر في الأول لا الثاني.

(قوله: قصر في الأول) أي ولو كان اختار السلوك فيه بلا غرض صحيح خلافاً للشافعي، كما في البدائع".


الفتاوى الهندية (1/ 139):

"ولا بد للمسافر من قصد مسافة مقدرة بثلاثة أيام حتى يترخص برخصة المسافرين وإلا لا يترخص أبداً ... ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوماً أو أكثر، كذا في الهداية".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 425):

"ولا يزال" المسافر الذي استحكم سفره بمضي ثلاثة أيام مسافراً "يقصر حتى يدخل مصره" يعني وطنه الأصلي "أو ينوي إقامته نصف شهر ببلد أو قرية" قدره ابن عباس وابن عمر رضي الله عنهم وإذا لم يستحكم سفره بأن أراد الرجوع لوطنه قبل مضي ثلاثة أيام يتم بمجرد الرجوع وإن لم يصل لوطنه لنقضه السفر؛ لأنه ترك بخلاف السفر لا يوجد بمجرد النية حتى يسير، لأنه فعل "وقصر إن نوى أقل منه" أي من نصف شهر "أو لم ينو" شيئاً "وبقي" على ذلك "سنين".

قوله: "في محل تصح إقامة فيه" شروط إتمام الصلاة ستة النية والمدة واستقلال الرأي واتحاد الموضع وصلاحيته وترك السير در قوله: "يقصر" جملة يقصر صفة مسافراً قوله: "يعني وطنه الأصلي" ومنتهى ذلك بالوصول إلى الربض، فإن الانتهاء كالابتداء والإطلاق دال على أن الدخول أعم من أن يكون للإقامة أولا، ولحاجة نسيها". فق

Tuesday 9 January 2024

دعا مانگنے کا طریقہ

 1۔ دعا مانگنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ  سینہ کے برابر  ہاتھ اُٹھائیں اور ہتھیلیاں آسمان کی طرف رہیں کیوں کہ دعا کا قبلہ آسمان ہے، دونوں ہاتھوں میں تھوڑا سا فاصلہ ہو۔ اور دعا کے بعد دونوں ہاتھوں کو چہرے پر مَل لیں۔ 

 دعا کی ابتدا اپنے نفس سے کریں، پھر والدین کو، پھر تمام مسلمانوں کو شامل کریں۔
اوّل و آخر درود شریف پڑھنے سے دعا جلد قبول ہوتی ہے۔
دو  ر کعت صلوٰۃِ حاجت پڑھ کر صلوٰۃِ حاجت کی دعا پڑھنا بھی جلد حاجت روائی کا ذریعہ ہے۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عن معمر عن الزہري قال: کان رسول اللہ ﷺ یرفع یدیہ عند صدرہ في الدعاء، ثم یمسح بہما وجہہ۔"

(جلد 2 ص: 247 ، رقم 3234 ، ط:  المجلس العلمي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأفضل في الدعاء أن یبسط کفیہ، ویکون بینہما فرجۃ۔"

( کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع في الصلوۃ والتسبیح، جلد5 ص: 318 ط: دار الفکر ) 

الموسوعة الفقہیة  میں ہے:

"یری الحنفیۃ والمالکیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ أن من آداب الدعاء خارج الصلاۃ رفع الیدین بحذاء صدرہ -إلی- من الأفضل أن یسبط کفیہ، ویکون بینہما فرجۃ۔"

(جلد 45 ص: 266 ) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لأنها قبلة الدعاء) أي كالقبلة للصلاة فلا يتوهم أن المدعو جل وعلا في جهة العلو ط (قوله ويكون بينهما فرجة) أي وإن قلت قنية۔"

(فروع قرأ بالفارسية أو التوراة أو الإنجيل، باب صفۃالصلاۃ، جلد 1  ص: 507 ط:سعید)

دعا میں درود شریف پڑھنے کا لزوم

قرآن اللہ کی صفت ہے

 قرآنِ  پاک (یعنی کلام اللہ)  نہ تو خالق ہے اور نہ ہی مخلوق ہے، بلکہ خالق (یعنی اللہ تعالیٰ) کی صفات میں سے ایک صفت (کلام) ہے،البتہ  مصاحف میں قرآنِ پاک جو  حروف کی صورت میں لکھا اور پڑھا جاتا ہے اور  کتابی شکل میں صفحات وغیرہ میں نظر آتا ہے ، یہ اللہ رب العزت کی صفتِ کلام نہیں، بلکہ یہ مخلوق ہے، "کلام اللہ"  کا اصل مصداق تو اللہ تعالیٰ کی وہ  ازلی صفت ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے،  اور وہ صفت  الفاظ اور حروف وغیرہ کی محتاج نہیں ہے؛ کیوں  کہ  الفاظ  (یعنی مخلوق کے تلفظ کردہ الفاظ) اور حروف وغیرہ تو خود مخلوق اور حادث ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات  ازل سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے  ساتھ  قائم ہیں۔

شرح الطحاوية (1/ 172):

’’ قوله: و (و إن القرآن كلام الله، منه بدا بلا كيفية قولا، وأنزله على رسوله وحيا، وصدقه المؤمنون على ذلك حقا، وأيقنوا أنه كلام الله تعالى بالحقيقة، ليس بمخلوق ككلام البرية. فمن سمعه فزعم أنه كلام البشر فقد كفر، وقد ذمه الله وعابه وأوعده بسقر حيث قال تعالى: {سأصليه سقر} [المدثر: 26] (المدثر: 26) - فلما أوعد الله بسقر لمن قال: {إن هذا إلا قول البشر} [المدثر: 25] (المدثر: 25) علمنا وأيقنا أنه قول خالق البشر، ولا يشبه قول البشر).

ش: هذه قاعدة شريفة، وأصل كبير من أصول الدين، ضل فيه طوائف كثيرة من الناس. وهذا الذي حكاه الطحاوي رحمه الله هو الحق الذي دلت عليه الأدلة من الكتاب والسنة لمن تدبرهما، وشهدت به الفطرة السليمة التي لم تغير بالشبهات والشكوك والآراء الباطلة ... وقوله: كلام الله منه بدا بلا كيفية قولا: - رد على المعتزلة وغيرهم. فإن المعتزلة تزعم أن القرآن لم يبد منه، كما تقدم حكاية قولهم، قالوا: وإضافته إليه إضافة تشريف، كبيت الله، وناقة الله، يحرفون الكلم عن مواضعه! وقولهم باطل فإن المضاف إلى الله تعالى معان وأعيان، فإضافة الأعيان إلى الله للتشريف، وهي مخلوقة له، كبيت الله، وناقة الله، بخلاف إضافة المعاني، كعلم الله، وقدرته، وعزته، وجلاله، وكبريائه، وكلامه، وحياته، وعلوه، وقهره - فإن هذا كله من صفاته، لا يمكن أن يكون شيء من ذلك مخلوقًا.

 [مذهب أهل السنة والجماعة في صفة الكلام]


ألوهية العجل.

وغاية شبهتهم أنهم يقولون: يلزم منه التشبيه والتجسيم؟ فيقال لهم: إذا قلنا أنه تعالى يتكلم كما يليق بجلاله انتفت شبهتهم. ألا ترى أنه تعالى قال: {اليوم نختم على أفواههم وتكلمنا أيديهم وتشهد أرجلهم} [يس: 65] (يس: 65) . فنحن نؤمن أنها تتكلم، ولا نعلم كيف تتكلم. وكذا قوله تعالى: {وقالوا لجلودهم لم شهدتم علينا قالوا أنطقنا الله الذي أنطق كل شيء} [فصلت: 21] (فصلت: 21) . وكذلك تسبيح الحصا والطعام، وسلام الحجر، كل ذلك بلا فم يخرج منه الصوت الصاعد من الرئة، المعتمد على مقاطع الحروف. وإلى هذا أشار الشيخ رحمه الله بقوله: منه بدا بلا كيفية قولا، أي: ظهر منه ولا ندري كيفية تكلمه به. وأكد هذا المعنى بقوله قولا، أتى بالمصدر المعرف للحقيقة، كما أكد الله تعالى التكليم بالمصدر المثبت النافي للمجاز في قوله: {وكلم الله موسى تكليما} [النساء: 164] (النساء: 164) . فماذا بعد الحق إلا الضلال؟."

اللہ تعالیٰ کے کیاصرف ٩٩نام ہیں یازیادہ بھی ہیں

 اللہ تعالی کے اسمائے حسنی صرف ننانوے میں منحصر نہیں بلکہ اس سے زائد ہیں اور احادیث میں نناوے نام کا جو ذکر ہے یہ ان ناموں کو یاد کرنے کی فضیلت کے بارے میں ہے ،ان سے تعداد بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔

قال الحافظ أبو بکر بن العربی عن بعضہم إن للہ تعالی ألف اسم قال ابن العربی وہذا قلیل فیہا وفی الحدیث الصحیح: إن للہ تعالی تسعة وتسعین اسما مائة إلا واحدا من أحصاہا دخل الجنة قال النووی فی شرح مسلم: واتفق العلماء علی أنہ لیس فیہ حصر فیہا، وإنما المراد الإخبار عن دخول الجنة بإحصائہا.واختلفوا فی المراد بإحصائہا فقال البخاری وغیرہ من المحققین معناہ: حفظہا وہذا ہو الأظہر لأنہ جاء مفسرا فی الروایة الأخری من حفظہا وقیل عدہا فی الدعاء، وقیل أحسن المراعاة لہا والمحافظة علی ما تقتضیہ بمعانیہا وقیل غیر ذلک والصحیح الأول اہ ملخصا.[الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 6/ 396) (من أحصاہا) : أی حفظہا کما فسر بہ الأکثرون، کما ورد فی بعض الروایات الصحیحة. فإن الحفظ یحصل بالإحصاء وتکرار مجموعہا فالإحصاء کنایة عن الحفظ، أو ضبطہا حصرا وتعدادا، وعلما، وإیمانا، أو أطاقہا بالقیام بما ہو حقہا والعمل بمقتضاہا، وذلک بأن یعتبر معانیہا، فیطالب نفسہ بما تتضمنہ من صفات الربوبیة، وأحکام العبودیة فیتخلق بہا، قال ابن الملک: مثل أن یعلم أنہ سمیع بصیر، فکف لسانہ وسمعہ عما لا یجوز، وکذا فی باقی الأسماء اہ․ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح 4/ 1562)

عالم ربانی کی صفات

علماء چمکدار ستاروں کے مانند ہیں۔کیونکہ زندگی کے مختلف گوشوں میں لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اگر وہ روپوش ہوجائیں یا انہیں روپوش کردیاجائے توپورے خطۂ ارضی پر گھٹا ٹوپ تاریکی کابسیرا ہوجائے ، خلق ِخدااندھیرے میں حیران وپریشان ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے اور انہیں کوئی راہ سجھائی نہ دے اور وہ سیدھے راستے تک پہنچنے سے قاصر رہ جائیں،سلف میں سے کسی کا قول ہے ’’علماء ان ستاروں کے مانند ہیں جن سے لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اس نشان کی طرح ہیں جسے دیکھ کر لوگ منزلِ مقصود کا راستہ طے کرتے ہیں۔ اگر یہ ستارے ڈوب جائیں اور یہ نشانِ راہ غائب ہوجائیں تو وہ غلطاں و پیچاں ہوجائیں اور اگر لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرنا چھوڑ دیں توسیدھے راستہ سے بھٹک جائیں۔[أخرجہ ابن أبی شیبۃ فی مصنفہ:۸؍۲۵۳،عن کاتبِ أبی قلابۃ ]
جب بھی امت پر فتنوں کی تیز و تند آندھیاں چلی ہیں اور امت سخت آزمائش کے تھپیڑوں سے دوچار ہوئی ہے تو اہلِ علم کے اس منفرد گروہ کی امت کو شدیدترین ضرورت پڑی ہے ،اس وجہ سے ا س موضوع پر گفتگو بے انتہا اہمیت کا حامل ہے ،جسے درج ذیل دو نکات کی روشنی میں ترتیب دیا گیاہے ۔
پہلا نکتہ ! حقیقیت میں ربانی عالم کی خصوصیات
دوسرانکتہ ! ربانی علماء کا امت کے تئیں تبلیغی کردار
پہلا نکتہ: حقیقت میں ربانی عالم کی خصوصیات:
ربانی عالم بلند ترین اور عظیم الشان صفات کے پیکر ہواکرتے ہیں، ان کے نمایاں ترین اوصاف درج ذیل ہیں۔
۱۔ علمی رسوخ اور پختگی: صحیح منہج کے مطابق محکم کی پیروی کرکے اور متشابہ کو ترک کرکے انبیاء کی علمی وراثت (شرعی علوم)میں عبور حاصل کرنا۔
ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ:’’ بلاشبہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کوئی درہم و دینار ورثے میں نہیں چھوڑے ہیں ، انہوں نے علم کی وراثت چھوڑی ہے ، جس نے اسے حاصل کر لیا گویا کہ اس نے بڑا حصہ حاصل کرلیا ‘‘[إسنادہ صحیح:أخرجہ أبوداؤد فی سننہ:۳؍۳۵۴، رقم۳۶۴۳]
اور اللہ رب العالمین فرماتاہے:’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں،پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں‘‘۔[آل عمران:۷]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اہلِ علم صحابہ رسول اللہ ﷺکے کلام کے وہ معانی بھی جانتے تھے جس کا علم دوسرے لوگوں کو نہیں ہوتا تھااوریہی لوگ پختہ وٹھوس علم والے تھے‘‘[مجموع الفتاویٰ:۱۷؍۴۲۸]
امام شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’{مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَاب} اللہ نے اس آیت میں محکم کو اصل اور مرجع قرار دیا ہے اور محکم سے مراد وہ آیتیں ہیں جو بالکل واضح ہوں اور ان کے اندر کسی قسم کا کوئی اشتباہ اور غموض نہ ہو(جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے)پھر اللہ نے فرمایا: {وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ} اور متشابہ سے مراد وہ آیا ت ہیں جو اصل کتاب نہیں ہیں اور نہ ہی یہ قرآن کریم کا بیشتر حصہ ہیں بلکہ یہ بہت ہی کم ہیں ، پھر اللہ نے اس بات کی خبر دی کہ ان میں سے متشابہ آیا ت کی پیروی کرنا حق سے منحرف اور صحیح راستہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا شیوہ ہے ، اس کے برعکس جنہیں شرعی علوم میں مہارت حاصل ہے تو وہ لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصل کتاب کی پیروی کرتے ہیں اور متشابہ کوترک کردیتے ہیں‘‘ ۔[الموافقات:۱۰؍۲۱۰، ت۔فضیلۃ الشیخ مشہور حسن]
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ علماء ربانیین سے متعلق رقم طراز ہیںکہ :’’ یہ انبیاء کے وارث اور ان کی امت کے لیے ان کے جانشین ہیں ، یہی لوگ بہرِ صورت علمی و عملی طور پرانبیاء کے مشن پر گامزن ہیں اور ان کے طریقہ ومنہج کے مطابق لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، یہ مقام نبوت و رسالت کے بعد سب سے افضل مقام ہے ، اور یہی ربانی علماء ہیں جنہیں علم میں رسوخ اورپختگی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح یہ رسول اور اس کی امت کے درمیان قاصداور پیغام رساں کی حیثیت رکھتے ہیں، الغرض یہ علماء ہی رسول کے جانشین ،ان کے پیروکار ، ان کے اعوان ومددگار ،ان کے خاص اور ان کے دین کے علماء آسمانِ دنیا پر چمکدار ستاروں کے مانند ہیں۔چنانچہ زندگی کے مختلف گوشوں میں لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اگر وہ روپوش ہوجائیں یا انہیں روپوش کردیاجائے توپورے خطۂ ارضی پر گھٹا ٹوپ تاریکی کابسیرا ہوجائے ، خلق ِخدااندھیرے میں حیران وپریشان ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے اور انہیں کوئی راہ سجھائی نہ دے اور وہ سیدھے راستے تک پہنچنے سے قاصر رہ جائیں،سلف میں سے کسی کا قول ہے ’’علماء ان ستاروں کے مانند ہیں جن سے لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اس نشان کی طرح ہیں جسے دیکھ کر لوگ منزلِ مقصود کا راستہ طے کرتے ہیں۔ اگر یہ ستارے ڈوب جائیں اور یہ نشانِ راہ غائب ہوجائیں تو وہ غلطاں و پیچاں ہوجائیں اور اگر لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرنا چھوڑ دیں توسیدھے راستہ سے بھٹک جائیں۔[أخرجہ ابن أبی شیبۃ فی مصنفہ:۸؍۲۵۳،عن کاتبِ أبی قلابۃ ]

  • جب بھی امت پر فتنوں کی تیز و تند آندھیاں چلی ہیں اور امت سخت آزمائش کے تھپیڑوں سے دوچار ہوئی ہے تو اہلِ علم کے اس منفرد گروہ کی امت کو شدیدترین ضرورت پڑی ہے ،اس وجہ سے ا س موضوع پر گفتگو بے انتہا اہمیت کا حامل ہے ،جسے درج ذیل دو نکات کی روشنی میں ترتیب دیا گیاہے ۔
    پہلا نکتہ ! حقیقیت میں ربانی عالم کی خصوصیات
    دوسرانکتہ ! ربانی علماء کا امت کے تئیں تبلیغی کردار
    پہلا نکتہ: حقیقت میں ربانی عالم کی خصوصیات:
    ربانی عالم بلند ترین اور عظیم الشان صفات کے پیکر ہواکرتے ہیں، ان کے نمایاں ترین اوصاف درج ذیل ہیں۔
    ۱۔ علمی رسوخ اور پختگی: صحیح منہج کے مطابق محکم کی پیروی کرکے اور متشابہ کو ترک کرکے انبیاء کی علمی وراثت (شرعی علوم)میں عبور حاصل کرنا۔
    ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ:’’ بلاشبہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کوئی درہم و دینار ورثے میں نہیں چھوڑے ہیں ، انہوں نے علم کی وراثت چھوڑی ہے ، جس نے اسے حاصل کر لیا گویا کہ اس نے بڑا حصہ حاصل کرلیا ‘‘[إسنادہ صحیح:أخرجہ أبوداؤد فی سننہ:۳؍۳۵۴، رقم۳۶۴۳]
    اور اللہ رب العالمین فرماتاہے:’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں،پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں‘‘۔[آل عمران:۷]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اہلِ علم صحابہ رسول اللہ ﷺکے کلام کے وہ معانی بھی جانتے تھے جس کا علم دوسرے لوگوں کو نہیں ہوتا تھااوریہی لوگ پختہ وٹھوس علم والے تھے‘‘[مجموع الفتاویٰ:۱۷؍۴۲۸]
    امام شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’{مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَاب} اللہ نے اس آیت میں محکم کو اصل اور مرجع قرار دیا ہے اور محکم سے مراد وہ آیتیں ہیں جو بالکل واضح ہوں اور ان کے اندر کسی قسم کا کوئی اشتباہ اور غموض نہ ہو(جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے)پھر اللہ نے فرمایا: {وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ} اور متشابہ سے مراد وہ آیا ت ہیں جو اصل کتاب نہیں ہیں اور نہ ہی یہ قرآن کریم کا بیشتر حصہ ہیں بلکہ یہ بہت ہی کم ہیں ، پھر اللہ نے اس بات کی خبر دی کہ ان میں سے متشابہ آیا ت کی پیروی کرنا حق سے منحرف اور صحیح راستہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا شیوہ ہے ، اس کے برعکس جنہیں شرعی علوم میں مہارت حاصل ہے تو وہ لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصل کتاب کی پیروی کرتے ہیں اور متشابہ کوترک کردیتے ہیں‘‘ ۔[الموافقات:۱۰؍۲۱۰، ت۔فضیلۃ الشیخ مشہور حسن]
    علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ علماء ربانیین سے متعلق رقم طراز ہیںکہ :’’ یہ انبیاء کے وارث اور ان کی امت کے لیے ان کے جانشین ہیں ، یہی لوگ بہرِ صورت علمی و عملی طور پرانبیاء کے مشن پر گامزن ہیں اور ان کے طریقہ ومنہج کے مطابق لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، یہ مقام نبوت و رسالت کے بعد سب سے افضل مقام ہے ، اور یہی ربانی علماء ہیں جنہیں علم میں رسوخ اورپختگی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح یہ رسول اور اس کی امت کے درمیان قاصداور پیغام رساں کی حیثیت رکھتے ہیں، الغرض یہ علماء ہی رسول کے جانشین ،ان کے پیروکار ، ان کے اعوان ومددگار ،ان کے خاص اور ان کے دین کے مبلغ ہیں۔[طریق الہجرتین:۱؍۵۱۶]
    ۲۔ منہجِ نبوت پرثابت قدمی: بدعات اور دین میں نئی نئی چیزوں سے دور ی اختیار کرتے ہوئے رسول اللہﷺ اور خلفاء راشدین کے منہج و طریق پر قائم رہنا ،جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
     «وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الخُلَفَاء ِ الرَّاشِدِينَ المَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ»
    ’’نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں نہ پڑنا، کیونکہ یہ سب گمراہی ہیں۔ چنانچہ تم میں سے جو شخص ان حالات کو پالے تو اسے چاہیے کہ وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر قائم اور جمار ہے اور میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کے ذریعے مضبوطی سے دبا لے‘‘ (اور اس پر عمل پیرا رہے)
    [إسنادہ صحیح ۔أخرجہ الترمذی فی سننہ :۵؍ ۴۴، رقم:۲۶۷۶]
    ۳۔ خوفِ الہٰی: جیسا کہ اللہ نے اہلِ علم کے بارے میں متعدد مقامات میں فرمایا ہے:
    {قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَي عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا}
    ’’کہہ دیجیے! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں‘‘۔
    [الإسراء:۱۰۷]
    {وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا}
    ’’وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے ‘‘
    [الإسراء:۱۰۹]
    {إِنَّمَا يَخْشَي اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَائُ}
    ’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘
    [فاطر:۲۸]
    ۴۔ صبر اور یقین : جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
    {وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ}
    ’’اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے‘‘
    [السجدۃ :۲۴]
    حافظ ابن کثیررحمہ اللہ کہتے ہیں:’’جب تک وہ اللہ کے احکامات پر ڈٹے رہے اور اس کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑتے رہے ساتھ ہی اس کے رسولوں کی تصدیق کرتے رہے اور ان کی لائی ہوئی شریعت میں ان کی پیروی کرتے رہے ، تو انہی میں سے ایسے امام و پیشواپیدا ہوتے رہے جو اللہ کے حکم سے حق کی جانب رہنمائی کرتے تھے ، خیر کی دعوت دیتے تھے اورامر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے ۔پھر جب وہ لوگ اللہ کے احکامات میں تبدیلی ،تحریف ا ور تاویل سے کا م لینے لگے تو ان سے یہ مقام چھین لیاگیا اور ان کے دل اس قدرسخت ہوگئے کہ وہ کلامِ الہٰی میں تحریف کرنے لگے نتیجتاً نہ تو ان کے پاس عملِ صالح بچا اور نہ ہی صحیح اعتقاد ۔بعض اہل علم کا کہنا ہے ’’صبر اور یقین سے ہی دین میں امامت حاصل کی جاسکتی ہے ‘‘[تفسیر القرآن العظیم :۳؍۵۶۰بتصرف ]
    ۵۔ علم کے مطابق عمل کرنا۔
    ۶۔ فہم وادراک کے لیے گہراذاتی مطالعہ
    ۷۔ لوگوں کی تربیت کرنا اور بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل کی تعلیم دینا۔
    ۸۔ حکمت
    ۸۔ بر دباری
    ۹۔ تفقہ
    یہ ساری کی ساری صفا ت سلف سے اللہ کے فرمان:
    {وَلَـكِن كُونُواْ رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ}
    ’’بلکہ وہ تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ، تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب‘‘
    [آل عمران:۷۹] کی تفسیرمیں منقول ہیں۔
    امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ربانی عالم وہ ہے جو ان تمام صفات سے متصف ہو جن صفات کومیں نے بیان کیا ہے ‘‘
    فقہ و حکمت کا علم رکھتا ہو اورمصلحین میں سے ہوساتھ ہی وہ لوگوں کے معاملات کی اچھے سے دیکھ ریکھ کرتا ہو ،انہیں خیر کی تعلیم دیتاہو اور انہیں اس چیز کی طرف بلاتا ہوجس میں ان کے لیے بھلائی ہو ،اسی طرح وہ حکمت والا اور اللہ سے ڈرنے والا ہو، منصف حکام کے طرز پر وہ لوگوں کے معاملات کی نگہداشت کرتا ہو اوردنیاوآخرت میں ان کی بھلائی کا خواہاں ہو ۔
    گویا کہ ربانی علماء فقہ ،علم ،دینی اور دنیاوی امور میں لوگوں کے لیے ستون کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اسی وجہ سے امام مجاہدرحمہ اللہ نے کہا ہے:’’ربانیین کا مقام احبار سے بھی اونچا ہے، احبارعلماء ہوتے ہیں ،جبکہ ربانی عالم ایک ایسے جامع الصفات کا نام ہے جس میں علم و فقہ کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت اور لوگوں کے دینی و دنیاوی معاملات بحسن وخوبی انجام دینے کی صلاحیت ہوتی ہے‘‘[تفسیر الطبری:۶؍۵۴۴]
    حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ربانی عالم کی اس طرح تعریف کی ہے کہ’’ ربانی وہ ہے جو حکمت اورگہری سوجھ بوجھ کا مالک ہو‘‘۔
    ابن عباس کی موافقت ابن مسعود نے کی ہے۔ اور ابراہیم الحربی نے اسے اپنے کتاب ’’غریب الحدیث ‘‘کے اندر صحیح سند سے روایت کیاہے۔
    اصمعی اور اسماعیلی کہتے ہیں: ’’ربانی کی نسبت رب کی طرف ہے جس کا مقصد علم و عمل سے وہی ہوتا ہے جس کا اس کے رب نے اسے حکم دیا ہے‘‘۔ثعلب کہتے ہیں:’’علماء کو ربانی اس وجہ سے کہا گیا ہے کیونکہ وہ علم کی نگہداشت کرتے ہیں ۔ الف اور نون کا اضافہ مبالغہ کے طور پر کیا گیا ہے‘‘
    خلاصئہ کلام یہ ہے کہ اس کی نسبت میں اختلاف ہے آیااس کی نسبت لفظ رب کی طرف ہے یا لفظ تربیہ کی طرف اس اعتبار سے یہاں تربیہ سے مرادعلم ہے اور جو امام بخاری نے بیان فرمایا ہے اس اعتبار سے اس سے مراد علم سیکھنا ہے۔
    اور صغار علم سے مراد ایک قول کے مطابق علم کے واضح مسائل اور کبار علم سے مراد علم کے باریک مسائل ۔دوسرا قول یہ ہے کلیات سے پہلے جزئیات کی تعلیم لوگوں کودینا ،یا فروع سے پہلے اصول کی تعلیم کودینا ،یا مقاصد سے پہلے مبادیات کی تعلیم دینا ۔
    ابن الاعرابی فرماتے ہیں :’’ربانی کو ربانی عالم نہیں کہا جائے گا تاآنکہ وہ باعمل عالم و معلم نہ ہوجائے‘‘[فتح الباری :۱؍۱۶۲]
    علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’لغت میں ربانی اسے کہا جاتا ہے جس کامقام علم میں اونچا ہو اوراسے اس میں بلند رتبہ حاصل ہو۔اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان {لولا ينهاهم الربانيون} اور{كونوا ربانيين} کو علماء نے اسی پر محمول کیاہے۔
    چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ربانیین سے مراد حکماء و فقہاء ہیں ۔
    ابورزین کہتے ہیں ربانیین سے مراد علماء فقہاء ہیں ۔
    ابو عمر الزاہد کہتے ہیں کہ میں نے ثعلب سے لفظ ’’ربانی ‘‘سے متعلق سوال کیاتو انہوں نے کہا کہ میں نے بھی ابن الاعرابی سے اس سے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا’’جوبند ہ عالم ہو ،باعمل ہو نیز معلم بھی ہو تو اسے ربانی عالم کہا جاتاہے ۔لیکن اگر اس کے اندر ان اوصاف میں(عالم باعمل،معلم) سے کسی ایک وصف کی کمی ہو تو اسے ربانی عالم نہیں کہا جائے گا‘‘۔[مفتاح دار السعادۃ:۱؍۱۲۴]


Monday 8 January 2024

قاضی کا شادی شدہ ہونا ضروری ہے یا نہیں

 شریعتِ  میں قاضی کی شخصیت کو غیر معمولی اہمیت اور حیثیت حاصل ہے، اس منصب کے لیے کچھ خاص شرائط مقرر کئی گئی ہیں،ان شرائط کی تفصیل یہ ہے کہ  جس شخص کو قاضی کے منصب پر فائز کیا جارہا ہو وہ مسلمان، عاقل،بالغ،آزاد مرد ہو اور اس کےحواس بھی سالم ہوں۔ البتہ قاضی کا شادی شدہ ہونا   قضا کے منصب کے لیے شرط نہیں۔

لہذا  اگرکوئی عالم ِ دین غیر شادی شدہ ہے تو اس کو قضاء کے منصب پر فائز کرنا جائز ہے،بلکہ عالمِ دین ہونے کی وجہ سے منصبِ قضا کے لیےزیادہ اہل بھی ہیں، قاضی کا شادی شدہ ہونا جب شرعاًشرط نہیں ہےتو  لوگوں کا اس پر اعتراض کرنا درست نہیں۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولا تصح ولاية القاضي حتى يجتمع في المولى شرائط الشهادة كذا في الهداية من الإسلام، والتكليف، والحرية وكونه غير أعمى ولا محدودا في قذف ولا أصم ولا أخرس، وأما الأطرش، وهو الذي يسمع القوي من الأصوات فالأصح جواز توليته كذا في النهر الفائق.ويكون من أهل الاجتهاد، والصحيح أن أهلية الاجتهاد شرط الأولوية كذا في الهداية.حتى لو قلد جاهل، وقضى هذا الجاهل بفتوى غيره يجوز كذا في الملتقط لكن مع هذا لا ينبغي أن يقلد الجاهل بالأحكام وكذلك العدالة عندنا ليست بشرط في جواز التقليد لكنها شرط الكمال فيجوز تقليد الفاسق وتنفذ قضاياه إذا لم يجاوز فيها حد الشرع لكن لا ينبغي أن يقلد الفاسق."

(کتاب ادب القاضی،ج




قاضی کے تعین کی شرائط

اسلامی شریعت میں قاضی کی شخصیت کو غیر معمولی اہمیت اور حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے کوئی بھی اس منصب کے حاصل کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا جب تک اس میں مخصوص شروط نہ پائی جائیں۔ ان شروط میں سے بعض ایسی ہیں جن پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے اور بعض ایسی ہیں جو مخصوص حالات میں فقہاء کے نزدیک متفق علیہ ہیں اور بعض شروط میں فقہاء اسلام کا اختلاف ہے۔

قاضی کے منصب پر تقرری کے کے لیے مطلوبہ شرائط اجمالا درج ذیل ہیں۔

اسلام، بلوغ، عقل، حریت، مرد ہونا، عادل ہونا، اجتہاد کی صلاحیت رکھنا، آنکھوں اور کانوں کا سلامت ہونا، بولنے کی صلاحیت رکھنا وغیرہ۔

مذکورہ شرائط اور ان کے بارے میں فقہاء اسلام کے مختلف مذاہب کی تفصیل درج ذیل گزارش ہے۔

1) شرط اول: اسلام

اس امر پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے درمیان قضاء کے منصب پر تقرری کے لیے قاضی کا مسلمان ہونا شرط ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر کسی غیر مسلم کو قاضی نہیں کیا جا سکتا۔ فقہاء اسلام نے اس شرط کے وجوب کے لیے جو دلائل پیش کئے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

  • قرآن مجید میں ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ کہ ﷲ کافروں کو مومنوں پر ہرگز راہ نہیں دے گا۔ اس لیے اس آیت کی روشنی میں کسی غیر مسلم کی مسلمانوں پر ولایت و حکمرانی جائز نہیں ہو گی۔ اس لیے کسی غیر مسلم کو مسلمانوں پر قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔
  • آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اسلام کو فوقیت حاصل ہے اور اس پر کسی کو بالادستی حاصل نہیں ہو سکتی۔
  • مسلمانوں میں سے فاسق جو منجملہ اسلامی شریعت کا پابند ہوتا ہے، اگرچہ کافر کی بہ نسبت بدرجہا بہتر ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود کسی فاسق کو قاضی مقرر کرنا جائز نہیں۔ فاسق شخص اگر اس منصب کی اہلیت نہیں رکھتا تو کافر تو سرے سے ہی اسلام کا منکر ہے اس کافر کو یہ منصب کیونکر دیا جا سکتا ہے؟
  • اسلام میں شہادت کے لیے گواہوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے اور قضاء کا منصب شہادت سے زیادہ معتبر اور خطرناک ہے۔
  • قضاء کا مقصد احکام شریعت کی روشنی میں تنازعات کا تصفیہ کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ کافر ﷲ تعالی کے احکام کا منکر ہے اور اسلامی شریعت سے جاہل ہے۔ اس لیے وہ اس منصب کے لائق نہیں ہو سکتا۔
اس امر پر اتفاق کے بعد مسلمانوں پر کسی غیر مسلم قاضی کو مقرر نہیں کیا جا سکتا۔

جمہور فقہاء اسلام کے نزدیک ایک غیر مسلم شخص کا اسلامی ریاست کے اندر بسنے والے غیر مسلموں پر بھی بحیثیت قاضی تقرر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فقہاء اپنی تائید میں قرآن، سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے استدلال پیش کرتے ہیں۔

تاہم احناف کی رائے میں غیر مسلم کو غیر مسلموں کے معاملات کا قاضی مقرر کیا جا سکتا ہے ان کے خیال میں ذمی، ذمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا اہل ہے۔ احناف کی دلیل یہ ہے کہ جو آدمی گواہی دینے کا اہل ہو وہ قاضی بھی بن سکتا ہے غیر مسلموں کے معاملات میں غیر مسلمان قاضی کے تعین سے مسلمانوں کے لیے ہرج کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اس کی قضاء صرف غیر مسلموں تک ہی محدود ہو گی۔

2) شرط ثانی: بلوغ

فقہاء اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے بالغ ہونا شرط ہے۔ اور کوئی بھی نابالغ قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ فقہاء اس شرط کے وجوب کے لیے جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

  • ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تین اشخاص کسی قسم کے مواخذہ سے بری الذمہ ہیں سویا ہوا شخص جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے، پاگل جب تک کہ وہ تندرست نہ ہو جائے اور بچہ جب تک کہ وہ بڑا نہ ہو جائے۔
  • چنانچہ اس حدیث میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نابالغ کو شرعی تکالیف اور ذمہ داریوں کے مواخذہ سے بری الذمہ قرار دیا ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نابالغ شخص کسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ چونکہ قضاء ایک منصب، ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل ذمہ داری کا منصب ہے اس لیے کوئی بھی نابالغ شخص اس منصب کا اہل نہیں ہو سکتا۔
  • رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث مبارکہ میں نابالغوں کی حکمرانی سے خداوند ذوالجلال کی پناہ مانگنے کا حکم دیا۔ اور چونکہ پناہ صرف اس چیز سے مانگی جاتی ہے جو بری ہو۔ اس لیے نابالغوں کی حکمرانی سے پناہ مانگنے کا حکم اس امر کی دلیل ہے کہ نابالغ کی حکمرانی جائز نہیں ہے۔ اور اس کو قاضی مقرر نہیں کیا جاسکتا۔
  • نابالغ شخص کی گواہی قابل قبول نہیں اور اس کی بنیاد پر قاضی فیصلہ نہیں کر سکتا اور اگر نابالغ شخص گواہ بننے کا اہل نہیں تو قضاء کا منصب سنبھالنے کا تو قطعی اہل نہیں ہو سکتا۔
  • نابالغ شخص اپنے ذاتی امور میں سے بھی کسی امر میں تصرف کے اختیارات نہیں رکھتا اور اگر وہ اپنے ذاتی امور میں تصرف نہیں کر سکتا تو دوسروں کے معاملات میں اسے تصرف کرنے کے اختیارات کیسے حاصل ہو سکتے ہیں؟
3) شرط ثالث: عقل

فقہاء اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے عقل شرط ہے۔ چنانچہ کسی غیر عاقل یا پاگل و مجنون کو قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ فقہاء اسلام قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے مطلوب شخص میں عقل کی شرط پائے جانے کے لیے جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

1: حضرت عائشہ صدیقہ روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تین اشخاص کسی قسم کے مواخذہ سے بری الذمہ ہیں سویا ہوا شخص جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے، پاگل جب تک کہ وہ تندرست نہ ہو جائے اور بچہ جب تک کہ وہ بڑا نہ ہو جائے۔

2: ایک مجنون شخص اپنی ذات کے بارے میں بھی کسی امر پر تصرف کا اختیار نہیں رکھتا اور اگر وہ اپنی ذات کے بارے میں کسی امر پر تصرف کا اختیار نہیں رکھتا تو دوسروں کے معاملات میں تصرف کس طرح کر سکتا ہے؟

3: شریعت اسلام نے جو عبادات بھی فرض کی ہیں اور جو معاملات بھی مسلمانوں کے لیے جائز قرار دیئے ہیں اس سب کے لیے عقل شرط ہے۔ قضاء ایک ایسا منصب ہے جو اسلامی ریاست میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ اس خطرناک منصب کے لیے وہی شخص اہلیت رکھ سکتا ہے جس کی عقل میں کوئی فتور نہ ہو بلکہ قاضی کا منصب تو اس امر کا متقاضی ہے کہ اس منصب پر مقرر ہونے والا شخص عقل کامل سے بہرہ ور ہو، صحیح و غلط میں تمیز کر سکتا ہو۔

4) شرط رابع: حریت

قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے اس شرط کے وجوب کے بارے میں فقہاء اسلام کے دو اقوال ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

قول اول:

جمہور فقہاء اسلام کے نزدیک ایک شخص کے قضا کے منصب پر تقرری کے لیے اس کا آزاد ہونا بھی شرط ہے۔ اس لیے کسی غلام کو قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔

اس گروپ کا یہ استدلال ہے کہ قضاء ولایت کی ایک قسم ہے جب کہ غلام اپنے آپ پر بھی مکمل ولایت نہیں رکھتا، اس لیے کہ وہ اپنے مالک کی خدمت کے لیے محبوس ہوتا ہے اور نہ تو اپنی ذات کے معاملے میں کسی تصرف کا اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی اپنے اوقات کے استعمال کی اسے آزادی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ جو شخص اپنے ذاتی معاملات کے بارے میں تصرف کا کوئی اختیار نہیں رکھتا وہ دوسرے کے بارے میں تصرف کا اہل نہیں ہو سکتا اور پھر شہادت کے ضمن میں گواہی کے قبول ہونے کے لیے گواہ کا آزاد ہونا شرط ہے اور غلام کی شہادت شرعا قابل قبول نہیں ہوتی اور جب غلام شہادت کا اہل نہیں تو قضا کا منصب کا اہل کس طرح ہو سکتا ہے۔

قول ثانی:

قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے کسی شخص کا آزاد ہونا شرط نہیں۔ چنانچہ کسی غلام کو بھی قاضی مقرر کیا جا سکتا ہے۔ ان میں قاضی شریح، ابن سیرین اور ابن حزم اور بعض حنابلہ بھی اس کی تائید کرتے ہوئے غلام کے قضاء کے منصب پر تقرری کے لیے اس کے آقا کی اس میں اجازت اور رضا مندی سے اس کو مشروط کرتے ہیں۔

5) شرط خامس: الذکورہ (قاضی کا مرد ہونا)

قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے مرد ہونا شرط ہے اور عورت کو کسی صورت میں قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ عورت نہ تو ان معاملات میں قاضی مقرر کی جا سکتی ہے جو صرف مردوں کے درمیان واقع ہوتے ہیں اور نہ ہی ان میں جو مردوں اور عورتوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ اسی طرح عورت کو حدود و قصاص و اموال اور دیگر کسی بھی معاملہ میں قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ جمہور فقهاء اسلام کا یہی مذہب ہے اور وہ اپنے اس مذہب کی تائید میں قرآن کریم، سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم، اجماع امت اور معقولات سے استدلال پیش کرتے ہیں۔

قرآن کریم سے استدلال:

قرآن کریم میں خداء ذوالجلال کا ارشاد ہے:

الرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ

مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ ﷲ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، (سورۃ النساء 34)

اس آیت کریمہ میں مرد کو عورت کا قیم کیا گیا ہے۔ اور یہ آیت کریمہ قیم ہونے کی اس صفت کو مرد کے لیے مختص کرتی ہے۔ چنانچہ اگر عورت کے لیے قضاء کا منصب حاصل کرنا جائز قرار دے دیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوگا کہ عورت کو مرد پر برتری حاصل ہو جائے گی جو صرف مرد کے لیے ہی حق ہے اور اس طرح یہ امر مذکورہ آیت کے حکم کے بالکل خلاف ہو گا۔

سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے استدلال:

حضرت ابو بکرۃ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسری کی بیٹی کو اپنا حکمران مقرر کیا ہے تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے عورت کو اپنے امور کا نگہبان بنایا

اس لیے اسلامی ریاست میں عورت کو کوئی ایسا منصب سپرد نہیں کیا جا سکتا جس میں اسے مسلمانوں پر کسی طرح کی بھی ولایت حاصل ہو۔

احناف کی رائے جمہور کی رائے سے مختلف ہے۔ ان کے رائے یہ ہے کہ حدود و قصاص کے علاوہ باقی معاملات میں عورت قاضی ہو سکتی ہے۔ چونکہ ان معاملات میں اس کی گواہی مرد کے برابر نہیں ہے۔ جبکہ باقی معاملات میں اس کی گواہی برابر ہے۔ اس لیے اس کا قاضی بننا بھی درست ہے۔

امام ابن جریر الطبری سے یہ نقل ہے کہ قاضی کے لیے مرد ہونا ضروری نہیں ہے اس کہ جب عورت مفتی ہو سکتی ہے تو قاضی بھی بن سکتی ہے۔

6) شرط سادس: عدالت

عدالت کا مفہوم یہ ہے کہ اس سے متصف انسان ہمیشہ سچ بولنے والا ہو۔ جو چیز اس کے سپرد کی جائے اس کا امین ہو، گناہوں سے بچتا ہو، کسی ایسے معاملے میں ملوث نہ ہو جو اس کی شخصیت سے متعلق کسی شبہ اور اس کے چال چلن سے متعلق کسی شک کا سبب بنے۔

جمہور فقہاء اسلام کے نزدیک قاضی کے منصب پر تقرری میں عدالت کا پایا جانا شرط ہے۔ چنانچہ کسی ایسے شخص کو قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا جو فاسق ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُـوٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَهَالَـةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْـتُـمْ نَادِمِيْنَ۝

اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔ (سورۃ الحجرات 6)

اس لیے فاسق قاضی نہیں بن سکتا۔

فقہاء احناف میں سے بعض کے نزدیک قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے اس وصف کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ البتہ ایسا شخص دوسروں کے مقابلہ میں افضل اور قضاء کا منصب حاصل کرنے کا زیادہ مستحق ہے جس میں عدالت کا وصف موجود ہو۔ تاہم ان کے نزدیک اگر کسی ایسے شخص کو قاضی مقرر کیا جائے جس میں عدالت کا وصف موجود نہ ہو تو اس کی تقرری بھی درست ہے اور اس کا حکم بھی قابل نفاذ ہو گا۔

7) شرط سابع: اجتہاد

اس شرط کے وجوب کے بارے میں فقہاء اسلام سے تین اقوال منقول ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

قول اول:

قضاء کے منصب کی اہلیت کے لیے اجتہاد شرط ہے۔ چنانچہ کسی ایسے شخص کو قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا جو مقلد ہو اور اجتہاد کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ یہ شوافع اور حنابلہ کا مذہب ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا۝

مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے (سورۃ النساء 59)

اس آیت کریمہ کی رو سے کسی بھی اختلاف اور جھگڑے کی صورت میں ﷲ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے جس کے معنی ﷲ تعالی کی کتاب اور سنت رسول کی طرف رجوع کرنے کے ہیں اور اسی کی روشنی میں تمام تنازعات کا تصفیہ اور فیصلہ کرنے کے ہیں۔ قرآن اور رسول کی طرف وہی شخص رجوع کر سکتا ہے جو اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جہاں تک مقلد کا تعلق ہے تو وہ اپنے امام کے مذہب کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔

قول ثانی:

قضاء کے منصب کی اہلیت کے لیے اجتہاد شرط نہیں ہے۔ کوئی مقلد بھی قاضی ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر کوئی مجتہد موجود ہو تو قضاء کے منصب پر تقرری کے لیے مقلد پر ترجیح دی جائے گی۔ یہ احناف کا مسلک ہے۔ اور مالکیہ کے نزدیک بھی یہی قابل ترجیح ہے۔

ان کی یہ دلیل ہے کہ مجتہد دستیاب ہونا مشکل ہوتا ہے اور اگر قاضی کے لیے اجتہاد کی شرط لازمی قرار دی جائے اور مقلد کے لیے یہ منصب حاصل کرنا جائز نہ رکھا جائے تو موجودہ زمانہ میں شاید ہی کوئی ایسا شخص مل سکے جو قضاء کا منصب حاصل کرنے کا اہل ہو سکے۔

قول ثالث:

بعض مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اگرچہ قاضی کے لیے مجتہد ہونا شرط ہے مگر یہ شرط اس صورت میں قابل عمل ہے جب ایسے لوگوں کا وجود ممکن ہو۔ اگر اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والے موجود نہ ہوں تو مقلدین میں سے سب سے بہتر کو قاضی مقرر کیا جا سکتا ہے۔

8) شرط ثامن: حواس کا سلامت ہونا

قاضی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے حواس سلامت ہوں اور اس میں مندرجہ ذیل چیزیں ضروری ہیں

1: بولنے کی صلاحیت: اس لیے کہ گونگا آدمی نہ کوئی حکم دے سکے گا اور نہ سب لوگ اس کے اشاوں کو سمجھ سکیں گے۔

2: سننے کی صلاحیت: اس لیے کہ بہرے آدمی کو فریقین کی گفتگو ہی سنائی نہ دے گی۔

3: دیکھنے کی صلاحیت: اس لیے کہ اندھے کو یہ پتا ہی نہ چلے گا کہ مدعی کون سا ہے اور مدعی علیہ کون ہے؟ کون اقرار کر رہا ہے اور کون جواب دے رہا ہے؟ اور کس کے حق میں دے رہا ہے؟ (اسلام میں قاضی کے منصب کے لیے مطلوب 


مفتی کے اوصاف

 جو شخص فتوی دینے کے اصول کو ملحوظ رکھ کر فتوی دینے کی صلاحیت واستعداد رکھتا ہے اور اس کی خدمت انجام دے رہا ہے وہ مفتی ہے اورجو شخص کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کا علم رکھتا ہے، لغوی وشرعی معانی پر اس کو عبور ہے، وجوہِ استدلال یعنی خاص، عام، مشترک، موٴول، ظاہر، نص، مفسر، محکم، مجمل، متشابہ، خفی، مشکل، حقیقت، مجاز، صریح، کنایہ، عبارة النص، اشارة النص، دلالة النص، اقتضاء النص اور ان کے ماخذ اشتقاق، ان کی ترتیب، ان کے معانی اصطلاحیہ قطعیت وظنیت، امر ونہی وغیرہ کے درجات، رواةِ احادیث کے احوال وغیرہ جیسے امور میں مہارتِ تامہ رکھتا ہے اور ان سب امور کو ملحوظ رکھ کر استنباط واستخراجِ مسائل پر پوری قدرت اس کو حاصل ہے وہ مجتہد ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو علامہ حازمی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ”کتاب الاعتبار في بیان الناسخ والمنسوخ من الآثار“ علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی ”تدریب الراوی“، ” فتاوی البحر الرائق، فتاوی شامی، حسامی، توضیح تلویح“ وغیرہ۔ (۲) مجتہد کے لیے شرائط واوصاف نیز علوم لازمہ کی جو تفصیل (۱) کے تحت لکھی گئی اس کے پیش نظر اس سوال کا مہمل ہونا ظاہر ہے۔

Sunday 7 January 2024

میت کو قبر میں دایں کروٹ پر قبلہ رخ لٹانا

  میت کو قبر میں  دائیں کروٹ  پر  قبلہ رخ   لٹانے کا حکم ہے،  میت کو قبر میں  دیوار سے ٹیک لگا کر اس طرح سیدھی کروٹ   رکھا جائے گا کہ اس کا رخ قبلہ کی طرف ہو،  يه عمل اس  لیے كيا جاتا هے  كه حديث ميں اسي كا حكم هے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بنی عبد المطلب کے کسی شخص کے انتقال پر اسی کا حکم فرمایا تھا اور چت لٹانے سے منع فرمایا تھا، اور ابو داود شریف میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت الحرام  (کعبة اللہ) تم لوگوں کا قبلہ ہے زندگی میں بھی اور انتقال کے بعد بھی؛ اس لیے میت کو پورے طور پر دائیں کروٹ لٹاکر چہرہ قبلہ کی طرف کیا جائے، چت لٹاکر صرف چہرہ قبلہ کی جانب کردینے پر اکتفا نہ کیا جائے؛ کیوں کہ صرف چہرہ قبلہ کی طرف کرنا اور دائیں کروٹ نہ لٹانا خلافِ سنت اور خلاف افضل ہے۔

"(ویوجّه إلی القبلة علی جنبه الأیمن) بذلك أمر النبي صلى اللہ علیه وسلم، وفي حدیث أبي داود: (سنن أبي داود، کتاب الوصایا، باب ماجاء فی التشدید فی أکل مال الیتیم، ص ۳۹۷، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند): البیت الحرام قبلتکم أحیاء وأمواتاً."

(مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي، کتاب الصلاة، باب أحکام الجنائز، فصل في حملھا ودفنھا، ص ۶۰۹، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

الفتاوى الهندية (1/ 166):

"ويوضع في القبر على جنبه الأيمن مستقبل القبلة، كذا في الخلاصة."

ہینگ کھانا جائز ہے

 ہینگ کھانا جائزہے۔ لأن الأصل في الأشیاء الإباحة․

البتہ ہینگ سے کوئی نشہ آور چیز تیار کرکے استعمال کرنا جائز نہیں