https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 19 April 2024

قبروں پر پھول چڑھانا۔پانی چھڑکنا،میت کو سلام کرنا

 (1) قبر وں پر پھول ڈالنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمۂ مجتہدین سے ثابت نہیں ہے، اس لیے  قبر پر پھول ڈالنا درست نہیں ہے، بلکہ پھول کے بجائے یہ رقم صدقہ وخیرات کرکے میت کو ثواب پہنچادے، یہ زیادہ بہتر ہے، تاکہ میت کو بھی فائدہ ہو اور رقم بھی ضائع نہ ہو۔

 تدفین کے موقع پر قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد پانی چھڑکنا مستحب ہے، اور اس کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد اور اپنے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہما کی قبر پر پانی چھڑکا تھا اور حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر پانی چھڑکنے کا حکم فرمایا تھا۔  ظاہری وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ پانی کے چھڑکنے سے قبر کی مٹی بیٹھ جاتی ہے اور ہوا سے گرد کے ساتھ اڑنے سے بچ جاتی ہے.

(2) جب مردوں کو سلام کیا جاتا ہے تو وہ سلام ان تک پہنچتا بھی ہے اور مردے  اس سلام کو سنتے بھی ہیں۔

(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺکا دو قبروں پر گزر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں مردوں کو عذاب ہورہا ہے،  پھر آپ ﷺ نے کھجور کے درخت کی ایک تر شاخ لے کر اسے درمیان سے چیر کر دو حصہ کردیا، پھر ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر گاڑ دیا، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!  یہ آپ نے کس مصلحت سے کیا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ  امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں، ان سے عذاب ہلکا ہو جاوے۔(مشکاۃ)

شارحینِ حدیث نے اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ عمل صرف حضور ﷺ کے ساتھ خاص تھا؛ کیوں کہ آپ ﷺ کو بذریعہ وحی ان مردوں کے عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی گئی تھی، اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ ﷺ کے اس طرح ٹہنی لگانے سے ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی، اسی لیے آپ ﷺ نے یہ عمل صرف ان ہی دو مردوں کی قبر کے ساتھ کیا تھا، عمومی طور سے آپ ﷺ کا معمول قبروں پر ٹہنی گاڑنے کا نہیں تھا، رسول اللہ ﷺ کے بعد تو کسی کو بذریعہ وحی یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی ہے کہ کس قبر والے کو عذاب ہورہا ہے اور کس کو نہیں، اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی آپ ﷺ کے بعد  اس عمل کو اپنا معمول نہیں بنایا، لہٰذا قبروں کی مٹی پر باقاعدہ پودے لگانے کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے دو معذب (عذاب میں مبتلا) لوگوں کی قبروں پر ٹہنی لگانے کی طرح نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اس بارے میں تفصیلی کلام اور دلائل حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’اختلاف امت اور صراط مستقیم‘‘ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (5 / 4):
’’أنكر الخطابي ومن تبعه وضع الجريد اليابس، وكذلك ما يفعله أكثر الناس من وضع ما فيه رطوبة من الرياحين والبقول ونحوهما على القبور ليس بشيء‘‘. 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 237):
"(ولا بأس برش الماء عليه) حفظًا لترابه عن الاندراس.

(قوله: ولا بأس برش الماء عليه) بل ينبغي أن يندب؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم فعله بقبر سعد»، كما رواه ابن ماجه، «وبقبر ولده إبراهيم»، كما رواه أبو داود في مراسيله، «وأمر به في قبر عثمان بن مظعون»، كما رواه البزار، فانتفى ما عن أبي يوسف من كراهته؛ لأنه يشبه التطيين، حلية

نظر بد کی شرعی حیثیت

  • ہر نظر لگانے والا حاسد ہوتا ہے جبکہ ہر حاسد نظر لگانے والا نہیں ہوتا۔ چنانچہ حاسد نظر لگانے والے سے زیادپناہ ۔

    نظرِ بد: حاسد اور عائن یعنی نظر بد لگانے والے کی طرف سے حسد اور نظر بد سے متاثر شخص کے خلاف چلائے گئے نظر کے تیر ہوتے ہیں جو کبھی اسے لگ جاتے ہیں اور کبھی وہ بچ جاتا ہے، جب یہ تیر ایسی حالت میں چلیں جس وقت محسود یا عین زدہ شخص نے اپنے آپ کو شرعی تحفظ نہ دیا ہوا ہو تو یہ تیر اس پر اثر انداز ہو جاتے ہیں، اور اگر اس شخص نے اپنے آپ کو شرعی تحفظ دیا ہوا ہو تو پھر نظر بد کے یہ تیر اثر انداز نہیں ہو پاتے بلکہ بسا اوقات ممکن ہے کہ یہ نظر بد واپس عائن شخص کو ہی نقصان دے دے" ختم شد
    ماخوذ از: زاد المعاد

    نظر لگنے سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے احادیث ثابت ہیں، چنانچہ انہی میں سے صحیح بخاری و مسلم کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت بھی ہے، آپ کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے حکم دیا کرتے تھے کہ میں نظر بد سے دم کرواؤں) اسی طرح صحیح مسلم، مسند احمد، اور ترمذی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نظر بد اثر رکھتی ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب ہوتی تو نظر بد ہوتی، جب تم سے غسل کے پانی کا مطالبہ کیا جائے تو تم غسل کر کے پانی دے دو) اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کرنے کے بعد اسے صحیح قرار دیا، اسی طرح البانیؒ نے بھی سلسلہ صحیحہ: (1251) میں صحیح قرار دیا ہے۔

    اسی طرح امام ترمذی : (2059) نے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے ، آپ کہتی ہیں کہ : "اللہ کے رسول! جعفر کی اولاد کو نظر بہت لگتی ہے، تو کیا میں ان پر کسی سے دم کروا لوں؟" تو آپ نے فرمایا: ( ہاں، کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب ہوتی تو نظر بد ہوتی ) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔

    ایسے ہی ابو داود میں سیدہ عائشہ رضی للہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کہتی ہیں: "عائن شخص کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے اور عین زدہ شخص اس کے پانی سے غسل کرے۔" اسے البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

    اسی طرح امام احمد: (15550) ، اور امام مالک: (1747) ، نسائی، ابن حبان نے روایت کیا ہے اور البانی نے مشکاۃ: (4562) میں سہل بن حنیف سے نقل ہے کہ وہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مکہ کی جانب عازم سفر ہوئے اور جب جحفہ کے قریب شعب خرار نامی جگہ پہنچے تو سہل بن حنیف نے غسل کرنا شروع کیا ، سہل کی رنگت گوری اور خوبصورت تھی، انہیں غسل کرتے ہوئے بنی عدی بن کعب کے عامر بن ربیعہ نے دیکھا تو عامر یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ: "آج سے پہلے میں نے اتنی صاف رنگت والی جلد کبھی نہیں دیکھی" یہ کہنا ہی تھا کہ سہل فوری طور پر زمین پر گر گئے، پھر انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ: اللہ کے رسول! کیا آپ سہل کا کچھ کریں گے، اللہ کی قسم وہ تو اپنا سر بھی نہیں اٹھا پا رہا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہیں کس پر شک ہے؟ انہوں نے کہا: عامر بن ربیعہ نے اسے دیکھا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر کو بلایا اور ڈانٹ پلائی، اور فرمایا: (اپنے بھائی کو [نظر بد کے ذریعے] کیوں مارتے ہو؟! جب تو نے اپنے بھائی میں کوئی اچھی چیز دیکھی تو اس کے لیے برکت کی دعا کیوں نہیں کی؟!، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر بن ربیعہ کو حکم دیا کہ سہل بن حنیف کو غسل کا پانی مہیا کرنے کے لیے غسل کرے ۔ تو عامر بن ربیعہ نے اپنا چہرہ، دونوں ہاتھ ، کہنیاں، پاؤں گھٹنوں تک اور تہہ بند کے اندرونی حصے کو ایک بڑے پیالے میں دھوئے، پھر اس پانی کو سہل پر ڈال دیا گیا، پانی ایک آدمی نے سہل کے سر، اور پیچھے سے کمر پر ڈالا، اور پھر اس پیالے کو اس کے پیچھے انڈیل دے۔ انہوں نے ایسے ہی کیا تو سہل بن حنیف اٹھ کر لوگوں کے ہمراہ چل پڑے جیسے انہیں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔)

    تو مذکورہ احادیث اور دیگر دلائل سمیت مشاہدے کی بنا پر جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ نظر لگ سکتی ہے ۔

    آپ نے جو حدیث سوال میں ذکر کی ہے کہ " قبروں میں مدفون لوگوں کی ایک تہائی نظر بد کی وجہ سے ہے " تو ہمیں اس کی صحت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ البتہ نیل الاوطار میں ہے کہ بزار نے حسن سند کے ساتھ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میری امت میں قضا و قدر کے بعد سب سے زیادہ لوگ نظر لگنے کی وجہ سے فوت ہوتے ہیں۔)

    مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو شیاطین اور سرکش جن و انس سے محفوظ رکھے اور اس کے لیے اللہ تعالی پر مضبوط ایمان، اللہ تعالی پر مکمل بھروسا، توکل علی اللہ، اور اللہ تعالی سے گڑگڑا کر مانگی گئی دعاؤں کا سہارا لے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ حفاظتی دعائیں پڑھے، سورت الفلق اور سورت الناس کثرت سے پڑھے، سورت اخلاص، سورت فاتحہ اور آیت الکرسی کی تلاوت کرتا رہا کرے۔ ذاتی تحفظ کے لیے نبوی دعاؤں میں سے کچھ یہ ہیں:
    أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ
    یعنی: میں اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ حاصل کرتا ہوں ، اللہ کی مخلوقات کے شر سے۔

    أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ ، وَمِنْ شَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِيْنِ وَأَنْ يَّحْضُرُوْنَ
    یعنی: میں اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ حاصل کرتا ہوں اللہ کے غضب سے، اللہ کی سزا سے، اللہ کے بندوں کے شر سے، اور شیاطین کے پاگل پن سے اور اس بات سے کہ شیطان میرے پاس آئیں۔

    اسی طرح فرمانِ باری تعالی کثرت سے پڑھیں:
    حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
    ترجمہ: مجھے اللہ ہی کافی ہے جس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، میں اسی پر بھروسا کرتا ہوں اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔[التوبہ: 129] اسی طرح کی دیگر مسنون اور ثابت شدہ دعائیں بھی پڑھے، ابن قیم رحمہ اللہ کی جواب کے آغاز میں ذکر کی گئی گفتگو کا مطلب بھی یہی ہے۔

    اگر عائن شخص [جس کی نظر لگی ہو اس ] کا علم ہو جائے ، یا کسی کے بارے میں شک ہو کہ اس کی نظر لگی ہے تو پھر ایسے عائن شخص کو متاثرہ مریض کے لیے غسل کرنے کا حکم دیا جائے گا، چنانچہ ایک بڑے برتن میں پانی لے کر اس پانی میں اپنا ہاتھ ڈالے ، پھر کلی اسی برتن میں کرے، اسی برتن میں اپنا چہرہ دھوئے، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو استعمال کرتے ہوئے دائیں گھٹنے پر پانی ڈالے اور گھٹنے سے پانی برتن میں گرائے، پھر دایاں ہاتھ استعمال کرتے ہوئے بائیں گھٹنے پر پانی ڈالے ، اور اپنی تہبند اسی پانی میں دھوئے، اور پھر عین زدہ شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر یک بارگی یہ سارا پانی اس پر انڈیل دے، اللہ کے حکم سے وہ شفا یاب ہو جائے گا۔
    " فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء " ( 1 / 186 )

    اسی طرح شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
    کیا انسان کو نظر لگ جاتی ہے؟ اور پھر اس کا علاج کیسے کیا جائے گا؟ کیا ذاتی تحفظ کے لیے اقدامات کرنا توکل کے منافی ہے؟

    تو انہوں نے جواب دیا:
    نظر لگنے کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ نظر لگ جاتی ہے اور اس کا ثبوت شرعی بھی ہے اور مشاہداتی بھی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
    وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ 
     ترجمہ: اور عین ممکن ہے کہ کافر لوگ آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں۔[القلم: 51]
    اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سمیت دیگر مفسرین بھی یہ کہتے ہیں کہ: یہاں مطلب یہ ہے کہ آپ کو نظر بد سے دو چار کر دیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (نظر اثر رکھتی ہے، اور اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آ سکتی ہوتی تو وہ نظر بد ہوتی، جب تم سے [نظر بد کے علاج کے لیے] غسل کا پانی طلب کیا جائے تو تم غسل کر کے دے دو ) اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح سنن نسائی اور ابن ماجہ میں عامر بن ربیعہ کا واقعہ بھی ہے کہ وہ سہل بن حنیف کے پاس سے اس وقت گزرے جب وہ غسل کر رہے تھے ۔۔۔ پھر مکمل واقعہ ذکر کیا۔

    اسی طرح زمینی حقائق اور مشاہداتی واقعات بھی اس کے گواہ ہیں، ان کا انکار ممکن نہیں ہے۔

    اگر کسی کو نظر بد لگ جائے تو پھر اس کا شرعی علاج کئی طریقوں سے ممکن ہے:

    1-دم کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (نظر بد اور بخار کے علاوہ دم ہے ہی نہیں۔) ترمذی: (2057) ابو داود: (3884)۔ اسی طرح سیدنا جبریل بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دم کرتے ہوئے کہتے تھے: بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيْكَ ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيْكَ ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ ، اللهُ يَشْفِيْكَ ، بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيْكَ یعنی: اللہ کے نام سے میں آپ کو دم کرتا ہوں، آپ کو تکلیف دینے والی ہر چیز سے، ہر جان اور حاسد آنکھ کے شر سے ، اللہ آپ کو شفا دے گا، میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں۔

    2-عائن شخص سے غسل کا پانی لے کر غسل کرنا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر بن ربیعہ کو گزشتہ حدیث میں غسل کا پانی دینے کا حکم دیا اور پھر نظر زدہ شخص پر وہ پانی ڈال دیا گیا۔

    لیکن عائن شخص کے پیشاب یا پاخانے کے فضلے کو لینا تو اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اسی طرح عائن شخص کے آثار کو لینے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث مبارکہ میں صرف یہی ہے کہ عائن شخص کے اعضا اور تہبند کے اندرونی حصے کو دھو کر پانی سے غسل کیا جائے، یہ ممکن ہے کہ تہبند کے حکم میں سر کے رومال، ٹوپی اور قمیص کا اندرونی حصہ بھی شامل ہو جائے۔ واللہ اعلم

    نظر بد سے بچاؤ کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ توکل کے منافی بھی نہیں ہے، بلکہ یہی توکل ہے؛ کیونکہ توکل در حقیقت اللہ تعالی پر اعتماد کے ساتھ ایسے اسباب اپنانے کو کہتے ہیں جو شریعت میں جائز ہیں ۔ اسباب اپنانے کا اللہ تعالی نے حکم بھی دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو پیشگی دم کیا کرتے تھے اور فرماتے: أُعِيْذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ یعنی: میں تم دونوں کو اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان ، زہریلی چیز اور ہر نظر بد کے شر سے۔

    اس حدیث کو ترمذی: ( 2060 ) اور ابو داود: ( 4737 )نے روایت کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ بھی فرماتے تھے کہ: (سیدنا ابراہیم علیہ السلام اسحاق اور اسماعیل دونوں کو ایسے ہی دم کیا کرتے تھے۔) بخاری: (3371)

    " فتاوی شیخ ابن عثیمین " ( 2 / 117 ، 118) 

    موضوع کا آغاز کرنے و
  •  نظر لگنا برحق ہے اور یہ شرعی اور حسی طور پر ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَيُزۡلِقُونَكَ بِأَبۡصَٰرِهِمۡ﴾--القلم:51
''اور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔''
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«اَلْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدْرَ سَقَبَتُْ الْعَيْنُ، وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا»سنن ابی داود، الطب، باب فی الطیرة،
حدیث: ۳۹۲۵ وجامع الترمذی، الاطعمة، باب ماجاء فی الاکل مع المجزوم، حدیث: ۱۸۱۷۔
''نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔''
اسی طرح امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، جب کہ وہ غسل کر رہے تھے اتفاق سے انہوں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ: ''میں نے آج تک کسی کنواری دو شیزہ کی بھی اس طرح کی جلد نہیں دیکھی۔'' یہ کہنا تھا کہ سہل بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا اور عرض کیا گیا: سہل بے ہوش ہو کر گر گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ''تم ان کے بارے میں کس کو مورد الزام ٹھہراتے ہو؟'' صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: عامر بن ربیعہ کو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاهُ إِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مِنْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَکَة»سنن ابن ماجه، الطب، باب العین، ح:۳۵۰۹ وسنن الکبری للنسائی: ۴/ ۳۸۱۔
''تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے کے درپے کیوں ہے؟ تم میں سے کوئی جب اپنے بھائی کی کوئی خوش کن بات دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔''
پھر آپ صل اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، دونوں گھٹنوں اور ازار کے اندر کے حصے کو دھویا اور پھر آپ نے حکم دیا کہ وہ پانی نظر لگے ہوئے شخص پر بہا دیں۔''
جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے:
«بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ، مِنْ کُلَّ شَيْئٍ يُؤْذِيْکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰهُ يَشْفِيْکَ، بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ»صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶۔
''اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہ کو ان کلمات کے ساتھ دم کیا کرتے تھے:
«أَعِيْذُکَمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ وَمِنْ کُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ»صحیح البخاری، احادیث الانبیاء
اور ایک جگہ یہ دعا بھی موجود ھے۔۔۔۔
((اَللَّھُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْھِبَ الْبَسِ اِشْفِ اَنْتَ الشَّافِی لاَ شَافِیَ اِلاَّ اَنْتَ شِفَائً لاَّ یُغَادِرُ سَقَمًا ))
اے اللہ لوگوں کے رب بیماری دور کرنے والے شفا دے دے تو ہی شفا دینے والا ہے تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے ایسی شفا عطا فرما جو کسی قسم کی بیماری نہ چھوڑےـ
بخاری (5742) ابو داؤد (3890) ترمذی (973)  
  • پسند
 Re
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : العين حق نظر (کا لگنا) حق ہے۔ [الصحيفة الصحيحة تصنيف همام بن منبه : 131، صحيح بخاري : 5470 و صحيح مسلم : 2187، 5701، مصنف عبدالرزاق 18/11 ح 29778، مسند احمد 319/2 ح 8245 و سنده صحيح وله طريق آخر عند ابن ماجه : 3507 و سنده صحيح و رواه احمد 487/2]
❀ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : العين حق نظر (کا لگنا) حق ہے۔ [صحيح مسلم : 2188، 5702]
❀ سیدنا حابس التمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : والعين حق اور نظر برحق ہے۔ [سنن الترمذي : 2061 و سنده حسن، مسند احمد 67/4 حية بن حابس صدوق وثقه ابن حبان و ابن خزيمه كما يظهر من اتحاف المهرة 97/4 وروي عنه يحييٰ بن ابي كثير وهولايروي إلاعن ثقة عنده]
❀ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! بنو جعفر (طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بچوں) کو نظر لگ جاتی ہے تو کیا میں ان کو دم کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم ولو كان شئ يسبق القدر لسبقته العين. جی ہاں ! اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جاتی تو وہ نظر ہوتی۔ [السنن الكبريٰ 348/9 وسنده صحيح، سنن الترمذي : 2059 وقال : “حسن صحيح” و للحديث شاهد صحيح فى صحيح مسلم 2198 [5726] ]
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے) حکم دیا کہ نظر کا دم کرو۔ [صحيح بخاري : 5738 و صحيح مسلم : 2195 5720۔ 5722]
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر کے (علاج کے) لئے دم کی اجازت دی ہے۔ [صحيح مسلم : 2196 5724]
❀ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کے بارے میں فرمایا : استرقوا لھا فإن بھا النظرۃاسے دم کرواؤ کیونکہ اسے نظر لگی ہے۔ [صحيح بخاري : 5739 و صحيح مسلم : 2197، 5725]
❀ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر لگ جانے پر دم کی اجازت دی ہے۔ [ديكهئے صحيح مسلم : 2198، 5726]
❀ سیدنا بریدہ بن الحصیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ دم صرف نظر یا ڈسے جانے کے لئے ہے۔ [صحيح مسلم : 220، 527]
❀ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا رقية إلا من عين أوحمة. دم صرف نظر اور ڈسے ہوئے (کے علاج) کے لئے ہے۔ [سنن ابي داود : 3884 و سنده صحيح، ورواه البخاري : 5705 موقوفاً و سنده صحيح و المرفوع و الموقوف صحيحان والحمدلله]
❀ سیدنا ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد سہل بن حنیف (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے غسل کیا تو عامر بن ربیعہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے انہیں دیکھ لیا اور کہا: میں نے کسی کنواری کو بھی اتنی خوبصورت جلد والی نہیں دیکھا۔ سہل بن حنیف (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) شدید بیمار ہو گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا : تم اپنے بھائیوں کو کیوں قتل کرنا چاہتے ہو ؟ تم نے برکت کی دعا کیوں نہیں کی ؟ إن العين حق بے شک نظر حق ہے۔ [موطأ امام مالك 938/2 ح 1801 و سنده صحيح و صححه ابن حبان، الموارد : 1424]
↰ ان روایات سے معلوم ہوا کہ نظر لگنے کا برحق ہونا متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ سورۂ یوسف کی آیت نمبر 67 سے بھی نظر کا برحق ہونا اشارتاً ثابت ہوتا ہے۔
علاج : 
↰ نظر کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ نظر لگانے والے کے وضو (یا غسل) کے بچے ہوئے پانی سے اسے نہلایا جائے جسے نظر لگی ہے۔ دیکھئے : [موطأ امام مالک 938/2 ح 1810 و سندہ صحیح]
یا درج ذیل دعا پڑھیں :
✿ [أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّآمَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ وَّمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَّامَّةٍ]
اللہ کے پورے کلمات کے ساتھ اس کی پناہ چاہتا ہوں ہر ایک شیطان اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے۔ [صحيح بخاري)
  • پسند
 Reacti
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علماء کے نزدیک نظر لگانے والے کے وضو کی صورت یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ تحقیق ہو کہ اس نے نظر لگائی ہے کہ اس کے سامنے کسی برتن یعنی پیالہ وغیرہ میں پانی لایا جائے اس برتن کو زمین پر نہ رکھا جائے پھر نظر لگانے والا اس برتن میں سے ایک چلو پانی لے کر کلی کرے اور اس کلی کو اسی برتن میں ڈالے پھر اس سے پانی لے کر اپنا منہ دھوئے پھر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر دائیں کہنی اور دائیں ہاتھ میں پانی لے کر بائیں کہنی دھوئے اور ہتھیلی و کہنی کے درمیان جو جگہ ہے اس کو نہ دھوئے پھر داہنا پیر اور پھر اس کے بعد بایاں پیر دھوئے، پھر اسی طرح پہلے داہنا گھٹنا اور بعد میں بایاں گھٹنا دھوئے اور پھر آخر میں تہبند کے اندر زیر ناف جسم کو دھوئے اور ان سب اعضاء کو اسی برتن میں دھویا جائے، ان سب کو دھونے کے بعد اس پانی کو نظر زدہ کے اوپر اس کی پشت کی طرف سے سر پر ڈال کر بہا دے 
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس شخص کو نظر بد کسی انسان کی لگ گئی ہو اس پر یہ آیات: وَإِنْ یَکَادُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَیُزْلِقُونَکَ بِأَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَیَقُولُونَ إِنَّہُ لَمَجْنُونٌ، وَمَا ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ لِلْعَالَمِینَ․ (سورہٴ قلم) پڑھ کر دم کردینا اس کے اثر کو زائل کردیتا ہے۔ مظہری (معارف القرآن: ۸/ ۵۳۹) معوذتین (سورہٴ ناس وفلق) پڑھ کر بھی دم کردیا کریں۔


کافرکو کافر کہنا

 اگر کسی کا یہ نظریہ ہے کہ اسلام کافر کو کافر کہنے سے منع کرتا ہے اور کافر کو کافر نہیں کہہ سکتے خواہ وہ قرآن کا منکر ہو یا رسالت کا تو  یہ نظریہ درست نہیں قرآن و حدیث کے خلاف ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں جابجا اہل کفر پر کافر اور کفار کا اطلاق آیا ہے البتہ اگر کسی خاص موقع پر کافر کو کافر کہنے میں کسی فتنے یا دینی نقصان یا ایذاء کا اندیشہ ہوتو پھر مصلحتا کافر کو صراحتا کافر نہ کہا جائے لیکن اس سے کفر کی نفی بھی نہ کی جائے جہاں تک مسئلہ ہے کافروں کے بارے میں اس بات کا عقیدہ رکھنے کا کہ یہ کافر ہے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوگا آدمی فی الحال کا مکلف ہے فی المآل آئندہ کا نہیں ورنہ مسلمان کے بارے میں بھی یہ احتمال نکل سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آئندہ کافر ہو جائے لہٰذا اس کو بھی مسلمان کہنا درست نہ ہوگا۔ قل یا أیہا الکافرون لا أعبد ما تعبدون (القرآن) لو قال لیہودی أو مجوسي یا کافر یأ ثم إن شق علیہ کذا فی القنیة (فتاوی ہندیہ: ۵/۴۰۲، ط: اتحاد دیوبند) وکذلک انعقد إجماعہم علی أن مخالفة السمع الضروری کفر وخروج عن الاسلام (اکفار الملحدین: ۱۲۹، ط: دارالبشائر الاسلامیہ) أن کل ما یکرہہ الانسان إذا نودی بہ فلا یجوز لأجل الأدبة (تفسیر قرطبی: ۱۹/۳۹۴، ط: موسسة الرسالة) ۔

Thursday 18 April 2024

چہرے کا پردہ

 عورت کے لیے غیر محرم سے پردہ سر سے لے کر پاؤں تک تمام اعضاء کا ہے، خصوصاً چہرے  کا پردہ اس لیے کہ باعثِ کشش اور ذریعۂ فتنہ عورت کا چہرہ ہی ہے، ورنہ دوسرے بدن پر تو اس نے لباس پہن ہی رکھا ہوتا ہے!

قرآنِ کریم بھی ہمیں اس کی طرف راہ نمائی کرتا ہے کہ عورت کے چہرہ کا پردہ ہے، چنانچہ ارشاد ہے: 
{یا ایها النبی قل لازواجك و بنٰتك و نسآء المؤمنین یدنین علیهن من جلابیبهن} (الاحزاب:۵۹ )
ترجمہ: ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی ازواجِ مطہرات، اپنی بیٹیوں اور مؤمن عورتوں سے فرمادیجیے کہ اپنے (چہروں) پر پردے لٹکالیا کریں۔‘‘
اسی طرح یہ حکم بھی چہرے کے پردے کی طرف متوجہ کرتا ہے: 
{واذا سألتموهن متاعاً فاسئلوهن من وراء حجاب} (الاحزاب:۵۳)
ترجمہ: ’’جب ازواج مطہرات سے کچھ پوچھنا ہو تو پردے کے پیچھے سے پوچھا کریں۔‘‘ 

احادیثِ مبارکہ سے بھی عورت کے چہرے کے پردے کا ثبوت ملتاہے، اِحرام کے دوران جب کہ عورت کے لیے چہرے پر کپڑا لگائے رکھنا منع ہوتاہے، اس حال میں بھی صحابیات رضی اللہ عنہن اجنبی مردوں سے چہرہ چھپایا کرتی تھیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قافلہ سے بچھڑ جانے والے قصہ میں ان کا یہ فرمانا : قافلے سے پیچھے آنے والے صحابی کے ’’انا للہ‘‘ پڑھنے پر میں فوراً  نیند سے بیدار ہوگئی اور اپنا چہرہ چھپالیا۔ یہ بھی  اس بات کی دلیل ہےکہ عورت کے چہرے کا پردہ فرض ہے۔

جب خیر القرون میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن جیسی پاکیزہ و مقدس ہستیوں کو یہ حکم ہوا تو  پندرہویں صدی کے اس شر و فتنہ کے دور اور مادر پدر آزاد ماحول کے آزاد خیال مردوں سے عورت کو چہرہ کے پردہ کا حکم کیوں نہ ہوگا؟

عورت کے چہرے کا پردہ صرف اجماع کی وجہ سے یا صرف فتنے کے زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ بہت سی نصوص سے چہرے کا پردہ ثابت ہے، اور خیر القرون میں جب ازواجِ مطہرات اور صحابیات رضوان اللہ علیہن کو چہرے کے پردے کا حکم تھا اور انہوں نے اس کا اہتمام کیا تو اس دور میں بدرجہ اولیٰ مؤمنات کو چہرے کے پردے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آیاتِ حجاب کی تفسیر میں چہرہ چھپانے اور صرف ایک یا دونوں آنکھیں کھلی رکھنے کی اجازت نقل فرمائی ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:   

 ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب عورتیں کسی ضرورت کے تحت اپنے گھروں سے نکلیں تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ وہ بڑی چادروں کے ذریعہ اپنے سروں کے اوپر سے اپنے چہروں کو ڈھانپ لیں اور صر ف ایک آنکھ کھلی رکھیں اور محمد بن سیرین ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدۃ السلمانی سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : {یدنین علیهن من جلابیبهن} کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنے سر اور چہرہ کو ڈھانپ کر اور بائیں آنکھ کھول کر ا س کا مطلب  بتلایا‘‘۔

  (تفسیر ابن کثیر للإمام أبي الفداء الحافظ ابن کثیر الدمشقي ، سورة الأحزاب: تحت الآیة: {یدنین علیهن من جلابیبهن ...الخ: ۳؍۵۳۵۔ ط:قدیمی کراچی

نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت

 چالیس دن نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت ہے، نفاس کی کم سے کم کوئی مدت متعین نہیں ہے، تھوڑی دیر بھی خون آکر بند ہوسکتا ہے۔لہٰذا نفاس کی مدت میں چالیس دن کا مکمل ہونا ضروری  نہیں ، بلکہ جب  رحم سے آنے والا خون بند ہو اورعورت پاک ہوجائے  تو غسل کرکے نمازیں شروع کردے۔ خواہ پیدائش آپریشن سے ہوئی ہو یا نہیں۔

"لا حد لأقلہٖ"۔ (تنویر الابصار بیروت ۲؍۴۳۱)

"فلو ولدتہ من سرتہا إن سال الدم من الرحم فنفساء وإلا فذات جرح"۔ (درمختار بیروت ۱؍۴۳۰،)

"المرأۃ إذا ولدت ولم تر الدم ہل یجب علیہا الغسل والصحیح أنہ یجب"۔ (عالمگیری۱؍۱۶)ف

حیض کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت

  

(۱) حیض کی کم سے کم مدت تین دن، اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے، اگر کسی عورت کو تین سے کم یا دس دن سے زیادہ خون آیا تو وہ حیض شمار نہ ہوگا، بلکہ بیماری شمار ہوگا۔ اس میں نماز پڑھنا ضروری ہے، تلاوت بھی کرسکتی ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ ہمبستری بھی کرسکتی ہے، مکر ہمبستری میں احتیاط کرنی چاہیے۔

Wednesday 17 April 2024

ایام حیض کونسے شمار ہوں گے

 صورتِ مسئولہ میں جس عورت کے بارے میں پوچھا جارہا ہے، اگرسوال میں  اس عورت کی ماہواری کے دنوں کی عادت بیان کردی جاتی، تو حتمی جواب دینے میں آسانی ہوتی، تاہم یہاں اصولی طور پر جواب دیا جارہا ہے۔

جس عورت کے حیض کی عام عادت  پوری ہونے کے بعد دو دن/تین دن خون آیا، اورپھر چھ/  سات دن پھر خون آیا،تو  یہ خون  استحاضہ شمار ہوگا ، استحاضہ کے دنوں میں روزہ بھی رکھے گی اور نماز بھی پڑھے گی، 

مذکورہ خاتون کا آنے والا خون اگر دس دن سے پہلے بند ہو جائے تو یہ تمام ایام ناپاکی کے شمار ہوں گے، اور خاتون کی عادت کی تبدیلی کا حکم لگایا جائے گا، لہذا ان دنوں میں نماز اور روزہ کا حکم نہیں ہو گا۔

  البتہ اگر دوبارہ آنے والا خون دس دن  کے بعد بھی جاری رہا تو اس صورت میں عادت سے زائد ایام میں آنے والا خون استحاضہ شمار ہوگا، جس کا حکم یہ ہے کہ اس حالت میں خاتون ہر نماز کے وقت کے لیے طہارت حاصل کرکے (تجدیدِ وضو کرکے )  تمام عبادات کرنے کی پابند ہوگی، اور جتنے دنوں کی نمازیں یا روزے رہ گئے تھے ان کی قضا کرنے کی پابند ہوگی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"الطھر المتخلل بین الدمین والدماء فی مدۃ الحیض یکون حیضاً ولو خرج أحد الدمين عن مدة الحيض بأن رأت يوما دما وتسعة طهرا ويوما دما مثلا لا يكون حيضا لأن الدم الأخير لم يوجد في مدة الحيض."

(كتاب الطهارة ، الفصل الاول في الحيض ج : 1 ص : 36 ط : رشيدية)

وفیه أیضاً:

"فان لم یجاوز العشرۃ فالطھر والدم کلاھما حیض سواء کانت مبتدأۃ او معتادۃ وان جاوز العشرۃ ففی المبتدأۃ حیضھا عشرۃ ایام وفی المعتادۃ معروفتھا فی الحیض حیض والطھر طھر."

(كتاب الطهارة ، الفصل الاول في الحيض ج : 1 ص  :37 ط : رشيدية)

اجماع کاانکار کیسا ہے

 اجماع کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں(۱) اجماع قولی (۲) اجماع عملی (۳) اجماع سکوتی اور پھر اجماع کرنے والوں کے اعتبار سے اجماع کے حسبِ ذیل تین درجات ہیں:

۱۔سب سے قوی درجہ کا اجماع وہ ہے جو تمام صحابہ کرام نے عملی یا زبانی طور پر صراحتاً کیا ہو،اس کے حجت ِ قطعیہ ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے ۔

۲۔دوسرا درجہ صحابہ کرام کے ”اجماع سکوتی“ کا ہے یہ بھی اگر چہ حنفیہ سمیت بہت سے فقہاء کے نزدیک حجت قطعیہ ہے ،مگر اس کا منکر کافر نہیں۔

۳۔تیسرے درجہ کا وہ اجماع ہے جو صحابہ کرام کے بعد کسی زمانے کے تمام فقہاء نے کیا ہو یہ جمہور کے نزدیک حجت ہے مگر حجتِ قطعیہ نہیں اور اس کا منکر بھی کافر نہیں۔تین طلاق کا مسئلہ اگرچہ اجماع صحابہ سے ثابت ہے مگر اجماعِ سکوتی سے ثابت ہے ؛اس لیے اس کے منکر کو کافر نہیں کہیں گے ۔

وَقَوْلُ بَعْضِ الْحَنَابِلَةِ الْقَائِلِینَ بِہَذَا الْمَذْہَبِ: تُوُفِّیَ رَسُولُ اللَّہِ - صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - عَنْ مِائَةِ أَلْفِ عَیْنٍ رَأَتْہُ فَہَلْ صَحَّ لَکُمْ عَنْ ہَؤُلَاءِ أَوْ عَنْ عُشْرِ عُشْرِ عُشْرِہِمْ الْقَوْلُ بِلُزُومِ الثَّلَاثِ بِفَمٍ وَاحِدٍ بَلْ لَوْ جَہَدْتُمْ لَمْ تُطِیقُوا نَقْلَہُ عَنْ عِشْرِینَ نَفْسًا بَاطِلٌ، أَمَّا أَوَّلًا فَإِجْمَاعُہُمْ ظَاہِرٌ، فَإِنَّہُ لَمْ یُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ مِنْہُمْ أَنَّہُ خَالَفَ عُمَرَ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ - حِینَ أَمْضَی الثَّلَاثَ، وَلَیْسَ یَلْزَمُ فِی نَقْلِ الْحُکْمِ الْإِجْمَاعِیِّ عَنْ مِائَةِ أَلْفٍ أَنْ یُسَمَّی کُلٌّ لِیَلْزَمَ فِی مُجَلَّدٍ کَبِیرٍ حُکْمٌ وَاحِدٌ عَلَی أَنَّہُ إجْمَاعٌ سُکُوتِیٌّ․ (فتح القدیر:3/470،الناشر: دار الفکر)

مفادکے لئے اپنے آپ کو غیر مسلم ظاہر کرنا

 فرمان باری تعالی ہے:

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ: جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، الّا یہ کہ وہ مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو [تو یہ معاف ہے] مگر جس نے کھلے دل سے کفر قبول کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے [النحل: 106]

اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ آیت جہم بن صفوان اور اس کے پیروکاروں کے موقف کو غلط قرار دیتی ہے؛ کیونکہ اس آیت کی رو سے جس نے بھی کلمہ کفر کہا اسے وعیدی کافروں میں شمار کیا گیا ہے، ماسوائے ایسے شخص کے جسے مجبور کیا گیا اور اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا۔
اگر اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا جائے کہ: اللہ تعالی نے تو یہ فرما دیا ہے کہ:

 وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا [یعنی جس نے شرح صدر کے ساتھ کفر کیا تو وہ کافر ہے] تو اس کے جواب میں کہا جائے گا: آیت کا یہ حصہ بھی پہلے حصے کے عین مطابق ہے؛ لہذا اگر کوئی شخص جبر کے بغیر ہی کفر کرے تو اس نے کھلے دل سے کفر کا ارتکاب کیا۔ [اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے تو] وگرنہ آیت کا اول اور آخری حصہ آپس میں متضاد ہو جائیں گے۔ اگر یہاں کفر کرنے والے سے مراد وہ شخص ہو جو بلا اکراہ شرح صدر کے ساتھ کھلے دل سے کفر کرے تو محض مجبور شخص کو مستثنی نہیں کیا جائے گا، بلکہ پھر عدم شرح صدر کی صورت میں مجبور اور غیر مجبور دونوں کو لازمی طور پر مستثنی قرار دینا ضروری ہو گا۔ تاہم اگر اپنی مرضی سے کوئی شخص کلمۂ کفر کہتا ہے تو یہ کھلے دل سے کفریہ کلمہ کہنا ہے جو کہ کفر ہے۔

اس بات کی دلیل اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے:

يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ (64) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ

ترجمہ: منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت اترے جو ان کے دلوں کی باتیں انہیں بتلا دے۔ کہہ دیجئے کہ مذاق اڑاتے رہو، یقیناً اللہ تعالی اسے ظاہر کرنے والا ہے جس کا تمہیں خدشہ ہے۔ [64] اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں [65] تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کر لیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے [التوبۃ: 64 - 66]
تو یہاں اللہ تعالی نے بتلا دیا کہ ان منافقین نے ایمان لانے کے بعد اپنی کہی ہوئی باتوں کی وجہ سے کفر کر لیا ؛ حالانکہ منافقین کا کہنا تھا کہ: "ہم نے کفریہ باتیں کفر کا نظریہ رکھے بغیر کہی ہیں، ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے اور دل لگی کر رہے تھے۔" اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اللہ تعالی کی آیات سے مذاق کرنا بھی کفر ہے؛ [کیونکہ] کفر کا حکم اسی پر لگے گا جو کفریہ بات کو شرح صدر کے ساتھ کہے، اگر منافق کے دل میں ایمان ہوتا تو اس کا ایمان اسے ایسی بات کرنے سے لازمی روکتا۔"
ماخوذ از: " مجموع الفتاوى " ( 7 / 220 ) ، مزید دیکھیں: "الصارم المسلول" صفحہ نمبر: (524)


لہذا جو شخص بھی جان بوجھ کر اپنی مکمل مرضی سے واضح طور پر کفر کرے تو وہ کافر ہو جائے گا، چاہے اس کا یہ کفر دنیاوی مفادات کے حصول کے لئے ہو، اس دنیا کی خاطر ہی لوگوں سے کفریہ عمل زیادہ ہوتا ہے، تاہم اس سے ایسے شخص کو مستثنی قرار دیا جائے گا جسے واقعی مجبور کیا گیا ہو اس کے لئے مجبور کرنے کی شرائط کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔

جیسے کہ امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کو کفر پر اتنا مجبور کیا جائے کے اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو جائے اور وہ اس طرح کفر کرے کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ " ختم شد
ماخوذ از: " الجامع لأحكام القرآن " ( 12 / 435 )

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبر اور زبردستی کی حد کیا ہے؟

تو جبر کی حد بندی کے متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں، تاہم سب کے سب اجمالی طور پر اس چیز میں مشترک ہیں کہ انسان کو حقیقی معنوں میں قتل یا کسی عضو کو تلف کرنے کی دھمکی دی جائے، یا عورت کو زنا کی دھمکی ملے یا مرد کو لواطت کی یا اس طرح کی سنگین قسم کی دھمکی دی جائے۔

جیسے کہ موسوعہ فقہیہ کویتیہ: ( 6 / 101 – 102 ) میں جبر اور زبردستی واقع ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"قتل یا کسی عضو کو تلف کرنے کی دھمکی دی جائے، چاہے اس میں عضو باقی رہے لیکن اس کی کارکردگی جاتی رہے مثلاً: بینائی سلب کر لی جائے، یا ہاتھ سے پکڑنے اور پاؤں سے چلنے کی صلاحیت باقی نہ رہے لیکن ہاتھ اور پاؤں باقی رہیں، یا کوئی ایسا نقصان کرنے کی دھمکی ملے جس کا غم دائمی ہو ، مثلاً: عورت کو زنا کی دھمکی دینا اور مرد  کو لواطت کی دھمکی دینا۔

جبکہ بھوکے رکھنے کی دھمکی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے، شرعی طور پر جبر اور زبردستی اسی وقت متصور ہو گی جب  بھوک انسان کو مرنے کے قریب کر دے۔۔۔" ختم شد

جبکہ اپنی مالی حالت اچھی کرنے کے لئے صراحت کے ساتھ کفر کرنا تو بالکل بھی جبر اور زبردستی میں شامل نہیں ہو گا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں نے [حنبلی] مذہب میں غور و فکر کیا تو معلوم ہوا کہ زبردستی اور جبر کی نوعیت مجبور شخص کے اعتبار سے الگ الگ ہوتی ہے؛ لہذا کلمہ کفر کرنے کے لئے کیے جانے والے معتبر جبر کا حکم وہ نہیں ہے جو تحفہ دینے یا کسی ایسے ہی کام پر کیے جانے والے جبر کا ہے۔ امام احمد نے کئی جگہوں پر صراحت کے ساتھ واضح کیا ہے کہ کفر کرنے کے لئے کیا جانے والا معتبر جبر مارنے یا قیدی کرنے جیسی سخت سزا سے ہی ہو گا، محض زبانی باتوں سے معتبر جبر واقع نہیں ہوتا" ختم شد
ماخوذ از: " المستدرك على مجموع الفتاوى" (5/8) ، اسی طرح دیکھیں: " مجموع الفتاوى " ( 1 / 372 – 373 )

معتبر جبر کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ: مجبور آدمی جابر شخص کے تسلط سے بھاگنے اور نکلنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، چنانچہ اگر اس کے اندر جابر شخص کے تسلط سے بھاگنے کی صلاحیت تھی لیکن وہ نہیں بھاگا، بلکہ وہیں پر ٹکا رہا حتی کہ اسے مجبور ہو کر کفریہ عمل کرنا پڑا تو وہ شرعی طور پر مجبور آدمی نہیں ہے۔ جب معاملہ ایسا ہے تو اس آدمی کا کیا حکم ہو گا جو بہ ذات خود ایسی جگہ پر جا رہا ہے جہاں اسے اپنے دین کی وجہ سے آزمائش میں مبتلا ہونا پڑے گا؟!

منکر حدیث کا حکم

 قرآن کو ماننا اور احادیث کا انکار کرنا کفر ہے جو شخص حدیث کا منکر ہے وہ قرآن کا بھی منکر ہے۔ قرآن پاک میں صاف طور پر فرمایا گیا ہے مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہَ یعنی جو شخص اللہ کے رسول کی اطاعت کرے گا وہی اللہ کی اطاعت کرے گا۔ معلوم یہ ہوا کہ قرآن کو ماننے کے لیے حدیث کا ماننا ضرور ی ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ یعنی اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کی اطاعت ضروری ہے۔ صرف قرآن ماننے والا نماز کیسے پڑھے گا۔ قرآن میں صرف وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوة کا حکم ہے یعنی نماز قائم کرو، اب نماز کس طرح پڑھی جائے، کیسے قرأت کی جائے اور کیسے رکوع وسجدہ کیا جائے کوئی سی نماز کَےْ رکعت پڑھی جائے، کیسے سلام پھیرا جائے یہ سب چیزیں قرآن میں نہیں ہیں، اسی طرح اگر مسلمان کا انتقال ہوجائے تو اس کو کیسے غسل دیا جائے، کس طرح کفن دیا جائے اور کس طرح نماز جنازہ پڑھی جائے اور کس طرح دفن کیا جائے یہ سب تفصیلات قرآن میں نہیں آئی ہیں اس لیے حدیث کے بغیر قرآن پر عمل کرنا ممکن نہیں

ھمزاد کی حقیقت

 حدیث میں ہے کہ: ”ہر آدمی کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان پیدا ہوتا ہے ۔فرشتہ اس کو خیر کا مشورہ دیتا ہے اور شیطان شر کا حکم کرتا ہے“۔ اسی کو عوام الناس ”ہمزاد“ کہتے ہیں، ورنہ اس کے علاوہ ہمزاد کا کوئی شرعی ثبوت نہیں۔ عن عبد اللہ بن مسعود، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ما منکم من أحد، إلا وقد وکل بہ قرینہ من الجن قالوا: وإیاک؟ یا رسول اللہ قال: وإیای، إلا أن اللہ أعاننی علیہ فأسلم، فلا یأمرنی إلا بخیر (صحیح مسلم :1/107،باب الوسوسة ) عن عبد اللہ بن مسعود، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن للشیطان لمة بابن آدم وللملک لمة فأما لمة الشیطان فإیعاد بالشر وتکذیب بالحق، وأما لمة الملک فإیعاد بالخیر وتصدیق بالحق.(سنن الترمذی: )

صحابہ کو کافر کہنے والے کا حکم

  اللہ نے صحابہ کرام کے ایمان کو معیارِ حق قرار دیتے ہوئے بعد میں آنے والوں کی کامیابی کو ان پاکیزہ نفوس کی طرح ایمان لانے سے مشروط کیا ہے، ارشاد ہے:

﴿ فَإِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا ﴾(البقرۃ:137)

اگر وہ  ایمان لائے جیسا کہ تم (اصحاب رسول) ایمان لائے ہو تو  وہ ہدایت پالیں گے۔

پس صحابہ کرام میں سے کسی کی تنقیص کرنا یا  ان کو کافر قرار دینا جب کہ اللہ رب العزت نے ان کے بارے میں ﴿رضی الله عنهم  ورضواعنه﴾ کا فرمان صادر کیا ہے، اہلِ سنت و الجماعت کے اجماعی عقیدے سے منحرف ہونا  ہے، اور شیخین کے علاوہ دیگر صحابہ کو کافر قرار دینے والا شخص اہلِ ضلال میں سے  اور گمراہ ہے، جب کہ حضراتِ شیخین(خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ)  کو گالی دینا اور حضرت ابوبکر صدیقِ رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کفر ہے۔ جیساکہ ''فتاوی شامی'' میں ہے:

'' نقل عن البزازية عن الخلاصة: أن الرافضي إذا كان يسب الشيخين و يعلنها فهو كافر... و سب أحد من الصحابة و بغضه لا يكون كفراً لكن يضلل''. (مطلب مهم في حكم سب الشيخين ٤/ ٢٣٧، ط: سعيد)۔ ف

چالیس ابدال والی روایت

    "مسند احمد"  کی روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے  فرمایا : میں نے  جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ملک شام میں چالیس ابدال ہوتے ہیں، جب ان میں سے کسی ایک کی وفات ہوجاتی ہے توان کی جگہ دوسرے کو قائم مقام کر دیا جاتا ہے، اور انہیں کی برکت اور دعاوٴں سے اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے اور کفار اور دشمنوں کے خلاف اہلِ شام کی مدد کرتا ہے اور انہیں کی برکت سے اہلِ شام کے اوپر سے عذاب کو دور فرماتا ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا زمین کسی وقت بھی چالیس ابدال سے خالی نہیں ہوتی ، جب ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجاتا ہے تو اللہ اس کی جگہ دوسرے کو مقرر کردیتے ہیں ۔

فتاویٰ دارالعلوم زکریا 1/377میں ابدال سے متعلق احادیث کے بارے میں لکھا ہے:
"خلاصہ یہ ہے کہ حدیثِ ابدال ثابت ہے اگر چہ اس کے اکثر طرق ضعیف  ہیں، مگر بعض صحیح بھی ہیں، جیساکہ حاکم کاطریق ، امام ذہبی نے فرمایا: صحیح ہے۔  اس کے علاوہ بھی بہت سارے طرق کتبِ حدیث میں موجود ہیں،اختصار کی وجہ سے ترک کیا گیا ، تفصیل کے لیے( الحاوی للفتاوی۲/۲۹۱ـ۳۰۷)کو بھی دیکھا جاسکتا ہے، اس میں علامہ سیوطی ؒ نے ابدال کی حدیث پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔فقط واللہ علم

"المقاصدالحسنۃ" میں ہے :

"حدیث الأبدال له طرق عن أنس رضي اللّه عنه مرفوعاً بألفاظ مختلفة کلها ضعیفة، منها …الأبدال أربعون رجلاً. ومنها… لن تخلوالأرض من أربعین رجلاً …ومنها… البدلاء أربعون… ومنها…لایزال أربعون رجلاً من أمتي… ومنها… أن بدلاء أمتي. ومنها … البدلاء یکونون بالشام وهم أربعون رجلاً… ومنها… لاتسبوا أهل الشام جماً غفیراً، فان فیها الأبدال… ومنها: أین بدلاء أمتک؟ فأومأ بیده بنحو الشام…". (المقاصد الحسنة ص۲۳رقم۸)
"مسند احمد بن حنبل" میں ہے :
"حدثنا أبو المغیرة حدثنا صفوان حدثني شریح یعني ابن عبید قال:ذکر أهل الشام عند علي بن أبي طالب وهو بالعراق فقالو: العنهم یا أمیر المؤمنین: قال: لا، إني سمعت رسول اللّه صلی اللّه علیه وسلم یقول: الأبدال یکونون بالشام، وهم أربعون رجلاً، کلما مات رجل أبدل اللّه مکانه رجلاً، یسقي بهم الغیث، وینصر بهم علی الأعداء، ویصرف عن أهل الشام بهم العذاب…
قال أحمد محمد شاکر في شرح هذا الحدیث: إسناده ضعیف؛ لانقطاعه. شریح بن عبید الحضرمي الحمصي:لم یدرک علیاً، بل لم یدرک الابعض متأخري الوفاة من الصحابة وقدسبقت له روایة منقطعة أیضاً عن عمر بهذا الإسناد ۱۰۷، وسیأتي في شانهم حدیث آخر في مسند عبادة بن الصامت۵:۳۲۲قال فیه أحمد هناک:وهومنکر". (المسند للإمام أحمد بن حنبل۲/۱۷۱/۸۹۶)
مستدرک حاکم میں ہے :
"أخبرني أحمد بن محمد بن سلمة العنزي ثنا عثمان بن سعید الدارمي ثنا سعید بن أبي مریم أنبأ نافع بن یزید حدثني عیاش بن عباس أن الحارث بن یزید حدثه أنه سمع عبد اللّه بن زریرالغفقی یقول: سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه ستکون فتنة یحصل الناس منها کما یحصل الذهب في المعدن، فلاتسبوا أهل الشام، وسبوا ظلمتهم، فإن فیهم الأبدال…الخ وقال: هذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاه، ووافقه الذهبي، فقال: صحیح". (المستدرک للحاکم ۴/۵۵۳