https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 3 January 2020

حنظلہ عامر کی شہادتMartyrdom of Hanzala Amir

حنظلہ عامر پھلوار شریف  پٹنہ میں سی اے اے این آرسی کے خلاف ہورہے عوامی احتجاج میں شریک تھا پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا تاکہ ان سے پر امن احتجاج کرنے کا دستوری حق بھی چھین لے,حنظلہ عامر اپنی جان بچانے کے لیے  پھلواری شریف کی سنگت گلی میں داخل ہوگیا اسے کیامعلوم تھاکہ یہاں بھی اس کی جان کے دشمن انسان نما حیوان رہتے ہیں جنہوں نے بالآخر اسےشہید کردیا میڈیا کے مطابق اس کے جسم پر کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں زخم نہ ہوں سارا جسم چاقو چھریوں سے گوددیاگیاتھا,انسانیت سے عاری کسی حیوان نےنہ صرف انسانیت کو شرمسار کیا بلکہ ایک غریب گھرکادیاہمیشہ کے لیے بجھادیاجوگھر کاچشم و چراغ تھا,اس کی شہادت نہ صرف ایک خاندان ایک شہر ایک ملک کے لیے عظیم سانحہ ہے بلکہ مسلم امہ کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے,اس کاجرم بظاہرصرف یہ تھا کہ وہ ایک مسلم تھا,اقتدار کرنے والے ان انسان نما بھیڑیوں کوانسانیت سکھانے کی ضرورت ہے, جو لوگوں کو نفرت کا سبق سکھاتے ہیں ,ہزاروں لوگ ان سیاست دانوں کی نفرت آمیز باتوں سے متأثر ہوکرقاتل,ہتھیارے,تنگ نظر متعصب,بن کر معصوم لوگوں کو آسانی سے قتل کردیتے ہیں اور ان سیاسی قایدین پر جوں تک نہیں رینگتی, قاتل جیل چلے جاتے ہیں مقتول جان سے چلے جاتے ہیں,فائدہ صرف اور صرف ان پیشہ وراساتذۂ نفرت کو ہوتا ہے,جو انسانیت کے خون سے  سیاست کرتے ہیں ,تفریق کے بیج بوتے ہیں,اوراسی نفرت کی سیاست سے ایم ایل اے,ایم پی,سی,ایم,پی,ایم,منسٹر,وغیرہ وغیرہ اور نہ جانے کیاکیابنتے ہیں,کیا بھارت کا قانون نفرت کی سیاست کرنے کی اجازت دیتاہے؟میں پوچھنا چاہتاہوں کیایہی مذہب سکھاتاہے؟معصوم کا قتل!کونسا مذہب ہے وہ! اس طر ح کسی معصوم کو بلاوجہ ماردیاجایے! اقتدار کی کرسیوں پربیٹھنے والےنفرت کےپجاریوں کے پاس اس کا کویئ جواب ہے!کیاحکومت اس کا کوئی جواب دے سکتی  ہے!جومذہب کسی معصوم کے قتل پر ابھارے میں اس کومذہب نہیں مانتا,جو لیڈر نفرت سکھایے وہ لیڈر نہیں حیوا ن ہے اگر کوئی سیاسی لیڈرنفرت کی سیاست سے اقتدار کی کتنی ہی اونچی کرسی پر پہنچ جایے لیکن ہے وہ قاتل ہی.نہ جانے کتنے معصوم اس کی بنا پر قاتل بنے ہوں گے نہ جانے کتنے  بے گناہوں کے قتل اس کی نفرت آمیز تقریروں سے ہوؤے ہوں گے!میں کسی نفرت کی سیاست کرنے والے کو لیڈر نہیں مانتا بلکہ ببانگ دہل کہتاہوں وہ غنڈہ ہے,ایسی سیاست اور ایسے سیاست دانوں سے نالی کے وہ کیڑے اچھے ہیں جو کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے, کسی معصوم کا قتل نہیں کرتے , کسی سے نفرت نہیں کرتے.افسوس اس پر بڑھ جاتاہے جب پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک حکومت کے کسی عہدے دار نےان کےغمزدہ پسماندگان سے تعزیت تک نہیں کی .فیاللاسف,اللہ تعالی حنظلہ عامر شہیدکی مغفرت فرمائے,اور پسماندگان کو صبرجمیل سے نوازے,
کرو کج جبیں پہ سر کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورعشق کابانکپن پس مرگ ہم نے بھلادیا

منصور حلاجMansur Hallaj

حلاج کی وجہ تسمیہ

منصور کالقب حلاج پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک روز کسی رویئ دھننے والے کے پاس  بیٹھے ہو یے اپنے کسی کام کےکرنے کی اس سے کہہ رہے تھےنداف یعنی رویئ دھننے والے نے کہا میں رویئ دھننے میں مصروف ہوں مجھے فرصت نہیں ,آپ نے فرمایا تم میراکام کردو میں تمہارا کام کردیتاہوں چنانچہ وہ راضی ہوگیا.اوروہ شیخ منصور کے کام سے چلاگیا,شیخ روئی دھننے میں مصروف ہوگیے جب وہ لوٹ کر آیا تو اس نے دیکھا جتنی روئی اس کے یہاں موجود تھی وہ سب دھنی ہویئ ہے. حالاں کہ وہ اتنی زیادہ تھی کہ اگر دس آدمی اسے کئ دن تک مل کر دھنتے تب بھی نہ دھن سکتے .اس دن سے شیخ کا لقب حلاج پڑگیا,حلاج کے معنی نداف کے بھی ہیں ,بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ تصوف کے اسرار و رموز بیان کرتے تھے اس لیے لوگ حلاج کہنے لگے,آپ اصلا ایرانی النسل ہیں نام حسین بن منصور تھا
ابن خلکان نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جس دن آپ قتل کیے گیےاسی دن کسی دوست نے آپ کو خواب میں دیکھا کہ آپ گدھے پر سوار نہروان کی سڑک پر جارہے ہیں جسکی تعبیر انہوں نے اپنے مضروب و مقتول ہونے سے نکالی,

قتل کی وجہ

شیخ منصور کے قتل کی وجہ یہ ہے کہ  عباسی خلیفہ مقتدر باللہ  کے وزیر حامد بن عباس کی مجلس میں انہوں نے اپنی  زبان  سے ایسے الفاظ اداکیےجوبظاہر خلاف شرع تھے,اس دور کے قضاۃ اور مفتیان کرام نے فتوی دیدیاکہ انہیں قتل کردیا جایے,
جن باتوں کی بنا پر وہ واجب القتل گردانے گیے ان میں أنا الحق کہناہے,اس کے  علاوہ وہ  اپنے بارے میں کہتے تھے مافی الجبۃ الااللہ(جبہ میں سوایے اللہ کے کویئ نہیں)اس سے اپنے خدا ہونے کا دعوی ظاہر ہوتاہے,بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ جملے ان سے فرط محبت خداوندی میں سرزد ہویے.ان سے اچھے معانی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں, اور ان اقوال کی مثال شاعر کے اس شعر کی سی ہے.
أنا من أهوى و من أهوى أنا
فإذا أبصرته أبصرتنا
میں وہ ہوں جس کو میں چاہتاہوں اور جس کو میں چاہتاہوں وہ میں ہی ہوں اے مخاطب اگر تونے اس کو یعنی میرے محبوب کو دیکھ لیاتو گویا تونےمجھ ہی کو دیکھ لیا,یعنی میں محبوب کی محبت میں اتنا محو ہوگیا ہوں کہ گویا ہم دونوں ایک جان دو قالب بن گیے ہیں .
منصور کے بارے میں علماء ومشائخ کی آراء مخلتف ہیں ,کچھ لوگ انہیں کافر قرار دیتے ہیں اور کچھ حضرات انہیں صاحب عظمت ولی کامل سمجھتے ہیں.

منصور حلاج کا واقعہ

جب شیخ منصور نے مذکورہ کلمات باربار دھرایے توقضاۃ و مفتیان کی ایک بڑی جماعت نے انہیں کافر اور واجب القتل قرار دیدیا لہذا خلیفہ مقتدر باللہ کے حکم پر شہر کوتوال  محمد بن عبد الصمد نے ان کی گرفتاری کا حکم دیدیا,لہذا کوتوال نے اس ڈرسے کہ کہیں لوگ ہنگامہ کرکے شیخ کو زبردستی چھڑانہ لیں رات کےوقت گرفتار کرلیا,منگل کےدن بتاریخ ۲۴ ذوالقعد ٣۰۹ ھ کو باب الطاق لیجایاگیا,ایک جم غفیر  کے سامنے سب سے پہلے جلاد نے ایک ہزار کوڑے لگایے,لیکن آپ نے اف تک نہ کی,پھر چاروں ہاتھ پاؤں کاٹے گیے اس پر بھی وہ خاموش رہے,اس کے بعد آپ کا سر تن سے جدا کردیاگیا,اور لاش کو جلاکر راکھ دریایے دجلہ میں بہادی گئ,آپ کاسر بغداد شہر کی ایک دیوار پر نصب کردیاگیا,پھر اسے شہر کے سبھی گلی کوچوں میں گھمایاگیا.

مریدین کی حالت

آپ کے رفقاء و مریدین اپنے دل کویہ کہہ کر تسلی دیتے رہے کہ آپ چالیس دن بعد واپس آجائیں گے.جس سال آپ کو بےدردی سے قتل کیاگیا اسی سال دریایے دجلہ میں زبردست طغیانی آیئ,آپ کے مریدین اور چاہنے والوں نے قتل کے بعد راکھ دریایے دجلہ میں بہانے  کو وجہ قرار دیا
آپ کے بعض معتقدین کاخیال تھا کہ آپ کو قتل نہیں کیا گیابلکہ آپ کے کسی دشمن کو
آپ کی صورت میں منتقل کرکےآپ کے بجایے وہ قتل ہوا اور آپ بچ گیے.
شیخ منصور کو جب قتل گاہ کی طرف لیجاگیا تو وہ چلتے چلتے بہ آواز درج ذیل اشعار پڑھ رہے تھے
طلبت  المسقر بكل أرض
فلم أر لى بأرض مستقرا
میں نے زمین کے ہر گوشے میں سکون تلاش کیالیکن کہیں بھی مجھےسکون میسر نہ آیا
أطعت مطامعى فاستبعدتني
ولوإنى قنعت لكنت حرا
میں لالچ میں مبتلا ہوگیا تولالچ میرا حاکم بن گیاکاش میں قناعت اختیار کرتا توبدستور آزاد رہتا
بعض نے لکھاہے کہ منصور حلاج قتل کے وقت یہ اشعار پڑھ رہے تھے
لم أسلم النفس للأسقام تتلفها
إلالعلمي بأن الموت يشفيها
میں اپنے آپ کو ایسی بیماریوں کے سپرد نہیں کرسکتاجو ہلاک کرنے والی ہیں بجز موت کے کیونکہ مجھے معلوم ہے
کہ اب علاج معالجہ کار آمد نہیں ہوسکتاموت میں ہی شفاہے.
ونظرة منك يا سوء لى ويا أملى
أشهى إلي من الدنيا وما فيها
اور اے وہ ذات جو میری حاجت روا ہےاور جس سے کہ میری امیدیں وابستہ ہیں,تیری ایک نظرمیرے نزدیک دنیا ومافیہا سے زیادہ مرغوب ہے.
نفس المحب على الآلام صابرة
لعل متلفيها يوما يداويها
عاشق کی جان تو مصایب پرصبر کرنے والی ہے,اس امید پر کہ شاید اس کوتلف کرنے والا ہی ایک دن اس کا معالج بن جایے.

شیخ منصور حلاج کے اصحاب

شیخ منصور ,شیخ جنید بغدادی کی صحبت میں رہے,شیخ شبلی اور دیگر مشائخ وقت سے بھی آپ نےاستفادہ کیا.

قتل گاہ کے اہم واقعات

جب آپ کو قتل گاہ کی طرف لایاگیااور آپ نے تختہ دار پر چڑھنے سے پہلے تختہ و میخوں کو دیکھا تو آپ قہقہہ لگاکر خوب ہنسے,پھر مجمع پر نظر ڈالی تو شیخ شبلی بھی وہاں موجود تھے,آپ نے ان سے دریافت کیا,ابوبکر !کیا آپ کے پاس جانماز ہے؟شبلی نے کہا ہاں, ہے,تو آپ نے کہا جانماز بچھائیں,چنانچہ شیخ شبلی نے جا نماز بچھادی.,شیخ منصور نے اس پر دورکعت نماز پڑھی,پہلی رکعت میں الحمد شریف اور یہ آیت ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع ونقص من الخ پڑھی دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعدکل نفس ذائقۃ الموت الخ.پڑھی اس کے بعد ایک طویل وظیفہ پڑھا.نماز سے فراغ ہویے توابوالحرث سیاف نےآپ کے ایک زوردار طمانچہ ماراجس سےناک اور چہرہ دونوں زخمی ہوگیے.یہ دیکھ کر شبلی پر وجد کی کیفیت طار ہوگئ,انہوں نے اپنے کپڑے پھاڑ لیے.اورزورسے چیخنے چلانے لگے,دیگر مشائخ شیخ ابوالحسن واسطی وغیرہ پر بھی غشی طار ہوگئ.قتل سے پہلے آپ نے فرمایا:میراخون تمہارے لیے مباح ہوگیاہے مجھے قتل کرڈالو,میرے قتل سے زیادہ اہم مسلمانوں کےلیے آج کے دن کویئ کام نہیں
,میراقتل حدوداللہ کے قیام اور شریعت کے مطابق ہےجوحدسے تجاوز کرے اس پر حد جاری ہونی چاہئے.
شیخ العارفین شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ اور امام غزالی نےمنصور کی برأت ظاہر کرتے ہوئے فرمایا,حلاج کو ہلاک کردیاگیا,اور کسی نے ان کی دستگیری نہیں کی,اگرمیں حلاج کے زمانے میں ہوتاتو ضرور اس کی مدد کرتا.
فارسی کادرج ذیل شعر اگرچہ منصور کے نام پر مشتمل ہے مگر ان کی طرح موت سے نڈر,بے باک اور بے خوف  لوگ  آج بہھی جانے انجانے میں پڑھ کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے رہتےہیں
وقتے ایست کہ آوازۂ منصور کہن شد
من ازسر نو جلوہ دہم دارورسن را
(تاریخ بغداد)
WWW.drmuftimohdamir.blogspot.com

Thursday 2 January 2020

اسم اعظمIsmul Aazam

حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کی ایک خادمہ تھی  وہ روزانہ انہیں چالیس دن تک کھانے میں زہر ملاکر کھلاتی رہی ایک مرتبہ اس نے آپ سے پوچھاآپ کس جنس کے ہیں؟آپ نے فرمایامیں تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں اس نے کہا مجھے تو آپ انسان معلوم نہیں ہوتےکیونکہ میں نے آپ کو چالیس دن تک مسلسل زہر کھلایاہےمگر آپ کا بال تک بیکا نہیں ہواآپ نے فرمایا:کیا تجھے معلوم نہیں کہ جو لوگ اللہ کاذکرکرتے رہتے ہیں ان کوکویئ زہر ضرر نہیں پہنچاسکتا اور میں تو اسم اعظم کے ساتھ اللہ کو یاد کرتاہوں اس نے پوچھا وہ اسم اعظم کیا ہے.
؟آپ نے فرمایایہ ہے:بسم الله الذي لايضر مع اسمه شئ فى الأرض ولافى السماء وهو السميع العليم
(حیاۃ الحیوان جلد اول تحت الحیۃ)
  

سانپ کے عربی نامSnake's names in Arabic language

سانپ کی مختلف قسمیں ہیں,عربی زبان میں حیۃ کے علاوہ اس کےحسب ذیل نام ہیں
١.العيم٢.العين٣.الصم٤.الأزعرر.الأبتر٦.الناشر٧.الأين٨.الأرقم.٩.الأصلة١٠الجان١١.الثعبان١٢.الشجاع٣١.الأزب١٤.الأرب١٥.العفوان١٦.الأرقش١٧.أرقط١٨..الصل١٩.ذوالطفتين٢٠.عربد
سانپ کی عربی میں درج ذیل کنیتیں استعمال ہوتی ہیں
ابوالبخترى،ابوالربيع،ابوعثمان،ابوالعاصى،ابوندعور،ابودثاب،ابويقضان،أم طبق،أم عثمان،أم الفتح،أم محبوب،أدرحية الصماء،حية الصماء،صمه،اس كی جمع صم آتی ہے,
قالواحبيبك ملسوع فقلت لهم
من عقرب الصلاغ أومن حية الشعر
لوگوں نے مجھ سے کہاکہ تیرے محبوب کو کسی زہریلے کیڑے نے کاٹ لیا ہے یہ سن کر میں نے اس سےپوچھاکہ کیا کنپٹی کےبچھو نے اس کو کاٹا ہے یا اس کی زلفوں کی ناگن نے اس کو ڈس لیا ہے.
قالوابلى من أفاعى الأرض قلت لهم
وكيف تسعى الأرض للقمر
وہ بولے یہ بات نہیں بلکہ زمین کے سانپوں میں سے کسی نے اس کو ڈس لیا ہے.یہ سن کر میں نے تعجب سےکہاکہ یہ بتاؤ کہ زمینی سانپ کی رسایئ چاند تک کیسے ہوسکتی ہے.
جمال الملک بن افلح شاعر نے کہا
وقالوايصيرالشعر فى الماء حية
إذاالشمس حاذته فما خلته صدقا
لوگ کہتے ہیں کہ بال پانی میں سانپ بن جاتے ہیں جبکہ سورج کی روشنی ان پر پڑرہی ہو مجھ کو یہ قول سچا نہیں لگتا
 فلما التوى صدغاه فى ماء وجهه
وقد لسعاقلبى تيقنته حقا
لیکن جب اس نے اپنے چہرے پر پانی ڈالا اور اس کی زلفوں نے سانپ کی طرح بل کھاکر میرے دل کو ڈس لیا تو مجھے یقین آگیاکہ لوگوں کا کہنا بالکل صحیح تھا

سانپ کی شرعی حیثیت

امام ابوحنیفہ,امام شافعی اورامام احمد بن حنبل کے نز دیک سانپ کھاناحرام ہے.امام مالک کے نزدیک ذبح کرنے کے بعد  کھاناجائز ہے.دباغت کے بعد سانپ کی کھال استعمال کرنا جائز ہے. اس کاتیل بھی ناپاک ہونے کی بنا پر استعمال کرنا درست نہیں بلکہ ناپاک ہے.البتہ بطور دوا اگرماہر طبیب نے تجویزکیاہو اور کوئی متبادل نہ ہو تو ضرورتاََ جائزہے.

حضرت سفیان ثوری اور ہارون رشید بادشاہ کے ما بین سبق آموز مراسلتCorrespondence between Caliph Harun Rasheed and Sufyan sauri

ہارون رشید جب خلیفہ بنے تو بہت سے علما ء کرام انہیں مبارکباد دینے پہنچے لیکن حضرت سفیا ثوری نہیں گیے حالاں کہ دونوں میں پہلے دوستی تھی اس سے ہارون رشید کو بہت تکلیف ہویی,چنانچہ انہوں نے حضرت سفیان ثوری کے نام درج ذیل خط لکھا
بسم اللہ الرحمان الرحیم
عبداللہ ہارون امیرالمومنین کی طرف سے اپنے بھایی سفیان ثوری کی طرف
بعد سلام, آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مومنین کے درمیان ایسی بھایی چارگی اور محبت رکھی ہےجسے میں نہ توڑ سکتاہوں اورنہ اس سے جدا ہوسکتاہوں خلافت کایہ طوق اللہ نے جو میرے گلے میں ڈالاہےاگر یہ میرے گلے میں نہ ہوتاتو میں ضرور آپ کی محبت کی بناپر آپ کے پاس خود آتا.اگر چلنے سے معذور ہوجاتاتو گھسٹ کر آتا.اب جب مجھے خلافت کی ذمہ داری سپرد ہویی تو میرے سبھی دوست احباب مجھے مباکباد دینےکے لیے آیے ہیں میں نے ان کے لیے اپنے خزانے کے منھ کھول دیے,اور نہایت قیمتی چیزوں کا عطیہ دےکراپنے دل اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈاکیا.لیکن آپ تشریف نہیں لایے جب کہ مجھے آپ کا بے صبری سے انتظار تھا,یہ خط آپ کومحبت کی بناپر بڑے ذوق و شوق سے لکھ رہاہوں,ابو عبداللہ! آپ خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں مومن سے ملاقات اور مواصلت کی کیا فضیلت ہے.لہذا آپ سے التماس ہے کہ جیسے ہی میرا یہ خط آپ کو ملے تو جتنی جلد ممکن ہو آپ تشریف لایں.
ہارون رشید نے یہ خط عباد طالقانی نام کے ایک شخص کے سپرد کیااور کہایہ خط سفیان ثوری کو پہنچادو,انہیں کے ہاتھ میں دینا کسی اور کے نہیں,اور وہ جو بھی جواب دیں اسے غورسے سننا وہ کہتے ہیں کہ میں یہ خط لےکر کوفہ روانہ ہوا جہاں سفیان ثوری رہتے تھے.آپ مسجد میں تھےآپ مجھے دور سے ہی دیکھ کر کھڑہے ہو گیے  اور کہنے لگے
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم.واعوذ باللہ من طارق یطرق الابخیر.یعنی میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ چاہتاہوں اور اللہ کی پنا ہ چاہتاہوں اس شخص سے جو رات میں آتاہے سواے اس کے کہ وہ کویی خیر لے کر آیے.
عباد طالقانی کہتے ہیں کہ جب میں مسجد کے دروزے پر اپنے گھوڑے سے اتراتو حضرت سفیان ثوری نماز پڑہنے کھڑے ہو گیے.حالاں کہ اس وقت کسی نماز کاوقت نہیں تھا,لہذامیں اس کے بعد ان کی مجلس میں حاضر ہوااور سلام کیا وہاں پر موجود کسی نے بھی میرے سلام کا جواب نہ دیا. نہ مجھ سے بیٹھنے کے لیے کہا.حتی کہ میری طرف نظر اٹھاکر دیکھنے کی زحمت بھی گوارہ نہ کی.اس سے مجھ پر کپکپی طاری ہوگیی.اور بدحواسی کی سی کیفیت میں میں نے وہ خط حضرت سفیان ثوری کی طرف پھینک دیا.آپ کی نظر جیسے ہی اس پرپڑی تو وہ ڈر گیےاور خط سے دور ہٹ گیے.گویاوہ کویی سانپ ہو,پھر کچھ دیر بعدحضرت سفیان ثوری نےاپنی آستین کے کنارے سے وہ خط اٹھایااور پیچھیے بیٹھے ہویے ایک شخص کی طرف پھینکااور کہا تم میں سی کویئ اسے پڑ ھ کر سنائےکیوں کہ میں اللہ سے کسی ایسی چیز کے چھونے سے پناہ مانگتاہوں جسے کسی ظالم نے چھو رکھا ہو.لہذا حاضرین میں سے ایک شخص نےوہ خط کھولا اس طرح کے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھےپھر اس نے وہ پڑھ کرسنایااسے سن کرحضرت سفیان ثوری عجیب سے انداز میں مسکرایے اور کہا اس خط کے پیچھے کی طرف ہی اس کا جواب بھی لکھ دوحاضرین میں سے ایک شخص بولا حضرت وہ خلیفہ وقت ہیں کسی صاف  کورے کاغذ پر جواب لکھواکر بھیجنا مناسب تھا,حضرت سفیان ثوری نے فرمایا نہیں اسی کی پشت پر جواب لکھ دو.کیوں اگراس نے یہ کاغذ حلال کمایی سے لیا ہے جس کابدلہ دیاجایے گااور اگر حرام کمایی سے ہے تو عنقریب اس کا بھی بدلہ دیاجایے گا.ہمارے پاس کویی ایسی چیزنہ ہونی چاہیے جسے کسی ظالم نے چھواہوکیونکہ اس سے دین میں خرابی آتی ہے.
پھر سفیان ثوری نے درج ذیل جواب لکھوایا:بسم اللہ الرحمان الرحیم
سفیان کی طرف سے اس شخص کی طرف جس سے ایمان  کی مٹھاس اورقرات قرآن کی دولت کو چھین لیا گیا.بعد سلام مسنون,یہ خط تم کو اس لیے لکھ رہاہوں تاکہ تمہیں معلوم ہوجایےکہ میں نے تم سے اپنا دینی رشتہ بھایی چارگی اور محبت کاتوڑدیاہے.اور تم نے اپنے خط میں اس بات کا خود اقرار کیا ہے کہ آپ نے اپنے دوست احباب پر شاہی خزانےکو خوب لٹایاہے.لہذا میں اس کا گواہ ہوں کہ تم نے مسلمانوں کی بغیر اجازت کے اپنے احباب پر خرچ کیا,اور اس پر طرہ یہ کہ تم اس بات کے آرزومندہوکہ میں تمہارے پاس آوں لیکن یاد رکھو میں اس کے لیے کبھی راضی نہ ہوؤنگا.میں اور میرے اہل مجلس جس نے بھی تمہارے خط کوسناوہ سب تمہارےخلاف گواہی دینے کے لیے ان شاء اللہ کل قیامت دن اللہ کی عدالت میں حاضرہوں گےکہ تم  نے مسلمانوں کے مال کو غیر مستحق لوگوں پر خرچ کیا.
ہارون!ذراتم یہ معلوم کروکہ تمہارےاس فعل پر اہل علم,قرآن کی خدمت کرنے والے,یتیم ,بیوہ ,مجاہدین,عاملین سب راضی تھے کہ نہیں؟کیونکہ میرے نزدیک مستحق اور غیر مستحق سب کی اجازت لینا ضروری تھی.لہذا تم ان سب باتوں کاروزقیامت جواب دینے کے لیے کمر کس لو,کیونکہ عنقریب تمہیں اللہ جل شانہ کے سامنے حاضر ہونا ہے.جو عادل ہے حکمت والاہے.لہذا اپنے نفس کو اللہ سے ڈراؤ,جس نے قرآن کی تلاوت, علم کی مجالس کو چھوڑ کرظلم اور ظالموں کا سردار بننا قبول کیا.
ہارون!اب تم سریر پر بیٹھنے لگےاور تمہارالباس حریر ہوگیا.اور تم نے ایسالشکر جمع کرلیا جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے.اور تم خود بھی انصاف نہیں کرتے.تمہارے یہ لوگ شراب پیتے ہیں مگر تم حد,دوسروں پر جاری کرتے ہو,تمہارے لشکری چوری کرتے ہیں مگر تم ہاتھ بے قصور دوسرے لوگوں کا کاٹتے ہو.تمہارے افسران قتل عام کرتے ہیں اور تم خاموش تماشایی بنے رہتے ہو.ہارون کل میدان حشرمیں کیا حالت یوگی جب اللہ کی طرف سے پکارنے والاپکارے گاکہ ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو حاضر کرو,تو تم اس حال میں آگے بڑھو گے کہ تمہارے دونوں ھاتھ گردن سے بندھے ہویے ہوں گے.اورتمیارے اردگرد ظالم اور تمہارے مددگار ہوں گے.انجام کارتم ان ظالموں کے امام بن کر دوزخ میں جاؤگے.اس دن تم اپنی بھلایاں تلاش کروگے تو وہ دوسروں کی میزان میں ہوں گی.اور تمہارے پلڑے میں براییاں ہی براییاں نظر آییں گی.اور تمہیں کچھ نظر نہ آیے گا.ہر طرف اندھیراہی اندھراہوگا,لہذاابھی وقت ہے کہ تم اپنی رعایاکے ساتھ انصاف کرو,اور یہ یاد رکھو یہ بادشاہت تمہارے پاس ہمیشہ نہیں رہےگی.یہ یقینا دوسروں کے پاس چلی جایے گی.اس سے بہت سے لوگ اپنی آخرت برباد کرلیتے ہیں اور بہت سے لوگ دنیاوآخرت سنوار لیتے ہیں اور بعض لوگ دنیا وآخرت دونوں کو برباد کرلیتےہیں.اور یہ بات غور سے سنوآیندہ مجھے کبھی خط مت لکھنااور اگر تم نے کویی خط لکھا بھی تو مجھ سے کسی جواب کی توقع نہ رکھنا.
والسلام
خط مکمل ہونے کے بعد حضرت سفیان ثوری نے وہ خط میری طرف پھنکوایانہ اس پر اپنی مہر لگایی نہ اسے چھواخط کامضمون سن کر میری حالت بدل گیی چنانچہ میں نے کوفے کے بازار میں آوازلگایی کہ کویی ایساشخص کا خریدار ہے جوایسے آدمی کو خرید سکے جواللہ کی طرف جارہاہے.لوگ یہ سن کر میرے پاس دینار ودرہم لے کر آیے.میں نے کہا مجھے ان کی ضرورت نہیں مجھے تو بس ایک جبہ اور عبا چاہییے,لوگوں نے یہ چیزیں مجھے لاکردیدیں. میں نے اپناوہ قیمتی زیوراتاردیاجسے ہارون رشیدکے دربار میں جاتےوقت پہنتاتھا.اور گھوڑابھی ہنکادیا اس کےبعد ننگے سر اور پیدل ہارون رشید کے محل کےدروازےتک پہنچا,لوگوں نے میری جوحالت دیکھی تو میرامذاق اڑایااور اندر جاکر ہارون سے میری حاضری کی اجازت لی.میں اندر گیا ہارون نے جیسے ہی مجھے دیکھا کھڑاہوگیا,اور اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہویے کہنے لگا وایے بربادی,وایے خرابی,قاصدآباد ہوگیا,اور بھیجنے والا محروم ہوگیا اب  دنیا کی کیا ضرورت ہے, پھر جلدی سے مجھ سے جواب مانگا,میں نے وہ خط اسی طرح ہارون رشید کی طرف اچھال دیا جیسے سفیان ثوری نے میری طرف پھنکوایاتھا,ہارون نے فوراََجھک کر وہ خط ادب سے اٹھالیااور جواب پڑھنا شروع کیا,پڑھتے پڑھتے آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گیی حتی کہ ہچکی بند گیی.ہارون کی یہ حالت دیکھ کر کسی نے اہل دربار میں سے کہا,سفیان کی یہ جرات جو امیرالمومنین کو ایسا لکھیں ہارون نے جواب دیا, اے مغرور,دنیا کے غلام,سفیان کو کچھ مت کہو,ان کو ان کی حالت پر رہنے دو,خداکی قسم دنیا نے ہمیں دھوکے میں ڈال رکھاہے اور بدبخت بنادیاہے.تمہارے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ تم سفیان کی مجالس میں جایاکرو کیونکہ اس وقت سفیان ہی حضور کے حقیقی امتی ہیں,عباد طالقانی کہتے ہیں کہ اسکے بعد ہارون رشید کی یہ حالت تھی کہ وہ سفیان کے خط کو ہر وقت اپنے پاس رکھتے اور ہر نماز کے بعد اس کو پڑھتے اور خوب روتے یہاں تک کہ وفات ہوگیی.
حیاۃالحیوان الکبری جلد اول تحت الفرس

Wednesday 1 January 2020

تنگدستی سے بچنے کا عمل

حافظ نسفی نے اپنی تصنیف فضائل الأعمال میں لکھا ہے کہ عاصم بن ابی النجود نے اپنا واقعہ بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ مجھے فقروفاقہ اور تنگدستی سے گذرنا پڑامیں نے اپنی  تنگدستی کی شکایت اپنے بعض دوستوں سے بھی کی اور ان سے مدد طلب کی لیکن انھوں نے کویئ توجہ نہ کی جس سے مجھے بہت ملال ہوا میں نے اس کے بعد یہ طے کرلیا کہ آیندہ کسی انسان کے آگے ہاتھ نہ پھیلاوں گا,لہذا میں جنگل میں نکل گیا,اور وہاں میں نے دورکعت صلوۃ الحاجۃ پڑھی, پھر سجدے میں نہایت خشوع وخضوع سے یہ دعاء پڑھی: يا مسبب الأسباب،يا مفتح الأبواب،يا سامع الأصوات،يامجيب الدعوات،ياقاضى الحاجات،اكفنى بحلالك عن حرامك وأغنني بفضلك عمن سواك،
ابھی میں نے سر بھی نہیں اٹھایاتھا کہ کسی چیز کے گرنے کی آوازمحسوس ہویئ,سر اٹھاکر دیکھاتو چیل نے ایک سرخ تھیلی ڈالدی ہے,کھول کے دیکھا تو اس میں اسی (۸۰)دیناراور رویئ میں لپٹاہواقیمتی ہیرا ہے,وہ ہیرا میں نےایک کثیر رقم میں بیچ دیااور سونے کےدینار حفاظت سے رکھ لئےجس سے میں نےگھر کاسازوسامان خریدا.
(حیاۃ الحیوان الکبری,جلد اول ,تحت الحداۃ)

Tuesday 31 December 2019

غموں کا سال

مبارک ہو غموں کا سال یارو ایک اور بیتا
جو یہ بیتے تو ہم سمجھیں کہ جلدی اچھے دن آئے
حکومت جملہ بازان عدو کی ہم سے کہتی ہے
گلہ تم سے ہے ہم کو بس نہ اب مسلم کوئی آئے
تمہیں نے علم وعرفاں سے نوازامانتے ہیں ہم
مگر اک ملک ہم کو چاہئیے ہندو جو بن جائے
شعورعلم وفن سے ہم کونفرت ہے سنومتروں
نہ ڈیزل ان کا ہم لیں گےنہ پیٹروگیس اب آئے
چلیں نہ کار,طیارے اڑیں نہ, میرے بھارت میں
کہ ایندہن ان کا مسلم ہے ہمیں اس کی گھٹن کھائے
کھٹولہ اپنادیسی ہےاڑاؤاس کو اب یارو
پڑے نہ تیل اس میں کچھ نہ شوروشنگ کچھ آئے
غرورو تمکنت سے ہندو بھارت ہم بنائیں گے
سیکولرملک سے یارو تنک ہم کو شرم آئے


سیدنا حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہماکاخطبۂ صلح

امام شعبی کہتے ہیں کہ جس دن سیدنا حسن رضی اللہ عنہ خود بخود معزول ہورہے تھےاور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کررہے تھےاس وقت میں خود وہاں موجود تھا,آپ نے  اپنے خطبۂ صلح میں حمد وثنا کے بعد فرمایا:سب سے عقلمند صاف گو آدمی ہے,اور سب سےبےوقوف فاجروفاسق انسان ہے,جس چیز کے لیے میں اور معاویہ لڑ رہے تھے اس کے بارے میں میری وضاحت یہ ہے: اگر واقعی وہ اس کے مستحق تھےتو وہی مجھ سے زیادہ مناسب ہیں اور اگر میں اس کا حقدار تھاتو میں اب اپنا حق ان کے سپرد کرتاہوں اور میں اس قسم کا اقدام محض امت میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے اور قوم کو خوں ریزی سے بچانے کے لیے کررہاہوں .لیکن مجھے اس کا بھی علم ہےکہ شایدیہ بات تمہارے لیے فتنہ کا باعث بن جائے.لیکن کب تک محض چند دن اشتعال رہے گاپھر اس کے بعد معاملہ دب جاے گا.
اس کے بعد آپ مدینہ میں رہنے لگےتو لوگوں نے آپ  کے اس طرح صلح کرنےپر تنقید کرنا شروع کردی.اس کے جواب میں آپ نے فرمایا:مین نے تین چیزوں میں سے تین چیزیں پسند کیں ہیں یعنی
١.انتشار امت کے مقابلے میں اتحاد ۲.خوں ریزی کے مقابلےمیں امت مسلمہ کے خون کی حفاظت,٣آگ( نار) کے مقابلےمیں عار.
(تاریخ اسلام)

کرامت Karamat

شیخ ابوالقاسم نے رسالہ قشیری کےباب کرامت اولیاء میں  لکھاہے کہ ابوحاتم سجستانی نے ابوالنصر سراج سے اور ابوالنصر نے حسین بن احمد رازی سے اور انہوں نے ابوسلیمان خواص سے سناکہ وہ ایک مرتبہ گدھے پر سوار ہوکر کہیں جارہے تھےاور گدھے کو مکھیاں پریشان کررہی تھیں جس کی بنا پر وہ بار بار اپنے سر کو جھٹکتاتھا میں اس کی اس حرکت پراس کو بار بار لکڑی سے مارتا تھاجب کافی دیر ہوگئ اور میں گدھے کو مارتا رہاتو گدھے نے میری طرف منھ کرکےکہا:مجھے بلا وجہ مارے جارہے ہوتمہارے سرپر بھی اسی طرح مار پڑے گی.حسین کہتے ہیں کہ میں نے خواص سے پوچھا کہ اے ابوسلیمان کیا واقعی گدھے نے تم سے بات کی تھی؟تو انہوں نے کہا:ہاں اور میں نے گدھے کی بات اس طرح سنی تھی جس طر ح تم میری بات سن رہےہو,

فتح بن خاقان كى ذهانت

ایک مرتبہ خلیفہ معتصم باللہ گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے وزیر خاقان کی عیادت کوتشریف لےگیے.اس وقت ان کے بیٹے فتح بن خاقان بچے تھے اور اپنی ذہانت کے لیے مشہور تھے,معتصم باللہ نے اس سے پوچھا بتاؤ امیر المؤمنین کا گھر اچھا ہے یاتمہارے والد کا؟فتح نے جواباََ کہا:جب امیر المؤمنین میرے والد کے گھر میں ہوں تو میرے والد کاگھر بہتر ہے ورنہ امیر المؤمنین کا.اس کے بعد معتصم باللہ نے اس کو انگوٹھی کا نگینہ دکھاتے ہوئےپوچھا:اس سے بہتر تو نے کویی چیز دیکھی ہے؟فتح نے کہا جی ہاں دیکھی ہے,بادشاہ نے پوچھا وہ کیاچیز ہے؟فتح نے جواب دیا وہ انگلی جس میں یہ انگوٹھی رہتی ہے.
(تاریخ بغداد)

Monday 30 December 2019

امام ابوحنیفہ کے اخلاق

امام ابوحنیفہ کے ایک پڑوسی کانام اسکافی تھا وہ دن میں  کام کرتااور رات کو گھرآکر شراب پیتااور نشے کی حالت  میں اکثر یہ شعر گنگناتاتھا
أضاعوني وأي فتى أضاعو
ليوم كريهة و سداد ثغر
لوگوں نے مجھے تو ضائع کردیااور میرے علاوہ کونسے جوان ہیں جومیدان جنگ اور سرحد کی حفاظت میں برباد ہوئے.
اسکافی روز نشے کی حالت میں یہ شعر گنگناتاتھا.یہی گاتے گاتے سوجاتا.امام ابوحنیفہ اس کاشور وغوغاسنتے اور رات  بھرنماز میں مشغول رہتے. ایک دن اس کی آواز نہ آئی توامام صاحب نے لوگوں سے دریافت کیا توکسی نے بتایاکہ اسے کئ دن پہلے سرکاری پہرے دار پکڑکرلےگیے ہیں آپ فجر کی نماز کے بعدخچرپرسوار ہوکر امیر کے محل میں گیے اور ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی,امیر نے حکم دیاکہ امام صاحب کو سواری سمیت اندر آنے کی اجازت دی جایے اور ان کے استقبال میں فرش بچھایاجایے لہذا آپ سواری سمیت داخل ہوئے امیر نے شایان شان آپ کااستقبال کیا.پھر امیرنے دریافت کیاآپ نے کیسے زحمت فرمائی آپ نے فرمایامیرے پڑوسی اسکافی یہاں بند ہے میں اسے چھڑانے کے لیے آیاہوں.یہ سن کر امیر نے حکم دیاکہ اسے فورا چھوڑ دیاجایے.اور اس رات میں جتنے لوگ گرفتار کیے گیے ہیں ان سب کو بھی چھوڑدیاجایے.چنانچہ سب چھوڑدیے گیے اور سب اپنے اپنے گھر آگیے.امام ابوجنیفہ بھی خچرپر سوار ہوکرچل پڑے.اور پیچھے پیچھے اسکافی پڑوسی بھی آپ کے ساتھ تھے آپ نے اسکافی سے پوچھاکیاہم نے تمہیں برباد کردیا؟اسکافی نے کہا نہیں آپ نے پڑوسی ہونے کا حق اداکردیا.اس کے بعد اسکافی نے نشےسے ہمیشہ کے لیے توبہ کرلی .مذکورہ شعرعرجی عبداللہ ابن عمروبن عثمان بن عفان کاہے
(حیاۃ الحیوان الکبری جلد اول ,تحت البغل)

اللہ کی ہر تخلیق سودمند یے

الخنفساء عربی میں گبریلا کو کہتے ہیں یہ کالے رنگ کابدبودار کیڑاہوتاہے,گندگی سے پیدا ہوتاہے یہ اپنی گندگی کے لیے اتنامشہور ہے کہ عربی میں اس کی متعدد کنیت ام الفسو,ام الاسود,ام مخرج,ام اللجاج,ام النتن اس کی کثرت گندگی کی بناپر رکھی گئ ہیں,عرب اسےجاریۃ العقرب بھی کہتے ہیں,علامہ قزوینی نے لکھا ہے کہ ایک شخص نے گبریلاکو دیکھ کرکہاکہ:اللہ نے اس کیڑے کو کیوں پیدا کیا ہے؟اس میں سوایے گندگی کے بظاہر کویئ خوبی نہیں,کچھ عر صے بعد اس کی انگلی میں ایک زخم ہو گیااس نے بہتیراعلاج کرایالیکن کویی فایدہ نہ ہوابالآخر وہ علاج  کراتے کراتے عاجز آگیالیکن زخم صحیح نہ ہوا اور یہ مایوس ہوکر بیٹھ گیا,ایک روزعرصہ دراز کے بعد گلیوں میں آواز لگاکر ایک شخص علاج معالجہ کا اعلان کرتا پھررہاتھااس شخص نے اپنےگھر والوں سے کہا کہ اسے بلا لو میں اس کو بھی اپنا زخم دکھا دوں ,شاید اسی کی دواکارگر ہوجایے گھر والوں نے کہا جب اتنے علاج معالجہ سے صحیح نہیں ہوا تواس گلی گلی پھرنے والے طبیب سے کیا فایدہ ہوگا؟لیکن اس کے اصرار پر اس حکیم کو بلوالیاگیا اس نے زخم دیکھ نے کے بعدکہا اس کے لیے ایک گبریلا لاناپڑےگا.یہ لفظ سن کر گھروالے ہنس پڑے کیوں کہ انہیں پتہ تھا کہ مریض اس کیڑے سے بہت نفرت کرتا ہے لیکن مریض کے اصرار پر گبریلا تلاش کرکے لائے,طبیب نے اسے جلاکر اس کی راکھ زخم پر لگادی اللہ کے حکم سے وہ زخم جلد ہی اچھا ہوگیا اس کے بعد اس شخص نے کہا اللہ نے مجھے یہ زخم اسی لیے دیاتھا تاکہ میں سمجھ سکوں کہ اللہ نے کویئ چیز بے فائدہ پیدانہیں کی  

Saturday 28 December 2019

موضوع حدیث کی شناخت ,اصول نقد ودرایت کی روشنی میں

درایت حدیث کے لئے چند اصول نقد محققین نے لکھے ہیں جن سے بہ آسانی من گھڑت احادیث کا موضوع ہونا ثابت ہوجاتاہےجیسے
:
١.نبی کریم صلی اللی علیہ وسلم کی طرف منسوب حدیث میں رکاکت پائی جاتی ہو,کبھی یہ رکاکت یاسطحیت لفظی ہوتی ہے اور کبھی معنوی ہوتی ہے.لفظی رکاکت کامطلب یہ ہے کہ فصاحت و بلاغت اور عربی قواعد کے معیار سے گراہوااسلوب ہو.,
 اورمعنوی رکاکت یہ ہے کہ معنی ومفہوم میں نادانی وکم عقلی پائی جاتی ہوجومعیار نبوت کے مطابق نہ ہو.اس اصول کے تحت درج ذیل قسم کی متعدداحادیث موضوع قرارپاتی ہیں
١.الديك الأبيض صديقي وصديق صديقي وعدو عدوي"سفید مرغ میرادوست ہےاور میرے دوست کادوست ہےاور میرے دشمن کادشمن ہے.
۲.أربع لايشبعن من أربع،أرض من مطر،وأنثى من ذكر،وعين من نظر،وعالم من علم
یعنی چارکوچارسے شکم سیری نہیں ہوتی ,١.زمین کو بارش سے.۲عورت کو مرد سے٣آنکھ کو دیکھنے سے ,۴اور عالم کو علم سے.
٥.إنما الباذنجان شفاء من كل داء، ولا داء فيه
بیگن میں ہر بیماری کی شفا ہے اور اس میں کوئی بیماری نہیں.
٦.عليكم بالعدس فإنه مبارك وإنه برق له القلب ويكثر الدمعة وإنه قدبارك فيه سبعون نبيا
مسور استعمال کرواس میں برکت دی گئی ہے. اس سے دل نرم ہوتاہے,اور آنسوزیادہ ہوتے ہیں اس کے لئے ستر نبیوں نے دعاء کی ہے
۷.
من فارق الدنياوهوسكران دخل القبر سكران،وبعث من قبره سكران،وأمربه إلى النارسكران إلي جبل يقال له سكران
:ترجمه
نشہ کی حالت میں جس کی موت ہوئی وہ قبر میں نشہ کی
 حالت میں داخل ہوگا.اسی حالت میں قیامت کے دن اٹھایاجائے گا. اسی حالت میں آگ کی طرف لےجانے کاحکم ہوگااور ایک پہاڑ کی طرف لیجانے کا حکم ہوگا جس کانام سکران ہے.
(ابن القیم:المنار المنیف,فصل۲٣)
۸.إن لله ملكا اسمه عمارةعلى فرس من الحجارةالياقوت طوله مد بصره يدور في البلدان
و يقف فى الأسواق فينادى ألا ليغل كذا وكذاالاليرخص كذا وكذا
اللہ کے ایک فرشتے کا نام عمارہ جو یاقوت کے گھوڑے پر سوار ہوتاہے منتہائے نظرتک اس کی لمبایئ ہےبازاروں میں وہ ٹھرتاہے اور پکار کرکہتاہےکہ اس قدرگرانی کردو اور اس قدر سستاکردو
(ابن القیم:المنار المنیف,فصل۲٣)
۲.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب حدیث میں خوبصورت چہرے کے دیکھنے ,یااس سے حاجت طلب کرنے یا اس کی تعریف کرنے کا حکم ہو.اس اصول کے تحت درج ذیل قسم کی حدیث موضوع قرار پاتی ہیں.
١.النظر إلى الوجه الحسن يجلى البصر
خوب صورت چہرے کی طرف دیکھنا نگاہ کو تیز کرتا ہے.
۲.
علیکم بالوجوہ الملاح والحدق السود فان اللہ یستحی ان یعذب ملیحا بالنار.
حسین چہرے اور بڑی سیاہ آنکھ والے کی ہمنشینی اختیار کروکیونکہ اللہ تعالی حسین چہرے کو آگ کاعذاب دینے سے شرماتاہے.
٣.النظر إلى الوجه الجميل عبادة
خوب صورت چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے
۴.ثلاثة تزيد فى البصر،النظرإلى الخضرة،والماءالجارى،والوجه الحسن
تین چیزوں کی طرف دیکھنے سے نگاہ میں تیزی پیدا ہوتی ہے.١سبزہ زار۲خوب صورت چہرہ ٣آب رواں
(موضوعات کبیر,ملاعلی قاری,ص١١۴)
٣.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب حدیث میں مختلف پیشے اختیار کرنےوالوں کی برایئ آیئ ہو,جیسے
١.أكذب الناس الصباغ إذاكان يوم القيامةنادي مناد أينماخونة الله فى الأرض فيوتى بالنحاسين والصيارفة والحاكة
رنگریزسب سے زیادہ جھوٹاہوتاہےجب قیامت کے دن پکارنے والا پکارے گاکہ زمین میں اللہ کی خیانت کرنے والے کہاں ہیں تو ٹھٹھیروں,صرافوں اور کپڑابننے والوں کو پیش کیاجائے گا,
۲.
شرارالناس التجاروالزراع
تاجراور کاشتکار بدترین لوگ ہیں
٣.يحشرالله الخياط الخائنين وعليه قميص ورداء مماخاط وخان فيه
اللہ تعالی خیانت کرنے والے درزی کوروز حشراٹھائے گاتو اس کے اوپرکپڑے قمیص اور چادریں ہوں گی جن میں اس نے خیانت کی ہوگی.
تذکرۃالموضوعات,محمد طاہر پٹنی,باب اسبابہ وعقودہ )
(المذمومۃ
٣.ويل للصائغ من غدوبعد
دستکار کے لیئے خرابی ہےکل اور کل کے بعد
۴.بخلاء أمتى الخياطون
میری امت کے بخیل درزی ہیں
تذکرۃ الموضوعات للشیخ محمد طاہر پٹنی  باب اسبابہ )
(وعقودہ المذمومۃ
٥.لاتستشیرالحجامین والحاکۃ ولاتسلمواعلیہم
سینگی لگانےوالوں اور کپڑابننے والوں سے مشورہ نہ کرواور نہ انہیں سلام کرو.
(تذکرۃ الموضوعات,باب اسبابہ وعقودہ المذمومۃ)
٦.لاتستشیرواالحاکۃولاالمعلمین فان اللہ سلب عقولہم,ونزع البرکۃ من کسبہم
کپڑا بننے والوں اور معلموں سے مشورہ نہ کرواللہ نے ان کی عقلیں سلب کرلیں ہیں اور ان کی کمایئ سےبرکت اٹھالی ہے.
(تذکرۃ الموضوعات باب النساجۃ وعقودہ المذمومۃ)
۴.
آپ کی طرف منسوب حدیث میں کسی خاندان,قوم اور شہر کی برایئ ہو.
:جیسےدرج ذیل موضوعات
١.يقول النبطي قتلة الأنبياء وأعوان الظلمة فإذااتخذواالرباع
وشيدالبنيان فالهرب الهرب
۲.
أربع مدائن من مدن النار فى الدنيا،القسطنطنيه،والطبرية ،انطاكية المحترقة وصنعاء .
٣.لوعلم الله فى الخصيان خيرا لاخرج من إصلابهم ذرية يعبدون الله
رسوک اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نبطی قوم نبیوں کی قاتل اور ظالموں کی مددگار ہے,جب وہ حویلی بنانے لگیں توان سے بھاگو
.چارشہر دوزخ کے شہروں میں سے ہیں ۲.
قسطنطنیہ۲طبریہ,٣انطاکیہ۴ صنعاء
۴
,اگراللہ تعالی ہیجڑوں میں خیرجانتاتوان کی پشت سے ایسی اولادنکالتاجواللہ کی عبادت کرتے.
(اللالی المصنوعہ,للسیوطی,مناوب البلدان والایام)
٥.آپ کی طرف منسوب حدیث قواعد طب کے خلاف ہو.اس جے تحت درج ذیل احادیث موضوع قرار پاتی ہیں.
١.ياعلى عليك بالملح فإنه شفاء من سبعين داء الجذام والبرص والجنون
(اللآلي المصنوعة فى الآحاديث الموضوعة،كتاب الأطعمة)
اے علی!نمک استعمال کرو, اس میں ستر بیماریوں کی شفا ہے,جذام برص اور جنون
۲.اللحم ينبت اللحم من ترك اللحم أربعين يوما ساء خلقه
(تذكرة الموضوعات باب الادام كاللحم)
گوشت گوشت اگاتا ہے.جس نے چالیس دن گوشت کھاناچھوڑدیا اس کے اخلاق وعادات خراب ہوگیے
٣.الشرب من فضل وضؤالمؤمن فيه شفاء سبعين داء
(اللآلي المصنوعه،للسيوطي،كتاب الأطعمه)
مومن کے وضوکابچاہواپانی پینے سے ستر بیماریوں سے شفاء ہوتی ہے.
۴فضل الكراث على البقول كفضل الخبز على سائرالآشياء
گندناکی فضیلت سبزیوں پرایسی ہے جیسی روٹی کی فضیلت تمام چیزوں پر ہے.
٦.آپ کی طرف حدیث عقل عام کے خلاف ہو.جیسے
١.إن سفينة نوح طافت بالبيت سبعاوصلت عند المقام ركعتين
حضرت نوح کی کشتی نے بیت اللہ کاطواف کیا اور مقام ابراہیم کے پاس دورکعت نماز پڑھی.
مصطفی السباعی:السنۃ ومکانتہا فی التشریع )
(الاسلامی,علامات الوضع فی المتن
۲.طول اللحيةدليل قلة العقل
(المقاصد الحسنه حرف الطاء)
داڑھی کی درازی کم عقلی کی دلیل ہے.
٣.إن الورد خلق من عرق النبي صلى الله عليه وسلم
أو من عرق البراق
گلاب کا پھول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یابراق کے پسینے سے پیدا کیاگیا.
(المقاصد الحسنہ,حرف الہمزہ)
۴.الورد الأبيض خلق من عرقي،ليلة المعراج،والوردالأحمر خلق من عرق جبريل والوردالأصفرمن عرق البراق
سفید گلاب معراج کی رات میں میرے پسینے سے پیداکیاگیا,سرخ گلاب جبریل کے پسینے سےاور زرد گلابراق کے پسینے سے پیداکیاگیا
(۸المنار المنیف فصل)
٥.الجوزدواء والحبن داء فإذا صار فى الجوف صار شفاء
اخروٹ دوا ہے,پنیر بیماری ہے.جب وہ پیٹ میں جاتاہے تو شفاء بن جاتاہے.
(المنار المنیف,فصل:١١)
٦من لم يكن له مال يتصدق به،فليلعن اليهود والنصارى
(المنارالمنيف،فصل11)
جس شخص کے پاس مال خیرات کرنے کے لیے نہ ہوتو اس کو یہودونصاری پر لعنت کرنی چاہیے
۷.من طول شاربه في الدنياطول الله ندامته يوم القيامة وسلط عليه بكل شعرةعلى شاربه سبعين شيطانا فإن مات على ذلك الحال لايستجاب له دعوة ولا ينزل عليه رحمة
(الفوايدالمجموعة فى الأحاديث الموضوعة،باب الخضاب (والطيب
جس شخص نے دنیا میں اپنی مونچھیں بڑھائیں اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی ندامت کو بڑھایے گا.,اور مونچھوں کے ہر بال پرستر شیطان مسلط کردے گااگر اسی حالت میں مرگیاتو نہ اس کی دعاء قبول ہوگی اور نہ اس پر رحمت نازل ہوگی
۸.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف حدیث اخلاق و حکمت کے خلاف ہو..جیسے درج ذیل احادیث
١.افضل الناس أعقل الناس.
لوگوں میں سب سے افضل وہ ہیں جو عقل میں افضل ہیں.
(موضوعات کبیر, ص١۰٥)
۲.شراركم معلمواصبيانكم أقلهم رحمة على اليتيم وأغلظهم على المساكين
بچوں کے معلم تم میں زیادہ برے ہیں, یتیموں پر بہت کم مہربان اور مسکینوں پر زیادہ سخت ہیں.
(موضوعات کبیر ,ص١۰٥)
٣.النظرة إلى المرء ة الحسناء يزيد فى البصر
خوب صورت خاتون کی طرف دیکھنے سے نظر میں اضافہ ہوتاہے.
(موضوعات,کبیر حرف الشين،الفوائد المجموعة فى الأحاديث الموضوعة،كتاب الزهد)
۴.لایصح المکروالخدیعۃ إلا فى النكاح
مکراور دھوکہ نکاح کے علاوہ کسی اور میں درست نہیں
(الفوائد المجموعة فى الأحاديث الموضوعة للشوكانى)
٥كانت عندى امرأة تسمعني فدخل صل الله عليه وسلم وهي على تلك ثم دخل عمرففرت فضحك صل الله عليه وسلم فقال ما يضحك يا رسول الله فحدثه فقال والله لا أخرج حتى أسمع ما سمع صل الله عليه وسلم فاسمعته
میرے پاس ایک عورت گانا سنا رہی تھی, رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم تشریف لائے. وہ بدستور سناتی رہی پھر حضرت عمر آیے
.تو وہ بھاگ گئ,اس پر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو ہنسی آگئ, حضرت عمر نے ہنسی کی وجہ پوچھی آپ نے عورت  کےگاناسنا
نے اور بھاگنے کا واقعہ سنایا توحضرت عمر نے کہا خدا کی قسم  میں اس وقت تک نہ جاؤ ں گا جب تک میں وہی نہ سن لوں جورسول اللہ صل  اللہ علیہ وسلم کو سنا رہی تھی پھر عورت نے حضرت عمر کو سنایا.
(محمد طاہر پٹنی:تذکرۃالموضوعات,باب السماع والشوق)
رسول اللی صل اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب حدیث شہوت وفساد کی داعی ہو جیسے
١.عقولہن فی فروجہن
عورتوں کی عقل ان کی شرمگاہوں میں ہوتی ہے.
(المقاصد الحسنہ,باب  العین)
۲.شکوت إلى جبريل ضعفي من الوقاع فأمرني بأكل الهريسة
میں نے جبریل سےضعف باہ کی شکایت کی تو انہوں نے حریرہ کھانے کا حکم دیا
٣.إن الرجل ليجامع فيكتب له أجر ولد ذكر قاتل فى سبيل لله فقتل
انسان اپنی عورت سے جماع کرتاہے تو اس کو ایسے لڑکے کا اجر ملتاہےجس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا پھرشہید ہو گیا.
(الفوائدالمجموعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ,کتاب النکاح)